5 1 1یعنی ہم نے مذکورہ 9سرداروں کو ہی نہیں، بلکہ ان کی قوم کو بھی مکمل طور پر ہلاک کردیا۔ کیونکہ وہ قوم ہلاکت کے اصل سبب کفر میں مکمل طور پر ان کے ساتھ شریک تھی اور گو عملی طور ان کے منصوبہ قتل میں شریک نہ ہوسکی تھی۔ کیونکہ یہ منصوبہ خفیہ تھا۔ لیکن ان کی منشاء اور دلی آرزو کے عین مطابق تھا اس لئے وہ بھی گویا اس مکر میں شریک تھی جو 9افراد نے حضرت صالح (علیہ السلام) اور ان کے اہل کے خلاف تیار کیا تھا۔ اس لئے پوری قوم ہی ہلاکت کی مستحق قرار پائی۔
فَانْظُرْ كَيْفَ كَانَ عَاقِبَۃُ مَكْرِہِمْ ٠ۙ اَنَّا دَمَّرْنٰہُمْ وَقَوْمَہُمْ اَجْمَعِيْنَ ٥١- نظر - النَّظَرُ : تَقْلِيبُ البَصَرِ والبصیرةِ لإدرَاكِ الشیءِ ورؤيَتِهِ ، وقد يُرادُ به التَّأَمُّلُ والفَحْصُ ، وقد يراد به المعرفةُ الحاصلةُ بعد الفَحْصِ ، وهو الرَّوِيَّةُ. يقال : نَظَرْتَ فلم تَنْظُرْ. أي : لم تَتَأَمَّلْ ولم تَتَرَوَّ ، وقوله تعالی: قُلِ انْظُرُوا ماذا فِي السَّماواتِ [يونس 101] أي : تَأَمَّلُوا .- والنَّظَرُ : الانْتِظَارُ. يقال : نَظَرْتُهُ وانْتَظَرْتُهُ وأَنْظَرْتُهُ. أي : أَخَّرْتُهُ. قال تعالی: وَانْتَظِرُوا إِنَّا مُنْتَظِرُونَ [هود 122] ،- ( ن ظ ر ) النظر - کے معنی کسی چیز کو دیکھنے یا اس کا ادراک کرنے کے لئے آنکھ یا فکر کو جو لانی دینے کے ہیں ۔ پھر کبھی اس سے محض غو ر وفکر کرنے کا معنی مراد لیا جاتا ہے اور کبھی اس معرفت کو کہتے ہیں جو غور وفکر کے بعد حاصل ہوتی ہے ۔ چناچہ محاور ہ ہے ۔ نظرت فلم تنظر۔ تونے دیکھا لیکن غور نہیں کیا ۔ چناچہ آیت کریمہ : قُلِ انْظُرُوا ماذا فِي السَّماواتِ [يونس 101] ان کفار سے کہو کہ دیکھو تو آسمانوں اور زمین میں کیا کیا کچھ ہے ۔- اور النظر بمعنی انتظار بھی آجاتا ہے ۔ چناچہ نظرتہ وانتظرتہ دونوں کے معنی انتظار کرنے کے ہیں ۔ جیسے فرمایا : وَانْتَظِرُوا إِنَّا مُنْتَظِرُونَ [هود 122] اور نتیجہ اعمال کا ) تم بھی انتظار کرو ۔ ہم بھی انتظار کرتے ہیں - عاقب - والعاقِبةَ إطلاقها يختصّ بالثّواب نحو : وَالْعاقِبَةُ لِلْمُتَّقِينَ [ القصص 83] ، وبالإضافة قد تستعمل في العقوبة نحو : ثُمَّ كانَ عاقِبَةَ الَّذِينَ أَساؤُا [ الروم 10] ،- ( ع ق ب ) العاقب - اور عاقبتہ کا لفظ بھی ثواب کے لئے مخصوص ہے جیسے فرمایا : ۔ وَالْعاقِبَةُ لِلْمُتَّقِينَ [ القصص 83] اور انجام نیک تو پرہیز گاروں ہی کا ہے ۔ مگر یہ اضافت کی صورت میں کبھی آجاتا ہے جیسے فرمایا : ۔ ثُمَّ كانَ عاقِبَةَ الَّذِينَ أَساؤُا [ الروم 10] پھر جن لوگوں نے برائی کی ان کا انجام بھی برا ہوا ۔- دمر - قال : فَدَمَّرْناهُمْ تَدْمِيراً [ الفرقان 36] ، وقال : ثُمَّ دَمَّرْنَا الْآخَرِينَ [ الشعراء 172] ، وَدَمَّرْنا ما کانَ يَصْنَعُ فِرْعَوْنُ وَقَوْمُهُ وَما کانُوا يَعْرِشُونَ [ الأعراف 137] ، والتدمیر : إدخال الهلاک علی الشیء، ويقال : ما بالدّار تَدْمُرِيٌّ وقوله تعالی: دَمَّرَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ [ محمد 10] ، فإنّ مفعول دمّر محذوف .- ( د م ر ) التدمیر - ( تفعیل ) کے معنی ہیں کسی چیز پر ہلاکت لاڈالنا ۔ قرآن میں ہے :َ فَدَمَّرْناهُمْ تَدْمِيراً [ الفرقان 36] اور ہم نے انہیں ہلاک کرڈالا ۔ ثُمَّ دَمَّرْنَا الْآخَرِينَ [ الشعراء 172] پھر ہم نے اوروں کو ہلاک کردیا ۔ وَدَمَّرْنا ما کانَ يَصْنَعُ فِرْعَوْنُ وَقَوْمُهُ وَما کانُوا يَعْرِشُونَ [ الأعراف 137] اور فرعون اور قوم فرعون جو ( محل بناتے اور انگور کے باغ ) جو چھتریوں پر چڑھاتے تھے سب کو ہم نے تباہ وبرباد کردیا ۔ اور آیت کریمہ ؛۔ دَمَّرَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ [ محمد 10] خدا نے ان پر تباہی ڈال دی ۔ میں دمر کا مفعول محذوف ہے ۔ محاورہ ہے ۔ بالدار تدمری ۔ یعنی گھر میں کوئی بھی نہیں ہے ۔- قوم - والقَوْمُ : جماعة الرّجال في الأصل دون النّساء، ولذلک قال : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات 11] ، - ( ق و م ) قيام - القوم۔ یہ اصل میں صرف مرودں کی جماعت پر بولا جاتا ہے جس میں عورتیں شامل نہ ہوں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات 11]
(٥١) سو دیکھیے ان کی اس شرارت کا کیا انجام ہوا ہم نے ان کو اس طریقے سے مذکور اور بقیہ انکی ساری قوم کو پتھروں کا عذاب نازل کر کے ہلاک کردیا۔
آیت ٥١ (فَانْظُرْ کَیْفَ کَانَ عَاقِبَۃُ مَکْرِہِمْلا اَنَّا دَمَّرْنٰہُمْ وَقَوْمَہُمْ اَجْمَعِیْنَ ) ” - یعنی اس قوم پر عذاب الٰہی ٹوٹ پڑا اور ان نو سرداروں سمیت تمام منکرین ہلاک ہوگئے۔