5 4 1صبر سے مراد ہر قسم کے حالات میں انبیاء اور کتاب الہی پر ایمان اور اس پر ثابت قدمی سے قائم رہنا ہے۔ پہلی کتاب آئی تو اس پر، اس کے بعد دوسری پر ایمان رکھا۔ پہلے نبی پر ایمان لائے، اس کے بعد دوسرا نبی آگیا تو اس پر ایمان لائے۔ ان کے لئے دوہرا اجر ہے، حدیث میں بھی ان کی یہ فضیلت بیان کی گئی ہے۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا، تین آدمیوں کے لئے دوہرا اجر ہے، ان میں ایک وہ اہل کتاب ہے جو اپنے نبی پر ایمان رکھتا تھا اور پھر مجھ پر ایمان لے آیا۔ 5 4 2یعنی برائی کا جواب برائی سے نہیں دیتے، بلکہ معاف کردیتے ہیں اور درگزر سے کام لیتے ہیں۔
[٧٢] ثابت قدمی سے مراد ایک تو وہ استقلال ہے جو قبول حق کے راستے میں رکاوٹ نہیں بنتا۔ ان کے دلوں میں اللہ کی فرمانبرداری کا جو مستقل جذبہ موجود تھا۔ اسی نے اسے اس نبی پر ایمان لانے کی ترغیب دی اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ مذہب تبدیل کرنے میں اور پھر کسی دین کو ابتداًء قبول کرتے وقت ان مسلمانوں کو طرح طرح کی مشکلات اور مصائب کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ایسے مصائب کو بھی انہوں نے صبر و استقلال کے ساتھ برداشت کیا۔ ایسے لوگوں کے لئے دوہرا اجر ہے ایک پہلے نبی کی کتاب پر لانے کا اور ایک دوسرے نبی اور اس کی کتاب پر لانے کا۔ چناچہ حضرت ابو موسیٰ اشعری فرماتے ہیں کہ رسول اللہ نے تین طرح کے آدمیوں کا ذکر کیا ہے جن کو دوہرا اجر ملے گا ان میں سے ایک وہ یہودی یا نصرانی ہے۔ جو پہلے اپنے پیغمبروں پر ایمان رکھتا تھا پھر رسول اللہ پر ایمان لاکر مسلمان ہوگیا۔ (بخاری۔ کتاب الجہاد والسیر۔ باب فضل اسلم من اہل الکتابین)- [٧٣] یہاں یَدْرَءُ وْنَ کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ اور وَرَءَ کے معنی دفع کرنا، دور کرنا یا پرے ہٹانا ہے۔ اس لحاظ سے اس آیت کے دو مطلب ہیں ایک یہ کہ اگر کوئی شخص ان سے برا سلوک کرے یا نقصان پہنچائے تو اس کا جواب برائی یا نقصان سے نہیں شدیتے۔ بلکہ اس سے بھی اچھا سلوک کرتے ہیں اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ اگر ان سے کوئی برائی ہوجائے تو بعد میں نیک اعمال کرکے اس برائی کے اثر کو دور کردیتے ہیں۔- [٧٤] جب رزق کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف ہو تو اس سے مراد ہمیشہ طیب اور پاکیزہ رزق ہوتا ہے کیونکہ حرام کی کمائی سے تو صدقہ بھی قبول نہیں ہوتا۔ اور خرچ کرنے سے مراد اللہ کی راہ میں بھی خرچ کرنا ہے اور جائز کاموں میں بھی یعنی اپنی ذات پر اپنے اہل و عیال کی ضروریات زندگی وغیرہ پر اور اس معاملہ سے بخل سے کام نہیں لیتے۔
اُولٰۗىِٕكَ يُؤْتَوْنَ اَجْرَهُمْ مَّرَّتَيْنِ : یعنی اہل کتاب میں سے جو لوگ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لائے انھیں دوہرا اجر ملے گا، کیونکہ یہ لوگ پہلے رسول پر ایمان لائے، پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر بھی ایمان لائے۔ ابو موسیٰ اشعری (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( ثَلَاثَۃٌ لَھُمْ أَجْرَانِ : رَجُلٌ مِنْ أَھْلِ الْکِتَابِ آمَنَ بِنَبِیِّہِ وَ آمَنَ بِمُحَمَّدٍ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، وَالْعَبْدُ الْمَمْلُوْکُ إِذَا أَدّٰی حَقَّ اللّٰہِ وَ حَقَّ مَوَالِیْہِ وَ رَجُلٌ کَانَتْ عِنْدَہُ أَمَۃٌ [ یَطَؤُھَا ] فَأَدَّبَھَا فَأَحْسَنَ تَأْدِیْبَھَا وَ عَلَّمَھَا فَأَحْسَنَ تَعْلِیْمَھَا ثُمَّ أَعْتَقَھَا فَتَزَوَّجَھَا فَلَہُ أَجْرَانِ ) [ بخاري، العلم، باب تعلیم الرجل أمتہ و أھلہ : ٩٧ ]” تین آدمیوں کے لیے دو اجر ہیں، ایک اہل کتاب میں سے کوئی آدمی جو اپنے نبی پر ایمان لایا اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لایا اور ایک وہ غلام جو کسی کی ملکیت میں ہے، جب اللہ کا حق ادا کرے اور اپنے مالکوں کا حق ادا کرے اور ایک وہ آدمی جس کے پاس کوئی لونڈی تھی، جس سے وہ جماع کرتا تھا، اسے اس نے ادب سکھایا اور اچھا ادب سکھایا اور تعلیم دی اور اچھی تعلیم دی، پھر آزاد کر کے اس سے نکاح کرلیا، تو اس کے لیے دو اجر ہیں۔ “- بِمَا صَبَرُوْا : صبر تین طرح کا ہے، طاعت پر صبر، معصیت سے صبر اور مصیبت پر صبر۔ یعنی پہلے ایک رسول (علیہ السلام) پر ایمان لا کر صابر اور ثابت قدم رہے، پھر دوسرے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لا کر اس پر ثابت قدم رہے۔ اسی طرح خواہشات نفس کے مقابلے میں ثابت قدم رہے اور ان آزمائشوں اور مصیبتوں پر صبر کرتے رہے جو قبول اسلام کے بعد ان پر آئیں۔- وَيَدْرَءُوْنَ بالْحَسَنَةِ السَّيِّئَةَ : ” دَرَأَ یَدْرَأُ “ کا معنی دفع کرنا، دور کرنا، یا پرے ہٹانا ہے۔ اس آیت کے دو مطلب ہیں، ایک یہ کہ اگر کوئی شخص ان سے برا سلوک کرے تو اس کا جواب برائی سے نہیں بلکہ اچھے سے اچھے طریقے سے دیتے ہیں، جیسا کہ فرمایا : (وَلَا تَسْتَوِي الْحَسَنَةُ وَلَا السَّيِّئَةُ ۭ اِدْفَعْ بالَّتِيْ هِىَ اَحْسَنُ فَاِذَا الَّذِيْ بَيْنَكَ وَبَيْنَهٗ عَدَاوَةٌ كَاَنَّهٗ وَلِيٌّ حَمِيْمٌ ) [ حٰم السجدۃ : ٣٤ ] ” اور نہ نیکی برابر ہوتی ہے اور نہ برائی۔ (برائی کو) اس (طریقے) کے ساتھ ہٹا جو سب سے اچھا ہے، تو اچانک وہ شخص کہ تیرے درمیان اور اس کے درمیان دشمنی ہے، ایسا ہوگا جیسے وہ دلی دوست ہے۔ “ اور دیکھیے سورة رعد (٢٢) اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ اگر ان سے کوئی برائی ہوجائے تو بعد میں نیک اعمال کر کے اس کا اثر ختم کرنے کی کوشش کرتے ہیں، جیسا کہ فرمایا : (وَاَقِمِ الصَّلٰوةَ طَرَفَيِ النَّهَارِ وَزُلَفًا مِّنَ الَّيْلِ ۭ اِنَّ الْحَسَنٰتِ يُذْهِبْنَ السَّـيِّاٰتِ ) [ ھود : ١١٤ ]” اور دن کے دونوں کناروں میں نماز قائم کر اور رات کی کچھ گھڑیوں میں بھی، بیشک نیکیاں برائیوں کو لے جاتی ہیں۔ “- وَمِمَّا رَزَقْنٰهُمْ يُنْفِقُوْنَ : برائی کا جواب اچھائی سے دینا، یا نیکی کے ساتھ برائی کو مٹانا بعض اوقات ممکن ہی نہیں ہوتا جب تک خرچ نہ کیا جائے، اس لیے ان کی یہ صفت بیان فرمائی کہ ہم نے انھیں جو کچھ دیا اس میں سے خرچ کرتے ہیں۔ اس میں حقوق واجبہ و مستحبہ، فرض زکاۃ اور نفلی صدقات سبھی آگئے۔ ” رَزَقْنٰهُمْ “ میں اپنے احسان کا احساس بھی دلایا ہے اور یہ بھی کہ اگر وہ خرچ کرتے ہیں تو اپنا کچھ خرچ نہیں کرتے، بلکہ اللہ کا دیا ہوا ہی خرچ کرتے ہیں، لہٰذا انھیں خرچ کرنے میں دریغ نہیں ہونا چاہیے۔
اُولٰۗىِٕكَ يُؤْتَوْنَ اَجْرَهُمْ مَّرَّتَيْنِ ، یعنی مومنین اہل کتاب کو دو مرتبہ اجر دیا جائے گا۔ قرآن کریم میں اسی طرح کا وعدہ ازواج مطہرات کے متعلق بھی آیا ہے۔ وَمَنْ يَّقْنُتْ مِنْكُنَّ لِلّٰهِ وَرَسُوْلِهٖ وَتَعْمَلْ صَالِحًا نُّــؤْتِهَآ اَجْرَهَا مَرَّتَيْنِ ، اور صحیح بخاری کی ایک حدیث میں تین شخصوں کے لئے دوہرے اجر کا ذکر فرمایا ہے ایک وہ اہل کتاب جو پہلے اپنے سابق نبی پر ایمان لایا پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر، دوسرا وہ شخص جو کسی کا مملوک غلام ہو اور وہ اپنے آقا کی بھی اطاعت و فرمانبرداری کرتا ہو اور اللہ اور اس کے رسول کی بھی، تیسرا وہ شخص جس کی ملک میں کوئی کنیز تھی جس سے بلا نکاح صحبت اس کے لئے حلال تھی اس نے اس کو اپنی غلامی سے آزاد کردیا پھر اس کو منکوحہ زوجہ بنا لیا۔- یہاں یہ بات غور طلب ہے کہ ان چند قسموں کو دو مرتبہ اجر دینے کی علت کیا ہے اگر کہا جائے کہ ان دونوں کے ردعمل اس دوہرے اجر کا سبب ہیں کیونکہ مومنین اہل کتاب کے دو عمل یہ ہیں کہ پہلے ایک نبی اور اس کی کتاب پر ایمان لائے پھر دوسرے نبی اور اس کی کتاب پر اور ازواج مطہرات کے دو عمل یہ ہیں کہ وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت و فرمانبرداری ہے، اللہ و رسول کی بھی اور آقا کی بھی، اور کنیز کو آزاد کر کے اس سے نکاح کرنے والے کا ایک عمل صالح اس کو آزاد کرنا دوسرا اس کو منکوحہ زوجہ بنا لینا ہے۔ مگر اس پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ دو عمل کے دو اجر ہونا تو مقتضائے عدل و انصاف ہونے کی وجہ سے سب کے لئے عام ہے اس میں مومنین اہل کتاب یا ازواج مطہرات وغیرہ کی کیا خصوصیت ہے جو شخص بھی دو عمل کرے گا دو اجر پائے گا ؟ اس سوال کے جواب کی مکمل تحقیق احقر نے احکام القرآن سورة قصص میں لکھی ہے اس میں جو بات خود الفاظ قرآن کی دلالت سے ثابت ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ ان تمام اقسام میں مراد صرف دو اجر نہیں، کیونکہ وہ تو ہر عمل کرنے والے کے لئے عام ضابطہ قرآنیہ ہے لَآ اُضِيْعُ عَمَلَ عَامِلٍ مِّنْكُمْ یعنی اللہ تعالیٰ تم میں سے کسی عمل کرنے والے کا عمل ضائع نہیں کرتا بلکہ وہ جتنے نیک عمل کرے گا اسی کے حساب سے اجر پائے گا۔ بلکہ ان اقسام مذکورہ میں دو اجر سے مراد یہ ہے کہ ان لوگوں کو ان کے ہر عمل کا دوہرا ثواب ملے گا۔ ہر نماز پر اس کا دوہرا، ہر روزہ پر اس کا دوہرا، ہر صدقہ اور حج وعمرہ پر اس کا دوہرا ثواب ملے گا۔ قرآن کے الفاظ پر غور کریں تو دو اجر دینے کے لئے مختر لفظ اجرین کا تھا مگر قرآن نے اس کو چھوڑ کر اجر مرتین کا لفظ اختیار کیا جس میں صاف اشارہ اس کا پایا جاتا ہے کہ اجر مرتین سے مراد یہ ہے کہ ان کا ہر عمل مکرر لکھا جائے گا اور ہر عمل پر دوہرا ثواب ملے گا۔- رہا یہ معاملہ کہ ان کی اتنی بڑی فضیلت اور خصوصیت کا سبب کیا ہے تو اس کا واضح جواب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کو اختیار ہے کہ کسی خاص عمل کو دوسرے اعمال سے افضل قرار دیدے اور اس کا اجر بڑھا دے، کسی کو اس سوال کا حق نہیں ہے کہ روزہ کا ثواب اللہ تعالیٰ نے اتنا زیادہ کیوں کردیا، زکوٰۃ و صدقہ کا کیوں ایسا نہ کیا ؟ ہوسکتا ہے کہ یہ اعمال جن کا ذکر آیات مذکور اور حدیث بخاری میں ہے اللہ تعالیٰ کے نزدیک ان کا درجہ دوسرے اعمال سے ایک حیثیت میں بڑھا ہوا ہو اس پر یہ انعام فرمایا اور بعض اکابر علماء نے جو اس کا سبب ان لوگوں کی دوہری مشقت کو قرار دیا ہے وہ بھی اپنی جگہ متحمل ہے اور اسی آیت کے آخر میں لفظ بِمَا صَبَرُوْا سے اس پر استدلال ہوسکتا ہے کہ علت اس دوہرے اجر کی ان کا مشقت پر صبر کرنا ہے۔ واللہ اعلم - وَيَدْرَءُوْنَ بالْحَسَنَةِ السَّيِّئَةَ یعنی یہ لوگ برائی کو بھلائی کے ذریعہ دور کرتے ہیں۔ اس برائی اور بھلائی کی تعبیر میں ائمہ تفسیر کے بہت سے اقوال ہیں۔ بعض نے فرمایا کہ بھلائی سے اطاعت اور برائی سے معصیت مراد ہے کیونکہ نیکی بدی کو مٹا دیتی ہے جیسا کہ حدیث میں ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت معاذ بن جبل سے فرمایا اتبع الحسنة السیئۃ تمحھا یعنی بدی اور گناہ کے بعد نیکی کرو تو وہ گناہ کو مٹا دے گی اور بعض حضرات نے فرمایا حسنہ سے مراد علم و حلم اور سیہ سے مراد جہل و غفلت ہے یعنی یہ لوگ دوسروں کی جہالت کا جواب جہالت کے بجائے حلم و بردباری سے دیتے ہیں اور درحقیقت ان اقوال میں کوئی تضاد نہیں کیونکہ لفظ حسنہ اور سیہ یعنی بھلائی اور برائی کے الفاظ ان سب چیزوں کو شامل ہیں۔- اس آیت میں دو اہم ہدایتیں ہیں :- اول یہ کہ اگر کسی شخص سے کوئی گناہ خطاء سرزد ہوجائے تو اس کا علاج یہ ہے کہ اس کے بعد نیک عمل کی فکر کرے تو نیک عمل اس گناہ کا کفارہ ہوجائے گا جیسا کہ حدیث معاذ کے حوالہ سے اوپر بیان ہوچکا ہے۔ دوسرے یہ کہ جو شخص کسی کے ساتھ ظلم اور برائی سے پیش آئے اگرچہ قانون شرع کی رو سے اس کو اپنا انتقام لے لینا جائز ہے بشرطیکہ انتقام برابر سرابر ہو کہ جتنا نقصان یا تکلیف اس کو پہنچائی ہے اتنا ہی یہ اپنے حریف کو پہنچاوے مگر اولی اور احسن یہ ہے کہ انتقام کے بجائے برائی کے بدلہ میں بھلائی اور ظلم کے بدلہ میں احسان کرے کہ یہ اعلی درجہ مکارم اخلاق کا ہے اور دنیا و آخرت میں اس کے منافع بیشمار ہیں۔ قرآن کریم کی ایک دوسری آیت میں یہ ہدایت بہت واضح الفاظ میں اس طرح آئی ہے ۭ اِدْفَعْ بالَّتِيْ هِىَ اَحْسَنُ فَاِذَا الَّذِيْ بَيْنَكَ وَبَيْنَهٗ عَدَاوَةٌ كَاَنَّهٗ وَلِيٌّ حَمِيْمٌ، یعنی برائی اور ظلم کو ایسے طریقہ سے دفع کرو جو کہ بہتر ہے۔ (یعنی ظلم کے بدلہ میں احسان کرو) تو جس شخص کے اور تمہارے درمیان عداوت ہے وہ تمہارا مخلص دوست بن جائے گا۔
اُولٰۗىِٕكَ يُؤْتَوْنَ اَجْرَہُمْ مَّرَّتَيْنِ بِمَا صَبَرُوْا وَيَدْرَءُوْنَ بِالْحَسَنَۃِ السَّيِّئَۃَ وَمِمَّا رَزَقْنٰہُمْ يُنْفِقُوْنَ ٥٤- أجر - الأجر والأجرة : ما يعود من ثواب العمل دنیویاً کان أو أخرویاً ، نحو قوله تعالی: إِنْ أَجْرِيَ إِلَّا عَلَى اللَّهِ [يونس 72] - ( ا ج ر ) الاجروالاجرۃ - کے معنی جزائے عمل کے ہیں خواہ وہ بدلہ دینوی ہو یا اخروی ۔ چناچہ فرمایا : ۔ إِنْ أَجْرِيَ إِلَّا عَلَى اللَّهِ [هود : 29] میرا جر تو خدا کے ذمے ہے ۔ - صبر - الصَّبْرُ : الإمساک في ضيق، والصَّبْرُ : حبس النّفس علی ما يقتضيه العقل والشرع، أو عمّا يقتضیان حبسها عنه، وَالصَّابِرِينَ وَالصَّابِراتِ [ الأحزاب 35] ، وسمّي الصّوم صبرا لکونه کالنّوع له، وقال عليه السلام :«صيام شهر الصَّبْرِ وثلاثة أيّام في كلّ شهر يذهب وحر الصّدر»- ( ص ب ر ) الصبر - کے معنی ہیں کسی کو تنگی کی حالت میں روک رکھنا ۔ لہذا الصبر کے معنی ہوئے عقل و شریعت دونوں یا ان میں سے کسی ایک کے تقاضا کے مطابق اپنے آپ کو روک رکھنا ۔ وَالصَّابِرِينَ وَالصَّابِراتِ [ الأحزاب 35] صبر کرنے والے مرو اور صبر کرنے والی عورتیں اور روزہ کو صبر کہا گیا ہے کیونکہ یہ بھی ضبط نفس کی ایک قسم ہے چناچہ آنحضرت نے فرمایا «صيام شهر الصَّبْرِ وثلاثة أيّام في كلّ شهر يذهب وحر الصّدر»- ماه رمضان اور ہر ماہ میں تین روزے سینہ سے بغض کو نکال ڈالتے ہیں - درأ - الدَّرْءُ : المیل إلى أحد الجانبین، يقال : قوّمت دَرْأَهُ ، ودَرَأْتُ عنه : دفعت عن جانبه، وفلان ذو تَدَرُّؤٍ ، أي : قويّ علی دفع أعدائه، ودَارَأْتُهُ : دافعته . قال تعالی: وَيَدْرَؤُنَ بِالْحَسَنَةِ السَّيِّئَةَ- [ الرعد 22] ، وقال : وَيَدْرَؤُا عَنْهَا الْعَذابَ [ النور 8] ، وفي الحدیث :- «ادْرَءُوا الحدود بالشّبهات»- ( د ر ء )- الدواء ( ف ) کے معنی ونیزہ وغیرہ کے ایک جانب مائل ہوجانے کے ہیں کہا جاتا ہے ۔ میں نے اس کی کجی کو درست کردیا میں نے اس سے دفع کیا قرآن میں ہے : ۔ وَيَدْرَؤُنَ بِالْحَسَنَةِ السَّيِّئَةَ [ الرعد 22] اور نیکی کے ذریعہ برائیوں کا مقابلہ کرتے ہیں ۔ وَيَدْرَؤُا عَنْهَا الْعَذابَ [ النور 8] اور عورت سے سزا کو یہ بات ٹال سکتی ہے ۔ حدیث میں ہے ۔«ادْرَءُوا الحدود بالشّبهات»- شرعی حدود کو شہبات سے دفع کرو - حسنة- والحسنةُ يعبّر عنها عن کلّ ما يسرّ من نعمة تنال الإنسان في نفسه وبدنه وأحواله، والسيئة تضادّها . وهما من الألفاظ المشترکة، کالحیوان، الواقع علی أنواع مختلفة کالفرس والإنسان وغیرهما، فقوله تعالی: وَإِنْ تُصِبْهُمْ حَسَنَةٌ يَقُولُوا : هذِهِ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ [ النساء 78] ، أي : خصب وسعة وظفر، وَإِنْ تُصِبْهُمْ سَيِّئَةٌ أي : جدب وضیق وخیبة «1» ، يَقُولُوا : هذِهِ مِنْ عِنْدِكَ قُلْ : كُلٌّ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ [ النساء 78] - والفرق بين الحسن والحسنة والحسنی - أنّ الحَسَنَ يقال في الأعيان والأحداث، وکذلک الحَسَنَة إذا کانت وصفا، وإذا کانت اسما فمتعارف في الأحداث، والحُسْنَى لا يقال إلا في الأحداث دون الأعيان، والحسن أكثر ما يقال في تعارف العامة في المستحسن بالبصر، يقال : رجل حَسَنٌ وحُسَّان، وامرأة حَسْنَاء وحُسَّانَة، وأكثر ما جاء في القرآن من الحسن فللمستحسن من جهة البصیرة، وقوله تعالی: الَّذِينَ يَسْتَمِعُونَ الْقَوْلَ فَيَتَّبِعُونَ أَحْسَنَهُ [ الزمر 18] ، أي : الأ بعد عن الشبهة، - ( ح س ن ) الحسن - الحسنتہ ہر وہ نعمت جو انسان کو اس کے نفس یا بدن یا اس کی کسی حالت میں حاصل ہو کر اس کے لئے مسرت کا سبب بنے حسنتہ کہلاتی ہے اس کی ضد سیئتہ ہے اور یہ دونوں الفاظ مشترکہ کے قبیل سے ہیں اور لفظ حیوان کی طرح مختلف الواع کو شامل ہیں چناچہ آیت کریمہ ۔ وَإِنْ تُصِبْهُمْ حَسَنَةٌ يَقُولُوا : هذِهِ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ [ النساء 78] اور ان لوگوں کو اگر کوئی فائدہ پہنچتا ہے تو کہتے ہیں کہ یہ خدا کی طرف سے ہے اور اگر کوئی گزند پہنچتا ہے ۔ میں حسنتہ سے مراد فراخ سالی وسعت اور نا کامی مراد ہے - الحسن والحسنتہ اور الحسنی یہ تین لفظ ہیں ۔- اور ان میں فرق یہ ہے کہ حسن اعیان واغراض دونوں کے لئے استعمال ہوتا ہے اسی طرح حسنتہ جب بطور صفت استعمال ہو تو دونوں پر بولا جاتا ہے اور اسم ہوکر استعمال ہو تو زیادہ تر احدث ( احوال ) میں استعمال ہوتا ہے اور حسنی کا لفظ صرف احداث کے متعلق بو لاجاتا ہے ۔ اعیان کے لئے استعمال نہیں ہوتا ۔ اور الحسن کا لفظ عرف عام میں اس چیز کے متعلق استعمال ہوتا ہے جو بظاہر دیکھنے میں بھلی معلوم ہو جیسے کہا جاتا ہے رجل حسن حسان وامرءۃ حسنتہ وحسانتہ لیکن قرآن میں حسن کا لفظ زیادہ تر اس چیز کے متعلق استعمال ہوا ہے جو عقل وبصیرت کی رو سے اچھی ہو اور آیت کریمہ : الَّذِينَ يَسْتَمِعُونَ الْقَوْلَ فَيَتَّبِعُونَ أَحْسَنَهُ [ الزمر 18] جو بات کو سنتے اور اچھی باتوں کی پیروی کرتے ہیں ۔ - سَّيِّئَةُ :- الفعلة القبیحة، وهي ضدّ الحسنة، قال : ثُمَّ كانَ عاقِبَةَ الَّذِينَ أَساؤُا السُّوای[ الروم 10]: بَلى مَنْ كَسَبَ سَيِّئَةً [ البقرة 81] - سَّيِّئَةُ :- اور ہر وہ چیز جو قبیح ہو اسے سَّيِّئَةُ :،- ، سے تعبیر کرتے ہیں ۔ اسی لئے یہ لفظ ، ، الحسنیٰ ، ، کے مقابلہ میں آتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ثُمَّ كانَ عاقِبَةَ الَّذِينَ أَساؤُا السُّوای[ الروم 10] پھر جن لوگوں نے برائی کی ان کا انجام بھی برا ہوا ۔ چناچہ قرآن میں ہے اور سیئۃ کے معنی برائی کے ہیں اور یہ حسنۃ کی ضد ہے قرآن میں ہے : بَلى مَنْ كَسَبَ سَيِّئَةً [ البقرة 81] جو برے کام کرے - رزق - الرِّزْقُ يقال للعطاء الجاري تارة، دنیويّا کان أم أخرويّا، وللنّصيب تارة، ولما يصل إلى الجوف ويتغذّى به تارة «2» ، يقال : أعطی السّلطان رِزْقَ الجند، ورُزِقْتُ علما، قال : وَأَنْفِقُوا مِنْ ما رَزَقْناكُمْ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِيَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ [ المنافقون 10] ، أي : من المال والجاه والعلم، - ( ر ز ق) الرزق - وہ عطیہ جو جاری ہو خواہ دنیوی ہو یا اخروی اور رزق بمعنی نصیبہ بھی آجاتا ہے ۔ اور کبھی اس چیز کو بھی رزق کہاجاتا ہے جو پیٹ میں پہنچ کر غذا بنتی ہے ۔ کہاجاتا ہے ۔ اعطی السلطان رزق الجنود بادشاہ نے فوج کو راشن دیا ۔ رزقت علما ۔ مجھے علم عطا ہوا ۔ قرآن میں ہے : وَأَنْفِقُوا مِنْ ما رَزَقْناكُمْ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِيَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ [ المنافقون 10] یعنی جو کچھ مال وجاہ اور علم ہم نے تمہیں دے رکھا ہے اس میں سے صرف کرو - نفق - نَفَقَ الشَّيْءُ : مَضَى ونَفِدَ ، يَنْفُقُ ، إِمَّا بالبیع نحو : نَفَقَ البَيْعُ نَفَاقاً ، ومنه : نَفَاقُ الأَيِّم، ونَفَقَ القَوْمُ : إذا نَفَقَ سُوقُهُمْ ، وإمّا بالمَوْتِ نحو : نَفَقَتِ الدَّابَّةُ نُفُوقاً ، وإمّا بالفَنَاءِ نحو : نَفِقَتِ الدَّرَاهِمُ تُنْفَقُ وأَنْفَقْتُهَا . والإِنْفَاقُ قد يكون في المَالِ ، وفي غَيْرِهِ ، وقد يكون واجباً وتطوُّعاً ، قال تعالی: وَأَنْفِقُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ [ البقرة 195] ، وأَنْفِقُوا مِمَّا رَزَقْناكُمْ [ البقرة 254] - ( ن ف ق ) نفق - ( ن ) س الشئی کے منعی کسی چیز کے ختم ہونے یا چلے جانے کے ہیں ۔ اور چلے جانے کی مختلف صورتیں ہیں ( 1 ) خوب فروخت ہونے سے جیسے نفق البیع ( سامان کا ) خوب فروخت ہونا اسی سے نفاق الایتیم ہے جس کے معنی بیوہ عورت سے نکاح کے طلب گاروں کا بکثرت ہونا کے ہیں ۔ نفق القوم بازار کا پر رونق ہونا ۔ ( 2 ) بذیعہ مرجانے کے جیسے نفقت الدابۃ نفوقا جانور کا مرجانا ۔ ( 3 ) بذریعہ فنا ہوجانے کے جیسے نفقت الدراھم درواہم خرچ ہوگئے ۔ انفق تھا ان کو خرچ کردیا ۔ الا نفاق کے معنی مال وغیرہ صرف کرنا کے ہیں اور یہ کبھی واجب ہوتا ہے ۔ اور کبھی مستحب اور مال اور غیر مال یعنی علم وغیرہ کے متعلق استعمال ہوتا ہے جیسے فرمایا ۔ وَأَنْفِقُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ [ البقرة 195] اور خدا کی راہ میں مال خرچ کرو ۔ وأَنْفِقُوا مِمَّا رَزَقْناكُمْ [ البقرة 254] اور جو مال ہم نے تم کو دیا ہے اس میں سے خرچ کرلو ۔
(٥٤) ایسے حضرات کو انکی پختگی کی وجہ سے دوہرا ثواب ملے گا کیوں کہ ان حضرات نے اپنی کتاب میں رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نعت وصفت لوگوں کے سامنے بیان کی اور پھر اس دین میں داخل ہوئے تو اس پر انکو کفار نے جو تکالیف پہنچائیں اس پر انھوں نے صبر کیا اور یہ لوگ نیک بات یعنی کلمہ ” لاالہ الا اللہ “۔ سے بری بات یعنی شرک کا توڑ کرتے ہیں اور جو کچھ ہم نے ان کو مال دیا ہے اس میں سے اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں۔
آیت ٥٤ (اُولٰٓءِکَ یُؤْتَوْنَ اَجْرَہُمْ مَّرَّتَیْنِ ) ” - یعنی سابقہ امت کے جو لوگ (یہودی یا نصرانی) اسلام قبول کریں گے وہ دہرے اجر کے مستحق قرار پائیں گے۔ اس سے پہلے وہ انجیل اور تورات کو مانتے تھے اور اب انہوں نے قرآن کو بھی تسلیم کرلیا۔
سورة القصص حاشیہ نمبر : 74 یعنی ایک اجر اس ایمان کا جو وہ پہلے سیدنا عیسی علیہ السلام پر رکھتے تھے اور دوسرا اجر اس ایمان کا جو وہ اب نبی عربی محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر لائے ۔ یہی بات اس حدیث میں بیان کی گئی ہے جو بخاری و مسلم نے حضرت ابو موسی اشعری سے روایت کی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ثلثۃ لہم اجران ، رجل من اھل الکتب امن بنبیہ وامن بمحمد ۔ تین شخص ہیں جن کو دوہرا اجر ملے گا ، ان میں سے ایک وہ ہے جو اہل کتاب میں سے تھا اور اپنے نبی پر ایمان رکھتا تھا ، پھر محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) پر ایمان لایا ۔ سورة القصص حاشیہ نمبر : 75 یعنی انہیں یہ دوہرا اجر اس بات کا ملے گا کہ وہ قومی و نسلی اور وطنی و گروہی تعصبات سے بچ کر اصل دین حق پر ثابت قدم رہے اور نئے نبی کی آدم پر جو سخت امتحان درپیش ہوا اس میں انہوں نے ثابت کردیا کہ دراصل وہ مسیح پرست نہیں بلکہ خدا پرست تھے ، اور شخصیت مسیح کے گرویدہ نہیں بلکہ اسلام کے متبع تھے ، اسی وجہ سے مسیح کے بعد جب دوسرا نبی وہی اسلام لیکر آیا جسے مسیح لائے تھے تو انہوں نے بے تکلف اس کی رہنمائی میں اسلام کا راستہ اختیار کرلیا اور ان لوگوں کا راستہ چھوڑ دیا جو مسیحیت پر جمے رہ گئے ۔ سورة القصص حاشیہ نمبر : 76 یعنی وہ بدی کا جواب بدی سے نہیں بلکہ نیکی سے دیتے ہیں ، جھوٹ کے مقابلے میں جھوٹ نہیں بلکہ صداقت لاتے ہیں ، ظلم کو ظلم سے نہیں بلکہ انصاف سے دفع کرتے ہیں ، شرارتوں کا سامنا شرارت سے نہیں بلکہ شرافت سے کرتے ہیں ۔ سورة القصص حاشیہ نمبر : 77 یعنی وہ راہ حق میں مالی ایثار بھی کرتے ہیں ۔ ممکن ہے کہ اس میں اشارہ اس طرف بھی ہو کہ وہ لوگ محض حق کی تلاش میں حبش سے سفر کر کے مکے آئے تھے ۔ اس محنت اور صرف مال سے کوئی مادی منفعت ان کے پیش نظر نہ تھی ۔ انہوں نے جب سنا کہ مکہ میں ایک شخص نے نبوت کا دعویٰ کیا ہے تو انہوں نے ضروری سمجھا کہ خود جاکر تحقیق کریں تاکہ اگر واقعی ایک نبی ہی خدا کی طرف سے مبعوث ہوا ہو تو وہ اس پر ایمان لانے اور ہدایت پانے سے محروم نہ رہ جائیں ۔
30: جو شخص پہلے ایک دین کو اختیار کئے ہوئے ہو، اور جسے اس بات پر فخر بھی ہو کہ وہ ایک آسمانی کتاب کی پیروی کر رہا ہے، اُس کے لئے نَیا دین اختیار کرنا بہت مشکل ہوتا ہے، اس لئے بھی کہ اپنی پرانی عادت چھوڑنا دُشوار ہے، اور اس لئے بھی کہ اس کے ہم مذہب اُسے تکلیفیں پہنچاتے ہیں، لیکن اِن حضرات نے ان تمام تکلیفوں پر صبر کیا، اور حق پر ثابت قدم رہے، اِس لئے ان کو دُہرا ثواب ملے گا۔ 31: یعنی بُرائی کا جوب بھلائی سے دیتے ہیں