Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

ہدہد کی غیر حاضری ہدہد کی غیر حاضری کی تھوڑی سی دیر گزری تھی جو وہ آگیا ۔ اس نے کہا کہ اے نبی اللہ جس بات کی آپ کو خبر بھی نہیں میں اس کی ایک نئی خبر لے کر آپ کے پاس حاضر ہوا ہوں ۔ میں سبا سے آرہا ہوں اور پختہ یقینی خبر لایا ہوں ۔ ان کے سباحمیر تھے اور یہ یمن کے بادشاہ تھے ۔ ایک عورت ان کی بادشاہت کر رہی ہے اس کا نام بلقیس بنت شرجیل تھا یہ سب کی ملکہ تھی ۔ قتادہ کہتے ہیں ۔ اس کی ماں جنیہ عورت تھی اس کے قدم کا پچھلا حصہ چوپائے کے کھر جیسا تھا اور روایت میں ہے اس کی ماں کا نام رفاعہ تھا ابن جریج کہتے ہیں ان کے باپ کا نام ذی سرخ تھا اور ماں کا نام بلتعہ تھا لاکھوں کا اس کا لشکر تھا ۔ اس کی بادشاہی ایک عورت کے ہاتھ میں ہے اسکے مشیر وزیر تین سو بارہ شخص ہیں ان میں سے ہر ایک کے ماتحت بارہ ہزار کی جمعیت ہے اس کی زمین کا نام مارب ہے یہ صنعاء سے تین میل کے فاصلہ پر ہے یہی قول قرین قیاس ہے اس کا اکثر حصہ مملکت یمن ہے واللہ اعلم ہر قسم کا دنیوی ضروری اسباب اسے مہیا ہے اس کا نہایت ہی شاندار تخت ہے جس پر وہ جلوس کرتی ہے ۔ سونے سے منڈھا ہوا ہے اور جڑاؤ اور مروارید کی کاریگری اس پر ہوئی ہے ۔ یہ اسی ہاتھ اونچا اور چالیس ہاتھ چوڑا تھا ۔ چھ سو عورتیں ہر وقت اس کی خدمت میں کمر بستہ رہتی تھیں اس کا دیوان خاص جس میں یہ تخت تھے بہت بڑا محل تھا بلند وبالاکشادہ اور فراخ پختہ مضبوط اور صاف جس کے مشرقی حصہ میں تین سو ساٹھ طاق تھے اور اتنے ہی مغربی حصے میں ۔ اسے اس صنعت سے بنایا تھا کہ ہر دن سورج ایک طاق سے نکلتا اور اسی کے مقابلہ کے طاق سے غروب ہوتا ۔ اہل دربار صبح وشام اس کو سجدہ کرتے ۔ راجا پر جا سب آفتاب پرست تھے اللہ کا عابد ان میں ایک بھی نہ تھا شیطان نے برائیاں انہیں اچھی کر دکھائی تھیں اور ان پر حق کا راستہ بند کر رکھا تھا وہ راہ راست پر آتے ہی نہ تھے ۔ راہ راست یہ ہے کہ سورج چاند اور ستاروں کی بجائے صرف اللہ ہی کی ذات کو سجدے کے لائق مانا جائے ۔ جیسے فرمان قرآن ہے کہ رات دن سورج چاند سب قدرت اللہ کی نشانیاں ہیں ۔ تمہیں سورج چاند کو سجدہ نہ کرنا چاہئے سجدہ صرف اسی اللہ کو کرنا چاہئے جو ان سب کا خالق ہے ۔ آیت ( الا یسجدوا ) کی ایک قرأت ( الایا اسجدوا ) بھی ہے ۔ یا کہ بعد کامنادیٰ محذوف ہے یعنی اے میری قوم خبردار سجدہ اللہ ہی کے لئے کرنا جو آسمان کی زمین کی ہر ہرپوشیدہ چیز سے باخبر ہے ۔ خب کی تفسیر پانی اور بارش اور پیداوار سے بھی کی گئی ہے ۔ کیا عجب کہ ہدہد کی جس میں یہی صفت تھی یہی مراد ہو ۔ اور تمہارے ہر مخفی اور ظاہر کام کو بھی وہ جانتا ہے ۔ کھلی چھپی بات اس پر یکساں ہے وہی تنہا معبود برحق ہے وہی عرش عظیم کا رب ہے جس سے بڑی کوئی چیز نہیں ۔ چونکہ ہدہد خیر کی طرف بلانے والا ایک اللہ کی عبادت کا حکم دینے وال اس کے سوا غیر کے سجدے سے روکنے والا تھا اسی لئے اس کے قتل کی ممانعت کر دی گئی ۔ مسند احمد ابو داؤد ابن ماجہ میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے چار جانوروں کا قتل منع فرمادیا ۔ چیونٹی شہد کی مکھی ہدہد اور صرد یعنی لٹورا ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

221احاطہ کے معنی ہیں کسی چیز کی بابت مکمل علم اور معرفت حاصل کرنا 222سَبَا ایک شخص کے نام پر ایک قوم کا نام بھی تھا اور ایک شہر کا بھی۔ یہاں شہر مراد ہے۔ یہ صنعا (یمن) سے تین دن کے فاصلے پر ہے اور مارب یمن کے نام سے معروف ہے (فتح القدیر)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٢٤] حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی سلطنت فلسطین، شرق اردو اور شام کے کچھ علاقہ میں تھی۔ افریقہ میں بھی حبشہ اور مصر کا کچھ حصہ آپ کے زیر نگین آگیا تھا۔ لیکن جنوبی یمن کا علاقہ آپ کی سلطنت سے بہت دور تھا۔ ہدہد حضرت سلیمان کے لشکر سے غائب ہو کر یمن کے علاقہ سبا میں پہنچا تھا۔ یہاں کے لوگ تجارت پیشہ اور آسودہ حال تھے۔ کچھ دیر بعد ہدہد حضرت سلیمان کے پاس حاضر ہوگیا اور کہنے لگا کہ میں اہل سبا کے کچھ ایسے یقینی حالات معلوم کرکے آرہا ہوں جن کی تاحال آپ کو کچھ خبر نہیں ہے۔ اور وہ یقینی خبر یہ کہ سبا کا ملک ایک زرخیز و شاداب علاقہ ہے ان لوگوں کو وہاں سب ضروریات زندگی وافر مقدار میں میسر ہیں۔ ان لوگوں پر حکمران ایک عورت ہے۔ ) ملکہ بلقیس ( جو بڑے عالی شان تخت پر بیٹھ کر حکمرانی کر رہی ہے۔ اس کا تخت سونے کا ہے۔ جس میں ہیرے اور جواہرات جڑے ہوئے ہیں اور اس وقت ایسا تخت کسی بادشاہ کے پاس نہیں ہے۔ مذہبی لحاظ سے یہ لوگ مشرک اور آفتاب پرست ہیں۔ اور اپنے اس مذہب پر خوش اور نازاں ہیں۔ سورج پرستی کو نیکی اور ثواب کا کام سمجھتے ہیں۔ ہدہد نے یہ الفاظ کہہ کر گویا سلیمان (علیہ السلام) کو اس قوم پر جہاد کرنے کی ترغیب دی۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

فَمَكَثَ غَيْرَ بَعِيْدٍ ۔۔ : احاطہ کا معنی کسی چیز کا پورا علم اور مکمل معلومات ہوتا ہے۔ ہُد ہُد کو بھی فکر تھی کہ غیر حاضری کی کیا سزا ہوسکتی ہے، اس لیے وہ تھوڑی ہی دیر میں حاضر ہوگیا اور اپنی غیر حاضری کا عذر بیان کرنے لگا۔ سب سے پہلے اس نے سلیمان (علیہ السلام) کے دل میں اس خبر کا تجسس اور شوق پیدا کیا جو وہ سنانے چلا تھا، چناچہ اس نے کہا کہ میں نے اس بات کی مکمل معلومات حاصل کرلی ہیں جس کی مکمل معلومات آپ کے پاس نہیں اور میں سبا سے ایک یقینی خبر لے کر آیا ہوں۔ - 3 اس سے معلوم ہوا کہ سلیمان (علیہ السلام) کو سبا کے پورے حالات معلوم نہ تھے۔ شاہ عبد القادر لکھتے ہیں : ” سلیمان (علیہ السلام) کو اس ملک کا حال مفصل نہ پہنچا تھا، اب پہنچا۔ “ (موضح) یہاں ایک سوال ہے کہ اتنی عظیم الشان سلطنت کے باوجود سلیمان (علیہ السلام) کو سبا اور یمن کا علم کیوں نہ ہوا ؟ جواب یہ ہے کہ یہ بات درست نہیں کہ سلیمان (علیہ السلام) کو یمن کا علم نہ تھا، بات صرف یہ ہے کہ وہ دوسرے علاقوں کے معاملات میں مصروفیت کی وجہ سے اس کی طرف پوری توجہ نہیں کرسکے تھے۔ اس لیے ہُد ہُد نے جو چشم دید حالات بیان کیے، وہ اس سے پہلے انھیں معلوم نہیں ہو سکے تھے۔ ہُد ہُد نے بھی احاطہ علم کی نفی کی ہے، علم کی نفی نہیں کی۔ اس کے علاوہ ہُد ہُد نے عورت کے حکمران ہونے اور اس کی اور اس کی قوم کی آفتاب پرستی کو زیادہ نمایاں کیا، کیونکہ اس کے نزدیک ان میں سے کوئی بات بھی قابل برداشت نہیں تھی۔ - 3 سلیمان (علیہ السلام) وہ عظیم پیغمبر تھے جن کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : (وَلَقَدْ اٰتَيْنَا دَاوٗدَ وَسُلَيْمٰنَ عِلْمًا ) [ النمل : ١٥ ] ” اور بلاشبہ یقیناً ہم نے داؤد اور سلیمان کو ایک علم دیا۔ “ ان کے مقابلے میں علمی لحاظ سے ہُد ہُد کی کوئی حیثیت نہ تھی، اس کے باوجود ہُد ہُد نے دعوے سے کہا کہ میں نے اس بات کا احاطہ کیا ہے جس کا آپ نے احاطہ نہیں کیا۔ سلیمان (علیہ السلام) اس پر نہ ناراض ہوئے، نہ اسے گستاخ قرار دیا۔ اس سے معلوم ہوا ایک کم مرتبہ شخص کو کوئی ایسی بات معلوم ہوسکتی ہے جو اس سے عالی مرتبے والے کو معلوم نہ ہو، مثلاً یہ مسئلہ کہ اجازت تین دفعہ مانگی جاتی ہے، اس کے بعد واپس چلے جانا چاہیے، عمر (رض) کو معلوم نہ تھا، ابوسعید خدری (رض) کو معلوم تھا۔ [ دیکھیے أبوداوٗد : ٥١٨٠ ] جنابت کے لیے تیمم کا مسئلہ عمار بن یاسر (رض) کو یاد رہا، عمر اور ابن مسعود (رض) کے ذہن میں نہ رہا۔ چناچہ وہ جنبی کے لیے تیمم کے قائل نہیں تھے۔ [ دیکھیے بخاري : ٣٤٦، ٣٤٧ ] وہ درخت جو مسلم کی مانند ہے، ابوبکر و عمر (رض) اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مجلس کے دوسرے حاضرین کے ذہن میں نہ آیا، ابن عمر (رض) کے ذہن میں آگیا۔ [ دیکھیے بخاري : ٦١ ] صحیح بخاری کی ایک حدیث ہے : ( أُمِرْتُ أَنْ أُقَاتِلَ النَّاسَ حَتّٰی یَشْھَدُوْا أَنْ لَّا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ وَ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُوْلُ اللّٰہِ وَ یُقِیْمُوا الصَّلَاۃَ وَ یُؤْتُوا الزَّکَاۃَ ) یہ حدیث ابن عمر (رض) کو معلوم تھی، ابوبکر و عمر (رض) کو معلوم نہ تھی۔ اس پر حافظ ابن حجر عسقلانی لکھتے ہیں : ” اس قصے میں دلیل ہے کہ سنت بعض اوقات اکابر صحابہ سے مخفی رہ جاتی ہے اور دوسرے صحابہ اس پر مطلع ہوجاتے ہیں، اس لیے آراء کی طرف توجہ نہیں کی جائے گی، خواہ وہ کتنی قوی ہوں، جب ان کے خلاف سنت موجود ہو اور یہ نہیں کہا جائے گا کہ یہ سنت فلاں سے کیسے مخفی رہ گئی ؟ “ (واللہ الموفق) - [ فتح الباري، الإیمان، باب : ( فإن تابوا و أقاموا الصلاۃ۔۔ ) ، تحت ح : ٢٥ ] - 3 فروہ بن مُسَیْک مرادی (رض) بیان کرتے ہیں کہ جب سبا کے بارے میں آیات نازل ہوئیں، (جیسے سبا : ١٥) تو ایک آدمی نے کہا : ” یا رسول اللہ یہ سبا کیا ہے، کوئی زمین ہے یا کوئی عورت ہے ؟ “ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( لَیْسَ بِأَرْضٍ وَلَا امْرَأَۃٍ وَلٰکِنَّہُ رَجُلٌ وَلَدَ عَشْرَۃً مِنَ الْعَرَبِ ، فَتَیَامَنَ مِنْھُمْ سِتَّۃٌ وَ تَشَاءَ مَ مِنْھُمْ أَرْبَعَۃٌ، فَأَمَّا الَّذِیْنَ تَشَاءَ مُوْا : فَلَخْمٌ وَ جُذَامٌ وَ غَسَّانُ وَ عَامِلَۃُ ، وَ أَمَّا الَّذِیْنَ تَیَامَنُوْا فَالْأَزْدُ وَالْأَشْعَرِیُّوْنَ وَحِمْیَرٌ وَکِنْدَۃُ وَمَذْحِجٌ وَأَنْمَارٌ، فَقَالَ رَجُلٌ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ وَمَا أَنْمَارُ ؟ قَالَ : الَّذِیْنَ مِنْھُمْ خَثْعَمٌ وَبَجِیْلَۃُ ) [ ترمذي، تفسیر القرآن، باب و من سورة سبا : ٣٢٢٢، قال الألباني صحیح حسن ] ” نہ وہ زمین ہے نہ عورت، بلکہ عرب کا ایک آدمی تھا جس کے ہاں دس بچے پیدا ہوئے، ان میں سے چھ یمن میں چلے گئے اور چار شام کو چلے گئے۔ جو لوگ شام میں گئے تھے وہ یہ ہیں : لخم، جذام، غسان اور عاملہ اور جو یمن میں گئے تھے وہ یہ ہیں : ازد، اشعرون، حمیر، مذحج اور انمار۔ “ اس نے پوچھا : ” یا رسول اللہ انمار سے مراد کون ہیں ؟ “ فرمایا : ” وہی جن میں سے خثعم اور بجیلہ ہیں۔ “ بعد میں اس قوم کا اور یمن کے اس شہر کا نام بھی سبا پڑگیا، جیسا کہ اس آیت میں ہے۔ یہ شہر یمن کے موجودہ دار الحکومت صنعاء سے تقریباً پچیس میل کے فاصلے پر واقع تھا۔- 3 یہاں ایک لطیف نکتہ ہے کہ سلیمان (علیہ السلام) نبی تھے، مگر یہ ” نَبَأٌ“ (خبر) ان کے پاس نہ تھی۔ ہد ہد نبی نہ تھا، مگر یہ ” نَبَأٌ“ (خبر) اس کے پاس تھی۔ معلوم ہوا نبی کے پاس ہر ” نَبَأٌ“ نہیں ہوتی، نہ وہ عالم الغیب ہوتا ہے، بلکہ اس کے پاس صرف اتنی ” نَبَأٌ“ ہوتی ہے جو اللہ تعالیٰ اسے بتادے اور صرف کسی ” نَبَأٌ“ سے کوئی شخص نبی نہیں بن جاتا، جب تک اسے وحی الٰہی سے خبر نہ دی جاتی ہو۔ (الشیخ محمد حسین شیخوپوری (رح ) - 3 اس واقعہ سے معلوم ہوا کہ حکمران کو حالات سے باخبر رہنے کے لیے تمام اطراف میں جاسوس مقرر کرنے ضروری ہیں۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

اَحَطْتُّ بِمَا لَمْ تُحِطْ بِهٖ ، یعنی ہدہد نے اپنا عذر بتلاتے ہوئے کہا کہ مجھے وہ چیز معلوم ہے جو آپ کو معلوم نہیں، یعنی میں ایک ایسی خبر لایا ہوں جس کا آپ کو پہلے علم نہیں تھا۔- انبیاء (علیہم السلام) عالم الغیب نہیں ہوتے :- امام قرطبی نے فرمایا کہ اس سے واضح طور پر معلوم ہوا کہ انبیاء (علیہم السلام) عالم الغیب نہیں ہوتے جس سے ان کو ہر چیز کا علم ہو سکے۔- وَجِئْتُكَ مِنْ سَبَاٍۢ بِنَبَاٍ يَّقِيْنٍ ، سباء، یمن کا ایک مشہور شہر جس کا ایک نام مارب بھی ہے۔ اس کے اور یمن کے دارالحکومت صنعاء کے درمیان تین دن کی مسافت تھی۔- کیا چھوٹے آدمی کو یہ حق ہے کہ اپنے بڑوں سے کہے کہ مجھے آپ سے زیادہ علم ہے :- ہدہد کی مذکورہ گفتگو سے بعض لوگوں نے اس پر استدلال کیا ہے کہ کوئی شاگرد اپنے استاد سے یا غیر عالم عالم سے کہہ سکتا ہے کہ اس مسئلہ کا علم مجھے آپ سے زیادہ ہے بشرطیکہ اس کو اس مسئلہ کا واقعی طور پر مکمل علم دوسروں سے زائد ہو۔ مگر روح المعانی میں فرمایا کہ یہ طرز گفتگو اپنے مشائخ اور بڑوں کے سامنے خلاف ادب ہے اس سے احتراز کرنا چاہئے اور ہدہد کے قول سے اس پر استدلال اس لئے نہیں ہوسکتا کہ اس نے یہ بات اپنے آپ کو سزا سے بچانے اور عذر کے قوی ہونے کے لئے کہی ہے تاکہ اس کی غیر حاضری کا عذر پوری طرح حضرت سلیمان کے سامنے آجائے ایسی ضرورت میں ادب کی رعایت رکھتے ہوئے کوئی بات کی جائے تو مضائقہ نہیں۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

فَمَكَثَ غَيْرَ بَعِيْدٍ فَقَالَ اَحَطْتُّ بِمَا لَمْ تُحِطْ بِہٖ وَجِئْتُكَ مِنْ سَـبَـاٍؚبِنَبَاٍ يَّقِيْنٍ۝ ٢٢- مكث - المکث : ثبات مع انتظار، يقال : مَكَثَ مکثا . قال تعالی: فَمَكَثَ غَيْرَ بَعِيدٍ [ النمل ] [ 22] ، وقرئ : مکث «5» ، قال : إِنَّكُمْ ماكِثُونَ [ الزخرف 77] ، قالَ لِأَهْلِهِ امْكُثُوا[ القصص 29]- ( م ک ث ) المکث - کسی چیز کے انتظار میں ٹھہرے رہنے کے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَمَكَثَ غَيْرَ بَعِيدٍ [ النمل ] [ 22] ابھی تھوڑی ہی دیر ہوئی تھی ۔ ایک قرات میں مکث ہے ۔ نیز فرمایا : ۔ إِنَّكُمْ ماكِثُونَ [ الزخرف 77] تم ہمیشہ ( اسی حالت میں ) رہو گے ۔ قالَ لِأَهْلِهِ امْكُثُوا[ القصص 29] تو اپنے گھر والوں سے کہنے لگے کہ تم یہاں ٹھہرو ۔ - غير - أن تکون للنّفي المجرّد من غير إثبات معنی به، نحو : مررت برجل غير قائم . أي : لا قائم، قال : وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّنِ اتَّبَعَ هَواهُ بِغَيْرِ هُدىً مِنَ اللَّهِ [ القصص 50] ،- ( غ ی ر ) غیر - اور محض نفی کے لئے یعنی اس سے کسی دوسرے معنی کا اثبات مقصود نہیں ہوتا جیسے مررت برجل غیر قائم یعنی میں ایسے آدمی کے پاس سے گزرا جو کھڑا نہیں تھا ۔ قرآن میں ہے : وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّنِ اتَّبَعَ هَواهُ بِغَيْرِ هُدىً مِنَ اللَّهِ [ القصص 50] اور اس سے زیادہ کون گمراہ ہوگا جو خدا کی ہدایت کو چھوڑ کر اپنی خواہش کے پیچھے چلے - بعد - البُعْد : ضد القرب، ولیس لهما حدّ محدود، وإنما ذلک بحسب اعتبار المکان بغیره، يقال ذلک في المحسوس، وهو الأكثر، وفي المعقول نحو قوله تعالی: ضَلُّوا ضَلالًابَعِيداً [ النساء 167] - ( ب ع د ) البعد - کے معنی دوری کے ہیں یہ قرب کی ضد ہے اور ان کی کوئی حد مقرر نہیں ہے بلکہ ایک ہی جگہ کے اعتبار سے ایک کو تو قریب اور دوسری کو بعید کہا جاتا ہے ۔ محسوسات میں تو ان کا استعمال بکثرت ہوتا رہتا ہے مگر کبھی کبھی معافی کے لئے بھی آجاتے ہیں ۔ جیسے فرمایا ضَلُّوا ضَلالًا بَعِيداً [ النساء 167] وہ راہ ہدایت سے بٹھک کردور جا پڑے ۔ ۔ ان کو ( گویا ) دور جگہ سے آواز دی جاتی ہے ۔- حيط - الحائط : الجدار الذي يَحُوط بالمکان، والإحاطة تقال علی وجهين :- أحدهما : في الأجسام - نحو : أَحَطْتُ بمکان کذا، أو تستعمل في الحفظ نحو : إِنَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ مُحِيطٌ [ فصلت 54] ، - والثاني : في العلم - نحو قوله : أَحاطَ بِكُلِّ شَيْءٍ عِلْماً [ الطلاق 12] - ( ح و ط ) الحائط ۔- دیوار جو کسی چیز کو چاروں طرف سے گھیرے ہوئے ہو اور - احاطۃ ( افعال ) کا لفظ دو طرح پر استعمال ہوتا ہے - ۔ (1) اجسام کے متعلق جیسے ۔ احطت بمکان کذا یہ کبھی بمعنی حفاظت کے آتا ہے ۔ جیسے فرمایا :۔إِنَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ مُحِيطٌ [ فصلت 54] سن رکھو کہ وہ ہر چیز پر احاطہ کئے ہوئے ہے ۔ یعنی وہ ہر جانب سے ان کی حفاظت کرتا ہے ۔- (2) دوم احاطہ بالعلم - ہے جیسے فرمایا :۔ أَحاطَ بِكُلِّ شَيْءٍ عِلْماً [ الطلاق 12] اپنے علم سے ہر چیز پر احاطہ کئے ہوئے ہے ۔ - سبأ - قال عزّ وجلّ : وَجِئْتُكَ مِنْ سَبَإٍ بِنَبَإٍ يَقِينٍ [ النمل 22] ، سَبَأ اسم بلد تفرق أهله، ولهذا يقال : ذهبوا أيادي سبأ أي : تفرّقوا تفرّق أهل هذا المکان من کلّ جانب، وسَبَأْتُ الخمر : اشتریتها، والسَّابِيَاءُ : جِلْدٌ فيه الولد - ( س ب ء ) سبا ایک شہر کا نام ہے جو پرانے زمانے میں ( سیل العرم ) سے تباہ ہوگیا تھا قرآن میں ہے : ۔ وَجِئْتُكَ مِنْ سَبَإٍ بِنَبَإٍ يَقِينٍ [ النمل 22] اور میں سبا سے تیرے پاس ایک یقینی خبر لیکر آیا ہو ۔ اور اسی سے ایک ضرب المثل ہے ۔ ( مثل ) ذهبوا أيادي سبأ : یعنی وہ تتر بتر ہوگئے اور اہل سبا کی طرح ان کا نام و نشان مٹ گیا ۔ سَبَأْتُ الخمر : میں نے پینے کے لئے شراب خریدی ۔ السَّابِيَاءُ : مشیمہ یعنی وہ جھلی جس میں بچہ ہوتا ہے ۔- نبأ - خبر ذو فائدة عظیمة يحصل به علم أو غَلَبَة ظنّ ، ولا يقال للخبر في الأصل نَبَأٌ حتی - يتضمّن هذه الأشياء الثّلاثة، وحقّ الخبر الذي يقال فيه نَبَأٌ أن يتعرّى عن الکذب، کالتّواتر، وخبر اللہ تعالی، وخبر النبيّ عليه الصلاة والسلام، ولتضمُّن النَّبَإِ معنی الخبر قال اللہ تعالی: قُلْ هُوَ نَبَأٌ عَظِيمٌ أَنْتُمْ عَنْهُ مُعْرِضُونَ [ ص 67 68] ، - ( ن ب ء ) النبا ء - کے معنی خیر مفید کے ہیں جو علم یا غلبہ ظن کا فائدہ دے اور حقیقی منعی کے لحاظ سے کسی خبر تک اس میں تین چیزیں موجود نہ ہوں ۔ یعنی نہایت مفید ہونا اور اس سے علم یا غلبہ ظن کا حاصل ہونا اور نبا صرف اس خبر کو کہا جاتا ہے جس میں کذب کا احتمال نہ ہو ۔ جیسے خبر متواتر خبر الہیٰ اور خبر نبوی جیسے فرمایا : ۔ قُلْ هُوَ نَبَأٌ عَظِيمٌ أَنْتُمْ عَنْهُ مُعْرِضُونَ [ ص 67 68] کہہ دو کہ یہ ایک بڑی ( ہولناک چیز کی ) خبر ہے جس کو تم دھیان میں نہیں لاتے - يقن - اليَقِينُ من صفة العلم فوق المعرفة والدّراية وأخواتها، يقال : علم يَقِينٍ ، ولا يقال : معرفة يَقِينٍ ، وهو سکون الفهم مع ثبات الحکم، وقال : عِلْمَ الْيَقِينِ [ التکاثر 5] «2» ، وعَيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر 7] «3» وحَقُّ الْيَقِينِ [ الواقعة 95] وبینها فروق مذکورة في غير هذا الکتاب، يقال : اسْتَيْقَنَ وأَيْقَنَ ، قال تعالی: إِنْ نَظُنُّ إِلَّا ظَنًّا وَما نَحْنُ بِمُسْتَيْقِنِينَ [ الجاثية 32] ، وَفِي الْأَرْضِ آياتٌ لِلْمُوقِنِينَ [ الذاریات 20] ، لِقَوْمٍ يُوقِنُونَ [ البقرة 118] وقوله عزّ وجلّ : وَما قَتَلُوهُ يَقِيناً [ النساء 157] أي : ما قتلوه قتلا تَيَقَّنُوهُ ، بل إنما حکموا تخمینا ووهما .- ( ی ق ن ) الیقین - کے معنی کسی امر کو پوری طرح سمجھ لینے کے ساتھ اس کے پایہ ثبوت تک پہنچ جانے کے ہیں اسی لئے یہ صفات علم سے ہے اور معرفت اور وغیرہ سے اس کا در جہ اوپر ہے یہی وجہ ہے کہ کا محاورہ تو استعمال ہوات ہے لیکن معرفۃ الیقین نہیں بولتے اور قدر معنوی فرق پایا جاتا ہے جسے ہم اس کتاب کے بعد بیان کریں گے استیتن والقن یقین کرنا قرآن میں ہے : ۔ - إِنْ نَظُنُّ إِلَّا ظَنًّا وَما نَحْنُ بِمُسْتَيْقِنِينَ [ الجاثية 32] ہم اس کو محض ظن ہی خیال کرتے ہیں اور ہمیں یقین نہیں آتا ۔ وَفِي الْأَرْضِ آياتٌ لِلْمُوقِنِينَ [ الذاریات 20] اور یقین کرنے والوں کے لئے زمین میں بہت سی نشانیاں ہیں ۔ لِقَوْمٍ يُوقِنُونَ [ البقرة 118] یقین کرنے والوں کیلئے اور آیت کریمہ : ۔ وَما قَتَلُوهُ يَقِيناً [ النساء 157] اور انہوں نے عیسیٰ کو یقینا نہیں کیا ۔ کے معنی یہ ہیں کہ انہیں ان کے قتل ہوجانے کا یقین نہیں ہے بلکہ ظن وتخمین سے ان کے قتل ہوجانے کا حکم لگاتے ہیں ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٢٢) تھوڑی ہی دیر میں وہ آگیا اور حضرت سلیمان (علیہ السلام) سے کہنے لگا کہ میں ایسی جگہ ہو کر آیا ہوں جہاں ابھی تک آپ نہیں گئے اور ایسی بات معلوم کرکے آیا ہوں جو آپ کو معلوم نہیں ہوئی میں آپ کے پاس ملک سبا کی ایک تحقیقی خبر لایا ہوں۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

(فَقَالَ اَحَطْتُّ بِمَا لَمْ تُحِطْ بِہٖ وَجِءْتُکَ مِنْ سَبَاٍم بِنَبَاٍ یَّقِیْنٍ ) ” - قوم سبا یمن کے علاقے میں آباد تھی اور اس وقت بلقیس نامی ایک ملکہ اس قوم پر حکمران تھی۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة النمل حاشیہ نمبر :29 سبا جنوبی عرب کی مشہور تجارت پیشہ قوم تھی جس کا دار الحکومت مارب موجودہ یمن کے دار السلطنت صنعاء سے 55 میل بجانب شمال مشرق واقع تھا ۔ اس کا زمانہ عروج معین کی سلطنت کے زوال کے بعد تقریبا 1100 ق م سے شروع ہوا اور ایک ہزار سال تک یہ عرب میں اپنی عظمت کے ڈنکے بجاتی رہی ، پھر 115 ق م میں جنوبی عرب کی دوسری مشہور قوم حمیر نے اس کی جگہ لے لی ، عرب میں یمن اور حضر موت ، اور افریقہ میں حبش کے عالقے پر اس کا قبضہ تھا ، مشرقی افریقہ ، ہندوستان ، مشرق بعید اور خود عرب کی جتنی تجارت مصر و شام اور یونان و روم کے ساتھ ہوتی تھی وہ زیادہ تر انہی سبائیوں کے ہاتھ میں تھی ۔ اسی وجہ سے یہ قوم قدیم زمانہ میں اپنی دولت کے لیے نہایت مشہور تھی ، بلکہ یونانی مورخین تو اسے دنیا کی سب سے زیادہ مالدار قوم کہتے ہیں تجارت کے علاوہ ان کی خوشحالی کا بڑا سبب یہ تھا کہ انہوں نے اپنے ملک میں جگہ جگہ بند باندھ کر ایک بہترین نظام آب پاشی قائم کر رکھا تھا ، جس سے ان کا پورا علاقہ جنت بنا ہوا تھا ، ان کے ملک کی اس غیر معمولی سرسبزی و شادابی کا ذکر یونانی مورخین نے بھی کیا ہے اور سورہ سبا کے دوسرے رکوع میں قرآن مجید بھی اس کی طرف اشارہ کرتا ہے ۔ ہدہد کا یہ بیان کہ میں نے وہ معلومات حاصل کی ہیں جو آپ کے علم میں نہیں ہیں ۔ یہ معنی نہیں رکھتا کہ حضرت سلیمان سبا سے بالکل ناواقف تھے ، ظاہر ہے کہ فلسطین و شام کے جس فرمانروا کی سلطنت بحر احمر کے شمالی کنارے ( خلیج عقبہ ) تک پہنچی ہوئی تھی وہ اسی بحر احمر کے جنوبی کنارے ( یمن ) کی ایک ایسی قوم سے ناواقف نہ ہوسکتا تھا جو بین الاقوامی تجارت کے ایک اہم حصے پر قابض تھی ، علاوہ ازیں زبور سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت سلیمان سے بھی پہلے ان کے والد ماجد حضرت داؤد سبا سے واقف تھے ، ان کی دعا کے یہ الفاظ زبور میں ہمیں ملتے ہیں: اے خدا ، بادشاہ ( یعنی خود حضرت داؤد ) کو اپنے احکام اور شاہزادے ( یعنی حضرت سلیمان ) کو اپنی صداقت عطا فرما ۔ ترسیس اور جزیروں کے بادشاہ نذریں گھزاریں گے ، سبا اور شیبا ( یعنی سبا کی یمنی اور حبشی شاخوں ) کے بادشاہ ہدیے لائیں گے ۔ ( 72 ۔ 1 ۔ 2 و 1 ۔ 11 ) اس لیے ہدہد کے قول کا مطلب یہ معلوم ہوتا ہے کہ قوم سبا کے مرکز میں جو چشم دید حالات میں دیکھ کر آیا ہوں وہ ابھی تک آپ کو نہیں پہنچے ہیں ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

10: سبا ایک قوم کا نام تھا جو یمن کے ایک علاقے میں آباد تھی، اسی قوم کے نام پر اس علاقے کو بھی سبا کہا جاتا تھا، اس وقت یہاں ایک ملکہ حکمران کر رہی تھی جس کا نام تاریخی روایتوں میں ’’ بلقیس‘‘ بیان کیا گیا ہے۔