3 1یہ واقعہ اس بات کی دلیل ہے کہ آپ اللہ کے پیغمبر ہیں کیونکہ وحی الٰہی کے بغیر صدیوں قبل کے واقعات بالکل اس طریقے سے بیان کردینا جس طرح پیش آتے ناممکن ہے، تاہم اس کے باوجود اس سے فائدہ اہل ایمان ہی کو ہوگا کیونکہ وہی آپ کی باتوں کی تصدیق کریں گے۔
[١] قرآن کریم میں اکثر مقامات پر حض موسیٰ اور فرعون کا ذکر بڑی تفصیل سے کیا گیا ہے اور انبیاء کے ذکر میں حضرت موسیٰ کا ذکر پہلے کیا گیا ہے۔ اس کی وجوہ ہم پہلے لکھ چکے ہیں۔ مختصراً یہ کہ موسیٰ کو رسول اللہ سے زیادہ شدید حالات میں فریضہ ئرسالت سرانجام دینے کا حکم ہوا تھا۔ مثلاً یہ کہ حضرت موسیٰ جس قوم بنی اسرائیل کے فرد تھے، فرعون نے انھیں اچھوتوں کی طرح کم تر درجہ کی مخلوق اور عملاً غلام بنا کر رکھا ہوا تھا۔ جبکہ آپ اپنی قوم قریش ہی کے ایک فرد تھے۔ پھر حضرت موسیٰ کو فرعون جیسے مغرور، متمرد اور سرکش، فوراً بھڑک اٹھنے والے فرمانروا کے ہاں دعوت رسالت کے لئے بھیجا گیا تھا جبکہ آپ کے مخاطبین اول آپ کی اپنی ہی قوم کے افراد تھے۔ تیسرے یہ کہ حضرت موسیٰ کو یہ بھی حکم تھا کہ دعوت توحید کے ساتھ اپنی قوم بنی اسرائیل کی رہائی کا بھی مطالبہ کریں جبکہ رسول اللہ کو ایسا کوئی حکم نہ تھاـ۔ چوتھے یہ کہ آپ فرعون کے اشتہاری مجرم تھے۔ اور اس قصہ کا انجام یہ ہوتا ہے کہ بالآخر اللہ تعالیٰ حضرت موسیٰ اور ان کے ساتھیوں کی مدد کرکے انھیں فرعونیوں سے نجات دلاتے ہیں اور فرعون اور آل فرعون کو دریا میں غرق کرکے ایسے ظالموں کا صفحہ ہستی سے نام و نشان تک مٹا دیتے ہیں۔ گویا اس قصہ میں آپ کے لئے اور مسلمانوں کے لئے سبق یہ ہے کہ جب موسیٰ نے ایسے شدید حالات اور اللہ پر بھروسہ رکھتے ہوئے سب مصائب برداشت کئے تو آپ کو بھی کرنا چاہئیں اور بشارت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اس معرکہ حق و باطل میں بالآخر اپنے پیغمبر اور ایمان لانے والوں کو ہی کامیاب کرتا ہے اور ان کے دشمن تباہ ہوجاتے ہیں۔- [٢] شاہان مصر کا لقب، جیسے قدیم زمانہ میں ترکوں کے بادشاہ خاقان، یمن کے بادشاہ تبع، حبشہ کے بادشاہ نجاشی، روم کے بادشاہ قیصر اور ایران کے بادشاہ کسریٰ کہلاتے تھے ایسے ہی مصر کے بادشاہ فرعون کہلاتے تھے۔ موسیٰ کو دو فرعونوں یا دو بادشاہوں سے سابقہ پڑا تھا۔ جس فرعون نے آپ کی پرورش کی تھی اس کا نام رعمیس تھا اور نبوت ملنے کے بعد جس کے ہاں آپ کو بھیجا گیا تھا وہ رعمیس کا بیٹا متطتاح تھا ـ۔ ان کا عہد حکومت تقریباً چودہ سو سال قبل مسیح ہے۔- [٣] یعنی قرآن کا یہ قصہ بیان کرنے کا اصل مقصد یہ ہے کہ لوگوں کو بتلایا جائے کہ اللہ تعالیٰ کے نافرمانوں اور متکبروں کا آخر کیا انجام ہوتا ہے اور اللہ کے فرمانبرداروں کا کیا ؟ لیکن اس قصہ سے نصیحت، ہدایت اور سبق وہی لوگ حاصل کرسکتے ہیں جو ان واقعات کو درست تسلیم کرکے اور ان میں غور و فکر کرکے ایمان لانے والے ہوں اور جو لوگ اسے محض تاریخی داستان یا افسانہ سمجھتے ہوں، انھیں اس سے کیا عبرت حاصل ہوسکتی ہے ؟
نَتْلُوْا عَلَيْكَ مِنْ نَّبَاِ مُوْسٰى وَفِرْعَوْنَ : ” نَّبَاِ “ اس خبر کو کہتے ہیں جو اہم اور شان والی ہو۔ ” مِن “- بعض کے معنی میں ہے، اس لیے ترجمہ ” کچھ خبر “ کیا گیا ہے۔ شوق دلانے کے لیے قصے کا آغاز ان الفاظ سے فرمایا، ہم تجھ پر موسیٰ (علیہ السلام) اور فرعون کے اہم واقعے کا کچھ حصہ حق کے ساتھ، یعنی ٹھیک ٹھیک بیان کرتے ہیں۔- لِقَوْمٍ يُّؤْمِنُوْنَ :” یعنی مسلمان اپنا حال قیاس کرلیں ظالموں کے مقابلہ میں۔ “ (موضح) مطلب یہ ہے کہ اس قصے میں مسلمانوں کو یہ بتایا گیا ہے کہ فرعون سے بڑھ کر کوئی ظالم نہیں ہوسکتا اور بنی اسرائیل سے زیادہ کوئی مظلوم نہیں۔ تو جس طرح اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کے ذریعے سے بنی اسرائیل کو کمزور ہونے کے باوجود فرعون کے مقابلے میں کامیاب کیا، اسی طرح جو مسلمان مکہ میں کمزور اور مغلوب ہیں، یا دنیا کے کسی بھی خطے میں یا کسی بھی وقت مظلوم و مجبور ہوں گے، انھیں ہرگز مایوس نہیں ہونا چاہیے، اللہ تعالیٰ ان کی بھی اسی طرح مدد فرمائے گا، انھیں دشمنوں سے نجات دلائے گا اور ان کے دشمنوں کو نیست و نابود کرے گا۔- لِقَوْمٍ يُّؤْمِنُوْنَ : جیسا کہ سورة بقرہ کے شروع میں اس کتاب لا ریب کو صرف متقین کے لیے ہدایت قرار دیا، اسی طرح یہاں فرمایا کہ ہم آپ کو موسیٰ اور فرعون کے قصے کا کچھ حصہ ان لوگوں کے لیے سنا رہے ہیں جو ایمان رکھتے ہیں، کیونکہ سنتے اگرچہ کافر بھی ہیں مگر فائدہ صرف اہل ایمان ہی اٹھاتے ہیں۔ جن لوگوں نے طے کر رکھا ہے کہ ہم نے ماننا ہی نہیں، انھیں اس واقعے سے بلکہ پورے قرآن سے کچھ حاصل نہیں۔ کچھ حصہ اس لیے فرمایا کہ اس قصے کے بہت سے حصے اس سورت کے بجائے دوسری سورتوں میں ہیں اور قرآن کوئی بھی واقعہ بطور تاریخ پورا بیان نہیں کرتا، بلکہ اس کے صرف وہ حصے بیان کرتا ہے جن کی ضرورت ہوتی ہے۔- 3 اس واقعہ کے لیے مزید ملاحظہ کریں سورة بقرہ (رکوع ٦) ، اعراف (رکوع ١٣ تا ١٦) ، یونس (رکوع ٨، ٩) ، ہود (رکوع ٩) ، بنی اسرائیل (رکوع ١٢) ، مریم (رکوع ٤) ، طٰہٰ (رکوع ١ تا ٥) ، مومنون (رکوع ٣) ، شعراء (رکوع ٢ تا ٤) ، نمل (رکوع ١) ، عنکبوت (رکوع ٤) ، مومن (رکوع ٣ تا ٥) ، زخرف (رکوع ٥) ، دخان (رکوع ١) ، ذاریات (رکوع ٢) اور نازعات (رکوع ١) ۔
نَتْلُوْا عَلَيْكَ مِنْ نَّبَـاِ مُوْسٰى وَفِرْعَوْنَ بِالْحَقِّ لِقَوْمٍ يُّؤْمِنُوْنَ ٣- تلو - تَلَاهُ : تبعه متابعة ليس بينهم ما ليس منها، وذلک يكون تارة بالجسم وتارة بالاقتداء في الحکم، ومصدره : تُلُوٌّ وتُلْوٌ ، وتارة بالقراءة وتدبّر المعنی، ومصدره : تِلَاوَة وَالْقَمَرِ إِذا تَلاها [ الشمس 2] - ( ت ل و ) تلاہ ( ن )- کے معنی کسی کے پیچھے پیچھے اس طرح چلنا کے ہیں کہ ان کے درمیان کوئی اجنبی کو چیز حائل نہ ہو یہ کہیں تو جسمانی طور ہوتا ہے اور کہیں اس کے احکام کا اتباع کرنے سے اس معنی میں اس کا مصدر تلو اور تلو آتا ہے اور کبھی یہ متا بعت کسی کتاب کی قراءت ( پڑھنے ) ۔ اور اس کے معانی سمجھنے کے لئے غور وفکر کرنے کی صورت میں ہوتی ہے اس معنی کے لئے اس کا مصدر تلاوۃ آتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَالْقَمَرِ إِذا تَلاها [ الشمس 2] اور چاند کی قسم جب وہ سورج کا اتباع کرتا ہے ۔ - نبأ - خبر ذو فائدة عظیمة يحصل به علم أو غَلَبَة ظنّ ، ولا يقال للخبر في الأصل نَبَأٌ حتی - يتضمّن هذه الأشياء الثّلاثة، وحقّ الخبر الذي يقال فيه نَبَأٌ أن يتعرّى عن الکذب، کالتّواتر، وخبر اللہ تعالی، وخبر النبيّ عليه الصلاة والسلام، ولتضمُّن النَّبَإِ معنی الخبر قال اللہ تعالی: قُلْ هُوَ نَبَأٌ عَظِيمٌ أَنْتُمْ عَنْهُ مُعْرِضُونَ [ ص 67 68] ، - ( ن ب ء ) النبا ء - کے معنی خیر مفید کے ہیں جو علم یا غلبہ ظن کا فائدہ دے اور حقیقی منعی کے لحاظ سے کسی خبر تک اس میں تین چیزیں موجود نہ ہوں ۔ یعنی نہایت مفید ہونا اور اس سے علم یا غلبہ ظن کا حاصل ہونا اور نبا صرف اس خبر کو کہا جاتا ہے جس میں کذب کا احتمال نہ ہو ۔ جیسے خبر متواتر خبر الہیٰ اور خبر نبوی جیسے فرمایا : ۔ قُلْ هُوَ نَبَأٌ عَظِيمٌ أَنْتُمْ عَنْهُ مُعْرِضُونَ [ ص 67 68] کہہ دو کہ یہ ایک بڑی ( ہولناک چیز کی ) خبر ہے جس کو تم دھیان میں نہیں لاتے - موسی - مُوسَى من جعله عربيّا فمنقول عن مُوسَى الحدید، يقال : أَوْسَيْتُ رأسه : حلقته .- فِرْعَوْنُ- : اسم أعجميّ ، وقد اعتبر عرامته، فقیل : تَفَرْعَنَ فلان : إذا تعاطی فعل فرعون، كما يقال : أبلس وتبلّس، ومنه قيل للطّغاة : الفَرَاعِنَةُ والأبالسة .- فرعون - یہ علم عجمی ہے اور اس سے سرکش کے معنی لے کر کہا جاتا ہے تفرعن فلان کہ فلاں فرعون بنا ہوا ہے جس طرح کہ ابلیس سے ابلس وتبلس وغیرہ مشتقات استعمال ہوتے ہیں اور ایس سے سرکشوں کو فراعنۃ ( جمع فرعون کی اور ابا لسۃ ( جمع ابلیس کی ) کہا جاتا ہے ۔- حقَ- أصل الحَقّ : المطابقة والموافقة، کمطابقة رجل الباب في حقّه لدورانه علی استقامة .- والحقّ يقال علی أوجه :- الأول :- يقال لموجد الشیء بسبب ما تقتضيه الحکمة، ولهذا قيل في اللہ تعالی: هو الحقّ قال اللہ تعالی: وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ وقیل بعید ذلک : فَذلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُمُ الْحَقُّ فَماذا بَعْدَ الْحَقِّ إِلَّا الضَّلالُ فَأَنَّى تُصْرَفُونَ [يونس 32] .- والثاني :- يقال للموجد بحسب مقتضی الحکمة، ولهذا يقال : فعل اللہ تعالیٰ كلّه حق، نحو قولنا : الموت حق، والبعث حق، وقال تعالی: هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس 5] ،- والثالث :- في الاعتقاد للشیء المطابق لما عليه ذلک الشیء في نفسه، کقولنا : اعتقاد فلان في البعث والثواب والعقاب والجنّة والنّار حقّ ، قال اللہ تعالی: فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة 213] .- والرابع :- للفعل والقول بحسب ما يجب وبقدر ما يجب، وفي الوقت الذي يجب، کقولنا :- فعلک حقّ وقولک حقّ ، قال تعالی: كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس 33] - ( ح ق ق) الحق ( حق )- کے اصل معنی مطابقت اور موافقت کے ہیں ۔ جیسا کہ دروازے کی چول اپنے گڑھے میں اس طرح فٹ آجاتی ہے کہ وہ استقامت کے ساتھ اس میں گھومتی رہتی ہے اور - لفظ ، ، حق ، ، کئی طرح پر استعمال ہوتا ہے - ۔ (1) وہ ذات جو حکمت کے تقاضوں کے مطابق اشیاء کو ایجاد کرے - ۔ اسی معنی میں باری تعالیٰ پر حق کا لفظ بولا جاتا ہے چناچہ قرآن میں ہے :۔ وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ پھر قیامت کے دن تمام لوگ اپنے مالک برحق خدا تعالیٰ کے پاس واپس بلائیں جائنیگے ۔ - (2) ہر وہ چیز جو مقتضائے حکمت کے مطابق پیدا کی گئی ہو - ۔ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ہر فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس 5] وہی تو ہے جس نے سورج کو روشن اور چاند کو منور بنایا اور اس کی منزلیں مقرر کیں ۔۔۔ یہ پ ( سب کچھ ) خدا نے تدبیر سے پیدا کیا ہے ۔- (3) کسی چیز کے بارے میں اسی طرح کا اعتقاد رکھنا - جیسا کہ وہ نفس واقع میں ہے چناچہ ہم کہتے ہیں ۔ کہ بعث ثواب و عقاب اور جنت دوزخ کے متعلق فلاں کا اعتقاد حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔۔ فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة 213] تو جس امر حق میں وہ اختلاف کرتے تھے خدا نے اپنی مہربانی سے مومنوں کو اس کی راہ دکھادی - ۔ (4) وہ قول یا عمل جو اسی طرح واقع ہو جسطرح پر کہ اس کا ہونا ضروری ہے - اور اسی مقدار اور اسی وقت میں ہو جس مقدار میں اور جس وقت اس کا ہونا واجب ہے چناچہ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے ۔ کہ تمہاری بات یا تمہارا فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس 33] اسی طرح خدا کا ارشاد ۔۔۔۔ ثابت ہو کر رہا ۔- قوم - والقَوْمُ : جماعة الرّجال في الأصل دون النّساء، ولذلک قال : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات 11] ، - ( ق و م ) قيام - القوم۔ یہ اصل میں صرف مرودں کی جماعت پر بولا جاتا ہے جس میں عورتیں شامل نہ ہوں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات 11]
(٣) ہم آپ کو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور فرعون کا کچھ واقعہ بذریعہ قرآن کریم سناتے ہیں ان لوگوں کے فائدہ کیلیے جو آپ کی اور قرآن کریم کی تصدیق کرتے ہیں۔
آیت ٣ (نَتْلُوْا عَلَیْکَ مِنْ نَّبَاِ مُوْسٰی وَفِرْعَوْنَ بالْحَقِّ لِقَوْمٍ یُّؤْمِنُوْنَ ) ” - گویا سورت کا آغاز ہی حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے ذکر سے ہو رہا ہے۔
سورة القصص حاشیہ نمبر : 1 تقابل کے لیے ملاحظۃ ہو البقرہ رکوع 6 ۔ الاعراف رکوع 13 تا 16 ۔ یونس رکوع 8 ۔ 9 ۔ ہود رکوع 9 ۔ بنی اسرائیل رکوع 12 ۔ مریم رکوع4 ۔ طہ رکوع 4 ۔ المومنون رکوع 3 ۔ الشعراء رکوع2 ۔ 4 ۔ النمل رکوع 1 ۔ العنکبوت رکوع 4 ۔ المومن رکوع 3 ۔ 5 ۔ الزخرف رکوع 5 ۔ الدخان رکوع 1 ۔ الذاریات رکوع 2 ۔ النازعات رکوع1 ۔ سورة القصص حاشیہ نمبر : 2 یعنی جو لوگ بات ماننے کے لیے تیار ہی نہ ہوں ان کو سنانا تو بےکار ہے ، البتہ جنہوں نے ہٹ دھرمی کا قفل اپنے دلوں چڑھا نہ رکھا ہو وہ اس گفتگو کے مخاطب ہیں ۔