صالح علیہ السلام کی ضدی قوم حضرت صالح علیہ السلام جب اپنی قوم ثمود کے پاس آئے اور اللہ کی رسالت ادا کرتے ہوئے انہیں دعوت توحید دی تو ان میں دو فریق بن گئے ایک جماعت مومنوں کی دوسرا گروہ کافروں کا ۔ یہ آپس میں گتھ گئے جیسے اور جگہ ہے کہ متکبروں نے عاجزوں سے کہا کہ کیا تم صالح کو رسول اللہ مانتے ہو؟ انہوں نے جواب دیا کہ ہم کھلم کھلا ایمان لاچکے ہیں انہوں نے کہا بس تو ہم ایسے ہی کھلم کھلا کافر ہیں ۔ آپ نے اپنی قوم سے فرمایا کہ تمہیں کیا ہوگیا بجائے رحمت کے عذاب مانگ رہے ہو؟ تم استغفار کرو تاکہ نزول رحمت ہو ۔ انہوں نے جواب دیا کہ ہمارا تو یقین ہے کہ ہماری تمام مصیبتوں کا باعث تو ہے اور تیرے ماننے والے ۔ یہی فرعونیوں نے کلیم اللہ سے کہا تھا کہ جو بھلائیاں ہمیں ملتی ہیں ان کے لائق تو ہم ہیں لیکن جو برائیاں پہنچتی ہیں وہ سب تیری اور تیرے ساتھیوں کی وجہ سے ہیں اور آیت میں ہے ( وَاِنْ تُصِبْھُمْ حَسَـنَةٌ يَّقُوْلُوْا هٰذِهٖ مِنْ عِنْدِ اللّٰهِ ۚ وَاِنْ تُصِبْھُمْ سَيِّئَةٌ يَّقُوْلُوْا هٰذِهٖ مِنْ عِنْدِكَ ۭقُلْ كُلٌّ مِّنْ عِنْدِ اللّٰهِ ۭ فَمَالِ هٰٓؤُلَاۗءِ الْقَوْمِ لَا يَكَادُوْنَ يَفْقَهُوْنَ حَدِيْثًا 78 ) 4- النسآء:78 ) یعنی اگر انہیں کوئی بھلائی مل جاتی ہے تو کہتے ہیں یہ اللہ کی طرف سے اور اگر انہیں کوئی برائی پہنچ جاتی ہے تو کہتے ہیں یہ تیری جانب سے ہے تو کہہ دے کہ سب کچھ اللہ ہی کی طرف سے ہے یعنی اللہ کی قضا و قدر سے ہے ۔ سورہ یسین میں بھی کفار کا اپنے نبیوں کو یہی کہنا موجود ہے آیت ( قَالُوْٓا اِنَّا تَــطَيَّرْنَا بِكُمْ ۚ لَىِٕنْ لَّمْ تَنْتَهُوْا لَنَرْجُمَنَّكُمْ وَلَيَمَسَّـنَّكُمْ مِّنَّا عَذَابٌ اَلِــيْمٌ 18 ) 36-يس:18 ) ہم تو آپ سے بدشگونی لیتے ہیں اگر تم لوگ باز نہ رہے تو ہم تمہیں سنگسار کردیں گے اور سخت دیں گے ۔ نبیوں نے جواب دیا کہ تمہاری بدشگونی تو ہر وقت تمہارے وجود میں موجود ہے ۔ یہاں ہے کہ حضرت صالح نے جواب دیا کہ تمہاری بدشگونی تو اللہ کے پاس ہے یعنی وہی تمہیں اس کا بدلہ دے گا ۔ بلکہ تم تو فتنے میں ڈالے ہوئے لوگ ہو تمہیں آزمایا جارہا ہے اطاعت سے بھی اور معصیت سے بھی اور باوجود تمہاری معصیت کے تمہیں ڈھیل دی جارہی ہے یہ اللہ کی طرف سے مہلت ہے اس کے بعد پکڑے جاؤ گے ۔
4 5 1ان سے مراد کافر اور مومن ہیں، جھگڑنے کا مطلب ہر فریق کا یہ دعویٰ ہے کہ وہ حق پر ہے۔
[٤٥] اور یہ معاملہ صرف صالح (علیہ السلام) سے ہی مختص نہیں بلکہ ہر نبی کی دعوت پر یہی کچھ ہوتا ہے کہ کچھ انصاف پسند، معاشرتی ناہمواریوں سے بیزار اور مظلوم قسم کے انسان نبی کی دعوت پر لبیک کہتے ہیں۔ اور چودھری قسم کے کھاتے پیتے اور اثرو رسوخ رکھنے والے لوگ نبی کے دشمن بن جاتے ہین۔ پھر وہ ان کی آپس میں ٹھن جاتی ہے اور حق و باطل کے معرکہ کا آغاز ہوجاتا ہے یہی صورت حال قوم ثمود میں بھی رونما ہوگئی تھی۔
وَلَقَدْ اَرْسَلْنَآ اِلٰى ثَمُوْدَ اَخَاهُمْ ۔۔ : اس کا عطف ” وَلَقَدْ اٰتَيْنَا دَاوٗدَ وَسُلَيْمٰنَ عِلْمًا “ پر ہے اور یہ موسیٰ اور داؤد و سلیمان کے قصوں کے بعد تیسرا قصہ ہے۔ اس کی تفصیلات کے لیے دیکھیے سورة اعراف (٧٣ تا ٧٩) ، ہود (٦١ تا ٦٨) ، شعراء (١٤١ تا ١٥٩) ، قمر (٢٣ تا ٣٢ ) اور شمس (١١ تا ١٥) ملکہ سبا اور اس کی قوم عزت و سلطنت کے باوجود سلیمان (علیہ السلام) کی دعوت پر اسلام لے آئی۔ اب صالح (علیہ السلام) کی قوم کا ذکر ہوتا ہے جو صالح (علیہ السلام) کی بعثت پر دو گرہوں میں بٹ گئی۔ ایک مومن و مسلم جو عموماً ” مستضعفین “ (کمزور) تھے، دوسرا کافر و منکر جو ” مستکبرین “ (متکبر لوگ) تھے۔ دو گروہ بنتے ہی ان کے درمیان سخت جھگڑا شروع ہوگیا، جیسا کہ دوسری جگہ فرمایا : (قَالَ الْمَلَاُ الَّذِيْنَ اسْتَكْبَرُوْا مِنْ قَوْمِهٖ لِلَّذِيْنَ اسْتُضْعِفُوْا لِمَنْ اٰمَنَ مِنْهُمْ اَتَعْلَمُوْنَ اَنَّ صٰلِحًا مُّرْسَلٌ مِّنْ رَّبِّهٖ ۭقَالُوْٓا اِنَّا بِمَآ اُرْسِلَ بِهٖ مُؤْمِنُوْنَ قَالَ الَّذِيْنَ اسْتَكْبَرُوْٓا اِنَّا بالَّذِيْٓ اٰمَنْتُمْ بِهٖ كٰفِرُوْنَ ) [ الأعراف : ٧٥، ٧٦ ] ” اس کی قوم میں سے ان سرداروں نے جو بڑے بنے ہوئے تھے، ان لوگوں سے کہا جو کمزور گنے جاتے تھے، ان میں سے انھیں (کہا) جو ایمان لے آئے تھے، کیا تم جانتے ہو کہ واقعی صالح اپنے رب کی طرف سے بھیجا ہوا ہے ؟ انھوں نے کہا بیشک ہم جو کچھ دے کر اسے بھیجا گیا ہے اس پر ایمان لانے والے ہیں۔ وہ لوگ جو بڑے بنے ہوئے تھے، انھوں نے کہا بیشک ہم جس پر تم ایمان لائے ہو، اس کے منکر ہیں۔ “ یہی صورت حال رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت کے ساتھ مکہ میں بھی پیدا ہوئی کہ قوم دو گروہوں میں بٹ گئی اور یہ جھگڑا اس وقت تک جاری رہا جب تک اللہ تعالیٰ کے فضل سے جزیرۂ عرب پورے کا پورا اسلام کے زیر نگیں نہیں آگیا اور کفار یا تو ذلیل و خوار ہو کر مردار ہوئے یا اسلام کے سایۂ رحمت میں آگئے۔ یہ قصہ ان حالات کے عین مطابق تھا جن میں یہ آیات نازل ہوئیں۔
خلاصہ تفسیر - اور ہم نے (قوم) ثمود کے پاس ان کے (برادری کے) بھائی صالح کو (پیغمبر بنا کر) بھیجا (یہ پیغام دے کر) کہ تم (شرک کو چھوڑ کر) اللہ کی عبادت کرو (چاہئے تو یہ تھا کہ سب ایمان لے آتے مگر خلاف توقع) اچانک ان میں دو فریق ہوگئے جو دین کے بارے میں باہم جھگڑنے لگے (یعنی ایک فرقہ تو ایمان لایا اور ایک نہ لایا اور ان میں جو جھگڑا اور کلام ہوا بعض اس میں کا سورة اعراف میں مذکورہ ہے قال الْمَلَاُ الَّذِيْنَ اسْتَكْبَرُوْا مِنْ قَوْمِهٖ لِلَّذِيْنَ اسْتُضْعِفُوْا، اور بعض اس میں کا آگے مذکور ہے قالوا اطَّيَّرْنَا بِكَ الخ اور جب ان لوگوں نے کفر پر اصرار کیا تو صالح (علیہ السلام) نے موافق عادت انبیاء (علیہم السلام) کے ان کو عذاب الہی سے ڈرایا جیسا سورة اعراف میں ہے فَيَاْخُذَكُمْ عَذَابٌ اَلِيْمٌ تو انہوں نے کہا کہ لاؤ وہ عذاب کہاں ہے جیسا سورة اعراف میں ہے وَقَالُوْا يٰصٰلِحُ ائْتِنَا بِمَا تَعِدُنَآ اِنْ كُنْتَ مِنَ الْمُرْسَلِيْنَ اس پر) صالح (علیہ السلام) نے فرمایا کہ ارے بھائیو تم نیک کام (یعنی توبہ و ایمان) سے پہلے عذاب کیوں جلدی مانگتے ہو (یعنی چاہئے تو یہ تھا کہ عذاب کی وعید سن کر ایمان لے آتے نہ یہ کہ ایمان تو نہ لائے اور بالعکس اس عذاب ہی کی درخواست کرنے لگے بڑی بیباکی کی بات ہے۔ بجائے اس استعمال عذاب کے) تم لوگ اللہ کے سامنے (کفر سے) معافی کیوں نہیں چاہتے جس سے توقع ہو کہ تم پر رحم کیا جاوے (یعنی عذاب سے محفوظ رہو) وہ لوگ کہنے لگے کہ ہم تو تم کو اور تمہارے ساتھ والوں کو منحوس سمجھتے ہیں (کہ جب سے تم نے یہ مذہب نکالا ہے اور تمہاری یہ جماعت پیدا ہوئی ہے قوم میں نا اتفاقی ہوگئی اور نا اتفاقی کی جو مضرتیں اور خرابیاں ہوتی ہیں وہ سب مرتب ہونے لگیں۔ بس سبب ان تمام خرابیوں کے تم لوگ ہو) صالح (علیہ السلام) نے (جواب میں) فرمایا کہ تمہاری (اس) نحوست (کا سبب) اللہ کے علم میں ہے (یعنی تمہارے اعمال کفریہ اللہ کو معلوم ہیں یہ خرابیاں ان ہی اعمال پر مرتب ہیں۔ چناچہ ظاہر ہے کہ نا اتفاقی مذموم وہی ہے جو حق کے خلاف کرنے سے ہو تو اس کا الزام ایمان والوں پر نہیں ہوسکتا بلکہ اہل کفر پر ہوگا اور بعض تفاسیر میں ہے کہ ان پر قحط ہوا تھا اور تمہارے کفر کی مضرت کچھ ان شرور ہی تک ختم نہیں ہوئی) بلکہ تم وہ لوگ ہو کہ (اس کفر کی بدولت) عذاب میں مبتلا ہوگئے اور (یوں تو کافر اس قوم میں بہت تھے لیکن سرغنہ) اس بستی (یعنی حجر) میں نو شخص تھے جو سر زمین (یعنی بستی سے باہر تک بھی) فساد کیا کرتے تھے اور (ذرا) اصلاح نہ کرتے تھے (یعنی بعضے مفسد ایسے ہوتے ہیں کہ کچھ فساد کیا کچھ اصلاح کرلی مگر وہ ایسے نہ تھے بلکہ خاص مفسد تھے چناچہ ایک بار یہ فساد کیا کہ) انہوں نے (ایک دوسرے سے) کہا کہ آپس میں سب (اس پر) اللہ کی قسم کھاؤ کہ ہم شب کے وقت صالح اور ان کے متعلقین (یعنی ایمان والوں) کو جا ماریں گے پھر (اگر تحقیق کی نوبت آئی تو) ہم ان کے وارث سے (جو خون کا دعویٰ کرے گا) کہہ دیں گے کہ ان کے متعلقین کے (اور خود ان کے) مارے جانے میں موجود (بھی) نہ تھے (مارنا تو درکنار) اور (تاکید کے لئے یہ بھی کہہ دیں گے کہ) ہم بالکل سچے ہیں۔ (اور گواہ کوئی معائنہ کا ہوگا نہیں۔ بس بات دب دبا جاوے گی) اور (یہ مشورہ کر کے) انہوں نے ایک خفیہ تدبیر کی (کہ شب کے وقت اس کارروائی کے لئے چلے) اور ایک خفیہ تدبیر ہم نے کی اور ان کو خبر بھی نہ ہوئی (وہ یہ کہ ایک پہاڑ پر سے ایک پتھر ان پر لڑھک آیا اور وہ سب وہاں ہی کھیت رہے یعنی ہلاک ہوئے۔ کذافی الدر المنثور) سو دیکھئے ان کی شرارت کا کیا انجام ہوا کہ ہم نے ان کو (بطریق مذکور) اور (پھر) ان کی (باقی) قوم کو (آسمانی عذاب سے) سب کو غارت کردیا (جس کا قصہ دوسری آیات میں ہے فَعَقَرُوا النَّاقَةَ الی فَاَخَذَتْهُمُ الرَّجْفَةُ ، وَاَخَذَ الَّذِيْنَ ظَلَمُوا الصَّيْحَةُ ) سو یہ ان کے گھر ہیں جو ویران پڑے ہیں ان کے کفر کے سبب سے (جو اہل مکہ کو ملک شام کے سفر میں ملتے ہیں) بلاشبہ اس (واقعہ) میں بڑی عبرت ہے دانشمندوں کے لئے اور ہم نے ایمان اور تقوی والوں کو (اس قتل سے بھی جس کا مشورہ ہوا تھا اور عذاب قہری سے بھی) نجات دی۔
وَلَقَدْ اَرْسَلْنَآ اِلٰى ثَمُوْدَ اَخَاہُمْ صٰلِحًا اَنِ اعْبُدُوا اللہَ فَاِذَا ہُمْ فَرِيْقٰنِ يَخْتَصِمُوْنَ ٤٥- رسل - وجمع الرّسول رُسُلٌ. ورُسُلُ اللہ تارة يراد بها الملائكة، وتارة يراد بها الأنبیاء، فمن الملائكة قوله تعالی: إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير 19] ، وقوله : إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود 81] ، - ( ر س ل ) الرسل - اور رسول کی جمع رسل آتہ ہے اور قرآن پاک میں رسول اور رسل اللہ سے مراد کبھی فرشتے ہوتے ہیں جیسے فرمایا : إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير 19] کہ یہ ( قرآن ) بیشک معزز فرشتے ( یعنی جبریل ) کا ( پہنچایا ہوا ) پیام ہے ۔ إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود 81] ہم تمہارے پروردگار کے بھجے ہوئے ہی یہ لوگ تم تک نہیں پہنچ پائیں گے ۔ - ثمد - ثَمُود قيل : هو أعجمي، وقیل : هو عربيّ ، وترک صرفه لکونه اسم قبیلة، أو أرض، ومن صرفه جعله اسم حيّ أو أب، لأنه يذكر فعول من الثَّمَد، وهو الماء القلیل الذي لا مادّة له، ومنه قيل : فلان مَثْمُود، ثَمَدَتْهُ النساء أي :- قطعن مادّة مائه لکثرة غشیانه لهنّ ، ومَثْمُود : إذا کثر عليه السّؤال حتی فقد مادة ماله .- ( ث م د ) ثمود - ( حضرت صالح کی قوم کا نام ) بعض اسے معرب بتاتے ہیں اور قوم کا علم ہونے کی ہوجہ سے غیر منصرف ہے اور بعض کے نزدیک عربی ہے اور ثمد سے مشتق سے ( بروزن فعول ) اور ثمد ( بارش) کے تھوڑے سے پانی کو کہتے ہیں جو جاری نہ ہو ۔ اسی سے رجل مثمود کا محاورہ ہے یعنی وہ آدمی جس میں عورتوں سے کثرت جماع کے سبب مادہ منویہ باقی نہ رہے ۔ نیز مثمود اس شخص کو بھی کہا جاتا ہے جسے سوال کرنے والوں نے مفلس کردیا ہو ۔- أخ - أخ الأصل أخو، وهو : المشارک آخر في الولادة من الطرفین، أو من أحدهما أو من الرضاع . ويستعار في كل مشارک لغیره في القبیلة، أو في الدّين، أو في صنعة، أو في معاملة أو في مودّة، وفي غير ذلک من المناسبات . قوله تعالی: لا تَكُونُوا كَالَّذِينَ كَفَرُوا وَقالُوا لِإِخْوانِهِمْ [ آل عمران 156] ، أي : لمشارکيهم في الکفروقوله تعالی: أَخا عادٍ [ الأحقاف 21] ، سمّاه أخاً تنبيهاً علی إشفاقه عليهم شفقة الأخ علی أخيه، وعلی هذا قوله تعالی: وَإِلى ثَمُودَ أَخاهُمْ [ الأعراف 73] وَإِلى عادٍ أَخاهُمْ [ الأعراف 65] ، وَإِلى مَدْيَنَ أَخاهُمْ [ الأعراف 85] ، - ( اخ و ) اخ - ( بھائی ) اصل میں اخو ہے اور ہر وہ شخص جو کسی دوسرے شخص کا ولادت میں ماں باپ دونوں یا ان میں سے ایک کی طرف سے یا رضاعت میں شریک ہو وہ اس کا اخ کہلاتا ہے لیکن بطور استعارہ اس کا استعمال عام ہے اور ہر اس شخص کو جو قبیلہ دین و مذہب صنعت وحرفت دوستی یا کسی دیگر معاملہ میں دوسرے کا شریک ہو اسے اخ کہا جاتا ہے چناچہ آیت کریمہ :۔ لَا تَكُونُوا كَالَّذِينَ كَفَرُوا وَقَالُوا لِإِخْوَانِهِمْ ( سورة آل عمران 156) ان لوگوں جیسے نہ ہونا جو کفر کرتے ہیں اور اپنے مسلمان بھائیوں کی نسبت کہتے ہیں ۔ میں اخوان سے ان کے ہم مشرب لوگ مراد ہیں اور آیت کریمہ :۔ أَخَا عَادٍ ( سورة الأَحقاف 21) میں ہود (علیہ السلام) کو قوم عاد کا بھائی کہنے سے اس بات پر تنبیہ کرنا مقصود ہے کہ وہ ان پر بھائیوں کی طرح شفقت فرماتے تھے اسی معنی کے اعتبار سے فرمایا : ۔ وَإِلَى ثَمُودَ أَخَاهُمْ صَالِحًا ( سورة هود 61) اور ثمود کی طرف ان کے بھائی صالح کو بھیجا ۔ وَإِلَى عَادٍ أَخَاهُمْ ( سورة هود 50) اور ہم نے عاد کی طرف ان کے بھائی ( ہود ) کو بھیجا ۔ وَإِلَى مَدْيَنَ أَخَاهُمْ شُعَيْبًا ( سورة هود 84) اور مدین کی طرف ان کے بھائی ( شعیب ) کو بھیجا ۔- عبد - العُبُودِيَّةُ : إظهار التّذلّل، والعِبَادَةُ أبلغُ منها، لأنها غاية التّذلّل، ولا يستحقّها إلا من له غاية الإفضال، وهو اللہ تعالی، ولهذا قال : أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء 23] .- ( ع ب د ) العبودیۃ - کے معنی ہیں کسی کے سامنے ذلت اور انکساری ظاہر کرنا مگر العبادۃ کا لفظ انتہائی درجہ کی ذلت اور انکساری ظاہر کرنے بولا جاتا ہے اس سے ثابت ہوا کہ معنوی اعتبار سے العبادۃ کا لفظ العبودیۃ سے زیادہ بلیغ ہے لہذا عبادت کی مستحق بھی وہی ذات ہوسکتی ہے جو بےحد صاحب افضال وانعام ہو اور ایسی ذات صرف الہی ہی ہے اسی لئے فرمایا : أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء 23] کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو ۔ - فریق - والفَرِيقُ : الجماعة المتفرّقة عن آخرین،- قال : وَإِنَّ مِنْهُمْ لَفَرِيقاً يَلْوُونَ أَلْسِنَتَهُمْ بِالْكِتابِ [ آل عمران 78] - ( ف ر ق ) الفریق - اور فریق اس جماعت کو کہتے ہیں جو دوسروں سے الگ ہو ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَإِنَّ مِنْهُمْ لَفَرِيقاً يَلْوُونَ أَلْسِنَتَهُمْ بِالْكِتابِ [ آل عمران 78] اور اہل کتاب میں بعض ایسے ہیں کہ کتاب تو راہ کو زبان مروڑ مروڑ کر پڑھتے ہیں ۔ - خصم - الخَصْمُ مصدر خَصَمْتُهُ ، أي : نازعته خَصْماً ، يقال : خاصمته وخَصَمْتُهُ مُخَاصَمَةً وخِصَاماً ، قال تعالی: وَهُوَ أَلَدُّ الْخِصامِ [ البقرة 204] ، وَهُوَ فِي الْخِصامِ غَيْرُ مُبِينٍ [ الزخرف 18] ، ثم سمّي المُخَاصِم خصما، واستعمل للواحد والجمع، وربّما ثنّي، وأصل المُخَاصَمَة : أن يتعلّق كلّ واحد بخصم الآخر، أي جانبه وأن يجذب کلّ واحد خصم الجوالق من جانب، وروي : ( نسیته في خصم فراشي) «1» والجمع خُصُوم وأخصام، وقوله : خَصْمانِ اخْتَصَمُوا - [ الحج 19] ، أي : فریقان، ولذلک قال : اخْتَصَمُوا وقال : لا تَخْتَصِمُوا لَدَيَّ [ ق 28] ، وقال : وَهُمْ فِيها يَخْتَصِمُونَ [ الشعراء 96] ، والخَصِيمُ : الكثير المخاصمة، قال : هُوَ خَصِيمٌ مُبِينٌ [ النحل 4] ، والخَصِمُ : المختصّ بالخصومة، قال : بَلْ هُمْ قَوْمٌ خَصِمُونَ [ الزخرف 58] .- ( خ ص م ) الخصم - ۔ یہ خصمتہ کا مصدر ہے جس کے معنی جھگڑنے کے ہیں کہاجاتا ہے خصمتہ وخاصمتہ مخاصمۃ وخصاما کسی سے جھگڑا کر نا قرآن میں ہے :۔ وَهُوَ أَلَدُّ الْخِصامِ [ البقرة 204] اور وہ حالانکہ سخت جھگڑا لو ہے ۔ وَهُوَ فِي الْخِصامِ غَيْرُ مُبِينٍ [ الزخرف 18] اور جھگڑنے کے وقت بات نہ کرسکے ۔ اور مخاصم کو خصم کہا جات ہے ، اور خصم کا لفظ واحد جمع دونوں کے لئے استعمال ہوتا ہے مگر کبھی تثنیہ بھی آجاتا ہے۔ اصل میں خصم کے معنی کنارہ کے ہیں ۔ اور مخاصمت کے معنی ایک دوسرے سے کو کنارہ سے پکڑنے کے ہیں ۔ اور بوری کو کونے سے پکڑکر کھینچنے کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے ۔ ایک حدیث میں ہے :۔ (114) نسی تھا فی خصم فراشی کہ میں اسے اپنے بسترہ کے کونے میں بھول آیا ہوں خصم کی جمع خصوم واخصام آتی ہے اور آیت کریمہ ؛۔ اخْتَصَمُوا[ الحج 19] دوفریق جھگڑتے ہیں ۔ میں خصما ن سے دو فریق مراد ہیں اسی لئے اختصموا آیا ہے ۔ - الاختصام - ( افتعال ) ایک دوسرے سے جھگڑنا ۔ قرآن میں ہے :۔ لا تَخْتَصِمُوا لَدَيَّ [ ق 28] ہمارے حضور رد کد نہ کرو ۔ وَهُمْ فِيها يَخْتَصِمُونَ [ الشعراء 96] ۔۔۔۔ وہ آپس میں جھگڑیں گے ۔- الخصیم - ۔ جھگڑا لو بہت زیادہ جھگڑا کرنے والا جیسے فرمایا :۔ هُوَ خَصِيمٌ مُبِينٌ [ النحل 4] مگر وہ ( اس بارے میں ) علانیہ جھگڑنے لگا ۔ الخصم سخٹ جھگڑالو جس کا شیوہ ہ جھگڑنا ہو ۔ قرآن میں ہے :َ بَلْ هُمْ قَوْمٌ خَصِمُونَ [ الزخرف 58] حقیقت یہ ہے ۔ یہ لوگ ہیں ہی جھگڑا لو،- لو ۔
(٤٥) اور ہم نے قوم ثمود کی طرف ان کے نبی حضرت صالح (علیہ السلام) کو یہ پیغام دے کر بھیجا کہ تم کفر وشرک سے توبہ کرو اور توحید خداوندی کا اقرار کرلو تو ان میں مومن و کافر کے دو گروہ ہوگئے جو دین کے بارے میں باہم جھگڑنے لگے۔
سورة النمل حاشیہ نمبر : 57 تقابل کے لیے ملاحظہ ہو الاعراف ، آیات 73 تا 79 ۔ ہود 61 تا 68 ۔ الشعراء 141 تا 159 ۔ القمر 23 تا 32 ۔ الشمس ، آیات 11 تا 15 سورة النمل حاشیہ نمبر : 58 یعنی جونہی کہ حضرت صالح کی دعوت کا آغاز ہوا ، ان کی قوم دو گروہوں میں بٹ گئی ۔ ایک گروہ ایمان لانے والوں کا ، دوسرا گروہ انکار کرنے والوں کا ، اور اس تفرقہ کے ساتھ ہی ان کے درمیان کش مکش شروع ہوگئی ، جیسا کہ قرآن مجید میں دوسری جگہ ارشاد ہوا ہے : قَالَ الْمَلَاُ الَّذِيْنَ اسْتَكْبَرُوْا مِنْ قَوْمِهٖ لِلَّذِيْنَ اسْتُضْعِفُوْا لِمَنْ اٰمَنَ مِنْهُمْ اَتَعْلَمُوْنَ اَنَّ صٰلِحًا مُّرْسَلٌ مِّنْ رَّبِّهٖ ۭقَالُوْٓا اِنَّا بِمَآ اُرْسِلَ بِهٖ مُؤْمِنُوْنَ ۔ قَالَ الَّذِيْنَ اسْتَكْبَرُوْٓا اِنَّا بِالَّذِيْٓ اٰمَنْتُمْ بِهٖ كٰفِرُوْنَ ۔ اس کی قوم میں سے جو سردار اپنی بڑائی کا گھمنڈ رکھتے تھے انہوں نے ان لوگوں سے جو کمزور بنا کر رکھے گئے تھے ، جو ان سے ایمان لائے تھے ، کہا کیا واقعی تم یہ جانتے ہو کہ صالح اپنے رب کی طرف سے بھیجا گیا ہے؟ انہوں نے جوابد یا ہم اس چیز پر ایمان رکھتے ہیں جس کو لے کر وہ بھیجے گئے ہیں ، ان متکبرین نے کہا جس چیز پر تم ایمان لائے ہو اس کے ہم کافر ہیں ۔ ( الاعراف ، آیات 75 ۔ 76 ) یاد رہے کہ ٹھیک یہی صورت حال محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے ساتھ مکہ میں بھی پیدا ہوئی تھی کہ قوم دو حصوں میں بٹ گئ اور اس کے ساتھ ہی ان دونوں گروہوں میں کش مکش شروع ہوگئی ۔ اس لیے یہ قصہ آپ سے آپ ان حالات پر چسپاں ہورہا تھا جن میں یہ آیات نازل ہوئیں ۔
21: قوم ثمود اور حضرت صالح (علیہ السلام) کا تعارف پیچھے سورۃ اعراف : 72 اور سورۃ ہود : 61 تا 68 میں گذر چکا ہے۔