4 9 1یعنی صالح (علیہ السلام) کو اور اس کے گھر والوں کو قتل کردیں گے، یہ قسمیں انہوں نے اس وقت کھائیں، جب اونٹنی کے قتل کے بعد حضرت صالح (علیہ السلام) نے کہا کہ تین دن کے بعد تم پر عذاب آجائے گا۔ انہوں نے کہا کہ عذاب کے آنے سے قبل ہی ہم صالح (علیہ السلام) اور ان کے گھر والوں کا صفایا کردیں۔ 4 9 2یعنی ہم قتل کے وقت وہاں موجود نہ تھے ہمیں اس بات کا علم ہے کہ کون انھیں قتل کر گیا ہے۔
[٥٠] جب ان لوگوں نے ملی بھگت سے قدار کو آگے لگا کر ناقہ ن اللہ کو زخمی کردیا۔ تو حضرت صالح نے ان لوگوں کو تین دن بعد عذاب آنے کا الٹی میٹم دے دیا۔ اس الٹی میٹم کے بعد بھی ان لوگوں نے یہی سمجھا کہ یہ عذاب تو آتا ہے یا نہیں۔ اس سے پہلے ہی ہم کیوں نہ صالح اور اس کے گھر والوں کا قصہ بھی تمام کردیں۔ چناچہ نو بدمعاشوں نے حصرت صالح (علیہ السلام) کو بھی ٹھکانے لگا دینے کی ویسی کی سکیم بناوی، جیسی قریش مکہ نے ہجرت سے پیشتر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا قصہ پاک کردینے کے لئے بنائی تھی۔ البتہ یہ فرق ضرور تھا کہ قریش نے یہ سمجھا کہ اس طرح بلوا کی صورت میں قتل کرنے پر ہم سے دیت کا مطالبہ کیا جائے گا تو وہ ہم آپس میں بانٹ لیں گے۔ لیکن یہ بدمعاش ان سے بھی چار ہاتھ آتے کی بات سوچ رہے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ جب حضرت صالح کے ولی) جیسے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ولی حضرت ابو طالب تھے ( ہم سے کوئی بات پوچھیں گے تو ہم کہہ دیں گے کہ تو موقع پر موجود ہی نہ تھے۔ ہمیں کیا خبر کہ کون ان کو قتل کر گیا ہے۔ اور دوسرا فرق یہ تھا کہ قریش مکہ نے صرف رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو قتل کرنے کا منصوبہ تیار کیا تھا جبکہ ان بدمعاشوں نے حصرت صالح اور ان کے پورے خاندان کو مار ڈالنے کا منصوبہ بنایا تھا اور اپنے اس منصوبہ کے معاہدہ پر سب نے ایک دوسرے کے سامنے قسمیں کھائیں کہ ایک تو اس خاندان کو قتل کرکے دم لیں گے اور دوسرے اپنے جرم کا کبھی اعتراف نہ کریں گے۔
قَالُوْا تَقَاسَمُوْا باللّٰهِ لَـنُبَيِّتَـنَّهٗ وَاَهْلَهٗ ۔۔ : ” لَـنُبَيِّتَـنَّهٗ “ ” بَیَّتَ یُبَیِّتُ تَبْیِیْتًا “ شب خون مارنا، رات کو اچانک حملہ کرنا۔ جب ان لوگوں نے باہمی مشورے سے اونٹنی کو ہلاک کردیا اور صالح (علیہ السلام) نے انھیں تین دن بعد عذاب آنے سے خبردار کردیا تو اس کے بعد بھی ان لوگوں نے یہی سمجھا کہ یہ عذاب تو آتا ہے یا نہیں، اس سے پہلے کیوں نہ ہم صالح اور اس کے گھر والوں کا قصہ تمام کردیں۔ چناچہ ان نو بدمعاشوں نے صالح (علیہ السلام) کے قتل کا ویسا ہی منصوبہ بنایا جیسا قریش مکہ نے ہجرت سے پہلے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قتل کا بنایا تھا۔ البتہ یہ فرق ضرور تھا کہ قریش نے سوچا تھا کہ بدلے کی صورت میں قتل کرنے پر ہم سے دیت کا مطالبہ کیا جائے گا تو وہ ہم سب مل کر اکٹھی کرکے دے دیں گے۔ لیکن یہ بدمعاش ان سے بھی چار ہاتھ آگے کی بات سوچ رہے تھے، انھوں نے طے کیا کہ جب صالح ( (علیہ السلام) ) کے ولی (جیسے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ولی بنو ہاشم تھے) ہم سے کوئی بات پوچھیں گے تو ہم کہہ دیں گے کہ ہم تو موقع پر موجود ہی نہ تھے، ہمیں کیا خبر انھیں کون قتل کر گیا ہے ؟ دوسرا فرق یہ تھا کہ قریش مکہ نے صرف رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو قتل کرنے کا منصوبہ تیار کیا تھا، جب کہ ان بدمعاشوں نے صالح (علیہ السلام) اور ان کے پورے خاندان کو مار ڈالنے کا منصوبہ بنایا اور اپنے اس منصوبے کے معاہدے پر سب نے ایک دوسرے کے سامنے قسمیں کھائیں کہ ایک تو اس کو اور اس کے خاندان کو قتل کرکے دم لیں گے، دوسرے اپنے جرم کا کبھی اعتراف نہیں کریں گے۔ (کیلانی)- 3 مفسر شنقیطی نے فرمایا : ” اللہ تعالیٰ نے صالح (علیہ السلام) کو ان کے اولیاء کے ذریعے سے بہت نفع پہنچایا، کیونکہ ظاہر ہے کہ ان نو (٩) بدمعاشوں نے شب خون مار کر صالح (علیہ السلام) اور ان کے خاندان کو قتل کرنے اور اس کا اعتراف نہ کرنے کا منصوبہ اسی لیے بنایا کہ وہ ان کے اولیاء کے خوف سے علانیہ قتل کرنے کی جرأت نہیں کرسکتے تھے اور قتل کرنے کی صورت میں بھی انھیں ان کے اولیاء کا خوف تھا۔ “ جیسا کہ قریش ابوطالب اور بنو ہاشم کی وجہ سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر علانیہ ہاتھ ڈالنے کی جرأت نہیں کرتے تھے۔
لَـنُبَيِّتَـنَّهٗ وَاَهْلَهٗ ثُمَّ لَـنَقُوْلَنَّ لِوَلِيِّهٖ مَا شَهِدْنَا مَهْلِكَ اَهْلِهٖ وَاِنَّا لَصٰدِقُوْنَ ، مطلب یہ تھا کہ ہم سب مل کر رات کے اندھیرے میں ان پر اور ان کے متعلقین پر چھاپہ ماریں، سب کو ہلاک کردیں، پھر ان کے خون کا دعویدار وارث تحقیق و تفتیش کے لئے کھڑا ہوگا تو ہم یہ کہہ دیں گے کہ ہم نے تو فلاں آدمی کو نہ مارا، نہ مارتے کسی کو دیکھا۔ اور ہم اپنے اس قول میں اس لئے سچے ہوں گے کہ رات کے اندھیرے میں یہ تعیین کہ کس نے کس کو مارا ہمیں معلوم نہیں ہوگی۔- اس میں ایک بات یہ قابل نظر ہے کہ یہ کفار اور ان میں سے بھی چیدہ بدمعاش جو فساد میں مصروف تھے یہ سارے کام شرک کفر اور قتل و غارتگری کے کر رہے ہیں اور کوئی فکر نہیں، مگر ان کو بھی یہ فکر لاحق ہوئی کہ ہم جھوٹ نہ بولیں یا جھوٹے قرار نہ دیئے جاویں۔ اس سے انداز لگایئے کہ جھوٹ کیسا بڑا گناہ ہے کہ سارے بڑے بڑے جرائم کے مرتکب بھی اپنی شرافت نفس اور عزت کی حفاظت کے لئے جھوٹ بولنے پر اقدام نہ کرتے تھے۔ دوسری بات اس آیت میں یہ قابل غور ہے کہ جس شخص کو ان لوگوں نے حضرت صالح (علیہ السلام) کا ولی قرار دیا ہے وہ تو انہی اہل صالح میں شامل تھا اس کو قتل کے ارادہ سے کیوں چھوڑ دیا۔ جواب یہ ہے کہ ممکن ہے وہ ولی خاندانی اعتبار سے ولی ہو مگر کافر ہو کافروں کے ساتھ ملا ہوا ہو صالح (علیہ السلام) اور ان کے متعلقین کے قتل کے بعد وہ ان کے خون کا دعویٰ اپنے نسبی تعلق کی بناء پر کرے اور یہ بھی ممکن ہے کہ وہ مسلمان ہی ہو مگر کوئی بڑا آدمی ہو جس کے قتل کرنے سے اپنی قوم میں اختلاف و انتشار کا خطرہ ہو اس لئے اس کو چھوڑ دیا۔ واللہ اعلم
قَالُوْا تَقَاسَمُوْا بِاللہِ لَـنُبَيِّتَـنَّہٗ وَاَہْلَہٗ ثُمَّ لَـنَقُوْلَنَّ لِوَلِيِّہٖ مَا شَہِدْنَا مَہْلِكَ اَہْلِہٖ وَاِنَّا لَصٰدِقُوْنَ ٤٩- قْسَمَ ( حلف)- حلف، وأصله من الْقَسَامَةُ ، وهي أيمان تُقْسَمُ علی أولیاء المقتول، ثم صار اسما لكلّ حلف . قال : وَأَقْسَمُوا بِاللَّهِ جَهْدَ أَيْمانِهِمْ [ الأنعام 109] ، أَهؤُلاءِ الَّذِينَ أَقْسَمْتُمْ [ الأعراف 49] ، وقال : لا أُقْسِمُ بِيَوْمِ الْقِيامَةِ وَلا أُقْسِمُ بِالنَّفْسِ اللَّوَّامَةِ [ القیامة 1- 2] ، فَلا أُقْسِمُ بِرَبِّ الْمَشارِقِ وَالْمَغارِبِ [ المعارج 40] ، إِذْ أَقْسَمُوا لَيَصْرِمُنَّها مُصْبِحِينَ [ القلم 17] ، فَيُقْسِمانِ بِاللَّهِ [ المائدة 106]- اقسم - ( افعال کے معنی حلف اٹھانے کے ہیں یہ دروصل قسامۃ سے مشتق ہے اور قسیا مۃ ان قسموں کو کہا جاتا ہے جو او لیائے مقتول پر تقسیم کی جاتی ہیں پھر مطلق کے معنی استعمال ہونے لگا ہے ۔ قرآن میں ہے : وَأَقْسَمُوا بِاللَّهِ جَهْدَ أَيْمانِهِمْ [ الأنعام 109] اور یہ خدا کی سخت سخت قسمیں کھاتے ہیں ۔ - أَهؤُلاءِ الَّذِينَ أَقْسَمْتُمْ [ الأعراف 49] کیا یہ وہی لوگ ہیں جن کے مارے میں تم قسمیں کھایا کرتی تھے ۔ لا أُقْسِمُ بِيَوْمِ الْقِيامَةِ وَلا أُقْسِمُ بِالنَّفْسِ اللَّوَّامَةِ [ القیامة 1- 2] ہم کو روز قیامت کی قسم اور نفس لوامہ کی ۔ فَلا أُقْسِمُ بِرَبِّ الْمَشارِقِ وَالْمَغارِبِ [ المعارج 40] ہمیں مشرقوں اور مغربوں کے مالک کی قسم ۔ إِذْ أَقْسَمُوا لَيَصْرِمُنَّها مُصْبِحِينَ [ القلم 17] جب انہوں نے قسمیں کھا کھا کر کہا کہ ہم صبح ہوتے اس کا میوہ توڑلیں گے ۔ فَيُقْسِمانِ بِاللَّهِ [ المائدة 106] اور دونوں خدا کی قسمیں کھائیں ۔ ماسمعتہ وتقاسما باہم قسمیں اٹھانا ۔ قرآن میں ہے : وَقاسَمَهُما إِنِّي لَكُما لَمِنَ النَّاصِحِينَ [ الأعراف 21] اور ان کی قسم کھاکر کہا کہ میں تمہارا خیر خواہ ہوں ۔ - بىيّوت - والبَيَاتُ والتَّبْيِيتُ : قصد العدوّ ليلا . قال تعالی: أَفَأَمِنَ أَهْلُ الْقُرى أَنْ يَأْتِيَهُمْ بَأْسُنا بَياتاً وَهُمْ نائِمُونَ [ الأعراف 97] ، بَياتاً أَوْ هُمْ قائِلُونَ [ الأعراف 4] والبَيُّوت : ما يفعل باللیل، قال تعالی: بَيَّتَ طائِفَةٌ مِنْهُمْ [ النساء 81] . يقال لكلّ فعل دبّر فيه باللیل : بُيِّتَ ، قال تعالی: إِذْ يُبَيِّتُونَ ما لا يَرْضى مِنَ الْقَوْلِ [ النساء 108] ، وعلی ذلک قوله عليه السلام : «لا صيام لمن لم يبيّت الصیام من اللیل» وبَاتَ فلان يفعل کذا عبارة موضوعة لما يفعل باللیل، كظلّ لما يفعل بالنهار، وهما من باب العبارات .- البیات والتبیت کے معنی رات میں دشمن پر حملہ کرنے یعنی شبخون مارنا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے :۔ أَفَأَمِنَ أَهْلُ الْقُرى أَنْ يَأْتِيَهُمْ بَأْسُنا بَياتاً وَهُمْ نائِمُونَ [ الأعراف 97] کیا بستیوں کے رہنے والے اس سے بےخوف ہیں کہ ان پر ہمارا عذاب رات کو واقع ہو اور وہ ( بیخبر ) سو رہے ہوں ۔ بَياتاً أَوْ هُمْ قائِلُونَ [ الأعراف 4] رات کو آتا تھا جب کے وہ سوتے تھے یا ( دن کو ) جب وہ قیلو لہ ( یعنی دن کو آرام ) کرتے تھے ۔ البیوت وہ معاملہ جس پر رات بھر غور و خوض کیا گیا ہو ۔ قرآن میں ہے ؛۔ بَيَّتَ طائِفَةٌ مِنْهُمْ [ النساء 81] ان میں بعض لوگ رات کو مشورے کرتے ہیں ۔ اور بیت الامر کے معنی ہیں رات کے وقت کسی کام کی تدبیر کرنا ۔ چناچہ فرمایا ؛۔ إِذْ يُبَيِّتُونَ ما لا يَرْضى مِنَ الْقَوْلِ [ النساء 108] حالانکہ جب وہ راتوں کو ایسی باتوں کے مشورے کیا کرتے ہیں جن کو وہ پسند نہیں کرتا اسی طرح ایک روایت ہے (48) لاصیام لمن لم یبیت الصیام من الیل کہ جو شخص رات سے روزہ کی پختہ نیت نہ کرے اس کا روزہ نہیں ہوگا ۔ اور بات فلان یفعل کذا کے معنی رات بھر کوئی کام کرنا کے ہیں جیسا کہ ظل کے معنی دن بھر کام کرنا آتے ہیں اور یہ دونوں افعال عادات سے ہیں ۔- أهل - أهل الرجل : من يجمعه وإياهم نسب أو دين، أو ما يجري مجراهما من صناعة وبیت وبلد، وأهل الرجل في الأصل : من يجمعه وإياهم مسکن واحد، ثم تجوّز به فقیل : أهل الرجل لمن يجمعه وإياهم نسب، وتعورف في أسرة النبيّ عليه الصلاة والسلام مطلقا إذا قيل :- أهل البیت لقوله عزّ وجلّ : إِنَّما يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ [ الأحزاب 33] - ( ا ھ ل ) اھل الرجل - ۔ ان لوگوں کو کہا جاتا ہے جو اس کے ہم نسب یا ہم دین ہوں اور یا کسی صنعت یامکان میں شریک ہوں یا ایک شہر میں رہتے ہوں اصل میں اھل الرجل تو وہ ہیں جو کسی کے ساتھ ایک مسکن میں رہتے ہوں پھر مجازا آدمی کے قریبی رشتہ داروں پر اہل بیت الرجل کا لفظ بولا جانے لگا ہے اور عرف میں اہل البیت کا لفظ خاص کر آنحضرت کے خاندان پر بولا جانے لگا ہے کیونکہ قرآن میں ہے :۔ إِنَّمَا يُرِيدُ اللهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ ( سورة الأحزاب 33) اسے پیغمبر گے اہل بیت خدا چاہتا ہے کہ تم سے ناپاکی ( کا میل کچیل ) دور کردے ۔- ولي - والوَلَايَةُ : تَوَلِّي الأمرِ ، وقیل : الوِلَايَةُ والوَلَايَةُ نحو : الدِّلَالة والدَّلَالة، وحقیقته : تَوَلِّي الأمرِ. والوَلِيُّ والمَوْلَى يستعملان في ذلك كلُّ واحدٍ منهما يقال في معنی الفاعل . أي : المُوَالِي، وفي معنی المفعول . أي : المُوَالَى، يقال للمؤمن : هو وَلِيُّ اللهِ عزّ وجلّ ولم يرد مَوْلَاهُ ، وقد يقال : اللهُ تعالیٰ وَلِيُّ المؤمنین ومَوْلَاهُمْ ، فمِنَ الأوَّل قال اللہ تعالی: اللَّهُ وَلِيُّ الَّذِينَ آمَنُوا [ البقرة 257] - ( و ل ی ) الولاء والتوالی - الوالایتہ ( بکسر الواؤ ) کے معنی نصرت اور والایتہ ( بفتح الواؤ ) کے معنی کسی کام کا متولی ہونے کے ہیں ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ دلالتہ ودلالتہ کی طرح ہے یعنی اس میں دولغت ہیں ۔ اور اس کے اصل معنی کسی کام کا متولی ہونے کے ہیں ۔ الوالی ولمولی ۔ یہ دونوں کبھی اسم فاعل یعنی موال کے معنی میں استعمال ہوتے ہیں اور کبھی اسم مفعول یعنی موالی کے معنی میں آتے ہیں اور مومن کو ولی اللہ تو کہہ سکتے ہیں ۔ لیکن مولی اللہ کہنا ثابت نہیں ہے ۔ مگر اللہ تعالیٰٰ کے متعلق ولی المومنین ومولاھم دونوں طرح بول سکتے ہیں ۔ چناچہ معنی اول یعنی اسم فاعل کے متعلق فرمایا : ۔ اللَّهُ وَلِيُّ الَّذِينَ آمَنُوا [ البقرة 257] جو لوگ ایمان لائے ان کا دوست خدا ہے - شهد - وشَهِدْتُ يقال علی ضربین :- أحدهما - جار مجری العلم، وبلفظه تقام الشّهادة، ويقال : أَشْهَدُ بکذا، ولا يرضی من الشّاهد أن يقول : أعلم، بل يحتاج أن يقول :- أشهد . والثاني يجري مجری القسم،- فيقول : أشهد بالله أنّ زيدا منطلق، فيكون قسما، ومنهم من يقول : إن قال : أشهد، ولم يقل : بالله يكون قسما، - ( ش ھ د ) المشھود والشھادۃ - شھدت کا لفظ دو طرح پر استعمال ہوتا ہے ۔- ( 1) علم کی جگہ آتا ہے اور اسی سے شہادت ادا ہوتی ہے مگر اشھد بکذا کی بجائے اگر اعلم کہا جائے تو شہادت قبول ہوگی بلکہ اشھد ہی کہنا ضروری ہے ۔ ( 2) قسم کی جگہ پر آتا ہے چناچہ اشھد باللہ ان زید ا منطلق میں اشھد بمعنی اقسم ہے - هلك - الْهَلَاكُ علی ثلاثة أوجه :- افتقاد الشیء عنك، وهو عند غيرک موجود کقوله تعالی: هَلَكَ عَنِّي سُلْطانِيَهْ [ الحاقة 29] - وهَلَاكِ الشیء باستحالة و فساد کقوله :- وَيُهْلِكَ الْحَرْثَ وَالنَّسْلَ [ البقرة 205] ويقال : هَلَكَ الطعام .- والثالث :- الموت کقوله : إِنِ امْرُؤٌ هَلَكَ [ النساء 176] وقال تعالیٰ مخبرا عن الکفّار :- وَما يُهْلِكُنا إِلَّا الدَّهْرُ [ الجاثية 24] .- ( ھ ل ک ) الھلاک - یہ کئی طرح پر استعمال ہوتا ہے - ایک یہ کہ - کسی چیز کا اپنے پاس سے جاتے رہنا خواہ وہ دوسرے کے پاس موجود ہو جیسے فرمایا : هَلَكَ عَنِّي سُلْطانِيَهْ [ الحاقة 29] ہائے میری سلطنت خاک میں مل گئی ۔- دوسرے یہ کہ - کسی چیز میں خرابی اور تغیر پیدا ہوجانا جیسا کہ طعام ( کھانا ) کے خراب ہونے پر ھلک الطعام بولا جاتا ہے قرآن میں ہے : ۔ وَيُهْلِكَ الْحَرْثَ وَالنَّسْلَ [ البقرة 205] اور کھیتی کو بر باد اور انسانوں اور حیوانوں کی نسل کو نابود کردی ۔ - موت کے معنی میں - جیسے فرمایا : ۔ إِنِ امْرُؤٌ هَلَكَ [ النساء 176] اگر کوئی ایسا مرد جائے ۔- صدق - الصِّدْقُ والکذب أصلهما في القول، ماضیا کان أو مستقبلا، وعدا کان أو غيره، ولا يکونان بالقصد الأوّل إلّا في القول، ولا يکونان في القول إلّا في الخبر دون غيره من أصناف الکلام، ولذلک قال : وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء 122] ،- ( ص دق) الصدق ۔- یہ ایک الکذب کی ضد ہے اصل میں یہ دونوں قول کے متعلق استعمال ہوتے ہیں خواہ اس کا تعلق زمانہ ماضی کے ساتھ ہو یا مستقبل کے ۔ وعدہ کے قبیل سے ہو یا وعدہ کے قبیل سے نہ ہو ۔ الغرض بالذات یہ قول ہی کے متعلق استعمال - ہوتے ہیں پھر قول میں بھی صرف خبر کے لئے آتے ہیں اور اس کے ماسوا دیگر اصناف کلام میں استعمال نہیں ہوتے اسی لئے ارشاد ہے ۔ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء 122] اور خدا سے زیادہ وہ بات کا سچا کون ہوسکتا ہے ۔
(٤٩) انھوں نے آپس میں یہ گفتگو کی کہ سب مل کر اس چیز پر اللہ تعالیٰ کی قسمیں کھاؤ کہ ہم رات کے وقت حضرت صالح (علیہ السلام) اور ان کے ساتھیوں پر حملہ کریں گے اور نعوذ باللہ ان سب کو مار ڈالیں گے پھر ان کے وارثوں اور رشتہ داروں سے کہہ دیں گے ہم حضرت صالح (علیہ السلام) اور ان کے ساتھیوں کے مارے جانے کے وقت موجود نہ تھے اور ہم اپنی بات میں بالکل سچے ہیں اور پھر ہماری کوئی بھی تردید نہیں کرے گا۔
آیت ٤٩ (قَالُوْا تَقَاسَمُوْا باللّٰہِ لَنُبَیِّتَنَّہٗ وَاَہْلَہٗ ) ” - ان سب سرداروں نے مل کر حضرت صالح (علیہ السلام) کو قتل کرنے کی سازش کی۔ ان میں سے کوئی اکیلا یہ اقدام کر کے حضرت صالح (علیہ السلام) کے قبیلے کے ساتھ دشمنی مول نہیں لے سکتا تھا ‘ اس لیے انہوں نے حلف اٹھوا کر سب کو اس پر آمادہ کیا۔ سب کو اس طرح اس مہم میں شامل کرنے کا ایک مقصد یہ بھی تھا کہ ان میں سے کوئی شخص راز فاش نہ کرسکے۔ قبائلی روایات و قوانین کے تحت پورا قبیلہ بحیثیت مجموعی اپنے تمام افراد کے جان و مال کے تحفظ کا ذمہ دار ہوتا ہے اور اپنے کسی فرد کو کوئی گزند پہنچنے کی صورت میں پورا قبیلہ یک جان ہو کر اس کے بدلے کا اہتمام کرتا ہے۔ سورة ہود ( علیہ السلام) میں ہم پڑھ آئے ہیں کہ حضرت شعیب (علیہ السلام) کی قوم کے لوگ بھی آپ ( علیہ السلام) کے خلاف ایسا ہی اقدام کرنا چاہتے تھے لیکن آپ ( علیہ السلام) کے قبیلے کے ڈر کی وجہ سے وہ ایسا نہ کرسکے۔ اپنی اس مجبوری کا اقرار انہوں نے ان الفاظ میں کیا تھا : (وَلَوْلاَ رَہْطُکَ لَرَجَمْنٰکَز) (آیت ٩١) ” اور اگر تمہارا قبیلہ نہ ہوتا تو ہم تمہیں سنگسار کردیتے۔ “ - خود محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خلاف بھی مکہ میں ایک وقت ایسا آیا کہ سب مشرکین آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قتل کے درپے ہوگئے ‘ مگر اپنی اس خواہش کو عملی جامہ پہناتے ہوئے ڈرتے تھے کہ ان کا یہ اقدام ان کے قبائل کے درمیان کہیں خانہ جنگی کا باعث نہ بن جائے۔ چناچہ انہوں نے بھی بعینہٖ وہی منصوبہ بنایا جو حضرت صالح (علیہ السلام) کی قوم کے سرداروں نے بنایا تھا کہ ہر قبیلے سے ایک ایک نوجوان اس عمل میں شریک ہو اور سب مل کر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر حملہ کریں۔ اس طرح نہ تو یہ پتا چل سکے گا کہ اصل قاتل کون ہے اور نہ ہی بنو ہاشم سب قبائل سے بدلہ لینے کی جرأت کرسکیں گے۔- بہر حال حضرت صالح (علیہ السلام) کی قوم کے ان نو سرداروں نے باہم حلف اٹھا کر منصوبہ بنایا کہ وہ سب مل کر رات کو آپ ( علیہ السلام) کے گھر پر دھاوا بول دیں گے اور :
سورة النمل حاشیہ نمبر : 63 یعنی حضرت صالح علیہ السلام کے قبیلے کے سردار سے جس کو قدیم قبائلی رسم و رواج کے مطابق ان کے خون کے دعوے کا حق پہنچتا تھا ، یہ وہی پوزیشن تھی جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں آپ کے چچا ابوطالب کو حاصل تھی ، کفار قریش بھی اسی اندیشے سے ہاتھ روکتے تھے کہ اگر وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کردیں گے تو بنی ہاشم کے سردار ابو طالب اپنے قبیلے کی طرف سے خون کا دعوی لے کر اٹھیں گے ۔ سورة النمل حاشیہ نمبر : 64 یہ بعینہ اسی نوعیت کی سازش تھی جیسی مکہ کے قبائلی سردار نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف سوچتے رہتے تھے اور بالاخر یہی سازش انہوں نے ہجرت کے موقع پر حضور کو قتل کرنے کے لیے کی ، یعنی یہ کہ سب قبیلوں کے لوگ ملکر آپ پر حملہ کریں تاکہ بنی ہاشم کسی ایک قبیلے کو ملزم نہ ٹھہرا سکیں اور سب قبیلوں سے بیک وقت لڑنا ان کے لیے ممکن نہ ہو ۔