Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

اللہ تعالیٰ کو حکم اعلان اللہ تعالیٰ اپنے نبی محترم صلی اللہ علیہ وسلم سے فرماتا ہے کہ آپ لوگوں میں اعلان کردیں کہ میں اس شہر مکہ کے رب کی عبادت کا اور اس کی فرمانبرداری کا مامور ہوں ۔ جیسے ارشاد ہے کہ اے لوگو اگر تمہیں میرے دین میں شک ہے تو ہوا کرے میں تو جن کی تم عبادت کررہے ہو ان کی عبادت ہرگز نہیں کرونگا ۔ میں اسی اللہ کا عابد ہوں جو تمہاری زندگی موت کا مالک ہے ۔ یہاں مکہ شریف کی طرف ربوبیت کی اضافت صرف بزرگی اور شرافت کے اظہار کے لئے ہے جیسے فرمایا آیت ( فَلْيَعْبُدُوْا رَبَّ هٰذَا الْبَيْتِ Ǽ۝ۙ ) 106-قریش:3 ) انہیں چاہیے کہ اس شہر کے رب کی عبادت کریں جس نے انہیں اوروں کی بھوک کے وقت آسودہ اور اوروں کے خوف کے وقت بےخوف کررکھاہے ۔ یہاں فرمایا کہ اس شہر کو حرمت وعزت والا اس نے بنایا ہے ۔ جیسے بخاری ومسلم میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ والے دن فرمایا کہ یہ شہر اسی وقت سے باحرمت ہے ۔ جب اللہ تعالیٰ نے آسمان وزمین کو پیدا کیا ہے ۔ یہ اللہ تعالیٰ کی حرمت دینے سے حرمت والا ہی رہے گا یہاں تک کہ قیامت آجائے نہ اس کے کانٹے کاٹے جائیں نہ اس کا شکار خوف زدہ کیا جائے نہ اس میں گری پڑی چیز کسی کی اٹھای جائے ہاں جو پہچان کر مالک کو پہنچانا چاہے اس کے لئے جائز ہے ۔ اس کی گھاس بھی نہ کاٹی جائے ۔ یہ حدیث بہت سی کتابوں میں بہت سی سندوں کے ساتھ مروی ہے جیسے کہ احکام کی کتابوں میں تفصیل سے موجود ہے ۔ وللہ الحمد ۔ پھر اس خاص چیز کی ملکیت ثابت کرکے اپنی عام ملکیت کا ذکر فرماتا ہے کہ ہر چیز کا رب اور مالک وہی ہے ۔ اس کے سوا نہ کوئی مالک نہ معبود ۔ اور مجھے یہ حکم بھی ملاہے کہ میں موحد مخلص مطیع اور فرمانبردار ہو کر رہوں ۔ اور مجھے یہ بھی فرمایا گیا کہ میں لوگوں کو اللہ کا کلام پڑھ کر سناؤں ۔ جیسے فرمان ہے کہ ہم یہ آیتیں اور یہ حکمت والا ذکر تیرے سامنے تلاوت کرتے ہیں ۔ اور آیت میں ہے ہم تجھے موسیٰ اور فرعون کا صحیح واقعہ سناتے ہیں ۔ مطلب یہ ہے کہ میں اللہ کامبلغ ہوں میں تمہیں جگا رہا ہوں ۔ تمہیں ڈرا رہا ہوں ۔ اگر میری مان کر راہ راست پر آؤگے تو اپنا بھلاکروگے ۔ اور اگر میری نہ مانی تو میں اپنے تبلیغ کے فرض کو ادا کرکے سبکدوش ہوگیا ہوں ۔ اگلے رسولوں نے بھی یہی کیا تھا اللہ کا کلام پہنچاکر اپنا دامن پاک کرلیا ۔ جیسے فرمان ہے تجھ پر صرف پہنچادینا ہے حساب ہمارے ذمہ ہے ۔ اور فرمایا تو صرف ڈرا دینے والا ہے اور ہر چیز پر وکیل اللہ ہی ہے ۔ اللہ کے لئے تعریف ہے جو بندوں کی بےخبری میں انہیں عذاب نہیں کرتا بلکہ پہلے اپنا پیغام پہنچاتا ہے اپنی حجت تمام کرتا ہے بھلا برا سمجھا دیتا ہے ۔ ہم تمہیں ایسی آیتیں دکھائیں گے کہ تم خود قائل ہوجاؤ ۔ جیسے فرمایا آیت ( سَنُرِيْهِمْ اٰيٰتِنَا فِي الْاٰفَاقِ وَفِيْٓ اَنْفُسِهِمْ حَتّٰى يَتَبَيَّنَ لَهُمْ اَنَّهُ الْحَقُّ ۭ اَوَلَمْ يَكْفِ بِرَبِّكَ اَنَّهٗ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ شَهِيْدٌ 53؀ ) 41- فصلت:53 ) یعنی ہم انہیں خود ان کے نفسوں میں اور ان کے اردگرد ایسی نشانیاں دکھائیں گے کہ جن سے ان پر حق ظاہر ہوجائے ۔ اللہ تعالیٰ تمہارے کرتوت سے غافل نہیں بلکہ اسکا علم ہر چھوٹی بڑی چیز کا احاطہ کئے ہوئے ہے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے دیکھو لوگو اللہ کو کسی چیز سے اپنے عمل سے غافل نہ جاننا ۔ وہ ایک ایک مچھر سے ایک ایک پتنگے سے اور ایک ایک ذرے سے باخبر ہے ۔ عمربن عبدالعزیز سے مروی ہے کہ اگر وہ غافل ہوتا تو انسان کے قدموں کے نشان سے جنہیں ہوا مٹادیتی ہے غفلت کر جاتا لیکن وہ ان نشانات کا بھی حافظ ہے اور عالم ہے ۔ امام احمد بن حنبل اکثر ان دو شعروں کو پڑھتے تھے جو یا تو آپ کے ہیں یا کسی اور کے شعر ( اذا ماخلوت الدھر یوما فلا تقل خلوت ولکن قل علی رقیب ) یعنی جب تو کسی وقت بھی خلوت اور تنہائی میں ہو تو اپنے آپ کو تنہا اور اکیلا نہ سمجھنا بلکہ اپنے اللہ کو وہاں حاضر ناظر جاننا ۔ وہ ایک ساعت بھی کسی سے غافل نہیں نہ کوئی مخفی اور پوشیدہ چیز اس کے علم سے باہر ہے ۔ اللہ کے فضل وکرم سے سورۃ نمل کی تفسیر ختم ہوئی ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

911اس سے مراد مکہ شہر ہے اس کا بطور خاص اس لئے ذکر کیا ہے کہ اسی میں خانہ کعبہ ہے اور یہی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بھی سب سے زیادہ محبوب تھا حرمت والا کا مطلب ہے اس میں خون ریزی کرنا، ظلم کرنا، شکار کرنا درخت کاٹنا حتّٰی کہ کانٹا توڑنا بھی منع ہے (بخاری کتاب الجنائز)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١٠١] مکہ کے مالک ہونے کا اللہ تعالیٰ نے اس لئے ذکر فرمایا کہ اس سورة کے نزول کے وقت تک دعوت اسلام کا مرکز تبلیغ صرف مکہ ہی تھا۔ اور اللہ تعالیٰ کی عبادت اور اطاعت اس لحاظ سے بھی تمہارے لئے ضروری ہے کہ جس نے اس شہر کو قابل احترام قرار دیا ہے۔ جس کے بیشمار فوائد اے قریش مکہ تم ہی اٹھا رہے ہو۔ ساری دنیا بالخصوص اس گھر کے متولی ہونے کے باعث تمہاری عزت اور تمہاری وقار قائم ہے اللہ کے اس عطا کردہ احترام ہی کی وجہ سے عرب کے ڈاکوؤں اور لیٹروں سے تمہاری جانیں اور تمہارے اموال محفوظ رہتے ہیں اور بالخصوص تمہارے تجارتی قافلوں کو کوئی لوٹنے کی جرات نہیں کرتا۔ پھر جسے تم پروانہ راہداری عطا کردو۔ لوگ اس پر بھی ہاتھ نہیں ڈالتے۔ آخر عرب کے ڈاکوؤں اور لیٹروں کے دلوں میں تمہارا یہ احترام اور اس گھر کی عزت اور ہیبت کس نے ڈالی ہے ؟ یہ کوئی تمہارے معبودوں کا کارنامہ تو نہیں ہے۔ لہذا مجھے تو یہی حکم ہے کہ میں اسی پروردگار کی اطاعت کروں اور اس کا فرمانروا بن کر رہوں اور اللہ کا یہ پیغام تم لوگوں تک بھی پہنچا دوں۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

اِنَّمَآ اُمِرْتُ اَنْ اَعْبُدَ رَبَّ هٰذِهِ الْبَلْدَةِ ۔۔ : اس آیت میں قریش مکہ پر چوٹ ہے کہ تم لوگ جو اس شہر میں رہتے ہو جسے اللہ تعالیٰ نے حرمت والا اور جائے امن قرار دیا ہے، جہاں نہ کسی کو قتل کیا جاتا ہے، نہ کسی پر ظلم ہوتا ہے، نہ اس میں شکار کی اجازت ہے، نہ اس کے درخت کاٹنے کی، جس کی وجہ سے تم بیشمار فوائد اٹھا رہے ہو۔ اللہ کے گھر کے متولی ہونے کی وجہ سے ساری دنیا میں تمہاری عزت اور تمہارا وقار قائم ہے۔ سارے عرب میں کسی کی جان اور مال محفوظ نہیں، لوگوں کو ان کے گھروں سے اٹھا لیا جاتا ہے، ان کے اموال لوٹ لیے جاتے ہیں، مگر بیت اللہ کی وجہ سے مکہ میں بھی تمہیں اس کی نعمت میسر ہے اور ہر جانب سے وافر رزق تمہیں پہنچتا ہے۔ سردی میں یمن کی طرف اور گرمی میں شام کی طرف تمہارے تجارتی قافلے جاتے ہیں۔ کعبہ کے احترام کی وجہ سے کوئی انھیں لوٹنے کی جرأت نہیں کرتا۔ تم بھی مانتے ہو کہ یہ سب کچھ اس گھر کے رب کی وجہ سے ہے، ان بتوں کی وجہ سے نہیں جن کی تم عبادت کرتے ہو۔ تمہارا حق تو یہ تھا کہ تم اس شہر کے رب کی عبادت کرتے جس نے تمہیں بھوک میں کھانا اور خوف میں امن عطا کیا، فرمایا : (فَلْيَعْبُدُوْا رَبَّ هٰذَا الْبَيْتِ الَّذِيْٓ اَطْعَمَهُمْ مِّنْ جُوْعٍ ڏ وَّاٰمَنَهُمْ مِّنْ خَوْفٍ ) [ القریش : ٣، ٤ ] ” تو ان پر لازم ہے کہ اس گھر کے رب کی عبادت کریں۔ وہ جس نے انھیں بھوک سے ( بچا کر) کھانا دیا اور خوف سے (بچا کر) امن دیا۔ “ فرمایا، ان سے کہہ دو تم ان نعمتوں کی ناشکری کرتے ہوئے غیر اللہ کی عبادت کرتے ہو تو تمہاری مرضی، مجھے تو یہی حکم ہے کہ میں اس گھر کے رب کی عبادت کروں جس نے اسے حرمت والا بنایا ہے۔ ابن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فتح مکہ کے دن فرمایا : ( إِنَّ ھٰذَا الْبَلَدَ حَرَّمَہُ اللّٰہُ ، لَا یُعْضَدُ شَوْکُہُ ، وَلَا یُنَفَّرُ صَیْدُہُ وَلَا یَلْتَقِطُ لُقَطَتَہُ إِلَّا مَنْ عَرَّفَھَا ) [ بخاري، الحج، باب فضل الحرم ۔۔ : ١٥٨٧ ] ” اس شہر کو اللہ تعالیٰ نے حرم قرار دیا، نہ اس کے کانٹے والے درخت کاٹے جائیں اور نہ اس کے شکار کو ڈرایا جائے اور نہ اس میں کوئی گری ہوئی چیز اٹھائے، مگر جو اس کا اعلان کرتا رہے۔ “ - وَلَهٗ كُلُّ شَيْءٍ : یہ لفظ اس لیے فرمایا کہ کوئی شخص یہ نہ سمجھ بیٹھے کہ اللہ تعالیٰ کی عبادت صرف اس لیے ہے کہ وہ شہر مکہ کا رب ہے، اس لیے ساتھ ہی فرمایا کہ ہر چیز کا مالک بھی وہی ہے، اس لیے مجھے اس کی عبادت کا حکم دیا گیا ہے۔- وَّاُمِرْتُ اَنْ اَكُوْنَ مِنَ الْمُسْلِمِيْنَ : اس کی تفسیر کے لیے دیکھیے سورة انعام (١٦١ تا ١٦٣) ۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر - (اے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لوگوں سے کہہ دیجئے کہ) مجھے تو یہی حکم ملا ہے کہ میں اس شہر (مکہ) کے مالک (حقیقی) کی عبادت کیا کروں جس نے اس (شہر) کو محترم بنایا ہے (کہ حرم ہونا اسی احترام پر مرتب ہے مطلب یہ ہے کہ عبادت میں کسی کو شریک نہ کروں) اور (اس کی عبادت کیوں نہ کی جاوے جبکہ) سب چیزیں اسی کی (ملک) ہیں اور مجھ کو یہ (بھی) حکم ہوا ہے کہ میں (عقائد و اعمال سب میں) فرمانبردار رہوں (یہ تو توحید کا حکم ہوا) اور (مجھ کو) یہ (بھی حکم ملا ہے) کہ میں (تم کو) قرآن پڑھ پڑھ کر سناؤں (یعنی احکام الہیہ کی تبلیغ کروں جو نبوت کے لوازم میں سے ہے) سو (میری تبلیغ کے بعد) جو شخص راہ پر آوے گا تو اپنے ہی فائدہ کے لئے راہ پر آوے گا (یعنی اس کو عذاب سے نجات اور جنت کی لازوال نعمتیں ملیں گی، میں اس سے کسی اپنے مالی یا جاہی نفع کا خواہاں نہیں) اور جو شخص گمراہ رہے گا تو آپ کہہ دیجئے کہ (میرا کوئی ضرر نہیں کیونکہ) میں تو صرف ڈرانے والے (یعنی حکم سنانے والے) پیغمبروں میں سے ہوں (یعنی میرا کام تو حکم پہنچا دینا ہے، اس کے بعد میری ذمہ داری ختم ہے نہ مانو گے تو وبال تمہیں ہی بھگتنا پڑے گا) اور آپ (یہ بھی) کہہ دیجئے کہ (تم جو قیامت کے آنے میں دیر کو اس کے نہ ہونے کی دلیل سمجھ کر انکار کرتے ہو یہ تمہاری بیوقوفی ہے کسی چیز کے واقع ہونے میں دیر لگنا اس کی دلیل نہیں ہوسکتا کہ وہ کبھی واقع ہو ہی گی نہیں۔ اس کے علاوہ تم جو مجھ سے کہتے ہو کہ میں جلد قیامت لے آؤں یہ دوسری غلطی ہے کیونکہ میں نے یہ کب دعویٰ کیا ہے کہ قیامت کا واقع کرنا میرے اختیار میں ہے بلکہ) سب خوبیاں خالص اللہ ہی کے لئے ثابت ہیں (قدرت بھی، علم بھی حکمت بھی۔ وہ جب اس کی حکمت کا تقاضا ہوگا قیامت کو واقع کر دے گا۔ ہاں اتنی بات ہمیں بھی بتلا دی گئی ہے کہ قیامت میں زیادہ دیر نہیں بلکہ) وہ تم کو عنقریب اپنی نشانیاں (یعنی قیامت کے واقعات) دکھلاوے گا سو تم (وقوع کے وقت) ان کو پہچانو گے (جبکہ پہچاننے سے کوئی فائدہ نہ ہوگا) اور (صرف یہ علامات کھلانے ہی پر اکتفا نہ ہوگا بلکہ اپنے برے اعمال کی سزا بھی بھگتنا پڑے گی کیونکہ، آپ کا رب ان کاموں سے بیخبر نہیں جو تم سب لوگ کر رہی ہو۔ - معارف و مسائل - رَبَّ هٰذِهِ الْبَلْدَةِ ، بلدہ سے مراد جمہوری مفسرین کے نزدیک مکہ مکرمہ ہے۔ اللہ تعالیٰ تو رب العالمین اور رب السموات والارض ہے مکہ مکرمہ کی تخصیص اس جگہ اس کی عظمت شان اور اللہ تعالیٰ کے نزدیک مکرم و محترم ہونے کا اظہار ہے۔ لفظ حرم تحریم سے مشتق ہے اس کے معنے مطلق احترام و اکرام کے بھی ہیں اور اس احترام و اکرام کی وجہ سے جو خاص احکام شرعیہ مکہ مکرمہ اور ارض حرم سے متعلق ہیں وہ بھی اس میں داخل ہیں مثلاً جو شخص حرم میں پناہ لے وہ مامون ہوجاتا ہے۔ حرم میں کسی دشمن سے انتقام لینا اور قتل کرنا جائز نہیں اور ارض حرم میں شکار کو قتل کرنا بھی جائز نہیں، درختوں کا کاٹنا جائز نہیں۔ ان احکام کا بیان آیت وَمَنْ دَخَلَهٗ كَانَ اٰمِنًا کے تحت میں اور کچھ سورة مائدہ کے شروع میں اور کچھ آیت للَا تَقْتُلُوا الصَّيْدَ وَاَنْتُمْ کے تحت پہلے بیان ہوچکا ہے۔ - الحمد للہ سورة نمل کی تفسیر آج شب دو شنبہ 24 شوال 1391 ھ میں تمام ہوئی جبکہ 14 شوال سے ہندوستان کے ہندوؤں نے مغربی پاکستان پر بھرپور حملے میدانی اور بحری اور ہوائی کردیئے ہیں، کراچی خاص طور سے اس کا نشانہ ہے ہر رات بمباری ہوتی ہے، شہری آبادی پر بھی بم گرتے ہیں تمام رات مکمل اندھیرا رکھنا پڑتا ہے اور بموں کے دھماکے سے مکان لرزتے ہیں، مگر اللہ کا فضل و کرم ہے کہ اس نے ان حالات میں بھی سلسلہ اس تفسیر کا جاری رکھا اور اس جنگ کے دس روز میں بھی تفسیر کے تقریباً چالیس صفحات لکھے گئے۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

اِنَّمَآ اُمِرْتُ اَنْ اَعْبُدَ رَبَّ ہٰذِہِ الْبَلْدَۃِ الَّذِيْ حَرَّمَہَا وَلَہٗ كُلُّ شَيْءٍ۝ ٠ ۡوَّاُمِرْتُ اَنْ اَكُوْنَ مِنَ الْمُسْلِمِيْنَ۝ ٩١ ۙ - أمر - الأَمْرُ : الشأن، وجمعه أُمُور، ومصدر أمرته :- إذا کلّفته أن يفعل شيئا، وهو لفظ عام للأفعال والأقوال کلها، وعلی ذلک قوله تعالی: إِلَيْهِ يُرْجَعُ الْأَمْرُ كُلُّهُ [هود 123] - ( ا م ر ) الامر - ( اسم ) کے معنی شان یعنی حالت کے ہیں ۔ اس کی جمع امور ہے اور امرتہ ( ن ) کا مصدر بھی امر آتا ہے جس کے معنی حکم دینا کے ہیں امر کا لفظ جملہ اقوال وافعال کے لئے عام ہے ۔ چناچہ آیات :۔- وَإِلَيْهِ يُرْجَعُ الْأَمْرُ كُلُّهُ ( سورة هود 123) اور تمام امور کا رجوع اسی طرف ہے - عبد - العُبُودِيَّةُ : إظهار التّذلّل، والعِبَادَةُ أبلغُ منها، لأنها غاية التّذلّل، ولا يستحقّها إلا من له غاية الإفضال، وهو اللہ تعالی، ولهذا قال : أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء 23] .- ( ع ب د ) العبودیۃ - کے معنی ہیں کسی کے سامنے ذلت اور انکساری ظاہر کرنا مگر العبادۃ کا لفظ انتہائی درجہ کی ذلت اور انکساری ظاہر کرنے بولا جاتا ہے اس سے ثابت ہوا کہ معنوی اعتبار سے العبادۃ کا لفظ العبودیۃ سے زیادہ بلیغ ہے لہذا عبادت کی مستحق بھی وہی ذات ہوسکتی ہے جو بےحد صاحب افضال وانعام ہو اور ایسی ذات صرف الہی ہی ہے اسی لئے فرمایا : أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء 23] کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو ۔ - بلد - البَلَد : المکان المحیط المحدود المتأثر باجتماع قطّانه وإقامتهم فيه، وجمعه : بِلَاد وبُلْدَان، قال عزّ وجلّ : لا أُقْسِمُ بِهذَا الْبَلَدِ [ البلد 1] ، قيل : يعني به مكة «1» . قال تعالی:- بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ [ سبأ 15] ، فَأَنْشَرْنا بِهِ بَلْدَةً مَيْتاً [ الزخرف 11] ، وقال عزّ وجلّ :- فَسُقْناهُ إِلى بَلَدٍ مَيِّتٍ [ الأعراف 57] ، رَبِّ اجْعَلْ هذا بَلَداً آمِناً [ البقرة 126] ، يعني : مكة و تخصیص ذلک في أحد الموضعین وتنکيره في الموضع الآخر له موضع غير هذا الکتاب «2» . وسمیت المفازة بلدا لکونها موطن الوحشیات، والمقبرة بلدا لکونها موطنا للأموات، والبَلْدَة منزل من منازل القمر، والبُلْدَة : البلجة ما بين الحاجبین تشبيها بالبلد لتمدّدها، وسمیت الکركرة بلدة لذلک، وربما استعیر ذلک لصدر الإنسان «1» ، ولاعتبار الأثر قيل : بجلده بَلَدٌ ، أي : أثر، وجمعه : أَبْلَاد، قال الشاعر :- وفي النّحور کلوم ذات أبلاد وأَبْلَدَ الرجل : صار ذا بلد، نحو : أنجد وأتهم «3» . وبَلِدَ : لزم البلد . ولمّا کان اللازم لموطنه كثيرا ما يتحيّر إذا حصل في غير موطنه قيل للمتحيّر : بَلُدَ في أمره وأَبْلَدَ وتَبَلَّدَ ، قال الشاعر : لا بدّ للمحزون أن يتبلّدا ولکثرة وجود البلادة فيمن کان جلف البدن قيل : رجل أبلد، عبارة عن عظیم الخلق، وقوله تعالی: وَالْبَلَدُ الطَّيِّبُ يَخْرُجُ نَباتُهُ بِإِذْنِ رَبِّهِ وَالَّذِي خَبُثَ لا يَخْرُجُ إِلَّا نَكِداً [ الأعراف 58] ، کنایتان عن النفوس الطاهرة والنجسة فيما قيل «5» .- ( ب ل د ) البلد شہر ) وہ مقام جس کی حد بندی کی گئی ہو اور وہاں لوگ آباد ۔ اس کی جمع بلاد اور بلدان آتی ہے اور آیت : ۔ لا أُقْسِمُ بِهذَا الْبَلَدِ [ البلد 1] سے مکہ مکرمہ مراد ہے دوسری جگہ فرمایا رَبِّ اجْعَلْ هذا بَلَداً آمِناً [ البقرة 126] کہ میرے پروردگار اس شہر کو ( لوگوں کے لئے ) امن کی جگہ بنادے ۔ بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ [ سبأ 15] پاکیزہ شہر ہے ۔ فَأَنْشَرْنا بِهِ بَلْدَةً مَيْتاً [ الزخرف 11] پھر ہم نے اس سے شہر مردہ کو زندہ کردیا ۔ فَسُقْناهُ إِلى بَلَدٍ مَيِّتٍ [ الأعراف 57] پھر ہم ان کو ایک بےجان شہر کی طرف چلاتے ہیں ۔ اور آیت کریمہ : ۔ رَبِّ اجْعَلْ هذا بَلَداً آمِناً [ البقرة 126] پروردگار اس جگہ کو امن کا شہر بنا میں بھی مکہ مکرمہ مراد ہے لیکن ایک مقام پر اسے معرفہ اور دوسرے مقام پر نکرہ لانے میں جو لطافت اور نکتہ ملحوظ ہے اسے ہم دوسری کتاب میں بیان کرینگے اور بلد کے معنی بیابان اور قبرستان بھی آتے ہیں کیونکہ پہلاوحشی جانوروں دوسرا مردوں کا مسکن ہوتا ہی ۔ البلدۃ منازل قمر سے ایک منزل کا نام ہے اور تشبیہ کے طور پر ابرو کے درمیان کی جگہ اور اونٹ کے کے سینہ کو بھی بلدۃ کہا جاتا ہے ۔ کیونکہ یہ بھی شہر کی طرح محدود ہوتے ہیں اور بطور استعارہ انسان کے سینہ پر بھی یہ لفظ بولا جاتا ہے اور اثر یعنی نشان کے معنی کے اعتبار سے بجلدہ بلد کا محاورہ استعمال ہوتا ہے یعنی اس کی کھال پر نشان ہے اس کی جمع ابلاد آتی ہے ۔ شاعر نے کہا ہے اور ان کے سینوں پر زخموں کے نشانات ہیں ۔ ابلد الرجل شہر میں چلاجانا جیسا کہ انجد اتھم کے معنی نجد اور تہمامہ میں چلے جانے کے ہیں ۔ بلد الرجل کے معنی شہر میں مقیم ہونے کے ہیں اور کسی مقام پر ہمیشہ رہنے والا اکثر اوقات دوسری جگہ میں جاکر متحیر ہوجاتا ہے اس لئے متجیر آدمی کے متعلق وغیرہ ہا کے محاورات استعمال ہوتے ہیں شاعر نے کہا ہے ( ع ) کہ اند وہ گیں لازما متحیر رہے گا ) ۔ اجد لوگ دام طور پر بلید یعنی کند ذہن ہوتے ہیں اس لئے ہر لئے جیم آدمی کو ابلد کہا جاتا ہے اور آیت کریمہ : وَالْبَلَدُ الطَّيِّبُ يَخْرُجُ نَباتُهُ بِإِذْنِ رَبِّهِ وَالَّذِي خَبُثَ لا يَخْرُجُ إِلَّا نَكِداً [ الأعراف 58]( جو زمین پاکیزہ دے ) اس میں سے سبزہ بھی پروردگار کے حکم سے ( نفیس ہی ) نکلتا ہے اور جو خراب ہے ۔ اس میں سے جو کچھ نکلتا ہے ناقص ہوتا ہے ) میں بلد کے طیب اور خبیث ہونے سے کنایہ نفوس کا طیب اور خبیث ہونا مراد ہے ۔- حرم - الحرام : الممنوع منه إمّا بتسخیر إلهي وإمّا بشريّ ، وإما بمنع قهريّ ، وإمّا بمنع من جهة العقل أو من جهة الشرع، أو من جهة من يرتسم أمره، فقوله تعالی: وَحَرَّمْنا عَلَيْهِ الْمَراضِعَ [ القصص 12] ، فذلک تحریم بتسخیر، وقد حمل علی ذلك :- وَحَرامٌ عَلى قَرْيَةٍ أَهْلَكْناها [ الأنبیاء 95] ، وقوله تعالی: فَإِنَّها مُحَرَّمَةٌ عَلَيْهِمْ أَرْبَعِينَ سَنَةً- [ المائدة 26] ، وقیل : بل کان حراما عليهم من جهة القهر لا بالتسخیر الإلهي، وقوله تعالی: إِنَّهُ مَنْ يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَقَدْ حَرَّمَ اللَّهُ عَلَيْهِ الْجَنَّةَ [ المائدة 72] ، فهذا من جهة القهر بالمنع، وکذلک قوله تعالی: إِنَّ اللَّهَ حَرَّمَهُما عَلَى الْكافِرِينَ [ الأعراف 50] ، والمُحرَّم بالشرع : کتحریم بيع الطعام بالطعام متفاضلا، وقوله عزّ وجلّ : وَإِنْ يَأْتُوكُمْ أُساری تُفادُوهُمْ وَهُوَ مُحَرَّمٌ عَلَيْكُمْ إِخْراجُهُمْ [ البقرة 85] ، فهذا کان محرّما عليهم بحکم شرعهم، ونحو قوله تعالی: قُلْ : لا أَجِدُ فِي ما أُوحِيَ إِلَيَّ مُحَرَّماً عَلى طاعِمٍ يَطْعَمُهُ ...- الآية [ الأنعام 145] ، وَعَلَى الَّذِينَ هادُوا حَرَّمْنا كُلَّ ذِي ظُفُرٍ [ الأنعام 146] ، وسوط مُحَرَّم : لم يدبغ جلده، كأنه لم يحلّ بالدباغ الذي اقتضاه قول النبي صلّى اللہ عليه وسلم : «أيّما إهاب دبغ فقد طهر» «1» .- وقیل : بل المحرّم الذي لم يليّن،- ( ح ر م ) الحرام - وہ ہے جس سے روک دیا گیا ہو خواہ یہ ممانعت تسخیری یا جبری ، یا عقل کی رو س ہو اور یا پھر شرع کی جانب سے ہو اور یا اس شخص کی جانب سے ہو جو حکم شرع کو بجالاتا ہے پس آیت کریمہ ؛۔ وَحَرَّمْنا عَلَيْهِ الْمَراضِعَ [ القصص 12] اور ہم نے پہلے ہی سے اس پر ( دوائیوں کے ) دودھ حرام کردیتے تھے ۔ میں حرمت تسخیری مراد ہے ۔ اور آیت کریمہ :۔ وَحَرامٌ عَلى قَرْيَةٍ أَهْلَكْناها [ الأنبیاء 95] اور جس بستی ( والوں ) کو ہم نے ہلاک کردیا محال ہے کہ ( وہ دنیا کی طرف رجوع کریں ۔ کو بھی اسی معنی پر حمل کیا گیا ہے اور بعض کے نزدیک آیت کریمہ ؛فَإِنَّها مُحَرَّمَةٌ عَلَيْهِمْ أَرْبَعِينَ سَنَةً [ المائدة 26] کہ وہ ملک ان پر چالیس برس تک کے لئے حرام کردیا گیا ۔ میں بھی تحریم تسخیری مراد ہے اور بعض نے کہا ہے کہ یہ منع جبری پر محمول ہے اور آیت کریمہ :۔ إِنَّهُ مَنْ يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَقَدْ حَرَّمَ اللَّهُ عَلَيْهِ الْجَنَّةَ [ المائدة 72] جو شخص خدا کے ساتھ شرگ کریگا ۔ خدا اس پر بہشت کو حرام کردے گا ۔ میں بھی حرمت جبری مراد ہے اسی طرح آیت :۔ إِنَّ اللَّهَ حَرَّمَهُما عَلَى الْكافِرِينَ [ الأعراف 50] کہ خدا نے بہشت کا پانی اور رزق کا فروں پر حرام کردیا ہے ۔ میں تحریم بواسطہ منع جبری ہے اور حرمت شرعی جیسے (77) آنحضرت نے طعام کی طعام کے ساتھ بیع میں تفاضل کو حرام قرار دیا ہے ۔ اور آیت کریمہ ؛ وَإِنْ يَأْتُوكُمْ أُساری تُفادُوهُمْ وَهُوَ مُحَرَّمٌ عَلَيْكُمْ إِخْراجُهُمْ [ البقرة 85] اور اگر وہ تمہارے پاس قید ہوکر آئیں تو بدلادے کر ان کو چھڑی ابھی لیتے ہو حالانکہ ان کے نکال دینا ہی تم پر حرام تھا ۔ میں بھی تحریم شرعی مراد ہے کیونکہ ان کی شریعت میں یہ چیزیں ان پر حرام کردی گئی ۔ تھیں ۔ نیز تحریم شرعی کے متعلق فرمایا ۔ قُلْ لا أَجِدُ فِي ما أُوحِيَ إِلَيَّ مُحَرَّماً عَلى طاعِمٍ يَطْعَمُهُ ... الآية [ الأنعام 145] الآیۃ کہو کہ ج و احکام مجھ پر نازل ہوئے ہیں ان کو کوئی چیز جسے کھانے والا حرام نہیں پاتا ۔ وَعَلَى الَّذِينَ هادُوا حَرَّمْنا كُلَّ ذِي ظُفُرٍ [ الأنعام 146] اور یہودیوں پر ہم نے سب ناخن والے جانور حرام کردیئے ۔ سوط محرم بےدباغت چمڑے کا گوڑا ۔ گویا دباغت سے وہ حلال نہیں ہوا جو کہ حدیث کل اھاب دبغ فقد طھر کا مقتضی ہے اور بعض کہتے ہیں کہ محرم اس کوڑے کو کہتے ہیں ۔ جو نرم نہ کیا گیا ہو ۔- سلم - والْإِسْلَامُ : الدّخول في السّلم، وهو أن يسلم کلّ واحد منهما أن يناله من ألم صاحبه، ومصدر أسلمت الشیء إلى فلان : إذا أخرجته إليه، ومنه : السَّلَمُ في البیع . - والْإِسْلَامُ في الشّرع علی ضربین :- أحدهما : دون الإيمان،- وهو الاعتراف باللسان، وبه يحقن الدّم، حصل معه الاعتقاد أو لم يحصل، وإيّاه قصد بقوله : قالَتِ الْأَعْرابُ آمَنَّا قُلْ لَمْ تُؤْمِنُوا وَلكِنْ قُولُوا أَسْلَمْنا[ الحجرات 14] .- والثاني : فوق الإيمان،- وهو أن يكون مع الاعتراف اعتقاد بالقلب، ووفاء بالفعل، واستسلام لله في جمیع ما قضی وقدّر، كما ذکر عن إبراهيم عليه السلام في قوله : إِذْ قالَ لَهُ رَبُّهُ أَسْلِمْ قالَ أَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعالَمِينَ [ البقرة 131] ،- ( س ل م ) السلم والسلامۃ - الاسلام اس کے اصل معنی سلم ) صلح) میں داخل ہونے کے ہیں اور صلح کے معنی یہ ہیں کہ فریقین باہم ایک دوسرے کی طرف سے تکلیف پہنچنے سے بےخوف ہوجائیں ۔ اور یہ اسلمت الشئی الی ٰفلان ( باب افعال) کا مصدر ہے اور اسی سے بیع سلم ہے ۔ - شرعا اسلام کی دوقسمیں ہیں - کوئی انسان محض زبان سے اسلام کا اقرار کرے دل سے معتقد ہو یا نہ ہو اس سے انسان کا جان ومال اور عزت محفوظ ہوجاتی ہے مگر اس کا درجہ ایمان سے کم ہے اور آیت : ۔ قالَتِ الْأَعْرابُ آمَنَّا قُلْ لَمْ تُؤْمِنُوا وَلكِنْ قُولُوا أَسْلَمْنا[ الحجرات 14] دیہاتی کہتے ہیں کہ ہم ایمان لے آئے کہدو کہ تم ایمان نہیں لائے ( بلکہ یوں ) کہو اسلام لائے ہیں ۔ میں اسلمنا سے یہی معنی مراد ہیں ۔ دوسرا درجہ اسلام کا وہ ہے جو ایمان سے بھی بڑھ کر ہے اور وہ یہ ہے کہ زبان کے اعتراف کے ساتھ ساتھ ولی اعتقاد بھی ہو اور عملا اس کے تقاضوں کو پورا کرے ۔ مزید پر آں کو ہر طرح سے قضا وقدر الہیٰ کے سامنے سر تسلیم خم کردے ۔ جیسا کہ آیت : ۔ إِذْ قالَ لَهُ رَبُّهُ أَسْلِمْ قالَ أَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعالَمِينَ [ البقرة 131] جب ان سے ان کے پروردگار نے فرمایا ۔ کہ اسلام لے آؤ تو انہوں نے عرض کی کہ میں رب العالمین کے آگے سرا طاعت خم کرتا ہوں ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٩١) پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ ان سے فرما دیجیے کہ مجھے تو یہی حکم ملا ہے کہ میں اس شہر کے مالک کی عبادت کیا کروں جس نے مجھے محترم بنایا ہے اور سب چیزیں مخلوقات وغیرہ اسی کی ملکیت ہیں اور مجھے یہ بھی حکم ہوا ہے کہ میں دین اسلام پر مسلمانوں کے ساتھ قائم رہوں۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٩١ (اِنَّمَآ اُمِرْتُ اَنْ اَعْبُدَ رَبَّ ہٰذِہِ الْبَلْدَۃِ الَّذِیْ حَرَّمَہَا) ” - ان آخری آیات کا انداز ایک اعلان کا سا ہے۔ اگرچہ اس اعلان کا آغاز لفظ ” قُلْ “ سے نہیں ہو رہا لیکن انداز یہی ہے کہ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ ڈنکے کی چوٹ یہ اعلان کردیجیے۔ آپ ان پر واضح کردیجیے کہ میں کسی بت ‘ کسی دیوی یا کسی دیوتا کی پرستش کی بجائے صرف اس رب کی بندگی کرتا ہوں اور اسی کی بندگی کرتا رہوں گا جس نے بیت اللہ کو حرم ٹھہرایا ہے اور اس شہر کی سر زمین کو محترم قرار دیا ہے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة النمل حاشیہ نمبر : 110 یہ سورۃ چونکہ اس زمانے میں نازل ہوئی تھی جبکہ اسلام کی دعوت ابھی صرف مکہ معظمہ تک محدود تھی اور مخاطب صرف اس شہر کے لوگ تھے ، اس لیے فرمایا مجھے اس شہر کے رب کی بندگی کا حکم دیا گیا ہے ۔ اس کے ساتھ اس رب کی خصوصیت یہ بیان کی گئی کہ اس نے ا سے حرم بنایا ہے ۔ اس سے کفار مکہ مکہ کو متنبہ کرنا مقصود ہے کہ جس خدا کا تم پر یہ احسان عظیم ہے کہ اس نے عرب کی انتہائی بدامنی اور فساد و خونریزی سے لبریز سرزمین میں تمہارے اس شہر کو امن کا گہوارہ بنا رکھا ہے ، اور جس کے فضل سے تمہارا یہ شہر پورے ملک عرب کا مرکز عقیدت بنا ہوا ہے تم اس کی ناشکری کرنا چاہو تو کرتے رہو ، مگر مجھے تو یہی حکم دیا گیا ہے کہ میں اس کا شکر گزار بندہ بنوں اور اسی کے آگے سر نیاز جھکاؤں ، تم جنہیں معبود بنائے بیٹھے ہو ان میں سے کسی کی یہ طاقت نہ تھی کہ اس شہر کو حرم بنا دیتا اور عرب کے جنگجو اور غارت گر قبیلوں سے اس کا احترام کراسکتا ۔ میرے لیے تو یہ ممکن نہیں ہے کہ اصل محسن کو چھوڑ کر ان کے آگے جھکوں جن کا کوئی ذرہ برابر بھی احسان مجھ پر نہیں ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani