Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

سب سے بہتر شخص کون؟ اور سب سے بہتر امت کا اعزاز کس کو ملا ؟ اللہ تعالیٰ خبر دے رہا ہے کہ امت محمدیہ تمام امتوں پر بہتر ہے صحیح بخاری شریف میں ہے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں تم اوروں کے حق میں سب سے بہتر ہو تو لوگوں کی گردنیں پکڑ پکڑ کر اسلام کی طرف جھکاتے ہو ، اور مفسرین بھی یہی فرماتے ہیں مطلب یہ ہے کہ تم تمام امتوں سے بہتر ہو اور سب سے زیادہ لوگوں کو نفع پہنچانے والے ہو ، ابو لہب کی بیٹی حضرت درہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں ایک مرتبہ کسی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا آپ اس وقت منبر پر تھے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کونسا شخص بہتر ہے؟ آپ نے فرمایا سب لوگوں سے بہتر وہ شخص ہے جو سب سے زیادہ قاری قرآن ہو سب سے زیادہ پرہیزگار ہو ، سب سے زیادہ اچھائیوں کا حکم کرنے والا سب سے زیادہ برائیوں سے روکنے والا سب سے زیادہ رشتے ناتے ملانے والا ہو ۔ ( مسند احمد ) حضرت ابن عباس فرماتے ہیں یہ وہ صحابہ ہیں جنہوں نے مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت کی ، صحیح بات یہ ہے کہ یہ آیت ساری امت پر مشتمل ہے ، بیشک یہ حدیث میں بھی ہے کہ سب سے بہتر میرا زمانہ ہے پھر اس کے بعد اس سے ملا ہوا زمانہ پھر اس کے بعد والا ، ایک اور روایت میں ہے آیت ( وَكَذٰلِكَ جَعَلْنٰكُمْ اُمَّةً وَّسَطًا لِّتَكُوْنُوْا شُهَدَاۗءَ عَلَي النَّاسِ وَيَكُـوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَيْكُمْ شَهِيْدًا ) 2 ۔ البقرۃ:143 ) ہم نے تمہیں بہتر امت بنایا ہے تاہم تم لوگوں پر گواہ بنو ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں تم نے اگلی امتوں کی تعداد ستر تک پہنچا دی ہے ، اللہ کے نزدیک تم ان سب سے بہتر اور زیادہ بزرگ ہو ، یہ مشہور حدیث ہے امام ترمذی نے اسے حسن کہا ہے ، اس امت کی افضلیت کی ایک بڑی دلیل اس امت کے نبی کی افضلیت ہے ، آپ تمام مخلوق کے سردار تمام رسولوں سے زیادہ اکرام و عزت والے ہیں ، آپ کی شرع اتنی کامل اور اتنی پوری ہے کہ ایسی شریعت کسی نبی کو نہیں تو ظاہر بات ہے کہ ان فضائل کو سمیٹتے والی امت بھی سب سے اعلیٰ و افضل ہے ، اس شریعت کا تھوڑا سا عمل بھی اور امتوں کے زیادہ عمل سے بہتر و افضل ہے ، حضرت علی بن ابو طالب رضلی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں وہ وہ نعمتیں دیا گیا ہوں جو مجھ سے پہلے کوئی نہیں دیا گیا لوگوں نے پوچھا وہ کیا باتیں ہیں ، آپ نے فرمایا میری مدد رعب سے کی گئی ہے میں زمین کی کنجیاں دیا گیا ہوں ، میرا نام احمد رکھا گیا ہے ، میرے لئے مٹی پاک کی گئی ہے ، میری امت سب امتوں سے بہتر بنائی گئی ہے ( مسند احمد ) اس حدیث کی اسناد حسن ہے ، حضرت ابو الدرداء رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں میں نے ابو القاسم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے فرمایا کہ میں تمہارے بعد ایک امت پیدا کرنے والا ہوں جو راحت پر حمدو شکر کریں گے اور مصیبت پر طلب ثواب اور صبر کریں گے حالانکہ انہیں حلم و علم نہ ہوگا آپ نے تعجب سے پوچھا کہ بغیر بردباری اور دور اندیشی اور پختہ علم کے یہ کیسے ممکن ہے؟ رب العالمین نے فرمایا میں انہیں اپنا حلم و علم عطا فرماؤں گا ، میں چاہتا ہوں یہاں پر بعض وہ حدیثیں بھی بیان کر دوں جن کا ذکر یہاں مناسب ہے سنئے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں میری امت میں سے ستر ہزار شخص بغیر حساب کتاب کے جنت میں جائیں گے جن کے چہرے چودھویں رات کے چاند کی طرح روشن ہوں گے سب یک رنگ ہونگے ، میں نے اپنے رب سے گزارش کی کہ اے اللہ اس تعداد میں اور اضافہ فرما اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا ہر ایک کے ساتھ ستر ہزار اور بھی ، حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ یہ حدیث بیان کر کے فرمایا کرتے تھے کہ پھر تو اس تعداد میں گاؤں اور دیہاتوں والے بلکہ بادیہ نشین بھی آجائیں گے ( مسند احمد ) حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں مجھے میرے رب نے ستر ہزار آدمیوں کو میری امت میں سے بغیر حساب کے جنت میں داخل ہونے کی خوشخبری دی ، حضرت عمر نے یہ سن کر فرمایا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کچھ اور زیادتی طلب کرتے آپ نے فرمایا میں نے اپنے رب سے سوال کیا تو مجھے خوشخبری ملی کے ہر شخص کے ساتھ ستر ستر ہزار کا وعدہ ہوا ۔ حضرت عمر نے پھر گزارش کی کہ اللہ کے نبی اور کچھ بھی مانگتے آپ نے فرمایا مانگا تو مجھے اتنی زیادتی اور ملی اور پھر دونوں ہاتھ پھیلا کر بتایا کہ اس طرح ، راوی حدیث کہتے ہیں اس طرح جب اللہ تعالیٰ سمیٹے تو اللہ عزوجل ہی جانتا ہے کہ کس قدر مخلوق اس میں آئے گی ( فسبحان اللہ وبحمدہ ) ( مسند احمد ) حضرت ثوبان رضی اللہ تعالیٰ عنہ حمص میں بیمار ہو گئے عبداللہ بن قرط وہاں کے امیر تھے وہ عیادت کو نہ آسکے ایک کلاعی شخص جب آپ کی بیمار پرسی کیلئے گیا تو آپ نے اس سے دریافت کیا کہ لکھنا جانتے ہو اس نے کہا ہاں فرمایا لکھو یہ خط ثوبان کی طرف سے امیر عبداللہ بن قرط کی طرف سے ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خادم ہیں بعد حمد و صلوٰۃ کے واضح ہو کہ اگر حضرت عیسیٰ یا حضرت موسیٰ کا کوئی خادم یہاں ہوتا اور بیمار پڑتا تو تم عیادت کیلئے جاتے پھر کہا یہ خط لے جاؤ اور امیر کو پہنچا دو جب یہ خط امیر حمص کے پاس پہنچا تو گھبرا کر اٹھ کھڑے ہوئے اور سیدھے یہاں تشریف لائے کچھ دیر بیٹھ کر عیادت کر کے جب جانے کا ارادہ کیا تو حضرت ثوبان نے ان کی چادر پکڑ روکا اور فرمایا ایک حدیث سنتے جائیں میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے سنا ہے آپ نے فرمایا میری امت میں سے ستر ہزار شخص بغیر حساب و عذاب کے جنت میں جائیں گے ہر ہزار کے ساتھ ستر ہزار اور ہوں گے ( مسند احمد ) یہ حدیث بھی صحیح ہے ، حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں ایک رات ہم خدمت نبوی میں دیر تک باتیں کرتے رہے پھر صبح جب حاضر خدمت ہوئے تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا سنو آج رات انبیاء اپنی اپنی امت سمیت مجھے دکھائے گئے بعض انبیاء کے ساتھ صرف تین شخص تھے بعض کے ساتھ مختصر ساگر وہ بعض کے ساتھ ایک جماعت کسی کے ساتھ کوئی بھی نہ تھا جب موسیٰ علیہ السلام آئے تو ان کے ساتھ بہت سے لوگ تھے مجھے یہ جماعت پسند آئی میں نے پوچھایہ کون ہیں تو جواب ملا کہ یہ آپ کے بھائی موسیٰ علیہ السلام ہیں اور ان کے ساتھ بنی اسرائیل ہیں میں نے کہا پھر میری امت کہاں ہے جواب ملا اپنی داہنی طرف دیکھو اب جو دیکھتا ہوں تو بیشمار مجمع ہے جس سے پہاڑیاں بھی ڈھک گئی ہیں اب مجھ سے پوچھا گیا کہو خوش ہو میں نے کہا میرے رب میں راضی ہو گیا ، فرمایا گیا سنو ان کے ساتھ ستر ہزار اور ہیں جو بغیر حساب کے جنت میں داخل ہوں گے ، اب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم پر میرے میں باپ فدا ہوں اگر ہو سکے تو ان ستر ہزار میں سے ہی ہونا اگر یہ نہ ہو سکے تو ان میں سے ہو جو پہاڑیوں کو چھپائے ہوئے تھے اگر یہ بھی نہ ہو سکے تو ان میں سے ہونا جو آسمان کے کناروں کناروں پر تھے ، حضرت عکاش بن محصن نے کھڑے ہو کر کہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم میرے لئے دعا کیجئے کہ اللہ تعالیٰ مجھے ان ستر ہزار میں سے کرے آپ نے دعا کی تو ایک دوسرے صحابی نے بھی اٹھ کر یہی گزارش کی تو آپ نے فرمایا تم پر حضرت عکاشہ سبقت کر گئے ، ہم اب آپس میں کہنے لگے کہ شاید یہ ستر ہزار لوگ ہوں گے جو اسلام پر ہی پیدا ہوئے ہوں اور پوری عمر میں کبھی اللہ کے ساتھ شرک کیا ہی نہ ہو آپ کو جب یہ معلوم ہوا تو فرمایا یہ وہ لوگ ہیں جو دم جھاڑا نہیں کراتے آگ کے داغ نہیں لگواتے شگون نہیں لیتے اور اپنے رب پر پورا بھروسہ رکھتے ہیں ( مسند احمد ) ایک اور سند سے اتنی زیادتی اس میں اور بھی ہے جب میں نے اپنی رضامندی ظاہر کی تو مجھ سے کہا گیا اب اپنی بائیں جانب دیکھو میں نے دیکھا تو بیشمار مجمع ہے جس نے آسمان کے کناروں کو بھی ڈھک لیا ہے ایک اور روایت میں ہے کہ موسم حج کا یہ واقعہ ہے آپ فرماتے ہیں مجھے اپنی امت کی یہ کثرت بہت پسند آئی تمام پہاڑیاں اور میدان ان سے پُر تھے ( مسند احمد ) ایک اور روایت میں ہے کہ حضرت عکاشہ کے بعد کھڑے ہونے والے ایک انصاری تھے رضی اللہ تعالیٰ عنہ ( طبرانی ) ایک اور روایت میں ہے کہ میری امت میں سے ستر ہزار یا ساٹھ لاکھ آدمی جنت میں جائیں گے جو ایک دوسرے کا ہاتھ تھامے ہوئے ہوں گے سب ایک ساتھ جنت میں جائیں گے چمکتے ہوئے چودھویں رات کے چاند جیسے ان کے چہرے ہوں گے ۔ ( بخاری مسلم طبرانی ) حصین بن عبدالرحمن کہتے ہیں کہ سعید بن جیبر کے پاس تھا تو آپ نے دریافت کیا رات کو جو ستارہ ٹوٹا تھا تم میں سے کسی نے دیکھا تھا میں نے کہا ہاں حضرت میں نے دیکھا تھا یہ نہ سمجھئے گا کہ میں نماز میں تھا بلکہ مجھے بچھو نے کاٹ کھایا تھا حضرت سعید نے پوچھا پھر تم نے کیا کیا میں نے کہا دم کر دیا تھا کہا کیوں میں نے کہا حضرت شعبی نے بریدہ بن حصیب کی روایت سے حدیث بیان کی ہے کہ نظربد اور زہریلے جانوروں کا دم جھاڑا کرانا ہے کہنے لگے خیر جسے جو پہنچے اس پر عمل کرے ہمیں تو حضرت ابن عباس نے سنایا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مجھ پر امتیں پیش کی گئیں کسی نبی کے ساتھ ایک جماعت تھی کسی کے ساتھ ایک شخص اور دو شخص اور کسی نبی کے ساتھ کوئی نہ تھا اب جو دیکھا کہ ایک بڑی پر جماعت نظر پڑی میں سمجھا یہ تو میری امت ہوگی پھر معلوم ہوا کہ موسیٰ علیہ السلام کی امت ہے مجھ سے کہا گیا آسمان کے کناروں کی طرف دیکھو میں نے دیکھا تو وہاں بیشمار لوگ تھے مجھ سے کہا گیا یہ آپ کی امت ہے اور ان کے ساتھ ستر ہزار اور ہیں جو بےحساب اور بےعذاب جنت میں جائیں گے یہ حدیث بیان فرما کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم تو مکان پر چلے گئے اور صحابہ آپس میں کہنے لگے شاید یہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی ہوں گے کسی نے کہا نہیں اسلام میں پیدا ہونے والے اور اسلام پر ہی مرنے والے ہوں گے وغیرہ وغیرہ آپ تشریف لائے اور پوچھا کیا باتیں کر رہے ہو ہم نے ذکر کیا تو آپ نے فرمایا نہیں یہ وہ لوگ ہیں جو نہ دم جھاڑا کریں نہ کرائیں ، نہ داغ لگوائیں نہ شگون لیں بلکہ اپنے رب پر بھروسہ رکھیں حضرت عکاشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے دعا کی درخواست کی آپ نے دعا کی یا اللہ تو اسے ان میں سے ہی بنا ۔ پھر دوسرے شخص نے بھی یہی کہا آپ نے فرمایا عکاشہ آگے بڑھ گئے ، یہ حدیث بخاری میں ہے لیکن اس میں دم جھاڑا نہیں کرنے کا لفظ نہیں صحیح مسلم میں یہ لفظ بھی ہے ۔ ایک اور مطول حدیث میں ہے کہ پہلی جماعت تو نجات پائے گی ان کے چہرے چودھویں رات کے چاند کی طرح روشن ہوں گے ان سے حساب بھی نہ لیا جائے گا پھر ان کے بعد والے سب سے زیادہ روشن ستارے جیسے چمکدار چہرے والے ہوں گے ( مسلم ) آپ فرماتے ہیں مجھ سے میرے رب کا وعدہ ہے کہ میری امت میں سے ستر ہزار شخص بغیر حساب و عذاب کے داخل بہشت ہوں گے ہر ہزار کے ساتھ ستر ہزار ہوں گے اور تین لپیں اور میرے رب عزوجل کی لپوں سے ( کتاب السنن لحافظ ابی بکر بن عاصم ) اس کی اسناد بہت عمدہ ہے ایک اور حدیث میں ہے کہ آپ سے ستر ہزار کی تعداد سن کر یزید بن اخنس نے کہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم یہ تو آپ کی امت کی تعداد کے مقابلہ میں بہت ہی تھوڑے ہیں تو آپ نے فرمایا ہر ہزار کے ساتھ ستر ہزار ہیں اور پھر اللہ نے تین لپیں ( ہتھیلیوں کا کشکول ) بھر کر اور بھی عطا فرمائے ہیں ، اسکی اسناد بھی حسن ہے ( کتاب السنن اور ایک اور حدیث میں ہے کہ میرے رب نے جو عزت اور جلال والا ہے مجھ سے وعدہ کیا ہے کہ میری امت میں سے ستر ہزار کو بلا حساب جنت میں لے جائے گا پھر ایک ایک ہزار کی شفاعت سے ستر ستر ہزار آدمی اور جائیں گے پھر میرا رب اپنے دونوں ہاتھوں سے تین لپیں ( دونوں ہاتھوں کی ہھتیلیوں کو ملا کر کٹورا بنانا ) بھر کر اور ڈالے گا حضرت عمر نے یہ سن کر خوش ہو کر اللہ اکبر کہا اور فرمایا کہ ان کی شفاعت ان کے باپ دادوں اور بیٹوں اور بیٹیوں اور خاندان و قبیلہ میں ہو گی اللہ کرے میں تو ان میں سے ہو جاؤں جنہیں اللہ تعالیٰ اپنی لپوں میں بھر کر آخر میں جنت میں لے جائے گا ( طبرانی ) اس حدیث کی سند میں بھی کوئی علت نہیں ، واللہ اعلم ، کرید میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک حدیث فرمائی جس میں جنت میں یہ بھی فرمایا یہ ستر ہزار جو بلا حساب جنت میں داخل کئے جائیں گے میراخیال ہے کہ ان کے آتے آتے تو تم اپنے لئے اور اپنے بال بچوں اور بیویوں کیلئے جنت میں جگہ مقرر کر چکے ہونگے ( مسند احمد ) اس کی سند میں شرط مسلم پر ہے ، ایک اور حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ کا وعدہ ہے کہ میری امت میں سے چار لاکھ آدمی جنت میں جائیں گے ، حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کچھ اور زیادہ کیجئے اسے سن کر حضرت عمر نے فرمایا ابو بکر بس کرو صدیق نے جواب دیا کیوں صاحب اگر ہم سب کے سب جنت میں چلے جائیں گے تو آپ کو کیا نقصان ہے حضرت عمر نے فرمایا اگر اللہ چاہے تو ایک ہی ہاتھ میں ساری مخلوق کو جنت میں ڈال دے حضور علیہ السلام نے فرمایا عمر سچ کہتے ہیں ( مسند عبدالرزاق ) اسی حدیث کی اور سند سے بھی بیان ہے اس میں تعداد ایک لاکھ آئی ہے ( اصبہانی ) ایک اور روایت میں ہے کہ جب صحابہ نے ستر ہزار اور پھر ہر ایک کے ساتھ ستر ہزار پھر اللہ کی لپ بھر کر جنتی بنانا سنا تو کہنے لگے پھر تو اس کی بدنصیبی میں کیا شک رہ گیا جو باوجود اس کے بھی جہنم میں جائے ( ابولیلی ) اوپر والی حدیث ایک اور سند سے بھی بیان ہوئی ہے اس میں تعداد تین لاکھ کی ہے پھر حضرت عمر نے فرمایا میری امت کے سارے مہاجر تو اس میں آہی جائیں گے پھر باقی تعداد اعرابیوں سے پوری ہو گی ( محمد بن سہل ) حضرت ابو سعید کہتے ہیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے حساب کیا گیا تو جملہ تعداد چار کروڑ نوے ہزار ہوئی ، ایک اور حسن حدیث طبرانی میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا قسم ہے اس ذات کی کہ جان محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی اس کے ہاتھ میں ہے تم ایک اندھیری رات کی طرح بیشمار ایک ساتھ جنت کی طرف بڑھو گے ، زمین تم سے پر ہو جائے گی تمام فرشتے پکار اٹھیں گے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جو جماعت آئی وہ تمام نبیوں کی جماعت سے بہت زیادہ ہے ، حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ نے فرمایا صرف میری تابعدار امت اہل جنت کی چوتھائی ہو گی صحابہ نے خوش ہو کر نعرہ تکبیر بلند کیا پھر فرمایا کہ مجھے تو امید ہے کہ تم اہل جنت کا تیسرا حصہ ہو جاؤ ہم نے پھر تکبیر کہی پھر فرمایا میں امید کرتا ہوں کہ تم آدھوں آدھ ہو جاؤ ( مسند احمد ) اور حدیث میں ہے کہ آپ نے صحابہ سے فرمایا کہ تم راضی نہیں ہو کہ تم تمام جنتوں کے چوتھائی ہو ہم نے خوش ہو کر اللہ کی بڑائی بیان کی پھر فرمایا کہ تم راضی نہیں ہو کہ تمام اہل جنت کی تہائی ہو ہم نے پھر تکبیر کہی آپ نے فرمایا مجھے تو امید ہے کہ تم جنتیوں کے آدھوں آدھ ہو گے ( بخاری مسلم ) طبرانی میں یہ روایت حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا کہتے ہو تم جنتیوں کا چوتھائی حصہ بننا چاہتے ہو کہ چوتھائی جنت تمہارے پاس ہو اور تین اور چوتھائیوں میں تمام امتیں ہوں؟ ہم نے کہا اللہ اور اس کا رسول خوب جانتا ہے آپ نے فرمایا اچھا تہائی حصہ ہو تو ہم نے کہا یہ بہت ہے فرمایا اگر آدھوں آدھ ہو تو ، انہوں نے کہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم پھر تو بہت ہی زیادہ ہے آپ نے فرمایا سنو کل اہل جنت کی ایک سو بیس صفیں ہیں جن میں سے اسی صفیں صرف اس میری امت کی ہیں ، مسند احمد میں بھی ہے کہ اہل جنت کی ایک سو بیس صفیں ان میں اسی صفیں صرف اس امت کی ہیں یہ حدیث طبرانی ترمذی وغیرہ میں بھی ہے ، طبرانی ایک اور روایت میں ہے کہ جب آیت ( ثُلَّةٌ مِّنَ الْاَوَّلِيْنَ 39۝ۙ وَثُلَّةٌ مِّنَ الْاٰخِرِيْنَ 40۝ۭ ) 56 ۔ الواقعہ:39 ۔ 40 ) اتری تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم اہل جنت کی چوتھائی ہو پھر فرمایا بلکہ ثلث ہو پھر فرمایا بلکہ نصف ہو پھر فرمایا دو تہائی ہو ( اے وسیع رحمتوں والے اور بےروک نعمتوں والے اللہ ہم تیرا بے انتہا شکر ادا کرتے ہیں کہ تو نے ہمیں ایسے معزز و محترم رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی امت میں پیدا کیا تیرے سچے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سچی زبان سے تیرے اس بڑھے چڑھے فضل و کرم کا حال سن کر ہم گنہگاروں کے منہ میں پانی بھر آیا ، اے ماں باپ سے زیادہ مہربان اللہ ہماری آس نہ توڑ اور ہمیں بھی ان نیک ہستیوں کے ساتھ جنت میں داخل فرما ۔ باری تعالیٰ تیری رحمت کی ان گنت اور بیشمار بندوں میں سے اگر ایک قطرہ بھی ہم گنہگاروں پر برس جائے تو ہمارے گناہوں کو دھو ڈالنے اور ہمیں تیری رحمت و رضوان کے لائق بنانے کیلئے کافی ہے ، اللہ اس پاک ذکر کے موقعہ پر ہم ہاتھ اٹھا کر دامن پھیلا کر آنسو بہا کر امیدوں بھرے دل سے تیری رحمت کا سہارا لے کر تیرے کرم کا دامن تھام کر تجھ سے بھیک مانگتے ہیں تو قبول فرما اور اپنی رحمت سے ہمیں بھی اپنی رضامندی کا گھر جنت الفردوس عطا فرما ۔ ( آمین الہ الحق آمین ) صحیح بخاری مسلم میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ہم دنیا میں سب سے آخر آئے اور جنت میں سب سے پہلے جائیں گے اور ان کو کتاب اللہ پہلے ملی ہمیں بعد میں ملی جن باتوں میں انہوں نے اختلاف کیا ان میں اللہ نے ہمیں صحیح طریق کی توفیق دی ، جمعہ کا دن بھی ایسا ہی ہے کہ یہود ہمارے پیچھے ہیں ہفتہ کے دن اور نصرانی ان کے پیچھے اتوار کے دن دار قطنی میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب تک میں جنت میں داخل نہ ہو جاؤں انبیاء پر دخول جنت حرام ہے اور جب تک میری امت نہ داخل ہو دوسری امتوں پر دخول جنت حرام ہے ۔ یہ وہ حدیثیں تھیں جنہیں ہم اس آیت کے تحت وارد کرنا چاہتے تھے فالحمد للہ ۔ امت کو بھی چاہئے کہ یہاں اس آیت میں جتنی صفیں ہیں ان پر مضبوطی کے ساتھ قائم ثابت رہیں یعنی امر بالمعروف اور نہی عن المنکر اور ایمان باللہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے حج میں اس آیت کی تلاوت فرما کر لوگوں سے کہا کہ اگر تم اس آیت کی تعریف میں داخل ہونا چاہتے ہو تو یہ اوصاف بھی اپنے میں پیدا کرو ، امام ابن جرید فرماتے ، اہل کتاب ان کاموں کو چھوڑ بیٹھے تھے جن کی مذمت کلام اللہ نے کی ، فرمایا آیت ( كَانُوْا لَا يَتَنَاهَوْنَ عَنْ مُّنْكَرٍ فَعَلُوْهُ ۭلَبِئْسَ مَا كَانُوْا يَفْعَلُوْنَ ) 5 ۔ المائدہ:79 ) وہ لوگ برائی کی باتوں سے لوگوں کو روکتے نہ تھے چونکہ مندرجہ بالا آیت میں ایمان داروں کی تعریف و توصیف بیان ہوئی تو اس کے بعد اہل کتاب کی مذمت بیان ہو رہی ہے ، تو فرمایا کہ اگر یہ لوگ بھی میرے نبی آخر الزمان پر ایمان لاتے تو انہیں بھی یہ فضیلتیں ملتیں لیکن ان میں سے کفرو فسق اور گناہوں پر جمے ہوئے ہیں ہاں کچھ لوگ با ایمان بھی ہیں ۔ پھر اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو بشارت دیتا ہے کہ تم نہ گھبرانا اللہ تمہیں تمہارے مخالفین پر غالب رکھے گا چنانچہ خیبر والے دن اللہ تعالیٰ نے انہیں ذلیل کیا اور ان سے پہلے بنو قینقاع ، بنو نضیر اور بنو قریظہ کو بھی اللہ نے ذلیل و رسوا کیا ، اسی طرح شام کے نصرانی صحابہ کے وقت میں مغلوب ہوئے اور ملک شام ان کے ہاتھوں سے نکل گیا اور ہمیشہ کیلئے مسلمانوں کے قبضہ میں آگیا اور وہاں ایک حق والی جماعت حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے آنے تک حق پر قائم رہے گی ، حضرت عیسیٰ آ کر ملت اسلام اور شریعت محمد کے مطابق حکم کریں گے صلیب توڑیں گے خنزیر کو قتل کریں گے جزیہ قبول نہ کریں گے صرف اسلام ہی قبول فرمائیں گے پھر فرمایا کہ ان کے اوپر ذلت اور پستی ڈال دی گئی ہاں اللہ کی پناہ کے علاوہ کہیں بھی امن و امان اور عزت نہیں یعنی جزیہ دینا اور مسلم بادشاہ کی اطاعت کرنا قبول کرلیں اور لوگوں کی پناہ یعنی عقد ذمہ مقرر ہو جائے یا کوئی مسلمان امن دے دے اگرچہ کوئی عورت ہو یا کوئی غلام ہو ، علماء کا ایک قول یہ بھی ہے ، حضرت ابن عباس کا قول ہے کہ حبل سے مراد ہے جو غضب کے مستحق ہوئے اور مسکینی چپکا دی گئی ، ان کے کفر اور انبیاء کے تکبر ، حسد ، سرکشی وغیرہ کا بدلہ ہے ۔ اسی باعث ان پر ذلت پستی اور مسکینی ہمیشہ کیلئے ڈال دی گئی ان کی نافرمانیوں اور تجاوز حق کا یہ بدلہ ہے العیاذ باللہ ، ابو داؤد طیالسی میں حدیث ہے کہ بنی اسرائیل ایک ایک دن میں تین تین سو نبیوں کو قتل کر ڈالتے تھے اور دن کے آخری حصہ میں اپنے اپنے کاموں پر بازاروں میں لگ جاتے تھے ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

110۔ 1 اس آیت میں امت مسلمہ کو خیر امت قرار دیا گیا ہے اور اس کی علت بھی بیان کردی گئی ہے جو امر بالمعروف نہی عن المنکر اور ایمان باللہ ہے۔ گویا یہ امت اگر ان امتیازی خصوصیات سے متصف رہے گی تو خیر امت ہے بصورت دیگر اس امتیاز سے محروم قرار پاسکتی ہے۔ اس کے بعد اہل کتاب کی مذمت سے بھی اسی نکتے کی وضاحت مقصود و معلوم ہوتی ہے کہ جو امر بالمعروف و نہی المنکر نہیں کرے گا، وہ بھی اہل کتاب کے مشابہ قرار پائے گا۔ ان کی صفت بیان کی گئی ہے۔ وہ ایک دوسرے کو برائی سے نہیں روکتے اور یہاں اسی آیت میں ان کی اکثریت کو فاسق کہا گیا ہے۔ امر بالمعروف یہ فرض عین ہے یا فرض کفایہ ؟ اکثر علماء کے خیال میں یہ فرض کفایہ ہے۔ یعنی علماء کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس فرض کو ادا کرتے رہیں کیونکہ معروف اور منکر شرعی کا صحیح علم وہی رکھتے ہیں ان کے فریضہ تبلیغ و دعوت کی ادائیگی سے دیگر افراد کی طرف سے یہ فرض ساقط ہوجائے گا۔ جیسے جہاد بھی عام حالات میں فرض کفایہ ہے یعنی ایک گروہ کی طرف سے ادائیگی سے اس فرض کی ادائیگی ہوجائے گی۔ 110۔ 2 جیسے عبد اللہ بن سلام (رض) وغیرہ جو مسلمان ہوگئے تھے۔ تاہم ان کی تعداد نہایت قلیل تھی۔ اس لئے مِنْہمْ میں مِنْ ، تَبْعِیْضُ کے لئے ہے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٩٩] غور فرمائیے اللہ پر ایمان لانا سب باقی اعمال و افعال سے مقدم ہے۔ لیکن امربالمعروف اور نہی عن المنکر کا ذکر محض اس لیے پہلے کیا گیا کہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی اہمیت کو واضح کرنا مقصود تھا۔ ساتھ ہی یہ وضاحت بھی فرما دی کہ اے مسلمانو تم بہترین امت صرف اس لیے ہو کہ تم برے کاموں سے منع کرتے ہو اور اچھے کاموں کا حکم دیتے ہو۔ بالفاظ دیگر اس کا مطلب یہ ہوا کہ جب تک مسلمان اچھے کاموں کا حکم دیتے اور برے کاموں سے روکتے رہیں گے وہ بہترین امت رہیں گے اور جب انہوں نے اس فریضہ سے کوتاہی کی تو پھر بہترین امت نہیں رہیں گے۔ برے کاموں سے مراد کفر، شرک، بدعات، رسوم قبیحہ، فسق و فجور ہر قسم کی بداخلاقی اور بےحیائی اور نامعقول باتیں شامل ہیں اور ان سے روکنے کا فریضہ فرداً فرداً بھی ہر مسلمان پر عائد ہوتا ہے۔ اور اجتماعاً امت مسلمہ پر بھی۔ ہر ایک کو اپنی اپنی حیثیت اور قوت کے مطابق اس فریضہ سے عہدہ برآ ہونا لازم ہے۔ چناچہ صحیح حدیث میں آتا ہے کہ تم میں سے کوئی شخص جب کوئی برائی دیکھے تو اسے بزور بازو ختم کردے اور اگر ایسا نہیں کرسکتا تو زبان سے ہی روکے اور اگر اتنا بھی نہیں کرسکتا تو کم از کم دل میں ہی اسے برا سمجھے اور یہ ایمان کا کمزور تر درجہ ہے (مسلم۔ کتاب الایمان۔ باب کون النہی عن المنکر من الایمان) اور نیک کاموں سے مراد توحید خالص اور ارکان اسلام کی بجا آوری جہاد میں دامے درمے شمولیت، بدعات سے اجتناب، قرابتداروں کے حقوق کی ادائیگی اور تمام مسلمانوں سے مروت، اخوت و ہمدردی اور خیر خواہی وغیرہ ہیں۔- [١٠٠] ایک وقت تھا جب اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو تمام جہاں والوں پر فضیلت بخشی تھی۔ مگر ان لوگوں نے نہ صرف یہ کہ فریضہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کو ترک کردیا بلکہ خود بھی بیشمار بڑے بڑے جرائم میں مبتلا ہوگئے تو اللہ تعالیٰ نے ساری دنیا کی امامت و قیادت کی ذمہ داری ان سے چھین کر امت مسلمہ کے حوالے کردی۔ اب جو فضیلت انہیں حاصل تھی وہ امت مسلمہ کو حاصل ہوگئی اور قیادت کی اس تبدیلی کی واضح علامت چونکہ تحویل قبلہ تھی۔ لہذا یہود جتنے تحویل قبلہ پر چیں بہ جبیں ہوئے اتنے کسی بات پر نہ ہوئے تھے۔ اور یہ فضیلت اللہ کی دین ہے جس کو مناسب سمجھتا ہے اسے دیتا ہے۔ چناچہ حضرت عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ نبی کریم نے فرمایا : گزشتہ لوگوں (یہود و نصاریٰ ) کے مقابلہ میں تمہارا رہنا ایسا ہے جیسے عصر سے سورج غروب ہونے تک کا وقت۔ اہل تورات کو تورات دی گئی۔ انہوں نے (صبح سے) دوپہر تک مزدوری کی، پھر تھک گئے تو انہیں ایک ایک قیراط ملا۔ اہل انجیل کو انجیل دی گئی، انہوں نے عصر کی نماز تک مزدوری کی پھر تھک گئے۔ انہیں بھی ایک ایک قیراط ملا۔ پھر ہم مسلمانوں کو قرآن دیا گیا۔ ہم نے عصر سے سورج غروب ہونے تک مزدوری کی (اور کام پورا کردیا) تو ہمیں دو دو قیراط دیئے گئے۔ اب اہل کتاب کہنے لگے : پروردگار تو نے انہیں تو دو دو قیراط دیئے اور ہمیں ایک ایک حالانکہ ہم نے ان سے زیادہ کام کیا ہے اللہ عزوجل نے انہیں جواب دیا : میں نے تمہاری مزدوری (جو تم سے طے کی تھی) کچھ کم تو نہیں کی انہوں نے کہا : نہیں اللہ تعالیٰ نے فرمایا : تو پھر یہ میرا فضل ہے میں جسے جو کچھ چاہوں دے دوں۔ (بخاری، کتاب مواقیت الصلٰوۃ باب من ادرک رکعۃ من العصر قبل المغرب )- اس آیت میں اہل کتاب کو یہ بتلایا جارہا ہے کہ اگر وہ ایمان لے آتے تو اس ذلت و خواری سے بچ سکتے تھے جو ان کے مقدر ہوچکی ہے، اگر وہ خیر الامم میں شامل ہوجاتے ہیں تو دنیا میں ان کی عزت بڑھتی اور آخرت میں دوہرا اجر ملتا۔ مگر حق کے واضح ہونے کے بعد ان کی اکثریت نافرمانی پر ہی اڑی رہی اور اپنا ہی نقصان کیا۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

كُنْتُمْ خَيْرَ اُمَّةٍ ۔۔ : یعنی یہ امت ہر امت سے بہتر ہے۔ انہی دو صفات میں، امر بالمعروف (یعنی جہاد) اور ایمان (یعنی توحید کا تقید پابندی) اس قدر کسی اور دین میں نہیں۔ (موضح) ان دو صفتوں سے پہلے ایک اور صفت بھی ذکر فرمائی ہے اور وہ ہے ” اُخْرِجَتْ للنَّاسِ “ یعنی یہ امت پیدا ہی لوگوں کی خیر خواہی اور اصلاح کے لیے کی گئی ہے۔ یاد رہے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر سے مراد جہاد ہے، وہ ہاتھ سے ہو یا زبان سے یا دل سے۔ ابوہریرہ (رض) نے اس آیت کی یہی تفسیر بیان کرتے ہوئے فرمایا : ( خَیْرَ النَّاس للنَّاسِ تَأْتُوْنَ بِہِمْ فِی السَّلاَسِلِ فِیْ أَعْنَاقِہِمْ حَتّٰی یَدْخُلُوْا فِی الْاِسْلاَمِ ) [ بخاری، التفسیر، باب (کنتم خیر أمۃ أخرجت للناس) : ٤٥٥٧ ] ” تم لوگوں کے حق میں تمام لوگوں سے بہتر ہو کہ ان کی گردنوں میں زنجیریں ڈال کر لاتے ہو، حتیٰ کہ وہ اسلام میں داخل ہوجاتے ہیں۔ “ معاویہ بن حیدہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” تم ستر (٧٠) امتوں کو پورا کر رہے ہو، جن میں سے تم اللہ تعالیٰ کے ہاں سب سے بہتر اور سب سے معزز ہو۔ “ [ أحمد : ٤؍٤٤٧، ح : ٢٠٠٣٧۔ ترمذی، التفسیر، باب ومن سورة آل عمران : ٣٠٠١ ]- 2 کچھ لوگ نیکی کا حکم دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اس سے لوگ خود بخود برائی چھوڑ دیں گے، اگر ایسا ہوتا تو برائی سے منع کرنے کا حکم نہ ہوتا اور سب سے بڑی برائی شرک و کفر کو زبان سے روکنے کے ساتھ قتال ( لڑنا) فرض نہ ہوتا۔ - 3 وَتُؤْمِنُوْنَ باللّٰهِ : یعنی ( امر بالمعروف اور نہی عن المنکر ) کی صورت میں دنیا کے کاروبار کا جو نقصان ہوتا ہے تم اس کی پروا نہیں کرتے، بلکہ اللہ پر یقین رکھتے ہو کہ وہ اپنا کام سر انجام دینے والوں کے لیے کوئی کمی نہیں رہنے دے گا۔ - 4 مْ خَيْرَ اُمَّةٍ : اس کا ایک معنی پہلے گزر چکا کہ یہ امت تمام امتوں سے بہتر ہے اور دوسرا معنی یہ ہے کہ یہ خطاب صحابہ کرام (رض) سے ہے کہ تم پوری امت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بہتر ہو، کیونکہ امر بالمعروف و نہی عن المنکر (جہاد) اور ایمان باللہ (توحید خالص کا عقیدہ) تم میں بدرجہ اتم پائے جاتے ہیں۔ اس سے صحابہ کی فضیلت معلوم ہوتی ہے اور ان پر کفر کا فتویٰ لگانے والوں کے منہ میں خاک پڑتی ہے۔ خلاصہ یہ کہ الفاظ کے لحاظ سے دونوں معنی درست ہیں اور حقیقت میں بھی ایسا ہی ہے۔ - 5 بہترین امت ہونے کا وصف چند شرطوں کے ساتھ مشروط ہے، یعنی لوگوں کی خیر خواہی و اصلاح، امر بالمعروف و نہی عن المنکر (جہاد) اور ایمان باللہ (توحید خالص) ، جب اس امت میں یہ چیزیں نہیں رہیں گی تو وہ بہترین امت ہونے کے وصف سے محروم ہوجائے گی، جیسا کہ یہود کے بارے میں آتا ہے : (كَانُوْا لَا يَتَنَاهَوْنَ عَنْ مُّنْكَرٍ فَعَلُوْهُ ) [ المائدۃ : ٧٩ ] ” وہ ایک دوسرے کو کسی برائی سے، جو انھوں نے کی ہوتی، روکتے نہ تھے۔ “ جیسا کہ اب اس امت کا حال ہو رہا ہے۔- وَلَوْ اٰمَنَ اَھْلُ الْكِتٰبِ ۔۔ : اس آیت میں اہل کتاب کو اسلام لانے کی ترغیب ہے اور اس حقیقت کا اظہار ہے کہ ان میں سے کچھ مومن ہیں، مگر اکثر فاسق ہیں اور یہ اللہ کی مشیت ہے جس کی حکمت وہی جانتا ہے، جیسا کہ فرمایا : ( وَمَآ اَكْثَرُ النَّاسِ وَلَوْ حَرَصْتَ بِمُؤْمِنِيْنَ ) [ یوسف : ١٠٣ ] ” اور اکثر لوگ خواہ تو حرص کرے، ہرگز ایمان لانے والے نہیں۔ “ اس سے موجودہ جمہوریت پر بھی روشنی پڑتی ہے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

ربط آیات :- سابقہ آیات میں مسلمانوں کو ایمان پر ثابت قدم رہنے اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا خاص اہتمام کرنے کی ہدایت تھی، اس آیت میں اس کی مزید تاکید اس طرح کی گئی ہے کہ امت محمدیہ علی صاحبہا الصلوۃ والسلام کو جو حق تعالیٰ نے تمام امتوں سے افضل و اعلی اور خیر الامم قرار دیا ہے اس کی بڑی وجہ ان کی یہی صفات ہیں۔- خلاصہ تفسیر :- (اے امت محمدیہ) تم لوگ (سب اہل مذاہب سے) اچھی جماعت ہو کہ وہ جماعت (عام) لوگوں کے (نفع ہدایت پہنچانے کے لئے) ظاہر کی گئی ہے (اور نفع پہنچانا جو اس امت کے خیر اور افضل ہونے کی وجہ سے اس کی صورت یہ ہے کہ) تم لوگ (بمقتضائے شریعت زیادہ اہتمام کے ساتھ) نیک کاموں کو بتلاتے ہو اور بری باتوں سے روکتے ہو اور (خود بھی) اللہ تعالیٰ پر ایمان لاتے ہو (یعنی ایمان پر قائم رہتے ہو یہاں اللہ پر ایمان میں وہ تمام عقائد و اعمال داخل ہیں جو اللہ کی طرف سے نازل ہوئے ہیں) اور اگر اہل کتاب (بھی جو تم سے مخالفت کر رہے ہیں، تمہاری طرح) ایمان لے آتے تو ان کے لئے زیادہ اچھا ہوتا (کہ وہ بھی اہل حق کی اسی بہتر جماعت میں داخل ہوجاتے، مگر افسوس کہ وہ سب مسلمان نہ ہوئے بلکہ) ان میں سے بعض تو مسلمان ہیں (جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لاکر داخل اسلام ہوگئے) اور زیادہ حصہ ان میں سے کافر ہیں (کہ خاتم الانبیاء (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان نہیں لائے اور ان کی بہتر امت میں شامل نہیں ہوئے) ۔- معارف و مسائل :- امت محمدیہ کا خیر الامم ہونا اور اس کی چند وجوہ :- قرآن کریم نے امت محمدیہ کو خیر الامم قرار دینے کی وجوہ متعدد آیتوں میں بیان فرمائی ہیں، اس سلسلہ کی سب سے اہم آیت سورة بقرہ میں گزر چکی ہے " وکذلک جعلنکم امۃ وسطا " (٢: ١٤٣) وہیں اس آیت کی تفسیر اور امت محمدیہ کے خیر الامم ہونے کی بڑی وجہ اس کا اعتدال مزاج ہونا اور پھر ہر شعبہ زندگی میں امت محمدیہ کے اعتدال کی تفصیل بیان ہوئی ہے۔ (معاف القرآن جلد اول، ص ٣٠٩ تا ٣١٦) اس آیت میں امت محمدیہ کے خیر الامم ہونے کی وجہ یہ بیان فرمائی ہے کہ یہ خلق اللہ کو نفع پہنچانے ہی کے لئے وجود میں آئی ہے، اور اس کا سب سے بڑا نفع یہ ہے کہ خلق اللہ کی روحانی اور اخلاقی اصلاح کی فکر اس کا منصبی فریضہ ہے اور پچھلی سب امتوں سے زیادہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی تکمیل اس امت کے ذریعہ ہوئی، اگرچہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ پچھلی امتوں پر عائد تھا، جس کی تفصیل احادیث صحیحہ میں مذکور ہے، مگر اول تو پچھلی بہت سی امتوں میں جہاد کا حکم نہیں تھا، اس لئے ان کا امر بالمعروف صرف دل اور زبان سے ہوسکتا تھا، امت محمدیہ میں اس کا تسیرا درجہ ہاتھ کی قوت سے امر بالمعروف کا بھی ہے جس میں جہاد کی تمام اقسام بھی داخل ہیں، اور بزور حکومت اسلامی قوانین کی تنفیذ بھی اس کا جزء ہے، اس کے علاوہ امم سابقہ میں جس طرح دین کے دوسرے شعائر غفلت عام ہو کر محو ہوگئے تھے، اسی طرح فریضہ امر بالمعروف بھی بالکل متروک ہوگیا تھا، اور اس امت محمدیہ کے متعلق آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی یہ پیشگوئی ہے کہ " اس امت میں تا قیامت ایک ایسی جماعت قائم رہے گی جو فریضہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر پر قائم رہے گی "۔- دوسری امتیازی صفت اس امت کی تو منون باللہ بیان فرمائی ہے، یہاں یہ سوال ہوتا ہے کہ ایمان باللہ تو تمام انبیاء سابقین اور ان کی امتوں کا مشترک وصف ہے پھر اس کو وجہ امتیازی کس بنا پر قرار دیا۔ جواب واضح ہے کہ اصل ایمان تو سب میں مشترک ہے، مگر کمال ایمان کے درجات مختلف ہیں، ان میں امت محمدیہ کو جو درجہ حاصل ہے وہ سابقہ امتوں کے مقابلہ میں خاص امتیاز رکھتا ہے۔ اور آکر آیت میں جو اہل کتاب کے متعلق فرمایا کہ ان میں سے کچھ مسلمان ہیں اس سے مراد وہ لوگ ہیں جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لے آئے تھے، جیسے حضرت عبداللہ ابن سلام وغیرہ۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

كُنْتُمْ خَيْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَتَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَتُؤْمِنُوْنَ بِاللہِ۝ ٠ ۭ وَلَوْ اٰمَنَ اَھْلُ الْكِتٰبِ لَكَانَ خَيْرًا لَّھُمْ۝ ٠ ۭ مِنْھُمُ الْمُؤْمِنُوْنَ وَاَكْثَرُھُمُ الْفٰسِقُوْنَ۝ ١١٠- خير - الخَيْرُ : ما يرغب فيه الكلّ ، کالعقل مثلا، والعدل، والفضل، والشیء النافع، وضدّه :- الشرّ. قيل : والخیر ضربان : خير مطلق، وهو أن يكون مرغوبا فيه بكلّ حال، وعند کلّ أحد کما وصف عليه السلام به الجنة فقال : «لا خير بخیر بعده النار، ولا شرّ بشرّ بعده الجنة» . وخیر وشرّ مقيّدان، وهو أن يكون خيرا لواحد شرّا لآخر، کالمال الذي ربما يكون خيرا لزید وشرّا لعمرو، ولذلک وصفه اللہ تعالیٰ بالأمرین فقال في موضع : إِنْ تَرَكَ خَيْراً [ البقرة 180] ،- ( خ ی ر ) الخیر - ۔ وہ ہے جو سب کو مرغوب ہو مثلا عقل عدل وفضل اور تمام مفید چیزیں ۔ اشر کی ضد ہے ۔ - اور خیر دو قسم پر ہے - ( 1 ) خیر مطلق جو ہر حال میں اور ہر ایک کے نزدیک پسندیدہ ہو جیسا کہ آنحضرت نے جنت کی صفت بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ خیر نہیں ہے جس کے بعد آگ ہو اور وہ شر کچھ بھی شر نہیں سے جس کے بعد جنت حاصل ہوجائے ( 2 ) دوسری قسم خیر وشر مقید کی ہے ۔ یعنی وہ چیز جو ایک کے حق میں خیر اور دوسرے کے لئے شر ہو مثلا دولت کہ بسا اوقات یہ زید کے حق میں خیر اور عمر و کے حق میں شربن جاتی ہے ۔ اس بنا پر قرآن نے اسے خیر وشر دونوں سے تعبیر کیا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ إِنْ تَرَكَ خَيْراً [ البقرة 180] اگر وہ کچھ مال چھوڑ جاتے ۔- الأُمّة :- كل جماعة يجمعهم أمر ما إمّا دين واحد، أو زمان واحد، أو مکان واحد سواء کان ذلک الأمر الجامع تسخیرا أو اختیارا، وجمعها : أمم، وقوله تعالی: وَما مِنْ دَابَّةٍ فِي الْأَرْضِ وَلا طائِرٍ يَطِيرُ بِجَناحَيْهِ إِلَّا أُمَمٌ أَمْثالُكُمْ [ الأنعام 38] - الامۃ - ہر وہ جماعت جن کے مابین رشتہ دینی ہو یا وہ جغرافیائی اور عصری وحدت میں منسلک ہوں پھر وہ رشتہ اور تعلق اختیاری اس کی جمع امم آتی ہے اور آیت کریمہ :۔ وَمَا مِنْ دَابَّةٍ فِي الْأَرْضِ وَلَا طَائِرٍ يَطِيرُ بِجَنَاحَيْهِ إِلَّا أُمَمٌ أَمْثَالُكُمْ ( سورة الأَنعام 38) اور زمین پر جو چلنے پھر نے والے ( حیوان ) دو پروں سے اڑنے والے پرند ہیں وہ بھی تمہاری طرح جماعتیں ہیں - خرج - خَرَجَ خُرُوجاً : برز من مقرّه أو حاله، سواء کان مقرّه دارا، أو بلدا، أو ثوبا، وسواء کان حاله حالة في نفسه، أو في أسبابه الخارجة، قال تعالی: فَخَرَجَ مِنْها خائِفاً يَتَرَقَّبُ [ القصص 21] ،- ( خ رج ) خرج ۔ ( ن)- خروجا کے معنی کسی کے اپنی قرار گاہ یا حالت سے ظاہر ہونے کے ہیں ۔ عام اس سے کہ وہ قرار گاہ مکان ہو یا کوئی شہر یا کپڑا ہو اور یا کوئی حالت نفسانی ہو جو اسباب خارجیہ کی بنا پر اسے لاحق ہوئی ہو ۔ قرآن میں ہے ؛ فَخَرَجَ مِنْها خائِفاً يَتَرَقَّبُ [ القصص 21] موسٰی وہاں سے ڈرتے نکل کھڑے ہوئے کہ دیکھیں کیا ہوتا ہے ۔ - لو - لَوْ : قيل : هو لامتناع الشیء لامتناع غيره، ويتضمّن معنی الشرط نحو : قوله تعالی: قُلْ لَوْ أَنْتُمْ تَمْلِكُونَ [ الإسراء 100] .- ( لو ) لو ( حرف ) بعض نے کہا ہے کہ یہ امتناع الشئی لا متناع غیر ہ کے لئے آتا ہے ( یعنی ایک چیز کا دوسری کے امتناع کے سبب ناممکن ہونا اور معنی شرط کو متضمن ہوتا ہے چناچہ قرآن پاک میں ہے : ۔ قُلْ لَوْ أَنْتُمْ تَمْلِكُونَ [ الإسراء 100] کہہ دو کہ اگر میرے پروردگار کی رحمت کے خزانے تمہارے ہاتھ میں ہوتے ۔ - أیمان - يستعمل اسما للشریعة التي جاء بها محمّد عليه الصلاة والسلام، وعلی ذلك : الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة 69] ، ويوصف به كلّ من دخل في شریعته مقرّا بالله وبنبوته . قيل : وعلی هذا قال تعالی: وَما يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ [يوسف 106] . وتارة يستعمل علی سبیل المدح، ويراد به إذعان النفس للحق علی سبیل التصدیق، وذلک باجتماع ثلاثة أشياء : تحقیق بالقلب، وإقرار باللسان، وعمل بحسب ذلک بالجوارح، وعلی هذا قوله تعالی: وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ أُولئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ [ الحدید 19] .- ( ا م ن ) - الایمان - کے ایک معنی شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے آتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ :۔ الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة 69] ، اور جو لوگ مسلمان ہیں یا یہودی یا عیسائی یا ستارہ پرست۔ اور ایمان کے ساتھ ہر وہ شخص متصف ہوسکتا ہے جو تو حید کا اقرار کر کے شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں داخل ہوجائے اور بعض نے آیت وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ ( سورة يوسف 106) ۔ اور ان میں سے اکثر خدا پر ایمان نہیں رکھتے مگر ( اس کے ساتھ ) شرک کرتے ہیں (12 ۔ 102) کو بھی اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔ - فسق - فَسَقَ فلان : خرج عن حجر الشّرع، وذلک من قولهم : فَسَقَ الرُّطَبُ ، إذا خرج عن قشره وهو أعمّ من الکفر . والفِسْقُ يقع بالقلیل من الذّنوب وبالکثير، لکن تعورف فيما کان کثيرا، وأكثر ما يقال الفَاسِقُ لمن التزم حکم الشّرع وأقرّ به،- ( ف س ق ) فسق - فسق فلان کے معنی کسی شخص کے دائر ہ شریعت سے نکل جانے کے ہیں یہ فسق الرطب کے محاورہ سے ماخوذ ہے جس کے معنی گدری کھجور کے اپنے چھلکے سے باہر نکل آنا کے ہیں ( شرعا فسق کا مفہوم کفر سے اعم ہے کیونکہ فسق کا لفظ چھوٹے اور بڑے ہر قسم کے گناہ کے ارتکاب پر بولا جاتا ہے اگر چہ عرف میں بڑے گناہوں کے ارتکاب پر بولا جاتا ہے اور عام طور پر فاسق کا لفظ اس شخص کے متعلق استعمال ہوتا ہے جو احکام شریعت کا التزام اور اقرار کر نیکے بعد تمام یا بعض احکام کی خلاف ورزی کرے۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

قول باری ہے (کنتم خیرامۃ اخرجت للناس تامرون بالمعروف وتنھون عن المنکر) قول باری (کنتم) کے معنی میں کئی وجوہ بیان کیے گئے ہیں۔ حسن سے مروی ہے کہ اس سے مراد کتب سابقہ جن میں مختلف امتوں کے متعلق بشارتیں آئی ہیں اور ان کے بارے میں خبریں دی گئی ہیں۔ ان میں ہم سب سے اخری امت ہیں لیکن اللہ کے نزدیک سب سے بڑھ کرمرتبے اور عزت والے ہیں۔ ہمیں عبداللہ بن محمد بن اسحق نے روایت بیان کی انہیں حسن بن ابی ربیع نے انہیں عبدالرزاق نے انہیں معمرنے بہزبن حکیم سے انہوں نے اپنے والد حکیم سے انہوں نے اپنے والد سے کہ انہوں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو آیت (کنتم خیرامۃ اخرجت للناس ، کے سلسلے میں فرماتے ہوئے سنا تھا کہ (انتم تتمون سبعین امۃ انتم خیرھا واکرمھا عند اللہ ، تم پر ستر امتوں کی گنتی پوری ہوتی ہے تم ان میں سب سے بہتر اور اللہ کے ہاں سب سے بڑھ کر عزت اور مرتبے والے ہو) اس طرح آیت کے معنی یہ ہوں گے، تم ان تمام امتوں میں سب سے بہتر تھے جن کے متعلق اللہ تعالیٰ نے انبیاء کرام کو اپنی نازل کردہ کتابوں کے ذریعے خبردی تھی، ایک قول یہ ہے کہ جملہ پر فعل ناقص کان کا دخول اور عدم دخول دونوں یکساں ہیں۔ فرق صرف اتنا ہے کہ وخول کی صورت میں یہ لامحالہ کسی امر کے وقوع کی تاکید کی خبردیتا ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ ایک بات حقیقت میں پیش آچکی ہے جس طرح کہ قول باری (وکان اللہ غفورارحیما) نیز اوکان اللہ علیما حکیما) کا مفہوم یہ ہے کہ یہ بات حقیقت میں پیش آچکی ہے۔ ایک قول یہ ہے کہ (کنتم خیرامۃ) ، حدثتم خیرامۃ، کے معنی میں ہے یعنی تمھاراحدوث خیرامت کی صورت میں ہوا۔ اس صورت میں (خیرامۃ) حال کے معنی میں ہوگا، ایک قول ہے کہ (کنتم) صدانتم، کے معنی میں ہے۔ تاکہ یہ دلالت ہوسکے کہ امت مسلمہ کی یہ حیثیت اول دن سے ہے۔- اجماع امت بھی حق ہے۔- آیت میں کئی وجوہ سے اجماع امت کی صحت پر دلالت موجود ہے (اول) امت مسلمہ کو بہترین امت کہا گیا اور یہ بات واضح ہے کہ امت مسلمہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے تعریف کی اس بنا پر مستحق ہوئی ہے ۔ کہ وہ اللہ کے حقوق کی ادائیگی میں ہمیشہ سے کمربستہ ہے اور گمراہی سے دور ہے (دوم) اللہ تعالیٰ نے امت مسلمہ کے متعلق یہ بتایا کہ اللہ تعالیٰ کے اوامر کے سلسلے میں یہ امر بالمعروف کا فریضہ سرانجام دیتی ہے۔ جو خود ایک ام رہے کیونکہ، معروف، اللہ کے امرکانام ہے۔ اس لیے امت اجتماعی طورپر جس چیز کا حکم دے وہ معروف ہونے کی بناپرامر اللہ بن جائے گا (سوم) اہل ایمان منکر کو روکتے ہیں اور منکروہ ہے جس سے اللہ تعالیٰ نے لوگوں کو روک دیاہو۔ اس بناپر اس امت کے افراداس صفت کے اس وجہ سے مستحق قرارپائے کہ ان کی مرضی وہی ہوتی ہے جو اللہ کی ہے اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ امت جس چیز سے رک جانے کا حکم دے وہ منکر، اور جس چیز کے کرنے کا حکم دے وہ معروف، ہے اور اللہ کا حکم بھی یہی ہے ۔ اس میں اس بات کا ثبوت موجود ہے کہ گمراہی پر امت کا اجماع نہیں ہوسکتا۔ نیز اس سے یہ بات واجب ہوجاتی ہے کہ جس چیزپرامت کا اجماع ہوجائے اس کی حیثیت حکم اللہ کی ہوجاتی ہے۔- دلیل نبوت نمبر ١- قول باری ہے (لن یضروکم الا اذی وان یقاتلوکم یولو الادبارثم لاینصرون، یہ تمھارا کچھ بگاڑ نہیں سکتے زیادہ سے زیادہ بس کچھ ستاسکتے ہیں۔ اگر یہ تم سے لڑیں گے تو مقابلے میں پیٹھ دکھائیں گے پھر ای سے بےبس ہوجائیں گ کہیں سے ان کو مدد نہیں ملے گی) آیت میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت کی صحت پر دلالت موجود ہے۔ اس لیے کہ اس میں ان یہودیوں کے متعلق خبردی گئی ہے جو مسلمانوں کے دشمن اور مدینہ منورہ کے اطراف میں آباد تھے۔ یعنی بنونضیر، بنوقریضہ، بنوقینقاع اور یہود خیبر، اللہ تعالیٰ نے ان کے متعلق یہ بتادیا کہ مسلمانوں کا کچھ بگاڑ نہیں سکتے۔ صرف زبان سے طعن تشنیع کے کلمات اداکرکے دکھ پہنچاسکتے ہیں۔ نیز اگر مقابلہ پر اترآئیں گے تو منہ کی کھائیں گے۔ اور پیٹھ دکھائیں گے۔ چناچہ واقعاتی طورپر یہود کے ساتھ یہی کچھ ہوا، اور چونکہ ان باتوں کا تعلق آنے والے واقعات کے ساتھ تھا۔ اس بناپرا سے علم غیب شمار کیا جائے گا جو نبوت کی صحت کی دلیل ہے۔- دلیل نبوت نمبر ٢- قول باری ہے (ضربت علیھم الذلۃ اینما ثقفوا الا بحبل من اللہ وحبل من الناس ، یہ جہاں بھی پائے گئے ان پر ذلت کی مارہی پڑی۔ کہیں اللہ کے ذمہ یا انسانوں کے ذمہ میں پناہ مل گئی تو یہ اور بات ہے) ان سے مراد یہود ہیں جن کا ذکر پہلے اوپر سے چلاآرہا ہے۔ اس میں بھی حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت کی صحت کی دلیل ہے۔ اس لیے کہ یہ یہودجہاں بھی گئے ان پر ذلت ومسکنت کی مار پڑتی رہی۔ البتہ جہاں کہیں مسلمانوں نے اللہ کے نام پر اور اس کے عہد کے تحت انہیں امان دے دی۔ دہاں انہیں اس ذلت سے چھٹکارانصیب ہوگیا۔ اس لیے کہ یہاں لفظ حبل کا مفہوم عہد اور امان ہے۔

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(١١٠) تم لوگوں کے لیے بہترین جماعت ہو، اب اسی بہتر ہی کو بیان فرماتے ہیں کہ تم توحید اور رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی پیروی کا حکم کفر و شرک اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مخالفت سے روکتے ہو اور اللہ تعالیٰ اور تمام رسولوں اور تمام رسولوں اور تمام کتابوں پر ایمان رکھتے ہو۔- اور اگر یہود ونصاری ایمان لے آئیں تو ان لیے اچھا ہے، ان میں سے بعض مثلا عبداللہ بن سلام اور ان کے ساتھ مومن اور اکثر کافر ہیں۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ١١٠ (کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ للنَّاسِ ) - یہاں امت مسلمہ کی غرض تأسیس بیان کی جا رہی ہے۔ یعنی یہ پوری امت مسلمہ اس مقصد کے لیے بنائی گئی تھی۔ یہ دوسری بات ہے کہ امت مسلمہ اپنا مقصد حیات بھول جائے۔ ایسی صورت میں امت میں سے جو بھی جاگ جائیں وہ دوسروں کو جگا کرامت کے اندر ایک امت ( ) بنائیں اور مذکورہ بالا تین کام کریں۔ لیکن حقیقت میں تو مجموعی طور پر اس امت مسلمہ کا فرض منصبی ہی یہی ہے۔ - قبل ازیں ہم سورة البقرۃ کی آیت ١٤٣ میں امت مسلمہ کا فرض منصبی بایں الفاظ پڑھ چکے ہیں : (وَکَذٰلِکَ جَعَلْنٰکُمْ اُمَّۃً وَّسَطًا لِّتَکُوْنُوْا شُہَدَآءَ عَلَی النَّاسِ وَیَکُوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَیْکُمْ شَہِیْدًا ط) سورة آل عمران کی آیت زیر مطالعہ اسی کے ہم وزن اور ہم پلہ آیت ہے۔ فرمایا : تم بہترین امت ہو جسے لوگوں کے لیے نکالا گیا ہے۔ دنیا کی دیگر قومیں اپنے لیے زندہ رہتی ہیں۔ ان کے پیش نظر اپنی ترقی ‘ اپنی بہتری ‘ اپنی بہبود اور دنیا میں اپنی عزت و عظمت ہوتی ہے ‘ لیکن تم وہ بہترین امت ہو جسے لوگوں کی راہنمائی کے لیے مبعوث کیا گیا ہے : ؂- ہم تو جیتے ہیں کہ دنیا میں ترا نام رہے - کہیں ممکن ہے کہ ساقی نہ رہے جام رہے - مسلمان کی زندگی کا مقصد زیادہ سے زیادہ لوگوں کو ہدایت کی طرف بلانا اور لوگوں کو جہنم کی آگ سے بچانے کی ‘ کوشش کرنا ہے۔ تمہیں جینا ہے ان کے لیے ‘ وہ جیتے ہیں اپنے لیے۔ تمہیں نکالا گیا ہے ‘ برپا کیا گیا ہے لوگوں کے لیے۔- (تَاْمُرُوْنَ بالْمَعْرُوْفِ (وَتَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ ) ( وَتُؤْمِنُوْنَ باللّٰہِِ ط) - نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دور میں پوری امت مسلمہ کی یہ کیفیت تھی۔ اور وہ جو پہلے بتایا گیا ہے کہ ایک جماعت وجود میں آئے (آیت ١٠٤) وہ اس وقت کے لیے ہے جب امت اپنے مقصد وجود کو بھول گئی ہو۔ تو ظاہر بات ہے جن کو ہوش آجائے وہ لوگوں کو جگائیں اور ایک جمعیت فراہم کریں۔- (وَلَوْ اٰمَنَ اَہْلُ الْکِتٰبِ لَکَانَ خَیْرًا لَّہُمْ ط) اس سے مراد وہ لوگ بھی ہوسکتے ہیں جو اس وقت تک یہودیوں یا نصرانیوں میں سے ایمان لا چکے تھے ‘ اور وہ بھی جن کے اندر بالقوہ ( ) ایمان موجود تھا اور اللہ کو معلوم تھا کہ وہ کچھ عرصہ کے بعد ایمان لے آئیں گے۔- (وَاَکْثَرُہُمُ الْفٰسِقُوْنَ ) ۔- وہی معاملہ جو آج امت مسلمہ کا ہوچکا ہے۔ آج امت کی اکثریت کا جو حال ہے وہ سب کو معلوم ہے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة اٰلِ عِمْرٰن حاشیہ نمبر :88 یہ وہی مضمون جو سورہ بقرہ کے سترھویں رکوع میں بیان ہو چکا ہے ۔ نبی عربی صلی اللہ علیہ وسلم کے متبعین کو بتایا جا رہا ہے کہ دنیا کی امامت و رہنمائی کے جس منصب سے بنی اسرائیل اپنی نااہلی کے باعث معزول کیے جا چکے ہیں اس پر اب تم مامور کیے گئے ہو ۔ اس لیے کے اخلاق و اعمال کے لحاظ سے اب تم دنیا میں سب سے بہتر انسانی گروہ بن گئے ہو اور تم میں وہ صفات پیدا ہو گئی ہیں جو امامت عادلہ کے لیے ضروری ہیں ، یعنی نیکی کو قائم کرنے اور بدی کو مٹانے کا جذبہ و عمل اور اللہ وحدہ لاشریک کو اعتقاداً و عملاً اپنا الٰہ اور رب تسلیم کرنا ۔ لہٰذا اب یہ کام تمہارے سپرد کیا گیا ہے اور تمہیں لازم ہے کہ اپنی ذمہ داریوں کو سمجھو اور ان غلطیوں سے بچو جو تمہارے پیش رو کر چکے ہیں ۔ ( ملاحظہ ہو سورہ بقرہ حاشیہ نمبر ١۲۳ و نمبر ١٤٤ ) ۔ سورة اٰلِ عِمْرٰن حاشیہ نمبر :89 یہاں اہل کتاب سے مراد بنی اسرائیل ہیں ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani