Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

511یعنی ایک رسول کے بعد دوسرا رسول، ایک کتاب کے بعد دوسری کتاب ہم بھیجتے رہے اور اس طرح مسلسل لگاتار ہم اپنی بات لوگوں تک پہنچاتے رہے۔ 512مقصد اس سے یہ تھا کہ لوگ پچھلے لوگوں کے انجام سے ڈر کر اور ہماری باتوں سے نصیحت حاصل کر کے ایمان لے آئیں۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٦٩] اس آیت کے بھی دو مطلب ہیں۔ ایک یہ کہ جتنے بھی نبی ان کے آس پاس مبعوث رہے ہیں۔ اب سب کی تعلیمات ان تک بھی پہنچتی رہی ہیں اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ جب سے قرآن کا نزول شروع ہوا ہے۔ لگاتار انھیں ہدایت کی آیات پہنچ رہی ہیں۔ جس کا مقصد یہی تھا کہ وہ کچھ نصیحت قبول کرلیتے۔ اور اگر یہ فی الواقعہ ہدایت کے طالب ہوتے تو کب کے ہدایت قبول کرچکے ہوتے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

ۧوَلَقَدْ وَصَّلْنَا لَـهُمُ الْقَوْلَ ۔۔ :” وَصَّلَ الْقَوْلَ تَوْصِیْلاً “ بات کے ساتھ بات ملانا، پے در پے بات پہنچانا۔ قرآن اور تورات کو جادو قرار دے کر دونوں کے انکار کے اعلان کا مطلب یہ ہوا کہ ان کے مطابق اللہ کی طرف سے ان کے پاس کوئی ہدایت آئی ہی نہیں اور بلاغت کا قاعدہ ہے کہ انکار جتنا شدید ہو اتنی ہی تاکید کے ساتھ بات کی جاتی ہے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے ” لام “ اور ” قَدْ “ کی دوہری تاکید کے ساتھ، جو قسم کا مفہوم رکھتی ہے، فرمایا : ” اور بلاشبہ یقیناً ہم نے انھیں پے در پے بات پہنچائی، تاکہ وہ نصیحت حاصل کریں۔ “ اس کے دو مطلب ہوسکتے ہیں اور دونوں ہی مراد ہیں، ایک یہ کہ ہم ایک رسول کے بعد دوسرا رسول اور ایک کتاب کے بعد دوسری کتاب بھیجتے رہے اور اس طرح مسلسل اپنی بات لوگوں تک پہنچاتے رہے، ان سب کی تعلیمات ان تک بھی پہنچتی رہیں، تاکہ یہ خواب غفلت سے بیدار ہوں۔ دوسرا مطلب یہ ہے کہ قرآن مجید ایک ہی دفعہ نازل کردینے کے بجائے ہم انھیں اس کی آیات یکے بعد دیگرے پے در پے پہنچا رہے ہیں، کبھی وعدہ و وعید کی صورت میں، کبھی وعظ و نصیحت کی صورت میں، کبھی قصوں اور عبرتوں کے بیان کی صورت میں اور کبھی امر و نہی کی صورت میں کہ کسی طور پر نصیحت حاصل کریں۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

وَلَقَدْ وَصَّلْنَا لَـهُمُ الْقَوْلَ لَعَلَّهُمْ يَتَذَكَّرُوْنَ ، وصلنا، توصیل سے مشتق ہے جس کے اصل لغوی معنے رسی کے تاروں میں اور تار ملا کر اس کے مضبوط کرنے کے ہیں۔ مراد یہ ہے کہ قرآن حکیم میں حق تعالیٰ نے لوگوں کی ہدایت کا سلسلہ یکے بعد دیگرے جاری رکھا اور بہت سے نصیحت کے مضامین کا بار بار تکرار بھی کیا گیا تاکہ سننے والے متاثر ہوں۔- تبلیغ و دعوت کے بعض آداب :- اس سے معلوم ہوا کہ انبیاء (علیہم السلام) کی تبلیغ کا اہم پہلو یہ تھا کہ وہ حق بات کو مسلسل کہتے اور پہنچاتے ہی رہتے تھے۔ لوگوں کا انکار و تکذیب ان کے اپنے عمل اور اپنی لگن میں کوئی رکاوٹ پیدا نہیں کرتا تھا بلکہ وہ حق کو اگر ایک مرتبہ نہ مانا گیا تو دوسری مرتبہ، پھر بھی نہ مانا گیا تو تیسری چوتھی مرتبہ برابر پیش کرتے ہی رہتے تھے کسی کے دل میں ڈال دینا تو کسی ناصح ہمدرد کے بس میں نہیں مگر اپنی کوشش کو بغیر کسی تکان اور اکتاہٹ کے جاری رکھنا جو ان کے قبضہ میں تھا اس کو مسلسل انجام دیتے۔ آج بھی تبلیغ و دعوت کے کام کرنے والوں کو اس سے سبق لینا چاہئے۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَلَقَدْ وَصَّلْنَا لَـہُمُ الْقَوْلَ لَعَلَّہُمْ يَتَذَكَّرُوْنَ۝ ٥ ١ۭ- وصل - الِاتِّصَالُ : اتّحادُ الأشياء بعضها ببعض کاتّحاد طرفي الدائرة، ويضادّ الانفصال، ويستعمل الوَصْلُ في الأعيان، وفي المعاني .- يقال : وَصَلْتُ فلاناً. قال اللہ تعالی: وَيَقْطَعُونَ ما أَمَرَ اللَّهُ بِهِ أَنْ يُوصَلَ [ البقرة 27]- ( و ص ل ) الا تصال - کے معنی اشیاء کے باہم اس طرح متحد ہوجانے کے ہیں جس طرح کہ قطرہ دائرہ کی دونوں طرفین ملی ہوئی ہوتی ہیں اس کی ضد انفعال آتی ہے اور وصل کے معنی ملائے کے ہیں اور یہ اسم اور معنی دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے چناچہ وصلت فلانا صلہ رحمی کے معنی میں آتا ہے قرآن میں ہے وَيَقْطَعُونَ ما أَمَرَ اللَّهُ بِهِ أَنْ يُوصَلَ [ البقرة 27] اور جس چیز ( یعنی رشتہ قرابت ) کے جوڑے رکھنے کا خدا نے حکم دیا ہے اسی کو قطع کئے ڈالتے ہیں - لعل - لَعَلَّ : طمع وإشفاق، وذکر بعض المفسّرين أنّ «لَعَلَّ» من اللہ واجب، وفسّر في كثير من المواضع ب «كي» ، وقالوا : إنّ الطّمع والإشفاق لا يصحّ علی اللہ تعالی، و «لعلّ» وإن کان طمعا فإن ذلك يقتضي في کلامهم تارة طمع المخاطب، وتارة طمع غيرهما . فقوله تعالیٰ فيما ذکر عن قوم فرعون : لَعَلَّنا نَتَّبِعُ السَّحَرَةَ [ الشعراء 40] - ( لعل ) لعل - ( حرف ) یہ طمع اور اشفاق ( دڑتے ہوئے چاہنے ) کے معنی ظاہر کرنے کے لئے آتا ہے ۔ بعض مفسرین کا قول ہے کہ جب یہ لفظ اللہ تعالیٰ اپنے لئے استعمال کرے تو اس کے معنی میں قطیعت آجاتی ہے اس بنا پر بہت سی آیات میں لفظ کی سے اس کی تفسیر کی گئی ہے کیونکہ ذات باری تعالیٰ کے حق میں توقع اور اندیشے کے معنی صحیح نہیں ہیں ۔ اور گو لعل کے معنی توقع اور امید کے ہوتے ہیں مگر کبھی اس کا تعلق مخاطب سے ہوتا ہے اور کبھی متکلم سے اور کبھی ان دونوں کے علاوہ کسی تیسرے شخص سے ہوتا ہے ۔ لہذا آیت کریمہ : لَعَلَّنا نَتَّبِعُ السَّحَرَةَ [ الشعراء 40] تاکہ ہم ان جادو گروں کے پیرو ہوجائیں ۔ میں توقع کا تعلق قوم فرعون سے ہے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٥١) اور ہم نے اس قرآن کریم میں توحید کے مضامین کو ان کے فائدہ کے لیے وضاحت کے ساتھ بیان کیا تاکہ یہ لوگ اس قرآن کریم سے نصیحت حاصل کرکے ایمان لے آئیں۔- شان نزول : ( آیت ) ”۔ ولقد وصلنا لہم القول “۔ (الخ)- ابن جریر (رح) اور طبرانی (رح) نے رفاعہ قرضی (رض) سے روایت کیا ہے کہ یہ آیت دس حضرات کے بارے میں نازل ہوئی ہے میں بھی ان میں سے ایک ہوں۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٥١ (وَلَقَدْ وَصَّلْنَا لَہُمُ الْقَوْلَ لَعَلَّہُمْ یَتَذَکَّرُوْنَ ) ” - لوگوں کو راہ راست دکھانے کے لیے ہم مسلسل ہدایت بھیجتے رہے ہیں۔ چناچہ تورات ‘ زبور ‘ انجیل اور قرآن اسی ” سلسلۃ الذھب “ (سنہری زنجیر) کی کڑیاں ہیں۔ یہاں پر وَصَّلْنَا کا اشارہ اہل مکہ کے ” سِحْرٰنِ تَظَاہَرَا “ کے الزام کی طرف بھی ہوسکتا ہے کہ جن کتابوں کو یہ لوگ جادو قرار دے کر ان میں باہمی گٹھ جوڑ ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں ان کے اندر واقعی وصل ہے ‘ اس لیے کہ وہ ایک ہی سلسلۂ ہدایت کی کڑیاں ہیں۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة القصص حاشیہ نمبر : 71 یعنی جہاں تک حق نصیحت ادا کرنے کا تعلق ہے ہم اس قرآن میں پیہم اسے ادا کرچکے ہیں ، لیکن ہدایت تو اسی کو نصیب ہوسکتی ہے جو ضد اور ہٹ دھرمی چھوڑے اور تعصبات سے دل کو پاک کر کے سچائی کو سیدھی طرح قبول کرنے کے لیے تیار ہو ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

28: قرآن کریم ایک ہی مرتبہ کیوں نازل نہیں کیا گیا؟ اس کی وجہ بیان کی جا رہی ہے کہ اس میں تم لوگوں ہی کا فائدہ مقصود تھا کہ ہر موقع پر اس کے مناسب ہدایات دی جا سکیں اور ایک کے بعد ایک ہدایات دے کر تمہیں اس بات کو موقع دیا جائے کہ تم کسی بات کو تو قبول کرلو۔