Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

ظلم نہیں سزا حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں اہل کتاب اور اصحاب محمد صلی اللہ علیہ وسلم برابر نہیں ، مسند احمد میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عشاء کی نماز میں ایک مرتبہ دیر لگا دی پھر جب آئے تو جو اصحاب منتظر تھے ان سے فرمایا کسی دین والا اس وقت تک اللہ کا ذکر نہیں کر رہا مگر صرف تم ہی اللہ کے ذکر میں ہو اس پر یہ آیت نازل ہوئی لیکن اکثر مفسرین کا قول ہے کہ اہل کتاب کے علماء مثلاً حضرت عبداللہ بن سلام حضرت اسد بن عبید ، حضرت ثعلبہ بن شعبہ وغیرہ کے بارے میں یہ آیت آئی کہ یہ لوگ ان اہل کتاب میں شامل نہیں جن کی مذمت پہلے گزاری ، بلکہ یہ باایمان جماعت امر اللہ پر قائم شریعت محمدیہ کی تابع ہے استقامت و یقین اس میں ہے یہ پاکباز لوگ راتوں کے وقت تہجد کی نماز میں بھی اللہ کے کلام کی تلاوت کرتے رہتے ہیں اللہ پر قیامت پر ایمان رکھتے ہیں اور لوگوں کو بھی انہی باتوں کا حکم کرتے ہیں ان کے خلاف سے روکتے ہیں نیک کاموں میں پیش پیش رہا کرتے ہیں اب اللہ تعالیٰ انہیں خطاب عطا فرماتا ہے کہ یہ صالح لوگ ہیں اور سورت کے آخر میں بھی فرمایا آیت ( وَاِنَّ مِنْ اَھْلِ الْكِتٰبِ لَمَنْ يُّؤْمِنُ بِاللّٰهِ وَمَآ اُنْزِلَ اِلَيْكُمْ وَمَآ اُنْزِلَ اِلَيْھِمْ خٰشِعِيْنَ لِلّٰهِ ) 3 ۔ آل عمران:199 ) بعض اہل کتاب اللہ تعالیٰ پر اس قرآن پر اور توراۃ و انجیل پر بھی ایمان رکھتے ہیں اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہتے ہیں یہاں بھی فرمایا کہ ان کے یہ نیک اعمال ضائع نہ ہوں بلکہ پورا بدلہ ملے گا ، تمام پرہیزگار لوگ اللہ کی نظروں میں ہیں وہ کسی کے اچھے عمل کو برباد نہیں کرتا ۔ وہاں ان بےدین لوگوں کو اللہ کے ہاں نہ مال نفع دے گا نہ اولاد یہ تو جہنمی ہیں ۔ صر کے معنی سخت سردی کے ہیں جو کھیتوں کو جلا دیتی ہے ، غرض جس طرح کسی کی تیار کھیتی پر برف پڑے اور وہ جل کر خاکستر ہو جائے نفع چھوڑ اصل بھی غارت ہو جائے اور امیدوں پر پانی پھر جائے اسی طرح یہ کفار ہیں جو کچھ یہ خرچ کرتے ہیں اس کا نیک بدلہ تو کہاں اور عذاب ہوگا ۔ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ظلم نہیں بلکہ یہ ان کی بداعمالیوں کی سزا ہے ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

لَيْسُوْا سَوَاۗءً ۭ۔۔ : یعنی گو اہل کتاب کی اکثریت فاسق ہے مگر سب ایک جیسے نہیں، ان میں سے کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو ایمان لے آتے ہیں۔ طبری اور ابن ابی حاتم نے حسن سندوں کے ساتھ ابن عباس (رض) سے نقل کیا ہے کہ جب عبداللہ بن سلام، ثعلبہ بن سعید، اسید بن سعید، اسد بن عبید (رض) اور ان کے دوسرے ساتھی مسلمان ہوئے اور اسلام میں رغبت رکھ کر پکے ہوگئے تو یہودی مولوی اور ان کے بےایمان لوگ کہنے لگے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پیچھے صرف ہمارے برے لوگ ہی لگے ہیں، اگر وہ ہمارے اچھے لوگ ہوتے تو اپنے آباء کا دین چھوڑ کر غیر کی طرف نہ جاتے، اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیات (١١٣، ١١٤) نازل فرمائیں۔ یہ الفاظ طبری کے ہیں۔ اہل کتاب کے ان اچھے لوگوں کا ذکر سورة آل عمران (١٩٩) ، بنی اسرائیل (١٠٧ تا ١٠٩) اور سورة بقرہ (١٢١) میں بھی ہے۔ - 2 اُمَّةٌ قَاۗىِٕمَةٌ ۔۔ : یعنی رات کو قیام کرتے ہیں اور تہجد کی نماز میں قرآن کی تلاوت کرتے ہیں۔ ” قَاءِمَۃ “ کا ایک معنی ” مُسْتَقِیْمَۃٌ“ ہے، یعنی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے فرماں بردار ہیں اور ان کی شریعت پر قائم ہیں۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

ربط آیات :- اوپر اہل کتاب کے متعلق بیان ہوا تھا کہ ان میں کچھ لوگ مسلمان بھی ہیں اور زیادہ کافر ہیں، اسی مضمون کی مزید تفصیل ان آیات میں ہے۔- خلاصہ تفسیر :- یہ (اہل کتاب) سب برابر نہیں (بلکہ) ان (ہی) اہل کتاب میں ایک جماعت وہ بھی ہے جو (دین حق پر) قائم ہیں (اور) اللہ کی آیتیں (یعنی قرآن) اوقات شب میں پڑھتے تھے اور وہ نماز بھی پڑھتے ہیں (اور) اللہ پر اور قیامت والے دن پر (پورا پورا) ایمان رکھتے ہیں اور (دوسروں کو) نیک کام بتلاتے ہیں اور بری باتوں سے روکتے ہیں اور نیک کاموں میں دوڑاتے ہیں اور یہ لوگ (اللہ کے نزدیک) شائستہ لوگوں میں (شمار کئے جاتے ہیں) اور یہ لوگ جو نیک کام کریں گے اس (کے ثواب) سے محروم نہ کئے جائیں گے، اور اللہ تعالیٰ اہل تقوی کو خوب جانتے ہیں (اور یہ لوگ چونکہ اہل تقوی ہیں تو حسب وعدہ جزاء کے مستحق ہیں) بیشک جو لوگ کر رہے ہرگز ان کے کام نہ آویں گے ان کے مال اور نہ اولاد اللہ کے (عذاب کے) مقابلہ میں ذرا بھی اور وہ لوگ دوزخ والے ہیں (اور) وہ ہمیشہ اسی میں رہیں گے (اور کبھی نجات نہ ہوگی) وہ (کفار) جو کچھ خرچ کرتے ہیں اس دنیوی زندگانی میں اس کی حالت (بردباد و ضائع ہونے میں) اس حالت کے مثل ہے کہ ایک ہوا ہو جس میں تیز سردی (یعنی پالا) ہو (اور) وہ لگ جاوے ایسے لوگوں کی کھیتی جنہوں نے (بددینی سے) اپنا نقصان کر رکھا ہو پس وہ (ہوا) اس (کھیتی) کو برباد کر ڈالے (اسی طرح ان لوگوں کو خرچ کرنا آخرت میں سب ضائع ہے) اور (اس ضائع کرنے میں) اللہ تعالیٰ نے ان پر (کوئی) ظلم نہیں کیا، لیکن وہ خود (کفر کے ارتکاب سے جو کہ مانع قبول ہے) اپنے آپ کو ضرر پہنچا رہے تھے (نہ وہ کفر کرتے نہ ان کے سب نقصانات ضائع ہوتے) ۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

لَيْسُوْا سَوَاۗءً۝ ٠ ۭ مِنْ اَھْلِ الْكِتٰبِ اُمَّۃٌ قَاۗىِٕمَۃٌ يَّتْلُوْنَ اٰيٰتِ اللہِ اٰنَاۗءَ الَّيْلِ وَھُمْ يَسْجُدُوْنَ۝ ١١٣- سواء - ومکان سُوىً ، وسَوَاءٌ: وسط . ويقال : سَوَاءٌ ، وسِوىً ، وسُوىً أي : يستوي طرفاه، ويستعمل ذلک وصفا وظرفا، وأصل ذلک مصدر، وقال :- فِي سَواءِ الْجَحِيمِ [ الصافات 55] ، وسَواءَ السَّبِيلِ [ القصص 22] ، فَانْبِذْ إِلَيْهِمْ عَلى سَواءٍ [ الأنفال 58] ، أي : عدل من الحکم، وکذا قوله : إِلى كَلِمَةٍ سَواءٍ بَيْنَنا وَبَيْنَكُمْ [ آل عمران 64] ، وقوله : سَواءٌ عَلَيْهِمْ أَأَنْذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تُنْذِرْهُمْ [ البقرة 6] ،- سَواءٌ عَلَيْهِمْ أَسْتَغْفَرْتَ لَهُمْ [ المنافقون 6] ، - ( س و ی ) المسا واۃ - مکان سوی وسواء کے معنی وسط کے ہیں اور سواء وسوی وسوی اسے کہا جاتا ہے جس کی نسبت دونوں طرف مساوی ہوں اور یہ یعنی سواء وصف بن کر بھی استعمال ہوتا ہے اور ظرف بھی لیکن اصل میں یہ مصدر ہے قرآن میں ہے ۔ فِي سَواءِ الْجَحِيمِ [ الصافات 55] تو اس کو ) وسط دوزخ میں ۔ وسَواءَ السَّبِيلِ [ القصص 22] تو وہ ) سیدھے راستے سے ۔ فَانْبِذْ إِلَيْهِمْ عَلى سَواءٍ [ الأنفال 58] تو ان کا عہد ) انہیں کی طرف پھینک دو اور برابر کا جواب دو ۔ تو یہاں علی سواء سے عاولا نہ حکم مراد ہے جیسے فرمایا : ۔ إِلى كَلِمَةٍ سَواءٍ بَيْنَنا وَبَيْنَكُمْ [ آل عمران 64] اے اہل کتاب ) جو بات ہمارے اور تمہارے دونوں کے درمیان یکساں ( تسلیم کی گئی ) ہے اس کی طرف آؤ ۔ اور آیات : ۔ سَواءٌ عَلَيْهِمْ أَأَنْذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تُنْذِرْهُمْ [ البقرة 6] انہیں تم نصیحت کرو یا نہ کرو ان کے لئے برابر ہے ۔ سَواءٌ عَلَيْهِمْ أَسْتَغْفَرْتَ لَهُمْ [ المنافقون 6] تم ان کے لئے مغفرت مانگو یا نہ مانگوں ان کے حق میں برابر ہے ۔- الأُمّة :- كل جماعة يجمعهم أمر ما إمّا دين واحد، أو زمان واحد، أو مکان واحد سواء کان ذلک الأمر الجامع تسخیرا أو اختیارا، وجمعها : أمم، وقوله تعالی: وَما مِنْ دَابَّةٍ فِي الْأَرْضِ وَلا طائِرٍ يَطِيرُ بِجَناحَيْهِ إِلَّا أُمَمٌ أَمْثالُكُمْ [ الأنعام 38] - الامۃ - ہر وہ جماعت جن کے مابین رشتہ دینی ہو یا وہ جغرافیائی اور عصری وحدت میں منسلک ہوں پھر وہ رشتہ اور تعلق اختیاری اس کی جمع امم آتی ہے اور آیت کریمہ :۔ وَمَا مِنْ دَابَّةٍ فِي الْأَرْضِ وَلَا طَائِرٍ يَطِيرُ بِجَنَاحَيْهِ إِلَّا أُمَمٌ أَمْثَالُكُمْ ( سورة الأَنعام 38) اور زمین پر جو چلنے پھر نے والے ( حیوان ) دو پروں سے اڑنے والے پرند ہیں وہ بھی تمہاری طرح جماعتیں ہیں - قائِمٌ- وفي قوله : أَفَمَنْ هُوَ قائِمٌ عَلى كُلِّ نَفْسٍ بِما كَسَبَتْ [ الرعد 33] . وبناء قَيُّومٍ :- ( ق و م ) قيام - أَفَمَنْ هُوَ قائِمٌ عَلى كُلِّ نَفْسٍ بِما كَسَبَتْ [ الرعد 33] تو کیا جو خدا ہر نفس کے اعمال کا نگہبان ہے ۔ یہاں بھی قائم بمعنی حافظ ہے ۔- تلاوة- تختص باتباع کتب اللہ المنزلة، تارة بالقراءة، وتارة بالارتسام لما فيها من أمر ونهي، وترغیب وترهيب . أو ما يتوهم فيه ذلك، وهو أخصّ من القراءة، فکل تلاوة قراءة، ولیس کل قراءة تلاوة، لا يقال : تلوت رقعتک، وإنما يقال في القرآن في شيء إذا قرأته وجب عليك اتباعه . هنالک تتلوا کلّ نفس ما أسلفت[يونس 30] ، وَإِذا تُتْلى عَلَيْهِمْ آياتُنا [ الأنفال 31]- - التلاوۃ ۔ بالخصوص خدا تعالیٰ کی طرف سے نازل شدہ کتابوں کے اتباع تلاوۃ کہا جاتا ہے کبھی یہ اتباع ان کی قراءت پڑھنے ) کی صورت میں ہوتی ہے اور کبھی ان کے ادا مرد نواحی ( احکام ) ترغیب وترہیب اور جو کچھ ان سے سمجھا جا سکتا ہے ان کی اتباع کی صورت ہیں ، مگر یہ لفظ قرآت ( پڑھنے ) سے خاص ہے یعنی تلاوۃ کے اندر قراۃ کا مفہوم تو پایا جاتا ہے مگر تلاوۃ کا مفہوم قراء ۃ کے اندر نہیں آتا چناچہ کسی کا خط پڑھنے کے لئے تلوت رقعتک نہیں بالتے بلکہ یہ صرف قرآن پاک سے کچھ پڑھنے پر بولا جاتا ہے کیونکہ اس کے پڑھنے سے اس پر عمل کرنا واجب ہوجاتا ہے اور آیت کریمہ : ۔ هنالک تتلوا کلّ نفس ما أسلفت «3» [يونس 30] وہاں ہر شخص اپنے ( اپنے ) اعمال کی ) جو اس نے آگے بھجیے ا ہوں گے آزمائش کرلے گا ۔ میں ایک قرآت تتلوا بھی ہے یعنی وہاں ہر شخص اپنے عمل نامے کو پڑھ کر اس کے پیچھے چلے گا ۔ وَإِذا تُتْلى عَلَيْهِمْ آياتُنا [ الأنفال 31] اورا ن کے سامنے ہماری آیتیں پڑھی جاتی ہیں - آنا ( ساعت)- وآناء اللیل : ساعاته، الواحد : إِنْيٌ وإنىً وأَناً «1» ، قال عزّ وجلّ :- يَتْلُونَ آياتِ اللَّهِ آناءَ اللَّيْلِ [ آل عمران 113] وقال تعالی: وَمِنْ آناءِ اللَّيْلِ فَسَبِّحْ [ طه 130] ، وقوله تعالی: غَيْرَ ناظِرِينَ إِناهُ [ الأحزاب 53] أي : وقته، والإنا إذا کسر أوّله قصر، وإذا فتح مدّ ، نحو قول الحطيئةوآنیت العشاء إلى سهيل ... أو الشّعری فطال بي الأناء - «2» أَنَى وآن الشیء : قرب إناه، وحَمِيمٍ آنٍ [ الرحمن 44] بلغ إناه من شدة الحر، ومنه قوله تعالی: مِنْ عَيْنٍ آنِيَةٍ [ الغاشية 5] وقوله تعالی: أَلَمْ يَأْنِ لِلَّذِينَ آمَنُوا[ الحدید 16] أي : ألم يقرب إناه . ويقال : آنَيْتُ الشیء أُنِيّاً ، أي : أخّرته عن أوانه، وتَأَنَّيْتُ : تأخّرت، والأَنَاة : التؤدة . وتَأَنَّى فلان تَأَنِّياً ، وأَنَى يَأْنِي فهو آنٍ ، أي : وقور . واستأنيته : انتظرت أوانه، ويجوز في معنی استبطأته، واستأنيت الطعام کذلک، والإِنَاء : ما يوضع فيه الشیء، وجمعه آنِيَة، نحو : کساء وأكسية، والأَوَانِي جمع الجمع .- ( ا ن ی ) انی - ( ض) الشئ اس کا وقت قریب آگیا ۔ وہ اپنی انہتا اور پختگی کے وقت کو پہنچ گئی ۔ قرآن میں ہے :۔ أَلَمْ يَأْنِ لِلَّذِينَ آمَنُوا ( سورة الحدید 16) کیا ابھی تک مومنوں کے لئے وقت نہیں آیا (57 ۔ 16) غَيْرَ نَاظِرِينَ إِنَاهُ ( سورة الأحزاب 53) تم کھانے وقت کا انتظار کر رہے ہو ( انی الحمیم ۔ پانی حرارت میں انتہا کو پہنچ گیا ) قرآن میں ہے حَمِيمٍ آنٍ ( سورة الرحمن 44) مین عین انیۃ انی ( بتثلیث الہمزہ ) وقت کا کچھ حصہ اس کی جمع اناء ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ يَتْلُونَ آيَاتِ اللهِ آنَاءَ اللَّيْلِ ( سورة آل عمران 113) جور ات کے وقت خدا کی ائتیں پڑھتے ہیں وَمِنْ آنَاءِ اللَّيْلِ فَسَبِّحْ ( سورة طه 130) اور رات کے اوقات میں ( بھی ) اس کی تسبیح کیا کرو۔ انی ۔ ہمزہ مکسور رہونے کی صورت میں اسم مقصور ہوگا اور ہمزہ مفتوح ہونے کی صورت میں اسم ممدود حطیہ نے کہا ہے ( الوافر ) (31) آنیت العشاء الی سھیل اوشعریٰ فطال بی الاناء میں نے سہیل یا شعری ستارہ کے طلوع ہونے تک کھانے کو مؤخر کردیا اور میرا انتظار طویل ہوگیا ۔ آنیت الشئی ایناء ۔ کسی کام کوا کے مقررہ وقت سے موخر کرنا ۔ تانیث ۔ میں نے دیر کی لاناۃ ۔ علم ۔ وقار ۔ طمانیست تانٰی فلان تانیا ۔ وانی یاتیٰ ان یا ( س) تحمل اور حلم سے کام لینا ۔ استانیت الشئ میں نے اس کے وقت کا انتظار کیا نیز اس کے معنی دیر کرنا بھی آتے ہیں جیسے استانیت الطعام ۔ میں نے کھانے کو اس کے وقت سے موخر کردیا ۔ الاناء ۔ برتن ۔ آنیۃ ۔ جیسے کساء واکسیۃ اس کی جمع الجمع الاثانی ہے ۔- سجد - السُّجُودُ أصله : التّطامن «3» والتّذلّل، وجعل ذلک عبارة عن التّذلّل لله وعبادته، وهو عامّ في الإنسان، والحیوانات، والجمادات،- وذلک ضربان : سجود باختیار،- ولیس ذلک إلا للإنسان، وبه يستحقّ الثواب، نحو قوله : فَاسْجُدُوا لِلَّهِ وَاعْبُدُوا[ النجم 62] ، أي : تذللوا له، - وسجود تسخیر،- وهو للإنسان، والحیوانات، والنّبات، وعلی ذلک قوله : وَلِلَّهِ يَسْجُدُ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ طَوْعاً وَكَرْهاً وَظِلالُهُمْ بِالْغُدُوِّ وَالْآصالِ [ الرعد 15] - ( س ج د ) السجود - ( ن ) اسکے اصل معنی فرو تنی اور عاجزی کرنے کے ہیں اور اللہ کے سامنے عاجزی اور اس کی عبادت کرنے کو سجود کہا جاتا ہے اور یہ انسان حیوانات اور جمادات سب کے حق میں عام ہے ( کیونکہ )- سجود کی دو قسمیں ہیں ۔ سجود اختیاری - جو انسان کے ساتھ خاص ہے اور اسی سے وہ ثواب الہی کا مستحق ہوتا ہے جیسے فرمایا :- ۔ فَاسْجُدُوا لِلَّهِ وَاعْبُدُوا[ النجم 62] سو اللہ کے لئے سجدہ کرو اور اسی کی ) عبادت کرو ۔- سجود تسخیر ی - جو انسان حیوانات اور جمادات سب کے حق میں عام ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ : وَلِلَّهِ يَسْجُدُ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ طَوْعاً وَكَرْهاً وَظِلالُهُمْ بِالْغُدُوِّ وَالْآصالِ [ الرعد 15]- اور فرشتے ) جو آسمانوں میں ہیں اور جو ( انسان ) زمین میں ہیں ۔ چار ونا چار اللہ ہی کو سجدہ کرتے ہیں اور صبح وشام ان کے سایے ( بھی اسی کو سجدہ کرتے ہیں اور صبح وشام ان کے سایے ( بھی اسی کو سجدہ کرتے ہیں )

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

سب اہل کتاب یکساں نہیں ہیں - قول باری ہے (کیسواسواء من اھل الکتب امۃ قائمۃ یتلون ایات اللہ آناء للیل وھم یسجدون، مگر سب اہل کتاب یکساں نہیں ہیں۔ ان میں سے کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو راہ راست پر قائم ہیں۔ راتوں کو اللہ کی آیات پڑھتے ہیں اور اس کے آگے سجدہ ریزہوتے ہیں) ابن عباس (رض) قتادہ اور ابن جریج کا قول ہے کہ جب عبداللہ بن سلام اور ان کے ساتھ ایک گروہ مسلمان ہوگیا تو یہود کہنے لگے کہ محمد ((صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)) پر ہمارے بدترین لوگ ایمان لائے ہیں اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی حسن کا قول ہے کہ (قائمۃ) سے مراد عادلہ ہے۔ ابن عباس (رض) ، قتادہ اور ربیع بن انس کا قول ہے کہ اس سے مراد اللہ کے حکم پر ثابت قدم رہنے والے گول ہیں سدی کا قول ہے کہ اس سے اللہ کی طاعت پر ثابت قدم رہنے والے لوگ مراد ہیں۔ قول باری (وھم یسجدون) کی تفسیر میں ایک قول ہے کہ اس سے مراد وہ سجدہ ہے جو نماز میں معروف ہے۔ بعض کا قول ہے کہ اس سے مراد ہے کہ وہ نماز پڑھتے ہیں اس لیے کہ سجدے میں قرأت نہیں ہوتی اور نہ ہی رکوع میں انہوں نے حرف واؤ کو حال کے معنی میں لیا ہے۔ یہی فرآء کا بھی قول ہے۔ پہلے گروہ کا کہنا ہے کہ یہاں واؤ عطف کے لیے ہے ۔ گویا کہ یوں ارشاد ہوا، وہ راتوں کوا للہ کی آیات پڑھتے ہیں اور اس کے ساتھ سجدے بھی کرتے ہیں۔

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(١١٣۔ ١١٤) ہاں اہل کتاب میں سے جو حضرات اسلام قبول کرچکے، وہ ان کی طرح نہیں ہیں جو ایمان نہیں لائے ان میں انصاف والی ایک جماعت وہ بھی ہے جو ہدایت اور توحید خداوندی پر قائم ہے جیسا کہ یہ عبداللہ بن سلام (رض) اور ان کے ساتھی یہ حضرات راتوں کو نماز میں قرآن کریم پڑھتے ہیں اور پابندی سے نمازوں کا اہتمام رکھتے ہیں اور تمام کتب سماویہ اور تمام رسولوں اور مرنے کے بعد زندہ ہونے اور جنت کی نعمتوں رکھتے ہیں۔- اور اس کے ساتھ ساتھ توحید اور رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی پیروی کا حکم اور کفر وشرک اور شیطان کی پیروی سے روکتے اور نیکیوں میں سبقت کرتے ہیں یہی لوگ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی امت میں نیکو کار ہیں یا یہ کہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی امت میں جو حضرات سب سے بڑھ کر نیکو کار ہیں، جیسا کہ حضرت ابوبکر صدیق (رض) اور ان کے ساتھی یہ لوگ جنت میں ان حضرات کے ساتھ ہوں گے۔- شان نزول : (آیت) ” لیسوا سوآء من اھل الکتب “۔ (الخ)- ابن ابی حاتم (رح) ، طبرانی (رح) اور ابن مندہ (رح) نے ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ جس وقت حضرت عبداللہ بن سلام (رض) ثعلبہ بن سعید (رض) اسید بن عبد (رض) اور ان کے ساتھ یہودیوں میں سے اور حضرات مشرف بااسلام ہوگئے اور انہوں نے سچائی کے ساتھ ایمان قبول کیا اور اسلام میں جوش اور رغبت پید ا کی تو یہود علماء اور کافر بولے کہ ہم میں جو برے ہیں وہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لائے ہیں اور جو ہم میں پسندیدہ ہیں انہوں نے اپنے آباؤ اجداد کے دین کو نہیں چھوڑا اور نہ دوسرے دین کو اختیار کیا اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی کہ اہل کتاب میں سے یہ سب برابر انہین۔ (لباب النقول فی اسباب النزول از علامہ سیوطی (رح )- اور امام احمد وغیرہ نے ابن مسعود (رض) سے روایت نقل کی ہے کہ ایک مرتبہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نماز عشاء میں کچھ دیر تشریف لائے تو صحابہ کرام کو دیکھا کہ وہ نماز کے انتظار میں بیٹھے ہیں، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تم لوگوں کے علاوہ کوئی دین والا بھی ایسا نہیں جو اس وقت اللہ تعالیٰ کو یاد کرے، اس وقت یہ آیت مبارکہ نازل ہوئی۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ١١٣ (لَیْسُوْا سَوَآءً ط) ۔- ان میں اچھے بھی ہیں ‘ برے بھی ہیں۔- (مِنْ اَہْلِ الْکِتٰبِ اُمَّۃٌ قَآءِمَۃٌ یَّتْلُوْنَ اٰیٰتِ اللّٰہِ اٰنَاءَ الَّیْلِ وَہُمْ یَسْجُدُوْنَ ) ۔- رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانے میں خاص طور پر عیسائی راہبوں کی ایک کثیر تعداد اس کردار کی حامل تھی۔ ان ہی میں سے ایک بحیرہ راہب تھا جس نے بچپن میں آنحضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو پہچان لیا تھا۔ یہود میں بھی اکا دکا لوگ اس طرح کے باقی ہوں گے ‘ لیکن اکثر و بیشتر یہود میں سے یہ کردار ختم ہوچکا تھا ‘ البتہ عیسائیوں میں ایسے لوگ بکثرت موجود تھے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

37: اس سے مراد وہ اہل کتاب ہیں جو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لے آئے تھے، مثلاً یہودیوں میں سے حضرت عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ