3 2 1یہ ید بیضاء دوسرا معجزہ تھا جو انھیں عطا کیا گیا۔ 3 2 2لاٹھی کا اژدھا بن جانے کی صورت میں جو خوف حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو لاحق ہوتا تھا، اس کا حل بتلا دیا گیا کہ اپنا بازو اپنی طرف ملا لیا کرو یعنی بغل میں دبا لیا کرو جس سے خوف جاتا رہا کرے گا۔ بعض مفسرین کہتے ہیں کہ یہ عام ہے کہ جب بھی کسی سے کوئی خوف محسوس ہو تو اس طرح کرنے سے خوف دور ہوجائے گا۔ امام ابن کثیر فرماتے ہیں کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی اقتداء میں جو شخص بھی گھبراہٹ کے موقع پر اپنے دل پر ہاتھ رکھے گا، تو اس کے دل سے خوف جاتا رہے گا یا کم از کم ہلکا ہوجائے گا۔ ان شاء اللہ۔ 3 2 3یعنی فرعون اور اسکی جماعت کے سامنے یہ دونوں معجزے اپنی صداقت کی دلیل کے طور پر پیش کرو۔ یہ لوگ اللہ کی اطاعت سے نکل چکے ہیں اور اللہ کے دین کے مخالف ہیں۔
[٤١] اسی مقام پر حضرت موسیٰ کو دو معجزے عطا کئے گئے۔ ان معجزات کی تفصیل بھی پہلے متعدد مقامات پر گزر چکی ہے۔ یہ دونوں معجزات آپ کی نبوت کی سند کے طور پر تھے اور ان سے مقصود یہ تھا کہ سب سے پہلے تو خود موسیٰ کو یہ یقین کامل ہوجائے کہ جو ذات اس وقت ان سے ہمکلام ہو رہی ہے وہ فی الواقع اللہ ہی ہے جو ساری کائنات کا پروردگار اور مالک ہے۔ بالفاظ دیگر ایسے نمایاں معجزات اللہ رب العالمین کے علاوہ نہ کوئی عطا کرسکتا ہے اور نہ دکھلا سکتا ہے۔ اور دوسرا مقصد یہ تھا کہ موسیٰ کو تن تنہا ایک ظالم اور جابر حکمران کے دربار میں تبلیغ رسالت اور دعوت توحید کے لئے بھیجا جارہا تھا۔ ان کے ساتھ کوئی لاؤ لشکر تو تھا نہیں۔ لہذا ایسی نشانیاں تو موجود ہونا چاہئیں جن سے کم از کم یہ معلوم ہوجائے کہ موسیٰ اکیلے نہیں ہیں بلکہ ان کی پشت پر کوئی مقتدر ہستی موجود ہے۔ تو یا یہ چیز حضرت موسیٰ کے لئے تو باعث تسکین و اطمینان تھی۔ جبکہ یہی چیز دعوت سے انکار کرنے والوں کے لئے ایک ڈراوا اور دھمکی بھی تھی۔- [٤٢] جس مشن پر حضرت موسیٰ کو بھیجا جارہا تھا اس میں کئی مقام ایسے آسکتے تھے جبکہ آپ خود اپنی جان تک کا خطرہ محسوس کرنے لگیں تو ایسے خطرہ کے اوقات کے لئے آپ کو تدبیر یہ بتلائی گئی کہ اپنا بازو اپنے پہلو سے لگالو۔ اور صرف بازو کا لفظ بولا جائے تو اس سے عموماً دایاں بازو ہی مراد لیا جاتا ہے۔ یعنی اپنا دایاں بازو اپنی دائیں ران اور گھٹنے کے ساتھ چمٹالو۔ ایسا کرنے سے اس خطرہ کا خیال دل سے جاتا رہے گا اور تمہارے دل کو قرار آجائے گا۔- [٤٣] نبوت اور اس کے ساتھ دو معجزات تھے جو آپ کو اس مقام پر عطا ہوئے۔ اور ساتھ ہی یہ حکم ہوا کہ اب تمہیں فرعون اور اس کے درباریوں کے پاس جانا ہے۔ یعنی ان لوگوں کے پاس جن سے بچتے بچاتے آپ اس ملک سے بھاگ کھڑے ہوئے تھے۔ آپ جارہے تھے تو اس خیال سے کہ اب تک لوگ وہ واقعہ قتل بھول بھلا چکے ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ نے براہ راست ان لوگوں کے ہاں جانے کا حکم دیا کہ دوسروں کو خواہ وہ واقعہ بھول چکا ہوں مگر یہ تو خصوصاً وہ لوگ تھے کہ موسیٰ کو دیکھتے ہی ہی انھیں سب سب کچھ یاد آجائے۔ بہت بڑی ابتلا تھی یہ مہم جس کا آپ کو حکم دیا جارہا تھا اور جس طرح کے وہ لوگ نافرمان تھے یا بدکردار تھے۔ وہ موسیٰ پہلے ہی خوب جانتے تھے۔
اُسْلُكْ يَدَكَ فِيْ جَيْبِكَ ۔۔ : دوسری جگہ فرمایا : (اَدْخِلْ يَدَكَ فِيْ جَيْبِكَ ) ” سِلْکٌ“ اس دھاگے کو کہتے ہیں جس میں موتی پروئے جاتے ہیں۔ ظاہر ہے ان میں دھاگا مہارت اور احتیاط سے داخل کیا جاتا ہے، یعنی کسی گھبراہٹ کے بغیر اطمینان کے ساتھ اپنا ہاتھ اپنے گریبان میں ڈالو۔ دیکھیے سورة طٰہٰ (٢٢) ۔ ۡ وَّاضْمُمْ اِلَيْكَ جَنَاحَكَ مِنَ الرَّهْبِ : موسیٰ (علیہ السلام) کو جس مقصد کے لیے بھیجا جا رہا تھا، اس میں کئی مقامات ایسے آنے والے تھے جن میں آدمی شدید خوف کا شکار ہوجاتا ہے، بلکہ اسے اپنی جان کا خطرہ لاحق ہوجاتا ہے۔ دو عظیم الشان معجزوں کے ساتھ اس خوف کا علاج بھی بتادیا کہ جب بھی تمہیں کوئی خوف محسوس ہو اپنا بازو پہلو کے ساتھ اچھی طرح ملا لو، اس سے تمہارا دل مضبوط ہوجائے گا اور خوف دور ہوجائے گا۔ اہل علم فرماتے ہیں کہ خوف کے وقت کوئی شخص موسیٰ (علیہ السلام) کی اقتدا میں یہ عمل کرے تو اس کا خوف ختم ہوجائے گا یا کم ہوجائے گا۔ (ان شاء اللہ)- فَذٰنِكَ بُرْهَانٰنِ مِنْ رَّبِّكَ ۔۔ : یعنی لاٹھی کا سانپ بننا اور ہاتھ کا سفید چمک دار ہو کر نکلنا صرف آج اسی موقع کے لیے نہیں بلکہ یہ دونوں معجزے فرعون اور اس کے سرداروں کی طرف بھیجتے ہوئے تمہیں نبوت کی دلیل اور سند کے طور پر عطا کیے گئے ہیں، کیونکہ وہ ہمیشہ سے نافرمان لوگ ہیں۔ انھیں دعوت دینے اور ان پر حجت تمام کرنے کے لیے ایسے ہی زبردست معجزوں کی ضرورت ہے۔ ”إِنَّ “ تعلیل کے لیے ہوتا ہے اور ” کَانَ “ میں ہمیشگی کا معنی پایا جاتا ہے۔
اُسْلُكْ يَدَكَ فِيْ جَيْبِكَ تَخْــرُجْ بَيْضَاۗءَ مِنْ غَيْرِ سُوْۗءٍ ٠ۡوَّاضْمُمْ اِلَيْكَ جَنَاحَكَ مِنَ الرَّہْبِ فَذٰنِكَ بُرْہَانٰنِ مِنْ رَّبِّكَ اِلٰى فِرْعَوْنَ وَمَلَا۟ىِٕہٖ ٠ۭ اِنَّہُمْ كَانُوْا قَوْمًا فٰسِقِيْنَ ٣٢- سلك - السُّلُوكُ : النّفاذ في الطّريق، يقال : سَلَكْتُ الطّريق، وسَلَكْتُ كذا في طریقه، قال تعالی:- لِتَسْلُكُوا مِنْها سُبُلًا فِجاجاً [ نوح 20] ، وقال : فَاسْلُكِي سُبُلَ رَبِّكِ ذُلُلًا[ النحل 69] ، يَسْلُكُ مِنْ بَيْنِ يَدَيْهِ [ الجن 27] ، وَسَلَكَ لَكُمْ فِيها سُبُلًا [ طه 53] ، ومن الثاني قوله : ما سَلَكَكُمْ فِي سَقَرَ [ المدثر 42] ، وقوله : كَذلِكَ نَسْلُكُهُ فِي قُلُوبِ الْمُجْرِمِينَ- [ الحجر 12] ، كَذلِكَ سَلَكْناهُ [ الشعراء 200] ، فَاسْلُكْ فِيها[ المؤمنون 27] ، يَسْلُكْهُ عَذاباً [ الجن 17] . قال بعضهم : سَلَكْتُ فلانا طریقا، فجعل عذابا مفعولا ثانیا، وقیل : ( عذابا) هو مصدر لفعل محذوف، كأنه قيل : نعذّبه به عذابا، والطّعنة السُّلْكَةُ : تلقاء وجهك، والسُّلْكَةُ : الأنثی من ولد الحجل، والذّكر : السُّلَكُ.- ( س ل ک ) السلوک - ( ن ) اس کے اصل بمعنی راستہ پر چلنے کے ہیں ۔ جیسے سکت الطریق اور یہ فعل متعدی بن کر بھی استعمال ہوتا ہے یعنی راستہ پر چلانا چناچہ پہلے معنی کے متعلق فرمایا : لِتَسْلُكُوا مِنْها سُبُلًا فِجاجاً [ نوح 20] تاکہ اس کے بڑے بڑے کشادہ راستوں میں چلو پھرو ۔ فَاسْلُكِي سُبُلَ رَبِّكِ ذُلُلًا[ النحل 69] اور اپنے پروردگار کے صاف رستوں پر چلی جا ۔ يَسْلُكُ مِنْ بَيْنِ يَدَيْهِ [ الجن 27] اور اس کے آگے مقرر کردیتا ہے ۔ وَسَلَكَ لَكُمْ فِيها سُبُلًا [ طه 53] اور اس میں تمہارے لئے رستے جاری کئے ۔ اور دوسری معنی متعدی کے متعلق فرمایا : ما سَلَكَكُمْ فِي سَقَرَ [ المدثر 42] کہ تم دوزخ میں کیوں پڑے ۔ - كَذلِكَ نَسْلُكُهُ فِي قُلُوبِ الْمُجْرِمِينَ [ الحجر 12] اس طرح ہم اس ( تکذیب و ضلال ) کو گنہگاروں کے دلوں میں داخل کردیتے ہیں ۔ كَذلِكَ سَلَكْناهُ [ الشعراء 200] اسی طرح ہم نے انکار کو داخل کردیا ۔ فَاسْلُكْ فِيها[ المؤمنون 27] کشتی میں بٹھالو ۔ يَسْلُكْهُ عَذاباً [ الجن 17] وہ اس کو سخت عذاب میں داخل کرے گا ۔ بعض نے سلکت فلانا فی طریقہ کی بجائے سلکت فلانا طریقا کہا ہے اور عذابا کو یسل کہ کا دوسرا مفعول بنایا ہے ۔ اور بعض نے کہا ہے کہ عذابا فعل محذوف کا مصدر ہے اور یہ اصل میں نعذبہ عذابا ہے اور نیزے کی بالکل سامنے کی اور سیدھی ضرف کو طعنۃ سلکۃ کہاجاتا ہے ۔ ( سلکیٰ سیدھا نیزہ ) اور سلکۃ ماده كبک کو کہتے ہیں اس کا مذکر سلک ہے ۔- يد - الْيَدُ : الجارحة، أصله : وقوله : فَرَدُّوا أَيْدِيَهُمْ فِي أَفْواهِهِمْ [إبراهيم 9] ،- ( ی د ی ) الید - کے اصل معنی تو ہاتھ کے ہیں یہ اصل میں یدی ( ناقص یائی ) ہے کیونکہ اس کی جمع اید ویدی اور تثنیہ یدیان - اور آیت کریمہ : ۔ فَرَدُّوا أَيْدِيَهُمْ فِي أَفْواهِهِمْ [إبراهيم 9] تو انہوں نے اپنے ہاتھ ان کے مونہوں پر رکھ دئے ۔ - جيب - قال اللہ تعالی: وَلْيَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلى جُيُوبِهِنَ [ النور 31] ، جمع جَيْب . ( ج ی ب ) الجیب کے معنی گریباں کے ہیں ( مجازا سینہ ) اسکی جمع الجبوب آتی ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ وَلْيَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلى جُيُوبِهِنَ [ النور 31] ان کو چاہیے کہ اپنے سینوں پر اوڑھنیاں اوڑھا کریں ۔- خرج - خَرَجَ خُرُوجاً : برز من مقرّه أو حاله، سواء کان مقرّه دارا، أو بلدا، أو ثوبا، وسواء کان حاله حالة في نفسه، أو في أسبابه الخارجة، قال تعالی: فَخَرَجَ مِنْها خائِفاً يَتَرَقَّبُ [ القصص 21] ،- ( خ رج ) خرج ۔ ( ن)- خروجا کے معنی کسی کے اپنی قرار گاہ یا حالت سے ظاہر ہونے کے ہیں ۔ عام اس سے کہ وہ قرار گاہ مکان ہو یا کوئی شہر یا کپڑا ہو اور یا کوئی حالت نفسانی ہو جو اسباب خارجیہ کی بنا پر اسے لاحق ہوئی ہو ۔ قرآن میں ہے ؛ فَخَرَجَ مِنْها خائِفاً يَتَرَقَّبُ [ القصص 21] موسٰی وہاں سے ڈرتے نکل کھڑے ہوئے کہ دیکھیں کیا ہوتا ہے ۔ - بيض - البَيَاضُ في الألوان : ضدّ السواد، يقال : ابْيَضَّ يَبْيَضُّ ابْيِضَاضاً وبَيَاضاً ، فهو مُبْيَضٌّ وأَبْيَضُ. قال عزّ وجل : يَوْمَ تَبْيَضُّ وُجُوهٌ وَتَسْوَدُّ وُجُوهٌ فَأَمَّا الَّذِينَ اسْوَدَّتْ وُجُوهُهُمْ أَكَفَرْتُمْ بَعْدَ إِيمانِكُمْ فَذُوقُوا الْعَذابَ بِما كُنْتُمْ تَكْفُرُونَ وَأَمَّا الَّذِينَ ابْيَضَّتْ وُجُوهُهُمْ فَفِي رَحْمَتِ اللَّهِ [ آل عمران 106- 107] .- والأَبْيَض : عرق سمّي به لکونه أبيض، ولمّا کان البیاض أفضل لون عندهم كما قيل : البیاض أفضل، والسواد أهول، والحمرة أجمل، والصفرة أشكل، عبّر به عن الفضل والکرم بالبیاض، حتی قيل لمن لم يتدنس بمعاب : هو أبيض اللون . وقوله تعالی: يَوْمَ تَبْيَضُّ وُجُوهٌ [ آل عمران 106] ، فابیضاض الوجوه عبارة عن المسرّة، واسودادها عن الغم، وعلی ذلک وَإِذا بُشِّرَ أَحَدُهُمْ بِالْأُنْثى ظَلَّ وَجْهُهُ مُسْوَدًّا [ النحل 58] ، وعلی نحو الابیضاض قوله تعالی:- وُجُوهٌ يَوْمَئِذٍ ناضِرَةٌ [ القیامة 22] ، وقوله : وُجُوهٌ يَوْمَئِذٍ مُسْفِرَةٌ ضاحِكَةٌ مُسْتَبْشِرَةٌ [ عبس 38- 39] . وقیل : أمّك بيضاء من قضاعة«1» وعلی ذلک قوله تعالی: بَيْضاءَ لَذَّةٍ لِلشَّارِبِينَ- [ الصافات 46] ، وسمّي البَيْض لبیاضه، الواحدة : بَيْضَة، وكنّي عن المرأة بالبیضة تشبيها بها في اللون، وکونها مصونة تحت الجناح . وبیضة البلد يقال في المدح والذم، أمّا المدح فلمن کان مصونا من بين أهل البلد ورئيسا فيهم، وعلی ذلک قول الشاعر :- کانت قریش بيضة فتفلّقت ... فالمحّ خالصه لعبد مناف وأمّا الذم فلمن کان ذلیلا معرّضا لمن يتناوله كبيضة متروکة بالبلد، أي : العراء والمفازة . وبَيْضَتَا الرجل سمّيتا بذلک تشبيها بها في الهيئة والبیاض، يقال : بَاضَتِ الدجاجة، وباض کذا، أي : تمكّن .- قال الشاعر :- بداء من ذوات الضغن يأوي ... صدورهم فعشش ثمّ باض وبَاضَ الحَرُّ : تمكّن، وبَاضَتْ يد المرأة : إذا ورمت ورما علی هيئة البیض، ويقال : دجاجة بَيُوض، ودجاج بُيُض - ( ب ی ض ) البیاض - سفیدی ۔ یہ سواد کی ضد ہے ۔ کہا جاتا ہے ابیض ، ، ابیضاضا وبیاض فھو مبیض ۔ قرآن میں ہے ؛۔ يَوْمَ تَبْيَضُّ وُجُوهٌ وَتَسْوَدُّ وُجُوهٌ جسدن بہت سے منہ سفید ہونگے اور بہت سے منہ سیاہ ۔ وَأَمَّا الَّذِينَ ابْيَضَّتْ وُجُوهُهُمْ فَفِي رَحْمَتِ اللَّهِ [ آل عمران 106- 107] . اور جن کے منہ سفید ہوں گے ۔ اور ابیض ایک رگ کا نام بھی ہے جو سفید رنگ ہونے کی وجہ سے ابیض کہلاتی ہے ۔۔ اہل عرب کے ہاں چونکہ سفید رنگ تمام رنگوں میں بہتر خیال کیا جاتا ہے جیسے کہا گیا ہے البیاض افضل والسواد اھول والحمرۃ اجمل والصفرۃ اشکل اس لئے بیاض بول کر فضل وکرم مراد لیا جاتا ہے اور جو شخص ہر قسم کے عیب سے پاک ہو اسے ابیض الوجہ کہا جاتا ہے اس بنا پر آیت مذکورہ میں ابیاض الوجوہ سے مسرت اور اسود الوجوہ سے تم مراد ہوگا جیسے دوسری جگہ فرمایا ؛۔ وَإِذا بُشِّرَ أَحَدُهُمْ بِالْأُنْثى ظَلَّ وَجْهُهُ مُسْوَدًّا [ النحل 58] حالانکہ جب ان میں سے کسی کو بیٹی ( کے پیدا ہونے ) کی خبر ملتی ہے تو اس کا منہ ( غم کے سبب ) کالا پڑجاتا ہے ۔ اور جیسے ابیاض الوجوہ خوشی سے کنایہ ہوتا ہے اسی طرح آیت ؛۔ وُجُوهٌ يَوْمَئِذٍ ناضِرَةٌ [ القیامة 22] اس روز بہت سے منہ رونق وار ہوں گے اور آیت ؛۔ وُجُوهٌ يَوْمَئِذٍ مُسْفِرَةٌ ضاحِكَةٌ مُسْتَبْشِرَةٌ [ عبس 38- 39] اور کتنے منہ اس روز چمک رہے ہونگے خوش اور مسرور نظر آئیں گے ۔ میں بھی نضرۃ اور اسفار سے مراد مسرت ہی ہوگی ۔ شاعر نے کہا ہے ( منسرح ) (72) امت بیضاء من قضاعۃ یعنی تم عفیف اور سخٰ سردار ہو ۔ اسی معنی میں فرمایا ؛۔ بَيْضاءَ لَذَّةٍ لِلشَّارِبِينَ [ الصافات 46] جو رنگ کی سفید اور پینے والوں کے لئے سراسر ) لذت ہوگئی ۔ البیض یہ بیضۃ کی جمع ہے اور انڈے کے سفید ہونے کی وجہ اسے بیضۃ کہا جاتا ہے ۔ انڈا سفید اور پروں کے نیچے محفوظ رہتا ہے اس لئے تشبیہ کے طور بیضۃ بول کر خوبصورت عورت مراد لی جاتی ہے۔ بیضۃ البلد یہ لفظ تعریف اور مذمت کے طور پر استعمال ہوتا ہے ۔ جب کلمہ تعریفی ہو تو اس سے رئیس شہر مراد ہوتا ہے ۔ اسی بناپر شاعر نے کہا ہے :۔ ( کامل ) (73) کانت قریش بیضۃ فتفلقت فالمخ خالصہ لعبدمناف قریش ایک انڈے کی مثل تھے ۔ جو ٹوٹا تو عبد مناف کے حصہ میں خالص مخ آئی ۔ اور جب مذمت کے لئے استعمال ہو تو اس سے ذلیل آدمی مراد لیا جاتا ہے جسے جنگل میں پڑے ہوئے انڈے کی طرح ہر ایک توڑ سکتا ہے اور شکل ورنگ میں مشابہت کی وجہ سے خصیتین کو بیضا الرجل کہا جاتا ہے ۔ باضت الدجاجۃ مرغی کا انڈے دینا ۔ باض کذا کسی جگہ پر متمکن ہونا ۔ شاعر نے کہا ہے (74) بدامن ذوات الضغن یآوی صدورھم فعش ثم باضا باض الحر گرمی سخت ہونا ۔ باضت یدا لمرءۃ عورت کے ہاتھ پر انڈے کی طرح درم ہونا ۔ دجاجۃ بیوض انڈے دینے والی مرغی ج بیض ۔- غير - أن تکون للنّفي المجرّد من غير إثبات معنی به، نحو : مررت برجل غير قائم . أي : لا قائم، قال : وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّنِ اتَّبَعَ هَواهُ بِغَيْرِ هُدىً مِنَ اللَّهِ [ القصص 50] ،- ( غ ی ر ) غیر - اور محض نفی کے لئے یعنی اس سے کسی دوسرے معنی کا اثبات مقصود نہیں ہوتا جیسے مررت برجل غیر قائم یعنی میں ایسے آدمی کے پاس سے گزرا جو کھڑا نہیں تھا ۔ قرآن میں ہے : وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّنِ اتَّبَعَ هَواهُ بِغَيْرِ هُدىً مِنَ اللَّهِ [ القصص 50] اور اس سے زیادہ کون گمراہ ہوگا جو خدا کی ہدایت کو چھوڑ کر اپنی خواہش کے پیچھے چلے - سَّيِّئَةُ :- الفعلة القبیحة، وهي ضدّ الحسنة، قال : ثُمَّ كانَ عاقِبَةَ الَّذِينَ أَساؤُا السُّوای[ الروم 10]: بَلى مَنْ كَسَبَ سَيِّئَةً [ البقرة 81] - سَّيِّئَةُ :- اور ہر وہ چیز جو قبیح ہو اسے سَّيِّئَةُ :،- ، سے تعبیر کرتے ہیں ۔ اسی لئے یہ لفظ ، ، الحسنیٰ ، ، کے مقابلہ میں آتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ثُمَّ كانَ عاقِبَةَ الَّذِينَ أَساؤُا السُّوای[ الروم 10] پھر جن لوگوں نے برائی کی ان کا انجام بھی برا ہوا ۔ چناچہ قرآن میں ہے اور سیئۃ کے معنی برائی کے ہیں اور یہ حسنۃ کی ضد ہے قرآن میں ہے : بَلى مَنْ كَسَبَ سَيِّئَةً [ البقرة 81] جو برے کام کرے - ضم - الضَّمُّ : الجمعُ بين الشّيئين فصاعدا . قال تعالی: وَاضْمُمْ يَدَكَ إِلى جَناحِكَ- [ طه 22] ، وَاضْمُمْ إِلَيْكَ جَناحَكَ [ القصص 32] ، والإِضْمَامَةُ : جماعةُ من النّاس أو من الکتب أو الرّيحان أو نحو ذلک «1» ، وأسد ضَمْضَمٌ وضُمَاضِمٌ: يَضُمُّ الشّيءَ إلى نفسه .- وقیل : بل هو المجتمع الخلق، وفرس سبّاقُ الأَضَامِيمِ : إذا سبق جماعة من الأفراس دفعة واحدة .- ( ض م م ) الضم - ( ن) کے معنی دو زیادہ دو سے زیادہ دو چیزوں کو باہم ملا دینا کے ہیں قرآن میں ہے :۔ وَاضْمُمْ يَدَكَ إِلى جَناحِكَ [ طه 22 اور تم اپنے بازو کو اپنے بغل سے لگا لو ۔ وَاضْمُمْ إِلَيْكَ جَناحَكَ [ القصص 32] اور بازو کو سمٹائے رکھو ۔ الاضمامتہ لوگوں کی جماعت کتابوں کا بنڈل گھاس وغیرہ کا گٹھا ۔ اسد ضمضم وضماضم اس شیر کو کہتے ہیں جو ہر چیز کو اپنی ذات کے لئے اکٹھا کرنے والا ہو ۔ بعض نے اس کے معنی قوی اور مضبوط بھی کئے ہیں ۔ فرس سباق الاضامیم وہ گھوڑا جو بیک وقت گھوڑوں کی ایک جماعت سے سبقت لے جانے ولا ہو ۔- جناح - وسمي الإثم المائل بالإنسان عن الحق جناحا ثم سمّي كلّ إثم جُنَاحاً ، نحو قوله تعالی: لا جُناحَ عَلَيْكُمْ «1» في غير موضع، وجوانح الصدر :- الأضلاع المتصلة رؤوسها في وسط الزور، الواحدة : جَانِحَة، وذلک لما فيها من المیل - اسی لئے ہر وہ گناہ جو انسان کو حق سے مائل کردے اسے جناح کہا جاتا ہے ۔ پھر عام گناہ کے معنی میں یہ لفظ استعمال ہونے لگا ہے ۔ قرآن میں متعدد مواضع پر آیا ہے پسلیاں جن کے سرے سینے کے وسط میں باہم متصل ہوتے ہیں اس کا واحد جانحۃ ہے اور ان پسلیوں کو جو انح اسی لئے کہا جاتا ہے کہ ان میں میلان یعنی خم ہوتا ہے ۔- رهب - الرَّهْبَةُ والرُّهْبُ : مخافة مع تحرّز و اضطراب، قال : لَأَنْتُمْ أَشَدُّ رَهْبَةً [ الحشر 13] ، وقال : جَناحَكَ مِنَ الرَّهْبِ [ القصص 32] ، وقرئ : مِنَ الرَّهْبِ ، أي : الفزع . قال مقاتل : خرجت ألتمس تفسیر الرّهب، فلقیت أعرابيّة وأنا آكل، فقالت : يا عبد الله، تصدّق عليّ ، فملأت كفّي لأدفع إليها، فقالت : هاهنا في رَهْبِي «5» ، أي : كمّي . والأوّل أصحّ. قال تعالی: وَيَدْعُونَنا رَغَباً وَرَهَباً- [ الأنبیاء 90] ، وقال : تُرْهِبُونَ بِهِ عَدُوَّ اللَّهِ- [ الأنفال 60] ، وقوله : وَاسْتَرْهَبُوهُمْ- [ الأعراف 116] ، أي : حملوهم علی أن يَرْهَبُوا، وَإِيَّايَ فَارْهَبُونِ- [ البقرة 40] ، أي : فخافون، والتَّرَهُّبُ : التّعبّد، وهو استعمال الرّهبة، والرَّهْبَانِيّةُ : غلوّ في تحمّل التّعبّد، من فرط الرّهبة . قال : وَرَهْبانِيَّةً ابْتَدَعُوها[ الحدید 27] ، والرُّهْبَانُ يكون واحدا، وجمعا، فمن جعله واحدا جمعه علی رَهَابِينَ ، ورَهَابِنَةٌ بالجمع أليق . والْإِرْهَابُ : فزع الإبل، وإنما هو من : أَرْهَبْتُ. ومنه : الرَّهْبُ «1» من الإبل، وقالت العرب : رَهَبُوتٌ خير من رحموت «2» .- ( ر ھ ب ) الرھب - والرھبۃ ایسے خوف کو کہتے ہیں جس میں احتیاط اور اضطراب بھی شامل ہو قرآن میں : ۔ لَأَنْتُمْ أَشَدُّ رَهْبَةً [ الحشر 13] تمہاری ہیبت تو ( ان کے دلوں میں اللہ تعالیٰ سے بڑھکر ہے جَناحَكَ مِنَ الرَّهْبِ [ القصص 32] اور دفع ) خوف کے لئے اپنے بازو سکیڑ لو ) ۔ اس میں ایک قرآت رھب بضمہ الراء بھی ہے ۔ جس کے معنی فزع یعنی گھبراہٹ کے ہیں متقاتل کہتے ہیں کہ رھب کی تفسیر معلوم کرنے کی غرض سے نکلا دریں اثنا کہ میں کھانا کھا رہا تھا ایک اعرابی عورت آئی ۔ اور اس نے کہا اسے اللہ کے بندے مجھے کچھ خیرات دیجئے جب میں لپ بھر کر اسے دینے لگا تو کہنے لگے یہاں میری آستین میں ڈال دیجئے ( تو میں سمجھ گیا کہ آیت میں بھی ( ھب بمعنی آستین ہے ) لیکن پہلے معنی یعنی گھبراہٹ کے زیادہ صحیح ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَيَدْعُونَنا رَغَباً وَرَهَباً [ الأنبیاء 90] ہمارے فضل کی توقع اور ہمارے عذاب کے خوف سے ہمیں پکارتے رہتے ہیں ) تُرْهِبُونَ بِهِ عَدُوَّ اللَّهِ [ الأنفال 60] اس سے تم اللہ کے دشمنوں پر اور اپنے دشمنوں پر دھاک بٹھائے رکھو گے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَاسْتَرْهَبُوهُمْ [ الأعراف 116] اور ان کو دہشت میں ڈال دیا ۔ میں استر ھاب کے معنی دہشت زدہ کرنے کے ہیں ۔ وَإِيَّايَ فَارْهَبُونِ [ البقرة 40] اور مجھ سے ہی ڈرو ۔ اور ترھب ( تفعیل کے معنی تعبد یعنی راہب بننے اور عبادت ہیں خوف سے کام لینے کے ہیں اور فرط خوف سے عبادت گذاری میں غلو کرنے رھبانیۃ کہا جاتا ہے قرآن میں ہے ۔ وَرَهْبانِيَّةً ابْتَدَعُوها[ الحدید 27] اور رہبانیت ( لذت دنیا کا چوڑ بیٹھنا جو انہوں نے از خود ایجاد کی تھی ۔ اور رھبان ( صومعہ لوگ واحد بھی ہوسکتا ہے اور جمع بھی جو اس کو واحد دیتے ہیں ان کے نزدیک اس کی جمع رھا بین آتی ہے لیکن اس کی جمع رھا بتۃ بنانا زیادہ مناسب ہے الا رھاب ( افعال ) کے اصل معنی اونٹوں کو خوف زدہ کرنے کے ہیں یہ ارھبت ( فعال کا مصدر ہے اور اسی سے زھب ہے جس کے معنی لاغر اونٹنی ( یا شتر نر قوی کلاں جثہ ) کے میں مشہور محاورہ ہے : ۔ کہ رحم سے خوف بہتر ہے ۔- _- بره - البُرْهَان : بيان للحجة، وهو فعلان مثل :- الرّجحان والثنیان، وقال بعضهم : هو مصدر بَرِهَ يَبْرَهُ : إذا ابیضّ ، ورجل أَبْرَهُ وامرأة بَرْهَاءُ ، وقوم بُرْهٌ ، وبَرَهْرَهَة «1» : شابة بيضاء .- والبُرْهَة : مدة من الزمان، فالبُرْهَان أوكد الأدلّة، وهو الذي يقتضي الصدق أبدا لا محالة، وذلک أنّ الأدلة خمسة أضرب :- دلالة تقتضي الصدق أبدا .- ودلالة تقتضي الکذب أبدا .- ودلالة إلى الصدق أقرب .- ودلالة إلى الکذب أقرب .- ودلالة هي إليهما سواء .- قال تعالی: قُلْ : هاتُوا بُرْهانَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ صادِقِينَ [ البقرة 111] ، قُلْ : هاتُوا بُرْهانَكُمْ هذا ذِكْرُ مَنْ مَعِيَ [ الأنبیاء 24] ، قَدْ جاءَكُمْ بُرْهانٌ مِنْ رَبِّكُمْ [ النساء 174] .- ( ب ر ہ ) البرھان - کے معنی دلیل اور حجت کے ہیں اور یہ ( رحجان وثنیان کی طرح فعلان کے وزن پر ہے ۔ بعض کے نزدیک یہ برہ یبرہ کا مصدر ہے جس کے معنی سفید اور چمکنے کے ہیں صفت ابرہ مونث برھاء ج برۃ اور نوجوان سپید رنگ حسینہ کو برھۃ کہا جاتا ہے البرھۃ وقت کا کچھ حصہ لیکن برھان دلیل قاطع کو کہتے ہیں جو تمام دلائل سے زدر دار ہو اور ہر حال میں ہمیشہ سچی ہو اس لئے کہ دلیل کی پانچ قسمیں ہیں ۔ ( 1 ) وہ جو شخص صدق کی مقتضی ہو ( 2 ) وہ جو ہمیشہ کذب کی مقتضی ہو ۔ ( 3) وہ جو اقرب الی الصدق ہو ( 4 ) جو کذب کے زیادہ قریب ہو ( 5 ) وہ جو اقتضاء صدق وکذب میں مساوی ہو ۔ قرآن میں ہے ۔ قُلْ : هاتُوا بُرْهانَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ صادِقِينَ [ البقرة 111] اے پیغمبر ان سے ) کہدو کہ اگر تم سچے ہو تو دلیل پیش کرو ۔ قُلْ : هاتُوا بُرْهانَكُمْ هذا ذِكْرُ مَنْ مَعِيَ [ الأنبیاء 24] کہو کہ اس بات پر ) اپنی دلیل پیش کرویہ ( میری اور ) میرے ساتھ والوں کی کتاب بھی ہے - فِرْعَوْنُ- : اسم أعجميّ ، وقد اعتبر عرامته، فقیل : تَفَرْعَنَ فلان : إذا تعاطی فعل فرعون، كما يقال : أبلس وتبلّس، ومنه قيل للطّغاة : الفَرَاعِنَةُ والأبالسة .- فرعون - یہ علم عجمی ہے اور اس سے سرکش کے معنی لے کر کہا جاتا ہے تفرعن فلان کہ فلاں فرعون بنا ہوا ہے جس طرح کہ ابلیس سے ابلس وتبلس وغیرہ مشتقات استعمال ہوتے ہیں اور ایس سے سرکشوں کو فراعنۃ ( جمع فرعون کی اور ابا لسۃ ( جمع ابلیس کی ) کہا جاتا ہے ۔- ملأ - المَلَأُ : جماعة يجتمعون علی رأي، فيملئون العیون رواء ومنظرا، والنّفوس بهاء وجلالا . قال تعالی: أَلَمْ تَرَ إِلَى الْمَلَإِ مِنْ بَنِي إِسْرائِيلَ [ البقرة 246] ،- ( م ل ء ) الملاء - ۔ وی جماعت جو کسی امر پر مجتمع ہو تو مظروں کو ظاہری حسن و جمال اور نفوس کو ہیبت و جلال سے بھردے ۔ قرآن میں ہے : ۔ أَلَمْ تَرَ إِلَى الْمَلَإِ مِنْ بَنِي إِسْرائِيلَ [ البقرة 246] نھلا تم نے بنی اسرائیل کی ایک جماعت کو نہیں دیکھا ۔- قوم - والقَوْمُ : جماعة الرّجال في الأصل دون النّساء، ولذلک قال : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات 11] ، - ( ق و م ) قيام - القوم۔ یہ اصل میں صرف مرودں کی جماعت پر بولا جاتا ہے جس میں عورتیں شامل نہ ہوں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات 11] - فسق - فَسَقَ فلان : خرج عن حجر الشّرع، وذلک من قولهم : فَسَقَ الرُّطَبُ ، إذا خرج عن قشره «3» ، وهو أعمّ من الکفر . والفِسْقُ يقع بالقلیل من الذّنوب وبالکثير، لکن تعورف فيما کان کثيرا، وأكثر ما يقال الفَاسِقُ لمن التزم حکم الشّرع وأقرّ به،- ( ف س ق ) فسق - فلان کے معنی کسی شخص کے دائر ہ شریعت سے نکل جانے کے ہیں یہ فسق الرطب کے محاورہ سے ماخوذ ہے جس کے معنی گدری کھجور کے اپنے چھلکے سے باہر نکل آنا کے ہیں ( شرعا فسق کا مفہوم کفر سے اعم ہے کیونکہ فسق کا لفظ چھوٹے اور بڑے ہر قسم کے گناہ کے ارتکاب پر بولا جاتا ہے اگر چہ عرف میں بڑے گناہوں کے ارتکاب پر بولا جاتا ہے اور عام طور پر فاسق کا لفظ اس شخص کے متعلق استعمال ہوتا ہے جو احکام شریعت کا التزام اور اقرار کر نیکے بعد تمام یا بعض احکام کی خلاف ورزی کرے۔
(٣٢) اور خوف دور کرنے کے لیے اپنا وہ ہاتھ پھر گریبان اور بغل سے بدستور ملا لینا تاکہ ہاتھ پھر اصلی حالت پر آجائے سو یہ تمہاری نبوت کی دو نشانیاں ہیں تمہارے رب کی طرف سے فرعون اور اس کی قوم کے پاس جانے کے لیے کیوں کہ وہ بڑے نافرمان مشرک لوگ ہیں۔
(وَّاضْمُمْ اِلَیْکَ جَنَاحَکَ مِنَ الرَّہْبِ ) ” - خوف کی کیفیت کا سامنا کرنے کے لیے یہ ایک خاص ترکیب بتائی گئی کہ جب کبھی آپ ( علیہ السلام) کو کوئی خوف لاحق ہو تو اپنے بازو کو اپنی بغل کے ساتھ چمٹا لینا ‘ اس طرح خوف کے اثرات زائل ہوجائیں گے۔- (اِنَّہُمْ کَانُوْا قَوْمًا فٰسِقِیْنَ ) ” - فرعون اور اس کے اعیان سلطنت ایک فاسق ‘ فاجر اور سرکش قوم بن گئے ہیں۔ لہٰذا ان نشانیوں کے ساتھ ان کے پاس جاؤ اور انہیں اللہ رب العالمین کی اطاعت و بندگی کی دعوت دو ۔
سورة القصص حاشیہ نمبر : 44 یہ دونوں معجزے اس وقت حضرت موسی کو اس لیے دکھائے گئے کہ اول تو انہیں خود پوری طرح یقین ہوجائے کہ فی الواقع وہی ہستی ان سے مخاطب ہے جو کائنات کے پورے نظام کی خالق و مالک اور فرماں روا ہے ۔ دوسرے وہ ان معجزوں کو دیکھ کر مطمئن ہوجائیں کہ جس خطرناک مشن پر انہیں فرعون کی طرف بھیجا جارہا ہے اس کا سامنا کرنے کے لیے وہ بالکل نہتے نہیں جائیں گے بلکہ دو زبردست ہتھیار لے کر جائیں گے ۔ سورة القصص حاشیہ نمبر : 45 یعنی جب کبھی کوئی خطرناک موقع ایسا آئے جس سے تمہارے دل میں خوف پیدا ہو تو اپنا بازو بھینچ لیا کرو ، اس سے تمہارا دل قوی ہوجائے گا اور رعب و دہشت کی کوئی کیفیت تمہارے اندر باقی نہ رہے گی ۔ بازو سے مراد غالبا سیدھا بازو ہے ، کیونکہ مطلقا ہاتھ بول کر سیدھا ہاتھ مراد لیا جاتا ہے ، بھینچنے کی دو شکلیں ممکن ہیں ۔ ایک یہ کہ بازو کو پہلے کے ساتھ لگا کر دبا لیا جائے ۔ دوسری یہ کہ ایک ہاتھ کو دوسرے ہاتھ کی بغل میں رکھ کر دبایا جائے ۔ اغلب یہ ہے کہ پہلی شکل ہی مراد ہوگی ۔ کیونکہ اس صورت میں دوسرا کوئی شخص یہ محسوس نہیں کرسکتا کہ آدمی اپنے دل کا خوف دور کرنے کے لیے کوئی خاص عمل کر رہا ہے ۔ حضرت موسی کو یہ تدبیر اس لیے بتائی گئی کہ وہ ایک ظالم حکومت کا مقابلہ کرنے کے لیے کسی لاؤ لشکر اور دنیوی سازوسامان کے بغیر بھیجے جارہے تھے ، بارہا ایسے خوفناک مواقع پیش آنے والے تھے جن میں ایک اولو العزم نبی تک دہشت سے محفوظ نہ رہ سکتا تھا ۔ اللہ تعالی نے فرمایا کہ جب کوئی ایسی صورت پیش آئے ، تم بس یہ عمل کرلیا کرو ، فرعون اپنی پوری سلطنت کا زور لگا کر بھی تمہارے دل کو متزلزل نہ کرسکے گا ۔ سورة القصص حاشیہ نمبر : 46 ان الفاظ میں یہ مفہوم آپ سے آپ شامل ہے کہ یہ نشانیاں لے کر فرعون کے پاس جاؤ اور اللہ کے رسول کی حیثیت سے اپنے آپ کو پیش کر کے اسے اور اس کے اعیان سلطنت کو اللہ رب العالمین کی اطاعت و بندگی کی طرف دعوت دو ۔ اسی لیے یہاں اس ماموریت کی تصریح نہیں کی گئی ہے البتہ دوسرے مقامات پر صراحت کے ساتھ یہ مضمون بیان کیا گیا ہے ۔ سورہ طہ اور سورہ نازعات میں فرمایا اِذْهَبْ اِلٰى فِرْعَوْنَ اِنَّهٗ طَغٰى فرعون کے پاس جا کہ وہ سرکش ہوگیا ہے ۔ اور الشعراء میں فرمایا اِذْ نَادٰي رَبُّكَ مُوْسٰٓي اَنِ ائْتِ الْقَوْمَ الظّٰلِمِيْنَ ، قَوْمَ فِرْعَوْنَ ۔ جبکہ پکارا تیرے رب نے موسی کو کہ جا ظالم قوم کے پاس ، فرعون کی قوم کے پاس ۔
21: لاٹھی کے سانپ بننے اور ہاتھ سے اچانک روشنی نکلنے کے واقعات سے جو طبعی گھبراہٹ ہوئی، اس کا علاج بھی اللہ تعالیٰ نے یہ بیان فرمایا کہ جس ہاتھ کو بغل سے نکالا تھا، اور وہ چمکنے لگا تھا، اسے دوبارہ اپنے جسم سے لپٹا لو، تو گھبراہٹ دور ہوجائے گی۔