3 1 1یہ موسیٰ (علیہ السلام) کا وہ معجزہ ہے جو کوہ طور پر، نبوت سے سرفراز کئے جانے کے بعد ان کو ملا۔ چونکہ اللہ کے حکم اور مشیت سے ظاہر ہوتا ہے کسی بھی انسان کے اختیار سے نہیں۔ چاہے وہ جلیل القدر پیغمبر اور نبی مقرب ہی کیوں نہ ہو۔ اس لئے جب موسیٰ (علیہ السلام) کے اپنے ہاتھ کی لاٹھی، زمین پر پھینکنے سے حرکت کرتی اور دوڑتی پنکارتی سانپ بن گئی، تو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) بھی ڈر گئے۔ جب اللہ تعالیٰ نے بتلایا اور تسلی دی تو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا خوف دور ہوا اور یہ واضح ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی صداقت کے لئے بطور دلیل یہ معجزہ انھیں عطا فرمایا ہے۔
وَاَنْ اَلْقِ عَصَاكَ : یہاں کچھ عبارت محذوف ہے کہ جب انھوں نے اپنی لاٹھی پھینکی تو وہ یکلخت سانپ بن گئی۔- فَلَمَّا رَاٰهَا تَهْتَزُّ ۔۔ : تو جب اس نے اسے دیکھا کہ حرکت کر رہی ہے۔۔ ” جَانٌّ“ اور ” ثُعْبَانٌ“ کی تطبیق کے لیے دیکھیے سورة نمل (١٠) ۔- وَّلّٰى مُدْبِرًا وَّلَمْ يُعَقِّبْ : یعنی اتنے خوف زدہ ہوئے کہ ایک جانب کو نہیں بلکہ پیٹھ دے کر بھاگ کھڑے ہوئے اور مڑ کر بھی نہیں دیکھا کہ کہیں وہ سانپ پیچھے نہ پہنچ جائے۔- يٰمُوْسٰٓي اَقْبِلْ وَلَا تَخَفْ : اللہ تعالیٰ نے آواز دی، اے موسیٰ مڑ کر بھاگنے کے بجائے آگے آ، کیونکہ تو امن والوں سے ہے۔ ”إِنَّ “ علت بیان کرنے کے لیے ہوتا ہے۔ سورة طٰہٰ (٢١) میں بتایا : ” اسے پکڑ اور ڈر نہیں، ہم اسے پھر اس کی پہلی حالت میں لوٹا دیں گے۔ “ مزید فوائد کے لیے سورة طٰہٰ (٢١) دیکھیے۔
وَاَنْ اَلْقِ عَصَاكَ ٠ۭ فَلَمَّا رَاٰہَا تَہْتَزُّ كَاَنَّہَا جَاۗنٌّ وَّلّٰى مُدْبِرًا وَّلَمْ يُعَقِّبْ ٠ۭ يٰمُوْسٰٓي اَقْبِلْ وَلَا تَخَفْ ٠ۣ اِنَّكَ مِنَ الْاٰمِنِيْنَ ٣١- لقی( افعال)- والإِلْقَاءُ : طرح الشیء حيث تلقاه، أي : تراه، ثم صار في التّعارف اسما لكلّ طرح . قال : فَكَذلِكَ أَلْقَى السَّامِرِيُ [ طه 87] ، قالُوا يا مُوسی إِمَّا أَنْ تُلْقِيَ وَإِمَّا أَنْ نَكُونَ نَحْنُ الْمُلْقِينَ- [ الأعراف 115] ،- ( ل ق ی ) لقیہ ( س)- الالقآء ( افعال) کے معنی کسی چیز کو اس طرح ڈال دیناکے ہیں کہ وہ دوسرے کو سمانے نظر آئے پھر عرف میں مطلق کس چیز کو پھینک دینے پر القاء کا لفظ بولا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : فَكَذلِكَ أَلْقَى السَّامِرِيُ [ طه 87] اور اسی طرح سامری نے ڈال دیا ۔ قالُوا يا مُوسی إِمَّا أَنْ تُلْقِيَ وَإِمَّا أَنْ نَكُونَ نَحْنُ الْمُلْقِينَ [ الأعراف 115] تو جادو گروں نے کہا کہ موسیٰ یا تو تم جادو کی چیز ڈالو یا ہم ڈالتے ہیں ۔ موسیٰ نے کہا تم ہی ڈالو۔ - عصا - العَصَا أصله من الواو، وعَصَى عِصْيَاناً : إذا خرج عن الطاعة، وأصله أن يتمنّع بِعَصَاهُ. آلْآنَ وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلُ [يونس 91] . - ( ع ص ی ) العصا - ( لاٹھی ) یہ اصل میں ناقص وادی ہے۔ عصی عصیانا کے معنی اطاعت سے نکل جانے کے ہیں دراصل اس کے معنی ہیں اس نے لاٹھی ( عصا ) سے اپنا بچاؤ کیا ۔ قرآن میں ہے : آلْآنَ وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلُ [يونس 91] ( جواب ملا کہ ) اب ( ایمان لاتا ہے ) حالانکہ تو پہلے نافرمانی کرتا رہا ۔ - هزز - الْهَزُّ : التّحريك الشّديد، يقال : هَزَزْتُ الرّمح فَاهْتَزَّ وهَزَزْتُ فلانا للعطاء . قال تعالی: وَهُزِّي - إِلَيْكِ بِجِذْعِ النَّخْلَةِ [ مریم 25] ، فَلَمَّا رَآها تَهْتَزُّ [ النمل 10] ، واهْتَزَّ النّبات : إذا تحرّك لنضارته، قال تعالی: فَإِذا أَنْزَلْنا عَلَيْهَا الْماءَ اهْتَزَّتْ وَرَبَتْ [ الحج 5] واهْتَزَّ الكوكب في انقضاضه، وسیف هَزْهَازٌ ، وماء هُزَهِزٌ ورجل هُزَهِزٌ: خفیف .- ( ھ ز ز ) الھز - کے معنی کسی چیز کو زور سے ملانے کے ہیں جیسے ھززت الرمح میں نے نیزہ زور سے ہلا یا اھتز افتعال اس کا مط اور ہے اسی طرح ھززت فلانا للعطآء کے معنی ہیں میں نے فلاں کو بخشش کے لئے حرکت دی یعنی وہ خوشی سے جھومنے لگا قرآن میں ہے : ۔ وَهُزِّي إِلَيْكِ بِجِذْعِ النَّخْلَةِ [ مریم 25] اور کھجور کے تنے کو پکڑا کر اپنی طرف ہلاؤ ۔ فَلَمَّا رَآها تَهْتَزُّ [ النمل 10] جب اسے دیکھا تو اس طرح اہل رہی تھی گویا سانپ ہے اھتزت النبات نباتات ( سبزے کا لہلہا نا چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَإِذا أَنْزَلْنا عَلَيْهَا الْماءَ اهْتَزَّتْ وَرَبَتْ [ الحج 5] پھر جب ہم اس پر بارش بر ساتے ہیں تو وہ شاداب ہوجاتی ہے اور ابھر نے لگتی ہے ۔ اھتز الکواکب فی انقضا ضہ ستارے کا تیزی کے ساتھ ٹوٹنا اور سیف ھز ھا ز کے معنی لچکدار تلوار کے ہیں اور شفاف پانی کو ماء ھز ھز کہا جاتا ہے اسی طرح ھز ھز کے معنی سبک اور ہلکے پھلکے آدمی کے بھی آتے ہیں ۔- جان - وقوله تعالی: وَالْجَانَّ خَلَقْناهُ مِنْ قَبْلُ مِنْ نارِ السَّمُومِ [ الحجر 27] فنوع من الجنّ ، وقوله تعالی: كَأَنَّها جَانٌّ [ النمل 10] ، قيل : ضرب من الحيّات .- اور آیت کریمہ ؛۔ وَالْجَانَّ خَلَقْناهُ مِنْ قَبْلُ مِنْ نارِ السَّمُومِ [ الحجر 27] اور جان کو اس سے بھی پہلے بےہوئیں کی آگ سے پیدا کیا تھا ۔ میں جان سے بھی جنوں کی ایک قسم مراد ہے ۔ لیکن آیت کریمۃ ؛ كَأَنَّها جَانٌّ [ النمل 10] میں جان سے ایک قسم سانپ مراد ہے ۔- دبر ( پيٹھ)- دُبُرُ الشّيء : خلاف القُبُل «3» ، وكنّي بهما عن، العضوین المخصوصین، ويقال : دُبْرٌ ودُبُرٌ ، وجمعه أَدْبَار، قال تعالی: وَمَنْ يُوَلِّهِمْ يَوْمَئِذٍ- دُبُرَهُ [ الأنفال 16] ، وقال : يَضْرِبُونَ وُجُوهَهُمْ وَأَدْبارَهُمْ [ الأنفال 50] ، أي :- قدّامهم وخلفهم، وقال : فَلا تُوَلُّوهُمُ الْأَدْبارَ [ الأنفال 15] ، وذلک نهي عن الانهزام، وقوله : وَأَدْبارَ السُّجُودِ [ ق 40] : أواخر الصلوات، وقرئ : وَإِدْبارَ النُّجُومِ- «1» ( وأَدْبَار النّجوم) «2» ، فإدبار مصدر مجعول ظرفا،- ( د ب ر ) دبر ۔- بشت ، مقعد یہ قبل کی ضد ہے اور یہ دونوں لفظ بطور کنایہ جائے مخصوص کے معنی میں استعمال ہوتے ہیں اور اس میں دبر ا اور دبر دولغات ہیں اس کی جمع ادبار آتی ہے قرآن میں ہے :َ وَمَنْ يُوَلِّهِمْ يَوْمَئِذٍدُبُرَهُ [ الأنفال 16] اور جو شخص جنگ کے روز ان سے پیٹھ پھیرے گا ۔ يَضْرِبُونَ وُجُوهَهُمْ وَأَدْبارَهُمْ [ الأنفال 50] ان کے مونہوں اور پیٹھوں پر ( کوڑے و ہیتھوڑے وغیرہ ) مارتے ہیں ۔ فَلا تُوَلُّوهُمُ الْأَدْبارَ [ الأنفال 15] تو ان سے پیٹھ نہ پھیرنا ۔ یعنی ہزیمت خوردہ ہوکر مت بھاگو ۔ اور آیت کریمہ ؛۔ وَأَدْبارَ السُّجُودِ [ ق 40] اور نماز کے بعد ( بھی ) میں ادبار کے معنی نمازوں کے آخری حصے ( یا نمازوں کے بعد ) کے ہیں . وَإِدْبارَ النُّجُومِ«1»میں ایک قرات ادبارالنجوم بھی ہے ۔ اس صورت میں یہ مصدر بمعنی ظرف ہوگا یعنی ستاروں کے ڈوبنے کا وقت جیسا کہ مقدم الجام اور خفوق النجم میں ہے ۔ اور ادبار ( بفتح الحمزہ ) ہونے کی صورت میں جمع ہوگی ۔ - تَّعْقيبُ- والتَّعْقيبُ : أن يأتي بشیء بعد آخر، يقال : عَقَّبَ الفرسُ في عدوه . قال : لَهُ مُعَقِّباتٌ مِنْ بَيْنِ يَدَيْهِ وَمِنْ خَلْفِهِ [ الرعد 11] ، أي : ملائكة يتعاقبون عليه حافظین له . وقوله : لا مُعَقِّبَ لِحُكْمِهِ [ الرعد 41] ، أي : لا أحد يتعقّبه ويبحث عن فعله، من قولهم : عَقَّبَ الحاکم علی حکم من قبله : إذا تتبّعه . قال الشاعر : 325-- وما بعد حکم اللہ تعقیب ويجوز أن يكون ذلک نهيا للنّاس أن يخوضوا في البحث عن حكمه وحکمته إذا خفیت عليهم، ويكون ذلک من نحو النّهي عن الخوض في سرّ القدر . وقوله تعالی: وَلَّى مُدْبِراً وَلَمْ يُعَقِّبْ [ النمل 10] ، أي : لم يلتفت وراء ه . والاعتقاب : أن يتعاقب شيء بعد آخر کا عتقاب اللّيل والنهار، ومنه : العُقْبَة أن يتعاقب اثنان علی رکوب ظهر، وعُقْبَة الطائر : صعوده وانحداره، وأَعقبه كذا : إذا أورثه ذلك، قال : فَأَعْقَبَهُمْ نِفاقاً [ التوبة 77] ،- التعقیب ایک چیز کے بعد دوسری لانا ۔ عقب الفرس فی عدوہ گھوڑے نے ایک دوڑ کے بعد دوسری دوڑ لگائی قرآن میں ہے ۔ لَهُ مُعَقِّباتٌ مِنْ بَيْنِ يَدَيْهِ وَمِنْ خَلْفِهِ [ الرعد 11] اس کے آگے اور پیچھے خدا کے چوکیدار ہیں اور آیت کریمہ : ۔ لا مُعَقِّبَ لِحُكْمِهِ [ الرعد 41] کے معنی یہ ہیں کہ اللہ کے فیصلے کے خلاف کوئی فیصلہ نہیں کرسکتا اور نہ اس پر بحث کرسکتا ہے ۔ یہ عقب الحاکم علٰی حکم من قبلیہ کے محاورہ سے ماخوذ ہے بعنی حاکم نے اپنے بیشر وحاکم کے خلاف فیصلہ دیا شاعر نے کہا ہے ۔ ( 317 ) وما یعد حکم اللہ تعقیب اللہ کے فیصلہ کے بعد کسی اور کا فیصلہ نہیں آسکتا اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ آیت مذکورہ میں لوگوں کو اللہ کے حکم اور اس کی مخفی حکمتو میں خوض کرنے سے منع فرمایا گیا ہو ۔ جیسا کہ قضا وقدر کے اسرار میں غور وخوض کیا گیا ہے اور آیت کریمہ : ۔ وَلَّى مُدْبِراً وَلَمْ يُعَقِّبْ [ النمل 10] میں لم یعقب کے معنی ہیں اس نے مڑکر پیچھے کو نہ دیکھا الاعتقاب کے معنی ایک چیز کے دوری کے بعد آنے کے ہیں جیسے شب دروز کہ یہ دونوں یکے بعد دیگرے آتے ہیں اسی سے العقبۃ ہے یعنی دو مسافروں کا یکے بعد دیگرے ایک سواری پر سوار ہونا عقبۃ الطائر پرند کا کبھی اوپر چڑھنا اور کبھی نیچے اترنا اعقبۃ کذا کسی چیز کا وارث بنا دینا ایک چیز کی جگہ دوسری چیز کو اس کا جانشین بنانا قرآن میں ہے : ۔ فَأَعْقَبَهُمْ نِفاقاً [ التوبة 77] تو خدا نے ان کے دلوں میں نفاق ڈال دیا ۔- خوف - الخَوْف : توقّع مکروه عن أمارة مظنونة، أو معلومة، كما أنّ الرّجاء والطمع توقّع محبوب عن أمارة مظنونة، أو معلومة، ويضادّ الخوف الأمن، ويستعمل ذلک في الأمور الدنیوية والأخروية .- قال تعالی: وَيَرْجُونَ رَحْمَتَهُ وَيَخافُونَ عَذابَهُ [ الإسراء 57] ، وحقیقته : وإن وقع لکم خوف من ذلک لمعرفتکم . والخوف من اللہ لا يراد به ما يخطر بالبال من الرّعب، کاستشعار الخوف من الأسد، بل إنما يراد به الكفّ عن المعاصي واختیار الطّاعات، ولذلک قيل : لا يعدّ خائفا من لم يكن للذنوب تارکا . والتَّخویفُ من اللہ تعالی: هو الحثّ علی التّحرّز، وعلی ذلک قوله تعالی: ذلِكَ يُخَوِّفُ اللَّهُ بِهِ عِبادَهُ [ الزمر 16] ،- ( خ و ف ) الخوف ( س )- کے معنی ہیں قرآن دشواہد سے کسی آنے والے کا خطرہ کا اندیشہ کرنا ۔ جیسا کہ کا لفظ قرائن دشواہد کی بنا پر کسی فائدہ کی توقع پر بولا جاتا ہے ۔ خوف کی ضد امن آتی ہے ۔ اور یہ امور دنیوی اور آخروی دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے : قرآن میں ہے : ۔ وَيَرْجُونَ رَحْمَتَهُ وَيَخافُونَ عَذابَهُ [ الإسراء 57] اور اس کی رحمت کے امید وار رہتے ہیں اور اس کے عذاب سے خوف رکھتے ہیں ۔ اس کے اصل معنی یہ ہیں کہ اگر حالات سے واقفیت کی بنا پر تمہیں اندیشہ ہو کہ اللہ تعالیٰ سے ڈرنے ) کے یہ معنی نہیں ہوتے کہ جس طرح انسان شیر کے دیکھنے سے ڈر محسوس کرتا ہے ۔ اسی قسم کا رعب اللہ تعالیٰ کے تصور سے انسان کے قلب پر طاری ہوجائے بلکہ خوف الہیٰ کے معنی یہ ہیں کہ انسان گناہوں سے بچتا رہے ۔ اور طاعات کو اختیار کرے ۔ اسی بنا پر کہا گیا ہے کہ جو شخص گناہ ترک نہیں کرتا وہ خائف یعنی اللہ تعالیٰ سے ڈرنے والا نہیں ہوسکتا ۔ الخویف ( تفعیل ) ڈرانا ) اللہ تعالیٰ کے لوگوں کو ڈرانے کے معنی یہ ہیں کہ وہ لوگوں کو برے کاموں سے بچتے رہنے کی ترغیب دیتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ ذلِكَ يُخَوِّفُ اللَّهُ بِهِ عِبادَهُ [ الزمر 16] بھی اسی معنی پر محمول ہے اور باری تعالےٰ نے شیطان سے ڈرنے اور اس کی تخویف کی پرواہ کرنے سے منع فرمایا ہے ۔
(٣١) اور تم اپنے ہاتھ میں سے اپنا عصا ڈال دو ، چناچہ انہوں نے ڈال دیا اور سانپ بن کر چلنے لگا جب انہوں نے اس کو لہراتا ہوا دیکھا جیسا کہ پتلا سانپ تیز ہوتا ہے تو پشت پھیر کر بھاگے اور پیچھے مڑ کر بھی نہ دیکھا۔- ارشاد خداوندی ہوا اے موسیٰ (علیہ السلام) آگے آؤ اور اس سے ڈرو نہیں تم اس کے شر سے امن میں ہو۔- چناچہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اس کو پکڑ لیا تو وہ اپنی اصلی حالت کے مطابق پھر لکڑی ہوگیا اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ اب تم اپنا ہاتھ گریبان میں ڈالو وہ بلا کسی برص وغیرہ کی بیماری کے سورج کی طرح روشن ہو کر نکلے گا۔
آیت ٣١ (وَاَنْ اَلْقِ عَصَاکَ ط) ” - قرآن میں اس واقعہ سے متعلق مختلف تفصیلات مختلف مقامات پر ملتی ہیں۔- (فَلَمَّا رَاٰہَا تَہْتَزُّ کَاَنَّہَا جَآنٌّ وَّلّٰی مُدْبِرًا وَّلَمْ یُعَقِّبْ ط) ” - اس واقعہ کے حوالے سے سورة النمل میں بھی ان سے ملتے جلتے الفاظ آئے ہیں۔- (یٰمُوْسٰٓی اَقْبِلْ وَلَا تَخَفْقف اِنَّکَ مِنَ الْاٰمِنِیْنَ ) ” (- تم بالکل امن وامان میں رہو گے اور تمہیں کوئی گزند نہیں پہنچے گا۔
20: یہ ایک طبعی خوف تھا جو نبوت کے منافی نہیں ہوتا