Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

133۔ 1 مال و دولت دنیا کے پیچھے لگ کر آخرت تباہ کرنے کی بجائے، اللہ اور رسول کی اطاعت اور اللہ کی مغفرت اور اس کی جنت کا راستہ اختیار کرو۔ جو متقین کے لئے اللہ نے تیار کیا ہے۔ چناچہ آگے متقین کی چند خصوصیات بیان فرمائی ہیں۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١١٨۔ ١] سود کی حرمت کا ذکر سورة بقرہ کی آیات ٢٧٨۔ ٢٧٩ میں گزر چکا ہے۔ یہ آیت اس سے پہلے کی نازل شدہ ہے۔ جبکہ مسلمانوں کو سود کی قباحتوں سے متعارف کرانا اس سے نفرت دلانا اور اس کو یکسر چھوڑ دینے کے لیے ذہنوں کو ہموار کرنا مقصود تھا۔ اس مقام پر سود کے ذکر کی وجہ مناسبت یہ معلوم ہوتی ہے کہ جنگ احد میں ابتداً مسلمان جو شکست سے دوچار ہوئے تو اس کا بڑا سبب یہ تھا کہ مسلمانوں کا وہ دستہ جو حضرت عبداللہ بن جبیر کی سر کردگی میں درہ کی حفاظت پر مامور تھا، اس نے جب فتح کے آثار دیکھے تو مال کے طمع سے مغلوب ہوگئے اور اپنے کام کو تکمیل تک پہنچانے کے بجائے غنیمت لوٹنے میں لگ گئے۔ اللہ تعالیٰ نے اس صورت حال کی اصلاح کے لیے زر پرستی کے سرچشمے پر بند باندھنا ضروری سمجھا کیونکہ سود کا خاصہ یہ ہے کہ وہ سود خوار میں حرص و طمع، بخل و بزدلی، خود غرضی اور زر پرستی جیسی رذیل صفات پیدا کردیتا ہے اور سود ادا کرنے والوں میں نفرت، غصہ، بغض و حسد جیسی صفات پیدا ہوجاتی ہیں، اور ایسی صفات ایک اسلامی معاشرہ کے لیے سم قاتل کی حیثیت رکھتی ہیں اور جہاد کی روح کے منافی ہیں اور آخرت میں اخروی عذاب کا سبب بنتی ہیں۔ انہیں وجوہ کی بنا پر سود کو بالآخر مکمل طور پر حرام قرار دیا گیا۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَسَارِعُوْٓا اِلٰى مَغْفِرَةٍ مِّنْ رَّبِّكُمْ : اہل ایمان کو ان اعمال صالحہ کی طرف جلدی کرنی چاہیے جو اللہ تعالیٰ کی مغفرت کا سبب بنتے ہیں، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” نیک اعمال سر انجام دینے میں جلدی کرلو، ایسے فتنوں کے آنے سے پہلے پہلے جو اندھیری رات کے مختلف ٹکڑوں کی طرح ( یکے بعد دیگرے) رونما ہوں گے۔ صبح کو آدمی مومن ہوگا اور شام کو کافر ہوگا اور شام کو مومن ہوگا اور صبح کو کافر، وہ اپنے دین کو دنیا کے معمولی سامان کے عوض بیچ دے گا۔ “ [ مسلم، - الإیمان، باب الحث علی المبادرۃ۔۔ : ١١٨، عن أبی ہریرۃ (رض) ]- 2 وَجَنَّةٍ عَرْضُھَا السَّمٰوٰتُ ۔۔ : یعنی جس طرح سود خور کافر کے لیے دوزخ تیار کی گئی ہے، اسی طرح فرماں بردار متقی کے لیے جنت تیار کی گئی ہے اور پھر جنت کے متعلق (عَرْضُھَا السَّمٰوٰتُ وَالْاَرْضُ ۙ ) فرما کر اس کی وسعت کی طرف اشارہ فرمایا ہے۔ ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ ایک آدمی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آیا اور کہنے لگا : ” اے محمد یہ بتائیں کہ جنت کا عرض آسمانوں اور زمین کے برابر ہے تو آگ کہاں ہے ؟ “ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” یہ بتاؤ کہ پہلے رات تھی، پھر نہیں رہی تو کہاں چلی گئی ؟ “ اس نے کہا کہ اللہ جو چاہتا ہے کرتا ہے۔ [ صحیح ابن حبان : ١٠٣۔ مستدرک حاکم : ١؍٩٢، ح : ١٠٣ و - صححہ و وافقہ الذہبی ]- حقیقت یہ ہے کہ جنت اور جہنم کے جو اوصاف قرآن و حدیث میں جس طرح مذکور ہیں اسی طرح ان پر ایمان رکھنا ضروری ہے، خواہ ہماری عقل و ذہن کی رسائی ان تک نہ ہو، اور یہی نہیں، آخرت کے تمام معاملات کا یہی حال ہے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

دوسری آیت میں مغفرت اور جنت کی طرف مسابقت اور مسارعت کا حکم دیا گیا ہے، اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کے بعد یہ دوسرا حکم دیا گیا، یہاں مغفرت سے مراد اسباب مغفرت ہیں، یعنی وہ اعمال صالحہ جو باعث مغفرت الہی ہیں، صحابہ وتابعین سے اس کی تفسیریں مختلف عنوانات سے منقول ہی، مگر معنون اور مضمون سب کا ایک ہی ہے، حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے اس کی تفسیر " ادائیگی فرض " سے فرمائی۔ حضرت ابن عباس نے " اسلام " سے ابوالعالیہ نے " ہجرت " سے، انس بن مالک نے " تکبیر اولی " سے، سعید بن جبیر نے " اداء طاعت " سے، ضحاک نے " جہاد " سے، عکرمہ نے " توبہ " سے کی ہے، ان تمام اقوال کا حاصل یہی ہے کہ مغفرت سے مراد وہ تمام اعمال صالحہ ہیں جو مغفرت الہی کا باعث اور سبب ہوتے ہیں۔ اس مقام پر دو باتیں قابل غور ہیں، پلی بات تو یہ ہے اس آیت میں مغفرت اور جنت کی طرف مسابقت اور مسارعت کا حکم دیا جارہا ہے، حالانکہ دوسری آیت میں لا تتمنوا ما فضل اللہ بہ بعضکم علی بعض (٤: ٣٢) فرما کر دوسرے فضائل حاصل کرنے کی تمنا کرنے سے بھی منع کیا گیا ہے۔ جواب اس کا یہ ہے کہ فضائل دو قسم کے ہیں، ایک فضائل تو وہ ہیں جن کا حاصل کرنا انسان کے اختیار اور بس سے باہر ہو جن کو فضائل غیر اختیاریہ کہتے ہیں، جیسے کسی کا سفید رنگ یا حسین ہونا یا کسی بزرگ خاندان سے ہونا وغیرہ، دوسرے وہ فضائل جن کو انسان اپنی محنت اور کوشش سے حاصل کرسکتا ہے، ان کو فضائل اختیاریہ کہتے ہیں، فضائل غیر اختیاریہ میں دوسرے کی فضیلت حاصل کرنے کی کوشش بلکہ اس کی تمنا کرنے سے بھی اس لئے روکا گیا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ نے اپنی حکمت کے مطابق مخلوق میں تقسیم کئے ہیں، کسی کی کوشش کا اس میں دخل نہیں، اس لئے وہ فضائل جو کوشش اور تمنا سے حاصل تو ہوں گے نہیں۔ اب سوائے اس کے کہ اس کے دل میں حسد اور بغض کی آگ بھڑکتی رہے اور کوئی فائدہ نہیں، مثلا ایک شخص کالا ہے وہ گورا ہونے کی تمنا کرتا رہے تو اس سے کیا نتیجہ نکلے گا، البتہ جو فضائل اختیاریہ ہیں ان میں مسابقت اور مقابلہ کا حکم دیا گیا، صرف ایک آیت میں نہیں بلکہ متعدد آیتوں میں آیا ہے، ایک جگہ ارشاد ہے فاستبقوا الخیرات۔ (٢: ١٤٨) دوسری جگہ ارشاد ہے وفی ذلک فلیتنافس المتنافسون (٨٣: ٢٦) - ایک بزرگ نے فرمایا کہ اگر کسی انسان میں کوئی فطری اور طبعی کوتاہی ہو جس کا دور کرنا اس کے بس سے باہر ہو تو اس کو چاہئے کہ اپنی اس کوتاہی پر قانع رہ کر دوسروں کے کمال کو دیکھے بغیر اپنا کام کرتا رہے، کیونکہ اگر وہ اپنی کوتاہی پر تاسف اور دوسروں کے کمال پر حسد کرتا رہا تو جتنا کام کرسکتا ہے اس قدر بھی نہیں کرسکے گا، اور بالکل ناکارہ ہو کر رہ جائے گا۔- دوسری چیز جو اس جگہ قابل غور ہے وہ یہ کہ اللہ تبارک وتعالی نے مغفرت کو جنت سے مقدم کیا، اس میں ممکن ہے کہ اس امر کی طرف اشارہ ہو کہ جنت حاصل کرلینا مغفرت الہی کے بغیر ناممکن ہے، کیونکہ انسان اگر تمام عمر بھر نیکیاں کرتا رہے اور معصیت سے کنارہ کش رہے تب بھی اس کے تمام اعمال جنت کی قیمت نہیں ہوسکتے، جنت میں لے جانے والی صرف ایک چیز ہے اور وہ مغفرت باری تعالیٰ ہے اور اس کا فضل ہے، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( سددوا و قاربوا و ابشروا فانہ لن یدخل احدا لجنۃ عملہ قالوا ولا انت یا رسول اللہ قال ولا انا ان یتغمدنی اللہ برحمتہ۔ ) (ترغیب وترھیب بحوالہ بخاری ومسلم) " راستی اور حق کو اختیار کرو، درمیانی راہ اختیار کرو اور (اللہ کے فضل) کی بشارت حاصل کرو کسی شخص کا عمل اس کو جنت میں نہیں پہنچائے گا، لوگوں نے کہا نہ آپ کا یا رسول اللہ، آپ نے فرمایا، نہ میرا عمل جنت میں پہنچائے گا، مگر یہ کہ اللہ تعالیٰ مجھ کو اپنی رحمت سے ڈھانپ لے "- حاصل یہ ہے کہ ہمارے اعمال جنت کی قیمت نہیں ہیں، لیکن عادت اللہ یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے اسی بندے کو نوازتا ہے جو اعمال صالحہ کرتا ہے، بلکہ جس کو اعمال صالحہ کی توفیق ہوگی، وہی علامت ہے کہ اللہ اس سے راضی ہیں، لہذا اعمال کی ادائیگی میں کبھی کوتاہی نہیں کرنا چاہئے، معلوم ہوا کہ دخول جنت کا اصلی باعث اور سبب مغفرت الہی ہے، اسی لئے مغفرت کی اہمیت کے پیش نظر مطلق مغفرت نہیں فرمایا گیا، بلکہ مغفرۃ من ربکم فرمایا گیا، صفت ربوبیت کے بیان کرنے میں مزید لطف اور امتنان کا اظہار مقصود ہے۔- دوسری چیز جس کی طرف دوڑنے کا حکم دیا جارہا ہے وہ جنت ہے، اور جنت کے بارے میں فرمایا گیا ہے کہ اس کی وسعت اس قدر ہے جتنا سارا آسمان و زمین ہے، انسان کے دماغ میں آسمان و زمین کی وسعت سے زیادہ اور کوئی وسعت آ ہی نہیں سکتی، اس لئے سمجھانے کے لئے جنت کے عرض کو اس سے تشبیہ دی، گویا بتلا دیا کہ جنت بہت وسیع ہے، اس کے عرض میں سارے زمین و آسمان سما سکتے ہیں، پھر جب اس کے عرض کا یہ حال ہے تو طول کا حال خدا جانے کیا ہوگا، یہ معنی تو اس وقت ہیں جب عرض کو طول کے مقابل کیا جائے، لیکن اگر عرض کو ثمن یعنی قیمت کے معنی میں لیا جائے تو مطلب یہ ہوگا کہ جنت کوئی معمولی شے نہیں ہے، اس کی قیمت سارا آسمان و زمین ہیں، لہذا ایسی قیمتی اور عظیم الشان چیز کے لئے مسابقت اور مسارعت کرو۔ - تفسیر کبیر میں ہے : ( قال ابو مسلم ان العرض ھناما یعرض من الثمن فی مقابلۃ المبیع ای ثمنھا لو بیعت کثمن السموت والارض و المراد بذلک عظم مقدارھا وجلالۃ خطرھا وانہ لا یساویھا شیء وان عظم)- " ابو مسلم کہتے ہیں کہ عرض سے مراد آیت میں وہ چیز ہے جو مبیع کے مقابلہ میں بطور قیمت پیش کی جائے، مطلب یہ ہے کہ اگر بالفرض جنت کی قیمت لگائی جائے تو سارا آسمان و زمین اور ان کی کائنات اس کی قیمت ہوگی، مقصود اس سے جنت کی عظمت اور جلالت قدر کا بیان کرنا ہے "- جنت کا دوسرا وصف بتلایا، اعدت للمتقین یعنی جنت پرہیزگاروں کے لئے تیار کی گئی ہے، اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جنت پیدا کی جاچکی ہے، قرآن و حدیث کے واضح اشارات سے معلوم ہوتا ہے کہ جنت ساتویں آسمان کے اوپر ہے، اس طرح کہ ساتواں آسمان اس کی زمین ہے۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَسَارِعُوْٓا اِلٰى مَغْفِرَۃٍ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَجَنَّۃٍ عَرْضُھَا السَّمٰوٰتُ وَالْاَرْضُ۝ ٠ ۙ اُعِدَّتْ لِلْمُتَّقِيْنَ۝ ١٣٣ ۙ- سرع - السُّرْعَةُ : ضدّ البطء، ويستعمل في الأجسام، والأفعال، يقال : سَرُعَ ، فهو سَرِيعٌ ، وأَسْرَعَ فهو مُسْرِعٌ ، وأَسْرَعُوا : صارت إبلهم سِرَاعاً ، نحو :- أبلدوا، وسَارَعُوا، وتَسَارَعُوا . قال تعالی: وَسارِعُوا إِلى مَغْفِرَةٍ مِنْ رَبِّكُمْ [ آل عمران 133] ، وَيُسارِعُونَ فِي الْخَيْراتِ [ آل عمران 114] ، يَوْمَ تَشَقَّقُ الْأَرْضُ عَنْهُمْ سِراعاً [ ق 44] - ( س ر ع ) السرعۃ - اس کے معنی جلدی کرنے کے ہیں اور یہ بطا ( ورنگ گردن ) کی ضد ہے ۔ اجسام اور افعال دونوں کے ( ان کے اونٹ تیز رفتاری سے چلے گئے ) آتے ہں ۔ جیسا کہ اس کے بالمقابل ایلد وا کے معنی سست ہونا آتے ہیں ۔ سارعوا وتسارعو ایک دوسرے سے سبقت کرنا چناچہ قرآن میں ہے : وَسارِعُوا إِلى مَغْفِرَةٍ مِنْ رَبِّكُمْ [ آل عمران 133] اور اپنے پروردگار کی بخشش ( اور بہشت کی ) طرف لپکو ۔ وَيُسارِعُونَ فِي الْخَيْراتِ [ آل عمران 114] اور نیکیوں پر لپکتے ہیں ۔ يَوْمَ تَشَقَّقُ الْأَرْضُ عَنْهُمْ سِراعاً [ ق 44] اس روز زمین ان پر سے پھٹ جائے گی اور جھٹ جھٹ نکل کھڑے ہوں گے ۔ - إلى- إلى: حرف يحدّ به النهاية من الجوانب الست، - الیٰ ۔ حرف ( جر ) ہے اور جہات ستہ میں سے کسی جہت کی نہایتہ حدبیان کرنے کے لئے آتا ہے - غفر - الغَفْرُ : إلباس ما يصونه عن الدّنس، ومنه قيل : اغْفِرْ ثوبک في الوعاء، واصبغ ثوبک فإنّه أَغْفَرُ للوسخ «1» ، والغُفْرَانُ والْمَغْفِرَةُ من اللہ هو أن يصون العبد من أن يمسّه العذاب . قال تعالی: غُفْرانَكَ رَبَّنا[ البقرة 285]- ( غ ف ر ) الغفر - ( ض ) کے معنی کسی کو ایسی چیز پہنا دینے کے ہیں جو اسے میل کچیل سے محفوظ رکھ سکے اسی سے محاورہ ہے اغفر ثوبک فی ولوعاء اپنے کپڑوں کو صندوق وغیرہ میں ڈال کر چھپادو ۔ اصبغ ثوبک فانہ اغفر لو سخ کپڑے کو رنگ لو کیونکہ وہ میل کچیل کو زیادہ چھپانے والا ہے اللہ کی طرف سے مغفرۃ یا غفران کے معنی ہوتے ہیں بندے کو عذاب سے بچالیا ۔ قرآن میں ہے : ۔ غُفْرانَكَ رَبَّنا[ البقرة 285] اے پروردگار ہم تیری بخشش مانگتے ہیں ۔ - جَنَّةُ :- كلّ بستان ذي شجر يستر بأشجاره الأرض، قال عزّ وجل : لَقَدْ كانَ لِسَبَإٍ فِي مَسْكَنِهِمْ آيَةٌ جَنَّتانِ عَنْ يَمِينٍ وَشِمالٍ [ سبأ 15]- الجنۃ - ہر وہ باغ جس کی زمین درختوں کیوجہ سے نظر نہ آئے جنت کہلاتا ہے ۔ قرآن میں ہے ؛ لَقَدْ كانَ لِسَبَإٍ فِي مَسْكَنِهِمْ آيَةٌ جَنَّتانِ عَنْ يَمِينٍ وَشِمالٍ [ سبأ 15]( اہل ) سبا کے لئے ان کے مقام بود باش میں ایک نشانی تھی ( یعنی دو باغ ایک دائیں طرف اور ایک ) بائیں طرف ۔ - حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ جنات جمع لانے کی وجہ یہ ہے کہ بہشت سات ہیں ۔ (1) جنۃ الفردوس (2) جنۃ عدن (3) جنۃ النعیم (4) دار الخلد (5) جنۃ المآوٰی (6) دار السلام (7) علیین ۔- عرض - أَعْرَضَ الشیءُ : بدا عُرْضُهُ ، وعَرَضْتُ العودَ علی الإناء، واعْتَرَضَ الشیءُ في حلقه : وقف فيه بِالْعَرْضِ ، واعْتَرَضَ الفرسُ في مشيه، وفيه عُرْضِيَّةٌ. أي : اعْتِرَاضٌ في مشيه من الصّعوبة، وعَرَضْتُ الشیءَ علی البیع، وعلی فلان، ولفلان نحو : ثُمَّ عَرَضَهُمْ عَلَى الْمَلائِكَةِ [ البقرة 31] ،- ( ع ر ض ) العرض - اعرض الشئی اس کی ایک جانب ظاہر ہوگئی عرضت العود علی الاناء برتن پر لکڑی کو چوڑی جانب سے رکھا ۔ عرضت الشئی علی فلان اولفلان میں نے فلاں کے سامنے وہ چیزیں پیش کی ۔ چناچہ فرمایا : ثُمَّ عَرَضَهُمْ عَلَى الْمَلائِكَةِ [ البقرة 31] پھر ان کو فرشتوں کے سامنے پیش کیا ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

جنت کی وسعت بےکنار ہے - قول باری ہے (وجنۃ عرضھا السموت والارض۔ اور جنت کی طرف جس کی وسعت زمین اور آسمانوں جیسی ہے) ایک قول ہے کہ جنت کا عرض آسمانوں اور زمین کے عرض کی طرح ہے اللہ تعالیٰ نے ایک اور آیت میں فرمایا (وجنۃ عرضھا کعرض السماء والارض، اور جنت جس کا عرض آسمان اور زمین کے عرض کی طرح ہے) جس طرح ایک اور جگہ ارشاد ہوا (ماخلقکمومابعثکم الاکنفس واحدۃ ، تمھاراپیداکرنا اور دوبارہ زندہ کرنا اور دوبارہ زندہ کرنا ایک جان کو دوبارہ پیدا کرنے کی طرح ہے) یعنی اس طرح جیسے ایک جان کو دوبارہ زندہ کرنا۔ اللہ تعالیٰ نے جنت کی وسعت کے بیان کے سلسلے میں عرض کا ذکر فرمایا طول کا ذکر نہیں کیا اس لیے کہ عرض کا ذکر اس پر دلالت کرتا ہے کہ طول اس سے زیادہ ہوگا اور اگر طول کا ذکر ہوتاتو جنت کی وسعت پر دلالت کرنے میں یہ اس کا قائم مقام نہ ہوتا۔ اس سے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اس ارشاد (ذکاۃ الجنین ذکاۃ امہ جنین کاذبح اس کی ماں کاذبح ہے) کے متعلق استدلال کیا جاتا ہے کہ آپ کے اس قول کا مطلب یہ ہے کہ جنین کاذبح اس کی ماں کے ذبح کی طرح ہے۔

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(١٣٣) سود اور تمام گناہوں سے توبہ کرنے میں اپنے پروردگار کی طرف پہل کرو، اور نیک اعمال کرکے اور سود کو چھوڑ کر جنت کی تیاری کرو جس کی وسعت تمام آسمانوں اور زمینوں کے برابر ہے، جو کہ کفر وشرک فواحش اور سود کے ترک کرنے والوں کے لیے بنائی گئی ہے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani