Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

231یعنی ہدہد کے لئے بھی یہ امر باعث تعجب تھا کہ سبا میں ایک عورت حکمران ہے۔ لیکن آجکل کہا جاتا ہے کہ عورتیں بھی ہر معاملے میں مردوں کے برابر ہیں۔ اگر مرد حکمران ہوسکتا ہے تو عورت کیوں نہیں ہوسکتی، حالانکہ یہ نظریہ اسلامی تعلیمات کے خلاف ہے۔ عورت کی سربراہی کے عدم جواز پر قرآن و حدیث میں واضح دلائل موجود ہیں۔ 232کہا جاتا ہے کہ اس کا طول80ہاتھ اور عرض40ہاتھ اور انچائی30ہاتھ تھی اور اس میں موتی، سرخ یا قوت اور سبز زمرد جڑے ہوئے تھے، واللہ اعلم۔ (فتح القدیر) ویسے یہ قول مبالغے سے خالی نہیں معلوم ہوتا۔ یمن میں بلقیس کا جو محل ٹوٹی پھوٹی شکل میں موجود ہے اس میں اتنے بڑے تخت کی گنجائش نہیں۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

اِنِّىْ وَجَدْتُّ امْرَاَةً تَمْلِكُهُمْ : ہُد ہُد کے لیے یہ بات بڑے تعجب کی تھی کہ کسی قوم کی بادشاہ ایک عورت ہو۔ ابوبکرہ (رض) فرماتے ہیں : ” جب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خبر پہنچی کہ اہل فارس نے کسریٰ کی بیٹی کو اپنا بادشاہ بنا لیا ہے، تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( لَنْ یُّفْلِحَ قَوْمٌ وَلَّوْا أَمْرَھُمُ امْرَأَۃً ) [ بخاري، المغازي، باب کتاب النبي (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) إلٰی کسرٰی و قیصر : ٤٤٢٥، ٧٠٩٩ ] ” وہ قوم کبھی فلاح نہیں پائے گی جنھوں نے اپنے معاملے کا والی ایک عورت کو بنادیا۔ “- وَاُوْتِيَتْ مِنْ كُلِّ شَيْءٍ : یعنی اسے سلطنت کے لیے درکار ہر چیز دی گئی ہے۔ ” كُلِّ “ کا مفہوم ہر مقام کی مناسبت سے متعین ہوتا ہے، ورنہ اسے ہر چیز تو نہیں دی گئی تھی۔ - 3 اس عورت کا نام مفسرین نے بلقیس بیان کیا ہے، بعض نے لکھا ہے کہ اس کی ماں جنوں سے تھی، مگر یہ بات قرآن یا حدیث سے ثابت نہیں، اگر ضرورت ہوتی تو قرآن میں اس کا نام ضرور بیان ہوتا اور انسانوں اور جنوں کی اس رشتہ داری کا ذکر بھی ہوتا۔ یقیناً اس کا نام و نسب ذکر نہ کرنے ہی میں حکمت ہے۔ اس لیے آپ اسے بلقیس کے بجائے ملکہ سبا کہہ سکتے ہیں۔- 3 اسرائیلیات میں کس قدر مبالغہ ہوتا ہے، خواہ بیان کرنے والے کتنے ثقہ اور کس پائے کے ہوں، اس کا اندازہ مفسرین کے ان بیانات سے ہوتا ہے جن میں انھوں نے ملکہ سبا کی افواج کی تعداد بیان کی ہے۔ تفسیر ابن کثیر میں سے اس کے متعلق تین اقوال ملاحظہ فرمائیں : 1 ابن ابی حاتم نے ابن عباس (رض) سے بیان کیا ہے کہ سلیمان (علیہ السلام) کے معاملے والی خاتون کے ساتھ ایک ہزار سردار تھے اور ہر سردار کے تحت ایک لاکھ جنگجو تھے (کل تعداد دس کروڑ ہوئی) ۔ 2 مجاہد نے کہا، ملکہ سبا کے تحت بارہ ہزار سردار تھے اور ہر سردار کے تحت ایک لاکھ جنگجو تھے (کل تعداد ایک ارب بیس کروڑ) ۔ 3 قتادہ نے کہا، اس کے مشیر تین سو بارہ آدمی تھے، ہر آدمی دس ہزار پر امیر تھا (کل تعداد اکتیس لاکھ بیس ہزار) ۔ ابن کثیر نے فرمایا : ” یہ قول زیادہ قریب ہے، اگرچہ ملک یمن کے لحاظ سے یہ بھی بہت زیادہ ہے۔ “ - یہ روایات اگرچہ ابن عباس (رض) ، مجاہد اور قتادہ سے آئی ہیں، مگر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مروی نہیں۔ ان کا اسرائیلی ہونا ظاہر ہے اور ابن کثیر نے دو لفظوں میں ان کا ساقط الاعتبار ہونا بیان فرما دیا ہے۔ سوچنے کی بات ہے کہ اتنی فوج تو بہت دور کی بات ہے، آیا اس وقت ملک یمن یا شاید پوری دنیا کی آبادی بھی ایک ارب بیس کروڑ تھی ؟ اس سے پہلے سلیمان (علیہ السلام) کے لشکروں کی تعداد بھی مفسرین نے اسی انداز سے بیان کی ہے اور کئی مفسرین نے ناقابل اعتبار کہہ کر اسے نقل نہیں کیا۔ بہرحال ” مِنْ كُلِّ شَيْءٍ “ سے یہ ظاہر ہے کہ ملکہ عظیم الشان سلطنت کی مالک تھی اور اسے مال و دولت، افواج اور اسلحہ وغیرہ کی تمام چیزیں میسر تھیں، جو حکومت کے لیے درکار ہوتی ہیں۔- وَّ لَهَا عَرْشٌ عَظِيْمٌ : ہُد ہُد نے اس کے تخت کا خاص طور پر ذکر کیا، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس تخت میں کوئی ایسی خوبی تھی کہ سلیمان (علیہ السلام) جیسے شان و شوکت والے بادشاہ کے ساتھ رہنے والے ہد ہد نے بھی اسے عظیم قرار دیا۔ یہاں بھی بعض مفسرین نے ایسی اسرائیلی روایات ذکر کی ہیں جو پہلی ہی نظر میں فضول دکھائی دیتی ہیں، مثلاً یہ کہ وہ اسی (٨٠) ہاتھ (١٢٠ فٹ) لمبا اور چالیس (٤٠) ہاتھ (٦٠ فٹ) چوڑا تھا۔ بھلا ایک عورت کو بیٹھنے کے لیے اتنے لمبے چوڑے تخت کی کیا ضرورت تھی۔ طبری نے یہاں بہت خوب صورت بات فرمائی ہے کہ عظیم سے مراد یہاں قدر و قیمت میں عظیم ہونا ہے، نہ کہ لمبا چوڑا ہونے میں عظیم ہونا۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

اِنِّىْ وَجَدْتُّ امْرَاَةً تَمْلِكُهُمْ یعنی میں نے ایک عورت کو پایا جو قوم سبا کی مالک ہے یعنی ان پر حکومت کرتی ہے۔ اس عورت یعنی ملک سبا کا نام تاریخ میں بلقیس بنت شراحیل بتلایا گیا ہے اور بعض روایات میں ہے کہ اس کی والدہ جنات میں سے تھی جس کا نام بلعمہ بنت شیصان بتلایا جاتا ہے (رواہ وہیب بن جریر عن الخلیل ابن احمد قرطبی) اور ان کا دادا ہداہد پورے ملک یمن کا ایک عظیم الشان بادشاہ تھا جس کی اولاد میں چالیس لڑکے ہوئے سب کے سب ملوک اور بادشاہ بنے۔ ان کے والد سراح نے ایک جنیہ عورت سے نکاح کرلیا تھا اسی کے بطن سے بلقیس پیدا ہوئی۔ جنیہ سے نکاح کرنے کی مختلف وجوہ بیان کی گئی ہیں۔ ایک یہ ہے کہ یہ اپنی حکومت و سلطنت کے غرور میں لوگوں سے کہتا تھا کہ تم میں کوئی میرا کفو نہیں اس لئے میں نکاح ہی نہ کروں گا کیونکہ غیر کفو میں نکاح مجھے پسند نہیں، اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ لوگوں نے اس کا نکاح ایک جنیہ عورت سے کرا دیا (قرطبی) شاید یہ اسی فخر و غرور کا نتیجہ تھا کہ اس نے انسانوں کو جو درحقیقت کفو تھے حقیر و ذلیل سمجھا اور اپنا کفو تسلیم نہ کیا تو قدرت نے اس کا نکاح ایک ایسی عورت سے مقدر کردیا جو نہ اس کی کفو تھی نہ اس کی جنس و قوم سے تھی۔- کیا انسان کا نکاح جنی عورت سے ہوسکتا ہے :- اس معاملہ میں بعض لوگوں نے تو اس لئے شبہ کیا ہے کہ جنات کو انسان کی طرح توالد و تناسل کا اہل نہیں سمجھا۔ ابن عربی نے اپنی تفسیر میں فرمایا کہ یہ خیال باطل ہے۔ احادیث صحیحہ سے جنات میں توالد و تناسل اور مرد و عورت کی تمام وہ خصوصیات جو انسانوں میں ہیں جنات میں بھی موجود ہونا ثابت ہے۔- دوسرا سوال شرعی حیثیت سے ہے کہ کیا عورت جنیہ کسی انسان مرد کے لئے نکاح کر کے حلال ہو سکتی ہے ؟ اس میں فقہاء کا اختلاف ہے بہت حضرات نے جائز قرار دیا ہے، بعض نے غیر جنس مثل جانوروں کے ہونے کی بناء پر حرام فرمایا ہے اس مسئلہ کی تفصیل " آکام المرجان فی احکام الجان " میں مذکور ہے اس میں بعض ایسے واقعات بھی ذکر کئے ہیں کہ مسلمان مرد سے مسلمان جنیہ کا نکاح ہوا اور اس سے اولاد بھی ہوئی۔ یہاں یہ مسئلہ اس لئے زیادہ قابل بحث نہیں کہ نکاح کرنے والا بلقیس کا والد مسلمان ہی نہ تھا اس کے عمل سے کوئی استدلال جواز یا عدم جواز پر نہیں ہو سکتا۔ اور چونکہ شرع اسلام میں اولاد کی نسبت باپ کی طرف ہوتی ہے اور بلقیس کے والد انسان تھے اس لئے بلقیس انسان ہی قرار پائے گی۔ اس لئے بعض روایات میں جو حضرت سلیمان (علیہ السلام) کا بلقیس سے نکاح کرنا مذکور ہے، اگر وہ روایت صحیح ہو تو بھی اس سے نکاح جنیہ کا کوئی حکم ثابت نہیں ہوتا کیونکہ بلقیس خود جنیہ نہ تھیں اگرچہ ان کی والدہ جنیہ ہو۔ واللہ اعلم اور نکاح سلیمان (علیہ السلام) کے متعلق مزید بیان آ گے آئے گا۔- کیا کسی عورت کا بادشاہ ہونا یا کسی قوم کا امیر و امام ہو ناجائز ہے ؟:- صحیح بخاری میں حضرت ابن عباس کی روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جب یہ خبر پہنچی کہ اہل فارس نے اپنے ملک کا بادشاہ کسری کی بیٹی کو بنادیا ہے تو آپ نے فرمایا لن یفلح قوم ولو امرھم امراة یعنی وہ قوم کبھی فلاح نہ پائے گی جس نے اپنے اقتدار کا مالک عورت کو بنادیا۔ اسی لئے علماء امت اس پر متفق ہیں کہ کسی عورت کو امامت و خلافت یا سلطنت و حکومت سپرد نہیں کی جاسکتی، بلکہ نماز کی امامت کی طرح امامت کبری بھی صرف مردوں کو سزا وار ہے۔ رہا بلقیس کا ملکہ سبا ہونا تو اس سے کوئی حکم شرعی ثابت نہیں ہوسکتا جب تک یہ ثابت نہ ہوجائے کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے اس سے خود نکاح کیا اور پھر اس کو حکومت و سلطنت پر برقرار رکھا اور یہ کسی صحیح روایت سے ثابت نہیں جس پر احکام شرعیہ میں اعتماد کیا جاسکے۔ - وَاُوْتِيَتْ مِنْ كُلِّ شَيْءٍ ، مراد یہ ہے کہ سب ضروری سامان جو کسی بادشاہ و امیر کو درکار ہوتا ہے اور اپنے زمانے کے مطابق ہوسکتا ہے موجود تھا جو چیزیں اس زمانے میں ایجاد ہی نہ ہوئی تھیں ان کا نہ ہونا اس آیت کے منافی نہیں۔- وَّ لَهَا عَرْشٌ عَظِيْمٌ، عرش کے لفظی معنے تخت سلطنت کے ہیں۔ حضرت ابن عباس سے ایک روایت میں ہے کہ عرش بلقیس کا طول اسی ہاتھ اور عرض چالیس ہاتھ اور بلندی تیس ہاتھ تھی جس پر موتی اور یاقوت احمر، زبرجد، اخضر کا کام تھا اور اس کے پائے موتیوں اور جواہرات کے تھے اور پردے ریشم اور حریر کے، اندر باہر یکے بعد دیگر سات مقفل عمارتوں میں محفوظ تھا۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

اِنِّىْ وَجَدْتُّ امْرَاَۃً تَمْلِكُہُمْ وَاُوْتِيَتْ مِنْ كُلِّ شَيْءٍ وَّلَہَا عَرْشٌ عَظِيْمٌ۝ ٢٣- وجد - الوجود أضرب : وجود بإحدی الحواسّ الخمس . نحو : وَجَدْتُ زيدا، ووَجَدْتُ طعمه .- ووجدت صوته، ووجدت خشونته . ووجود بقوّة الشّهوة نحو : وَجَدْتُ الشّبع . ووجود بقوّة الغضب کو جود الحزن والسّخط . ووجود بالعقل، أو بواسطة العقل کمعرفة اللہ تعالی، ومعرفة النّبوّة، وما ينسب إلى اللہ تعالیٰ من الوجود فبمعنی العلم المجرّد، إذ کان اللہ منزّها عن الوصف بالجوارح والآلات . نحو : وَما وَجَدْنا لِأَكْثَرِهِمْ مِنْ عَهْدٍ وَإِنْ وَجَدْنا أَكْثَرَهُمْ لَفاسِقِينَ [ الأعراف 102] . - ( و ج د ) الو جود - ( ض) کے معنی کسی چیز کو پالینا کے ہیں اور یہ کئی طرح پر استعمال ہوتا ہے حواس خمسہ میں سے کسی ایک حاسہ کے ساتھ اور اک کرنا جیسے وجدت طعمہ ( حاسہ ذوق ) وجدت سمعہ ( حاسہ سمع ) وجدت خثومتہ حاسہ لمس ) قوی باطنہ کے ساتھ کسی چیز کا ادراک کرنا ۔ جیسے وجدت الشبع ( میں نے سیری کو پایا کہ اس کا تعلق قوت شہو یہ کے ساتھ ہے ۔ وجدت الحزن وا لسخط میں نے غصہ یا غم کو پایا اس کا تعلق قوت غضبہ کے ساتھ ہے ۔ اور بذریعہ عقل کے کسی چیز کو پالیتا جیسے اللہ تعالیٰ یا نبوت کی معرفت کہ اسے بھی وجدان کہا جاتا ہے ۔ جب وجود پالینا ) کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف کی جائے تو اس کے معنی محض کسی چیز کا علم حاصل کرلینا کے ہوتے ہیں کیونکہ ذات باری تعالیٰ جوارح اور آلات کے ذریعہ کسی چیز کو حاصل کرنے سے منزہ اور پاک ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ وَما وَجَدْنا لِأَكْثَرِهِمْ مِنْ عَهْدٍ وَإِنْ وَجَدْنا أَكْثَرَهُمْ لَفاسِقِينَ [ الأعراف 102] اور ہم نے ان میں سے اکثروں میں عہد کا نباہ نہیں دیکھا اور ان میں اکثروں کو ( دیکھا تو ) بد عہد دیکھا ۔- عرش - العَرْشُ في الأصل : شيء مسقّف، وجمعه عُرُوشٌ. قال تعالی: وَهِيَ خاوِيَةٌ عَلى عُرُوشِها[ البقرة 259] والعَرْشُ : شبهُ هودجٍ للمرأة شبيها في الهيئة بِعَرْشِ الکرمِ ، وعَرَّشْتُ البئرَ : جعلت له عَرِيشاً. وسمّي مجلس السّلطان عَرْشاً اعتبارا بعلوّه . قال : وَرَفَعَ أَبَوَيْهِ عَلَى الْعَرْشِ [يوسف 100]- ( ع رش ) العرش - اصل میں چھت والی چیز کو کہتے ہیں اس کی جمع عروش ہے ۔ قرآن میں ہے : وَهِيَ خاوِيَةٌ عَلى عُرُوشِها[ البقرة 259] اور اس کے مکانات اپنی چھتوں پر گرے پڑے تھے ۔ العرش چھولدادی جس کی ہیت انگور کی ٹٹی سے ملتی جلتی ہے اسی سے عرشت لبئر ہے جس کے معنی کو یں کے اوپر چھولداری سی بنانا کے ہیں بادشاہ کے تخت کو بھی اس کی بلندی کی وجہ سے عرش کہاجاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : وَرَفَعَ أَبَوَيْهِ عَلَى الْعَرْشِ [يوسف 100] اور اپنے والدین کو تخت پر بٹھایا ۔ - عظیم - وعَظُمَ الشیء أصله : كبر عظمه، ثم استعیر لكلّ كبير، فأجري مجراه محسوسا کان أو معقولا، عينا کان أو معنی. قال : عَذابَ يَوْمٍ عَظِيمٍ [ الزمر 13] ، قُلْ هُوَ نَبَأٌ عَظِيمٌ [ ص 67] ، - ( ع ظ م ) العظم - عظم الشئی کے اصل معنی کسی چیز کی ہڈی کے بڑا ہونے کے ہیں مجازا ہر چیز کے بڑا ہونے پر بولا جاتا ہے خواہ اس کا تعلق حس سے یو یا عقل سے اور عام اس سے کہ وہ مادی چیز ہو یا معنو ی قرآن میں ہے : ۔ عَذابَ يَوْمٍ عَظِيمٍ [ الزمر 13] بڑے سخت دن کا عذاب ) تھا ۔ قُلْ هُوَ نَبَأٌ عَظِيمٌ [ ص 67] کہہ دو کہ وہ ایک سخت حادثہ ہے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٢٣) وہ یہ کہ میں نے بلقیس نامی ایک عورت کو دیکھا ہے جو ان لوگوں پر بادشاہت کررہی ہے اور اس کو اپنے شہر میں ہر قسم کا سامان میسر ہے اور اس کے پاس ایک بڑا قیمتی خوب صورت تخت ہے جس پر جواہرات اور موتی جڑے ہوئے ہیں۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٢٢ (اِنِّیْ وَجَدْتُّ امْرَاَۃً تَمْلِکُہُمْ وَاُوْتِیَتْ مِنْ کُلِّ شَیْءٍ ) ” - دنیا بھر کی نعمتیں اسے حاصل ہیں اور ہر طرح کا ساز و سامان اس کے پاس جمع ہے ۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani