Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

471عرب جب کسی کام کا یا سفر کا ارادہ کرتے تو پرندے کو اڑاتے اگر وہ دائیں جانب اڑتا تو اسے نیک شگون سمجھتے اور وہ کام کر گزرتے یا سفر پر روانہ ہوجاتے اور اگر بائیں جانب اڑتا تو بد شگونی سمجھتے اور اس کام یا سفر سے رک جاتے (فتح القدیر) اسلام میں یہ بدشگونی اور نیک شگونی جائز نہیں ہے البتہ فال نکالنا جائز ہے 472یعنی اہل ایمان نحوست کا باعث نہیں ہیں جیسا کہ تم سمجھتے ہو بلکہ اس کا اصل سبب اللہ ہی کے پاس ہے کیونکہ قضا و تقدیر اسی کے اختیار میں ہے مطلب یہ ہے کہ تمہیں جو نحوست پہنچی ہے وہ اللہ کی طرف سے ہے اور اس کا سبب تمہارا کفر ہے۔ فتح القدیر 473یا گمراہی میں ڈھیل دے کر تمہیں آزمایا جا رہا ہے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٤٧] اس آیت کے دو مطلب ہوسکتے ہیں ایک یہ کہ جب سے تم نے اپنی نبوت کا ڈھونگ رچایا ہے۔ اس وقت سے ہم پر کوئی نہ کوئی افتاد پڑی ہی رہتی ہے۔ اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ پہلے ہم سب ایک ہی قوم تھے۔ تم نے آکر ہم میں پھوٹ ڈال دی۔ اور ہماری زندگی اجیرن بنا رکھی ہے۔ یہ سب تمہاری ہی نحوست ہے اور یہی اعتراض کفار مکہ کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر تھا۔- [٤٨] اس آیت کے بھی دو مطلب ہیں ایک یہ کہ تم پر جو وقتاً فوقتاً کوئی مصیبت آن پڑتی ہے تو یہ تمہاری تنبیہ کے لئے آتی ہے اور تمہیں سنبھلنے کے لئے کچھ مزید مہلت دی جاتی ہے اور دوسرا یہ کہ قوم کے جو دو فریق بن چکے ہیں تو اسی بات میں تمہاری آزماوش ہو رہی ہے تم حق کا ساتھ دیتے ہو یا باطل کا اور اگر باطل کا ساتھ دیتے ہو تو اس میں کس حد تک سرگرمیاں دکھاتے ہو۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

قَالُوا اطَّيَّرْنَا بِكَ ۔۔ :” اطَّيَّرْنَا “ اصل میں ” تَطَیَّرْنَا “ ہے، (ہم نے بدشگونی لی) تاء کو ساکن کرکے طاء میں ادغام کیا اور پہلا حرف ساکن ہوجانے کی وجہ سے شروع میں ہمزہ وصلی کا اضافہ کردیا۔ ادغام کی وجہ سے بدشگونی کے معنی میں شدت کا اظہار ہو رہا ہے۔ صالح (علیہ السلام) کو جھٹلانے والوں نے کہا کہ ہم نے تمہارے اور تمہارے ساتھیوں کے ساتھ بدشگونی پکڑی ہے اور تمہیں منحوس ہی پایا ہے کہ آئے دن ہم پر آفات و مصائب کا ہجوم رہتا ہے۔ ہمیں یقین ہے کہ اس کا باعث تم اور تمہارے ساتھی ہیں۔ آل فرعون پر جب مختلف عذاب آئے تو انھوں نے بھی یہی بات کہی تھی : (فَاِذَا جَاۗءَتْهُمُ الْحَسَنَةُ قَالُوْا لَنَا هٰذِهٖ ۚ وَاِنْ تُصِبْهُمْ سَيِّئَةٌ يَّطَّيَّرُوْا بِمُوْسٰي وَمَنْ مَّعَهٗ ) [ الأعراف : ١٣١ ] ” تو جب ان پر خوش حالی آتی تو کہتے یہ تو ہمارے ہی لیے ہے اور اگر انھیں کوئی تکلیف پہنچتی تو موسیٰ اور اس کے ساتھ والوں کے ساتھ نحوست پکڑتے۔ “ سورة یٰس میں مذکور بستی کے لوگوں نے بھی اپنے رسولوں سے یہی کہا تھا : (اِنَّا تَــطَيَّرْنَا بِكُمْ ۚ لَىِٕنْ لَّمْ تَنْتَهُوْا لَنَرْجُمَنَّكُمْ وَلَيَمَسَّـنَّكُمْ مِّنَّا عَذَابٌ اَلِــيْمٌ) [ یٰسٓ : ١٨ ] ” بیشک ہم نے تمہیں منحوس پایا ہے، یقیناً اگر تم باز نہ آئے تو ہم ضرور ہی تمہیں سنگسار کردیں گے اور تمہیں ہماری طرف سے ضرور ہی دردناک عذاب پہنچے گا۔ “ ہمارے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بھی کفار ایسے ہی کہتے تھے : (وَاِنْ تُصِبْھُمْ سَيِّئَةٌ يَّقُوْلُوْا هٰذِهٖ مِنْ عِنْدِكَ ۭقُلْ كُلٌّ مِّنْ عِنْدِ اللّٰهِ ۭ فَمَالِ هٰٓؤُلَاۗءِ الْقَوْمِ لَا يَكَادُوْنَ يَفْقَهُوْنَ حَدِيْثًا ) [ النساء : ٧٨ ] ” اور اگر انھیں کوئی بھلائی پہنچتی ہے تو کہتے ہیں یہ اللہ کی طرف سے ہے اور اگر انھیں کوئی برائی پہنچتی ہے تو کہتے ہیں یہ تیری طرف سے ہے۔ کہہ دے سب اللہ کی طرف سے ہے، پھر ان لوگوں کو کیا ہے کہ قریب نہیں ہیں کہ کوئی بات سمجھیں۔ “- قَالَ طٰۗىِٕرُكُمْ عِنْدَ اللّٰهِ : اس کی تفسیر کے لیے دیکھیے سورة اعراف (١٣١) کی تفسیر۔- بَلْ اَنْتُمْ قَوْمٌ تُفْتَنُوْنَ : یعنی تمہارے مصائب کا سبب ہمارا منحوس ہونا نہیں، بلکہ اصل سبب یہ ہے کہ اب تمہارا امتحان شروع ہے کہ تم آفات و مصائب سے سبق حاصل کرکے ایمان قبول کرتے ہو یا کفر پر جمے رہتے ہو۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

قَالُوا اطَّيَّرْنَا بِكَ وَبِمَنْ مَّعَكَ۝ ٠ۭ قَالَ طٰۗىِٕرُكُمْ عِنْدَ اللہِ بَلْ اَنْتُمْ قَوْمٌ تُفْتَنُوْنَ۝ ٤٧- طير ( فال)- ، وتَطيَّرَ فلانٌ ، واطَّيَّرَ أصله التّفاؤل بالطَّيْرِ ثمّ يستعمل في كلّ ما يتفاء ل به ويتشاءم، قالُوا : إِنَّا تَطَيَّرْنا بِكُمْ [يس 18] ، ولذلک قيل : «لا طَيْرَ إلا طَيْرُكَ «1» » ، وقال تعالی: إِنْ تُصِبْهُمْ سَيِّئَةٌ يَطَّيَّرُوا[ الأعراف 131] ، أي : يتشاء موا به، أَلا إِنَّما طائِرُهُمْ عِنْدَ اللَّهِ- [ الأعراف 131] ، أي : شؤمهم : ما قد أعدّ اللہ لهم بسوء أعمالهم . وعلی ذلک قوله : قالُوا اطَّيَّرْنا بِكَ وَبِمَنْ مَعَكَ قالَ طائِرُكُمْ عِنْدَ اللَّهِ [ النمل 47] ، قالُوا طائِرُكُمْ مَعَكُمْ [يس 19] ، وَكُلَّ إِنسانٍ أَلْزَمْناهُ طائِرَهُ فِي عُنُقِهِ [ الإسراء 13] ، أي : عمله الذي طَارَ عنه من خيرٍ وشرٍّ ، ويقال : تَطَايَرُوا : إذا أسرعوا، ويقال :إذا تفرّقوا «2» ، قال الشاعر :- 303 ۔ طَارُوا إليه زَرَافَاتٍ ووُحْدَاناً وفجرٌ مُسْتَطِيرٌ ، أي : فاشٍ. قال تعالی:- وَيَخافُونَ يَوْماً كانَ شَرُّهُ مُسْتَطِيراً [ الإنسان 7] ، وغبارٌ مُسْتَطَارٌ ، خولف بين بنائهما فتصوّر الفجر بصورة الفاعل، فقیل : مُسْتَطِيرٌ ، والغبارُ بصورة المفعول، فقیل : مُسْتَطَارٌ وفرسٌ مُطَارٌ للسّريع، ولحدید الفؤاد، وخذ ما طَارَ من شَعْر رأسك، أي : ما انتشر حتی كأنه طَارَ.- تطیر فلان واطیر اس کے اصل معنی تو کسی پرندہ سے شگون لینے کے ہیں پھر یہ ہر اس چیز کے متعلق استعمال ہونے لگا ہے ۔ جس سے برا شگون لیا جائے اور اسے منحوس سمجھا جائے قرآن میں ہے : ۔ إِنَّا تَطَيَّرْنا بِكُمْ [يس 18] ہم تم کو منحوس سمجھتے ہیں ۔ اسی لئے کہا گیا ہے لا طیر الا طیرک کہ نہیں ہے نحوست مگر تیری طرف سے ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِنْ تُصِبْهُمْ سَيِّئَةٌ يَطَّيَّرُوا[ الأعراف 131] اگر سختی پہنچتی ہے تو بد شگونی لیتے ہیں ۔ یعنی موسٰی (علیہ السلام) کو باعث نحوست سمجھتے ہیں چناچہ ان کے جواب میں فرمایا أَلا إِنَّما طائِرُهُمْ عِنْدَ اللَّهِ [ الأعراف 131] یعنی یہ ان کی بد اعمالیوں کی سزا ہے جو اللہ کے ہاں سے مل رہی ہے ۔ چناچہ اسی معنی میں فرمایا : ۔ قالُوا اطَّيَّرْنا بِكَ وَبِمَنْ مَعَكَ قالَ طائِرُكُمْ عِنْدَ اللَّهِ [ النمل 47] وہ کہنے لگے کہ تم اور تمہارے ساتھیوں کو ہم بد شگون خیال کرتے ہیں ( صالح (علیہ السلام) نے ) کہا کہ تمہاری بد شگوفی خدا کی طرف سے ہے ۔ قالُوا طائِرُكُمْ مَعَكُمْ [يس 19] انہوں نے کہا ہے کہ تمہاری نحوست تمہارے ساتھ ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَكُلَّ إِنسانٍ أَلْزَمْناهُ طائِرَهُ فِي عُنُقِهِ [ الإسراء 13] اور ہم نے ہر انسان کے اعمال کو اس کے گلے میں لٹکا دیا ہے ۔ میں انسان اعمال کو طائر کہا گیا ہے ( کیونکہ عمل کے سر زد ہوجانے کے بعد انسان کو یہ اختیار نہیں رہتا کہ اسے واپس لے گویا وہ ( اس کے ہاتھوں سے اڑجا تا ہے تطائر وا وہ نہایت تیزی سی گئے منتشر ہوگئے ہیں ۔ شاعر نے کہا ہے طاردو الیہ ذرافات ووحدانا تو جماعتیں بن کر اور اکیلے اکیلے اس کی طرف اڑتے چلے جاتے ہیں ۔ فجر مستطیر منتشر ہونے والی صبح قرآن میں ہے : ۔ وَيَخافُونَ يَوْماً كانَ شَرُّهُ مُسْتَطِيراً [ الإنسان 7] اور اس دن سے جس کی سختی پھیل رہی ہوگی خوف رکھتے ہیں ۔ غبار مستطار بلند اور منتشر ہونے والا غبار فجر کو فاعل تصور کر کے اس کے متعلق مستطیر اسم فاعل کا صیغہ استعمال کرتے ہیں اور غبار کو مفعول تصور کر کے مستطار کہتے ہیں ۔ فرس مطار ہوشیار اور تیزرو گھوڑا ۔ خذ ماطا ر من شعر راسک یعنی اپنے سر کے پرا گندہ اور لمبے بال کاٹ ڈالو ۔- فتن - أصل الفَتْنِ : إدخال الذّهب النار لتظهر جو دته من رداء ته، واستعمل في إدخال الإنسان النار . قال تعالی: يَوْمَ هُمْ عَلَى النَّارِ يُفْتَنُونَ [ الذاریات 13] - ( ف ت ن ) الفتن - دراصل فتن کے معنی سونے کو آگ میں گلانے کے ہیں تاکہ اس کا کھرا کھوٹا ہونا ہوجائے اس لحاظ سے کسی انسان کو آگ میں ڈالنے کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے قرآن میں ہے : ۔ يَوْمَ هُمْ عَلَى النَّارِ يُفْتَنُونَ [ الذاریات 13] جب ان کو آگ میں عذاب دیا جائے گا ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٤٧) وہ لوگ بولے ہم تو تم کو اور تمہارے ساتھ جو مومن ہیں انہیں منحوس سمجھتے ہیں جس کی وجہ سے ہم پر سختی ہو رہی ہے حضرت صالح (علیہ السلام) نے فرمایا تمہاری سختی اور خوش حالی کی سب اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے بلکہ تم سختی اور خوشحالی کے ذریعے آزمائے جاؤ گے اور یہ کہ تم کفر کی بدولت عذاب میں مبتلا ہوجاؤ گے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٤٧ (قَالُوا اطَّیَّرْنَا بِکَ وَبِمَنْ مَّعَکَ ط) ” - ہمیں خدشہ ہے کہ آپ لوگوں کی نحوست کی وجہ سے ہم کسی آفت میں گرفتار نہ ہوجائیں۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة النمل حاشیہ نمبر : 60 ان کے اس قول کا ایک مطلب یہ ہے کہ تمہاری یہ تحریک ہمارے لیے سخت منحوس ثابت ہوئی ہے ، جب سے تم نے اور تمہارے ساتھیوں نے دین آبائی کے خلاف یہ بغاوت شروع کی ہے ہم پر آئے دن کوئی نہ کوئی مصیبت نازل ہوتی رہتی ہے ، کیونکہ ہمارے معبود ہم سے ناراض ہوگئے ہیں ، اس معنی کے لحاظ سے یہ قول اکثر ان مشرک قوموں کے اقوال سے مشابہ ہے جو اپنے انبیاء کو منحوس قرار دیتی تھیں ۔ چنانچہ سورہ یسین میں ایک قوم کا ذکر آتا ہے کہ اس نے اپنے انبیاء سے کہا اِنَّا تَــطَيَّرْنَا بِكُمْ ، ہم نے تم کو منحوس پایا ہے ( آیت 18 ) یہی بات فرعون کی قوم حضرت موسی کے متعلق کہتی تھی: فَاِذَا جَاۗءَتْهُمُ الْحَسَنَةُ قَالُوْا لَنَا هٰذِهٖ ۚ وَاِنْ تُصِبْهُمْ سَيِّئَةٌ يَّطَّيَّرُوْا بِمُوْسٰي وَمَنْ مَّعَهٗ ۔ جب ان پر کوئی اچھا وقت آتا تو کہتے کہ ہمارے لیے یہی ہے اور جب کوئی مصیبت آجاتی تو موسی اور ان کے ساتھیوں کی نحوست کو اس کا ذمہ ٹھہراتے ۔ ( الاعراف ، آیت 131 ) قریب قریب ایسی ہی باتیں مکہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق بھی کہی جاتی تھیں ۔ دوسرا مطلب اس قول کا یہ ہے کہ تمہارے آتے ہی ہماری قوم میں پھوٹ پڑ گئی ہے ، پہلے ہم ایک قوم تھے جو ایک دین پر مجتمع تھے ، تم ایسے سبز قدم آئے کہ بھائی بھائی کا دشمن ہوگیا اور بیٹا باپ سے کٹ گیا ، اس طرح قوم کے اندر ایک نئی قوم اٹھ کھڑی ہونے کا انجام ہمیں اچھا نظر نہیں آتا ، یہی وہ الزام تھا جسے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے مخالفین آپ کے خلاف بار بار پیش کرتے تھے ، آپ کی دعوت کا آغاز ہوتے ہی سرداران قریش کا جو وفد ابو طالب کے پاس گیا تھا اس نے یہی کہا تھا کہ اپنے اس بھتیجے کو ہمارے حوالہ کردو جس نے تمہارے دین اور تمہارے باپ دادا کے دین کی مخالفت کی ہے اور تمہاری قوم میں پھوٹ ڈال دی ہے اور ساری قوم کو بے وقوف قرار دیا ہے ۔ ( ابن ہشام جلد اول ، ص 285 ) حج کے موقعہ پر جب کفار مکہ کو اندیشہ ہوا کہ باہر کے زائرین آکر کہیں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت سے متاثر نہ ہوجائیں تو انہوں نے باہم مشورہ کرنے کے بعد یہی طے کیا کہ قبائل عرب سے کہا جائے یہ شخص جادوگر ہے ، اس کے جادو کا اثر یہ ہوتا ہے کہ بیٹا باپ سے ، بھائی بھائی سے ، بیوی شوہر سے اور آدمی اپنے سارے خاندان سے کٹ جاتا ہے ۔ ( ابن ہشام ، ص 289 ) سورة النمل حاشیہ نمبر : 61 یعنی بات وہ نہیں ہے جو تم نے سمجھ رکھی ہے ، اصل معاملہ جسے اب تک تم نہیں سمجھے ہو یہ ہے کہ میرے آنے سے تمہارا امتحان شروع ہوگیا ہے ۔ جب تک میں نہ آیا تھا تم اپنی جہالت میں ایک ڈگر پر چلے جارہے تھے ، حق اور باطل کا کوئی کھلا امتیاز سامنے نہ تھا ، کھرے اور کھوٹے کی پرکھ کا کوئی معیار نہ تھا ، بدتر سے بدتر لوگ اونچے ہورہے تھے ، اور اچھی سے اچھی صلاحیتوں کے لوگ خاک میں ملے جارہے تھے ، مگر اب ایک کسوٹی آگئی ہے جس پر تم سب جانچے اور پرکھے جاؤ گے ، اب بیچ میدان میں ایک ترازو رکھ دیا گیا ہے جو ہر ایک کو اس کے وزن کے لحاظ سے تولے گا ، اب حق اور باطل آمنے سامنے موجود ہیں ، جو حق کو قبول کرے گا وہ بھاری اترے گا خواہ آج تک اس کی کوڑی بھر بھی قیمت نہ رہی ہو ۔ اور جو باطل پر جمے گا اس کا وزن رتی بھر بھی نہ رہے گا چاہے وہ آج تک امیر الامراء ہی بنا رہا ہو ، اب فیصلہ اس پر نہیں ہوگا کہ کون کس خاندان کا ہے اور کس کے ذرائع و وسائل کتنے ہیں ، اور کون کتنا زور رکھتا ہے ، بلکہ اس پر ہوگا کہ کون سیدھی طرح صداقت کو قبول کرتا ہے اور کون جھوٹ کے ساتھ اپنی قسمت وابستہ کردیتا ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

23: یعنی آپ کے نبوت کا دعویٰ کرنے کے بعد ہماری قوم دو حصوں میں بٹ گئی ہے، اور ہم اسے آپ کی نحوست سمجھتے ہیں۔ نیز بعض روایات میں ہے کہ ان پر قحط بھی آ پڑا تھا، اس کو بھی انہوں نے حضرت صالح (علیہ السلام) کی نحوست قرار دیا۔ 24: یعنی نحوست تو تمہارے اعمال کی ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے آئی ہے اور اس لیے آئی ہے کہ تمہیں آزمایا جائے کہ ان مصائب کے وقت اللہ تعالیٰ سے رجوع کرتے ہو یا اپنی بد اعمالیوں پر قائم رہتے ہو۔