Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

41یعنی ظلم و ستم کا بازار گرم کر رکھا تھا اور اپنے کو بڑا معبود کہلاتا تھا۔ 42جن کے ذمے الگ الگ کام اور ڈیوٹیاں تھیں۔ 43اس سے مراد بنی اسرائیل ہیں، جو اس وقت کی افضل ترین قوم تھی لیکن آزمائش کے طور پر فرعون کی غلام اور اس کی ستم زانیوں کا تختہ مشق بنی ہوئی تھی۔ 44جس کی وجہ بعض نجومیوں کی پیش گوئی تھی کہ بنی اسرائیل میں پیدا ہونے والے ایک بچے کے ہاتھوں فرعون کی ہلاکت اور اس کی سلطنت کا خاتمہ ہوگا۔ جس کا حل اس نے یہ نکالا کہ ہر پیدا ہونے والا اسرائیلی بچہ قتل کردیا جائے۔ حالانکہ اس احمق نے یہ نہیں سوچا کہ اگر کاہن سچا ہے تو ایسا یقینا ہو کر رہے گا چاہے وہ بچے قتل کرواتا رہے اور اگر وہ جھوٹا ہے تو قتل کروانے کی ضرورت ہی نہیں تھی (فتح القدیر) بعض کہتے ہیں کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی طرف سے یہ خوشحبری منتقل ہوتی چلی آرہی تھی کہ ان کی نسل سے ایک بچہ ہوگا جسکے ہاتھوں سلطنت مصر کی تباہی ہوگی۔ قبیلوں نے یہ بشارت بنی اسرائیل سے سنی اور فرعون کو اس سے آگاہ کردیا جس پر اس نے بنی اسرائیل کے بچوں کو مروانا شروع کردیا۔ (ابن کثیر)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٤] یعنی فرعون نے سر اٹھا رکھا تھا۔ اپنے آپ کو بہت بڑی چیز سمجھنے لگا تھا، لوگوں پر ظلم و زیادتی میں حد سے بڑھنے لگا تھا۔ اپنے آپ کو بندگی کے مقام سے اٹھا کر مکمل خود مختاری کے مقام تک لے گیا تھا اور سخت باغیانہ روش اختیار کر رکھی تھی۔ بعد میں فرعون کا لفظ لغوی لحاظ سے متکبر، سرکش اور متمرد کے معنوی میں استعمال ہونے لگا ہے۔- [٥] اپنی حکومت کو مستحکم کرنے اور مستحکم بنائے رکھنے کے سلسلہ میں اس کی سیاسی پالیسی یہ تھی کہ اس نے اپنی رعایا میں طبقاتی تقسیم پیدا کردی تھی۔ ایک تو اس کی اپنی قوم یا مصر کے قدیم باشندے تھے جنہیں قبطی کہتے ہیں اور یہ معزز طبقہ تھا۔ سرکاری مناصب بھی انھیں ہی مل سکتے تھے اور حکمران قوم ہونے کے ناطے سے ان کے حقوق کی ضرورت سے بھی زیادہ نگہداشت کی جاتی تھی۔ دوسرے بنی اسرائیل تھے۔ جو حضرت یوسف کے زمانہ یعنی تقریباً چار سو سال سے یہاں آکر آباد ہوئے تھے۔ اس وقت وہ حکمران قوم کی حیثیت سے آئے تھے لیکن ایک صدی بعد ہی ان میں جب بےدینی اور اخلاقی انحطاط شروع ہوگیا اور فرقوں میں بٹ گئے۔ تو اللہ نے ان سے حکومت چھین لی اور مصری لوگ پر سے قابض ہوگئے۔ انہوں نے ان بنی اسرائیل سے انتقاماً اچھوتوں اور شودروں کا سا سلوک روارکھا ہوا تھا۔ معاشرہ میں ان کی کچھ عزت نہ تھی۔ کوئی سرکاری عہدہ انھیں نہیں مل سکتا تھا۔ یہ لوگ عموماً حکمران قوم کے افراد کے غلام، ملازم اور ان کی عورتیں بھی ان کے گھروں کا کام کاج کرتی تھیں۔ اس طرح فرعون نے عملاً ان لوگوں کو اپنا غلام بنا کر رکھا ہوا تھا۔- [٦] مصر کی قومیت پرستی کی تحریک تو مدتوں پہلے شروع ہوچکی تھی اور اسی کے نتیجہ میں بنی اسرائیل (یعنی قبطیوں) سے ایسا ناروا سلوک کیا جاتا تھا۔ تاہم فرعون رعمیس نے اس کے لئے انتہائی قدم یہ اٹھایا کہ آئندہ سے بنی اسرائیل کی ہاں پیدا ہونے والے لڑکے کو قتل کردیا جائے اور لڑکیوں کو زندہ رہنے دیا جائے۔ لڑکیاں یا عورتیں تو از خود قبطیوں یا آل فرعون کے قبضہ میں آجائیں گی اور اس طرح کچھ مدت بعد بنی اسرائیل کی نسل ہی ختم ہو کر مصریوں میں مدغم ہوجائے گی۔ چناچہ فرعون کے اس حکم کی تعمیل کے لئے جاسوس قسم کی عورتیں مقرر کی گئی تھیں۔ جو بنی اسرائیل کے ہاں نوازائیدہ بچوں کی رپورٹ حکومت کو پیش کیا کرتی تھیں۔ اور یہ محض احتیاطی تدبیر تھی ورنہ بنی اسرائیل کے لئے آرڈر یہی تھا کہ وہ نوزائیدہ لڑکے کی اطلاع حکومت کو فراہم کریں اور وہ اس بات پر مجبور بھی تھے۔- بعض تفاسیر میں منقول ہے کہ فرعون کو ایک پریشان کن خواب آیا تھا جس کی نجومیوں نے اسے تعبیر یہ بتلائی تھی کہ بنی اسرائیل میں ایک لڑکا پیدا ہونے والا ہے جس کے ہاتھوں فرعون اور اس کی حکومت تباہ ہوجائے گی اور فرعون نے اسی خطرہ کے سد باب کے لئے بنی اسرائیل کے لڑکوں کے قتل کا حکم دیا تھا۔ اس پہلو سے اگر غور کیا جائے تو فرعون کا یہ اقدام سراسر حماقت اور استبداد تھا۔ کیونکہ اگر نجومیوں کی یہ تعبیر درست تھی تو یہ کام ہو کے رہنا چاہئے تھا اور وہ ہو کے رہا۔ خواب یا اس کی تعبیر میں یہ اشارہ تک نہیں پایا جاتا کہ اگر فرعون اس خطرہ کا کوئی سدباب سوچ لے تو بچ سکے گاـ۔ اور اگر یہ تعبیر غلط تھی تو پھر ویسے ہی یہ ایک سفاکانہ حرکت تھی۔ بہرحال دونوں صورتوں میں اس کا یہ اقدام ظالمانہ اور وحشیانہ قسم کا تھا۔ اور جہاں اس واقعہ خواب یا اس کی تعبیر کا تعلق ہے، اس کی صحت اور عدم صحت کے متعلق اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔ اور یہ صورت نہ بھی ہوتی تو قومیت پرستی کی بنیاد پر حالات ایسے پیدا ہوچکے تھ کہ فرعون نے بنی اسرائیل کو مکمل طور پر کچل دینے کے لئے یہی اقدام مناسب سمجھا۔- اور ابن کثیر اس خواب اور اس کی تعبیر کے واقعہ کی صورت حال یہ بتلاتے ہیں کہ بنی اسرائیل آپس میں حضرت ابراہیم خلیل اللہ کی ایک پیشین گوئی کا تذکرہ کیا کرتے تھے کہ ایک اسرائیل نوجوان کے ہاتھوں سلطنت مصر کی تباہی مقدر ہوگی۔ رفتہ رفتہ یہ بات فرعون کے کانوں تک بھی پہنچ گئی۔ اس احمق نے قضا و قدر کی روک تھام کے لئے یہ سفاکانہ اسکیم جاری کی تھی۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

اِنَّ فِرْعَوْنَ عَلَا فِي الْاَرْضِ : ” الْاَرْضِ “ سے مراد سرزمین مصر ہے، جس کا قرینہ فرعون کا ذکر ہے، کیونکہ اس کی حکومت صرف مصر میں تھی۔ جو لوگ اسے پوری زمین کا بادشاہ سمجھتے ہیں ان کی بات درست نہیں، کیونکہ ہجرت کے بعد مصر کے قریب ہی مدین پہنچنے پر موسیٰ (علیہ السلام) اس کی گرفت سے آزاد تھے۔ ” عَلَا “ کا لفظی معنی ہے ” اس نے سر اٹھایا، اونچا بن گیا “ یعنی اپنے اصل مقام بندگی سے اونچا ہو کر خدائی کا دعویٰ کر بیٹھا اور اپنی حقیقت کو بھول گیا۔ ” فِي الْاَرْضِ “ کے لفظ میں یہ بھی اشارہ ہے کہ بلندی اور کبریائی تو اس ذات کا لباس ہے جو عرش پر بلند ہے، زمین پر رہنے والے کا حق تو عرش والے کے سامنے پستی اور عاجزی ہے، نہ کہ سرکشی کرتے ہوئے اللہ کے بندوں کو ذلیل و خوار کرنا اور ان پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑنا۔ - وَجَعَلَ اَهْلَهَا شِيَعًا : یعنی اس نے سر زمین مصر کے باشندوں کو مختلف طبقوں میں تقسیم کردیا تھا۔ واضح رہے کہ فرعون کے زمانے کی تہذیب اور ان کے عقائد بہت حد تک ہندوؤں کی تہذیب اور عقائد سے ملتے جلتے ہیں۔ ہندو بھی چار طبقوں میں تقسیم ہیں، برہمن، کھتری، ویش اور شودر۔ جن میں برہمنوں کو سب پر بالادست رکھا گیا ہے اور شودر کو انسانیت کی حد سے بھی نیچے گرا دیا گیا ہے۔ مصری تہذیب بھی بادشاہ کی خدائی کے ساتھ گائے کی پجاری تھی، ہندوؤں کا بھی یہی حال ہے۔ فرعون مصر نے بھی مصر کے رہنے والوں کو مختلف گروہوں میں بانٹ دیا تھا اور ان سب کو آپس میں دست و گریبان کر رکھا تھا اور مختلف قسم کی مراعات دے کر یا ان پر ظلم و ستم کر کے انھیں اتنا بےوقعت اور بےبس بنا رکھا تھا کہ وہ کسی بات میں اس سے اختلاف کی جرأت نہیں کرسکتے تھے، حتیٰ کہ انھوں نے اس کے رب اعلیٰ ہونے کے دعوے کو بھی مان لیا۔ (دیکھیے زخرف : ٥١ تا ٥٤) آج کل بھی ملکوں اور قوموں کو محکوم رکھنے کے لیے بڑی طاقتوں کا یہی طریقہ ہے کہ تقسیم کرو اور حکومت کرو۔- يَّسْتَضْعِفُ طَاۗىِٕفَةً مِّنْهُمْ : ” أَضْعَفَ یُضْعِفُ “ (افعال) کا معنی کمزور کرنا ہے اور استفعال میں حروف کے اضافے کی وجہ سے معنی میں اضافہ ہوگیا، یعنی وہ ان میں سے ایک گروہ کو بہت زیادہ ہی کمزور کر رہا تھا۔ مراد اس سے بنی اسرائیل ہیں، جو یوسف (علیہ السلام) کے زمانے میں مصر آئے تھے اور مدت تک نہایت شان و شوکت اور عزت و احترام کے ساتھ زندگی بسر کرتے رہے، پھر اللہ کی نافرمانی اور اپنے اعمال بد کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے مصر کے اصل باشندوں کو جو قبطی تھے، ان پر مسلط کردیا اور اس فرعون نے تو انھیں کمزور اور بےبس کرنے کی انتہا کردی۔ اس نے ایسا بندوبست کیا کہ قبطی آقا بن کر رہیں اور بنی اسرائیل غلام اور خدمت گار بن کر۔ چناچہ مشقت کا ہر کام زبردستی ان سے لیا جاتا، مثلاً کھیتی باڑی، عمارتیں بنانے اور نہریں وغیرہ کھودنے کا کام اور گھروں میں خدمت کا کام ان کی عورتوں سے لیا جاتا۔ اس کے علاوہ لڑکوں کو ذبح کرکے عورتوں کو اپنی ہوس کا نشانہ بنانے کے لیے زندہ رکھا جاتا۔- يُذَ بِّحُ اَبْنَاۗءَهُمْ وَيَسْتَحْيٖ نِسَاۗءَهُمْ : اس حکم کی وجہ اور ذبح کی کیفیت کے لیے دیکھیے سورة بقرہ (٤٩) ۔- اِنَّهٗ كَانَ مِنَ الْمُفْسِدِيْنَ : ” إِنَّ “ عموماً اپنے سے پہلے والے کلام کی علت بیان کرنے کے لیے آتا ہے، یعنی اس کے اس ظلم اور سرکشی کی وجہ یہ تھی کہ وہ ان لوگوں میں سے تھا جن کا کام ہی فساد اور جن کی پہچان ہی مفسدین کے نام سے ہے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

اِنَّ فِرْعَوْنَ عَلَا فِي الْاَرْضِ وَجَعَلَ اَہْلَہَا شِيَعًا يَّسْتَضْعِفُ طَاۗىِٕفَۃً مِّنْہُمْ يُذَبِّحُ اَبْنَاۗءَہُمْ وَيَسْتَحْيٖ نِسَاۗءَہُمْ ٠ ۭ اِنَّہٗ كَانَ مِنَ الْمُفْسِدِيْنَ۝ ٤- علا - العُلْوُ : ضدّ السُّفْل، والعُلْوِيُّ والسُّفْليُّ المنسوب إليهما، والعُلُوُّ : الارتفاعُ ، وقد عَلَا يَعْلُو عُلُوّاً وهو عَالٍ وعَلِيَ يَعْلَى عَلَاءً فهو عَلِيٌّ فَعَلَا بالفتح في الأمكنة والأجسام أكثر . قال تعالی:- عالِيَهُمْ ثِيابُ سُندُسٍ [ الإنسان 21] . وقیل : إنّ ( عَلَا) يقال في المحمود والمذموم، و ( عَلِيَ ) لا يقال إلّا في المحمود، قال : إِنَّ فِرْعَوْنَ عَلا فِي الْأَرْضِ [ القصص 4] - ( ع ل و ) العلو - کسی چیز کا بلند ترین حصہ یہ سفل کی ضد ہے ان کی طرف نسبت کے وقت علوی اسفلی کہا جاتا ہے اور العوا بلند ہونا عال صفت فاعلی بلند علی علی مگر علا ( فعل ) کا استعمال زیادہ تر کسی جگہ کے یا جسم کے بلند ہونے پر ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ عالِيَهُمْ ثِيابُ سُندُسٍ [ الإنسان 21] ان کے بدنوں پر دیبا کے کپڑے ہوں گے ۔ بعض نے علا اور علی میں یہ فرق بیان کیا ہے کہ علان ( ن ) محمود اور مذموم دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے لیکن علی ( س ) صرف مستحن معنوں میں بولا جاتا ہے : ۔ قرآن میں ہے : ۔- إِنَّ فِرْعَوْنَ عَلا فِي الْأَرْضِ [ القصص 4] فرعون نے ملک میں سر اٹھا رکھا تھا ۔- أهل - أهل الرجل : من يجمعه وإياهم نسب أو دين، أو ما يجري مجراهما من صناعة وبیت وبلد، وأهل الرجل في الأصل : من يجمعه وإياهم مسکن واحد، ثم تجوّز به فقیل : أهل الرجل لمن يجمعه وإياهم نسب، وتعورف في أسرة النبيّ عليه الصلاة والسلام مطلقا إذا قيل :- أهل البیت لقوله عزّ وجلّ : إِنَّما يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ [ الأحزاب 33] - ( ا ھ ل ) اھل الرجل - ۔ ان لوگوں کو کہا جاتا ہے جو اس کے ہم نسب یا ہم دین ہوں اور یا کسی صنعت یامکان میں شریک ہوں یا ایک شہر میں رہتے ہوں اصل میں اھل الرجل تو وہ ہیں جو کسی کے ساتھ ایک مسکن میں رہتے ہوں پھر مجازا آدمی کے قریبی رشتہ داروں پر اہل بیت الرجل کا لفظ بولا جانے لگا ہے اور عرف میں اہل البیت کا لفظ خاص کر آنحضرت کے خاندان پر بولا جانے لگا ہے کیونکہ قرآن میں ہے :۔ إِنَّمَا يُرِيدُ اللهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ ( سورة الأحزاب 33) اسے پیغمبر گے اہل بیت خدا چاہتا ہے کہ تم سے ناپاکی ( کا میل کچیل ) دور کردے ۔- شيع - الشِّيَاعُ : الانتشار والتّقوية . يقال : شاع الخبر، أي : كثر وقوي، وشَاعَ القوم : انتشروا وکثروا، وشَيَّعْتُ النّار بالحطب : قوّيتها، والشِّيعَةُ : من يتقوّى بهم الإنسان وينتشرون عنه، ومنه قيل للشّجاع : مَشِيعٌ ، يقال : شِيعَةٌ وشِيَعٌ وأَشْيَاعٌ ، قال تعالی: وَإِنَّ مِنْ شِيعَتِهِ لَإِبْراهِيمَ- [ الصافات 83] ، هذا مِنْ شِيعَتِهِ وَهذا مِنْ عَدُوِّهِ [ القصص 15] ، وَجَعَلَ أَهْلَها شِيَعاً [ القصص 4] ، فِي شِيَعِ الْأَوَّلِينَ [ الحجر 10] ، وقال تعالی: وَلَقَدْ أَهْلَكْنا أَشْياعَكُمْ [ القمر 51] .- ( ش ی ع ) الشیاع - کے معنی منتشر ہونے اور تقویت دینا کے ہیں کہا جاتا ہے شاع الخبر خبر پھیل گئی اور قوت پکڑ گئی ۔ شاع القوم : قوم منتشر اور زیادہ ہوگئی شیعت النار بالحطب : ایندھن ڈال کر آگ تیز کرنا الشیعۃ وہ لوگ جن سے انسان قوت حاصل کرتا ہے اور وہ اس کے ارد گرد پھیلے رہتے ہیں اسی سے بہادر کو مشیع کہا جاتا ہے ۔ شیعۃ کی جمع شیع واشیاع آتی ہے قرآن میں ہے وَإِنَّ مِنْ شِيعَتِهِ لَإِبْراهِيمَ [ الصافات 83] اور ان ہی یعنی نوح (علیہ السلام) کے پیرؤں میں ابراہیم تھے هذا مِنْ شِيعَتِهِ وَهذا مِنْ عَدُوِّهِ [ القصص 15] ایک تو موسیٰ کی قوم کا ہے اور دوسرا اس کے دشمنوں میں سے تھا وَجَعَلَ أَهْلَها شِيَعاً [ القصص 4] وہاں کے باشندوں کو گروہ در گروہ کر رکھا تھا ۔ فِي شِيَعِ الْأَوَّلِينَ [ الحجر 10] پہلے لوگوں میں ( بھی ) وَلَقَدْ أَهْلَكْنا أَشْياعَكُمْ [ القمر 51] اور ہم تمہارے ہم مذہبوں کو ہلاک کرچکے ہیں ۔- اسْتَضْعَفْ- واسْتَضْعَفْتُهُ : وجدتُهُ ضَعِيفاً ، قال وَالْمُسْتَضْعَفِينَ مِنَ الرِّجالِ وَالنِّساءِ وَالْوِلْدانِ- [ النساء 75] ، قالُوا فِيمَ كُنْتُمْ قالُوا كُنَّا مُسْتَضْعَفِينَ فِي الْأَرْضِ [ النساء 97] ، إِنَّ الْقَوْمَ اسْتَضْعَفُونِي[ الأعراف 150] ، وقوبل بالاستکبار في قوله : قالَ الَّذِينَ اسْتُضْعِفُوا لِلَّذِينَ اسْتَكْبَرُوا[ سبأ 33]- استضعفتہ ۔ میں نے اسے کمزور سمجھا حقیر جانا ۔ قران میں ہے : ۔ وَنُرِيدُ أَنْ نَمُنَّ عَلَى الَّذِينَ اسْتُضْعِفُوا[ القصص 5] اور ہم چاہتے تھے کہ جنہیں ملک میں کمزور سمجھا گیا ہے ان پر احسان کریں : وَالْمُسْتَضْعَفِينَ مِنَ الرِّجالِ وَالنِّساءِ وَالْوِلْدانِ [ النساء 75] اور ان بےبس مردوں عورتوں اور بچوں قالوا فِيمَ كُنْتُمْ قالُوا كُنَّا مُسْتَضْعَفِينَ فِي الْأَرْضِ [ النساء 97] تو ان سے پوچھتے ہیں کہ تم کس حال میں تھے تو وہ کہتے ہیں کہ ہم ملک میں عاجز اور ناتوان تھے ۔ إِنَّ الْقَوْمَ اسْتَضْعَفُونِي[ الأعراف 150] کہ لوگ تو مجھے کمزور سمجھتے تھے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ قالَ الَّذِينَ اسْتُضْعِفُوا لِلَّذِينَ اسْتَكْبَرُوا[ سبأ 33] اور کمزور لوگ برے لوگوں سے کہیں گے ۔ میں استضاف استکبار کے مقابلہ میں استعمال ہوا ہے - طَّائِفَةُ- وَالطَّائِفَةُ من الناس : جماعة منهم، ومن الشیء : القطعة منه، وقوله تعالی:- فَلَوْلا نَفَرَ مِنْ كُلِّ فِرْقَةٍ مِنْهُمْ طائِفَةٌ لِيَتَفَقَّهُوا فِي الدِّينِ [ التوبة 122] ، قال بعضهم : قد يقع ذلک علی واحد فصاعدا وعلی ذلک قوله : وَإِنْ طائِفَتانِ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ [ الحجرات 9] ، إِذْ هَمَّتْ طائِفَتانِ مِنْكُمْ [ آل عمران 122] ، والطَّائِفَةُ إذا أريد بها الجمع فجمع طَائِفٍ ، وإذا أريد بها الواحد فيصحّ أن يكون جمعا، ويكنى به عن الواحد، ويصحّ أن يجعل کراوية وعلامة ونحو ذلك .- الطائفۃ (1) لوگوں کی ایک جماعت (2) کسی چیز کا ایک ٹکڑہ ۔ اور آیت کریمہ : فَلَوْلا نَفَرَ مِنْ كُلِّ فِرْقَةٍ مِنْهُمْ طائِفَةٌ لِيَتَفَقَّهُوا فِي الدِّينِ [ التوبة 122] تویوں کیوں نہیں کیا کہ ہر ایک جماعت میں چند اشخاص نکل جاتے تاکہ دین کا علم سیکھتے ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ کبھی طائفۃ کا لفظ ایک فرد پر بھی بولا جاتا ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ : وَإِنْ طائِفَتانِ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ [ الحجرات 9] ، اور اگر مومنوں میں سے کوئی دوفریق ۔۔۔ اور آیت کریمہ :إِذْ هَمَّتْ طائِفَتانِ مِنْكُمْ [ آل عمران 122] اس وقت تم میں سے دو جماعتوں نے چھوڑ دینا چاہا ۔ طائفۃ سے ایک فرد بھی مراد ہوسکتا ہے مگر جب طائفۃ سے جماعت مراد لی جائے تو یہ طائف کی جمع ہوگا ۔ اور جب اس سے واحد مراد ہو تو اس صورت میں یہ بھی ہوسکتا ہے کہ جمع بول کر مفر د سے کنایہ کیا ہو اور یہ بھی کہ راویۃ وعلامۃ کی طرح مفرد ہو اور اس میں تا برائے مبالغہ ہو )- ذبح - أصل الذَّبْح : شقّ حلق الحیوانات . والذِّبْح : المذبوح، قال تعالی: وَفَدَيْناهُ بِذِبْحٍ عَظِيمٍ [ الصافات 107] ، وقال : إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُكُمْ أَنْ تَذْبَحُوا بَقَرَةً [ البقرة 67] ، وذَبَحْتُ الفارة - شققتها، تشبيها بذبح الحیوان، وکذلك : ذبح الدّنّ «3» ، وقوله : يُذَبِّحُونَ أَبْناءَكُمْ- [ البقرة 49] ، علی التّكثير، أي : يذبح بعضهم إثر بعض . وسعد الذّابح اسم نجم، وتسمّى الأخادید من السّيل مذابح .- ( ذ ب ح ) الذبح - ( ف ) اصل میں اس کے معنی حیوانات کے حلق کو قطع کرنے کے ہیں اور ذبح بمعنی مذبوح آتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَفَدَيْناهُ بِذِبْحٍ عَظِيمٍ [ الصافات 107] اور ہم نے ایک بڑی قربانی کو ان کا فدیہ دیا إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُكُمْ أَنْ تَذْبَحُوا بَقَرَةً [ البقرة 67] کہ خدا تم کو حکم دیتا ہے کہ ایک بیل ذبح کرو ۔ ذبحت الفارۃ ۔ میں نے نافہ مشک کو کو چیرا ۔ یہ حیوان کے ذبح کے ساتھ تشبیہ کے طور پر بولا جاتا ہے ۔ اسی طرح ذبح الدن کا محاورہ ہے جس کے معنی مٹکے میں شگاف کرنے کسے ہیں ۔ اور آیت کریمہ : ۔ يُذَبِّحُونَ أَبْناءَكُمْ [ البقرة 49] تمہارے بیٹوں کو تو قتل کر ڈالتے تھے ۔ میں صیغہ تفعیل برائے تکثیر ہے یعنی وہ کثرت کے ساتھ یکے بعد دیگرے تمہارے لڑکوں کو ذبح کررہے تھے ۔ سعد الدابح ( برج جدی کے ایک ) ستارے کا نام ہے اور سیلاب کے گڑھوں کو مذابح کہا جاتا ہے ۔ - ( ابْنُ )- أصله : بنو، لقولهم في الجمع :- أَبْنَاء، وفي التصغیر : بُنَيّ ، قال تعالی: يا بُنَيَّ لا تَقْصُصْ رُؤْياكَ عَلى إِخْوَتِكَ [يوسف 5] ، يا بُنَيَّ إِنِّي أَرى فِي الْمَنامِ أَنِّي أَذْبَحُكَ [ الصافات 102] ، يا بُنَيَّ لا تُشْرِكْ بِاللَّهِ [ لقمان 13] ، يا بنيّ لا تعبد الشیطان، وسماه بذلک لکونه بناء للأب، فإنّ الأب هو الذي بناه وجعله اللہ بناء في إيجاده، ويقال لكلّ ما يحصل من جهة شيء أو من تربیته، أو بتفقده أو كثرة خدمته له أو قيامه بأمره : هو ابنه، نحو : فلان ابن الحرب، وابن السبیل للمسافر، وابن اللیل، وابن العلم، قال الشاعر - أولاک بنو خير وشرّ كليهما - وفلان ابن بطنه وابن فرجه : إذا کان همّه مصروفا إليهما، وابن يومه : إذا لم يتفكّر في غده . قال تعالی: وَقالَتِ الْيَهُودُ : عُزَيْرٌ ابْنُ اللَّهِ ، وَقالَتِ النَّصاری: الْمَسِيحُ ابْنُ اللَّهِ [ التوبة 30] - وقال تعالی: إِنَّ ابْنِي مِنْ أَهْلِي [هود 45] ، إِنَّ ابْنَكَ سَرَقَ [يوسف 81] ، وجمع ابْن : أَبْنَاء وبَنُون، قال عزّ وجل : وَجَعَلَ لَكُمْ مِنْ أَزْواجِكُمْ بَنِينَ وَحَفَدَةً [ النحل 72] ، وقال عزّ وجلّ : يا بَنِيَّ لا تَدْخُلُوا مِنْ بابٍ واحِدٍ [يوسف 67] ، يا بَنِي آدَمَ خُذُوا زِينَتَكُمْ عِنْدَ كُلِّ مَسْجِدٍ [ الأعراف 31] ، يا بَنِي آدَمَ لا يَفْتِنَنَّكُمُ الشَّيْطانُ [ الأعراف 27] ، ويقال في مؤنث ابن : ابْنَة وبِنْت، وقوله تعالی: هؤُلاءِ بَناتِي هُنَّ أَطْهَرُ لَكُمْ [هود 78] ، وقوله : لَقَدْ عَلِمْتَ ما لَنا فِي بَناتِكَ مِنْ حَقٍّ [هود 79] ، فقد قيل : خاطب بذلک أکابر القوم وعرض عليهم بناته «1» لا أهل قریته كلهم، فإنه محال أن يعرض بنات له قلیلة علی الجمّ الغفیر، وقیل : بل أشار بالبنات إلى نساء أمته، وسماهنّ بنات له لکون کلّ نبيّ بمنزلة الأب لأمته، بل لکونه أكبر وأجل الأبوین لهم كما تقدّم في ذکر الأب، وقوله تعالی: وَيَجْعَلُونَ لِلَّهِ الْبَناتِ [ النحل 57] ، هو قولهم عن اللہ : إنّ الملائكة بنات اللہ .- الابن ۔- یہ اصل میں بنو ہے کیونکہ اس کی جمع ابناء اور تصغیر بنی آتی ہے ۔ قرآن میں ہے : يا بُنَيَّ لا تَقْصُصْ رُؤْياكَ عَلى إِخْوَتِكَ [يوسف 5] کہ بیٹا اپنے خواب کا ذکر اپنے بھائیوں سے نہ کرنا ۔ يا بُنَيَّ إِنِّي أَرى فِي الْمَنامِ أَنِّي أَذْبَحُكَ [ الصافات 102] کہ بیٹا میں خواب میں دیکھتا ہوں کہ ( گویا ) تم کو ذبح کررہاہوں ۔ يا بُنَيَّ لا تُشْرِكْ بِاللَّهِ [ لقمان 13] کہ بیٹا خدا کے ساتھ شریک نہ کرنا ۔ يا بنيّ لا تعبد الشیطانبیٹا شیطان کی عبادت نہ کرنا ۔ اور بیٹا بھی چونکہ اپنے باپ کی عمارت ہوتا ہے اس لئے اسے ابن کہا جاتا ہے ۔ کیونکہ باپ کو اللہ تعالٰٰ نے اس کا بانی بنایا ہے اور بیٹے کی تکلیف میں باپ بمنزلہ معمار کے ہوتا ہے اور ہر وہ چیز جو دوسرے کے سبب اس کی تربیت دیکھ بھال اور نگرانی سے حاصل ہو اسے اس کا ابن کہا جاتا ہے ۔ نیز جسے کسی چیز سے لگاؤ ہوا است بھی اس کا بن کہا جاتا جسے : فلان ابن حرب ۔ فلان جنگ جو ہے ۔ ابن السبیل مسافر ابن اللیل چور ۔ ابن العلم پروردگار وہ علم ۔ شاعر نے کہا ہے ع ( طویل ) یہ لوگ خیر وزر یعنی ہر حالت میں اچھے ہیں ۔ فلان ابن بطنہ پیٹ پرست فلان ابن فرجہ شہوت پرست ۔ ابن یومہ جو کل کی فکر نہ کرے ۔ قرآن میں ہے : وَقالَتِ الْيَهُودُ : عُزَيْرٌ ابْنُ اللَّهِ ، وَقالَتِ النَّصاری: الْمَسِيحُ ابْنُ اللَّهِ [ التوبة 30] اور یہود کہتے ہیں کہ عزیز خدا کے بیٹے ہیں اور عیسائی کہتے میں کہ مسیح خدا کے بیٹے ہیں ۔ إِنَّ ابْنِي مِنْ أَهْلِي [هود 45] میرا بیٹا بھی میرے گھر والوں میں ہے ۔ إِنَّ ابْنَكَ سَرَقَ [يوسف 81] کہ اب آپکے صاحبزادے نے ( وہاں جاکر ) چوری کی ۔ ابن کی جمع ابناء اور بنون آتی ہے قرآن میں ہے : ۔ وَجَعَلَ لَكُمْ مِنْ أَزْواجِكُمْ بَنِينَ وَحَفَدَةً [ النحل 72] اور عورتوں سے تمہارے بیٹے اور پوتے پیدا کئے يا بَنِيَّ لا تَدْخُلُوا مِنْ بابٍ واحِدٍ [يوسف 67] کہ بیٹا ایک ہی دروازے سے داخل نہ ہونا ۔ يا بَنِي آدَمَ خُذُوا زِينَتَكُمْ عِنْدَ كُلِّ مَسْجِدٍ [ الأعراف 31] ( 3 ) اے نبی آدم ہر نماز کے وقت اپنے تیئں مزین کیا کرو ۔ يا بَنِي آدَمَ لا يَفْتِنَنَّكُمُ الشَّيْطانُ [ الأعراف 27] اے نبی آدم ( دیکھنا کہیں ) شیطان تمہیں بہکانہ دے ۔ اور ابن کی موئث ابنۃ وبنت اور ان کی جمع اور ابن کی موئث ابنۃ وبنت اور ان کی جمع بنات آتی ہے قرآن میں ہے : ۔ هؤُلاءِ بَناتِي هُنَّ أَطْهَرُ لَكُمْ [هود 78] ( جو ) میری ) قوم کی ) لڑکیاں ہیں تمہارے لئے جائز اور ) پاک ہیں ۔ لَقَدْ عَلِمْتَ ما لَنا فِي بَناتِكَ مِنْ حَقٍّ [هود 79] تمہاری ۃ قوم کی ) بیٹیوں کی ہمیں کچھ حاجت نہیں ۔ بعض کہتے ہیں کہ حضرت لوط (علیہ السلام) نے اکابر قوم خطاب کیا تھا اور ان کے سامنے اپنی بیٹیاں پیش کی تھیں ۔ مگر یہ ناممکن سی بات ہے کیونکہ نبی کی شان سے بعید ہے کہ وہ اپنی چند لڑکیاں مجمع کثیر کے سامنے پیش کرے اور بعض نے کہا ہے کہ بنات سے ان کی قوم کی عورتیں مراد ہیں اور ان کو بناتی اس لئے کہا ہے کہ ہر نبی اپنی قوم کے لئے بمنزلہ باپ کے ہوتا ہے بلکہ والدین سے بھی اس کا مرتبہ بڑا ہوتا ہے جیسا کہ اب کی تشریح میں گزر چکا ہے اور آیت کریمہ : وَيَجْعَلُونَ لِلَّهِ الْبَناتِ [ النحل 57] اور یہ لوگ خدا کے لئے تو بیٹیاں تجویز کرتے ہیں ۔ کے مونی یہ ہیں کہ وہ فرشتوں کو اللہ کی بیٹیاں قرار دیتی ہیں ۔- وقوله عزّ وجلّ : وَيَسْتَحْيُونَ نِساءَكُمْ [ البقرة 49] ، أي : يستبقونهنّ ،- نِّسَاءُ- والنِّسْوَان والنِّسْوَة جمعُ المرأةِ من غير لفظها، کالقومِ في جمعِ المَرْءِ ، قال تعالی: لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ إلى قوله : وَلا نِساءٌ مِنْ نِساءٍ [ الحجرات 11] - ما بالُ النِّسْوَةِ اللَّاتِي قَطَّعْنَ أَيْدِيَهُنَّ [يوسف 50]- النساء - والنسوان والنسوۃ یہ تینوں امراءۃ کی جمع من غیر لفظہ ہیں ۔ جیسے مرء کی جمع قوم آجاتی ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ إلى قوله : وَلا نِساءٌ مِنْ نِساءٍ [ الحجرات 11] اور نہ عورتیں عورتوں سے تمسخر کریں ما بال النِّسْوَةِ اللَّاتِي قَطَّعْنَ أَيْدِيَهُنَّ [يوسف 50] کہ ان عورتوں کا کیا حال ہے جنہوں نے اپنے ہاتھ کا ٹ لئے تھے ۔- فسد - الفَسَادُ : خروج الشیء عن الاعتدال، قلیلا کان الخروج عنه أو كثيرا،. قال تعالی: لَفَسَدَتِ السَّماواتُ وَالْأَرْضُ [ المؤمنون 71] ، - ( ف س د ) الفساد - یہ فسد ( ن ) الشئی فھو فاسد کا مصدر ہے اور اس کے معنی کسی چیز کے حد اعتدال سے تجاوز کر جانا کے ہیں عام اس سے کہ وہ تجاوز کم ہو یا زیادہ قرآن میں ہے : ۔ لَفَسَدَتِ السَّماواتُ وَالْأَرْضُ [ المؤمنون 71] تو آسمان و زمین ۔۔۔۔۔ سب درہم برہم ہوجائیں ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٤) غرض کہ فرعون سرزمین مصر میں بہت بڑھ چڑھ گیا تھا اور اس نے ان کے باشندوں کی مختلف جماعتیں بنا رکھی تھیں۔ ان جماعتوں میں سے بنی اسرائیل زور کم کردیا تھا، اس طرح کہ انکے بیٹوں کو ذبح کراتا تھا اور ان کی عورتوں سے خدمت لیتا تھا، واقعی وہ بڑا فساد پھیلانے والا، کفر وشرک اور قتل و غارت گری میں حد سے بڑھا ہوا تھا۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

(وَجَعَلَ اَہْلَہَا شِیَعًا) ” - فرعون نے مصر کے عوام کو دو طبقوں میں تقسیم کر رکھا تھا۔ ایک طبقہ حاکم تھا اور دوسرا محکوم۔ یعنی قبطی قوم حاکم تھی جبکہ بنی اسرائیل ان کے محکوم تھے۔- (یَّسْتَضْعِفُ طَآءِفَۃً مِّنْہُمْ ) ” - بنی اسرائیل کو اس نے محکومی اور غلامی کے شکنجے میں جکڑ رکھا تھا اور ان پر وہ بہت سختی کا برتاؤ کرتا تھا۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة القصص حاشیہ نمبر : 3 اصل میں لفظ علا فی الارض استعمال ہوا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ اس نے زمین میں سر اٹھایا ، باغیانہ روش اختیار کی ، اپنی اصل حیثیت یعنی بندگی کے مقام سے اٹھ کر خود مختاری اور خداوندی کا روپ دھار لیا ، ماتحت بن کر رہنے کے بجائے بالادست بن بیٹھا ، اور جبار و متکبر بن کر ظلم ڈھانے لگا ۔ سورة القصص حاشیہ نمبر : 4 یعنی اس کی حکومت کا قاعدہ یہ نہ تھا کہ قانون کی نگاہ میں ملک کے سب باشندے یکساں ہوں اور سب کو برابر کے حقوق دیے جائیں ، بلکہ اس نے تمدن و سیاست کا یہ طرز اختیار کیا کہ ملک کے باشنوں کو گروہوں میں تقسیم کیا جائے ، کسی کو مراعات و امتیازات دے کر حکمراں گروہ ٹھہرایا جائے اور کسی کو محکوم بنا کر یا دبایا اور پیسا اور لوٹا جائے ۔ یہاں کسی کو یہ شبہ لاحق نہ ہو کہ اسلامی حکومت بھی تو مسلم اور ذمی کے درمیان تفریق کرتی ہے اور ان کے حقوق و اختیارات ہر حیثیت سے یکساں نہیں رکھتی ۔ یہ شبہ اس لیے غلط ہے کہ اس فرق کی بنیاد فرعونی تفریق کے برعکس نسل ، رنگ ، زبان ، یا طبقاتی امتیاز پر نہیں ہے بلکہ اصول اور مسلک کے اختلاف پر ہے ، اسلامی نظام حکومت میں ذمیوں اور مسلمانوں کے درمیان قانونی حقوق میں قطعا کوئی فرق نہیں ہے ، تمام تر فرق صرف سیاسی حقوق میں ہے ، اور اس فرق کی وجہ اس کے سوا کچھ نہیں کہ ایک اصولی حکومت میں حکمراں جماعت صرف وہی ہوسکتی ہے جو حکومت کے بنیادی اصولوں کی حامی ہو ، اس جماعت میں ہر وہ شخص داخل ہوسکتا ہے جو اس کے اصولوں کو مان لے اور ہر وہ شخص اس سے خارج ہوجاتا ہے جو ان اصولوں کا منکر ہوجائے ۔ آخر اس تفریق میں اور اس فرعونی طرز تفریق میں کیا وجہ مشابہت ہے جس کی بنا پر محکوم نسل کا کوئی فرد کبھی حکمراں گروہ میں شامل نہیں ہوسکتا ، جس میں محکوم نسل کے لوگوں کو سیاسی اور قانونی حقوق تو درکنار بنیادی انسانی حقوق بھی حاصل نہیں ہوتے ، حتی کہ زندہ رہنے کا حق بھی ان سے چھین لیا جاتا ہے ، جس میں محکوموں کے لیے کسی حق کی بھی کوئی ضمانت نہیں ہوتی ، تمام فوائد منافع اور حسنات و درجات صرف حکمران قوم کے لیے مختص ہوتے ہیں اور یہ مخصوص حقوق صرف اسی شخص کو حاصل ہوتے ہیں جو حکمراں قوم میں پیدا ہوجائے ۔ سورة القصص حاشیہ نمبر : 5 بائیبل میں اس کی جو تشریح ملتی ہے وہ یہ ہے : تب مصر میں ایک نیا بادشاہ ہوا جو یوسف کو نہیں جانتا تھا ، اور اس نے اپنی قوم کے لوگوں سے کہا کہ دیکھو اسرائیلی ہم سے زیادہ اور قوی ہوگئے ہیں سو آؤ ہم ان کے ساتھ حکمت سے پیش آئیں ایسا نہ ہو کہ جب وہ اور زیادہ ہوجائیں اور اس وقت جنگ چھڑ جائے تو وہ ہمارے دشمنوں سے مل کر ہم سے لڑیں اور ملک سے نکل جائیں ۔ اس لیے انہوں نے ان پر بیگار لینے والے مقرر کیے جو ان سے سخٹ کام لے کر انہیں ستائیں ۔ سو انہوں نے فرعون کے لیے ذخیرے کے شہر پتوم اور غمیس بنائے ۔ اور مصریوں نے بنی اسرائیل پر تشدد کر کے ان سے کام کرایا اور انہوں نے ان سے سخت محنت سے گارا اور اینٹ بنوا بنوا کر اور کھیت میں ہر قسم کی خدمت لیکر ان کی زندگی تلخ کی ، ان کی سب خدمتیں جو وہ ان سے کراتے تھے تشدد کی تھیں ۔ تب مصر کے بادشاہ نے عبرانی دائیوں سے باتیں کیں اور کہا کہ جب عبرانی ( یعنی اسرائیلی ) عورتوں کے تم بچہ جناؤ اور ان کو پتھر کی بیٹھکوں پر بیٹھی دیکھو تو اگر بیٹا ہو تو اسے مار ڈالنا اور اگر بیٹی ہو تو وہ جیتی رہے ۔ ( خروج ، باب1 ۔ آیت 8 ۔ 16 ) اس سے معلوم ہوا کہ کہ حضرت یوسف علیہ السلام کا دور گزر جانے کے بعد مصر میں ایک قوم پرستانہ انقلاب ہوا تھا اور قبطیوں کے ہاتھ میں جب دوبارہ اقتدار آیا تو نئی قوم پرست حکومت نے بنی اسرائیل کا زور توڑنے کی پوری کوشش کی تھی ۔ اس سلسلے میں صرف اتنے ہی پر اکتفا نہ کیا گیا کہ اسرائیلیوں کو ذلیل و خوار کیا جاتا اور انہیں ادنی درجے کی خدمات کے لیے مخصوص کرلیا جاتا ، بلکہ اس سے آگے بڑھ کر یہ پالیسی اختیار کی گئی کہ بنی اسرائیل کی تعداد گھٹائی جائے اور ان کے لڑکوں کو قتل کر کے صرف ان کی لڑکیوں کو زندہ رہنے دیا جائے تاکہ رفتہ رفتہ ان کی عورتیں قبطیوں کے تصرف میں آتی جائین اور ان سے اسرائیلی کے بجائے قبطی نسل پیدا ہو ۔ تلمود اس کی مزید تفصیل یہ دیتی ہے کہ حضرت یوسف کی وفات پر ایک صدی سے کچھ زیادہ مدت گزر جانے کے بعد یہ انقلاب ہوا تھا ۔ وہ بتاتی ہے کہ نئی قوم پرست حکومت نے پہلے تو بنی اسرائیل کو ان کی زرخیز زمینوں اور ان کے مکانات اور جائدادوں سے محروم کیا ۔ پھر انہیں حکومت کے تمام مناصب سے بے دخل کیا ، اس کے بعد بھی جب قبطی حکمرانوں نے محسوس کیا کہ بنی اسرائیل اور ان کے ہم مذہب مصری کافی طاقتور ہیں تو انہوں نے اسرائیلیوں کو ذلیل و خوار کرنا شروع کیا اور ان سے سخت محنت کے کام قلیل معاوضوں پر یا بلا معاوضہ لینے لگے ۔ یہ تفسیر ہے قرآن کے اس بیان کی کہ مصر کی آبادی کے ایک گروہ کو وہ ذلیل کرتا تھا ، اور سورہ بقرہ میں اللہ تعالی کے اس ارشاد کی کہ آل فرعون بنی اسرائیل کو سخت عذاب دیتے تھے ۔ ( يَسُوْمُوْنَكُمْ سُوْۗءَ الْعَذَابِ ) مگر بائیبل اور قرآن دونوں اس ذکر سے خالی ہیں کہ فرعون سے کسی نجومی نے یہ کہا تھا کہ بنی اسرائیل میں ایک لڑکا پیدا ہونے والا ہے جس کے ہاتھوں فرعونی اقتدار کا تختہ الٹ جائے گا اور اسی خطرے کو روکنے کے لیے فرعون نے اسرائیل کے لڑکوں کو قتل کرنے کا حکم دیا تھا ۔ یا فرعون نے کوئی خوفناک خواب دیکھا تھا اور اس کی تعبیر یہ دی گئی تھی کہ ایک لڑکا بنی اسرائیل میں ایسا پیدا ہونے والا ہے ۔ یہ افسانہ تلمود اور دوسری اسرائیلی روایات سے ہمارے مفسرین نے نقل کیا ہے ( ملاحظہ ہو جیوش انسائیکلوپیڈیا مضمون موسی اور ( 124. 23 )

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

1: جیسا کہ سورۃ طٰہٰ :36 کے حاشیے میں ہم نے عرض کیا ہے، فرعون کو کسی نجومی نے یہ کہہ دیا تھا کہ بنی اسرائیل کا ایک شخص تمہاری سلطنت ختم کرے گا، اس لیے اس نے یہ حکم جاری کردیا تھا کہ بنی اسرائیل میں جو کوئی بچہ پیدا ہو اسے قتل کردیا جائے۔ جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پیدا ہوئے تو ان کی والدہ کو فکر ہوئی کہ ان کو بھی فرعون کے آدمی قتل کر ڈالیں گے۔ اس موقع پر اللہ تعالیٰ نے ان کے دل پر الہام فرمایا کہ اس بچے کو صندوق میں رکھ کر دریائے نیل میں ڈال دو۔ چنانچہ انہوں نے ایسا ہی کیا۔ پھر وہ صندوق بہتا ہوا فرعون کے محل کے پاس پہنچ گیا اور فرعون کے کارندوں نے بچے کو اٹھا کر فرعون کے پاس پیش کیا، اور اس کی بیوی حضرت آسیہ نے اسے آمادہ کرلیا کہ اسے اپنا بیٹا بنا کر پالیں۔ یہی واقعہ آگے آیت نمبر 6 تا 8 میں بیان فرمایا گیا ہے۔