[٢٣] حضرت سلیمان (علیہ السلام) کو کسی موقع پر ہدہد کی ضرورت محسوس ہوئی۔ ہدہد کی متعلق مشہور ہے کہ جس مقام پر پانی سطح زمین سے نزدیک تر ہو اسے معلوم ہوجاتا ہے۔ اللہ بہتر جانتا ہے کہ انھیں یہی ضرورت تھی یا کچھ اور تھی، انہوں نے پرندوں کے لشکر میں ہدہد کو تلاش کیا لیکن وہ وہاں نہ ملا۔ آپ کو اس بات کا سخت رنج ہوا اور فرمایا کہ یا تو وہ اپنی غیر حاضری کا کوئی معقول وجہ پیش کرے۔ ورنہ میں اسے سخت سزا دوں گا یا ذبح ہی کر ڈالوں گا۔
لَاُعَذِّبَنَّهٗ عَذَابًا شَدِيْدًا ۔۔ : ہُد ہُد کا بلا اجازت غائب ہونا صریح نافرمانی تھا، اس لیے سلیمان (علیہ السلام) نے واضح عذر پیش نہ کرنے کی صورت میں اس کے لیے دو سزائیں سنائیں، ایک ذبح کردینا اور دوسری ذبح سے کمتر کوئی سخت سزا۔ اس سے معلوم ہوا کہ سلطان کی بلاعذر نافرمانی پر تعزیر ہونی چاہیے، اگر کوئی مجاہد بلا اجازت غائب ہوتا ہے تو دیکھا جائے گا کہ آیا یہ اس کا معمول ہے یا اتفاق سے ایسا ہوا ہے، پھر معمول ہونے کی صورت میں اس کی غیر حاضری اگر لشکر پر اثر انداز ہوتی ہے اور اس کے طرز عمل سے امیر کے احکام کی قدر و قیمت باقی نہ رہنے کا اندیشہ پیدا ہوتا ہے تو اس کا جرم بہت بڑا بن جاتا ہے۔ اسی طرح اس موقع کو بھی دیکھا جاتا ہے جس سے وہ غائب ہوا ہے، اگر اس کی ذمہ داری ایسی ہے کہ اس کے غائب ہونے یا سو جانے سے پورے لشکر کی تباہی کا خطرہ ہے تو ایسی کوتاہی معاف کرنے کا مطلب اپنے لشکر کو آپ ہی برباد کردینا ہے۔ اس کے باوجود سلیمان (علیہ السلام) کا کمال انصاف اور تحمل دیکھیے کہ واضح دلیل پیش کرنے کی صورت میں اس سزا سے مستثنیٰ قرار دیا۔
لَاُعَذِّبَنَّهٗ عَذَابًا شَدِيْدًا اَوْ لَاَاذْبَحَنَّهٗٓ، ابتدائی غور و فکر کے بعد یہ حاکمانہ سیاست کا مظاہرہ ہے کہ غیر حاضر رہنے والے کو سزا دی جائے۔- جو جانور کام میں سستی کرے اس کو معتدل سزا دینا جائز ہے :- حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے لئے حق تعالیٰ نے جانوروں کو ایسی سزائیں دینا حلال کردیا تھا جیسا عام امتوں کے لئے جانوروں کو ذبح کر کے ان کے گوشت پوست وغیرہ سے فائدہ اٹھانا اب بھی حلال ہے۔ اسی طرح پالتو جانور گائے، بیل، گدھا، گھوڑا، اونٹ وغیرہ اپنے کام میں سستی کرے اس کو تادیب کے لئے بقدر ضروتر مارنے کی معتدل سزا اب بھی جائز ہے۔ دوسرے جانوروں کو سزا دینا ہماری شریعت میں ممنوع ہے۔ (قرطبی)- اَوْ لَيَاْتِيَنِّيْ بِسُلْطٰنٍ مُّبِيْنٍ ، یعنی اگر ہدہد نے اپنی غیر حاضری کا کوئی عذر واضح پیش کردیا تو وہ اس سزا سے محفوظ رہے گا۔ اس میں اشارہ ہے کہ حاکم کو چاہئے کہ جن لوگوں سے کوئی قصور عمل میں سرزد ہوجائے ان کو عذر پیش کرنے کا موقع دے، عذر صحیح ثابت ہو تو سزا کو معاف کر دے۔
لَاُعَذِّبَنَّہٗ عَذَابًا شَدِيْدًا اَوْ لَاَاذْبَحَنَّہٗٓ اَوْ لَيَاْتِيَنِّيْ بِسُلْطٰنٍ مُّبِيْنٍ ٢١- عذب - والعَذَابُ : هو الإيجاع الشّديد، وقد عَذَّبَهُ تَعْذِيباً : أكثر حبسه في - العَذَابِ. قال : لَأُعَذِّبَنَّهُ عَذاباً شَدِيداً [ النمل 21]- واختلف في أصله، فقال بعضهم : هو من قولهم : عَذَبَ الرّجلُ : إذا ترک المأكل والنّوم فهو عَاذِبٌ وعَذُوبٌ ، فَالتَّعْذِيبُ في الأصل هو حمل الإنسان أن يُعَذَّبَ ، أي : يجوع ويسهر،- ( ع ذ ب )- العذاب - سخت تکلیف دینا عذبہ تعذیبا اسے عرصہ دراز تک عذاب میں مبتلا رکھا ۔ قرآن میں ہے ۔ لَأُعَذِّبَنَّهُ عَذاباً شَدِيداً [ النمل 21] میں اسے سخت عذاب دوں گا ۔ - لفظ عذاب کی اصل میں اختلاف پا یا جاتا ہے - ۔ بعض کہتے ہیں کہ یہ عذب ( ض ) الرجل کے محاورہ سے مشتق ہے یعنی اس نے ( پیاس کی شدت کی وجہ سے ) کھانا اور نیند چھوڑدی اور جو شخص اس طرح کھانا اور سونا چھوڑ دیتا ہے اسے عاذب وعذوب کہا جاتا ہے لہذا تعذیب کے اصل معنی ہیں کسی کو بھوکا اور بیدار رہنے پر اکسانا - شدید - والشِّدَّةُ تستعمل في العقد، وفي البدن، وفي قوی النّفس، وفي العذاب، قال : وَكانُوا أَشَدَّ مِنْهُمْ قُوَّةً [ فاطر 44] ، عَلَّمَهُ شَدِيدُ الْقُوى[ النجم 5] ، يعني : جبریل عليه السلام، وقال تعالی: عَلَيْها مَلائِكَةٌ غِلاظٌ شِدادٌ [ التحریم 6] ، وقال : بَأْسُهُمْ بَيْنَهُمْ شَدِيدٌ [ الحشر 14] ، فَأَلْقِياهُ فِي الْعَذابِ الشَّدِيدِ [ ق 26] . والشَّدِيدُ والْمُتَشَدِّدُ : البخیل . قال تعالی: وَإِنَّهُ لِحُبِّ الْخَيْرِ لَشَدِيدٌ [ العادیات 8] . - ( ش دد ) الشد - اور شدۃ کا لفظ عہد ، بدن قوائے نفس اور عذاب سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : وَكانُوا أَشَدَّ مِنْهُمْ قُوَّةً [ فاطر 44] وہ ان سے قوت میں بہت زیادہ تھے ۔ عَلَّمَهُ شَدِيدُ الْقُوى[ النجم 5] ان کو نہایت قوت والے نے سکھایا ؛نہایت قوت والے سے حضرت جبریل (علیہ السلام) مراد ہیں ۔ غِلاظٌ شِدادٌ [ التحریم 6] تندخواہ اور سخت مزاج ( فرشتے) بَأْسُهُمْ بَيْنَهُمْ شَدِيدٌ [ الحشر 14] ان کا آپس میں بڑا رعب ہے ۔ - ذبح - أصل الذَّبْح : شقّ حلق الحیوانات . والذِّبْح : المذبوح، قال تعالی: وَفَدَيْناهُ بِذِبْحٍ عَظِيمٍ [ الصافات 107] ، وقال : إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُكُمْ أَنْ تَذْبَحُوا بَقَرَةً [ البقرة 67] ، وذَبَحْتُ الفارة - شققتها، تشبيها بذبح الحیوان، وکذلك : ذبح الدّنّ «3» ، وقوله : يُذَبِّحُونَ أَبْناءَكُمْ- [ البقرة 49] ، علی التّكثير، أي : يذبح بعضهم إثر بعض . وسعد الذّابح اسم نجم، وتسمّى الأخادید من السّيل مذابح .- ( ذ ب ح ) الذبح - ( ف ) اصل میں اس کے معنی حیوانات کے حلق کو قطع کرنے کے ہیں اور ذبح بمعنی مذبوح آتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَفَدَيْناهُ بِذِبْحٍ عَظِيمٍ [ الصافات 107] اور ہم نے ایک بڑی قربانی کو ان کا فدیہ دیا إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُكُمْ أَنْ تَذْبَحُوا بَقَرَةً [ البقرة 67] کہ خدا تم کو حکم دیتا ہے کہ ایک بیل ذبح کرو ۔ ذبحت الفارۃ ۔ میں نے نافہ مشک کو کو چیرا ۔ یہ حیوان کے ذبح کے ساتھ تشبیہ کے طور پر بولا جاتا ہے ۔ اسی طرح ذبح الدن کا محاورہ ہے جس کے معنی مٹکے میں شگاف کرنے کسے ہیں ۔ اور آیت کریمہ : ۔ يُذَبِّحُونَ أَبْناءَكُمْ [ البقرة 49] تمہارے بیٹوں کو تو قتل کر ڈالتے تھے ۔ میں صیغہ تفعیل برائے تکثیر ہے یعنی وہ کثرت کے ساتھ یکے بعد دیگرے تمہارے لڑکوں کو ذبح کررہے تھے ۔ سعد الدابح ( برج جدی کے ایک ) ستارے کا نام ہے اور سیلاب کے گڑھوں کو مذابح کہا جاتا ہے ۔ - سلط - السَّلَاطَةُ : التّمكّن من القهر، يقال : سَلَّطْتُهُ فَتَسَلَّطَ ، قال تعالی: وَلَوْ شاءَ اللَّهُ لَسَلَّطَهُمْ [ النساء 90] ، وقال تعالی: وَلكِنَّ اللَّهَ يُسَلِّطُ رُسُلَهُ عَلى مَنْ يَشاءُ [ الحشر 6] ، ومنه سمّي السُّلْطَانُ ، والسُّلْطَانُ يقال في السَّلَاطَةِ ، نحو : وَمَنْ قُتِلَ مَظْلُوماً فَقَدْ جَعَلْنا لِوَلِيِّهِ سُلْطاناً [ الإسراء 33] ،- ( س ل ط ) السلاطۃ - اس کے معنی غلبہ حاصل کرنے کے ہیں اور سلطتہ فتسلط کے معنی ہیں میں نے اسے مقہود کیا تو وہ مقہود ہوگیا ۔ قرآن میں ہے :۔ وَلَوْ شاءَ اللَّهُ لَسَلَّطَهُمْ [ النساء 90] اور اگر خدا چاہتا تو ان کو تم پر مسلط کردتیاوَلكِنَّ اللَّهَ يُسَلِّطُ رُسُلَهُ عَلى مَنْ يَشاءُ [ الحشر 6] لیکن خدا اپنے پیغمبروں کو جن پر چاہتا ہے مسلط کردیتا ہے ۔ اور اسی سے بادشاہ کو سلطان ، ، کہا جاتا ہے ۔ اور سلطان کا لفظ تسلط اور غلبہ کے معنی میں بھی آتا ہے ۔ جیسے فرمایا : وَمَنْ قُتِلَ مَظْلُوماً فَقَدْ جَعَلْنا لِوَلِيِّهِ سُلْطاناً [ الإسراء 33] اور جو شخص ظلم سے قتل کیا جائے ہم نے اس کے وارث کو اختیار دیا ہے۔
(٢١) تو میں اس کے پر اکھاڑ دوں گا پرندوں کی یہی سزا تھی یا اس کو ذبح کر ڈالوں گا یا وہ اپنی غیر حاضری کا معقول عذر پیش کرے۔
آیت ٢١ (لَاُعَذِّبَنَّہٗ عَذَابًا شَدِیْدًا اَوْ لَاَاذْبَحَنَّہٗٓ ) ” - اس اجتماعی حاضری ( ) کے موقع سے غیر حاضر ہو کر اس نے بہت بڑا جرم کیا ہے اور اسے اس جرم کی سزا ضرور بھگتنا ہوگی۔- (اَوْ لَیَاْتِیَنِّیْ بِسُلْطٰنٍ مُّبِیْنٍ ) ” - ہاں اگر وہ کوئی ٹھوس عذر پیش کر کے اپنی اس غیر حاضری کا جواز ثابت کر دے تو سزا سے بچ سکتا ہے۔
سورة النمل حاشیہ نمبر : 28 موجودہ زمانے کے بعض لوگ کہتے ہیں کہ ہدہد سے مراد وہ پرندہ نہیں ہے جو عربی اور اردو زبان میں اس نام سے معروف ہے بلکہ یہ ایک آدمی کا نام ہے جو حضرت سلیمان کی فوج میں ایک افسر تھا ، اس دعوے کی بنیاد یہ نہیں ہے کہ تاریخ میں کہیں ہدہد نام کا کوئی شخص ان حضرات کو سلیمان علیہ السلام کی حکومت کے افسروں کی فہرست میں مل گیا ہے ، بلکہ یہ عمارت صرف اس استدلال پر کھڑی کی گئی ہے کہ جانوروں کے ناموں پر انسانوں کے نام رکھنے کا رواج تمام زبانوں کی طرح عربی زبان میں بھی پایا جاتا ہے اور عبرانی میں بھی تھا ، نیز یہ کہ آگے اس ہدہد کا جو جام بیان کیا گیا ہے اور حضرت سلیمان سے اس کی گفتگو کا جو ذکر ہے وہ ان کے نزدیک صرف ایک انسان ہی کرسکتا ہے ، لیکن قرآن مجید کے سیاق کلام کو آدمی دیکھے تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ یہ قرآن کی تفسیر نہیں بلکہ اس کی تحریف اور اس سے بھی کچھ بڑھ کر اس کی تغلیط ہے ۔ آخر قرآن کو انسان کی عقل و خرد سے کیا دشمنی ہے کہ وہ کہنا تو یہ چاہتا ہو کہ حضرت سلیمان کے رسالے یا پلٹن یا محکمہ خبر رسانی کا ایک آدمی تھا جسے انہوں نے تلاش کیا اور اس نے حاضر ہوکر یہ خبر دی اور اسے حضرت موصوف نے اس خدمت پر بھیجا ، لیکن اسے وہ مسلسل ایسی چیتان کی زبان میں بیان کرے کہ پڑھنے والا اول سے لیکر آخر تک اسے پرندہ ہی سمجھنے پر مجبور ہو ، اس سلسلہ میں ذرا قرآن مجید کے بیان کی ترتیب ملاحظہ فرمایئے ۔ پہلے ارشاد ہوتا ہے کہ حضرت سلیمان نے اللہ کے اس فضل پر اظہار امتنان کیا کہ ہمیں منطق الطیر کا علم دیا گیا ہے اس فقرے میں اول تو طیر کا لفظ مطلق ہے جسے ہر عرب اور عربی دان پرندے ہی کے معنی میں لے گا ، کیونکہ کوئی قرینہ اس کے استعارہ و مجاز ہونے پر دلالت نہیں کر رہا ہے ۔ دوسرے اگر طیر سے مراد پرند نہیں بلکہ انسانوں کا کوئی گروہ ہو تو اس کے لیے منطق ( بولی ) کے بجائے لغت یا لسان ( یعنی زبان ) کا لفظ زیادہ صحیح ہوتا ، اور پھر کسی شخص کا کسی دوسرے انسانی گروہ کی زبان جاننا کوئی بہت بڑی بات نہیں ہے کہ وہ خاص طور پر اس کا ذکر کرے ۔ آج ہمارے درمیان ہزارہا آدمی بہت سی غیر زبانوں کے بولنے اور سمجھنے والے موجود ہیں ، یہ آخر کونسا بڑا کمال ہے جسے اللہ تعالی کا غیر معمولی عطیہ قرار دیا جاسکے ۔ اس کے بعد فرمایا گیا کہ سلیمان کے لیے جن اور انس اور طیر کے لشکر جمع کیے گئے تھے ۔ اس فقرے میں اول تو جن اور انس اور طیر ، تین معروف اسمائے جنس استعمال ہوئے ہیں جو تین مختلف اور معلوم اجناس کے لیے عربی زبان میں مستعمل ہیں ، پھر انہیں مطلق استعمال کیا گیا ہے اور کوئی قرینہ ان میں سے کسی کے استعارہ و مجاز یا تشبیہ ہونے کا موجود نہیں آیا ہے جو یہ معنی لینے میں صریحا مانع ہے کہ جن اور طیر دراصل انس ہی کی جنس کے دو گروہ تھے ، یہ معنی مراد ہوتے تو الجن والطیر من الانس کہا جاتا نہ کہ من الجن والانس والطیر ۔ آگے چل کر ارشاد ہوتا ہے کہ حضرت سلیمان طیر کا جائزہ لے رہے تھے اور ہدہد کو غائب دیکھ کر انہوں نے یہ بات فرمائی ۔ اگر یہ طیر انسان تھے اور ہدہد بھی کسی آدمی کا نام ہی تھا تو کم از کم کوئی لفظ تو ایسا کہہ دیا جاتا کہ بے چارہ پڑھنے والا اس کو جانور نہ سمجھ بیٹھتا ۔ گروہ کا نام پرندہ اور اس کے ایک فرد کا نام ہدہد پھر بھی ہم سے توقع کی جاتی ہے کہ ہم آپ سے آپ اسے انسان سمجھ لیں گے ۔ پھر حضرت سلیمان فرماتے ہیں کہ ہدہد یا تو اپنے غائب ہونے کی کوئی معقول وجہ بیان کرے ورنہ میں اسے سخت سزا دوں گا یا ذبح کردوں گا ، انسان کو قتل کیا جاتا ہے ، پھانسی دی جاتی ہے ، سزائے موت دی جاتی ہے ، ذبح کون کرتا ہے؟ کوئی بڑا ہی سنگدل اور بے درد آدمی جوش انتقام میں اندھا ہوچکا ہو تو شاید کسی آدمی کو ذبح بھی کردے ، مگر کیا پیغمبر سے ہم یہ توقع کریں کہ وہ اپنی فوج کے ایک آدمی کو محض غیر حاضر ( ) ہونے کے جرم میں ذبح کردینے کا اعلان کرے گا ، اور اللہ میاں سے یہ حسن ظن رکھیں کہ وہ ایسی سنگین بات کا ذکر کر کے اس پر مذمت کا ایک لفظ بھی نہ فرمائیں گے؟ کچھ دور آگے چل کر ابھی آپ دیکھیں گے کہ حضرت سلیمان اسی ہدہد کو ملکہ سبا کے نام خط دے کر بھیجتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ اسے ان کی طرف ڈال دے یا پھینک دے ، ( القہ الیھم ) ظاہر ہے کہ یہ ہدایت پرندے کو تو دی جاسکتی ہے لیکن کسی آدمی کو سفیر یا ایلچی کا قاصد بنا کر بھیجنے کی صورت میں یہ انتہائی غیر موزوں ہے ، کسی کی عقل ہی خبط ہوگئی ہو تو وہ مان لے گا کہ ایک ملک کا بادشاہ دوسرے ملک کی ملکہ کے نام خط دے کر اپنے سفیر کو اس ہدایت کے ساتھ بھیج سکتا ہے کہ اسے لے جاکر اس کے آگے ڈال دے یا اس کی طرف پھینک دے ، کیا تہذیب و شائستگی کے اس ابتدائی مرتبے سے بھی حضرت سلیمان کو گرا ہوا فرض کرلیا جائے جس کا لحاظ ہم جیسے معمولی لوگ بھی اپنے کسی ہمسائے کے پاس اپنے ملازم کو بھیجتے ہوئے ملحوظ رکھتے ہیں؟ کیا کوئی شریف آدمی اپنے ملازم سے یہ کہہ سکتا ہے کہ میرا یہ خط لے جاکر فلاں صاحب کے آگے پھینک آ ؟ یہ تمام قرائن صاف بتا رہے ہیں کہ یہاں ہدہد کا مفہوم وہی ہے جو ازروئے لغت اس لفظ کا مفہوم ہے ، یعنی یہ کہ وہ انسان نہیں بلکہ ایک پرندہ تھا ، اب اگر کوئی شخص یہ ماننے کے لیے تیار نہیں ہے کہ ایک ہدہد باتیں کرسکتا ہے جو قرآن اس کی طرف منسوب کررہا ہے تو اسے صاف صاف کہنا چاہیے کہ میں قرآن کی اس بات کو نہیں مانتا ، اپنے عدم ایمان کو اس پردے میں چھپانا کہ قرآن کے صاف اور صریح الفاظ میں اپنے من مانے معنی بھرے جائیں ، گھٹیا درجے کی منافقت ہے ۔