[١٠٣] پہلے اللہ تعالیٰ نے یہ بتلایا تھا کہ اہل کتاب کی اکثریت فسق و فجور پر ہی مصر رہی۔ اس آیت میں یہ بتلایا جارہا ہے کہ وہ سب کے سب ہی برے نہیں۔ ان میں بھی کچھ اچھے لوگ موجود ہیں جو ایمان لے آئے ہیں۔ مثلاً عبداللہ بن سلام (رض) اور ان کے ساتھی یا نجاشی شاہ حبشہ وغیرہ اور ان میں وہ سب خوبیاں موجود ہیں جو نیکو کار مسلمانوں میں ہوتی ہیں۔ عبداللہ بن سلام (رض) یہود کے ممتاز علماء میں سے تھے۔ لیکن مفاد پرست اور جاہ طلب ہونے کی بجائے حق پرست تھے۔ جب آپ ہجرت کرکے مدینہ تشریف لائے اور عبداللہ بن سلام ( رض) نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں وہ نشانیاں دیکھیں جو تورات میں نبی آخرالزمان کی بتلائی گئی تھیں تو آپ فوراً خدمت اقدس میں حاضر ہوئے اور چند سوالات پوچھنے کے بعد اسلام لے آئے۔ پھر آپ ہی نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہود کی سرشت سے آگاہ کیا۔ چناچہ یہود ان کے دشمن بن گئے۔ پھر جب ایک زنا کے مقدمہ میں یہود نے تورات سے رجم کی آیت کو چھپانا چاہا تو عبداللہ بن سلام (رض) نے ہی اس آیت کی نشاندہی کرکے یہود کو نادم اور رسوا کیا۔ عبداللہ بن سلام (رض) کو ایک خواب آیا تھا جس کی تعبیر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ بتلائی کہ عبداللہ بن سلام (رض) آخری دم تک اسلام پر ثابت قدم رہیں گے۔ چناچہ بعض صحابہ (رض) انہیں جنتی کہا کرتے تھے اور نجاشی شاہ حبشہ جس کا نام اصحمہ تھا، نے مسلمانوں کی اس وقت بھرپور حمایت کی جب مسلمان ہجرت کرکے حبشہ پہنچے اور قریش مکہ کا ایک وفد انہیں واپس لانے کے لیے شاہ حبشہ کی خدمت میں حاضر ہوا تھا۔ شاہ حبشہ نے نہ صرف یہ کہ مسلمانوں کو واپس نہیں کیا اور انہیں پناہ دی بلکہ برملا اعتراف کیا کہ حضرت عیسیٰ اور مریم کے معاملہ میں مسلمانوں کے عقائد بالکل درست اور عیسیٰ (علیہ السلام) کی تعلیمات کے عین مطابق ہیں پھر مسلمانوں سے بہتر سے بہتر سلوک کیا۔ اس کے باقاعدہ اسلام لانے کی تفصیل تو نہیں ملتی تاہم جب وہ فوت ہوا تو آپ نے مسلمانوں کو اس کی وفات پر مطلع کرکے فرمایا کہ اپنے مسلمان بھائی کی نماز جنازہ پڑھو۔ چناچہ اس کی غائبانہ نماز جنازہ پڑھی گئی۔ (بخاری۔ کتاب الجنائز، باب الصفوف علی الجنازۃ۔۔ ) اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ فی الحقیقت اسلام لاچکا تھا۔
يُؤْمِنُوْنَ باللّٰہ۔۔ : یہ یہود پر طنز ہے کہ جن لوگوں کو تم برا کہتے ہو ان میں تو یہ نیک اوصاف ہیں، وہ برے کیسے ہوگئے، وہ تو صالحین میں سے ہیں۔
يُؤْمِنُوْنَ بِاللہِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ وَيَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَيَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَيُسَارِعُوْنَ فِي الْخَيْرٰتِ ٠ ۭ وَاُولٰۗىِٕكَ مِنَ الصّٰلِحِيْنَ ١١٤- أیمان - يستعمل اسما للشریعة التي جاء بها محمّد عليه الصلاة والسلام، وعلی ذلك : الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة 69] ، ويوصف به كلّ من دخل في شریعته مقرّا بالله وبنبوته . قيل : وعلی هذا قال تعالی: وَما يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ [يوسف 106] . وتارة يستعمل علی سبیل المدح، ويراد به إذعان النفس للحق علی سبیل التصدیق، وذلک باجتماع ثلاثة أشياء : تحقیق بالقلب، وإقرار باللسان، وعمل بحسب ذلک بالجوارح، وعلی هذا قوله تعالی: وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ أُولئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ [ الحدید 19] .- ( ا م ن ) - الایمان - کے ایک معنی شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے آتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ :۔ الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة 69] ، اور جو لوگ مسلمان ہیں یا یہودی یا عیسائی یا ستارہ پرست۔ اور ایمان کے ساتھ ہر وہ شخص متصف ہوسکتا ہے جو تو حید کا اقرار کر کے شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں داخل ہوجائے اور بعض نے آیت وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ ( سورة يوسف 106) ۔ اور ان میں سے اکثر خدا پر ایمان نہیں رکھتے مگر ( اس کے ساتھ ) شرک کرتے ہیں (12 ۔ 102) کو بھی اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔ - الله - الله : قيل : أصله إله فحذفت همزته، وأدخل عليها الألف واللام، فخصّ بالباري تعالی، ولتخصصه به قال تعالی: هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا [ مریم 65] . - ( ا ل ہ ) اللہ - (1) بعض کا قول ہے کہ اللہ کا لفظ اصل میں الہ ہے ہمزہ ( تخفیفا) حذف کردیا گیا ہے اور اس پر الف لام ( تعریف) لاکر باری تعالیٰ کے لئے مخصوص کردیا گیا ہے اسی تخصیص کی بناء پر فرمایا :۔ هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا ( سورة مریم 65) کیا تمہیں اس کے کسی ہمنام کا علم ہے ۔ - - آخرت - آخِر يقابل به الأوّل، وآخَر يقابل به الواحد، ويعبّر بالدار الآخرة عن النشأة الثانية، كما يعبّر بالدار الدنیا عن النشأة الأولی نحو : وَإِنَّ الدَّارَ الْآخِرَةَ لَهِيَ الْحَيَوانُ [ العنکبوت 64] ، وربما ترک ذکر الدار نحو قوله تعالی: أُولئِكَ الَّذِينَ لَيْسَ لَهُمْ فِي الْآخِرَةِ إِلَّا النَّارُ [هود 16] . وقد توصف الدار بالآخرة تارةً ، وتضاف إليها تارةً نحو قوله تعالی: وَلَلدَّارُ الْآخِرَةُ خَيْرٌ لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأنعام 32] ، وَلَدارُ الْآخِرَةِ خَيْرٌ لِلَّذِينَ اتَّقَوْا[يوسف 109] .- وتقدیر الإضافة : دار الحیاة الآخرة .- اخر ۔ اول کے مقابلہ میں استعمال ہوتا ہے اور اخر ( دوسرا ) واحد کے مقابلہ میں آتا ہے اور الدارالاخرۃ سے نشاۃ ثانیہ مراد لی جاتی ہے جس طرح کہ الدار الدنیا سے نشاۃ اولیٰ چناچہ فرمایا وَإِنَّ الدَّارَ الْآخِرَةَ لَهِيَ الْحَيَوَانُ ( سورة العنْکبوت 64) ہمیشہ کی زندگی کا مقام تو آخرت کا گھر ہے لیکن کھی الدار کا لفظ حذف کر کے صرف الاخرۃ کا صیغہ استعمال کیا جاتا ہے جیسے فرمایا : ۔ أُولَئِكَ الَّذِينَ لَيْسَ لَهُمْ فِي الْآخِرَةِ إِلَّا النَّارُ ( سورة هود 16) یہ وہ لوگ ہیں جن کے لئے آخرت میں آتش جہنم کے سوا اور کچھ نہیں ۔ اور دار کا لفظ کبھی اخرۃ کا موصوف ہوتا ہے اور کبھی اس کی طر ف مضاف ہو کر آتا ہے چناچہ فرمایا ۔ وَلَلدَّارُ الْآخِرَةُ خَيْرٌ لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ ( سورة الأَنعام 32) اور یقینا آخرت کا گھر بہتر ہے ۔ ان کے لئے جو خدا سے ڈرتے ہیں ۔ (6 ۔ 32) وَلَأَجْرُ الْآخِرَةِ أَكْبَرُ لَوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ ( سورة النحل 41) اور آخرت کا اجر بہت بڑا ہے ۔ اگر وہ اسے جانتے ہوتے ۔- سرع - السُّرْعَةُ : ضدّ البطء، ويستعمل في الأجسام، والأفعال، يقال : سَرُعَ ، فهو سَرِيعٌ ، وأَسْرَعَ فهو مُسْرِعٌ ، وأَسْرَعُوا : صارت إبلهم سِرَاعاً ، نحو :- أبلدوا، وسَارَعُوا، وتَسَارَعُوا . قال تعالی: وَسارِعُوا إِلى مَغْفِرَةٍ مِنْ رَبِّكُمْ [ آل عمران 133] ، وَيُسارِعُونَ فِي الْخَيْراتِ [ آل عمران 114] ، يَوْمَ تَشَقَّقُ الْأَرْضُ عَنْهُمْ سِراعاً [ ق 44] - ( س ر ع ) السرعۃ - اس کے معنی جلدی کرنے کے ہیں اور یہ بطا ( ورنگ گردن ) کی ضد ہے ۔ اجسام اور افعال دونوں کے ( ان کے اونٹ تیز رفتاری سے چلے گئے ) آتے ہں ۔ جیسا کہ اس کے بالمقابل ایلد وا کے معنی سست ہونا آتے ہیں ۔ سارعوا وتسارعو ایک دوسرے سے سبقت کرنا چناچہ قرآن میں ہے : وَسارِعُوا إِلى مَغْفِرَةٍ مِنْ رَبِّكُمْ [ آل عمران 133] اور اپنے پروردگار کی بخشش ( اور بہشت کی ) طرف لپکو ۔ وَيُسارِعُونَ فِي الْخَيْراتِ [ آل عمران 114] اور نیکیوں پر لپکتے ہیں ۔ يَوْمَ تَشَقَّقُ الْأَرْضُ عَنْهُمْ سِراعاً [ ق 44] اس روز زمین ان پر سے پھٹ جائے گی اور جھٹ جھٹ نکل کھڑے ہوں گے ۔ - صالح - الصَّلَاحُ : ضدّ الفساد، وهما مختصّان في أكثر الاستعمال بالأفعال، وقوبل في القرآن تارة بالفساد، وتارة بالسّيّئة . قال تعالی: خَلَطُوا عَمَلًا صالِحاً وَآخَرَ سَيِّئاً [ التوبة 102] - ( ص ل ح ) الصالح - ۔ ( درست ، باترتیب ) یہ فساد کی ضد ہے عام طور پر یہ دونوں لفظ افعال کے متعلق استعمال ہوتے ہیں قرآن کریم میں لفظ صلاح کبھی تو فساد کے مقابلہ میں استعمال ہوا ہے اور کبھی سیئۃ کے چناچہ فرمایا : خَلَطُوا عَمَلًا صالِحاً وَآخَرَ سَيِّئاً [ التوبة 102] انہوں نے اچھے اور برے عملوں کے ملا دیا تھا ۔
مومن اہل کتاب کی صفت - قول باری ہے (یؤمنوں باللہ والیوم الاخرویامرون بالمعروف وینھون عن المنکر، وہ اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتے نیکی کا حکم دیتے اور برائی سے روکتے ہیں) اہل کتاب میں سے جو لوگ ایمان لے آئے تھے ان کی یہ صفت بیان ہورہی ہے۔ اس لیے کہ وہ اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لے آئے ۔ پھر انہوں نے لوگوں کو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تصدیق کی طرف بلایا اور جو لوگ آپ کی مخالفت کرتے تھے انہیں اس مخالفت سے روکا اس لیے ان کا شماران لوگوں میں ہوگیا جن کے متعلق اللہ تعالیٰ کا پچھلی آیت میں ارشاد ہے (کنتم خیرامۃ اخرجت للناس) ہم نے امربالمعروف اور نہی عن المنکر کے وجوب پر قرآنی دلائل کا پہلے ذکرکر دیا ہے۔- مذاہب فاسدہ کا مقابلہ کس طرح کیا جائے - اگریہ کہاجائے کہ آیا مذاہب فاسدہ کے عقائد کا ازالہ جو تاویل کے سہارے اپنا لیے گئے ہیں اسی طرح واجب ہے جس طرح غلط اور منکر افعال کا ؟ تو اس کے جواب میں یہ کہاجائے گا کہ اس کی دو صورتیں ہیں۔ اول یہ کہ فاسد عقائد کا حامل کوئی شخص اگر اپنے غلط عقائد کی دعوت دے رہاہو اور اس طرح وہ شبہات پیداکرکے لوگوں کو گمراہ کررہاہو، تو اسے ہر ممکن طریقے سے اس سے ہٹانا اور باز رکھنا واجب ہے۔ لیکن اگر کوئی شخص اپنے فاسد عقائد کو اپنی ذات تک محدودرکھے اور لوگوں کو ان کی دعوت نہ دے، تو اسے دلائل دے کر حق کی دعوت دی جائے گی اور اس کے شبہات کو دورکیاجائے گا۔ یہاں تک تو اس کے ساتھ یہی معاملہ رکھا جائے گا ، لیکن اگر وہ اہل حق کے خلاف تلوار اٹھائے گا اور جتھابندی کرکے امام المسلمین کے خلاف صف آراء ہوجائے گا، اور طاقت کے بل بوتے پر اپنے باطل عقائد کی لوگون کو دعوت دینا شروع کردے گا۔ تو پھر وہ باغی شمارہوگا ، جس کے متعلق اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ اس سے جنگ کی جائے۔ یہاں تک کہ وہ اللہ کے حکم کی طرف لوٹنے پر مجبورہوجائے۔- فاسد مذہب اور حضرت علی (رض) کی رائے - حضرت علیرضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ کوفہ کی جامع مسجد میں منبر پر خطبہ دے رہے تھے کہ مسجد کے ایک گوشے سے خوارج کے ایک ٹولے نے (لاحکم الاللہ) ، حکم صرف اللہ کا چلے گا) کا نعرہ بلند کیا، آپ نے اپنا خطبہ منقطع کرکے فرمایا : بات تو درست کہی گئی ہے۔ لیکن جس مقصد کے لیے کہی گئی ہے وہ غلط اور باطل ہے، لوگو سنو، ان لوگوں کے سلسلے میں ہمارا طریق کاریہ ہے کہ جب یہ ہمارا ساتھ دیتے رہیں گے ہم انہیں مال غنیمت میں سے ان کا حصہ ادا کرتے رہیں گے۔ ہم انہیں اپنی مسجدوں میں اللہ کی عبادت کرنے سے نہیں روکیں گے، اور جب تک یہ ہمارے خلاف ہتھیار نہیں اٹھائیں گے ہم ان کے خلاف کوئی جنگی کارروائی نہیں کریں گے۔ حضرت علی (رض) نے لوگوں کو یہ بتایا کہ ان خارجیوں کے خلاف اس وقت تک قتال واجب نہیں ہوگا جب تک وہ جنگ پر کمربستہ نہ ہوجائیں۔ جب حروراء کے مقام پر یہ لوگ آپ کے خلاف صف آراء ہوگئے تو آپ نے سب سے پہلے انہیں واپس آملنے کی دعوت دی، پھر ان کے ساتھ مباحثہ ومناظرہ بھی کیا جس کا یہ اثرہوا کہ بہت سے لوگ ان خارجیوں کا ساتھ چھوڑکر آپ کے لشکر سے آملے۔- یہ طرزعمل تاویل کی بناپرفاسدمذاہب اختیار کرنے اور باطل عقائد رکھنے والوں کے خلاف کارروائی کرنے کی اصل اور بنیاد ہے۔ یعنی ایسے لوگ جب تک کھلم کھلااپنے مذہب اور عقیدے کا پرچار نہ کریں اور اہل حق کے خلاف صف آرانہ ہوجائیں اس وقت تک ان کے خلاف جنگی کارروائی نہیں کی جائے گی۔ اور انہیں ان کے حال پرچھوڑدیاجائے گا، بشرطیکہ ان کا یہ مذہب اور عقیدہ صریح کفرنہ ہو، اس لیے کہ کسی کافرکوکفر کی حالت پرچھوڑدینا جائز نہیں ہے بلکہ اس پر جزیہ عائد کرنا ضروری ہے۔ جبکہ ایسا شخص جو تاویل کی بناپر کفراختیار کرلے اسے جزیہ پر قرار رکھنا جائز نہیں ہے۔ اس لیے کہ اس کی حیثیت مرتدجیسی ہوگی۔ کیونکہ اس نے پہلے توحید کا اقرار کیا تھا، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لے آیا تھا۔ اس لیے اب اگر وہ ان باتوں کو تسلیم نہ کرتے ہوئے کوئی اور راستہ اختیارکرے گا تو وہ مرتدقرارپائے گا۔- تاویل کرنے والے گمراہ مذاہب کے بارے میں ابوالحسن کی رائے - بعض لوگ انہیں اہل کتاب کا درجہ دیتے ہیں، ابوالحسن یہی کہا کرتے تھے۔ چناچہ ان کے قول کے مطابق ایسے لوگوں کی بیٹیوں سے نکاح جائز ہے لیکن مسلمانوں کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ اپنی بیٹیاں انہیں نکاح میں دیں۔ ان کاذبیحہ بھی کھانا درست ہے اس لیے کہ یہ لوگ اپنے مذہب کی نسبت قرآن کے حکم کی طرف کرتے ہیں۔ اگرچہ قرآن پر عمل پیرا ہونے کے لیئے تیار نہیں ہوتے۔ جس طرح کہ کوئی شخص نصرانیت یایہودیت کی طرف اپنے آپ کو منسوب کرلے، اس کا حکم بھی یہودیوں اور نصرانیوں جیسا ہوگا۔ اگرچہ وہ ان کی شریعت کی تمام باتوں کی پابندی نہ بھی کرتاہو۔ قول باری ہے (ومن یتولھم منکم فانہ منھم) تم میں سے جو شخص ان کے ساتھ دوستی گانٹھے گا وہ ان ہی میں سے ہوجائے گا۔- امام محمد کی رائے - امام محمد نے، الزیادات، میں فرمایا ہے کہ اگر کوئی شخص ایسے باطل عقائد اختیار کرلیتا ہے جن کے ماننے والوں کی تکفیر کی جاتی ہے، توای سے شخص کی وصیتیں مسلمانوں کی وصیتوں کی طرح ہوں گی، یعنی مسلمانوں کی وصیتوں کی جو صورتیں جائڑہوں گی ان کی بھی جائز ہوں گی اور جو ناجائز ہوں گی ان کی بھی ناجائز ہوں گی۔ امام محمد کی یہ بات بعض صورتوں میں اس مسلک کی موافقت پر دلالت کرتی ہے جو ابوالحسن نے اختیار کیا تھا۔- بعض دیگر اہل علم کی آراء - بعض لوگوں کے نزدیک ان کی حیثیت ان منافقین کی طرح ہے جو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانے میں پائے جاتے تھے۔ اس کے باوجود کہ اللہ تعالیٰ کو ان کے کفرونفاق کا علم تھا یا انہیں ان کے نفاق پر قائم رہنے دیا گیا۔ کچھ لوگوں کے نزدیک ان کی حیثیت ذمیوں جیسی ہے۔ جو لوگ یہ بات تسلیم نہیں کرتے انہوں نے منافقین اور اہل الذمہ کے درمیان یہ فرق کیا ہے کہ اگر ایک منافق کے نفاق کا علم ہوجائے توہم اسے اس پر برقراررہنے نہیں دیں گے اور اس سے اسلام یا تلوار کے سوا اور کوئی بات قبول نہیں کریں گے، اس کے برعکس ذمیوں سے جزیہ لے کر انہیں ان کی حالت پر برقراررکھاجاتا ہے جبکہ ایسے لوگوں سے جزیہ لینا جائز نہیں ہے جو تاویل کی بناپرکفر میں مبتلا ہوں اور اپنی نسبت اسلام کی طرف کرتے ہوں انہیں جزیہ کے بغیر چھوڑنا بھی درست نہیں ہے۔ اس لیے اس بارے میں ان کا حکم یہ ہے کہ ہمیں ان میں سے کسی کے متعلق جب کفر کے اعتقادکاعلم ہوجائے گا تو اس پرا سے برقرار رہنے دیا جانا جائز نہیں ہوگا۔ بلکہ اس پر مرتدین کے احکامات جاری کیئے گے۔ اس پر کافروں کے احکام جاری کرنے کے سلسلے میں اس امکان پر انحصار نہیں کیا جائے گا کہ ہوسکتا ہے کہ اس کا عقیدہ درست ہو اور اسے غلطی لگ گئی ہوبل کہ وہ اپنے مافی الضمیرکا اظہار کرتے ہوئے اگر ہمارے سامنے ایسے اعتقاد کا اظہارکرے گا جو اس کی تکفیرواجب کردے تو اس صورت میں اس پر مرتدین کے احکام جاری کرنا جائز ہوگا یعنی اس سے یہ مطالبہ کیا جائے گا کہ وہ اپنے اس غلط عقیدے سے توبہ کرے۔ ورنہ اسے قتل کردیاجائے گا۔ واللہ اعلم۔