Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

411یعنی جو بھی ان کے بعد ایسے لوگ ہوں گے جو اللہ کی توحید یا اس کے وجود کے منکر ہوں گے، تو ان کا امام و پیشوا یہی فرعونی سمجھے جائیں گے جو جہنم کے داعی ہیں۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٥٣] یعنی تمام منکرین ِحق اور باطل پرستوں کے لئے وہ مثال قائم کرگیا کہ حق کو کن کن حیلوں بہانوں سے ٹھکرایا جاسکتا ہے۔ انکار حق پر ڈٹ جانے اور آخر دم تک ڈٹے رہنے کے لئے کیا کیا ہتھکنڈے استعمال کئے جاسکتے ہیں۔ حق پرستوں پر کیسے کیسے مظالم ڈھائے جاسکتے ہیں اور حق کو کیونکر دبایا جاسکتا ہے۔ یہ سب طریقے اپنے بعد میں آنے والوں کو دکھلا کر وہ جہنم کو سدھار چکا اور آج کے مشرکین مکہ انھیں کے طور طریقے اختیار کرکے اسی منزل کی طرف بڑھ رہے ہیں۔- پھر جس طرح فرعون نے اس دنیا میں حق کے دشمنوں کو جہنم کی راہ دکھلائی اسی طرح قیامت کے دن بھی وہ اہل دوزخ کی پیشوائی کرے گا۔ اور انھیں جہنم میں جا پہنچائے گا اور خود ان کی قیادت کر رہا ہوگا۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے سورة ہود کی آیت نمبر ٩٨ میں اس بات کی صراحت فرما دی ہے۔- [٥٤] یعنی اس دنیا میں تو فرعون اور اس کے درباریوں کو اپنے لاؤ لشکر پر بڑا ناز تھا۔ اور انہی فوجوں اور لاؤ لشکر نے ان کا دماغ خراب کر رکھا تھا۔ حالانکہ ان کا لاؤ لشکر ان کی غرقابی کے وقت کسی کام نہ آسکا بلکہ ان کے ساتھ ہی غرق ہوگیا۔ تو قیامت کو بھی یہ لاؤ لشکر ان کے کسی کام نہ آسکے گا۔ نہ ہی کسی دوسرے ذریعہ سے یہ جہنم کے عذاب سے بچ سکیں گے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَجَعَلْنٰهُمْ اَىِٕمَّةً يَّدْعُوْنَ اِلَى النَّارِ : ” اَىِٕمَّةً “ ”إِمَامٌ“ کی جمع ہے، جس کی پیروی کی جائے، جیسا کہ نماز میں مقتدی امام کی پیروی کرتا ہے۔ امامت نیکی میں بھی ہوتی ہے اور برائی میں بھی، جیسا کہ ابراہیم، اسحاق اور یعقوب (علیہ السلام) کے متعلق فرمایا : (وَجَعَلْنٰهُمْ اَىِٕمَّةً يَّهْدُوْنَ بِاَمْرِنَا) [ الأنبیاء : ٧٣ ] ” اور ہم نے انھیں ایسے پیشوا بنایا جو ہمارے حکم کے ساتھ رہنمائی کرتے تھے۔ “ برائی میں امامت کی مثال فرعون اور اس کے لشکر تھے۔ فرمایا، ہم نے انھیں ایسے پیشوا بنایا جو آگ کی طرف بلاتے تھے، یعنی جب تک زندہ رہے کفر میں لوگوں کے پیشوا رہے اور اپنے قول و فعل سے انھیں کفر کی دعوت دیتے رہے، جس کا نتیجہ آگ ہے۔ اسی طرح یہ قیامت کے دن بھی امام اور پیشوا ہوں گے، مگر آگ کی طرف، فرمایا : ( يَـقْدُمُ قَوْمَهٗ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ فَاَوْرَدَهُمُ النَّارَ ۭ وَبِئْسَ الْوِرْدُ الْمَوْرُوْدُ ) [ ھود : ٩٨ ] ” وہ قیامت کے دن اپنی قوم کے آگے ہوگا، پس انھیں پینے کے لیے آگ پر لے آئے گا اور وہ پینے کی بری جگہ ہے، جس پر پینے کے لیے آیا جائے۔ “- وَيَوْمَ الْقِيٰمَةِ لَا يُنْصَرُوْنَ : یعنی یہاں کے لشکر وہاں کام نہ دیں گے، نہ کسی طرف سے کوئی مدد پہنچ سکے گی۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

وَجَعَلْنٰهُمْ اَىِٕمَّةً يَّدْعُوْنَ اِلَى النَّارِ ، یعنی فرعون کے درباریوں کو اللہ تعالیٰ نے ان کی قوم کا پیشوا بنادیا تھا مگر یہ غلط کار پیشوا اپنی قوم کو آگ یعنی جہنم کی طرف دعوت دے رہے تھے یہاں اکثر مفسرین نے آگ کی طرف دعوت دینے کو ایک استعارہ اور مجاز قرار دیا ہے کہ مراد آگ سے وہ اعمال کفریہ ہیں جن کا نتیجہ جہنم کی آگ میں جانا تھا مگر استاذ محترم نادرہ روزگار حضرت مولانا سید محمد انور شاہ کشمیری قدس سرہ کی تحقیق تبعاً لابن عربی یہ تھی کہ آخرت کی جزا عین عمل ہے۔ انسان کے اعمال جو وہ دنیا میں کرتا ہے برزخ پھر محشر میں اپنی شکلیں بدلیں گے اور جوہری صورتوں میں نیک اعمال گل و گلزار بن کر جنت کی نعمتیں بن جائیں گے اور اعمال کفر و ظلم آگ اور سانپ بچھوؤں اور طرح طرح کے عذابوں کی شکل اختیار کرلیں گے اس لئے جو شخص اس دنیا میں کسی کو کفر و ظلم کی طرف بلا رہا ہے وہ حقیقۃً اس کو آگ ہی کی طرف بلا رہا ہے۔ اگرچہ اس دنیا میں اس کی شکل آگ کی نہیں مگر حقیقت اس کی آگ ہی ہے۔ اسی طرح آیت میں کوئی مجاز یا استعارہ نہیں، اپنی حقیقت پر محمول ہے۔ یہ تحقیق اختیار کی جائے تو قرآن کی بیشمار آیات میں مجاز و استعارہ کا تکلف نہیں کرنا پڑے گا۔ مثلاً وَوَجَدُوْا مَا عَمِلُوْا حَاضِرًا اور فَمَنْ يَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَيْرًا يَّرَهٗ وغیرہ۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَجَعَلْنٰہُمْ اَىِٕمَّۃً يَّدْعُوْنَ اِلَى النَّارِ۝ ٠ۚ وَيَوْمَ الْقِيٰمَۃِ لَا يُنْصَرُوْنَ۝ ٤١- إِمام :- المؤتمّ به، إنسانا كأن يقتدی بقوله أو فعله، أو کتابا، أو غير ذلک محقّا کان أو مبطلا، وجمعه : أئمة . وقوله تعالی: يَوْمَ نَدْعُوا كُلَّ أُناسٍ بِإِمامِهِمْ [ الإسراء 71] أي : بالذي يقتدون به، - الامام - وہ ہے جس کی اقتداء کی جائے خواہ وہ انسان ہو یا اس کے قول وفعل کی اقتداء کی جائے یا کتاب وغیرہ ہو اور خواہ وہ شخص جس کی پیروی کی جائے حق پر ہو یا باطل پر ہو اس کی جمع ائمۃ افعلۃ ) ہے اور آیت :۔ يَوْمَ نَدْعُوا كُلَّ أُنَاسٍ بِإِمَامِهِمْ ( سورة الإسراء 71) جس دن ہم سب لوگوں کو ان کے پیشواؤں کے ساتھ بلائیں گے ۔ میں امام سے وہ شخص مراد ہے جس کی وہ اقتداء کرتے تھے ۔ - دعا - الدُّعَاء کالنّداء، إلّا أنّ النّداء قد يقال بيا، أو أيا، ونحو ذلک من غير أن يضمّ إليه الاسم، والدُّعَاء لا يكاد يقال إلّا إذا کان معه الاسم، نحو : يا فلان، وقد يستعمل کلّ واحد منهما موضع الآخر . قال تعالی: كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِما لا يَسْمَعُ إِلَّا دُعاءً وَنِداءً [ البقرة 171] ، - ( د ع و ) الدعاء ( ن )- کے معنی ندا کے ہیں مگر ندا کا لفظ کبھی صرف یا آیا وغیرہ ہما حروف ندا پر بولا جاتا ہے ۔ اگرچہ ان کے بعد منادٰی مذکور نہ ہو لیکن دعاء کا لفظ صرف اس وقت بولا جاتا ہے جب حرف ندا کے ساتھ اسم ( منادی ) بھی مزکور ہو جیسے یا فلان ۔ کبھی یہ دونوں یعنی دعاء اور نداء ایک دوسرے کی جگہ پر بولے جاتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِما لا يَسْمَعُ إِلَّا دُعاءً وَنِداءً [ البقرة 171] ان کی مثال اس شخص کی سی ہے جو کسی ایسی چیز کو آواز دے جو پکار اور آواز کے سوا کچھ نہ سن سکے ۔ - نار - والنَّارُ تقال للهيب الذي يبدو للحاسّة، قال : أَفَرَأَيْتُمُ النَّارَ الَّتِي تُورُونَ [ الواقعة 71] ، - ( ن و ر ) نار - اس شعلہ کو کہتے ہیں جو آنکھوں کے سامنے ظاہر ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ أَفَرَأَيْتُمُ النَّارَ الَّتِي تُورُونَ [ الواقعة 71] بھلا دیکھو کہ جو آگ تم در خت سے نکالتے ہو ۔ - قِيامَةُ- والقِيامَةُ : عبارة عن قيام الساعة المذکور في قوله : وَيَوْمَ تَقُومُ السَّاعَةُ- [ الروم 12] ، يَوْمَ يَقُومُ النَّاسُ لِرَبِّ الْعالَمِينَ [ المطففین 6] ، وَما أَظُنُّ السَّاعَةَ قائِمَةً [ الكهف 36] ، والْقِيَامَةُ أصلها ما يكون من الإنسان من القیام دُفْعَةً واحدة، أدخل فيها الهاء تنبيها علی وقوعها دُفْعَة، والمَقامُ يكون مصدرا، واسم مکان القیام، وزمانه . نحو : إِنْ كانَ كَبُرَ عَلَيْكُمْ مَقامِي وَتَذْكِيرِي [يونس 71] ،- القیامتہ - سے مراد وہ ساعت ( گھڑی ) ہے جس کا ذکر کہ وَيَوْمَ تَقُومُ السَّاعَةُ [ الروم 12] اور جس روز قیامت برپا ہوگی ۔ يَوْمَ يَقُومُ النَّاسُ لِرَبِّ الْعالَمِينَ [ المطففین 6] جس دن لوگ رب العلمین کے سامنے کھڑے ہوں گے ۔ وَما أَظُنُّ السَّاعَةَ قائِمَةً [ الكهف 36] اور نہ خیال کرتا ہوں کہ قیامت برپا ہو۔ وغیرہ آیات میں پایاجاتا ہے ۔ اصل میں قیامتہ کے معنی انسان یکبارگی قیام یعنی کھڑا ہونے کے ہیں اور قیامت کے یکبارگی وقوع پذیر ہونے پر تنبیہ کرنے کے لئے لفظ قیام کے آخر میں ھاء ( ۃ ) کا اضافہ کیا گیا ہے ۔ المقام یہ قیام سے کبھی بطور مصدر میمی اور کبھی بطور ظرف مکان اور ظرف زمان کے استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ إِنْ كانَ كَبُرَ عَلَيْكُمْ مَقامِي وَتَذْكِيرِي [يونس 71] اگر تم کو میرا رہنا اور ۔ نصیحت کرنا ناگوار ہو ۔- نصر - النَّصْرُ والنُّصْرَةُ : العَوْنُ. قال تعالی: نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ- [ الصف 13] - ( ن ص ر ) النصر والنصر - کے معنی کسی کی مدد کرنے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ [ الصف 13] خدا کی طرف سے مدد نصیب ہوگی اور فتح عنقریب ہوگی - إِذا جاءَ نَصْرُ اللَّهِ [ النصر 1] جب اللہ کی مدد آپہنچی

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٤١) سو ہم نے ان کو کافروں اور گمراہوں کا ذلیل پیشوا بنا رکھا تھا جو لوگوں کو کفر وشرک اور بتوں کی پوجا کی طرف بلاتے رہے اسی لیے قیامت کے دن عذاب خداوندی کے مقابلہ میں کوئی ان کا ساتھ نہیں دے گا۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٤١ (وَجَعَلْنٰہُمْ اَءِمَّۃً یَّدْعُوْنَ اِلَی النَّارِ ج) ” - یعنی فرعون اور اس کے درباری لوگوں کو جہنم کی طرف بلانے والے گروہ کے پیشوا بن گئے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة القصص حاشیہ نمبر : 57 یعنی وہ بعد کی نسلوں کے لیے ایک مثال قائم کر گئے ہیں کہ ظلم یوں کیا جاتا ہے ، انکار حق پر ڈٹ جانے اور آخر وقت تک ڈٹے رہنے کی شان یہ ہوتی ہے ، اور صداقت کے مقابلے میں باطل پر لوگ ایسے ایسے ہتھیار استعمال کرسکتے ہیں ۔ یہ سب راستے دنیا کو دکھا کر وہ جہنم کی طرف جا چکے ہیں اور ان کے اخلاف اب انہی کے نقش قدم پر چل کر اسی منزل کے رخ لپکے جارہے ہیں ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani