Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٥٢] اس جملہ کے کئی ملب ہوسکتے ہیں ایک یہ کہ وہی لوگ عبرت حاصل کرتے ہیں جو ان کھنڈرات کو دیدہ بینا سے دیکھتے ہیں۔ دوسرے یہ کہ وہ جو اقوام اعلم کے عروج وزوال کے قانون سے واقف ہیں اور وہ جانتے ہیں کہ قوم نے رسولوں کی تکذیب کی اور انھیں دکھ پہنچایا۔ وہ تباہ و برباد ہو کے رہی۔ تیسرے یہ کہ وہ لوگ اللہ تعالیٰ کو طبیعی اسباب کا پابند نہیں سمجھتے بلکہ یہ جانتے ہیں کہ طبیعی اسباب کا خالق وہ خود ہے اور ان میں جب چاہے رد و بدل بھی کرسکتا ہے اور سبب اور مسبب کا تعلق توڑ بھی سکتا ہے۔ ظاہری اور باطنی سب اسباب اسی کے قبضہ قدرت میں ہیں اور وہ یوں نہیں کہہ دیتے کہ فلاں عذاب مثلاً زلزلہ تو محض طبیعی اسباب کی بنا پر ایا تھا اس کا لوگوں کے گناہوں سے کیا تعلق ؟

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

فَتِلْكَ بُيُوْتُهُمْ خَاوِيَةًۢ :” خَاوِيَةًۢ“ کا معنی گرنے والے بھی ہیں، جیسا کہ سورة بقرہ (٢٥٩) میں ہے : (وَّهِيَ خَاوِيَةٌ عَلٰي عُرُوْشِهَا ) اور خالی بھی ہے، جیسے : ” أَرْضٌ خَاوِیَۃٌ أَيْ خَالِیَۃٌ۔ “ (قاموس) مکہ والے شام کو جاتے تو راستے میں وادی القریٰ میں ثمود کی بستیوں کے کھنڈر دیکھتے تھے، عالی شان عمارتیں پیوند زمین تھیں، آبادی کا نام و نشان نہ تھا۔ - اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيَةً لِّقَوْمٍ يَّعْلَمُوْنَ ۔۔ : یعنی جاہلوں کے لیے ان اجڑے ہوئے مکانوں اور کھنڈروں میں کوئی عبرت نہیں، ان کے خیال میں اس زلزلے کا صالح (علیہ السلام) اور ان کی اونٹنی سے، یا اس قوم کے کفر و شرک یا سرکشی سے کوئی تعلق نہیں، دنیا میں ایسا ہوتا ہی رہتا ہے۔ (دیکھیے اعراف : ٩٤، ٩٥) یہ علم والے ہی ہیں جو جانتے ہیں کہ دنیا میں جو کچھ بھی ہو رہا ہے ایک کمال حکمت و قدرت والے پروردگار کے حکم کے تحت ہو رہا ہے۔ وہ جب چاہتا ہے بےراہ روی اور ظلم و ستم کی سزا دنیا میں بھی دے دیتا ہے، اس لیے وہ جب ایسی بستیوں پر گزرتے ہیں جو عذاب الٰہی سے برباد ہوئیں تو ان سے عبرت حاصل کرتے اور اللہ کی گرفت سے ڈر کر توبہ و استغفار کرتے ہیں۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

فَتِلْكَ بُيُوْتُہُمْ خَاوِيَۃًۢ بِمَا ظَلَمُوْا۝ ٠ۭ اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيَۃً لِّقَوْمٍ يَّعْلَمُوْنَ۝ ٥٢- بيت - أصل البیت : مأوى الإنسان باللیل، قال عزّ وجلّ : فَتِلْكَ بُيُوتُهُمْ خاوِيَةً بِما ظَلَمُوا [ النمل 52] ، - ( ب ی ت ) البیت - اصل میں بیت کے معنی انسان کے رات کے ٹھکانہ کے ہیں ۔ کیونکہ بات کا لفظ رات کو کسی جگہ اقامت کرنے پر بولا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے ؛۔ فَتِلْكَ بُيُوتُهُمْ خاوِيَةً بِما ظَلَمُوا [ النمل 52] یہ ان کے گھر ان کے ظلم کے سبب خالی پڑے ہیں ۔ - خوی - أصل الخَوَاء : الخلا، يقال خَوَى بطنه من الطعام يَخْوِي خَوًى «3» ، وخَوَى الجوز خَوًى تشبيها به، وخَوَتِ الدار تَخْوِي خَوَاءً ، وخَوَى النجم وأَخْوَى: إذا لم يكن منه عند سقوطه مطر، تشبيها بذلک، وأخوی أبلغ من خوی، كما أن أسقی أبلغ من سقی. والتّخوية : ترک ما بين الشيئين خالیا .- ( خ و ی ) الخوا ء - کے معنی خالی ہونے کے ہیں ۔ کہا جاتا ہے : ۔ یعنی اس کا پیٹ طعام سے خالی ہوگیا ۔ اور تشبیہ کے طور پر خوی الجواز کا محاورہ بھی استعمال ہوتا ہے ۔ جسکے معنی خالی ہونے کے ہیں ۔ خوت خواء الدار گھر ویران ہوکر گر پڑا اور جب ستارے کے گرنے پر بارش نہ ہو تو تشبیہ کے طور پر کہا جاتا ہے یہاں خوی کی نسبت آخویٰ کے لفظ میں زیادہ مبالغہ پایا جاتا ہے جیسا کہ سقی اور اسقیٰ میں ۔ التخویۃ دو چیزوں کے درمیان جگہ خالی چھوڑ نا ۔- ظلم - وَالظُّلْمُ عند أهل اللّغة وكثير من العلماء : وضع الشیء في غير موضعه المختصّ به، إمّا بنقصان أو بزیادة، وإمّا بعدول عن وقته أو مکانه،- قال بعض الحکماء : الظُّلْمُ ثلاثةٌ:- الأوّل : ظُلْمٌ بين الإنسان وبین اللہ تعالی،- وأعظمه : الکفر والشّرک والنّفاق، ولذلک قال :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان 13] - والثاني : ظُلْمٌ بينه وبین الناس،- وإيّاه قصد بقوله : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ وبقوله : إِنَّمَا السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ [ الشوری 42] - والثالث : ظُلْمٌ بينه وبین نفسه،- وإيّاه قصد بقوله : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر 32] ،- ( ظ ل م ) ۔- الظلم - اہل لغت اور اکثر علماء کے نزدیک ظلم کے معنی ہیں کسی چیز کو اس کے مخصوص مقام پر نہ رکھنا خواہ کمی زیادتی کرکے یا اسے اس کی صحیح وقت یا اصلی جگہ سے ہٹاکر - بعض حکماء نے کہا ہے کہ ظلم تین قسم پر ہے - (1) وہ ظلم جو انسان اللہ تعالیٰ کے ساتھ کرتا ہے اس کی کسب سے بڑی قسم کفر وشرک اور نفاق ہے ۔ چناچہ فرمایا - :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان 13] شرک تو بڑا بھاری ظلم ہے ۔ - (2) دوسری قسم کا ظلم وہ ہے جو انسان ایک دوسرے پر کرتا ہے - ۔ چناچہ آیت کریمہ : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ اور برائی کا بدلہ تو اسی طرح کی برائی ہے مگر جو درگزر کرے اور معاملے کو درست کرلے تو اس کا بدلہ خدا کے ذمہ ہے اس میں شک نہیں کہ وہ ظلم کرنیوالوں کو پسند نہیں کرتا ۔ میں میں ظالمین سے اسی قسم کے لوگ مراد ہیں ۔- ۔ (3) تیسری قسم کا ظلم وہ ہے جو ایک انسان خود اپنے نفس پر کرتا ہے - ۔ چناچہ اسی معنی میں فرمایا : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر 32] تو کچھ ان میں سے اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں - الآية- والآية : هي العلامة الظاهرة، وحقیقته لکل شيء ظاهر، وهو ملازم لشیء لا يظهر ظهوره، فمتی أدرک مدرک الظاهر منهما علم أنه أدرک الآخر الذي لم يدركه بذاته، إذ کان حكمهما سواء، وذلک ظاهر في المحسوسات والمعقولات، فمن علم ملازمة العلم للطریق المنهج ثم وجد العلم علم أنه وجد الطریق، وکذا إذا علم شيئا مصنوعا علم أنّه لا بدّ له من صانع .- الایۃ ۔- اسی کے معنی علامت ظاہر ہ یعنی واضح علامت کے ہیں دراصل آیۃ ، ، ہر اس ظاہر شے کو کہتے ہیں جو دوسری ایسی شے کو لازم ہو جو اس کی طرح ظاہر نہ ہو مگر جب کوئی شخص اس ظاہر شے کا ادراک کرے گو اس دوسری ( اصل ) شے کا بذاتہ اس نے ادراک نہ کیا ہو مگر یقین کرلیاجائے کہ اس نے اصل شے کا بھی ادراک کرلیا کیونکہ دونوں کا حکم ایک ہے اور لزوم کا یہ سلسلہ محسوسات اور معقولات دونوں میں پایا جاتا ہے چناچہ کسی شخص کو معلوم ہو کہ فلاں راستے پر فلاں قسم کے نشانات ہیں اور پھر وہ نشان بھی مل جائے تو اسے یقین ہوجائیگا کہ اس نے راستہ پالیا ہے ۔ اسی طرح کسی مصنوع کے علم سے لامحالہ اس کے صانع کا علم ہوجاتا ہے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٥٢) سو یہ ان کے ویران گھر پڑے ہوئے ہیں ان کے شرک کی وجہ سے ہم نے جو ان کو سزا دی، بیشک اس میں بڑی عبرت ہے۔ ان لوگوں کے لیے جو ہماری سزا دینے کی تصدیق کرتے ہیں۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة النمل حاشیہ نمبر : 66 یعنی جاہلوں کا معاملہ تو دوسرا ہے ، وہ تو کہیں گے کہ حضرت صالح اور ان کی اونٹنی کے معاملہ سے اس زلزلے کا کوئی تعلق نہیں ہے جو قوم ثمود پر آیا ، یہ چیزیں تو اپنے طبیعی اسباب سے آیا کرتی ہیں ، ان کے آنے یا نہ آنے میں اس چیز کا کوئی دخل نہیں ہوسکتا کہ کون اس علاقے میں نیکو کار تھا اور کون بد کار اور کس نے کس پر طلم کیا تھا اور کس نے رحم کھایا تھا ، یہ محض واعظانہ ڈھکوسلے ہیں کہ فلاں شہر یا فلاں علاقہ فسق و فجور سے بھر گیا تھا اس لیے اس پر سیلاب آگیا یا زلزلے نے اس کی بستیاں الٹ دیں یا کسی اور بلائے ناگہانی نے اسے تل پٹ کر ڈالا ۔ لیکن جو لوگ علم رکھتے ہیں وہ جانتے ہیں کہ کوئی اندھا بہرا خدا اس کائنات پر حکومت نہیں کر رہا ہے بلکہ ایک حکیم و دانا ہستی یہاں قسمتوں کے فیصلے کر رہی ہے ، اس کے فیصلے پر طبیعی اسباب کے غلام نہیں ہیں بلکہ طبیعی اسباب اس کے ارادے کے غلام ہیں ، اس کے ہاں قوموں کو گرانے اور اٹھانے کے فیصلے اندھا دھند نہٰں کیے جاتے بلکہ حکمت اور عدل کے ساتھ کیے جاتے ہیں اور ایک قانون مکافات بھی اس کی کتاب آئین میں شامل ہے جس کی رو سے اخلاقی بنیادوں پر اس دنیا میں بھی ظالم کیفر کردار کو پہنچائے جاتے ہیں ، ان حقیقتوں سے جو لوگ باخبر ہیں وہ اس زلزلے کو اسباب طبیعی کا نتیجہ کہہ کر نہیں ٹال سکتے ، وہ اسے اپنے حق میں تنبیہ کا کوڑا سمجھیں گے ، وہ اس سے عبرت حاصل کریں گے ، وہ ان اخلاقی اسباب کو سمجھنے کی وکشش کریں گے جن کی بنا پر خالق نے اپنی پیدا کی ہوئی ایک پھلتی پھولتی قوم کو غارت کرکے رکھ دیا ۔ وہ اپنے رویے کو اس راہ سے ہٹائیں گے جو اس کا غضب لانے والی ہے اور اس راہ پر ڈالیں گے جو اس کی رحمت سے ہمکنار کرنے والی ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

27: حضرت صالح علیہ السلا کی قوم کی بستیاں عرب ہی کے علاقے میں تھیں، اور مدینہ منورہ سے کچھ ہی فاصلے پر واقع تھیں، اور اہل عرب جب شام کا سفر کرتے تو ان کے پاس سے گذرا کرتے تھے۔ اس لیے قرآن کریم نے ان کی طرف اس طرح اشارہ فرمایا ہے جیسے وہ نظر آرہے ہوں۔ آج بھی یہ ویران بستیاں اور ان کے کھنڈر ’’ مدائن صالح‘‘ کے نام سے مشہور ہیں، اور سامان عبرت بنی ہوئی ہیں۔