111۔ 1 اس سے مراد زبانی بہتان تراشی ہے جس سے دل کو وقتی طور پر ضرور تکلیف پہنچتی ہے تاہم میدان حرب و ضرب میں یہ تمہیں شکست نہیں دے سکیں گے چناچہ ایسا ہی ہوا، مدینہ سے بھی یہودیوں کو نکلنا پڑا پھر خیبر فتح ہوگیا اور وہاں سے بھی نکلے، اسی طرح شام کے علاقوں میں عیسائیوں کو مسلمانوں کے ہاتھوں سے شکست سے دو چار ہونا پڑا تاآنکہ حروب صلیبیہ میں عیسائیوں نے اس کا بدلہ لینے کی کوشش کی اور بیت المقدس پر بھی قابض ہوگئے مگر اسے صلاح الدین ایوبی نے 90 سال کے بعد واگزار کرا لیا۔ لیکن اب مسلمانوں کی ایمانی کمزوری کے نتیجہ میں یہود و نصاریٰ کی مشترکہ سازشوں اور کوششوں سے بیت المقدس پھر مسلمانوں کے ہاتھوں سے نکل گیا ہے۔ تاہم ایک وقت آئے گا کہ یہ صورت حال تبدیل ہوجائے گی بالخصوص حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے نزول کے بعد عیسائیت کا خاتمہ اور اسلام کا غلبہ یقینی ہے جیسا کہ صحیح احادیث میں وارد ہے۔ (ابن کثیر)
[١٠١] یعنی گالی دینا، برا بھلا کہنا، تمہارے خلاف سازشیں اور غلط پراپیگنڈا اور ستانے کے دوسرے کام ہی کرسکتے ہیں، اور ایسے کام عموماً ذہنی طور پر ہزیمت خوردہ فریق ہی کرتا ہے۔ رہا جوان مردوں کی طرح مقابلے میں آنا تو اس بات کی ان میں سکت ہی نہیں اور اگر کریں گے تو بری طرح پٹ کر بھاگ کھڑے ہوں گے۔ اور اس وقت منافق بھی ان کی کچھ مدد نہ کرسکیں گے، جو ان سے ساز باز کرتے اور مدد کو پہنچنے کے وعدے کرتے رہتے ہیں۔ اہل کتاب کے حق میں یہ پیشین گوئی حرف بہ حرف پوری ہوئی۔ سب سے پہلے یہود کے قبیلہ بنو قینقاع کو جلاوطن کیا گیا۔ پھر بنو نضیر کو، پھر بنو قریظہ کی باری آئی تو وہ قتل کیے گئے اور لونڈی غلام بنائے گئے، پھر خیبر میں زک اٹھائی تو مزارعہ کی حیثیت سے رہے اور بالآخر حضرت عمر (رض) نے انہیں وہاں سے نکال دیا اور نجران کے عیسائیوں نے جزیہ دینا قبول کیا اور اہل ذمہ کی حیثیت سے رہنے لگے۔ غرض ہر میدان میں ان لوگوں نے زک اٹھائی اور ذلیل و خوار ہوئے۔ پھر کیا ان کے حق میں یہ بات بہتر نہ تھی کہ اسلام قبول کرکے باعزت زندگی گزارتے اور مسلمانوں کے جملہ حقوق میں برابر کے حصہ دار بن جاتے۔
اِلَّآ اَذًى ۭ : ” أَذًی “ میں تنوین تقلیل و تحقیر کے لیے ہے، اس لیے ترجمہ ” معمولی تکلیف “ کیا ہے، مراد زبانی بہتان تراشی اور سازشیں ہیں، مگر میدان میں تمہارے مقابلے میں ٹھہر نہیں سکیں گے، چناچہ ایسا ہی ہوا۔ یہود کو مسلمانوں کے مقابلے میں ہر جگہ شکست ہوئی اور رسوائی کا منہ دیکھنا پڑا، بالآخر نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے صحابہ نے انھیں جزیرۂ عرب سے جلاوطن کردیا۔ یہ آیت اخبار بالغیب اور پیشین گوئی پر مشتمل ہے اور اللہ تعالیٰ نے اس میں فتح و کامیابی اور نصرت کی بشارت دی ہے۔ اب اگرچہ یہود نصرانیوں کے بل بوتے پر فلسطین کے کچھ حصے اور بیت المقدس پر قابض ہیں، مگر وہ وقت قریب آ رہا ہے کہ جب مسلمانوں کے ساتھ یہود کی جنگ میں پتھر اور درخت بھی مسلمان کو بلا کر کہیں گے : ” اے مسلم یہ میرے پیچھے یہودی چھپا ہوا ہے، اسے قتل کر دے۔ “ - [ مسلم، الفتن، باب لا تقوم الساعۃ۔۔ : ٢٩٢١، ٢٩٢٢ ]
ربط آیات :- پچھلی آیتوں میں اہل کتاب کی مسلمانوں سے دشمنی اور ان کو دینی ضرر پہنچانے کی تدبیریں کرنا مذکور تھا، اس آیت میں مسلمانوں کے لئے دنیوی ضرر کی تدبیریں کرنے کا ذکر ہے۔- خلاصہ تفسیر :- وہ (اہل کتاب) تم کو ہرگز کوئی ضرر نہ پہنچا سکیں گے مگر ذرا ہلکی سی اذیت (یعنی زبانی برا بھلا کہہ کر دلا دکھانا) اور اگر وہ (اس سے زیادہ کی ہمت کریں اور) تم سے مقاتلہ کریں تو تم کو پیٹھ دکھا کر بھاگ جائیں گے پھر (اس سے بڑھ کر یہ ہوگا کہ) کسی طرف سے ان کی امداد بھی نہ ہوگی۔- معارف و مسائل :- یہ قرآن کی پیشگوئی اس طرح پوری ہوئی کہ اہل کتاب زمانہ نبوت میں کسی موقع پر بھی صحابہ کرام پر جو کہ بقرینہ مقام اس مضمون کے خاص مخاطب ہیں غالب نہ آسکے، خصوصا یہود جن کے قبائل خصوصیت سے اس جگہ مذکور ہیں جس میں وہ حصہ صحابہ کرام کے آپس میں تفرقہ ڈالنے کی کارروائی کا بھی ہے، انجام یہ ہوا کہ یہ لوگ ذلیل و خوار ہوئے، بعض پر جزیہ لگایا گیا، بعض مقتول ہوئے، بعض جلا وطن کئے گئے، آیت آئندہ میں اسی مضمون کا تکملہ ہے
لَنْ يَّضُرُّوْكُمْ اِلَّآ اَذًى ٠ ۭ وَاِنْ يُّقَاتِلُوْكُمْ يُوَلُّوْكُمُ الْاَدْبَارَ ٠ ۣ ثُمَّ لَا يُنْصَرُوْنَ ١١١- ضر - الضُّرُّ : سوءُ الحال، إمّا في نفسه لقلّة العلم والفضل والعفّة، وإمّا في بدنه لعدم جارحة ونقص، وإمّا في حالة ظاهرة من قلّة مال وجاه، وقوله : فَكَشَفْنا ما بِهِ مِنْ ضُرٍّ [ الأنبیاء 84] ، فهو محتمل لثلاثتها،- ( ض ر ر) الضر - کے معنی بدحالی کے ہیں خواہ اس کا تعلق انسان کے نفس سے ہو جیسے علم وفضل اور عفت کی کمی اور خواہ بدن سے ہو جیسے کسی عضو کا ناقص ہونا یا قلت مال وجاہ کے سبب ظاہری حالت کا برا ہونا ۔ اور آیت کریمہ : فَكَشَفْنا ما بِهِ مِنْ ضُرٍّ [ الأنبیاء 84] اور جوان کو تکلیف تھی وہ دورکردی ۔ میں لفظ ضر سے تینوں معنی مراد ہوسکتے ہیں - أذي - الأذى: ما يصل إلى الحیوان من الضرر إمّا في نفسه أو جسمه أو تبعاته دنیویاً کان أو أخرویاً ، قال تعالی: لا تُبْطِلُوا صَدَقاتِكُمْ بِالْمَنِّ وَالْأَذى [ البقرة 264] - ( ا ذ ی ) الاذیٰ ۔- ہرا س ضرر کو کہتے ہیں جو کسی جاندار کو پہنچتا ہے وہ ضرر جسمانی ہو یا نفسانی یا اس کے متعلقات سے ہو اور پھر وہ ضرر دینوی ہو یا اخروی چناچہ قرآن میں ہے : ۔ لَا تُبْطِلُوا صَدَقَاتِكُمْ بِالْمَنِّ وَالْأَذَى ( سورة البقرة 264) اپنے صدقات ( و خیرات ) کو احسان جتا کر اور ایذا دے کر برباد نہ کرو ۔ - قتل - أصل القَتْلِ : إزالة الروح عن الجسد کالموت، لکن إذا اعتبر بفعل المتولّي لذلک يقال : قَتْلٌ ، وإذا اعتبر بفوت الحیاة يقال : موت . قال تعالی: أَفَإِنْ ماتَ أَوْ قُتِلَ [ آل عمران 144] - ( ق ت ل ) القتل - ( ن ) الموت کی طرح اس کے معنی بھی جسم سے روح کو زائل کرنے کے ہیں لیکن موت اور قتل میں فرق یہ ہے کہ اگر اس فعل کو سرا انجام دینے والے کا اعتبار کیا جائے تو اسے قتل کہا جاتا ہے اور اگر صرف روح کے فوت ہونے کا اعتبار کیا جائے تو اسے موت کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں قرآن میں ہے : ۔ أَفَإِنْ ماتَ أَوْ قُتِلَ [ آل عمران 144]- دبر ( پيٹھ)- دُبُرُ الشّيء : خلاف القُبُل وكنّي بهما عن، العضوین المخصوصین، ويقال : دُبْرٌ ودُبُرٌ ، وجمعه أَدْبَار، قال تعالی: وَمَنْ يُوَلِّهِمْ يَوْمَئِذٍدُبُرَهُ [ الأنفال 16] ، وقال : يَضْرِبُونَ وُجُوهَهُمْ وَأَدْبارَهُمْ [ الأنفال 50] أي : قدّامهم وخلفهم، وقال : فَلا تُوَلُّوهُمُ الْأَدْبارَ [ الأنفال 15] ، وذلک نهي عن الانهزام، وقوله : وَأَدْبارَ السُّجُودِ [ ق 40] : أواخر الصلوات، وقرئ : وَإِدْبارَ النُّجُومِ ( وأَدْبَار النّجوم) فإدبار مصدر مجعول ظرفا،- ( د ب ر ) دبر ۔- بشت ، مقعد یہ قبل کی ضد ہے اور یہ دونوں لفظ بطور کنایہ جائے مخصوص کے معنی میں استعمال ہوتے ہیں اور اس میں دبر ا اور دبر دولغات ہیں اس کی جمع ادبار آتی ہے قرآن میں ہے :َ وَمَنْ يُوَلِّهِمْ يَوْمَئِذٍدُبُرَهُ [ الأنفال 16] اور جو شخص جنگ کے روز ان سے پیٹھ پھیرے گا ۔ يَضْرِبُونَ وُجُوهَهُمْ وَأَدْبارَهُمْ [ الأنفال 50] ان کے مونہوں اور پیٹھوں پر ( کوڑے و ہیتھوڑے وغیرہ ) مارتے ہیں ۔ فَلا تُوَلُّوهُمُ الْأَدْبارَ [ الأنفال 15] تو ان سے پیٹھ نہ پھیرنا ۔ یعنی ہزیمت خوردہ ہوکر مت بھاگو ۔ اور آیت کریمہ ؛۔ وَأَدْبارَ السُّجُودِ [ ق 40] اور نماز کے بعد ( بھی ) میں ادبار کے معنی نمازوں کے آخری حصے ( یا نمازوں کے بعد ) کے ہیں . وَإِدْبارَ النُّجُومِ«1»میں ایک قرات ادبارالنجوم بھی ہے ۔ اس صورت میں یہ مصدر بمعنی ظرف ہوگا یعنی ستاروں کے ڈوبنے کا وقت جیسا کہ مقدم الجام اور خفوق النجم میں ہے ۔ اور ادبار ( بفتح الحمزہ ) ہونے کی صورت میں جمع ہوگی ۔
(١١١) یہود تمہیں نقصان نہیں پہنچاسکیں گے مگر زبانی گالی گلوچ دیں گے اور اگر وہ دین کے اندر لڑائی کی جرأت کریں گے تو بھی انہیں شکست ہوگی اور وہ، نہ تمہاری تلواروں کے واروں کو روک سکیں گے اور نہ وہ قید سے بچ سکیں گے۔
آیت ١١١ (لَنْ یَّضُرُّوْکُمْ الاَّ اَذًی ط) - یہ تمہارے لیے تھوڑی سی زبان درازی اور کو فت کا سبب تو بنتے رہیں گے ‘ لیکن یہ بالفعل تمہیں کوئی ضرر نہیں پہنچا سکیں گے۔- ( وَاِنْ یُّقَاتِلُوْکُمْ یُوَلُّوْکُمُ الْاَدْبَارَقف) ۔- ان میں جرأت نہیں ہے ‘ یہ بزدل ہیں ‘ تمہارا مقابلہ نہیں کرسکیں گے۔- (ثُمَّ لاَ یُنْصَرُوْنَ ) - یہ ایسے بےبس ہوں گے کہ ان کو کہیں سے مدد بھی نہیں مل سکے گی۔