Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

531یہ اسی حقیقت کی طرف اشارہ ہے جسے قرآن کریم میں کئی جگہ بیان کیا گیا ہے کہ ہر دور میں اللہ کے پیغمبروں نے جس دین کی دعوت دی، وہ اسلام ہی تھا اور ان نبیوں کی دعوت پر ایمان لانے والے مسلمان ہی کہلاتے تھے۔ یہود یا نصاری وغیرہ کی اصطلاحیں لوگوں کی اپنی خود ساختہ ہیں جو بعد میں ایجاد ہوئیں۔ اسی اعتبار سے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لانے والے اہل کتاب (یہود یا عیسائیوں) نے کہا کہ ہم تو پہلے سے ہی مسلمان چلے آ رہے ہیں۔ یعنی سابقہ انبیاء کے پیروکار اور ان پر ایمان رکھنے والے ہیں۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٧١] اس لئے کہ تورات اور قرآن کی بنیادی تعلیمات آپس میں ملتی جلتی ہیں۔ اور جن لوگوں کے دلوں میں تعصب نہ ہو نہ ہی ان کے ذاتی مفادات قبول حق کی راہ میں ان کے آڑے آئیں وہ فوراً سمجھ جاتے ہیں کہ یہ قرآن بھی اللہ کی طرف ہی نازل شدہ کتاب ہے۔ پھر اس پر ایمان لے آتے ہیں۔ اور حقیقت تو یہ کہ وہ پہلے ہی مسلمان تھے۔ اور اب بھی مسلمان ہی رہے۔ کیونکہ اسلام تو دل و جان سے اللہ کی فرمانبرداری کا نام ہے اور وہ ان میں پہلے ہی موجود تھی قرآن میں اس حقیقت کی متعدد مقامات پر صراحت کردی گئی ہے کہ اللہ کے نزدیک قابل قبول دین اسلام یعنی دل و جان سے اللہ کی فرمانبرداری ہی ہے۔ رہا مسئلہ کسی دین کو اس کے پیغمبر کے نام سے منسوب کرنے کا۔ جیسے یہودیت، نصرانیت اور محمدیت وغیرہ تو یہ زمانہ مابعد کی ایجادات ہیں۔ جو لوگوں نے خود ہی رکھ لئے۔ اللہ نے نہیں رکھے تھے۔ ہر نبی پر ایمان لانے والوں کا نام اللہ نے مسلمان ہی رکھا ہے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَاِذَا يُتْلٰى عَلَيْهِمْ قَالُوْٓا اٰمَنَّا بِهٖٓ : یعنی جب ان کے سامنے قرآن کی تلاوت ہوتی ہے تو وہ کہتے ہیں، ہم اس پر ایمان لے آئے۔- اِنَّهُ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّنَآ : ”إِنَّ “ علت بیان کرنے کے لیے ہوتا ہے، مطلب یہ کہ ہم اس پر ایمان لے آئے، کیونکہ یہ ہمارے رب کی طرف سے حق ہے۔- اِنَّا كُنَّا مِنْ قَبْلِهٖ مُسْلِمِيْنَ : یہ بھی ایمان لانے کی ایک علت ہے، یعنی ہم سنتے ہی اس پر اس لیے ایمان لے آئے کہ ہم اس سے پہلے ہی مسلم تھے۔ تورات و انجیل کی بنیادی تعلیم وہی تھی جو قرآن کی ہے، جب ہم نے دیکھا کہ یہ تو وہی ہے تو ہم اس پر ایمان لے آئے۔ اس سے معلوم ہوا کہ پہلی امتوں کا دین اسلام تھا اور وہ بھی مسلم تھے، جیسا کہ فرمایا : (مِلَّـةَ اَبِيْكُمْ اِبْرٰهِيْمَ ۭهُوَ سَمّٰىكُمُ الْمُسْلِـمِيْنَ ڏ مِنْ قَبْلُ وَفِيْ ھٰذَا ) [ الحج : ٧٨ ] ” اپنے باپ ابراہیم کی ملت کے مطابق، اسی نے تمہارا نام مسلمین رکھا، اس سے پہلے اور اس (کتاب) میں بھی۔ “ یہ کہنا کہ ” مسلمین “ صرف امت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا نام ہے، درست نہیں۔ ” اِنَّا كُنَّا مِنْ قَبْلِهٖ مُسْلِمِيْنَ “ کا معنی یہ بھی ہے کہ تورات و انجیل میں اس نبی اور اس کتاب کی پیش گوئیاں پڑھ کر ہم تو اس سے پہلے ہی اس پر ایمان رکھتے تھے اور دل و جان سے مسلم یعنی اس کے تابع فرمان تھے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

لفظ مسلمین امت محمدیہ کا مخصوص لقب ہے یا تمام امتوں کے لئے عام ہے :- اِنَّا كُنَّا مِنْ قَبْلِهٖ مُسْلِمِيْنَ ، یعنی ان حضرات اہل کتاب نے کہا کہ ہم تو قرآن کے نازل ہونے سے پہلے ہی مسلمان تھے یہاں لفظ مسلم اگر اپنے لغوی معنے میں لیا جائے یعنی مطیع و فرمانبردار تو بات صاف ہے کہ ان کو جو یقین قرآن اور نبی آخر الزماں پر اپنی کتابوں کی وجہ سے حاصل تھا اس یقین کو لفظ اسلام اور مسلمین سے تعبیر فرمایا کہ ہم تو پہلے ہی سے اس کو مانتے تھے اور اگر لفظ مسلمین اس جگہ اس معنے میں لیا جائے جس کے لحاظ سے امت محمدیہ کا لقب مسلمین ہے تو اس سے یہ ثابت ہوگا کہ اسلام اور مسلمین کا لفظ صرف امت محمدیہ کے لئے مخصوص نہیں بلکہ تمام انبیاء (علیہم السلام) کا دین اسلام ہی تھا اور وہ سب مسلمین ہی تھے مگر قرآن کریم کی بعض آیات سے اسلام اور مسلمین کا اس وقت کے لئے مخصوص لقب ہونا معلوم ہوتا ہے جیسا کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا قول خود قرآن نے نقل کیا ہے هُوَ سَمّٰىكُمُ الْمُسْلِـمِيْنَ اور علامہ سیوطی اسی خصوصیت کے قائل ہیں اور اس مضمون پر ان کا ایک مستقل رسالہ ہے، ان کے نزدیک اس آیت میں مسلمین سے مراد یہ ہے کہ ہم تو پہلے ہی سے اسلام کو قبول کرنے کے لئے آمادہ اور تیار تھے اور اگر غور کیا جائے تو ان دونوں میں کوئی تعارض نہیں کہ اسلام تمام انبیاء (علیہم السلام) کے دین کا مشترک نام بھی ہو اور اس امت کے لئے مخصوص لقب بھی کیونکہ یہ ہوسکتا ہے کہ اسلام اپنے معنی وصفی کے اعتبار سے سب میں مشترک ہو مگر مسلم کا لقب صرف اس امت کے لئے مخصوص ہو جیسے صدیق اور فاروق وغیرہ کے القاب ہیں جن کا مصداق خاص اس امت میں ابوبکر و عمر (رض) ہیں، حالانکہ اپنے معنے وصفی کے اعتبار سے دوسرے حضرات بھی صدیق اور فاروق ہو سکتے ہیں۔ (ہذا ما سخ لی واللہ اعلم)

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَاِذَا يُتْلٰى عَلَيْہِمْ قَالُوْٓا اٰمَنَّا بِہٖٓ اِنَّہُ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّنَآ اِنَّا كُنَّا مِنْ قَبْلِہٖ مُسْلِـمِيْنَ۝ ٥٣- تلو - تَلَاهُ : تبعه متابعة ليس بينهم ما ليس منها، وذلک يكون تارة بالجسم وتارة بالاقتداء في الحکم، ومصدره : تُلُوٌّ وتُلْوٌ ، وتارة بالقراءة وتدبّر المعنی، ومصدره : تِلَاوَة وَالْقَمَرِ إِذا تَلاها [ الشمس 2] - ( ت ل و ) تلاہ ( ن )- کے معنی کسی کے پیچھے پیچھے اس طرح چلنا کے ہیں کہ ان کے درمیان کوئی اجنبی کو چیز حائل نہ ہو یہ کہیں تو جسمانی طور ہوتا ہے اور کہیں اس کے احکام کا اتباع کرنے سے اس معنی میں اس کا مصدر تلو اور تلو آتا ہے اور کبھی یہ متا بعت کسی کتاب کی قراءت ( پڑھنے ) ۔ اور اس کے معانی سمجھنے کے لئے غور وفکر کرنے کی صورت میں ہوتی ہے اس معنی کے لئے اس کا مصدر تلاوۃ آتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَالْقَمَرِ إِذا تَلاها [ الشمس 2] اور چاند کی قسم جب وہ سورج کا اتباع کرتا ہے ۔ - أیمان - يستعمل اسما للشریعة التي جاء بها محمّد عليه الصلاة والسلام، وعلی ذلك : الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة 69] ، ويوصف به كلّ من دخل في شریعته مقرّا بالله وبنبوته . قيل : وعلی هذا قال تعالی: وَما يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ [يوسف 106] .- وتارة يستعمل علی سبیل المدح، ويراد به إذعان النفس للحق علی سبیل التصدیق، وذلک باجتماع ثلاثة أشياء : تحقیق بالقلب، وإقرار باللسان، وعمل بحسب ذلک بالجوارح، وعلی هذا قوله تعالی: وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ أُولئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ [ الحدید 19] .- ( ا م ن ) - الایمان - کے ایک معنی شریعت محمدی کے آتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ :۔ وَالَّذِينَ هَادُوا وَالنَّصَارَى وَالصَّابِئِينَ ( سورة البقرة 62) اور جو لوگ مسلمان ہیں یا یہودی یا عیسائی یا ستارہ پرست۔ اور ایمان کے ساتھ ہر وہ شخص متصف ہوسکتا ہے جو تو حید کا اقرار کر کے شریعت محمدی میں داخل ہوجائے اور بعض نے آیت وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ ( سورة يوسف 106) ۔ اور ان میں سے اکثر خدا پر ایمان نہیں رکھتے مگر ( اس کے ساتھ ) شرک کرتے ہیں (12 ۔ 102) کو بھی اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔ - حقَ- أصل الحَقّ : المطابقة والموافقة، کمطابقة رجل الباب في حقّه لدورانه علی استقامة .- والحقّ يقال علی أوجه :- الأول :- يقال لموجد الشیء بسبب ما تقتضيه الحکمة، ولهذا قيل في اللہ تعالی: هو الحقّ قال اللہ تعالی: وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ وقیل بعید ذلک : فَذلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُمُ الْحَقُّ فَماذا بَعْدَ الْحَقِّ إِلَّا الضَّلالُ فَأَنَّى تُصْرَفُونَ [يونس 32] .- والثاني :- يقال للموجد بحسب مقتضی الحکمة، ولهذا يقال : فعل اللہ تعالیٰ كلّه حق، نحو قولنا : الموت حق، والبعث حق، وقال تعالی: هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس 5] ،- والثالث :- في الاعتقاد للشیء المطابق لما عليه ذلک الشیء في نفسه، کقولنا : اعتقاد فلان في البعث والثواب والعقاب والجنّة والنّار حقّ ، قال اللہ تعالی: فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة 213] .- والرابع :- للفعل والقول بحسب ما يجب وبقدر ما يجب، وفي الوقت الذي يجب، کقولنا :- فعلک حقّ وقولک حقّ ، قال تعالی: كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس 33] - ( ح ق ق) الحق ( حق )- کے اصل معنی مطابقت اور موافقت کے ہیں ۔ جیسا کہ دروازے کی چول اپنے گڑھے میں اس طرح فٹ آجاتی ہے کہ وہ استقامت کے ساتھ اس میں گھومتی رہتی ہے اور - لفظ ، ، حق ، ، کئی طرح پر استعمال ہوتا ہے - ۔ (1) وہ ذات جو حکمت کے تقاضوں کے مطابق اشیاء کو ایجاد کرے - ۔ اسی معنی میں باری تعالیٰ پر حق کا لفظ بولا جاتا ہے چناچہ قرآن میں ہے :۔ وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ پھر قیامت کے دن تمام لوگ اپنے مالک برحق خدا تعالیٰ کے پاس واپس بلائیں جائنیگے ۔ - (2) ہر وہ چیز جو مقتضائے حکمت کے مطابق پیدا کی گئی ہو - ۔ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ہر فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس 5] وہی تو ہے جس نے سورج کو روشن اور چاند کو منور بنایا اور اس کی منزلیں مقرر کیں ۔۔۔ یہ پ ( سب کچھ ) خدا نے تدبیر سے پیدا کیا ہے ۔- (3) کسی چیز کے بارے میں اسی طرح کا اعتقاد رکھنا - جیسا کہ وہ نفس واقع میں ہے چناچہ ہم کہتے ہیں ۔ کہ بعث ثواب و عقاب اور جنت دوزخ کے متعلق فلاں کا اعتقاد حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔۔ فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة 213] تو جس امر حق میں وہ اختلاف کرتے تھے خدا نے اپنی مہربانی سے مومنوں کو اس کی راہ دکھادی - ۔ (4) وہ قول یا عمل جو اسی طرح واقع ہو جسطرح پر کہ اس کا ہونا ضروری ہے - اور اسی مقدار اور اسی وقت میں ہو جس مقدار میں اور جس وقت اس کا ہونا واجب ہے چناچہ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے ۔ کہ تمہاری بات یا تمہارا فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس 33] اسی طرح خدا کا ارشاد ۔۔۔۔ ثابت ہو کر رہا ۔- سلم - والْإِسْلَامُ : الدّخول في السّلم، وهو أن يسلم کلّ واحد منهما أن يناله من ألم صاحبه، ومصدر أسلمت الشیء إلى فلان : إذا أخرجته إليه، ومنه : السَّلَمُ في البیع . - والْإِسْلَامُ في الشّرع علی ضربین :- أحدهما : دون الإيمان،- وهو الاعتراف باللسان، وبه يحقن الدّم، حصل معه الاعتقاد أو لم يحصل، وإيّاه قصد بقوله : قالَتِ الْأَعْرابُ آمَنَّا قُلْ لَمْ تُؤْمِنُوا وَلكِنْ قُولُوا أَسْلَمْنا[ الحجرات 14] .- والثاني : فوق الإيمان،- وهو أن يكون مع الاعتراف اعتقاد بالقلب، ووفاء بالفعل، واستسلام لله في جمیع ما قضی وقدّر، كما ذکر عن إبراهيم عليه السلام في قوله : إِذْ قالَ لَهُ رَبُّهُ أَسْلِمْ قالَ أَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعالَمِينَ [ البقرة 131] ،- ( س ل م ) السلم والسلامۃ - الاسلام اس کے اصل معنی سلم ) صلح) میں داخل ہونے کے ہیں اور صلح کے معنی یہ ہیں کہ فریقین باہم ایک دوسرے کی طرف سے تکلیف پہنچنے سے بےخوف ہوجائیں ۔ اور یہ اسلمت الشئی الی ٰفلان ( باب افعال) کا مصدر ہے اور اسی سے بیع سلم ہے ۔ - شرعا اسلام کی دوقسمیں ہیں - کوئی انسان محض زبان سے اسلام کا اقرار کرے دل سے معتقد ہو یا نہ ہو اس سے انسان کا جان ومال اور عزت محفوظ ہوجاتی ہے مگر اس کا درجہ ایمان سے کم ہے اور آیت : ۔ قالَتِ الْأَعْرابُ آمَنَّا قُلْ لَمْ تُؤْمِنُوا وَلكِنْ قُولُوا أَسْلَمْنا[ الحجرات 14] دیہاتی کہتے ہیں کہ ہم ایمان لے آئے کہدو کہ تم ایمان نہیں لائے ( بلکہ یوں ) کہو اسلام لائے ہیں ۔ میں اسلمنا سے یہی معنی مراد ہیں ۔ دوسرا درجہ اسلام کا وہ ہے جو ایمان سے بھی بڑھ کر ہے اور وہ یہ ہے کہ زبان کے اعتراف کے ساتھ ساتھ ولی اعتقاد بھی ہو اور عملا اس کے تقاضوں کو پورا کرے ۔ مزید پر آں کو ہر طرح سے قضا وقدر الہیٰ کے سامنے سر تسلیم خم کردے ۔ جیسا کہ آیت : ۔ إِذْ قالَ لَهُ رَبُّهُ أَسْلِمْ قالَ أَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعالَمِينَ [ البقرة 131] جب ان سے ان کے پروردگار نے فرمایا ۔ کہ اسلام لے آؤ تو انہوں نے عرض کی کہ میں رب العالمین کے آگے سرا طاعت خم کرتا ہوں ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٥٣) اور جب ان حضرات کے سامنے قرآن کریم رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اوصاف وصفات کے ساتھ پڑھا جاتا ہے تو کہتے ہیں کہ ہم رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور قرآن کریم پر ایمان لائے بیشک یہ حق ہے اور ہم تو قرآن حکیم کے آنے سے پہلے ہی رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور قرآن کریم کو مانتے تھے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

(اِنَّہُ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّنَآ اِنَّا کُنَّا مِنْ قَبْلِہٖ مُسْلِمِیْنَ ) ” - یعنی اس سے پہلے بھی ہم انبیاء و رسل ( علیہ السلام) اور آسمانی کتب کے ماننے والے تھے اور اب محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ کتاب لے کر آئے ہیں تو اس کو بھی ہم نے مان لیا ہے۔ لہٰذا ہمارے دین میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی۔ ہم پہلے بھی مسلمان تھے اور اب بھی مسلمان ہیں۔ تورات اور انجیل کی پیشین گوئیوں کی بنا پر ہم پہلے ہی تسلیم کرچکے تھے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کے رسول ہیں اور یہ قرآن اللہ کا کلام ہے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة القصص حاشیہ نمبر : 73 یعنی اس سے پہلے بھی ہم انبیاء اور کتب آسمانی کے ماننے والے تھے ، اس لیے اسلام کے سوا ہمارا کوئی اور دین نہ تھا ، اور اب جو نبی اللہ تعالی کی طرف سے کتاب لے کر آیا ہے اسے بھی ہم نے مان لیا ہے ، لہذا درحقیقت ہمارے دین میں کوئٰ تبدیلی نہیں ہوئی ہے بلکہ جیسے ہم پہلے مسلمان تھے ویسے ہی اب بھی مسلمان ہیں ۔ یہ قول اس بات کی صاف صراحت کردیتا ہے کہ اسلام صرف اس دین کا نام نہیں ہے جسے محمد صلی اللہ علیہ وسلم لے کر آئے ہیں ، اور مسلم کی اصطلاح کا اطلاق محض حضور کے پیرووں تک محدود نہیں ہے ، بلکہ ہمیشہ سے تمام انبیاء کا دین یہی اسلام تھا اور ہر زمانہ میں ان سب کے پیرو مسلمان ہی تھے ۔ یہ مسلمان اگر کبھی کافر ہوئے تو صرف اس وقت جبکہ کسی بعد کے آنے والے نبی صادق کو ماننے سے انہوں نے انکار کیا ، لیکن جو لوگ پہلے نبی کو مانتے تھے اور بعد کے آنے والے نبی پر بھی ایمان لے آئے ان کے اسلام میں کوئی انقطاع نہیں ہوا ۔ وہ جیسے مسلمان پہلے تھے ویسے ہی بعد میں رہے ۔ تعجب ہے کہ بعض بڑے بڑے اہل علم بھی اس حقیقت کے ادراک سے عاجز رہ گئے ہیں ، حتی کہ اس صریح آیت کو دیکھ کر بھی ان کا اطمینان نہ ہوا ۔ علامہ سیوطی نے ایک مفصل رسالہ اس موضوع پر لکھا کہ مسلم کی اصطلاح صرف امت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے مختص ہے ۔ پھر جب یہ آیت سامنے آئی تو خود فرماتے ہیں کہ میرے ہاتھوں کے طوطے اڑ گئے ، لیکن کہتے ہیں کہ میں نے پھر خدا سے دعا کی کہ اس معاملہ میں مجھے شرح صدر عطا کردے ۔ آخر کار اپنی رائے سے رجوع کرنے کے بجائے انہوں نے اس پر اصرار کیا اور اس آیت کی متعدد تاویلیں کر ڈالیں جو ایک سے ایک بڑھ کر بے وزن ہیں ۔ مثلا ان کی ایک تاویل یہ ہے کہ اِنَّا كُنَّا مِنْ قَبْلِهٖ مُسْلِمِيْنَ ۔ کے معنی ہیں ہم قرآن کے آنے سے پہلے ہی مسلم بن جانے کا عزم رکھتے تھے کیونکہ ہمیں اپنی کتابوں سے اس کے آنے کی خبر مل چکی تھی اور ہمارا ارادہ یہ تھا کہ جب وہ آئے گا تو ہم اسلام قبول کرلیں گے ۔ دوسری تاویل یہ ہے کہ اس فقرے میں مُسْلِمِيْنَ کے بعد لفظ بِہٖ محذوف ہے ، یعنی پہلے ہی سے ہم قرآن کو مانتے تھے کیونکہ اس کے آنے کی ہم توقع رکھتے تھے اور اس پر پیشگی ایمان لائے ہوئے تھے ، اس لیے توراۃ و انجیل کو ماننے کی بنا پر نہیں بلکہ قرآن کو اس کے زول سے پہلے برحق مان لینے کی بنا پر ہم مسلم تھے ۔ تیسری تاویل یہ ہے کہ تقدیر الہی میں ہمارے لیے پہلے ہی مقدر ہوچکا تھا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن کی آمد پر ہم اسلام قبول کرلیں گے اس لیے درحقیقت ہم پہلے ہی سے مسلم تھے ۔ ان تاویلوں میں سے کسی کو دیکھ کر بھی یہ محسوس نہیں ہوتا کہ اللہ کے عطا کردہ شرح صدر کا اس میں کوئی اثر موجود ہے ۔ واقعہ یہ ہے کہ قرآن صرف اسی ایک مقام پر نہیں بلکہ بیسیوں مقامات پر اس اصولی حقیقت کو بیان کرتا ہے کہ اصل دین صرف اسلام ( اللہ کی فرمانبرداری ) ہے ، اور خدا کی کائنات میں خدا کی مخلوق کے لیے اس کے سوا کوئی دوسرا دین ہو نہیں سکتا ، اور آغاز آفرینش سے جو نبی بھی انسانوں کی ہدایت کے لیے آیا ہے وہ یہی دین لے کر آیا ہے ، اور یہ کہ انبیاء علیہم السلام ہمیشہ خوش مسلم رہے ہیں ، اپنے پیرووں کو انہوں نے مسلم ہی بن کر رہنے کی تاکید ہے اور ان کے وہ سب متبعین جنہوں نے نبوت کے ذریعہ سے آئے ہوئے فرمان خداوندی کے آگے سرتسلیم خم کیا ، ہر زمانے میں مسلم ہی تھے ۔ اس سلسلہ میں مثال کے طور پر صرف چند آیات ملاحظہ ہوں ۔ اِنَّ الدِّيْنَ عِنْدَ اللّٰهِ الْاِسْلَامُ ( آل عمران ، آیت 19 ) درحقیقت اللہ کے نزدیک تو دین صرف اسلام ہے ۔ وَمَنْ يَّبْتَـغِ غَيْرَ الْاِسْلَامِ دِيْنًا فَلَنْ يُّقْبَلَ مِنْهُ ( آل عمران ، آیت 85 ) اور جو کوئی اسلام کے سوا کوئی اور دین اختیار کرے وہ ہرگز قبول نہ کیا جائے گا ۔ حضرت نوح علیہ السلام فرماتے ہیں: اِنْ اَجْرِيَ اِلَّا عَلَي اللّٰهِ ۙ وَاُمِرْتُ اَنْ اَكُوْنَ مِنَ الْمُسْلِمِيْنَ ( یونس ، آیت 72 ) میرا اجر تو اللہ کے ذمہ ہے اور مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں مسلموں میں شامل ہوکر رہوں ۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام اور ان کی اولاد کے متعلق ارشاد ہوتا ہے ۔ اِذْ قَالَ لَهٗ رَبُّهٗٓ اَسْلِمْ ۙ قَالَ اَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعٰلَمِيْنَ ۔ وَوَصّٰى بِهَآ اِبْرٰھٖمُ بَنِيْهِ وَيَعْقُوْبُ ۭيٰبَنِىَّ اِنَّ اللّٰهَ اصْطَفٰى لَكُمُ الدِّيْنَ فَلَا تَمُوْتُنَّ اِلَّا وَاَنْتُمْ مُّسْلِمُوْنَ ۔ اَمْ كُنْتُمْ شُهَدَاۗءَ اِذْ حَضَرَ يَعْقُوْبَ الْمَوْتُ ۙ اِذْ قَالَ لِبَنِيْهِ مَا تَعْبُدُوْنَ مِنْۢ بَعْدِيْ ۭ قَالُوْا نَعْبُدُ اِلٰهَكَ وَاِلٰهَ اٰبَاۗىِٕكَ اِبْرٰھٖمَ وَاِسْمٰعِيْلَ وَاِسْحٰقَ اِلٰــهًا وَّاحِدًا ښ وَّنَحْنُ لَهٗ مُسْلِمُوْنَ ۔ ( البقرہ ، آیت 131 تا 133 ) جبکہ اس کے رب نے اس سے کہا کہ مسلم ( تابع فرمان ) ہوجا ، تو اس نے کہا میں مسلم ہوگیا رب العالمین کے لیے ، اور اسی چیز کی وصیت کی ابراہم نے اپنی اولاد کو اور یعقوب نے بھی کہ اے میرے بچو اللہ نے تمہارے لیے اس دین کو پسند کیا ہے لہذا تم کو موت نہ آئے مگر اس حال میں کہ تم مسلم ہو ، کیا تم اس وقت موجود تھے جب یعقوب کی وفات کا وقت آیا ؟ جبکہ اس نے اپنی اولاد سے پوچھا کس کی بندگی کرو گے تم میرے بعد؟ انہوں نے جواب دیا ہم بندگی کریں گے آپ کے معبود اور آپ کے باپ دادا ابراہیم اور اسماعیل اور اسحاق کے معبود کی ، اس کو اکیلا معبود مان کر اور ہم اسی کے مسلم ہیں ۔ مَا كَانَ اِبْرٰهِيْمُ يَهُوْدِيًّا وَّلَا نَصْرَانِيًّا وَّلٰكِنْ كَانَ حَنِيْفًا مُّسْلِمًا ۔ ( آل عمران ، آیت 67 ) ابراہیم نہ یہودی تھا نہ نصرانی ، بلکہ وہ یکسو مسلم تھا ۔ حضرت ابراہیم و اسماعیل خود دعا مانگتے ہیں: رَبَّنَا وَاجْعَلْنَا مُسْلِمَيْنِ لَكَ وَمِنْ ذُرِّيَّتِنَآ اُمَّةً مُّسْلِمَةً لَّكَ ۔ ( البقرہ ، آیت 128 ) اے ہمارے رب ہم کو اپنا مسلم بنا اور ہماری نسل سے ایک امت پیدا کر جو تیری مسلم ہو ۔ حضرت لوط کے قصے میں ارشاد ہوتا ہے: فَمَا وَجَدْنَا فِيْهَا غَيْرَ بَيْتٍ مِّنَ الْمُسْلِمِيْنَ ۔ ( الذاریات ، آیت 36 ) ہم نے قوم لوط کی بستی میں ایک گھر کے سوا مسلمانوں کا کوئی گھر نہ پایا حضرت یوسف بارگاہ رب العزت میں عرض کرتے ہیں: تَوَفَّنِيْ مُسْلِمًا وَّاَلْحِقْنِيْ بِالصّٰلِحِيْنَ ۔ ( یوسف ، آیت 101 ) مجھ کو مسلم ہونے کی حالت میں موت دے اور صالحوں کے ساتھ بلا ۔ حضرت موسی علیہ السلام اپنی قوم سے کہتے ہیں: يٰقَوْمِ اِنْ كُنْتُمْ اٰمَنْتُمْ بِاللّٰهِ فَعَلَيْهِ تَوَكَّلُوْٓا اِنْ كُنْتُمْ مُّسْلِمِيْنَ ۔ ( یونس ، آیت 84 ) اے میری قوم کے لوگو ، اگر تم اللہ پر ایمان لائے ہو تو اسی پر بھروسہ کر اگر تم مسلم ہو ۔ بنی اسرائیل کا اصل مذہب یہودیت نہیں بلکہ اسلام تھا ، اس بات کو دوست اور دشمن سب جانتے تھے ، چنانچہ فرعون سمندر میں ڈوبتے وقت آخری کلمہ جو کہتا ہے وہ یہ ہے ۔ اٰمَنْتُ اَنَّهٗ لَآ اِلٰهَ اِلَّا الَّذِيْٓ اٰمَنَتْ بِهٖ بَنُوْٓ اِسْرَاۗءِيْلَ وَاَنَا مِنَ الْمُسْلِمِيْنَ ۔ ( یونس ، آیت 90 ) میں مان گیا کہ کوئی معبود اس کے سوا نہیں ہے جس پر بنی اسرائیل ایمان لائے ہیں اور میں مسلموں میں سے ہوں ۔ تمام انبیاء بنی اسرائیل کا دین بھی یہی اسلام تھا: اِنَّآ اَنْزَلْنَا التَّوْرٰىةَ فِيْهَا هُدًى وَّنُوْرٌ ۚ يَحْكُمُ بِهَا النَّبِيُّوْنَ الَّذِيْنَ اَسْلَمُوْا لِلَّذِيْنَ هَادُوْا ۔ ( المائدہ ، آیت 44 ) ہم نے توراۃ نازل کی جس میں ہدایت اور روشنی تھی اسی کے مطابق وہ نبی جو مسلم تھے ان لوگوں کے معاملات کے فیصلے رکتے تھے جو یہودی ہوگئے تھے ۔ یہی حضرت سلیمان علیہ السلام کا دین تھا ، چنانچہ ملکہ سبا ان پر ایمان لاتے ہوئے کہتی ہے: اَسْلَمْتُ مَعَ سُلَيْمٰنَ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ ۔ ( النمل ، آیت 44 ) میں سلیمان کے ساتھ رب العالمین کی مسلم ہوگئی ۔ اور یہی حضرت عیسی علیہ السلام اور ان کے حواریوں کا دین تھا: وَاِذْ اَوْحَيْتُ اِلَى الْحَوَارِيّٖنَ اَنْ اٰمِنُوْا بِيْ وَبِرَسُوْلِيْ ۚ قَالُوْٓا اٰمَنَّا وَاشْهَدْ بِاَنَّنَا مُسْلِمُوْنَ ۔ ( المائدہ ، آیت 111 ) اور جبکہ میں نے حواریوں پر وحی کی کہ ایمان لاؤ مجھ پر اور میرے رسول پر تو انہوں نے کہا ہم ایمان لائے اور گواہ رہ کہ ہم مسلم ہیں اس معاملہ میں اگر کوئی شک اس بنا پر کیا جائے کہ عربی زبان کے الفاظ اسلام اور مسلم ان مختلف ملکوں اور مختلف زبانوں میں کیسے مستعمل ہوسکتے تھے ، تو ظاہر ہے کہ یہ محض ایک نادانی کی بات ہوگی ۔ کیونکہ اصل اعتبار عربی کے ان الفاظ کا نہیں بلکہ اس معنی کا ہے جس کے لیے یہ الفاظ عربی میں مستعمل ہوتے ہیں ۔ دراصل جو بات ان آیات میں بتا٤ی گئی ہے وہ یہ ہے کہ خدا کی طرف سے آیا ہوا حقیقی دین مسیحیت یا موسویت یا محمدیت نہیں ہے بلکہ انبیاء اور کتب آسمانی کے ذریعہ سے آئے ہوئے فرمان خداوندی کے آگے سر اطاعت جھکا دینا ہے اور یہ رویہ جہاں جس بندہ خدا نے بھی جس زمانے میں اختیار کیا ہے وہ ایک ہی عالمگیر ازلی و ابدی دین حق کا متبع ہے ۔ اس دین کو جن لوگوں نے ٹھیک ٹھیک شعور اور اخلاص کے ساتھ اختیار کیا ہے ان کے لیے موسی کے بعد مسیح کو اور مسیح کے بعد محمد صلی اللہ علیہ وسلم وعلیہم اجمعین کو ماننا تبدیل مذہب نہیں بلکہ حقیقی دین کے اتباع کا فطری و منقطی تقاضا ہے ۔ بخلاف اس کے جو لوگ انبیاء علیہم السلام کے گروہوں میں بے سوچے سمجھے گھس آئے یا پیدا ہوگئے اور قومی و نسلی اور گروہی تعصبات نے جن کے لیے اصل مذہب کی حیثیت اختیار کرلی ، وہ بس یہودی یا مسیحی بن کر رہ گئے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے آنے پر ان کی جہالت کی قلعی کھل گئی ، کیونکہ انہوں نے اللہ کے اکری نبی کا انکار کر کے نہ صرف یہ کہ آئندہ کے لیے مسلم رہنا قبول نہ کیا ، بلکہ اپنی اس حرکت سے یہ ثابت کردیا کہ حقیقت میں وہ پہلے بھی مسلم نہ تھے ، محض ایک نبی یا بعض انبیاء کی شخصی گرویدگی میں مبتلا تھے یا آباؤ اجداد کی اندھی تقلید کو دین بنائے بیٹھے تھے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani