Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

511یعنی وہ نشانیاں طلب کرتے ہیں۔ کیا ان کے لیے بطور نشانی قرآن کافی نہیں ہے جو ہم نے آپ پر نازل کیا ہے اور جس کی بابت انھیں چیلنج دیا گیا ہے کہ اس جیسا قرآن لا کردکھائیں یا کوئی ایک سورت ہی بنا کر پیش کردیں۔ جب قرآن کی اس معجزہ نمائی کے باوجود یہ قرآن پر ایمان نہیں لا رہے ہیں تو حضرت موسیٰ و عیسیٰ (علیہما السلام) کی طرح انھیں معجزے دکھا بھی دیے جائیں تو اس پر یہ کون سا ایمان لے آئیں گے۔ 512یعنی ان لوگوں کے لیے جو اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ یہ قرآن اللہ کی طرف سے آیا ہے، کیونکہ وہی اس سے متمتع اور فیض یاب ہوتے ہیں۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٨٣] یعنی پہلے انبیاء کو جتنے معجزات عطا کئے جاتے رہے وہ سب وقتی اور عارضی تھے جو کسی نے دیکھے کسی نے نہ دیکھے اور آج وہ سب ختم ہوچکے ہیں۔ لیکن یہ قرآن ایسا زندہ جاوید معجزہ ہے جس کی اعجازی کی تم خود بھی تسلیم کرتے ہو۔ پھر اور کون سا معجزہ چاہتے ہو ؟ پھر یہ کتاب اس لحاظ سے سب کے لئے اللہ کی خاص مہربانی ہے کہ وہ تمہاری زندگی کے ہر پہلو میں تمہاری ٹھیک ٹھیک راہنمائی بھی کرتی ہے۔- ربط مضمون کے لحاظ سے اس آیت کے مخاطب کفار ہیں اور اس کا وہی مطلب ہے جو اوپر بیان ہوا تاہم اس کے مخاطب مسلمان بھی ہیں۔ انھیں بھی اس کتاب کی موجودگی میں کسی اور کتاب ہدایت کی ضرورت نہیں ہے۔ خواہ وہ کوئی سابقہ آسمانی کتاب ہی کیوں نہ ہو۔ چناچہ حضرت جابر (رض) فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ حضرت عمر (رض) رسول اللہ کے پاس تورات کے کچھ اوراق لائے اور انھیں پڑھنا شروع کیا۔ آپ کا چہرہ متغیر ہو رہا تھا۔ یہ صورت حال دیکھ کر حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے حضرت عمر (رض) سے کہا کہ تم رسول اللہ کے چہرہ کی طرف نہیں دیکھتے ؟۔ حضرت عمر (رض) نے آپ کو دیکھا تو کہنے لگے کہ میں اللہ اور اس کے رسول کے غضب سے پناہ مانگتا ہوں، ہم اللہ کے رب ہونے پر، اسلام کے دین ہونے پر اور آپ کے نبی ہونے پر راضی ہوگئے۔ اس پر آپ کا غصہ فرو ہوگیا اور آپ نے فرمایا : اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی جان ہے کہ اگر آج موسیٰ ظاہر ہوجائیں اور تم مجھے چھوڑ کر اس کی پیروی کرو تو تم گمراہ ہوجاؤ گے۔ اور آج اگر موسیٰ زندہ ہوتے اور میری نبوت کا زمانہ پاتے تو میری اتباع کے سوا انھیں کوئی چارہ نہ ہوتا (مشکوۃ۔ کتاب الایمان۔ باب الاعتصام بالکتاب والسنہ۔ الفصیل الثالث)

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

اَوَلَمْ يَكْفِهِمْ اَنَّآ اَنْزَلْنَا عَلَيْكَ الْكِتٰبَ ۔۔ : فرمایا، یہ لوگ نشانی طلب کرتے ہیں، کیا نشانی کے لیے انھیں یہ کافی نہیں کہ ہم نے آپ پر یہ عظیم کتاب نازل کی ہے، جب کہ آپ اُمّی (اَن پڑھ) تھے ؟ ایک اَن پڑھ شخص پر اتنی عظیم کتاب کا نازل ہونا کیا کم معجزہ ہے، جس کی ایک سورت کی مثال لانے سے کل عالم عاجز ہے ؟ مطلب یہ کہ اگر تم ہدایت قبول کرنا چاہو تو قرآن کریم ہی اس مقصد کے لیے کافی معجزہ ہے، اس کے ہوتے ہوئے مزید نشانیاں طلب کرنا محض ہٹ دھرمی ہے۔ ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( مَا مِنَ الْأَنْبِیَاءِ نَبِيٌّ إِلاَّ أُعْطِيَ مِنَ الْآیَاتِ مَا مِثْلُہُ أُوْمِنَ ، أَوْ آمَنَ عَلَیْہِ الْبَشَرُ وَإِنَّمَا کَانَ الَّذِيْ أُوْتِیْتُہُ وَحْیًا أَوْحَاہ اللّٰہُ إِلَيَّ فَأَرْجُوْ أَنِّيْ أَکْثَرُہُمْ تَابِعًا یَوْمَ الْقِیَامَۃِ ) [ بخاري، الاعتصام بالکتاب والسنۃ، باب قول النبي (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بعثت بحوامع الکلم : ٧٢٧٤ ] ” انبیاء میں سے جو بھی نبی تھا، اسے نشانیوں میں سے ایسی نشانیاں دی گئیں جن نشانیوں (کو دیکھ کر ان ) پر آدمی ایمان لائے اور مجھے جو نشانی دی گئی وہ صرف وحی ہے، جو اللہ تعالیٰ نے میری طرف وحی فرمائی۔ اس لیے میں امید کرتا ہوں کہ قیامت کے دن میری پیروی کرنے والے ان سب سے زیادہ ہوں گے۔ “- يُتْلٰى عَلَيْهِمْ : یہ کتاب ہر جگہ اور ہر وقت ان کے سامنے پڑھی جا رہی ہے، یعنی ایسا نہیں کہ یہ معجزہ ان سے مخفی یا ان کی نگاہوں سے کسی وقت اوجھل ہو۔ جب کہ اس سے پہلے انبیاء کے معجزے ہر وقت سامنے نہیں ہوتے تھے۔ عصائے موسیٰ سانپ بنا مگر چند بار، ہر وقت نہیں۔- اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَرَحْمَةً وَّذِكْرٰي لِقَوْمٍ يُّؤْمِنُوْنَ : اس میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو عطا کردہ معجزہ (قرآن کریم) کی دوخصوصیات بیان فرمائیں، جو پہلے کسی پیغمبر کے معجزے میں نہیں تھیں۔ پہلی یہ کہ پہلے پیغمبروں کے معجزے ان کی اقوام کے لیے عذاب کا باعث ہوتے، کیونکہ ان میں حقیقت سے اس طرح پردہ اٹھا دیا گیا تھا کہ جب آنکھوں سے دیکھ کر وہ ایمان نہ لائے تو اللہ کے عذاب نے ان کا نام ونشان مٹا دیا۔ اس کے برعکس رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو عطا کردہ معجزہ (قرآن کریم) بنی نوع انسان کے لیے سراسر رحمت ہے، کیونکہ اسے نہ ماننے والوں کے لیے بھی مہلت ہے کہ ان پر فوراً عذاب نہیں آتا۔ یہ ”ۭ اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَرَحْمَةً “ کا مطلب ہے۔ دوسری خصوصیت یہ کہ پہلے پیغمبروں کے معجزے ان کے ساتھ ہی دنیا سے رخصت ہوگئے، جب کہ قرآن کریم قیامت تک اہل ایمان کی نصیحت اور یاد دہانی کے لیے باقی رہے گا۔ یہ ” ذکریٰ “ کا مفہوم ہے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

اَوَلَمْ يَكْفِہِمْ اَنَّآ اَنْزَلْنَا عَلَيْكَ الْكِتٰبَ يُتْلٰى عَلَيْہِمْ۝ ٠ۭ اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَرَحْمَۃً وَّذِكْرٰي لِقَوْمٍ يُّؤْمِنُوْنَ۝ ٥١ۧ- كفى- الكِفَايَةُ : ما فيه سدّ الخلّة وبلوغ المراد في الأمر . قال تعالی: وَكَفَى اللَّهُ الْمُؤْمِنِينَ الْقِتالَ- [ الأحزاب 25] ، إِنَّا كَفَيْناكَ الْمُسْتَهْزِئِينَ [ الحجر 95] . وقوله : وَكَفى بِاللَّهِ شَهِيداً [ النساء 79] قيل : معناه : كفى اللہ شهيدا، والباء زائدة . وقیل : معناه : اكْتَفِ بالله شهيدا «1» ، والکُفْيَةُ من القوت : ما فيه كِفَايَةٌ ، والجمع : كُفًى، ويقال : كَافِيكَ فلان من رجل، کقولک : حسبک من رجل .- ( ک ف ی ) الکفایۃ - وہ چیز جس سے ضرورت پوری اور مراد حاصل ہوجائے ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَكَفَى اللَّهُ الْمُؤْمِنِينَ الْقِتالَ [ الأحزاب 25] اور خدا مومنوں کے لئے جنگ کی ضرور یات کے سلسلہ میں کافی ہوا ۔ إِنَّا كَفَيْناكَ الْمُسْتَهْزِئِينَ [ الحجر 95] ہم تمہیں ان لوگوں کے شر سے بچا نے کے لئے جو تم سے استہزا کرتے ہیں کافی ہیں اور آیت کریمہ :- ۔ وَكَفى بِاللَّهِ شَهِيداً [ النساء 79] اور حق ظاہر کرنے کے لئے اللہ ہی کافی ہے میں بعض نے کہا ہے کہ باز زائد ہے اور آیت کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہی گواہ ہونے کے لئے کافی ہے اور بعض نے کہا ہے کہ با اصلی ہے اور آیت کے معنی یہ ہیں کہ گواہ ہونے کے لئے اللہ تعالیٰ پر ہی اکتفاء کرو الکفیۃ من القرت غذا جو گذارہ کے لئے کافی ہو ۔ ج کفی محاورہ ہے ۔ کافیک فلان من رجل یعنی فلاں شخص تمہارے لئے کافی ہے اور یہ حسبک من رجل کے محاورہ کے ہم معنی ہے ۔- رحم - والرَّحْمَةُ رقّة تقتضي الإحسان إلى الْمَرْحُومِ ، وقد تستعمل تارة في الرّقّة المجرّدة، وتارة في الإحسان المجرّد عن الرّقّة، وعلی هذا قول النّبيّ صلّى اللہ عليه وسلم ذاکرا عن ربّه «أنّه لمّا خلق الرَّحِمَ قال له : أنا الرّحمن، وأنت الرّحم، شققت اسمک من اسمي، فمن وصلک وصلته، ومن قطعک بتتّه» فذلک إشارة إلى ما تقدّم، وهو أنّ الرَّحْمَةَ منطوية علی معنيين : الرّقّة والإحسان، فركّز تعالیٰ في طبائع الناس الرّقّة، وتفرّد بالإحسان، فصار کما أنّ لفظ الرَّحِمِ من الرّحمة، فمعناه الموجود في الناس من المعنی الموجود لله تعالی، فتناسب معناهما تناسب لفظيهما . والرَّحْمَنُ والرَّحِيمُ ، نحو : ندمان وندیم، ولا يطلق الرَّحْمَنُ إلّا علی اللہ تعالیٰ من حيث إنّ معناه لا يصحّ إلّا له، إذ هو الذي وسع کلّ شيء رَحْمَةً ، والرَّحِيمُ يستعمل في غيره وهو الذي کثرت رحمته، قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ [ البقرة 182] ، وقال في صفة النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم : لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ [ التوبة 128] ، وقیل : إنّ اللہ تعالی: هو رحمن الدّنيا، ورحیم الآخرة، وذلک أنّ إحسانه في الدّنيا يعمّ المؤمنین والکافرین، وفي الآخرة يختصّ بالمؤمنین، وعلی هذا قال : وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُها لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأعراف 156] ، تنبيها أنها في الدّنيا عامّة للمؤمنین والکافرین، وفي الآخرة مختصّة بالمؤمنین .- ( ر ح م ) الرحم ۔- الرحمۃ وہ رقت قلب جو مرحوم ( یعنی جس پر رحم کیا جائے ) پر احسان کی مقتضی ہو ۔ پھر کبھی اس کا استعمال صرف رقت قلب کے معنی میں ہوتا ہے اور کبھی صرف احسان کے معنی میں خواہ رقت کی وجہ سے نہ ہو ۔ اسی معنی میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک حدیث قدسی میں فرمایا ہے (152) انہ لما خلق اللہ الرحم قال لہ انا الرحمن وانت الرحم شفقت اسمک میں اسمی فمن وصلک وصلتہ ومن قطعت قطعتۃ ۔ کہ جب اللہ تعالیٰ نے رحم پیدا کیا تو اس سے فرمایا :۔ تین رحمان ہوں اور تو رحم ہے ۔ میں نے تیرے نام کو اپنے نام سے اخذ کیا ہے ۔ پس جو تجھے ملائے گا ۔ ( یعنی صلہ رحمی کرے گا ) میں بھی اسے ملاؤں گا اور جو تجھے قطع کرلیگا میں اسے پارہ پارہ کردوں گا ، ، - اس حدیث میں بھی معنی سابق کی طرف اشارہ ہے کہ رحمت میں رقت اور احسان دونوں معنی پائے جاتے ہیں ۔ پس رقت تو اللہ تعالیٰ نے طبائع مخلوق میں ودیعت کردی ہے احسان کو اپنے لئے خاص کرلیا ہے ۔ تو جس طرح لفظ رحم رحمت سے مشتق ہے اسی طرح اسکا وہ معنی جو لوگوں میں پایا جاتا ہے ۔ وہ بھی اس معنی سے ماخوذ ہے ۔ جو اللہ تعالیٰ میں پایا جاتا ہے اور ان دونوں کے معنی میں بھی وہی تناسب پایا جاتا ہے جو ان کے لفظوں میں ہے : یہ دونوں فعلان و فعیل کے وزن پر مبالغہ کے صیغے ہیں جیسے ندمان و ندیم پھر رحمن کا اطلاق ذات پر ہوتا ہے جس نے اپنی رحمت کی وسعت میں ہر چیز کو سما لیا ہو ۔ اس لئے اللہ تعالیٰ کے سوا اور کسی پر اس لفظ کا اطلاق جائز نہیں ہے اور رحیم بھی اسماء حسنیٰ سے ہے اور اس کے معنی بہت زیادہ رحمت کرنے والے کے ہیں اور اس کا اطلاق دوسروں پر جائز نہیں ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے :َ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ [ البقرة 182] بیشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے ۔ اور آنحضرت کے متعلق فرمایا ُ : لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ [ التوبة 128] لوگو تمہارے پاس تمہیں سے ایک رسول آئے ہیں ۔ تمہاری تکلیف ان پر شاق گزرتی ہے ( اور ) ان کو تمہاری بہبود کا ہو کا ہے اور مسلمانوں پر نہایت درجے شفیق ( اور ) مہربان ہیں ۔ بعض نے رحمن اور رحیم میں یہ فرق بیان کیا ہے کہ رحمن کا لفظ دنیوی رحمت کے اعتبار سے بولا جاتا ہے ۔ جو مومن اور کافر دونوں کو شامل ہے اور رحیم اخروی رحمت کے اعتبار سے جو خاص کر مومنین پر ہوگی ۔ جیسا کہ آیت :۔ وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُها لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأعراف 156] ہماری جو رحمت ہے وہ ( اہل ونا اہل ) سب چیزوں کو شامل ہے ۔ پھر اس کو خاص کر ان لوگوں کے نام لکھ لیں گے ۔ جو پرہیزگاری اختیار کریں گے ۔ میں اس بات پر متنبہ کیا ہے کہ دنیا میں رحمت الہی عام ہے اور مومن و کافروں دونوں کو شامل ہے لیکن آخرت میں مومنین کے ساتھ مختص ہوگی اور کفار اس سے کلیۃ محروم ہوں گے )- ذكر ( نصیحت)- وذَكَّرْتُهُ كذا، قال تعالی: وَذَكِّرْهُمْ بِأَيَّامِ اللَّهِ [إبراهيم 5] ، وقوله : فَتُذَكِّرَ إِحْداهُمَا الْأُخْرى [ البقرة 282] ، قيل : معناه تعید ذكره، وقد قيل : تجعلها ذکرا في الحکم «1» . قال بعض العلماء «2» في الفرق بين قوله : فَاذْكُرُونِي أَذْكُرْكُمْ [ البقرة 152] ، وبین قوله : اذْكُرُوا نِعْمَتِيَ [ البقرة 40] : إنّ قوله : فَاذْكُرُونِي مخاطبة لأصحاب النبي صلّى اللہ عليه وسلم الذین حصل لهم فضل قوّة بمعرفته تعالی، فأمرهم بأن يذكروه بغیر واسطة، وقوله تعالی: اذْكُرُوا نِعْمَتِيَ مخاطبة لبني إسرائيل الذین لم يعرفوا اللہ إلّا بآلائه، فأمرهم أن يتبصّروا نعمته، فيتوصّلوا بها إلى معرفته .- الذکریٰ ۔ کثرت سے ذکر الہی کرنا اس میں ، الذکر ، ، سے زیادہ مبالغہ ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ ذَكَّرْتُهُ كذا قرآن میں ہے :۔ وَذَكِّرْهُمْ بِأَيَّامِ اللَّهِ [إبراهيم 5] اور ان کو خدا کے دن یاد دلاؤ ۔ اور آیت کریمہ ؛فَتُذَكِّرَ إِحْداهُمَا الْأُخْرى [ البقرة 282] تو دوسری اسے یاد دلا دے گی ۔ کے بعض نے یہ معنی کئے ہیں کہ اسے دوبارہ یاد دلاوے ۔ اور بعض نے یہ معنی کئے ہیں وہ حکم لگانے میں دوسری کو ذکر بنادے گی ۔ بعض علماء نے آیت کریمہ ؛۔ فَاذْكُرُونِي أَذْكُرْكُمْ [ البقرة 152] سو تم مجھے یاد کیا کر میں تمہیں یاد کروں گا ۔ اذْكُرُوا نِعْمَتِيَ [ البقرة 40] اور میری وہ احسان یاد کرو ۔ میں یہ فرق بیان کیا ہے کہ کے مخاطب آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اصحاب ہیں جنہیں معرفت الہی میں فوقیت حاصل تھی اس لئے انہیں براہ راست اللہ تعالیٰ کو یاد کرنے کا حکم دیا گیا ہے ۔ اور دوسری آیت کے مخاطب بنی اسرائیل ہیں جو اللہ تعالیٰ کو اس نے انعامات کے ذریعہ سے پہچانتے تھے ۔ اس بنا پر انہیں حکم ہوا کہ انعامات الہی میں غور فکر کرتے رہو حتی کہ اس ذریعہ سے تم کو اللہ تعالیٰ کی معرفت حاصل ہوجائے ۔ - قوم - والقَوْمُ : جماعة الرّجال في الأصل دون النّساء، ولذلک قال : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات 11] ، - ( ق و م ) قيام - القوم۔ یہ اصل میں صرف مرودں کی جماعت پر بولا جاتا ہے جس میں عورتیں شامل نہ ہوں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات 11]

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ ان سے فرما دیجیے کہ وہ نشانیاں تو اللہ تعالیٰ کے قبضۃ قدرت میں ہیں۔ اسی کی طرف سے آئیں گی تو ایک ایسی زبان میں جس کو تم بھی سمجھتے ہو ڈرانے والا رسول ہوں۔ اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کیا ان مکہ والوں کے لیے آپ کی نبوت پر دلالت کے لیے یہ بات کافی نہیں ہوئی کہ ہم نے آپ پر کتاب نازل فرمائی جس میں سے اوامرو نواہی اور گزشتہ قوموں کے واقعات ان کے سامنے پڑھ کر سنائے جاتے ہیں بیشک اس قرآن حکیم میں اہل ایمان کے لیے عذاب سے بڑی رحمت اور نصیحت ہے۔- شان نزول : اَوَلَمْ يَكْفِهِمْ اَنَّآ اَنْزَلْنَا عَلَيْكَ (الخ)- ابن جریر اور ابن ابی حاتم اور دارمی نے اپنی مسند میں عمرو بن دینار کے طریقے سے یحییٰ بن جعدہ (رض) سے روایت کیا ہے کہ مسلمانوں میں سے کچھ لوگ آئے ان کے پاس کچھ لکھی ہوئی باتیں تھیں جو انہوں نے یہودیوں سے سن کر لکھ رکھی تھیں اس پر نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا ایک قوم کی گمراہی کے لیے بس یہی کافی ہے کہ ان کے پاس جو ان کا نبی لے کر آیا ہے وہ اس سے اپنے غیروں کی طرف جن کے پاس ان کا غیر لے کر آیا ہے منہ موڑیں اس پر یہ آیت مبارکہ نازل ہوئی کیا ان لوگوں کو یہ بات کافی نہیں ہوئی کہ ہم نے آپ پر یہ کتاب نازل فرمائی۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٥١ (اَوَلَمْ یَکْفِہِمْ اَنَّآ اَنْزَلْنَا عَلَیْکَ الْکِتٰبَ یُتْلٰی عَلَیْہِمْ ط) ” - اگر یہ معجزہ کے منتظر ہیں تو انہیں قرآن جیسا عظیم الشان معجزہ کیوں نظر نہیں آتا ؟ کیا ہم نے انہیں بار بار چیلنج نہیں کیا کہ اس جیسا کلام تم لوگ بھی بنا کر دکھاؤ ؟ اور کیا یہ لوگ اس چیلنج کا جواب دینے سے عاجز نہیں ہیں ؟ اگر کوئی شخص واقعی حق اور ہدایت کا طالب ہو تو اس کے لیے یہی ایک معجزہ کافی ہے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة العنکبوت حاشیہ نمبر : 91 یعنی امی ہونے کے باوجود تم پر قرآن جیسی کتاب کا نازل ہونا کیا یہ بجائے خود اتنا بڑا معجزہ نہیں ہے کہ تمہاری رسالت پر یقین لانے کے لیے یہ کافی ہو؟ اس کے بعد بھی کسی اور معجزے کی ضرورت باقی رہ جاتی ہے؟ دوسرے معجزے تو جنہوں نے دیکھے ان کے لیے وہ معجزے تھے ۔ مگر یہ معجزہ تو ہر وقت تمہارے سامنے ہے تمہیں آئے دن پڑھ کر سنایا جاتا ہے ، تم ہر وقت اسے دیکھ سکتے ہو ۔ قرآن مجید کے اس بیان و استدلال کے بعد ان لوگوں کی جسارت حیرت انگیز ہے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو خواندہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ حالانکہ یہاں قرآن صاف الفاظ میں حضور کے ناخواندہ ہونے کو آپ کی نبوت کے حق میں ایک طاقت ور ثبوت کے طور پر پیش کر رہا ہے ۔ جن روایات کا سہارا لے کر یہ دعوی کیا جاتا ہے کہ حضور لکھے پڑھے تھے ، یا بعد میں آپ نے لکھنا پڑھنا سیکھ لیا تھا وہا ول تو پہلی ہی نظر میں رد کردینے کے لائق ہیں کیونکہ قرآن کے خلاف کوئی روایت بھی قابل قبول نہیں ہوسکتی ۔ پھر وہ بجائے خود بھی اتنی کمزور ہیں کہ ان پر کسی استدلال کی بنیاد قائم نہیں ہوسکتی ۔ ان میں سے ایک بخاری کی روایت ہے کہ صلح حدیبیہ کا معاہدہ جب لکھا جارہا تھا تو کفار مکہ کے نمائندے نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نام کے ساتھ رسول اللہ لکھے جانے پر اعتراض کیا ۔ اس پر حضور نے کاتب ( یعنی حضرت علی ) کو حکم دیا کہ اچھا رسول اللہ کا لفظ کاٹ کر محمد بن عبداللہ لکھ دو ۔ حضرت علی نے لفظ رسول اللہ کاٹنے سے انکار کردیا ۔ اس پر حضور نے ان کے ہاتھ سے قلم لے کر وہ الفاظ خود کاٹ دیے اور محمد بن عبداللہ لکھ دیا ۔ لیکن یہ روایت براء بن عازب سے بخاری میں چار جگہ اور مسلم میں دو جگہ وارد ہوئی ہے اور ہر جگہ الفاظ مختلف ہیں: ( ۱ ) بخاری کتاب الصلح میں ایک روایت کے الفاظ یہ ہیں: قال لعلی امحہ فقال علی ما انا بالذی امحاہ فمحاہ رسول اللہ بیدہ ۔ حضور نے حضرت علی سے فرمایا یہ الفاظ کاٹ دو ، انہوں نے عرض کیا میں تو نہیں کاٹ سکتا ۔ آخر کار حضور نے اپنے ہاتھ سے انہیں کاٹ دیا ۔ ( ۲ ) اسی کتاب میں دوسری روایت کے الفاظ یہ ہیں: ثم قال لعلی امح رسول اللہ قال لا واللہ لا امحوک ابدا فاخذ رسول اللہ الکتاب فکتب ھذا ما قاضی علیہ محمد بن عبداللہ ۔ پھر علی سے کہا رسول اللہ کاٹ دو ۔ انہوں نے کہا خدا کی قسم میں آپ کا نام کبھی نہ کاٹوں گا ۔ آخر حضور نے تحریر لے کر لکھا یہ وہ معاہدہ ہے جو محمد بن عبداللہ نے طے کیا ۔ ( ۳ ) تیسری روایت انہی براء بن عازب سے بخاری کتاب الجزیہ میں یہ ہے : وکان لا یکتب فقال لعلی امح رسول اللہ فقال علی واللہ لا امحاہ ابدا قال فارنیہ قال فاراہ ایاہ فمحاہ النبی صلی اللہ علیہ وسلم بیدہ ۔ حضور خود نہ لکھ سکتے تھے ۔ آپ نے حضرت علی سے کہا رسول اللہ کاٹ دو ۔ انہوں نے عرض کیا خدا کی قسم میں یہ الفاظ ہرگز نہ کاٹوں گا ۔ اس پر حضور نے فرمایا مجھے وہ جگہ بتاؤ جہاں یہ الفاظ لکھے ہیں ۔ انہوں نے آپ کو جگہ بتائی اور آپ نے اپنے ہاتھ سے وہ الفاظ کاٹ دیے ۔ ( ٤ ) چوتھی روایت بخاری کتاب المغازی میں یہ ہے: فاخذ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم الکتاب و لیس یحسن یکتب فکتب ھذا ما قاضی محمد بن عبداللہ ۔ پس حضور نے وہ تحریر لے لی درآنحالیکہ آپ لکھنا نہ جانتے تھے اور آپ نے لکھا یہ وہ معاہدہ ہے جو محمد بن عبداللہ نے طے کیا ۔ ( ۵ ) انہی براء بن عازب سے مسلم کتاب الجہاد میں ایک روایت یہ ہے کہ حضرت علی کے انکار کرنے پر حضور نے اپنے ہاتھ سے رسول اللہ کے الفاظ مٹا دیے ۔ ( ٦ ) دوسری روایت اسی کتاب میں ان سے یہ منقول ہے کہ حضور نے حضرت علی سے فرمایا مجھے بتاؤ رسول اللہ کا لفظ کہاں لکھا ہے ، حضرت علی نے آپ جو جگہ بتائی اور آپ نے اسے مٹا کر ابن عبداللہ لکھ دیا ۔ روایات کا یہ اضطراب صاف بتا رہا ہے کہ بیچ کے راویوں نے حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ کے الفاظ جوں کے توں نقل نہیں کیے ہیں ، اسی لیے ان میں سے کسی ایک کی نقل پر بھی ایسا مکمل اعتماد نہیں کیا جاسکتا کہ یقینی طور پر یہ کہا جاسکے کہ حضور نے محمد بن عبداللہ کے الفاظ اپنے دست مبارک ہی سے لکھے تھے ، ہوسکتا ہے کہ صحیح صورت واقعہ یہ ہو کہ جب حضرت علی نے رسول اللہ کا لفظ مٹانے سے انکار کردیا تو آپ نے اس کی جگہ ان سے پوچھ کر یہ لفظ اپنے ہاتھ سے مٹا دیا ہو اور پھر ان سے یا کسی دوسرے کاتب سے ابن عبداللہ کے الفاظ لکھوا دیے ہوں ۔ دوسری روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ اس موقع پر صلح نامہ دو کاتب لکھ رہے تھے ۔ ایک حضرت علی ، دوسرے محمد بن مسلمہ ( فتح الباری ، جلد 5 ، ص 217 ) اس لیے یہ امر بعید نہیں ہے کہ جو کام ایک کاتب نے نہ کیا تھا وہ دوسرے کاتب سے لے لیا گیا ہو ۔ تاہم اگر واقعہ یہی ہو کہ حضور نے اپنا نام اپنے ہی دست مبارک سے لکھا ہو ، تو ایسی مثالیں دنیا میں بکثرت پائی جاتی ہیں کہ ان پڑھ لوگ صرف اپنا نام لکھنا سیکھ لیتے ہیں باقی کوئی چیز نہ پڑھ سکتے ہیں نہ لکھ سکتے ہیں ۔ دوسری روایت جس کی بنا پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے خواندہ ہونے کا دعوی کیا گیا ہے مجاہد سے ابن ابی شیبہ اور عمر بن شبہ نے نقل کی ہے ۔ اس کے الفاظ یہ ہیں کہ : ما مات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حتی کتب وقرا ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی وفات سے پہلے لکھنا پڑحنا سیکھ چکے تھے ۔ لیکن اول تو یہ سندا بہت ضعیف روایت ہے جیسا کہ حافظ ابن کثیر فرماتے ہیں فضعیف لا اصل لہ ۔ دوسرے اس کی کمزوری یوں بھی واضح ہے کہ اگر حضور نے فی الواقع بعد میں لکھنا پڑھنا سیکھا ہوتا تو یہ بات مشہور ہوجاتی ، بہت سے صحابہ اس کو روایت کرتے اور یہ بھی معلوم ہوجاتا ہے کہ حضور نے کس شخص یا کن اشخاص سے یہ تعلیم حاصل کی تھی ۔ لیکن سوائے ایک عون بن عبداللہ کے جن سے مجاہد نے یہ بات سنی اور کوئی شخص اسے روایت نہیں کرتا ۔ اور یہ عون بھی صحابی نہیں بلکہ تابعی ہیں جنہوں نے قطعا یہ نہیں بتایا کہ انہیں کس صحابی یا کن صحابیوں سے اس واقعہ کا علم حاصل ہوا ۔ ظاہر ہے کہ ایسی کمزور روایتوں کی بنیاد پر کوئی ایسی بات قابل تسلیم نہیں ہوسکتی جو مشہور و معروف واقعات کی تردید کرتی ہو ۔ سورة العنکبوت حاشیہ نمبر : 92 یعنی بلا شبہ اس کتاب کا نزول اللہ تعالی کی بہت بڑی مہربانی ہے اور یہ بندوں کے لیے بڑی پندو نصیحت پر مشتمل ہے ، مگر اس کا فائدہ صرف وہی لوگ اٹھا سکتے ہیں جو اس پر ایمان لائیں ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani