4 6 1یعنی ایمان قبول کرنے کی بجائے، تم کفر ہی پر کیوں اصرار کر رہے ہو، جو عذاب کا باعث ہے۔ علاوہ ازیں اپنے عناد و سرکشی کی وجہ سے کہتے بھی تھے کہ ہم پر عذاب لے آ۔ جس کے جواب میں حضرت صالح (علیہ السلام) نے یہ کہا۔
[٤٦] مخالفین یا چودھری حضرات چونکہ نبی کی نبوت کے ہی منکر ہوتے ہیں لہذا وہ اس کی ہر بات کو جھوٹا سمجھتے ہیں۔ نبی انھیں بھلے کاموں کی دعوت دیتا ہے اور پہلے سے کئے ہوئے برے کاموں سے توبہ و استغفار کی تلقین کرتا ہے۔ نیز برے کاموں کے انجام بد اور عذاب الٰہی سے ڈراتا ہے۔ تو متکبر لوگ نبی سے یوں کہنے لگتے ہیں کہ اگر تم سچے ہو تو اب تک ہم پر وہ عذاب آیا کیوں نہیں۔ جس کی تم رٹ لگا رہے ہو۔ اور جو کرنے کے کام ہوتے ہیں یعنی اللہ سے مغفرت اور رحمت طلبی، ان باتوں کی طرف وہ توجہ ہی نہیں کرتے۔ صالح (علیہ السلام) نے ان کے اسی طرز عمل پر تنقید فرمائی ہے۔
قَالَ يٰقَوْمِ لِمَ تَسْتَعْجِلُوْنَ ۔۔ : ” اَلسَّیِّءَۃُ “ سے مراد عذاب ہے اور ” اَلْحَسَنَةَ “ سے مراد رحمت ہے۔ صالح (علیہ السلام) نے اپنی قوم کو اللہ کے عذاب سے ڈرایا تو ڈرنے کے بجائے انھوں نے اسے مذاق بنا لیا اور اسے جلد از جلد لانے کا مطالبہ کرنے لگے۔ صالح (علیہ السلام) نے نہایت نرمی اور محبت سے ” اے میری قوم “ کہہ کر انھیں نصیحت کی کہ بجائے اس کے کہ تم اللہ سے خیر و رحمت کے طلب گار بنو، الٹا اس سے عذاب مانگنے میں کیوں جلدی مچاتے ہو ؟ اہل مکہ کے لیے اس واقعہ میں سبق تھا، کیونکہ وہ بھی اسی طرح رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے جلدی عذاب لانے کا مطالبہ کرتے رہتے تھے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (وَيَسْتَعْجِلُوْنَكَ بالْعَذَابِ ۭ وَلَوْلَآ اَجَلٌ مُّسَمًّى لَّجَاۗءَهُمُ الْعَذَابُ ۭ وَلَيَاْتِيَنَّهُمْ بَغْتَةً وَّهُمْ لَا يَشْعُرُوْنَ ) [ العنکبوت : ٥٣ ] ” اور وہ تجھ سے جلدی عذاب کا مطالبہ کرتے ہیں اور اگر ایک مقرر وقت نہ ہوتا تو ان پر عذاب ضرور آجاتا اور یقیناً وہ ان پر ضرور اچانک آئے گا اور وہ شعور نہ رکھتے ہوں گے۔ “ حتیٰ کہ وہ یہاں تک کہہ گزرے : (اللّٰهُمَّ اِنْ كَانَ هٰذَا هُوَ الْحَقَّ مِنْ عِنْدِكَ فَاَمْطِرْ عَلَيْنَا حِجَارَةً مِّنَ السَّمَاۗءِ ) [ الأنفال : ٣٢ ] ” اے اللہ اگر صرف یہی تیری طرف سے حق ہے تو ہم پر آسمان سے پتھر برسا۔ “- لَوْلَا تَسْتَغْفِرُوْنَ اللّٰهَ ۔۔ : یعنی عذاب میں تاخیر سے حاصل ہونے والی مہلت سے فائدہ اٹھا کر تم اللہ تعالیٰ سے اپنے گناہوں کی بخشش کیوں نہیں مانگتے، تاکہ تم پر رحم کیا جائے، کیونکہ عذاب آجانے پر توبہ و استغفار کا کوئی فائدہ نہیں۔
قَالَ يٰقَوْمِ لِمَ تَسْتَعْجِلُوْنَ بِالسَّيِّئَۃِ قَبْلَ الْحَسَنَۃِ ٠ۚ لَوْلَا تَسْتَغْفِرُوْنَ اللہَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُوْنَ ٤٦- قوم - والقَوْمُ : جماعة الرّجال في الأصل دون النّساء، ولذلک قال : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات 11] ، - ( ق و م ) قيام - القوم۔ یہ اصل میں صرف مرودں کی جماعت پر بولا جاتا ہے جس میں عورتیں شامل نہ ہوں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات 11] - عجل - العَجَلَةُ : طلب الشیء وتحرّيه قبل أوانه، وهو من مقتضی الشّهوة، فلذلک صارت مذمومة في عامّة القرآن حتی قيل : «العَجَلَةُ من الشّيطان» «2» . قال تعالی: سَأُرِيكُمْ آياتِي فَلا تَسْتَعْجِلُونِ [ الأنبیاء 37] ،- ( ع ج ل ) العجلۃ - کسی چیز کو اس کے وقت سے پہلے ہی حاصل کرنے کی کوشش کرنا اس کا تعلق چونکہ خواہش نفسانی سے ہوتا ہے اس لئے عام طور پر قرآن میں اس کی مذمت کی گئی ہے حتی کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا العجلۃ من الشیطان ( کہ جلد بازی شیطان سے ہے قرآن میں ہے : سَأُرِيكُمْ آياتِي فَلا تَسْتَعْجِلُونِ [ الأنبیاء 37] میں تم لوگوں کو عنقریب اپنی نشانیاں دکھاؤ نگا لہذا اس کے لئے جلدی نہ کرو ۔ - سَّيِّئَةُ :- الفعلة القبیحة، وهي ضدّ الحسنة، قال : ثُمَّ كانَ عاقِبَةَ الَّذِينَ أَساؤُا السُّوای[ الروم 10]: بَلى مَنْ كَسَبَ سَيِّئَةً [ البقرة 81] - سَّيِّئَةُ :- اور ہر وہ چیز جو قبیح ہو اسے سَّيِّئَةُ :،- ، سے تعبیر کرتے ہیں ۔ اسی لئے یہ لفظ ، ، الحسنیٰ ، ، کے مقابلہ میں آتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ثُمَّ كانَ عاقِبَةَ الَّذِينَ أَساؤُا السُّوای[ الروم 10] پھر جن لوگوں نے برائی کی ان کا انجام بھی برا ہوا ۔ چناچہ قرآن میں ہے اور سیئۃ کے معنی برائی کے ہیں اور یہ حسنۃ کی ضد ہے قرآن میں ہے : بَلى مَنْ كَسَبَ سَيِّئَةً [ البقرة 81] جو برے کام کرے - حسنة- والحسنةُ يعبّر عنها عن کلّ ما يسرّ من نعمة تنال الإنسان في نفسه وبدنه وأحواله، والسيئة تضادّها . وهما من الألفاظ المشترکة، کالحیوان، الواقع علی أنواع مختلفة کالفرس والإنسان وغیرهما، فقوله تعالی: وَإِنْ تُصِبْهُمْ حَسَنَةٌ يَقُولُوا : هذِهِ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ [ النساء 78] ، أي : خصب وسعة وظفر، وَإِنْ تُصِبْهُمْ سَيِّئَةٌ أي : جدب وضیق وخیبة «1» ، يَقُولُوا : هذِهِ مِنْ عِنْدِكَ قُلْ : كُلٌّ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ [ النساء 78] - والفرق بين الحسن والحسنة والحسنی - أنّ الحَسَنَ يقال في الأعيان والأحداث، وکذلک الحَسَنَة إذا کانت وصفا، وإذا کانت اسما فمتعارف في الأحداث، والحُسْنَى لا يقال إلا في الأحداث دون الأعيان، والحسن أكثر ما يقال في تعارف العامة في المستحسن بالبصر، يقال : رجل حَسَنٌ وحُسَّان، وامرأة حَسْنَاء وحُسَّانَة، وأكثر ما جاء في القرآن من الحسن فللمستحسن من جهة البصیرة، وقوله تعالی: الَّذِينَ يَسْتَمِعُونَ الْقَوْلَ فَيَتَّبِعُونَ أَحْسَنَهُ [ الزمر 18] ، أي : الأ بعد عن الشبهة، - ( ح س ن ) الحسن - الحسنتہ ہر وہ نعمت جو انسان کو اس کے نفس یا بدن یا اس کی کسی حالت میں حاصل ہو کر اس کے لئے مسرت کا سبب بنے حسنتہ کہلاتی ہے اس کی ضد سیئتہ ہے اور یہ دونوں الفاظ مشترکہ کے قبیل سے ہیں اور لفظ حیوان کی طرح مختلف الواع کو شامل ہیں چناچہ آیت کریمہ ۔ وَإِنْ تُصِبْهُمْ حَسَنَةٌ يَقُولُوا : هذِهِ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ [ النساء 78] اور ان لوگوں کو اگر کوئی فائدہ پہنچتا ہے تو کہتے ہیں کہ یہ خدا کی طرف سے ہے اور اگر کوئی گزند پہنچتا ہے ۔ میں حسنتہ سے مراد فراخ سالی وسعت اور نا کامی مراد ہے - الحسن والحسنتہ اور الحسنی یہ تین لفظ ہیں ۔- اور ان میں فرق یہ ہے کہ حسن اعیان واغراض دونوں کے لئے استعمال ہوتا ہے اسی طرح حسنتہ جب بطور صفت استعمال ہو تو دونوں پر بولا جاتا ہے اور اسم ہوکر استعمال ہو تو زیادہ تر احدث ( احوال ) میں استعمال ہوتا ہے اور حسنی کا لفظ صرف احداث کے متعلق بو لاجاتا ہے ۔ اعیان کے لئے استعمال نہیں ہوتا ۔ اور الحسن کا لفظ عرف عام میں اس چیز کے متعلق استعمال ہوتا ہے جو بظاہر دیکھنے میں بھلی معلوم ہو جیسے کہا جاتا ہے رجل حسن حسان وامرءۃ حسنتہ وحسانتہ لیکن قرآن میں حسن کا لفظ زیادہ تر اس چیز کے متعلق استعمال ہوا ہے جو عقل وبصیرت کی رو سے اچھی ہو اور آیتکریمہ : الَّذِينَ يَسْتَمِعُونَ الْقَوْلَ فَيَتَّبِعُونَ أَحْسَنَهُ [ الزمر 18] جو بات کو سنتے اور اچھی باتوں کی پیروی کرتے ہیں ۔ - استغفار - الغَفْرُ : إلباس ما يصونه عن الدّنس،- والاسْتِغْفَارُ : طلب ذلک بالمقال والفعال، وقوله : اسْتَغْفِرُوا رَبَّكُمْ إِنَّهُ كانَ غَفَّاراً [ نوح 10] - ( غ ف ر ) الغفر - ( ض ) کے معنی کسی کو ایسی چیز پہنا دینے کے ہیں جو اسے میل کچیل سے محفوظ رکھ سکے - اور استغفار کے معنی قول اور عمل سے مغفرت طلب کرنے کے ہیں لہذا آیت کریمہ : ۔ اسْتَغْفِرُوا رَبَّكُمْ إِنَّهُ كانَ غَفَّاراً [ نوح 10] اپنے پروردگار سے معافی مانگو کہ بڑا معاف کر نیوالا ہے ۔ - لعل - لَعَلَّ : طمع وإشفاق، وذکر بعض المفسّرين أنّ «لَعَلَّ» من اللہ واجب، وفسّر في كثير من المواضع ب «كي» ، وقالوا : إنّ الطّمع والإشفاق لا يصحّ علی اللہ تعالی، و «لعلّ» وإن کان طمعا فإن ذلك يقتضي في کلامهم تارة طمع المخاطب، وتارة طمع غيرهما . فقوله تعالیٰ فيما ذکر عن قوم فرعون : لَعَلَّنا نَتَّبِعُ السَّحَرَةَ [ الشعراء 40] - ( لعل ) لعل - ( حرف ) یہ طمع اور اشفاق ( دڑتے ہوئے چاہنے ) کے معنی ظاہر کرنے کے لئے آتا ہے ۔ بعض مفسرین کا قول ہے کہ جب یہ لفظ اللہ تعالیٰ اپنے لئے استعمال کرے تو اس کے معنی میں قطیعت آجاتی ہے اس بنا پر بہت سی آیات میں لفظ کی سے اس کی تفسیر کی گئی ہے کیونکہ ذات باری تعالیٰ کے حق میں توقع اور اندیشے کے معنی صحیح نہیں ہیں ۔ اور گو لعل کے معنی توقع اور امید کے ہوتے ہیں مگر کبھی اس کا تعلق مخاطب سے ہوتا ہے اور کبھی متکلم سے اور کبھی ان دونوں کے علاوہ کسی تیسرے شخص سے ہوتا ہے ۔ لہذا آیت کریمہ : لَعَلَّنا نَتَّبِعُ السَّحَرَةَ [ الشعراء 40] تاکہ ہم ان جادو گروں کے پیرو ہوجائیں ۔ میں توقع کا تعلق قوم فرعون سے ہے ۔- رحم - والرَّحْمَةُ رقّة تقتضي الإحسان إلى الْمَرْحُومِ ، وقد تستعمل تارة في الرّقّة المجرّدة، وتارة في الإحسان المجرّد عن الرّقّة، وعلی هذا قول النّبيّ صلّى اللہ عليه وسلم ذاکرا عن ربّه «أنّه لمّا خلق الرَّحِمَ قال له : أنا الرّحمن، وأنت الرّحم، شققت اسمک من اسمي، فمن وصلک وصلته، ومن قطعک بتتّه»- ( ر ح م ) الرحم ۔- الرحمۃ وہ رقت قلب جو مرحوم ( یعنی جس پر رحم کیا جائے ) پر احسان کی مقتضی ہو ۔ پھر کبھی اس کا استعمال صرف رقت قلب کے معنی میں ہوتا ہے اور کبھی صرف احسان کے معنی میں خواہ رقت کی وجہ سے نہ ہو ۔ اسی معنی میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک حدیث قدسی میں فرمایا ہے (152) انہ لما خلق اللہ الرحم قال لہ انا الرحمن وانت الرحم شفقت اسمک میں اسمی فمن وصلک وصلتہ ومن قطعت قطعتۃ ۔ کہ جب اللہ تعالیٰ نے رحم پیدا کیا تو اس سے فرمایا :۔ تین رحمان ہوں اور تو رحم ہے ۔ میں نے تیرے نام کو اپنے نام سے اخذ کیا ہے ۔ پس جو تجھے ملائے گا ۔ ( یعنی صلہ رحمی کرے گا ) میں بھی اسے ملاؤں گا اور جو تجھے قطع کرلیگا میں اسے پارہ پارہ کردوں گا ، ،
(٤٦) حضرت صالح (علیہ السلام) نے کافر گروہ سے فرمایا ارے تم لوگ عافیت و رحمت سے پہلے عذاب کو کیوں جلدی مانگتے ہو تو لوگ کفر و شرک سے معافی کیوں نہیں مانگتے اور توحید کا اقرار کیوں نہیں کرتے جس سے توقع ہو کہ تم پر رحم کیا جائے اور عذاب نازل نہ ہو۔
آیت ٤٦ (قَالَ یٰقَوْمِ لِمَ تَسْتَعْجِلُوْنَ بالسَّیِّءَۃِ قَبْلَ الْحَسَنَۃِ ج) ” - تم لوگ اللہ سے خیر مانگنے کے بجائے عذاب مانگنے میں کیوں جلدی مچا رہے ہو ؟ سورة الاعراف میں ان کا یہ قول نقل ہوچکا ہے : (یٰصٰلِحُ اءْتِنَا بِمَا تَعِدُنَآ اِنْ کُنْتَ مِنَ الْمُرْسَلِیْنَ ) ” اے صالح لے آؤ ہم پر وہ عذاب جس کی تم ہمیں دھمکی دے رہے ہو اگر تم واقعی رسولوں میں سے ہو “
سورة النمل حاشیہ نمبر : 59 یعنی اللہ سے خیر مانگنے کے بجائے عذاب مانگنے میں کیوں جلدی کرتے ہو؟ دوسرے مقام پر قوم صالح کے سرداروں کا یہ قول نقل ہوچکا ہے کہ يٰصٰلِحُ ائْتِنَا بِمَا تَعِدُنَآ اِنْ كُنْتَ مِنَ الْمُرْسَلِيْنَ ۔ اے صالح لے آ وہ عذاب ہم پر جس کی تو ہمیں دھمکی دیتا ہے اگر تو واقعی رسولوں مٰں سے ہے ۔ ( الاعراف ، آیت 77 )
22: اچھائی سے مراد ایمان ہے اور برائی سے مراد عذاب، مطلب یہ ہے کہ چاہئے تو یہ تھا کہ تم ایمان لا کر اچھائی حاصل کرتے، لیکن ایمان لانے کے بجائے تم نے عذاب جلدی لانے کا مطالبہ شروع کردیا۔