Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

یاد ماضی یہ گزر چکا کہ حضرت موسیٰ فرعون سے خوف کھاکر اس کے شہر سے بھاگ نکلے تھے ۔ جب اللہ تعالیٰ نے وہیں اسی کے پاس نبی بن کر جانے کو فرمایا تو آپ کو وہ سب یاد آگیا اور عرض کرنے لگے اے اللہ ان کے ایک آدمی کی جان میرے ہاتھ سے نکل گئی تھی تو ایسانہ ہو کہ وہ بدلے کا نام رکھ کر میرے قتل کے درپے ہوجائیں ۔ حضرت موسیٰ نے بچپن کے زمانے میں جب کہ آپ کے سامنے بطور تجربہ کے ایک آگ اور ایک کھجور یا یک موتی رکھا تھا تو آپ نے انگارہ پکڑلیا تھا اور منہ میں ڈال لیا تھا اس واسطے آپ کی زبان میں کچھ کسر رہ گئی تھی اور اسی لیے آپ نے اپنی زبان کی بابت اللہ سے دعا مانگی تھی کہ میری زبان کی گرہ کھول دے تاکہ لوگ میری بات سمجھ سکیں اور میرے بھائی ہارون کو میرا وزیر بنادے اس سے میرا بازو مضبوط کر اور اسے میرے کام میں شریک کر تاکہ نبوت ورسالت کا فریضہ ادا ہو اور تیرے بندوں کو تیری کبریائی کی دعوت دے سکیں ۔ یہاں بھی آپ کی دعا منقول ہے کہ آپ نے فرمایا میرے بھائی ہارون کو میرے ساتھ ہی اپنا رسول بناکر بھیجیں وہ میرا معین و وزیر ہوجائے ۔ وہ میری باتوں کو باور کرے تاکہ میرا بازو مضبوط رہے دل بڑھا ہوا رہے ۔ اور یہ بھی بات ہے کہ دو آوازیں بہ نسبت ایک آواز کے زیادہ مضبوط اور با اثر ہوتی ہیں ۔ میں اکیلا رہا تو ڈر ہے کہ کہیں وہ مجھے جھٹلا نہ دیں اور ہارون ساتھ ہوا تو میری باتیں بھی لوگوں کو سمجھا دیا کرے گا ۔ جناب باری ارحم الراحمین نے جواب دیا کہ تیری مانگ منظور ہے ہم تیرے بھائی کو تجھ کو سہارادیں گے اور اسے بھی تیرے ساتھ نبی بنادیں گے ۔ جیسے اور آیت میں ہے ( قَالَ قَدْ اُوْتِيْتَ سُؤْلَكَ يٰمُوْسٰى 36؁ ) 20-طه:36 ) موسیٰ تیرا سوال پورا کردیا گیا ۔ اور آیت میں ہے ہم نے اپنی رحمت سے اسے اس کے بھائی ہارون کو نبی بنادیا ۔ اسی لئے بعض اسلاف کا فرمان ہے کہ کسی بھائی نے اپنے بھائی پر وہ احسان نہیں کیا جو حضرت موسیٰ علیہ السلام نے حضرت ہارون پر کیا کہ اللہ سے دعا کرکے انہیں نبی بنوادیا ۔ یہ موسیٰ علیہ السلام کی بڑی بزرگی کی دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی ایسی دعا بھی رد نہ کی ۔ واقعی آپ اللہ کے نزدیک بڑے ہی مرتبہ والے تھے ۔ پھر فرماتا ہے کہ ہم تم دونوں کو زبردست دلیلیں اور کام حجتیں دیں گے فرعونی تمہیں کوئی ایذاء نہیں دے سکتے ۔ کیونکہ تم میرا پیغام میرے بندوں کے نام پہنچانے والے ہو ۔ ایسوں کو میں خود دشمنوں سے سنبھالتا ہوں ۔ ان کامددگار اور مؤید میں خود بن جاتا ہوں ۔ انجام کار تم اور تمہارے ماننے والے ہی غالب آئیں گے ۔ جیسے فرمان ہے اللہ لکھ چکا ہے میں اور میرے رسول ہی غالب آئیں گے ۔ اللہ تعالیٰ قوت والا عزت والا ہے ۔ اور آیت میں ہے ( اِنَّا لَنَنْصُرُ رُسُلَنَا وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا فِي الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا وَيَوْمَ يَقُوْمُ الْاَشْهَادُ 51؀ۙ ) 40-غافر:51 ) ہم اپنے رسولوں اور ایمان والوں کی دنیا کی زندگی میں بھی مدد کرتے ہیں ۔ ابن جریر کے نزدیک آیت کا ترجمہ یہ ہے کہ ہمارے دئیے ہوئے غلبہ کی وجہ سے فرعونی تمہیں تکلیف نہ پہنچاسکیں گے اور ہماری دی ہوئی نشانیوں کی وجہ سے غلبہ صرف تمہیں ہی حاصل ہوگا ۔ لیکن پہلے جو مطلب بیان ہوا ہے اس سے بھی یہی ثابت ہے تو اس کی کوئی حاجت ہی نہیں ۔ واللہ اعلم ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

331یہ خطرہ تھا جو واقع حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی جان کو لاحق تھا، کیونکہ ان کے ہاتھوں ایک قبطی قتل ہوچکا تھا۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

قَالَ رَبِّ اِنِّىْ قَتَلْتُ مِنْهُمْ نَفْسًا ۔۔ : موسیٰ (علیہ السلام) نے یہ بات ذمہ داری قبول کرنے سے انکار کے لیے نہیں کہی، بلکہ اس سلسلے میں پیش آنے والی مشکلات میں مدد کی درخواست کے لیے کہی۔ چناچہ ان خطرات کا ذکر کیا جو انھیں اس سلسلے میں نظر آرہے تھے اور اللہ تعالیٰ سے ان خطرات میں مدد کی ضمانت حاصل کرلی۔ (تفسیر بقاعی میں ہے کہ یہ پیش بینی اس جلیل القدر پیغمبر کی عادت مبارکہ تھی، دیکھیے انھوں نے کس طرح ہماری بھلائی کے لیے بار بار نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تخفیف کی درخواست کے لیے اللہ تعالیٰ کی جناب میں واپس جانے کو کہا) ان میں سے پہلا خطرہ یہ بیان کیا کہ میں نے ان کا ایک آدمی قتل کیا ہے، اس لیے ڈرتا ہوں کہ وہ مجھے دعوت پیش کرنے سے پہلے ہی قتل کردیں گے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

قَالَ رَبِّ اِنِّىْ قَتَلْتُ مِنْہُمْ نَفْسًا فَاَخَافُ اَنْ يَّقْتُلُوْنِ۝ ٣٣- قتل - أصل القَتْلِ : إزالة الروح عن الجسد کالموت، لکن إذا اعتبر بفعل المتولّي لذلک يقال : قَتْلٌ ، وإذا اعتبر بفوت الحیاة يقال : موت . قال تعالی: أَفَإِنْ ماتَ أَوْ قُتِلَ [ آل عمران 144] - ( ق ت ل ) القتل - ( ن ) الموت کی طرح اس کے معنی بھی جسم سے روح کو زائل کرنے کے ہیں لیکن موت اور قتل میں فرق یہ ہے کہ اگر اس فعل کو سرا انجام دینے والے کا اعتبار کیا جائے تو اسے قتل کہا جاتا ہے اور اگر صرف روح کے فوت ہونے کا اعتبار کیا جائے تو اسے موت کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں قرآن میں ہے : ۔ أَفَإِنْ ماتَ أَوْ قُتِلَ [ آل عمران 144]- نفس - الَّنْفُس : الرُّوحُ في قوله تعالی: أَخْرِجُوا أَنْفُسَكُمُ [ الأنعام 93] قال : وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ ما فِي أَنْفُسِكُمْ فَاحْذَرُوهُ [ البقرة 235] ، وقوله : تَعْلَمُ ما فِي نَفْسِي وَلا أَعْلَمُ ما فِي نَفْسِكَ [ المائدة 116] ، وقوله : وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ [ آل عمران 30] فَنَفْسُهُ : ذَاتُهُ ، وهذا۔ وإن کان قد حَصَلَ من حَيْثُ اللَّفْظُ مضافٌ ومضافٌ إليه يقتضي المغایرةَ ، وإثباتَ شيئين من حيث العبارةُ- فلا شيءَ من حيث المعنی سِوَاهُ تعالیٰ عن الاثْنَوِيَّة من کلِّ وجهٍ. وقال بعض الناس : إن إضافَةَ النَّفْسِ إليه تعالیٰ إضافةُ المِلْك، ويعني بنفسه نُفُوسَنا الأَمَّارَةَ بالسُّوء، وأضاف إليه علی سبیل المِلْك . - ( ن ف س ) النفس - کے معنی روح کے آتے ہیں چناچہ فرمایا : ۔ أَخْرِجُوا أَنْفُسَكُمُ [ الأنعام 93] کہ نکال لو اپنی جانیں ۔ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ ما فِي أَنْفُسِكُمْ فَاحْذَرُوهُ [ البقرة 235] اور جان رکھو جو کچھ تمہارے دلوں میں ہے خدا کو سب معلوم ہے ۔ اور ذیل کی دونوں آیتوں ۔ تَعْلَمُ ما فِي نَفْسِي وَلا أَعْلَمُ ما فِي نَفْسِكَ [ المائدة 116] اور جو بات میرے دل میں ہے تو اسے جانتا ہے اور جو تیرے ضمیر میں ہے میں اسے نہیں جنتا ہوں ۔ وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ [ آل عمران 30] اور خدا تم کو اپنے ( غضب سے ڈراتا ہے ۔ میں نفس بمعنی ذات ہے اور یہاں نفسہ کی اضافت اگر چہ لفظی لحاظ سے مضاف اور مضاف الیہ میں مغایرۃ کو چاہتی ہے لیکن من حیث المعنی دونوں سے ایک ہی ذات مراد ہے کیونکہ ذات باری تعالیٰ ہر قسم کی دوائی سے پاک ہے بعض کا قول ہے کہ ذات باری تعالیٰ کی طرف نفس کی اضافت اضافت ملک ہے اور اس سے ہمارے نفوس امارہ مراد ہیں جو ہر وقت برائی پر ابھارتے رہتے ہیں ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٣٣) حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے عرض کیا میں نے ان کا ایک آدمی مار دیا تھا مجھے ڈر ہے کہ کہیں اس کے بدلے میں وہ مجھے قتل نہ کردیں۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٣٣ (قَالَ رَبِّ اِنِّیْ قَتَلْتُ مِنْہُمْ نَفْسًا فَاَخَافُ اَنْ یَّقْتُلُوْنِ ) ” - اگر میں مصر پہنچ کر خاموشی سے کسی جگہ آباد ہوجاؤں تو شاید محفوظ رہ سکوں ‘ لیکن اگر میں سیدھا فرعون کے دربار میں چلا گیا تو اندیشہ ہے کہ فوری طور پر میرے خلاف مقدمہ چلایا جائے گا اور مجھے قتل کردیا جائے گا۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة القصص حاشیہ نمبر : 47 اس کا مطلب یہ نہیں تھا کہ اس ڈر سے میں وہاں نہیں جانا چاہتا ۔ بلکہ مطلب یہ تھا کہ حضور کی طرف سے ایسا کوئی انتظام ہونا چاہیے کہ میرے پہنچتے ہی کسی بات چیت اور ادائے رسالت کی نوبت آنے سے پہلے وہ لوگ مجھے الزام قتل میں گرفتار نہ کرلیں ، کیونکہ اس صورت میں تو وہ مقصد ہی فوت ہوجائے گا جس کے لیے مجھے اس مہم پر بھیجا جارہا ہے ۔ بعد کی عبارت سے یہ بات خود واضح ہوجاتی ہے کہ حضرت موسی کی اس گزارش کا یہ مدعا ہرگز نہیں تھا کہ وہ ڈر کے مارے نبوت کا منصب قبول کرنے اور فرعون کے ہاں جانے سے انکار کرنا چاہتے تھے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani