[١٠٠] سزا یا برے اعمال کے برے بدلہ کے مطابق اللہ کا ضابطہ یا قانون یہ ہے۔ کہ جتنا کسی نے جرم کیا ہے اسے اتنی ہی سزا دی جائے اس سے زیادہ نہ دی جائے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کسی حال میں بھی اپنے بندوں پر ظلم یا زیادگی نہیں کرتا۔ یہ الگ بات ہے کہ کئی جرائم ایسے ہیں جن کی سزا ہی خلود فی النار ہے۔
وَمَنْ جَاۗءَ بالسَّيِّئَةِ فَكُبَّتْ وُجُوْهُهُمْ فِي النَّارِ ۔۔ : یہاں برائی سے مراد شرک ہے، اس پر صحابہ اور بعد کے علماء کی اکثریت کا اتفاق ہے۔ اس تخصیص کی وجہ وہ ہولناک سزا ہے جو آگے بیان کی جا رہی ہے۔ دلیل اس کی وہ صحیح حدیث ہے جس میں ہے کہ آگ سجدے کے مقامات کو نہیں کھائے گی (دیکھیے بخاری : ٦٥٧٣) اور سجدے کے مقامات میں سب سے زیادہ معزز مقام چہرہ ہے، لہٰذا یہ ممکن نہیں کہ چہرے کے بل آگ میں گرائے جانے والوں سے مراد موحد مسلمان ہوں۔
وَمَنْ جَاۗءَ بِالسَّيِّئَۃِ فَكُبَّتْ وُجُوْہُہُمْ فِي النَّارِ ٠ ۭ ہَلْ تُجْزَوْنَ اِلَّا مَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ ٩٠- سَّيِّئَةُ :- الفعلة القبیحة، وهي ضدّ الحسنة، قال : ثُمَّ كانَ عاقِبَةَ الَّذِينَ أَساؤُا السُّوای[ الروم 10]: بَلى مَنْ كَسَبَ سَيِّئَةً [ البقرة 81] - سَّيِّئَةُ :- اور ہر وہ چیز جو قبیح ہو اسے سَّيِّئَةُ :،- ، سے تعبیر کرتے ہیں ۔ اسی لئے یہ لفظ ، ، الحسنیٰ ، ، کے مقابلہ میں آتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ثُمَّ كانَ عاقِبَةَ الَّذِينَ أَساؤُا السُّوای[ الروم 10] پھر جن لوگوں نے برائی کی ان کا انجام بھی برا ہوا ۔ چناچہ قرآن میں ہے اور سیئۃ کے معنی برائی کے ہیں اور یہ حسنۃ کی ضد ہے قرآن میں ہے : بَلى مَنْ كَسَبَ سَيِّئَةً [ البقرة 81] جو برے کام کرے - كب - الْكَبُّ : إسقاط الشیء علی وجهه . قال عزّ وجل : فَكُبَّتْ وُجُوهُهُمْ فِي النَّارِ- [ النمل 90] . والإِكْبَابُ : جعل وجهه مَكْبُوباً علی العمل . قال تعالی: أَفَمَنْ يَمْشِي مُكِبًّا عَلى وَجْهِهِ أَهْدى[ الملک 22] - والکَبْكَبَةُ :- تدهور الشیء في هوّة . قال : فَكُبْكِبُوا فِيها هُمْ وَالْغاوُونَ [ الشعراء 94] . يقال كَبَّ وكَبْكَبَ ، نحو : كفّ وكفكف، وصرّ الرّيح وصرصر .- والکَوَاكِبُ :- النّجوم البادية، ولا يقال لها كواکب إلّا إذا بدت . قال تعالی: فَلَمَّا جَنَّ عَلَيْهِ اللَّيْلُ رَأى كَوْكَباً [ الأنعام 76] ، وقال : كَأَنَّها كَوْكَبٌ دُرِّيٌّ [ النور 35] ، إِنَّا زَيَّنَّا السَّماءَ الدُّنْيا بِزِينَةٍ الْكَواكِبِ [ الصافات 6] ، وَإِذَا الْكَواكِبُ انْتَثَرَتْ [ الانفطار 2] ويقال : ذهبوا تحت کلّ كوكب : إذا تفرّقوا، وكَوْكَبُ العسکرِ : ما يلمع فيها من الحدید .- ( ک ب ب ) الکب ( ن ) کے معنی کسی کو منہ کے بل گرانے کے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : فَكُبَّتْ وُجُوهُهُمْ فِي النَّارِ [ النمل 90] تو ایسے لوگ اوندھے منہ دوزخ میں ڈال دیئے جائیں گے ۔ الاکباب ۔ کسی چیز پر منہ کے بل گرجانا ۔ ( اور کنایہ ازہمہ تن مشغول شدن درکا ر ے ) اسی سے قرآن میں ہے : أَفَمَنْ يَمْشِي مُكِبًّا عَلى وَجْهِهِ أَهْدى[ الملک 22] بھلا جو شخص چلتا ہوا منہ کے بل گرگر پڑتا ہو ۔ وہ سیدھے رستے پر ہے ۔ یعنی جو غلط روش پر چلتا ہے ۔ الکبکبۃ کسی چیز کو اوپر سے لڑھا کر گڑھے میں پھینک دینا۔ قرآن میں ہے : فَكُبْكِبُوا فِيها هُمْ وَالْغاوُونَ [ الشعراء 94] تو وہ اور گمراہ ( یعنی بت اور بت پرست ) اوندھے منہ دوزخ میں ڈال دیئے جائیں گے ۔ کب وکبکب ( ثلاثی درباعی ، دونوں طرح آتا ہے مثل ۔ کف وکفکف وصرالریح وصر صر الکواکب ظاہر ہونے والے ستارے ، ستاروں کو کواکب اسی وقت کہاجاتا ۔۔۔ جب نمودار اور ظاہر ہوں ۔ قرآن میں ہے : فَلَمَّا جَنَّ عَلَيْهِ اللَّيْلُ رَأى كَوْكَباً [ الأنعام 76]( یعنی ) جب رات نے ان کو ( پردہ تاریکی سے ) ڈھانپ لیا ( تو آسمان میں ) ایک ستارہ نظر پڑا ۔ كَأَنَّها كَوْكَبٌ دُرِّيٌّ [ النور 35] گویا وہ موتی کا سا چمکتا ہوا تارا ہے ۔ إِنَّا زَيَّنَّا السَّماءَ الدُّنْيا بِزِينَةٍ الْكَواكِبِ [ الصافات 6] بیشک ہم نے آسمان دنیا کو ستاروں کی زینت س مزین کیا ۔ وَإِذَا الْكَواكِبُ انْتَثَرَتْ [ الانفطار 2] اور جب ( آسمان کے ) ستارے جھڑ پڑیں گے ۔ محاورہ ہے : ذھبوا تحت کل کوکب وہ منتشر ہوگئے ۔ کوکب العسکر لشکر میں اسلہ کی چمک - وجه - أصل الوجه الجارحة . قال تعالی: فَاغْسِلُوا وُجُوهَكُمْ وَأَيْدِيَكُمْ [ المائدة 6]- ( و ج ہ ) الوجہ - کے اصل معنی چہرہ کے ہیں ۔ جمع وجوہ جیسے فرمایا : ۔ فَاغْسِلُوا وُجُوهَكُمْ وَأَيْدِيَكُمْ [ المائدة 6] تو اپنے منہ اور ہاتھ دھو لیا کرو ۔- نار - والنَّارُ تقال للهيب الذي يبدو للحاسّة، قال : أَفَرَأَيْتُمُ النَّارَ الَّتِي تُورُونَ [ الواقعة 71] ، - ( ن و ر ) نار - اس شعلہ کو کہتے ہیں جو آنکھوں کے سامنے ظاہر ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ أَفَرَأَيْتُمُ النَّارَ الَّتِي تُورُونَ [ الواقعة 71] بھلا دیکھو کہ جو آگ تم در خت سے نکالتے ہو ۔ - جزا - الجَزَاء : الغناء والکفاية، وقال تعالی: لا يَجْزِي والِدٌ عَنْ وَلَدِهِ وَلا مَوْلُودٌ هُوَ جازٍ عَنْ والِدِهِ شَيْئاً [ لقمان 33] ، والجَزَاء : ما فيه الکفاية من المقابلة، إن خيرا فخیر، وإن شرا فشر . يقال : جَزَيْتُهُ كذا وبکذا . قال اللہ تعالی: وَذلِكَ جَزاءُ مَنْ تَزَكَّى [ طه 76] ، - ( ج ز ی ) الجزاء ( ض )- کافی ہونا ۔ قرآن میں ہے :۔ لَا تَجْزِي نَفْسٌ عَنْ نَفْسٍ شَيْئًا ( سورة البقرة 48 - 123) کوئی کسی کے کچھ کام نہ آئے گا ۔ کہ نہ تو باپ اپنے بیٹے کے کچھ کام آئے اور نہ بیٹا اپنے باپ کے کچھ کام آسکیگا ۔ الجزاء ( اسم ) کسی چیز کا بدلہ جو کافی ہو جیسے خیر کا بدلہ خیر سے اور شر کا بدلہ شر سے دیا جائے ۔ کہا جاتا ہے ۔ جزیتہ کذا بکذا میں نے فلاں کو اس ک عمل کا ایسا بدلہ دیا قرآن میں ہے :۔ وَذلِكَ جَزاءُ مَنْ تَزَكَّى [ طه 76] ، اور یہ آں شخص کا بدلہ ہے چو پاک ہوا ۔ - عمل - العَمَلُ : كلّ فعل يكون من الحیوان بقصد، فهو أخصّ من الفعل «6» ، لأنّ الفعل قد ينسب إلى الحیوانات التي يقع منها فعل بغیر قصد، وقد ينسب إلى الجمادات، والعَمَلُ قلّما ينسب إلى ذلك، ولم يستعمل العَمَلُ في الحیوانات إلّا في قولهم : البقر العَوَامِلُ ، والعَمَلُ يستعمل في الأَعْمَالِ الصالحة والسّيّئة، قال : إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ- [ البقرة 277] - ( ع م ل ) العمل - ہر اس فعل کو کہتے ہیں جو کسی جاندار سے ارادۃ صادر ہو یہ فعل سے اخص ہے کیونکہ فعل کا لفظ کبھی حیوانات کی طرف بھی منسوب کردیتے ہیں جن سے بلا قصد افعال سر زد ہوتے ہیں بلکہ جمادات کی طرف بھی منسوب ہوجاتا ہے ۔ مگر عمل کا لفظ ان کی طرف بہت ہی کم منسوب ہوتا ہے صرف البقر العوامل ایک ایسی مثال ہے جہاں کہ عمل کا لفظ حیوانات کے لئے استعمال ہوا ہے نیز عمل کا لفظ اچھے اور بری دونوں قسم کے اعمال پر بولا جاتا ہے ، قرآن میں : ۔ إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة 277] جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے
(٩٠) اور جو شخص کفر و شرک لائے گا وہ اوندھے منہ دوزخ میں ڈالا جائے گا اور ان سے کہا جائے گا کہ تمہیں تو آخرت میں ان ہی کاموں کا بدلہ دیاجا رہا ہے جو تم دنیا میں کیا کرتے تھے۔
آیت ٩٠ (وَمَنْ جَآء بالسَّیِّءَۃِ فَکُبَّتْ وُجُوْہُہُمْ فِی النَّارِ ط) ” - یعنی ان لوگوں کو اوندھے منہ جہنم میں جھونک دیاجائے گا۔ اعاذنا اللّٰہ من ذٰلک - (ہَلْ تُجْزَوْنَ اِلَّا مَا کُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ ) ” (- یعنی اس سزا کی صورت میں تمہارے ساتھ کوئی زیادتی نہیں ہو رہی ‘ بلکہ تمہارے اعمال کے عین مطابق ہی تمہیں بدلہ مل رہا ہے۔
سورة النمل حاشیہ نمبر : 109 الف قرآن مجید میں متعدد مقامات پر اس امر کی تصریح کی گئ ہے کہ آخرت میں بدی کا بدلہ اتنا ہی دیا جائے گا جتنی کسی نے بدی کی ہو اور نیکی کا اجر اللہ تعالی آدمی کے عمل سے بہت زیادہ عطا فرمائے گا ۔ اس کی مزید مثالوں کے لیے ملاحظہ ہو ، یونس آیات 26 ۔ 27 ، القصص آیت 84 ، العنکبوت آیت7 ، سبا آیات 37 ۔ 38 ، المومن آیت 40 ،