Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

اہل کتاب علماء اہل کتاب کے علماء درحقیقت اللہ کے دوست تھے ان کے پاکیزہ اوصاف بیان ہو رہے ہیں کہ وہ قرآن کو مانتے ہیں جیسے فرمان ہے جنہیں ہم نے کتاب دی ہے اور وہ سمجھ بوجھ کر پڑھتے ہیں ان کا تو اس قرآن پر ایمان ہے ۔ اور آیت میں ہے کہ بعض اہل کتاب ایسے بھی ہیں جو اللہ کو مان کر تمہاری طرف نازل شدہ کتاب اور اپنی طرف اتری ہوئی کتاب کو بھی مانتے ہیں اور اللہ سے ڈرتے رہتے ہیں ۔ اور جگہ ہے پہلے کے اہل کتاب ایسے بھی ہیں کہ ہمارے اس قرآن کی آیتیں سن کر سجدوں میں گر پڑتے ہیں اور زبان سے کہتے ہیں کہ دعا ( وَّيَـقُوْلُوْنَ سُبْحٰنَ رَبِّنَآ اِنْ كَانَ وَعْدُ رَبِّنَا لَمَفْعُوْلًا ١٠٨؁ ) 17- الإسراء:108 ) اور آیت میں ہے ( وَلَتَجِدَنَّ اَقْرَبَهُمْ مَّوَدَّةً لِّلَّذِيْنَ اٰمَنُوا الَّذِيْنَ قَالُوْٓا اِنَّا نَصٰرٰى ۭذٰلِكَ بِاَنَّ مِنْهُمْ قِسِّيْسِيْنَ وَرُهْبَانًا وَّاَنَّهُمْ لَا يَسْتَكْبِرُوْنَ 82؀ ) 5- المآئدہ:82 ) یعنی مسلمانوں کے ساتھ دوستی کے اعتبار سے سب لوگوں سے قریب تر انہیں پاؤ گے جو اپنے تئیں انصاری کہتے ہیں اس لیے کہ ان میں علماء اور مشائخ تھے جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں نجاشی حبشہ کے بھیجے ہوئے آئے تھے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں سورۃ یاسین سنائی جسے سن کر یہ رونے لگے اور مسلمان ہوگئے ۔ انہی کے بارے میں یہ آیتیں اتریں کہ یہ انہیں سنتے ہی اپنے موحد مخلص ہونے کا اقرار کرتے ہیں اور قبول کرکے مومن مسلم بن جاتے ہیں ۔ ان کی ان صفتوں پر اللہ بھی انہیں دوہرا اجر دیتا ہے ایک پہلی کتاب کو ماننے کا دوسرا قرآن کو تسلیم کرنے وتعمیل کا ۔ یہ اتباع حق پر ثابت قدمی کرتے ہیں جو دراصل ایک مشکل اور اہم کام ہے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ تین قسم کے لوگوں کو دوہرا اجر ملتا ہے اہل کتاب جو اپنے نبی کو مان کر پھر مجھ پر بھی ایمان لائے ۔ غلام مملوک جو اپنے مجازی آقا کی فرماں برداری کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے حق کی ادائیگی بھی کرتا رہے اور وہ شخص جس کے پاس کوئی لونڈی ہو جسے وہ ادب وعلم سکھائے پھر آزاد کرے اور اس سے نکاح کرلے ۔ قاسم بن ابو امامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں فتح مکہ والے دن میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سواری کیساتھ ہی اور بالکل پاس ہی تھا ۔ آپ نے بہت بہترین باتیں ارشاد فرمائیں جن میں یہ بھی فرمایا کہ یہود ونصاری میں جو مسلمان ہوجائے اسے دوہرا دوہرا اجر ہے اور اس کے عام مسلمانوں کے برابر حقوق ہیں ۔ پھر ان کے نیک اوصاف بیان ہو رہے ہیں ۔ کہ یہ برائی کا بدلہ برائی سے نہیں لیتے بلکہ معاف کردیتے ہیں ۔ درگزر کردیتے ہیں ۔ اور نیک سلوک ہی کرتے ہیں اور اپنی حلال روزیاں اللہ کے نام خرچ کرتے ہیں اپنے بال بچوں کا پیٹ بھی پالتے ہیں زکوٰۃ صدقات وخیرات میں بھی بخیلی نہیں کرتے ۔ لغویات سے بچے ہوئے رہتے ہیں ۔ ایسے لوگوں سے دوستیاں نہیں کرتے ایسی مجلسوں سے دور رہتے ہیں بلکہ اگر اچانک گزر ہو بھی جائے تو بزرگانہ طور پر ہٹ جاتے ہیں ایسوں سے میل جول الفت محبت نہیں کرتے صاف کہہ دیتے ہیں کہ تمہاری کرنی تمہارے ساتھ ہمارے اعمال ہمارے ساتھ ۔ یعنی جاہلوں کی سخت کلامی برداشت کرلیتے ہیں انہیں ایسا جواب نہیں دیتے کہ وہ اور بھڑکیں بلکہ چشم پوشی کرلیتے ہیں اور کترا کر نکل جاتے ہیں ۔ چونکہ خود پاک نفس ہیں اس لئے پاکیزہ کلام ہی منہ سے نکالتے ہیں ۔ کہہ دیتے ہیں کہ تم پر سلام ہو ، ہم نہ جاہلانہ روش پر چلیں نہ جہلات کی چال کو پسند کریں ۔ امام محمد بن اسحاق فرماتے ہیں کہ حبشہ سے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تقریبا بیس نصرانی آئے ۔ آپ اس وقت مسجد میں تشریف فرما تھے یہیں یہ بھی بیٹھ گئے اور بات چیت شروع کی اس وقت قریشی اپنی اپنی بیٹھکوں میں کعبہ کے ارد گرد بیٹھے ہوئے تے ۔ ان عیسائی علماء نے جب سوالات کرلئے اور جوابات سے ان کی تشفی ہوگئی تو آپ نے دین اسلام ان کے سامنے پیش کیا اور قرآن کریم کی تلاوت کرکے انہیں سنائی ۔ چونکہ یہ لوگ پڑھے لکھے سنجیدہ اور روشن دماغ تھے قرآن نے ان کے دلوں پر اثر کیا اور ان کے آنکھوں سے آنسو بہنے لگے ۔ انہوں نے فورا دین اسلام قبول کرلیا اور اللہ پر اور اللہ کے رسول پر ایمان لائے ۔ کیونکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی جو صفتیں انہوں نے اپنی آسمانی کتابوں میں پڑھی تھیں سب آپ میں موجود پائیں ۔ جب یہ لوگ آپ کے پاس جانے لگے تو ابو جہل بن ہشام ملعون اپنے آدمیوں کو لئے ہوئے انہیں راستے میں ملا اور تمام قریشیوں نے مل کر انہیں طعنے دینے شروع کئے اور برا کہنے لگے کہ تم سے بدترین وفد کسی قوم کا ہم نے نہیں دیکھا تمہاری قوم نے تمہیں اس شخص کے حالات معلوم کرنے کے لئے بھیجا یہاں تم نے آبائی مذہب کو چھوڑ دیا اور اس کا ایسا رنگ تم پر چڑھا کہ ذراسی دیر میں اپنے دین کو ترک کرکے دین بدلدیا اور اسی کا کلمہ پڑھنے لگے تم سے زیادہ احمق ہم نے کسی کو نہیں دیکھا ۔ انہوں نے ٹھنڈے دل سے یہ سب سن لیا اور جواب دیا کہ ہم تمہارے ساتھ جاہلانہ باتیں کرنا پسند نہیں کرتے ہمارا دین ہمارے ساتھ تمہارا مذہب تمہارے ساتھ ۔ ہم نے جس بات میں اپنی بھلائی دیکھی اسے قبول کرلیا ۔ یہ بھی کہاجاتا ہے کہ یہ وفد نجران کے نصرانیوں کا تھا واللہ اعلم ۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ آیتیں انہی کے بارے میں اتری ہیں ۔ حضرت زہری سے ان آیتوں کا شان نزول پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا میں تو اپنے علماء سے یہی سنتا چلا آیا ہوں کہ یہ آیتیں نجاشی اور ان کے اصحاب رضی اللہ عنہم کے بارے میں اتری ہیں ۔ اور سورۃ مائدہ کی آیتیں ( ذٰلِكَ بِاَنَّ مِنْهُمْ قِسِّيْسِيْنَ وَرُهْبَانًا وَّاَنَّهُمْ لَا يَسْتَكْبِرُوْنَ 82؀ ) 5- المآئدہ:82 ) تک کی آیتیں بھی انہی کے بارے میں نازل ہوئی ہیں ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

521اس سے مراد یہودی ہیں جو مسلمان ہوگئے تھے، جیسے عبد اللہ بن سلام وغیرہ یا وہ عیسائی ہیں جو حبشہ سے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں آئے تھے اور آپ کی زبان مبارک سے قرآن کریم سن کر مسلمان ہوگئے تھے (ابن کثیر)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٧٠] سابقہ آیات میں مشرکوں کا حال یہ بتلایا گیا کہ موسیٰ کے معجزات کی بات کرنے کے باوجود نہ تورات پر ایمان لاتے ہیں اور نہ قرآن پر اور اس کی وجہ محض ان کا تعصب اور خواہش نفس کی پیروی ہے۔ اب ان لوگوں کا ذکر کیا جارہا ہے جن کی عادات و خضائل ان کے بالکل برعکس ہیں۔ یعنی وہ خواہش نفس کی کسی وقت بھی پیروی نہیں کرتے۔ بلکہ ہر وقت اللہ کے فرمانبردار بن کر رہتے ہیں۔ تورات نازل ہوئی تو وہ اس پر ایمان لائے۔ اور جب قرآن نازل ہوا تو اس پر ایمان لائے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

اَلَّذِيْنَ اٰتَيْنٰهُمُ الْكِتٰبَ مِنْ قَبْلِهٖ ۔۔ : یعنی درحقیقت یہ لوگ ضد اور عناد میں گرفتار ہیں، ہدایت کے طالب ہی نہیں، کیونکہ اگر یہ فی الواقع ہدایت کے طلب گار ہوتے تو ہمارے پے در پے نصیحت کرنے سے ہدایت پا جاتے، جیسا کہ کئی لوگ جنھیں ہم نے اس سے پہلے کتاب دی، وہ اس قرآن پر ایمان لاتے ہیں، جیسا کہ عبداللہ بن سلام، سلمان فارسی، تمیم داری، جارود عبدی اور رفاعہ قرظی (رض) وغیرہ اور وہ عیسائی جو نجاشی کے پاس تھے اور قرآن سن کر رونے لگے تھے، جن کا ذکر سورة اعراف (١٥٩) میں گزر چکا ہے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر - (اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت ان بشارتوں سے بھی ثابت ہے جن کی ان علماء نے تصدیق کی ہے جن کو تورات و انجیل میں ان بشارتوں کا علم ہے۔ چنانچہ) جن لوگوں کو ہم نے قرآن سے پہلے (آسمانی) کتابیں دی ہیں (ان میں جو منصف ہیں) وہ اس پر ایمان لاتے ہیں اور جب قرآن ان کے سامنے پڑھا جاتا ہے تو کہتے ہیں ہم اس پر ایمان لائے بیشک یہ حق ہے (جو) ہمارے رب کی طرف سے (نازل ہوا ہے اور) ہم تو اس (کے آنے) سے پہلے بھی (اپنی کتابوں کی بشارتوں کی بناء پر) مانتے تھے اب نزول کے بعد تجدید عہد کرتے ہیں۔ یعنی ہم ان لوگوں کی طرح نہیں جو نزول قرآن سے پہلے تو اس کی تصدیق کرتے تھے بلکہ اس کے آنے کے منتظر اور شائق تھے مگر جب قرآن آیا تو اس کے منکر ہوگئے (فَلَمَّا جَاۗءَھُمْ مَّا عَرَفُوْا كَفَرُوْا بِهٖ ) اس سے صاف ظاہر ہوگیا کہ تورات و انجیل کی بشارتوں کے مصداق آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہی تھے جیسا کہ سورة شعراء کے آخر میں فرمایا ہے اَوَلَمْ يَكُنْ لَّهُمْ اٰيَةً اَنْ يَّعْلَمَهٗ عُلَمٰۗؤُا بَنِيْٓ اِسْرَاۗءِيْلَ یہاں تک رسالت محمدیہ پر علماء بنی اسرائیل کی شہادت کا بیان ہوا آگے مومنین اہل کتاب کی فضیلت کا بیان ہے) ان لوگوں کو ان کی پختگی کی وجہ سے دوہرا ثواب ملے گا (کیونکہ وہ پہلی کتاب پر ایمان رکھنے کے ضمن میں بھی قرآن پر ایمان رکھتے تھے اور بعد نزول کے بھی اس پر قائم رہے اور اس کی تجدید کی، یہ تو ان کے اعتقاد اور جزاء کا بیان تھا آگے اعمال و اخلاق کا ذکر ہے کہ) اور وہ لوگ نیکی (اور تحمل) سے بدی (اور ایذاء) کا دفعیہ کردیتے ہیں اور ہم نے جو کچھ ان کو دیا ہے اس میں سے (اللہ کی راہ میں) خرچ کرتے ہیں اور (جس طرح یہ لوگ عملی ایذاؤں پر صبر کرتے ہیں اسی طرح) جب کسی سے (اپنے متعلق) کوئی لغو بات سنتے ہیں (جو قولی ایذاء ہے) تو اس کو (بھی) ٹال جاتے ہیں اور (سلامت روی کے طور پر) کہہ دیتے ہیں کہ (ہم کچھ جواب نہیں دیتے) ہمارا عمل ہمارے سامنے آوے گا اور تمہارا عمل تمہارے سامنے (بھائی) ہم تو تم کو سلام کرتے ہیں ( ہم کو جھگڑے سے معاف رکھو) ہم بےسمجھ لوگوں سے الجھنا نہیں چاہتے۔- معارف و مسائل - اَلَّذِيْنَ اٰتَيْنٰهُمُ الْكِتٰبَ مِنْ قَبْلِهٖ هُمْ بِهٖ يُؤْمِنُوْنَ ، اس آیت میں ان اہل کتاب کا ذکر ہے جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت و نبوت اور نزول قرآن سے پہلے ہی تورات و انجیل کی دی ہوئی بشارتوں کی بناء پر نزول قرآن اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت پر یقین رکھتے تھے۔ پھر آپ مبعوث ہوئے تو اپنے سابق یقین کی بناء پر ایمان لے آئے۔ حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ نجاشی بادشاہ حبشہ کے درباریوں میں سے چالیس آدمی مدینہ طیبہ میں اس وقت حاضر ہوئے جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) غزوہ خیبر میں مشغول تھے یہ لوگ بھی جہاد میں شریک ہوگئے، بعض کو کچھ زخم بھی لگے مگر ان میں سے کوئی مقتول نہیں ہوا۔ انہوں نے جب صحابہ کرام کی معاشی تنگی کا حال دیکھا تو آپ سے درخواست کی کہ ہم اللہ کے فضل سے مالدار اصحاب جائیداد ہیں ہم اپنے ملک واپس جا کر صحابہ کرام کے لئے مال فراہم کر کے لائیں آپ اجازت دے دیں، اس پر یہ آیت نازل ہوئی، اَلَّذِيْنَ اٰتَيْنٰهُمُ الْكِتٰبَ مِنْ قَبْلِهٖ هُمْ بِهٖ يُؤْمِنُوْنَ (الی قولہ) وَمِمَّا رَزَقْنٰهُمْ يُنْفِقُوْنَ (اخرجہ ابن مردویہ و الطبرانی فی الاوسط۔ مظہری) اور حضرت سعید بن جبیر کی روایت ہے کہ حضرت جعفر اپنے ساتھیوں کے ساتھ جب ہجرت مدینہ سے پہلے حبشہ گئے تھے اور نجاشی کے دربار میں اسلام کی تعلیمات پیش کیں تو نجاشی اور اس کے اہل دربار جو اہل کتاب تھے اور تورات و انجیل میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بشارت اور علامتیں دیکھے ہوئے تھے ان کے دلوں میں اسی وقت اللہ نے ایمان ڈال دیا۔ (مظہری)

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

اَلَّذِيْنَ اٰتَيْنٰہُمُ الْكِتٰبَ مِنْ قَبْلِہٖ ہُمْ بِہٖ يُؤْمِنُوْنَ۝ ٥٢- إِيتاء - : الإعطاء، [ وخصّ دفع الصدقة في القرآن بالإيتاء ] نحو : وَأَقامُوا الصَّلاةَ وَآتَوُا الزَّكاةَ [ البقرة 277] ، وَإِقامَ الصَّلاةِ وَإِيتاءَ الزَّكاةِ [ الأنبیاء 73] ، ووَ لا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَأْخُذُوا مِمَّا آتَيْتُمُوهُنَّ شَيْئاً [ البقرة 229] ، ووَ لَمْ يُؤْتَ سَعَةً مِنَ الْمالِ [ البقرة 247]- الایتاء ( افعال ) اس کے معنی اعطاء یعنی دینا اور بخشنا ہے ہیں ۔ قرآن بالخصوص صدقات کے دینے پر یہ لفظ استعمال ہوا ہے چناچہ فرمایا :۔ وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ [ البقرة : 277] اور نماز پڑہیں اور زکوۃ دیں وَإِقَامَ الصَّلَاةِ وَإِيتَاءَ الزَّكَاةِ [ الأنبیاء : 73] اور نماز پڑھنے اور زکوۃ دینے کا حکم بھیجا وَلَا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَأْخُذُوا مِمَّا آتَيْتُمُوهُنَّ ( سورة البقرة 229) اور یہ جائز نہیں ہے کہ جو مہر تم ان کو دے چکو اس میں سے کچھ واپس لے لو وَلَمْ يُؤْتَ سَعَةً مِنَ الْمَالِ [ البقرة : 247] اور اسے مال کی فراخی نہیں دی گئی - كتب - والْكِتَابُ في الأصل اسم للصّحيفة مع المکتوب فيه، وفي قوله : يَسْئَلُكَ أَهْلُ الْكِتابِ أَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتاباً مِنَ السَّماءِ [ النساء 153] فإنّه يعني صحیفة فيها كِتَابَةٌ ،- ( ک ت ب ) الکتب ۔- الکتاب اصل میں مصدر ہے اور پھر مکتوب فیہ ( یعنی جس چیز میں لکھا گیا ہو ) کو کتاب کہاجانے لگا ہے دراصل الکتاب اس صحیفہ کو کہتے ہیں جس میں کچھ لکھا ہوا ہو ۔ چناچہ آیت : يَسْئَلُكَ أَهْلُ الْكِتابِ أَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتاباً مِنَ السَّماءِ [ النساء 153]( اے محمد) اہل کتاب تم سے درخواست کرتے ہیں ۔ کہ تم ان پر ایک لکھی ہوئی کتاب آسمان سے اتار لاؤ ۔ میں ، ، کتاب ، ، سے وہ صحیفہ مراد ہے جس میں کچھ لکھا ہوا ہو

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٥٢) جن حضرات کو ہم نے رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت اور نزول قرآن کریم سے پہلے توریت کا علم دیا ہے یعنی حضرت عبداللہ بن سلام اور ان کے ساتھی یہ چالیس کے قریب ہیں کچھ ان میں سے شام کی طرف سے آئے اور کچھ یمن سے وہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور قرآن کریم پر ایمان لائے ہیں۔- شان نزول : ( آیت ) ”۔ الذین اتنہم الکتب “۔ (الخ)- نیز ابن جریر (رح) نے علی بن رفاعہ (رض) سے روایت کیا ہے کہ اہل کتاب میں سے دس حضرات کی جماعت نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئی جن میں ان کے والد رفاعہ بھی تھے اور آکر مشرف بااسلام ہوگئے تو ان کو کفار کی طرف سے تکلیف پہنچائی گئی اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔- اور قتادہ (رض) سے روایت کیا ہے فرماتے ہیں کہ ہم یہ ذکر کیا کرتے تھے کہ یہ آیت اہل کتاب کے کچھ حضرات کے بارے میں نازل ہوئی ہے جو رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت تک حق پر قائم تھے پھر آپ پر ایمان لائے جن میں سے عثمان اور عبداللہ بن سلام ہیں۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٥٢ (اَلَّذِیْنَ اٰتَیْنٰہُمُ الْکِتٰبَ مِنْ قَبْلِہٖ ہُمْ بِہٖ یُؤْمِنُوْنَ ) ” - یعنی اہل کتاب میں ایسے لوگ موجود ہیں جو دل سے مانتے ہیں کہ قرآن اللہ کا کلام ہے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة القصص حاشیہ نمبر : 72 اس سے یہ مراد نہیں ہے کہ تمام اہل کتاب ( یہودی اور عیسائی ) اس پر ایمان لاتے ہیں ، بلکہ یہ اشارہ دراصل اس واقعہ کی طرف ہے جو اس سورہ کے نزول کے زمانہ میں پیش آیا تھا ، اور اس سے اہل مکہ کو شرم دلانی مقصود ہے کہ تم اپنے گھر آئی ہوئی نعمت کو ٹھکرا رہے ہو حالانکہ دور دور کے لوگ اس کی خبر سن کر آرہے ہیں اور اس کی قدر پہچان کر اس سے فائدہ اٹھا رہے ہیں ۔ اس واقعہ کو ابن ہشام اور بیہقی وغیرہ نے محمد بن اسحاق کے حوالہ سے اس طرح روایت کیا ہے کہ ہجرت حبشہ کے جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت اور دعوت کی خبریں حبش کے ملک میں پھیلیں تو وہاں سے 20 کے قریب عیسائیوں کا ایک وفد تحقیق حال کے لیے مکہ معظمہ آیا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے مسجد حرام میں ملا ۔ قریش کے بہت سے لوگ بھی یہ ماجرا دیکھ کر گردو پیش کھڑے ہوگئے ۔ وفد کے لوگوں نے حضور سے کچھ سوالات کیے جن کا آپ نے جواب دیا ، پھر آپ نے ان کو اسلام کی طرف دعوت دی اور قرآن مجید کی آیات ان کے سامنے پڑھیں ۔ قرآن سن کر ان کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے اور انہوں نے اس کے کلام اللہ ہونے کی تصدیق کی اور حضور پر ایمان لے آئے ، جب مجلس برخاست ہوئی تو ابوجہل اور اس کے چند ساتھیوں نے ان لوگوں کو راستہ میں جالیا اور انہیں سخت ملامت کی کہ بڑے نامراد ہو تم لوگ ، تمہارے ہم مذہب لوگوں نے تم کو اس لیے بھیجا تھا کہ تم شخص کے حالات کی تحقیق کر کے آؤ اور انہیں ٹھیک ٹھیک خبردو ، مگر تم ابھی اس کے پاس بیٹھے ہی تھے کہ اپنا دین چھوڑ کر اس پر ایمان لے آئے ۔ تم سے زیاہ احمق گروہ تو کبھی ہماری نظر سے نہیں ۔ اس پر انہوں نے جواب دیا کہ سلام ہے بھائیو تم کو ، ہم تمہارے ساتھ جہالت بازی نہیں کرسکتے ، ہمیں ہمارے طریقے پر چلنے دو اور تم اپنے طریقے پر چلتے رہو ، ۔ ہم اپنے آپ کو جان بوجھ کر بھلائی سے محروم نہیں رکھ سکتے ۔ ( سیرت ابن ہشام ج 2 ، ص 32 ۔ البدایہ والنہایہ ، ج 3 ، ص 82 ) مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد سوم ، الشعراء ، حاشیہ 123 ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

29: یہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور قرآن کریم کی سچائی کی ایک اور دلیل ہے اور وہ یہ کہ جن لوگوں کو پہلے آسمانی کتابیں دی جا چکی ہیں، یعنی یہودی اور عیسائی ان میں سے جو لوگ حق کے طالب تھے، وہ اس پر ایمان لے آئے ہیں، اور انہوں نے اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تشریف آوری اور قرآن کریم کے نزول کی بشارت پچھلی کتابوں میں موجود ہے، اس لیے وہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تشریف آوری سے پہلے ہی آپ کو اور قرآن کریم کو مانتے تھے۔