محاسن کلام کا بےمثال جمال قرآن حکیم کافروں کی ضد ، تکبر اور ہٹ دھرمی بیان ہو رہی ہے کہ انہوں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسی ہی نشانی طلب کی جیسی کہ حضرت صالح سے ان کی قوم نے مانگی تھی ۔ پھر اپنے نبی کو حکم دیتا ہے انہیں جواب دیجئے کہ آیتیں معجزے اور نشانات دکھانا میرے بس کی بات نہیں ۔ یہ اللہ کے ہاتھ ہے ۔ اگر اس نے تمہاری نیک نیتیں معلوم کرلیں تو وہ معجزہ دکھائے گا اور اگر تم اپنی ضد اور انکار سے بڑھ بڑھ کر باتیں ہی بنا رہے ہو تو وہ اللہ تم سے دبا ہوا نہیں کہ اس کی چاہت تمہاری چاہت کے تابع ہوجائے تم جو مانگو وہ کرہی دکھائے گا ۔ جیسے ایک اور روایت میں ہے کہ آیتیں بھیجنے سے ہمیں کوئی مانع نہیں سوائے اس کے کہ گذشتہ لوگ بھی برابر انکار ہی کرتے رہے ۔ قوم ثمود کو دیکھو ہماری نشانی اونٹنی جو ان کے پاس آئی انہوں نے اس پر ظلم کیا ۔ کہدو کہ میں تو صرف ایک مبلغ ہوں پیغمبر ہوں قاصد ہوں میراکام تمہارے کانوں تک آواز اللہ کو پہنچا دینا ہے میں نے تو تمہیں تمہارا برا بھلا سمجھا دیا نیک بد سمجھا دیا اب تم جانو تمہارا کام جانے ۔ ہدایت ضلالت اللہ کی طرف سے ہے وہ اگر کسی کو گمراہ کردے تو اس کی رہبری کوئی نہیں کرسکتا ۔ چنانچہ ایک اور جگہ ہے تجھ پر ان کی ہدایت کا ذمہ نہیں یہ اللہ کا کام ہے اور اس کی چاہت پر موقوف ہے ۔ بھلا اس فضول گوئی کو تو دیکھو کہ کتاب عزیز ان کے پاس آچکی جس کے پاس کسی طرف سے باطل پھٹک نہیں سکتا اور انہیں اب تک نشانی کی طلب ہے ۔ حالانکہ یہ تو تمام معجزات سے بڑھ کرمعجزہ ہے ۔ تمام دنیاکے فصیح وبلیغ اس کے معارضہ سے اور اس جیسا کلام پیش کرنے سے عاجز آگئے ۔ پورے قرآن کا تو معارضہ کیا کرتے؟ دس سورتوں کا بلکہ ایک سورت کامعارضہ بھی چیلنج کے باوجود نہ کرسکے ۔ تو کیا اتنا بڑا اور اتنا بھاری معجزہ انہیں کافی نہیں؟ جو اور معجزے طلب کرنے بیٹھے ہیں ۔ یہ تو وہ پاک کتاب ہے جس میں گذشتہ باتوں کی خبر ہے اور ہونے والی باتوں کی پیش گوئی ہے اور جھگڑوں کا فیصلہ ہے اور یہ اس کی زبان سے پڑھی جاتی ہے جو محض امی ہے جس نے کسی سے الف با بھی نہیں پڑھا جو ایک حرف لکھنا نہیں جانتا بلکہ اہل علم کی صحبت میں بھی کبھی نہیں بیٹھا ۔ اور وہ کتاب پڑھتا ہے جس سے گزشتہ کتابوں کی بھی صحت وعدم صحت معلوم ہوتی ہے جس کے الفاظ میں حلاوت جس کی نظم میں ملاحت جس کے انداز میں فصاحت جس کے بیان میں بلاغت جس کا طرز دلربا جس کا سیاق دلچسپ جس میں دنیا بھر کی خوبیاں موجود ۔ خود بنی اسرائیل کے علماء بھی اس کی تصدیق پر مجبور ۔ اگلی کتابیں جس پر شاہد ۔ بھلے لوگ جس کے مداح اور قائل وعامل ۔ اس اتنے بڑے معجزے کی موجودگی میں کسی اور معجزہ کی طلب محض بدنیتی اور گریز ہے ۔ پھر فرماتا ہے اس میں ایمان والوں کے لئے رحمت ونصیحت ہے ۔ یہ قرآن حق کا ظاہر کرنے والا باطل کو برباد کرنے والا ہے ۔ گزشتہ لوگوں کے واقعات تمہارے سامنے رکھ کر تمہیں نصیحت وعبرت کا موقعہ دیتا ہے گنہگاروں کا انجام دکھاکر تمہیں گناہوں سے روکتا ہے ۔ کہدو کہ میرے اور تمہارے درمیان اللہ گواہ ہے اور اس کی گواہی کافی ہے ۔ وہ تمہاری تکذیب وسرکشی کو اور میری سچائی وخیر خواہی کو بخوبی جانتا ہے ۔ اگر میں اس پر جھوٹ باندھتا تو وہ ضرور مجھ سے انتقام لیتا وہ ایسے لوگوں کو بغیر انتقام نہیں چھوڑتا ۔ جیسے خود اس کا فرمان ہے کہ اگر یہ رسول مجھ پر ایک بات بھی گھڑ لیتا تو میں اس کا داہنا ہاتھ پکڑ کر اس کی رگ جاں کاٹ دیتا اور کوئی نہ ہوتاجو اسے میرے ہاتھ سے چھڑاسکے ۔ چونکہ اس پر میری سچائی روشن ہے اور میں اسی کا بھیجا ہوا ہوں اور اس کا نام لے کر اس کی کہی ہوئی تم سے کہتا ہوں اس لئے وہ میری تائید کرتا ہے اور مجھے روز بروز غلبہ دیتاجاتا ہے اور مجھ سے معجزات پر معجزات ظاہر کراتا ہے ۔ وہ زمین وآسمان کے غیب کا جاننے والاہے اس پر ایک ذرہ بھی پوشیدہ نہیں باطل کا ماننے والے اور اللہ کو نہ ماننے والے ہی نقصان یافتہ اور ذلیل ہیں قیامت کے دن انہیں ان کی بد اعمالی کا نتیجہ بھگتنا پڑھے گا اور جو سرکشیاں دنیا میں کی ہیں سب کا مزہ چکھنا پڑے گا ۔ بھلا اللہ کو نہ ماننا اور بتوں کو ماننا اس سے بڑھ کر اور ظلم کیا ہوگا ؟ وہ علیم وحکیم اللہ اس کا بدلہ دیئے بغیر ہرگز نہیں رہے گا ۔
5 0 1یعنی یہ نشانیاں اس کی حکمت و مشیت، جن بندوں پر اتارنے کی ہوتی ہے، وہاں وہ اتارتا ہے، اس میں اللہ کے سوا کسی کا اختیار نہیں ہے۔
[٨٢] معجزات کا اتارنا اللہ کا کام ہے اور میرا الوہیت کا کوئی دعویٰ نہیں کہ تمہارے معجزہ کے مطالبہ تمہیں تمہارے حسب پسند معجزہ دکھلا سکوں۔ میرا کام صرف تمہیں اللہ کا پیغام پہنچانا اور تمہیں برے انجام سے بچانا ہے۔ اس میں اگر میں کوئی کوتاہی کر رہا ہوں تو وہ مجھے بتلا دو ۔
وَقَالُوْا لَوْلَآ اُنْزِلَ عَلَيْهِ اٰيٰتٌ مِّنْ رَّبِّهٖ : قرآن اور پیغمبر کے حق ہونے کے دلائل کے سامنے جب مشرکین لاجواب ہوجاتے تو عجیب و غریب قسم کے اعتراض اور مطالبے پیش کرتے، جو عناد، تکبر اور ہٹ دھرمی پر مبنی ہوتے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے ایسے چند اعتراض اور ان کے جواب ذکر فرمائے۔ ان میں سے پہلا اعتراض یہ تھا کہ اس پیغمبر پر کوئی نشانیاں کیوں نازل نہیں کی گئیں ؟ اس سے ان کی مراد صالح (علیہ السلام) کی اونٹنی اور موسیٰ (علیہ السلام) کے عصا جیسے معجزات تھے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا، ان سے کہہ دیں نشانیاں اور معجزات تو صرف اللہ تعالیٰ کے پاس اور اسی کے اختیار میں ہیں، نہ یہ میرے قبضے میں ہے کہ جو معجزہ تم طلب کرو وہی دکھلادیا کروں اور نہ یہ میری ذمہ داری ہے۔ میری ذمہ داری صرف یہ ہے کہ تمہیں اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کے انجام سے آگاہ کرتا رہوں اور ڈراتا رہوں۔- 3 حفاظ کرام یاد رکھیں پورے قرآن میں ” لَوْلَآ اُنْزِلَ عَلَيْهِ اٰيٰتٌ مِّنْ رَّبِّهٖ “ صرف اسی مقام پر ہے۔ دوسرے تمام مقامات پر ” وَقَالُوْا لَوْلَآ نٗزِّلَ عَلَيْهِ ایة مِّنْ رَّبِّهٖ “ یا ” اُنْزِلَ عَلَيْهِ اٰیة مِّنْ رَّبِّهٖ “ واحد کے لفظ کے ساتھ ہی ہے۔
وَقَالُوْا لَوْلَآ اُنْزِلَ عَلَيْہِ اٰيٰتٌ مِّنْ رَّبِّہٖ ٠ۭ قُلْ اِنَّمَا الْاٰيٰتُ عِنْدَ اللہِ ٠ۭ وَاِنَّمَآ اَنَا نَذِيْرٌ مُّبِيْنٌ ٥٠- عند - عند : لفظ موضوع للقرب، فتارة يستعمل في المکان، وتارة في الاعتقاد، نحو أن يقال : عِنْدِي كذا، وتارة في الزّلفی والمنزلة، وعلی ذلک قوله : بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران 169] ،- ( عند ) ظرف - عند یہ کسی چیز کا قرب ظاہر کرنے کے لئے وضع کیا گیا ہے کبھی تو مکان کا قرب ظاہر کرنے کے لئے آتا ہے اور کبھی اعتقاد کے معنی ظاہر کرتا ہے جیسے عندی کذا اور کبھی کسی شخص کی قرب ومنزلت کے متعلق استعمال ہوتا ہے جیسے فرمایا : بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران 169] بلکہ خدا کے نزدیک زندہ ہے ۔- النذیر - والنَّذِيرُ : المنذر، ويقع علی كلّ شيء فيه إنذار، إنسانا کان أو غيره . إِنِّي لَكُمْ نَذِيرٌ مُبِينٌ [ نوح 2] - ( ن ذ ر ) النذیر - النذیر کے معنی منذر یعنی ڈرانے والا ہیں ۔ اور اس کا اطلاق ہر اس چیز پر ہوتا ہے جس میں خوف پایا جائے خواہ وہ انسان ہو یا کوئی اور چیز چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَما أَنَا إِلَّا نَذِيرٌ مُبِينٌ [ الأحقاف 9] اور میرا کام تو علانیہ ہدایت کرنا ہے ۔
اور یہ لوگ یوں کہتے ہیں کہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ان کے پروردگار کی طرف سے ایسی نشانیاں کیوں نازل نہیں ہوئیں جیسا موسیٰ و عیسیٰ (علیہما السلام) پر نازل کی گئی تھیں۔
آیت ٥٠ (وَقَالُوْا لَوْلَآ اُنْزِلَ عَلَیْہِ اٰیٰتٌ مِّنْ رَّبِّہٖ ط) ” - مشرکین مکہ آئے دن یہ مطالبہ دہراتے رہتے تھے کہ اگر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نبی ہیں تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو معجزات کیوں نہیں دیے گئے ؟ یہی وجہ ہے کہ قرآن میں بھی ان کا یہ مطالبہ تکرار کے ساتھ بیان ہوا ہے۔
سورة العنکبوت حاشیہ نمبر : 90 یعنی معجزات جنہیں دیکھ کر یقین آئے کہ واقعی محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے نبی ہیں ۔
29: یعنی وہ معجزات کیوں نہیں دئیے گئے جن کی ہم فرمائش کرتے ہیں۔ اگرچہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بہت سے معجزات عطا فرمائے گئے تھے، لیکن کفار مکہ نت نئے معجزات کا مطالبہ کرتے رہتے تھے، جیسے سورۃ بنی اسرائیل : 93 میں تفصیل سے بیان فرمایا گیا ہے۔ جواب یہ دیا گیا ہے کہ معجزات دکھانا اللہ تعالیٰ کی قدرت میں ہے، میں تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے خبر دار کرنے کے لیے آیا ہوں۔ نیز اگلی آیت میں فرمایا گیا ہے کہ قرآن کریم بذات خود ایک بڑا معجزہ ہے جو ایک طالبِ حق کے لیے بالکل کافی ہونا چاہئے۔