134۔ 1 محض خوش حالی میں ہی نہیں، تنگ دستی کے موقع پر بھی خرچ کرتے ہیں۔ مطلب یہ ہی کہ ہر حال اور ہر موقع پر اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں۔ 134۔ 2 یعنی جب غصہ انہیں بھڑکاتا ہے تو اسے پی جاتے ہیں یعنی اس پر عمل نہیں کرتے اور ان کو معاف کردیتے ہیں جو ان کے ساتھ برائی کرتے ہیں۔
[١١٩] اگر قرآنی آیات کی ترتیب پر غور کیا جائے تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اگر کہیں دوزخ کا ذکر فرمایا تو اس کے ساتھ ہی جنت کا ذکر فرمایا اور اس کے برعکس بھی اسی طرح اگر کہیں اسباب دخول دوزخ کا ذکر فرمایا تو اسی مناسبت سے اسباب دخول جنت کا ذکر فرما دیا اور اس کے برعکس بھی۔ یہاں بھی یہی صورت حال ہے۔ سود خواری، جو دوزخ میں دخول کا سبب ہے، کے بعد جنت اور اس میں داخل ہونے والے پرہیزگاروں کی چند صفات کا ذکر فرمایا۔ ان میں سب سے پہلی صفت انفاق فی سبیل اللہ ہے جو سود خوری کی عین ضد اور معاشرہ پر اس کے اثرات سود کے اثرات کے بالکل برعکس ہوتے ہیں۔ مثلاً سود خوری سے سود خوار میں حرص و طمع، بخل اور زر پرستی جیسی صفات پیدا ہوتی ہیں اور سود دینے والے میں سود خور کے خلاف نفرت بغض اور حسد پیدا ہوتا ہے اور یہ صورت حال معاشرہ میں طبقاتی تقسیم پیدا کرکے کسی بڑے فتنہ کا پیش خیمہ بن جاتی ہے جبکہ صدقہ و خیرات دینے سے دینے والے کے دل میں بخل کے بجائے سماحت اور خوشی پیدا ہوتی ہے تو لینے والے کے دل میں احسان مندی اور شکرگزاری کے احساسات پیدا ہوتے ہیں۔ جس سے پورے معاشرے میں ایک دوسرے سے ہمدردی، مروت اور اخوت، اتفاق اتحاد اور محبت جیسی صفات پیدا ہوتی ہیں اور یہی چیز ایک اسلامی معاشرہ کی روح رواں ہے اور اسی لیے کتاب و سنت میں انفاق فی سبیل اللہ پر بہت زور دیا گیا ہے اور زکوٰۃ فرض کی گئی ہے۔ اس آیت میں یہ بتلایا گیا ہے کہ متقین کی پہلی صفت یہ ہے کہ خواہ خوشحالی کا دور ہو یا تنگدستی کا وہ ہر حال میں اپنی حیثیت اور وقت کے تقاضا کے مطابق اللہ کی راہ میں ضرور خرچ کرتے ہیں۔ چناچہ آپ نے کئی مواقع پر غریب مسلمانوں کو صدقہ کی ترغیب دیتے ہوئے فرمایا کہ (اتقوا النار ولو بشق تمرۃ) (بخاری، کتاب الادب، باب طیب الکلام۔۔ ) یعنی دوزخ کی آگ سے بچو خواہ کھجور کا ایک ٹکڑا ہی صدقہ دے کر بچو اور اس ترغیب سے مقصود بخل اور حرص جیسی مہلک بیماریوں کا علاج ہے۔- [١٢٠] متقین کی دوسری صفت یہاں یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ غصہ کو پی جاتے اور لوگوں کو معاف کردیتے ہیں، غصہ ہمیشہ ایسے شخص پر آتا ہے جو اپنے سے کمزور ہو اور انسان اس سے انتقام لینے کی قدرت رکھتا ہو۔ ایسے وقت میں غصہ کو برداشت کر جانا فی الواقعہ بڑے حوصلہ کا کام ہے۔ اسی لیے آپ نے فرمایا کہ بہادر وہ نہیں جو کسی دوسرے کو لڑائی سے پچھاڑ دے بلکہ بہادر وہ ہے جو غصہ کو برداشت کر جائے۔ نیز ایک دفعہ ایک آدمی نے آپ سے عرض کیا : یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مجھے کچھ وصیت فرمائیے آپ نے فرمایا : غصہ نہ کیا کرو اس نے بار بار وصیت کی درخواست کی اور آپ ہر بار یہی جواب دیتے رہے کہ غصہ نہ کیا کرو (بخاری۔ کتاب الادب، باب الحذر من الغضب)- غصہ پی جانا اور معاف کردینا دو الگ الگ کام ہیں۔ یہ ممکن ہے کہ کوئی شخص وقتی طور پر غصہ پی جائے اور بات دل میں رکھے اور پھر کسی وقت اس سے انتقام لے لے۔ گویا غصہ پی جانے کے بعد قصور وار کو معاف کردینا ایک الگ اعلیٰ صفت ہے اور اللہ ایسے ہی نیکو کار لوگوں سے محبت رکھتا ہے جس میں یہ دونوں باتیں پائی جاتی ہوں۔
الَّذِيْنَ يُنْفِقُوْنَ ۔۔ : ان آیات میں اہل جنت کی صفات کا ذکر ہے، چناچہ ان کی پہلی صفت یہ ہے کہ خوش حالی اور تنگ دستی ہر حالت میں وہ اپنی استطاعت کے مطابق خرچ کرتے رہتے ہیں اور نیک کاموں اور رضائے الٰہی کے لیے مال صرف کرنے سے انھیں کوئی چیز غافل نہیں کرتی۔ (ابن کثیر) - وَالْكٰظِمِيْنَ الْغَيْظ۔۔ : ان کی دوسری صفت یہ ہے کہ وہ غصہ سے مغلوب ہونے کے بجائے اس پر قابو پالیتے ہیں۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” پہلوان وہ نہیں جو پچھاڑ دینے والا ہو، بلکہ پہلوان وہ ہے جو غصے کے وقت اپنے آپ پر قابو رکھے۔ “ [ بخاری، الأدب، باب الحذر من الغضب : ٦١١٤، - عن أبی ہریرۃ (رض) ]- ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرض کی : ” مجھے وصیت فرمائیے۔ “ آپ نے فرمایا : ( لاَ تَغْضَبْ ) ” غصہ مت کر۔ “ اس نے کئی دفعہ درخواست دہرائی، آپ نے یہی فرمایا : ( لاَ تَغْضَبْ ) ” غصہ مت کر۔ “ [ بخاری، الأدب، باب الحذر من الغضب : ٦١١٦۔ ترمذی : ٠٢٠ ]- ابن عمر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے زیادہ اجر والا گھونٹ، غصے کا گھونٹ ہے، جو آدمی اللہ کے چہرے کی طلب میں پی لیتا ہے۔ “ [ احمد : ٢؍١٢٨، ح : ٦١١٩۔ ابن ماجہ، الزھد، باب الزھد : ٤١٨٩ ]- 3 َ وَالْعَافِيْنَ عَنِ النَّاسِ ۭ : یہ دراصل غصہ پی جانے کا لازمی تقاضا ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” تین چیزوں پر میں قسم کھاتا ہوں، صدقہ سے مال کم نہیں ہوتا، اللہ تعالیٰ معاف کردینے سے بندے کی عزت میں اضافہ ہی کرتا ہے اور جو اللہ کے لیے نیچا ہوتا ہے اللہ اسے اونچا کردیتا ہے۔ “ [ مسلم، البر والصلۃ، باب - استحباب العفو : ٢٥٨٨۔ عن أبی ہریرۃ (رض) ] اور یہ احسان کا مقام ہے اور اللہ محسنین سے محبت رکھتا ہے۔
خلاصہ تفسیر :- ایسے لوگ (ہیں) جو کہ ( نیک کاموں میں) خرچ کرتے ہیں (ہر حال میں) فراغت میں (بھی) اور تنگی میں (بھی) اور غصہ کے ضبط کرنے والے اور لوگوں (کی تقصیرات) سے درگزر کرنے والے اور اللہ تعالیٰ ایسے نیکوکاروں کو (جن میں یہ خصال ہوں بوجہ اکمل) محبوب رکھتا ہے اور (ایک ان مذکورین کے اعتبار سے دوسرے درجہ کے مسلمان) ایسے لوگ (ہیں) کہ جب کوئی ایسا کام کر گزرتے ہیں جس میں (دوسروں پر) زیادتی ہو یا (کوئی گناہ کر کے خاص) اپنی ذات کا نقصان کرتے ہیں تو (فورا) اللہ تعالیٰ (کی عظمت اور عذاب) کو یاد کرلیتے ہیں، پھر اپنے گناہوں کی معافی چاہتے ہیں، (یعنی اس طریقہ سے جو معافی کے لئے مقرر ہے کہ دوسروں پر زیادتی کرنے میں ان اہل حقوق سے بھی معاف کرائے اور خاص اپنی ذات کے متعلق گناہ میں اس کی حاجت نہیں، اور اللہ تعالیٰ سے معاف کرانا دونوں میں مشترک ہے) اور (واقعی) اللہ تعالیٰ کے سوا اور ہے کون جو گناہوں کو بخشتا ہو (رہا اہل حقوق کا معاف کرنا سو وہ لوگ اس کا اختیار تو نہیں رکھتے کہ عذاب سے بھی بچالیں اور حقیقی بخشش اسی کا نام ہے) اور وہ لوگ اپنے فعل (بد) پر اصرار (اور ہٹ) نہیں کرتے اور وہ (ان باتوں کو) جانتے بھی ہیں (فلاں کام ہم نے گناہ کا کیا اور یہ کہ توبہ ضرور ہے اور یہ کہ اللہ تعالیٰ غفار ہے، مطلب یہ کہ اعمال کی بھی درستی کرلیتے ہیں، اور عقائد بھی درست رکھتے ہیں) ان لوگوں کی جزاء بخشش ہے ان کے رب کی طرف سے اور (بہشت کے) ایسے باغ ہیں کہ ان کے (درختوں اور مکانوں کے) نیچے سے نہریں چلتی ہوں گی وہ ان میں ہمیشہ ہمیشہ رہنے والے ہوں گے (اور اسی مغفرت اور جنت کی تحصیل کا شروع آیتوں میں حکم تھا، بیچ میں اس کا طریقہ بتلایا، ختم پر اس کا وعدہ فرمایا) اور (یہ) اچھا حق الخدمت ہے ان کام کرنے والوں کا (وہ کام استغفار اور حسن اعتقاد ہے اور استغفار کا نتیجہ آئندہ اطاعت کی پابندی ہے جس پر عدم اصرار دلالت کرتا ہے) بالتحقیق تم سے قبل (زبانوں میں) مختلف طرق (کے لوگ) گزر چکے ہیں (ان میں مسلمان بھی تھے اور کفار بھی اور ان میں اختلاف و مقابلہ و مقاتلہ بھی ہوا، لیکن انجام کار کفار ہی ہلاک ہوئے، چناچہ اگر تم آثار کا مشاہدہ کرنا چاہو) تو تم روئے زمین پر چلو پھرو، اور دیکھ لو کہ اخیر انجام تکذیب کرنے والوں کا (یعنی کفار کا) کیسا ہوا، (یعنی ہلاک و برباد ہوئے، چناچہ ان کی ہلاکت کے آثار اس وقت تک بھی باقی تھے، جس کو دوسری آیت میں فرمایا ہے فتلک بیوتھم خاویۃ (٢٧: ٥٢) فتلک مساکنھم لم تسکن (٢٨: ٥٨) وانھما لبامام مبین (١٥: ٧٩) یہ (مضمون مذکور) بیان کافی ہے تمام لوگوں کے لئے (کہ اگر اس میں غور کریں تو عبرت حاصل کرسکتے ہیں) اور ہدایت اور نصیحت ہے خاص خدا سے ڈرنے والوں کے لئے (یعنی ہدایت اور نصیحت بھی یہی لوگ حاصل کرتے ہیں، ہدایت یہ کہ اس کے موافق عمل کریں) ۔- معارف و مسائل :- ان آیات میں حق تعالیٰ نے مومنین متقین کی خاص صفات اور علامات بتلائی ہیں، جن سے بہت سے فوائد متعلق ہیں، مثلا یہ کہ قرآن حکیم نے جگہ جگہ نیک بندوں کی صحبت اور ان کی تعلیم سے فائدہ اٹھانے کی تاکید فرمائی ہے، کہیں صراط الذین انعمت علیھم فرما کر دین کی سیدھی اور صحیح راہ انہی مقبول بندوں سے سیکھنے کی طرف اشارہ فرمایا، کہیں کونوا مع الصادقین فرماکر ان کی صحبت اور معیت کی خاص افادیت کی تلقین فرمائی، اور دنیا میں ہر گروہ کے اندر اچھے برے لوگ ہوا کرتے ہیں، اچھوں کے لباس میں برے بھی ان کی جگہ لے لیتے ہیں، اس لئے ضرورت تھی کہ مقبول بندوں کی خاص علامات وصفات بتلا کر یہ سمجھا دیا جائے کہ یہ لوگ غلط رہنماؤں اور مقتداؤں سے پرہیز کریں اور صادقین کی علامتیں پہچان کر ان کا اتباع کریں، مومنین متقین کی صفات و علامات بیان فرمانے کے بعد ان کی دائمی کامیابی اور جنت کے اعلی مقامات بتلا کر نیک بندوں کو خوشخبری اور بری راہوں پر چلنے والوں کے لئے نصیحت و ترغیب کا راستہ کھولا گیا ہے، ان آیات کے اخیر میں ھذا بیان للناس وھدی و موعظۃ للمتقین میں اسی کی طرف اشارہ ہے، مقبولین کی جو صفات و علامات یہاں ذکر کی گئی ہیں، اس میں ابتدائی آیات میں ان صفات کا بیان ہے جن کا تعلق انسانی حقوق اور باہمی معاشرت سے ہے، اور بعد کی آیات میں وہ صفات ہیں جن کا تعلق حق تعالیٰ کی عبادت و اطاعت سے ہے، جن کو دوسرے لفظوں میں حقوق العباد اور حقوق اللہ سے تعبیر کیا جاسکتا ہے۔- متذکرہ بالا آیات میں حقوق انسانی سے متعلقہ صفات کو پہلے اور حقوق اللہ سے متعلقہ صفات کو بعد میں فرماکر اس طرف اشارہ فرمایا کہ اگرچہ اصل کے اعتبار سے حقوق اللہ سارے حقوق پر مقدم ہیں، لیکن دونوں میں ایک خاص فرق یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جو اپنے حقوق بندوں پر لازم کیے ہیں ان سے نہ اللہ تعالیٰ کا اپنا کو فائدہ متعلق ہے نہ خدائے تعالیٰ کو ان کی حاجت ہے، اور نہ ان کے ادا نہ کرنے سے اللہ کا کوئی نقصان ہے، اس کی ذات سب سے بےنیاز ہے، اس کی عبادت سے فائدہ خود عبادت کرنے والے کا ہے، پھر وہ رحیم الرحماء اور کریم الکرماء بھی ہے، اس کے حقوق میں بڑی سے بڑی کوتاہی اور غلطی کرنے والا انسان جس وقت بھی اپنے کئے ہوئے پر نادم ہو کر اس کی طرف متوجہ ہوجائے اور توبہ کرلے تو بارگاہ رحم و کرم سے اس کے سارے گناہ ایک دم میں معاف ہوسکتے ہیں، بخلاف حقوق العباد کے کہ انسان ان کا محتاج ہے، اور جس شخص کے حقوق کسی کے ذمہ لازم ہیں، اگر وہ ادا نہ کرے تو اس کا نقصان بھی ہے اور اپنے نقصان کو معاف کرنا بھی انسان کے لئے آسان نہیں، اس لئے حقوق العباد کو ایک خاص اہمیت حاصل ہے۔ اس کے علاوہ نظام عالم کی درستی اور انسانی معاشرے کی اصلاح کا سب سے بڑا دار و مدار باہمی حقوق کی ادائیگی پر ہے، اس میں ذرا سی کوتاہی جنگ وجدال اور فساد کی راہیں کھول دیتی ہے، اور اخلاق فاضلہ اگر پید اکرلئے جائیں تو دشمن بھی دوست بن جاتے ہیں، صدیوں کی لڑائیاں صلح و آشتی میں تبدیل ہوجاتی ہیں، اس لئے بھی ان صفات و علامات کو مقدم کیا گیا جن کا تعلق انسانی حقوق سے ہے، ان صفات میں سب سے پہلی صفت یہ بتلائی گئی ہے : (الذین ینفقون فی السراء والضراء، یعنی وہ لوگ ہیں جو اللہ کی راہ میں اپنا مال خرچ کرنے کے ایسے عادی اور خوگر ہیں کہ ان پر فراخی ہو یا تنگی ہر حال میں مقدور بھر خرچ کرتے رہتے ہیں، زیادہ میں سے زیادہ اور کم میں سے کم، اس میں ایک طرف تو یہ ہدایت ہے کہ غریب فقیر آدمی بھی اپنے آپ کو اللہ کی راہ میں خرچ کرنے سے بالکل فارغ نہ سمجھیں، اور اس کی راہ میں خرچ کرنے کی سعادت سے محروم نہ ہوں، کیونہ ہزار روپے میں سے ایک روپیہ خرچ کرنے کا جو درجہ ہے اللہ تعالیٰ کے نزدیک وہی ہزار پیسے میں سے ایک پیسہ خرچ کرنے کا بھی ہے، اور عملی طور پر جس طرح ہزار روپے کے مالک کو ایک روپیہ اللہ کی راہ میں خرچ کردینا کچھ مشکل نہیں اسی طرح ہزار پیسوں کے مالک کو ایک پیسہ خرچ کرنے میں کوئی تکلیف نہیں ہوسکتی۔- دوسری طرف یہ ہدایت بھی ہے کہ تنگی کی حالت میں بھی بقدر حیثیت خرچ کرتے رہنے سے خرچ کرنے کی مبارک خصلت و عادت فنا نہیں ہوگی، اور شاید اللہ تعالیٰ اسی کی برکت سے فراغت اور فراخی بھی عطا فرمادیں۔ تیسری اہم چیز اس میں یہ ہے کہ جو شخص اس کا خوگر ہو کہ دوسرے انسانوں پر اپنا مال خرچ کر کے ان کو فائدہ پہنچا سکے، غریبوں، فقیروں کی امداد کرے، ظاہر ہے کہ وہ کبھی دوسروں کے حقوق غصب کرنے اور ان کی مرضی کے خلاف ہضم کرنے کے پاس بھی نہ جائے گا، اس لئے اس پہلی صفت کا حاصل یہ ہوا کہ مومنین متقین اور اللہ تعالیٰ کے مقبول بندے دوسرے انسانوں کو نفع پہنچانے کی فکر میں رہا کرتے ہیں، خواہ ان پر فراخی ہو یا تنگی۔ حضرت عائشہ (رض) نے ایک وقت صرف ایک انگور کا دانہ خیرات میں دیا، کیونکہ اس وقت ان کے پاس اس کے سوا کچھ نہ تھا، بعض سلف سے منقول ہے کہ کسی وقت انہوں نے صرف ایک پیاز کا صدقہ کیا، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے :- (اتقوا النار ولو بشق تمرۃ و ردوا السائل ولو بظلف شاۃ) " یعنی تم جہنم کی آگ سے اپنے آپ کو بچاؤ اگرچہ ایک کھجور کا ٹکڑا صدقہ میں دے کر ہی ہو، اور سائل کو خالی واپس نہ کرو اور کچھ نہ ہو تو بکری کے پاؤں کی کھری ہی دیدو "۔- تفسیر کبیر میں امام رازی نے یہ حدیث بھی نقل کی ہے کہ ایک روز رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے لوگوں کو صدقہ دینے کی ترغیب دی تو جن کے پاس سونا چاندی تھا انہوں نے وہ صدقہ میں دیدیا، ایک شخص کھجور کے چھلکے لایا، کہ میرے پاس اور کچھ نہیں، وہ ہی صدقہ کردیئے گئے، ایک اور شخص آیا اور عرض کیا یا رسول اللہ میرے پاس کوئی چیز صدقہ کرنے کے لئے نہیں ہے، البتہ میں اپنی قوم میں عزت دار سمجھا جاتا ہوں میں اپنی عزت کی خیرات کرتا ہوں کہ آئندہ کوئی آدمی مجھے کتنا ہی برا بھلا کہے میں اس سے ناراض نہیں ہونگا۔ - رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تعلیمات اور صحابہ کرام کے تعامل سے یہ بات بھی واضح ہوگئی کہ انفاق فی سبیل اللہ صرف مالداروں اور اغنیاء ہی کا حصہ نہیں ہے، غریب، فقیر بھی اس صفت کے حامل ہوسکتے ہیں کہ اپنی اپنی مقدرت کے موافق اللہ کی راہ میں کچھ خرچ کر کے اس عظیم صفت کو حاصل کرلیں۔- انفاق فی سبیل اللہ کے لئے ضروری نہیں کہ مال ہی خرچ کیا جائے :- یہاں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ قرآن کریم نے اس جگہ ینفقون کا تو ذکر فرمایا کہ وہ لوگ تنگی اور فراخی ہر حال میں فی سبیل اللہ خرچ کرتے ہیں، یہ متعین نہیں فرمایا کہ کیا خرچ کرتے ہیں، اس کے عموم سے معلوم ہوتا ہے کہ اس میں صرف مال و دولت ہی نہیں بلکہ ہر خرچ کرنے کی چیز داخل ہے، مثلا جو شخص اپنا وقت، اپنی محنت اللہ کی راہ میں خرچ کرے وہ بھی اس انفاق کی صفت سے موصوف کیا جائے گا، جو حدیث بحوالہ تفسیر کبیر اوپر گزری ہے وہ اس پر شاہد ہے۔- تنگی اور فراخی کے ذکر میں ایک اور حکمت :- یہ بھی ہے کہ یہی وہ حالتیں ہیں جن میں عادۃ انسان خدا کو بھولتا ہے جب مال و دولت کی فراوانی ہو تو عیش میں خدا کو بھول جاتا ہے اور جب تنگی اور مصیبت ہو تو بسا اوقات اسی کی فکر میں راہ کر خدا سے غافل ہوجاتا ہے اس آیت میں اس طرف بھی اشارہ کردیا کہ اللہ کے مقبول بندے وہ ہیں جو نہ عیش میں خدا کو بھولتے ہیں نہ مصیبت و تکلیف میں، ظفر شاہ دہلوی کا کلام اس معنی میں خوب ہے ظفر آدمی اس کو نہ جانیے گا خواہ ہو کتنا ہی صاحب فہم و ذکا جسے عیش میں خدا نہ رہے جسے طیش میں خوف خدا نہ رہا - اس کے بعد ان کی ایک خاص صفت اور علامت یہ بتلائی گئی کہ اگر ان کو کسی ایسے شخص سے سابقہ پڑے جو ان کو اذیت اور تکلیف پہنچائے تو وہ غصہ میں مشتعل اور مغلوب نہیں ہوجاتے، اور غصہ کے مقتضی پر عمل کر کے انتقام نہیں لیتے، پھر صرف یہی نہیں کہ انتقام نہ لیں بلکہ دل سے بھی معاف کردیتے ہیں، اور پھر اسی پر بس نہیں بلکہ تکلیف دینے والے کے ساتھ احسان کا معاملہ فرماتے ہیں، اسی ایک صفت میں گویا تین صفتیں شامل ہیں، اپنے غصہ پر قابو پانا، تکلیف دینے والے کو معاف کرنا، پھر اس کے ساتھ احسان کا سلوک کرنا، ان تینوں چیزوں کو اس آیت میں بیان فرمایا۔ (والکاظمین الغیظ والعافین عن الناس واللہ یحب المحسنین) یعنی وہ لوگ جو اپنے غصہ کو دبا لیتے ہیں اور لوگوں کا قصور معاف کردیتے ہیں، اور اللہ تعالیٰ احسان کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔- امام بیہقی نے اس آیت کی تفسیر میں حضرت سیدنا علی بن حسین (رض) کا ایک عجیب واقعہ نقل فرمایا ہے کہ آپ کی ایک کنیز آپ کو وضو کرا رہی تھی کہ اچانک پانی کا برتن اس کے ہاتھ سے چھوٹ کر حضرت علی ابن حسین (رض) کے اوپر گرا، تمام کپڑے بھیگ گئے، غصہ آنا طبعی امر تھا، کنیز کو خطرہ ہوا، تو اس نے فورا یہ آیت پڑھی والکاظمین الغیظ، یہ سنتے ہی خاندان نبوت کے اس بزرگ کا سارا غصہ ٹھنڈا ہوگیا، بالکل خاموش ہوگئے، اس کے بعد کنیز نے آیت کا دوسرا جملہ والعافین عن الناس پڑھ دیا، تو فرمایا کہ میں نے تجھے دل سے بھی معاف کردیا، کنیز بھی ہوشیار تھی اس کے بعد اس نے تیسرا جملہ بھی سنا دیا، واللہ یحب المحسنین جس میں احسان اور حسن سلوک کی ہدایت ہے، حضرت علی بن حسین نے یہ سن کر فرمایا کہ جا میں نے تجھے آزاد کردیا۔ (روح المعانی بحوالہ بیہقی) لوگوں کی خطاؤں اور غلطیوں کو معاف کردینا انسانی اخلاق میں ایک بڑا درجہ رکھتا ہے اور اس کا ثواب آخرت نہایت اعلی ہے، حدیث میں رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے " قیامت کے روز حق تعالیٰ کی طرف سے منادی ہوگی کہ جس شخص کا اللہ تعالیٰ پر کوئی حق ہے وہ کھڑا ہوجائے، تو اس وقت وہ لوگ کھڑے ہوں گے جنہوں نے لوگوں کے ظلم و جور کو دنیا میں معاف کیا ہوگ "۔ ایک حدیث میں ارشاد ہے :- (من سرہ ان یشرف لہ البنیان وترفع لہ الدرجت فلیعف عن من ظلمہ ویعط من حرمہ ویصل من قطعہ) " جو شخص یہ چاہے کہ اس کے محلات جنت میں اونچے ہوں اور اس کے درجات بلند ہوں اس کو چاہئے کہ جس نے اس پر ظلم کیا ہو اس کو معاف کردے اور جس نے اس کو کبھی کچھ نہ دیا ہو، اس کو بخشش و ہدیہ دیا کرے، اور جس نے اس سے ترک تعلقات کیا ہو یہ اس سے ملنے میں پرہیز نہ کرے "۔ قرآن کریم نے دوسری جگہ اس سے زیادہ وضاحت سے برائی کرنے والوں کے ساتھ احسان کرنے کا خلق عظیم سکھلایا، اور یہ بتلایا ہے کہ اس کے ذریعہ دشمن بھی دوست ہوجاتے ہیں، ارشاد فرمایا : (ادفع بالتی ھی احسن فاذا الذی بینک و بینہ عداوۃ کانہ ولی حمیم۔ (٤١: ٣٤) " یعنی برائی کی مدافعت بھلائی اور احسان کے ساتھ کرو، تو جس کے ساتھ دشمنی ہے وہ تمہارا گہرا دوست بن جائے گا "۔ حق تعالیٰ نے رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اخلاقی تربیت بھی اسی اعلی پیمانہ پر فرمائی ہے کہ آپ نے اپنی امت کو بھی یہ ہدایت دی کہ : (صل من قطعک واعف عمن ظلمک واحسن الی من اساء الیک) " یعنی جو شخص آپ سے قطع تعلق کرے آپ ان سے ملیں، اور جو آپ پر ظلم کرے آپ اس کو معاف کریں، اور جو آپ کے ساتھ برائی کرے آپ اس پر احسان کریں "۔- رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تو بڑی شان ہے آپ کی تعلیمات کی برکت سے یہی اخلاق و اوصاف آپ کے خدام میں بھی اللہ تعالیٰ نے پیدا فرمادیے تھے جو اسلامی معاشرے کا طرہ امتیاز ہے، صحابہ وتابعین (رض) اور اسلاف امت کی تاریخ اس قسم کے واقعات سے لبریز ہے۔ امام ابوحنیفہ کا ایک واقعہ ہے کہ ایک شخص نے بھرے بازار میں امام اعظم کی شان میں گستاخی کی اور گالیاں دیں، حضرت امام اعظم نے غصہ کو ضبط فرمایا، اور اس کو کچھ نہیں کہا، اور گھر پر واپس آنے کے بعد ایک خوان میں کافی درہم و دینار رکھ کر اس شخص کے گھر تشریف لے گئے، دروازے پر دستک دی، یہ شخص باہر آیا تو اشرفیوں کا یہ خوان اس کے سامنے یہ کہتے ہوئے پیش فرمایا کہ آج تم نے مجھ پر بڑا احسان کیا، اپنی نیکیاں مجھے دیدیں، میں اس احسان کا بدلہ کرنے کے لئے یہ تحفہ پیش کر رہا ہوں، امام کے اس معاملہ کا اس کے قلب پر اثر ہونا ہی تھا، آئندہ کو اس بری خصلت سے ہمیشہ کے لئے تائب ہوگیا، حضرت امام سے معافی مانگی اور آپ کی خدمت اور صحبت میں علم حاصل کرنے لگا یہاں تک کہ آپ کے شاگردوں میں ایک بڑے عالم کی حیثیت اختیار کرلی۔ یہاں تک ان اوصاف کا بیان تھا جو انسانی حقوق سے متعلق ہیں، اس کے بعد حقوق اللہ سے متعلقہ صفات کا بیان اس طرح فرمایا کہ یہ لوگ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی نہیں کرتے، اور کبھی بمقتضائے بشریت ان سے گناہ ہوجاتا ہے تو فورا اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ ہو کر استغفار کرتے ہیں، اور آئندہ اس گناہ سے باز آنے کا ارادہ پختہ کرلیتے ہیں،
الَّذِيْنَ يُنْفِقُوْنَ فِي السَّرَّاۗءِ وَالضَّرَّاۗءِ وَالْكٰظِمِيْنَ الْغَيْظَ وَالْعَافِيْنَ عَنِ النَّاسِ ٠ ۭ وَاللہُ يُحِبُّ الْمُحْسِـنِيْنَ ١٣٤ ۚ- نفق - نَفَقَ الشَّيْءُ : مَضَى ونَفِدَ ، يَنْفُقُ ، إِمَّا بالبیع نحو : نَفَقَ البَيْعُ نَفَاقاً ، ومنه : نَفَاقُ الأَيِّم، ونَفَقَ القَوْمُ : إذا نَفَقَ سُوقُهُمْ ، وإمّا بالمَوْتِ نحو : نَفَقَتِ الدَّابَّةُ نُفُوقاً ، وإمّا بالفَنَاءِ نحو : نَفِقَتِ الدَّرَاهِمُ تُنْفَقُ وأَنْفَقْتُهَا . والإِنْفَاقُ قد يكون في المَالِ ، وفي غَيْرِهِ ، وقد يكون واجباً وتطوُّعاً ، قال تعالی: وَأَنْفِقُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ [ البقرة 195] ، وأَنْفِقُوا مِمَّا رَزَقْناكُمْ [ البقرة 254] - ( ن ف ق ) نفق - ( ن ) س الشئی کے منعی کسی چیز کے ختم ہونے یا چلے جانے کے ہیں ۔ اور چلے جانے کی مختلف صورتیں ہیں ( 1 ) خوب فروخت ہونے سے جیسے نفق البیع ( سامان کا ) خوب فروخت ہونا اسی سے نفاق الایتیم ہے جس کے معنی بیوہ عورت سے نکاح کے طلب گاروں کا بکثرت ہونا کے ہیں ۔ نفق القوم بازار کا پر رونق ہونا ۔ ( 2 ) بذیعہ مرجانے کے جیسے نفقت الدابۃ نفوقا جانور کا مرجانا ۔ ( 3 ) بذریعہ فنا ہوجانے کے جیسے نفقت الدراھم درواہم خرچ ہوگئے ۔ انفق تھا ان کو خرچ کردیا ۔ الا نفاق کے معنی مال وغیرہ صرف کرنا کے ہیں اور یہ کبھی واجب ہوتا ہے ۔ اور کبھی مستحب اور مال اور غیر مال یعنی علم وغیرہ کے متعلق استعمال ہوتا ہے جیسے فرمایا ۔ وَأَنْفِقُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ [ البقرة 195] اور خدا کی راہ میں مال خرچ کرو ۔ وأَنْفِقُوا مِمَّا رَزَقْناكُمْ [ البقرة 254] اور جو مال ہم نے تم کو دیا ہے اس میں سے خرچ کرلو ۔- سراء، ضراء - والنعماء والضراء قيل انها مصادر بمعنی المسرة والنعمة والمضرة والصواب انها أسماء للمصادر ولیست أنفسها فالسراء الرخاء والنعماء النعمة والضراء الشدة فهي أسماء لهذه المعاني فإذا قلنا إنها مصادر کانت عبارة عن نفس الفعل الذي هو المعنی وإذا کانت أسماء لها کانت عبارة عن المحصّل لهذه المعاني .- كظم - الْكَظْمُ : مخرج النّفس، يقال : أخذ بِكَظَمِهِ ، والْكُظُومُ : احتباس النّفس، ويعبّر به عن السّكوت کقولهم : فلان لا يتنفّس : إذا وصف بالمبالغة في السّكوت، وكُظِمَ فلان : حبس نفسه . قال تعالی: إِذْ نادی وَهُوَ مَكْظُومٌ [ القلم 48] ، وكَظْمُ الغَيْظِ : حبسه، قال :- وَالْكاظِمِينَ الْغَيْظَ [ آل عمران 134] - ( ک ظ م ) الکظم - اصل میں مخروج النفس یعنی سانس کی نالي کو کہتے ہیں ۔ چناچہ محاورہ ہے : ۔ احذ بکظمہ اس کی سانس کی نالي کو پکڑ لیا یعنی غم میں مبتلا کردیا ۔ الکظوم کے معنی سانس رکنے کے ہیں اور خاموش ہوجانے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے جیسا کہ انتہائی خا موشی کے معیس کو ظاہر کرنے کے لئے فلان لا یتنفس کہا جاتا ہے ۔ فلاں سانس نہین لیتا یعنی خا موش ہے ۔ کظم فلان اس کا سانس بند کردیا گیا ( مراد نہایت غمگین ہونا ) چناچہ قرآن میں ہے ۔ إِذْ نادی وَهُوَ مَكْظُومٌ [ القلم 48] کہ انہوں نے خدا کو پکارا اور وہ غم) غصہ میں بھرے تھے ۔ اور کظلم الغیظ کے معنی غصہ روکنے کے ہیں جیسے فرمایا : ۔ - وَالْكاظِمِينَ الْغَيْظَ [ آل عمران 134] اور غصے کو در کتے ۔ - غيظ - الغَيْظُ : أشدّ غضب، وهو الحرارة التي يجدها الإنسان من فوران دم قلبه، قال : قُلْ مُوتُوا بِغَيْظِكُمْ [ آل عمران 119] ، لِيَغِيظَ بِهِمُ الْكُفَّارَ [ الفتح 29] ، وقد دعا اللہ الناس إلى إمساک النّفس عند اعتراء الغیظ . قال : وَالْكاظِمِينَ الْغَيْظَ [ آل عمران 134] .- قال : وإذا وصف اللہ سبحانه به فإنه يراد به الانتقام . قال : وَإِنَّهُمْ لَنا لَغائِظُونَ- [ الشعراء 55] ، أي : داعون بفعلهم إلى الانتقام منهم، والتَّغَيُّظُ : هو إظهار الغیظ، وقد يكون ذلک مع صوت مسموع کما قال : سَمِعُوا لَها تَغَيُّظاً وَزَفِيراً [ الفرقان 12] .- ( غ ی ظ ) الغیظ کے معنی سخت غصہ کے ہیں ۔ یعنی وہ حرارت جو انسان اپنے دل کے دوران خون کے تیز ہونے پر محسوس کرتا ہے ۔ قرآن میں ہے : قُلْ مُوتُوا بِغَيْظِكُمْ [ آل عمران 119] کہدو کہ ( بدبختو) غصے میں مرجاؤ ۔ غاظہ ( کسی کو غصہ دلانا ) لِيَغِيظَ بِهِمُ الْكُفَّارَ [ الفتح 29] تاکہ کافروں کی جی جلائے ۔ اور اللہ تعالیٰ نے سخت غصہ کے وقت نفس کو روکنے کا حکم دیا ہے اور جو لوگ اپنے غصہ کو پی جاتے ہیں انکی تحسین فرمائی ہے چناچہ فرمایا : وَالْكاظِمِينَ الْغَيْظَ [ آل عمران 134] اور غصے کو روکتے ۔ اور اگر غیظ کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف ہو تو تو اس سے انتقام لینا مراد ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا : وَإِنَّهُمْ لَنا لَغائِظُونَ [ الشعراء 55] اور یہ ہمیں غصہ دلا رہے ہیں ۔ یعنی وہ اپنی مخالفانہ حرکتوں سے ہمیں انتقام پر آمادہ کر رہے ہیں اور تغیظ کے معنی اظہار غیظ کے ہیں جو کبھی ایسی آواز کے ساتھ ہوتا ہے جو سنائی دے جیسے فرمایا : سَمِعُوا لَها تَغَيُّظاً وَزَفِيراً [ الفرقان 12] تو اس کے - جو ش غضب اور چیخنے چلانے کو سنیں گے ۔- عفو - فالعَفْوُ : هو التّجافي عن الذّنب . قال تعالی: فَمَنْ عَفا وَأَصْلَحَ [ الشوری 40] وَأَنْ تَعْفُوا أَقْرَبُ لِلتَّقْوى [ البقرة 237]- ( ع ف و ) عفوت عنہ کے معنی ہیں میں نے اس سے درگزر کرتے ہوئے اس کا گناہ متادینے کا قصد کیا ز لہذا یہاں اصل میں اس کا مفعول ترک کردیا گیا ہے اور عن کا متعلق مخذوف ہی یا قصدت ازالتہ ذنبہ سار فا عنہ پس عفو کے معنی گناہ سے درگزر کرنا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے ۔ فَمَنْ عَفا وَأَصْلَحَ [ الشوری 40] مگر جو درگزر کرے اور معاملہ کو درست کرلے وَأَنْ تَعْفُوا أَقْرَبُ لِلتَّقْوى [ البقرة 237] اور اگر تم ہی اپنا حق چھوڑ دو تو یہ پرہیز گاری کی بات ہے ۔ - حب - والمحبَّة :- إرادة ما تراه أو تظنّه خيرا، وهي علی ثلاثة أوجه :- محبّة للّذة، کمحبّة الرجل المرأة، ومنه :- وَيُطْعِمُونَ الطَّعامَ عَلى حُبِّهِ مِسْكِيناً [ الإنسان 8] .- ومحبّة للنفع، کمحبة شيء ينتفع به، ومنه :- وَأُخْرى تُحِبُّونَها نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ [ الصف 13] .- ومحبّة للفضل، کمحبّة أهل العلم بعضهم لبعض لأجل العلم .- ( ح ب ب ) الحب والحبۃ - المحبۃ - کے معنی کسی چیز کو اچھا سمجھ کر اس کا ارادہ کرنے اور چاہنے کے ہیں - اور محبت تین قسم پر ہے :- ۔ ( 1) محض لذت اندوزی کے لئے - جیسے مرد کسی عورت سے محبت کرتا ہے ۔ چناچہ آیت : ۔ وَيُطْعِمُونَ الطَّعامَ عَلى حُبِّهِ مِسْكِيناً [ الإنسان 8] میں اسی نوع کی محبت کی طرف اشارہ ہے - ۔ ( 2 ) محبت نفع اندوزی کی خاطر - جیسا کہ انسان کسی نفع بخش اور مفید شے سے محبت کرتا ہے ۔ چناچہ اسی معنی میں فرمایا : وَأُخْرى تُحِبُّونَها نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ [ الصف 13 اور ایک چیز کو تم بہت چاہتے ہو یعنی تمہیں خدا کی طرف سے مدد نصیب ہوگی اور فتح حاصل ہوگی - ۔ ( 3 ) کبھی یہ محبت یہ محض فضل وشرف کی وجہ سے ہوتی ہے - جیسا کہ اہل علم وفضل آپس میں ایک دوسرے سے محض علم کی خاطر محبت کرتے ہیں ۔ - احسان - الإحسان فوق العدل، وذاک أنّ العدل هو أن يعطي ما عليه، ويأخذ أقلّ مما له، والإحسان أن يعطي أكثر مما عليه، ويأخذ أقلّ ممّا له «3» .- فالإحسان زائد علی العدل، فتحرّي العدل - واجب، وتحرّي الإحسان ندب وتطوّع، وعلی هذا قوله تعالی: وَمَنْ أَحْسَنُ دِيناً مِمَّنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ [ النساء 125] ، وقوله عزّ وجلّ : وَأَداءٌ إِلَيْهِ بِإِحْسانٍ [ البقرة 178] ، ولذلک عظّم اللہ تعالیٰ ثواب المحسنین، فقال تعالی: وَإِنَّ اللَّهَ لَمَعَ الْمُحْسِنِينَ [ العنکبوت 69] ، وقال تعالی:إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ [ البقرة 195] ، وقال تعالی: ما عَلَى الْمُحْسِنِينَ مِنْ سَبِيلٍ [ التوبة 91] ، لِلَّذِينَ أَحْسَنُوا فِي هذِهِ الدُّنْيا حَسَنَةٌ [ النحل 30] .- ( ح س ن ) الحسن - الاحسان ( افعال )- احسان عدل سے بڑھ کر چیز ہے کیونکہ دوسرے کا حق پورا دا کرنا اور اپنا حق پورا لے لینے کا نام عدل ہے لیکن احسان یہ ہے کہ دوسروں کو ان کے حق سے زیادہ دیا جائے اور اپنے حق سے کم لیا جائے لہذا احسان کا درجہ عدل سے بڑھ کر ہے ۔ اور انسان پر عدل و انصاف سے کام لینا تو واجب اور فرض ہے مگر احسان مندوب ہے ۔ اسی بنا پر فرمایا :۔ وَمَنْ أَحْسَنُ دِيناً مِمَّنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ [ النساء 125] اور اس شخص سے کس کا دین اچھا ہوسکتا ہے جس نے حکم خدا قبول کیا اور وہ نیکو کا ر بھی ہے ۔ اور فرمایا ؛ وَأَداءٌ إِلَيْهِ بِإِحْسانٍ [ البقرة 178] اور پسندیدہ طریق سے ( قرار داد کی ) پیروی ( یعنی مطالبہ خونہار ) کرنا ۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے محسنین کے لئے بہت بڑے ثواب کا وعدہ کیا ہے ۔ چناچہ فرمایا :۔ وَإِنَّ اللَّهَ لَمَعَ الْمُحْسِنِينَ [ العنکبوت 69] اور خدا تو نیکو کاروں کے ساتھ ہے ۔ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ [ البقرة 195] بیشک خدا نیکی کرنیوالوں کو دوست رکھتا ہے ۔ ما عَلَى الْمُحْسِنِينَ مِنْ سَبِيلٍ [ التوبة 91] نیکو کاروں پر کسی طرح کا الزام نہیں ہے ۔ لِلَّذِينَ أَحْسَنُوا فِي هذِهِ الدُّنْيا حَسَنَةٌ [ النحل 30] جنہوں نے اس دنیا میں نیکی کی ان کے لئے بھلائی ہے ۔
غصہ پی جانا اور لوگوں سے درگزرکرنا پسند یدہ اعمال ہیں - قول باری ہے (الذین ینفقون فی السّراء والضرّاء والکاظمین الغیظ والعافین عن الناس، جو ہر حال میں اپنا مال خرچ کرتے ہیں خواہ بدحال ہوں یا خوش حال جو غصے کو پی جاتے ہیں اور دوسروں کے قصورمعاف کردیتے ہیں) حضرت ابن عباس (رض) نے (فی السرّاء والضّراء) کی تفسیر میں فرمایا تنگ دستی اور فراخی میں یعنی مال کی قلت اور کثرت دونوں حالتوں میں، ایک قول ہے کہ خوشی اور غم دونوں حالتوں میں وہ اپنامال نیکی کی راہوں میں خرچ کرتے ہیں کوئی حالت انھیں انفاق سے باز نہیں رکھ سکتی۔ اللہ تعالیٰ نے تنگدستی اور فراخی دونوں حالتوں میں اللہ کے راستے میں خرچ کرنے والوں کی تعریف کرنے کے بعد اس پر (والکاظمین الغیظ والعافین عن النّاس) کو عطف کیا اور پھر ان لوگوں کی تعریف فرمائی جو اپنے غصّے کو پی جاتے اور زیادتی کرنے والے کو معاف کردیتے ہیں۔ حضرت عمر (رض) کا قول ہے : جو شخص اللہ سے ڈرتا ہے وہ کبھی اپنا غصہ نہیں نکالتا اور جو شخص اللہ تعالیٰ کا خوف اپنے دل میں رکھتا ہے وہ کبھی اپنا غصہ نہیں نکالتا اور جو شخص اللہ تعالیٰ کا خوف اپنے دل میں رکھتا ہے وہ کبھی اپنی من مانی نہیں کرسکتا۔ اگر قیامت کا دن نہ ہوتا تو تم دنیا کی کیفیت اس سے مختلف پاتے جو آج دیکھ رہے ہو۔ غصّہ پی جانا اور لوگوں کے قصورمعاف کردینا پسند یدہ افعال ہیں، جن کی ترغیب دی گئی ہے اور جن پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے ثواب کا وعدہ کیا گیا ہے۔
(١٣٤) اب اللہ تعالیٰ ایسے حضرات کی صفات بیان فرماتے ہیں کہ جو حضرات تنگی اور خوشحالی میں اپنے اموال کو راہ اللہ میں خرچ کرتے ہیں، اور غصہ کے جوش وہیجان کو ضبط کرتے ہیں اور غلاموں کی خطاؤں سے درگزر کرتے ہیں۔
آیت ١٣٤ (الَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ فِی السَّرَّآءِ وَالضَّرَّآءِ ) - یہاں بھی تقابل ملاحظہ کیجیے کہ سود کے مقابلے میں انفاق کا ذکر ہوا ہے۔- (وَالْکٰظِمِیْنَ الْغَیْظَ وَالْعَافِیْنَ عَنِ النَّاسِ ط) (وَاللّٰہُ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَ )- یہ درجۂ احسان ہے ‘ جو اسلام اور ایمان کے بعد کا درجہ ہے۔
سورة اٰلِ عِمْرٰن حاشیہ نمبر :99 سود خواری جس سوسائٹی میں موجود ہوتی ہے اس کے اندر سود خواری کی وجہ سے دو قسم کے اخلاقی امراض پیدا ہوتے ہیں ۔ سود لینے والوں میں حرص و طمع ، بخل اور خود غرضی ۔ اور سود دینے والوں میں نفرت ، غصہ اور بغض و حسد ۔ احد کی شکست میں ان دونوں قسم کی بیماریوں کا کچھ نہ کچھ حصہ شامل تھا ۔ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو بتاتا ہے کہ سود خواری سے فریقین میں جو اخلاقی اوصاف پیدا ہوتے ہیں ان کے بالکل برعکس انفاق فی سبیل اللہ سے یہ دوسری قسم کے اوصاف پیدا ہوا کرتے ہیں ، اور اللہ کی بخشش اور اس کی جنت اسی دوسری قسم کے اوصاف سے حاصل ہو سکتی ہے نہ کہ پہلی قسم کے اوصاف سے ۔ ( مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سورہ بقرہ ، حاشیہ نمبر ۳۲۰ )