Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

135۔ 1 یعنی جب ان سے بتقاضائے بشریت کسی غلطی یا گناہ کا ارتکاب ہوجاتا ہے تو فوراً توبہ استغفار کا اہتمام کرتے ہیں۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١٢١] آیت کے الفاظ سے صاف واضح ہے کہ پرہیزگار لوگ دیدہ دانستہ نہ کوئی برا کام کرتے ہیں اور نہ اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں بلکہ سہواً بہ تقاضائے بشریت ان سے ایسے کام سرزد ہوجاتے ہیں اور جب انہیں اپنی غلطی کا احساس ہوجاتا ہے تو فوراً اللہ کی طرف رجوع کرتے ہیں اور معافی مانگنے لگتے ہیں اور ایسے لوگوں کو اللہ تعالیٰ یقینا معاف بھی کردیتا ہے۔ یہاں یہ بات ملحوظ رکھنی چاہئے کہ اگر اس برے کام یا غلطی کا اثر صرف اپنی ذات تک محدود ہو تو پھر اللہ تعالیٰ غفور رحیم ہے۔ وہ یقینا معاف فرما دے گا۔ لیکن اگر اس کا اثر دوسروں کے حقوق پر پڑتا ہو تو اس کی تلافی کرنا یا اس شخص سے قصور معاف کروانا ضروری ہے اور یہ استغفار کی ایک اہم شرط ہے۔- [١٢٢] گناہ پر اصرار کرنا یا استغفار کرنے کے بعد وہی گناہ پھر کرتے جانا اصل گناہ سے بڑا گناہ ہے اور جو لوگ یہ کام کریں وہ یقینا متقی نہیں ہوتے۔ ہاں یہ ہوسکتا ہے کہ ایک گناہ سرزد ہوگیا تو اس کی معافی مانگ لی، پھر دوسرا ہوگیا۔ اس کی بھی اللہ سے معافی مانگ لی، پھر کوئی اور ہوگیا اس کی بھی معافی مانگ لی۔ اس طرح اگر دن میں ستر بار بھی اللہ سے معافی مانگی جائے تو اللہ تعالیٰ معاف فرما دیتا ہے کیونکہ انسان خطا کا پتلا ہے اور اللہ تعالیٰ خطا کار کے معافی مانگنے پر صرف اسے معاف ہی نہیں فرماتا بلکہ اس سے خوش بھی ہوتا ہے اور حقیقت یہ ہے کہ گناہ کے بعد اس کی معافی نہ مانگنا بھی اس پر اصرار کے مترادف ہے جیسا کہ حدیث میں آیا ہے کہ جس شخص نے اپنے گناہ کی معافی مانگ لی۔ اس نے ضد نہیں کی اور دوسری حدیث میں ہے۔ جس نے توبہ کی گویا اس نے گناہ کیا ہی نہ تھا۔ (ابن ماجہ، ابو اب الزہد، ذکر التوبہ)

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَالَّذِيْنَ اِذَا فَعَلُوْا فَاحِشَةً : یعنی اگر بشری تقاضے کے تحت ان سے کسی گناہ کا ارتکاب ہوجاتا ہے تو وہ فوراً اللہ تعالیٰ کو یاد کر کے توبہ و استغفار کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ سے معافی چاہتے ہیں۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” ایک آدمی نے گناہ کیا تو کہا : ” اے میرے رب میں نے ایک گناہ کیا ہے، تو مجھے وہ بخش دے۔ “ تو اللہ عزوجل نے فرمایا : ” میرے بندے نے ایک گناہ کیا تو اس نے جان لیا کہ اس کا ایک رب ہے جو گناہ بخشتا ہے اور اس پر پکڑتا ہے، سو میں نے اپنے بندے کو بخش دیا۔ “ پھر اس نے ایک اور گناہ کیا اور کہا : ” اے میرے رب میں نے ایک اور گناہ کیا ہے، تو اسے بخش دے۔ “ تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ” میرے بندے نے جان لیا کہ اس کا ایک رب ہے جو گناہ بخشتا ہے اور اس پر پکڑتا ہے، (فرشتو گواہ رہو کہ) میں نے اپنے بندے کو بخش دیا، پھر بندہ رکا رہا جتنا اللہ نے چاہا پھر اس نے ایک اور گناہ کیا تو کہا اے میرے رب میں نے ایک اور گناہ کیا ہے، تو اسے بخش دے، تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا میرے بندے نے جان لیا کہ اس کا ایک رب ہے جو گناہ بخشتا ہے اور اس پر پکڑتا ہے (فرشتوں گواہ رہو کہ) میں نے اپنے بندے کو بخش دیا سو وہ جو چاہے کرے۔ “ [ بخاری، التوحید، باب قول اللہ تعالیٰ : (یریدون أن یبدلوا کلام اللہ) : ٧٥٠٧۔ مسلم، التوبۃ، باب قبول التوبۃ۔۔ : ٢٧٥٨ ]- 2 وَلَمْ يُصِرُّوْا عَلٰي مَا فَعَلُوْا : اصرار کے معنی ہیں اڑ جانا اور بےپروائی سے گناہ کرتے جانا۔ نہ ان پر ندامت کا اظہار کرنا اور نہ توبہ کرنا۔ ورنہ اگر کسی شخص سے سچے دل سے توبہ کرنے کے بعد گناہ سرزد بھی ہوجاتا ہے تو اسے اصرار نہیں کہتے، جیسا کہ پچھلے فائدے میں گزرا ہے۔ ” وہم یعلمون “ یعنی کسی کام کے گناہ ہونے کا علم ہونے پر اس پر اصرار نہیں کرتے۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے سورة نساء : (١٧، ١٨)

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

ارشاد ہے :- والذین اذا فعلوا فاحشۃ او ظلموا انفسھم ذکروا اللہ فاستغفروا لذنوبھم ومن یغفر الذنوب الا اللہ ولم یصروا علی مافعلوا وھم یعلمون) جس میں ایک تو یہ ہدایت کی گئی کہ گناہوں میں مبتلا ہونا اللہ تعالیٰ کی یاد اور ذکر سے غفلت کے سبب ہوتا ہے، اس لئے جب کوئی گناہ سرزد ہو اللہ تعالیٰ کی یاد کو فورا تازہ کرنا چاہئے، اور ذکر اللہ میں مشغول ہونا چاہئے۔- دوسری یہ ہدایت ہے کہ گناہوں کی معافی کے لئے دو چیزیں ضروری ہیں، ایک پچھلے گناہوں پر ندامت اور اس سے معافی مانگنا اور مغفرت کی دعا کرنا، دوسرے آئندہ کے لئے اس کے پاس نہ جانے کا عزم مکمل کرنا۔- اللہ تعالیٰ ہم سب کو قرآن کریم کے بتلائے ہوئے اخلاق فاضلہ نصیب فرمادے۔ اللھم آمین

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَالَّذِيْنَ اِذَا فَعَلُوْا فَاحِشَۃً اَوْ ظَلَمُوْٓا اَنْفُسَھُمْ ذَكَرُوا اللہَ فَاسْتَغْفَرُوْا لِذُنُوْبِھِمْ۝ ٠ ۠ وَمَنْ يَّغْفِرُ الذُّنُوْبَ اِلَّا اللہُ۝ ٠ ۣ۠ وَلَمْ يُصِرُّوْا عَلٰي مَا فَعَلُوْا وَھُمْ يَعْلَمُوْنَ۝ ١٣٥- إذا - إذا يعبّر به عن کلّ زمان مستقبل، وقد يضمّن معنی الشرط فيجزم به، وذلک في الشعر أكثر، و «إذ» يعبر به عن الزمان الماضي، ولا يجازی به إلا إذا ضمّ إليه «ما» نحو :إذ ما أتيت علی الرّسول فقل له - ( اذ ا ) اذ ا - ۔ ( ظرف زماں ) زمانہ مستقبل پر دلالت کرتا ہے کبھی جب اس میں شرطیت کا مفہوم پایا جاتا ہے تو فعل مضارع کو جزم دیتا ہے اور یہ عام طور پر نظم میں آتا ہے اور اذ ( ظرف ) ماضی کیلئے آتا ہے اور جب ما کے ساتھ مرکب ہو ( اذما) تو معنی شرط کو متضمن ہوتا ہے جیسا کہ شاعر نے کہا ع (11) اذمااتیت علی الرسول فقل لہ جب تو رسول اللہ کے پاس جائے تو ان سے کہنا ۔- اذا کی مختلف صورتیں ہیں :۔- (1) یہ ظرف زمان ہے۔ ( زجاج، ریاشی)- (2) یہ ظرف مکان ہے۔ ( مبرد، سیبوبہ)- (3) اکثر و بیشتر اذا شرط ہوتا ہے۔- مفسرین نے تینوں معنوں میں اس کا استعمال کیا ہے۔- (1) ظرف زمان : اور جب تو وہاں ( کی نعمتیں) دیکھے گا۔ تو تجھ کو وہاں بڑی نعمت اور شاہی سازو سامان نظر آئے گا۔ ( تفسیر حقانی) - (2) ظرف مکان : اور جدھر بھی تم وہاں دیکھو گے تمہیں نعمتیں ہی نعمتیں اور وسیع مملکت نظر آئے گی۔ ( تفسیر ضیاء القرآن)- (3) اذا شرطیہ۔ اور اگر تو اس جگہ کو دیکھے توتجھے بڑی نعمت اور بڑی سلطنت دکھائی دے۔ ( تفسیر ماجدی)- فحش - الفُحْشُ والفَحْشَاءُ والفَاحِشَةُ : ما عظم قبحه من الأفعال والأقوال، وقال : إِنَّ اللَّهَ لا يَأْمُرُ بِالْفَحْشاءِ [ الأعراف 28] - ( ف ح ش ) الفحش - والفحشاء والفاحشۃ اس قول یا فعل کو کہتے ہیں جو قباحت میں حد سے بڑھا ہوا ہو ۔ قرآن میں ہے :- إِنَّ اللَّهَ لا يَأْمُرُ بِالْفَحْشاءِ [ الأعراف 28] کہ خدا بےحیائی کے کام کرنے کا حکم ہر گز نہیں دیتا ۔ - ظلم - وَالظُّلْمُ عند أهل اللّغة وكثير من العلماء : وضع الشیء في غير موضعه المختصّ به، إمّا بنقصان أو بزیادة، وإمّا بعدول عن وقته أو مکانه،- قال بعض الحکماء : الظُّلْمُ ثلاثةٌ:- الأوّل : ظُلْمٌ بين الإنسان وبین اللہ تعالی،- وأعظمه : الکفر والشّرک والنّفاق، ولذلک قال :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان 13] - والثاني : ظُلْمٌ بينه وبین الناس،- وإيّاه قصد بقوله : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ وبقوله : إِنَّمَا السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ [ الشوری 42] - والثالث : ظُلْمٌ بينه وبین نفسه،- وإيّاه قصد بقوله : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر 32] ،- ( ظ ل م ) ۔- الظلم - اہل لغت اور اکثر علماء کے نزدیک ظلم کے معنی ہیں کسی چیز کو اس کے مخصوص مقام پر نہ رکھنا خواہ کمی زیادتی کرکے یا اسے اس کی صحیح وقت یا اصلی جگہ سے ہٹاکر - بعض حکماء نے کہا ہے کہ ظلم تین قسم پر ہے - (1) وہ ظلم جو انسان اللہ تعالیٰ کے ساتھ کرتا ہے اس کی سب سے بڑی قسم کفر وشرک اور نفاق ہے ۔ چناچہ فرمایا - :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان 13] شرک تو بڑا بھاری ظلم ہے ۔ - (2) دوسری قسم کا ظلم وہ ہے جو انسان ایک دوسرے پر کرتا ہے - ۔ چناچہ آیت کریمہ : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ اور برائی کا بدلہ تو اسی طرح کی برائی ہے مگر جو درگزر کرے اور معاملے کو درست کرلے تو اس کا بدلہ خدا کے ذمہ ہے اس میں شک نہیں کہ وہ ظلم کرنیوالوں کو پسند نہیں کرتا ۔ میں ظالمین سے اسی قسم کے لوگ مراد ہیں ۔- ۔ (3) تیسری قسم کا ظلم وہ ہے جو ایک انسان خود اپنے نفس پر کرتا ہے - ۔ چناچہ اسی معنی میں فرمایا : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر 32] تو کچھ ان میں سے اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں - ذكر - الذِّكْرُ : تارة يقال ويراد به هيئة للنّفس بها يمكن للإنسان أن يحفظ ما يقتنيه من المعرفة، وهو کالحفظ إلّا أنّ الحفظ يقال اعتبارا بإحرازه، والذِّكْرُ يقال اعتبارا باستحضاره، وتارة يقال لحضور الشیء القلب أو القول، ولذلک قيل :- الذّكر ذکران :- ذكر بالقلب .- وذکر باللّسان .- وكلّ واحد منهما ضربان :- ذكر عن نسیان .- وذکر لا عن نسیان بل عن إدامة الحفظ . وكلّ قول يقال له ذكر، فمن الذّكر باللّسان قوله تعالی: لَقَدْ أَنْزَلْنا إِلَيْكُمْ كِتاباً فِيهِ ذِكْرُكُمْ [ الأنبیاء 10] ، وقوله تعالی: وَهذا ذِكْرٌ مُبارَكٌ أَنْزَلْناهُ [ الأنبیاء 50] ، وقوله :- هذا ذِكْرُ مَنْ مَعِيَ وَذِكْرُ مَنْ قَبْلِي [ الأنبیاء 24] ، وقوله : أَأُنْزِلَ عَلَيْهِ الذِّكْرُ مِنْ بَيْنِنا [ ص 8] ، أي : القرآن، وقوله تعالی: ص وَالْقُرْآنِ ذِي الذِّكْرِ [ ص 1] ، وقوله : وَإِنَّهُ لَذِكْرٌ لَكَ وَلِقَوْمِكَ [ الزخرف 44] ، أي :- شرف لک ولقومک، وقوله : فَسْئَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ [ النحل 43] ، أي : الکتب المتقدّمة .- وقوله قَدْ أَنْزَلَ اللَّهُ إِلَيْكُمْ ذِكْراً رَسُولًا [ الطلاق 10- 11] ، فقد قيل : الذکر هاهنا وصف للنبيّ صلّى اللہ عليه وسلم «2» ، كما أنّ الکلمة وصف لعیسی عليه السلام من حيث إنه بشّر به في الکتب المتقدّمة، فيكون قوله : ( رسولا) بدلا منه .- وقیل : ( رسولا) منتصب بقوله ( ذکرا) «3» كأنه قال : قد أنزلنا إليكم کتابا ذکرا رسولا يتلو، نحو قوله : أَوْ إِطْعامٌ فِي يَوْمٍ ذِي مَسْغَبَةٍ يَتِيماً [ البلد 14- 15] ، ف (يتيما) نصب بقوله (إطعام) .- ومن الذّكر عن النسیان قوله : فَإِنِّي نَسِيتُ الْحُوتَ وَما أَنْسانِيهُ إِلَّا الشَّيْطانُ أَنْ أَذْكُرَهُ- [ الكهف 63] ، ومن الذّكر بالقلب واللّسان معا قوله تعالی: فَاذْكُرُوا اللَّهَ كَذِكْرِكُمْ آباءَكُمْ أَوْ أَشَدَّ ذِكْراً [ البقرة 200] ، وقوله :- فَاذْكُرُوا اللَّهَ عِنْدَ الْمَشْعَرِ الْحَرامِ وَاذْكُرُوهُ كَما هَداكُمْ [ البقرة 198] ، وقوله : وَلَقَدْ كَتَبْنا فِي الزَّبُورِ مِنْ بَعْدِ الذِّكْرِ [ الأنبیاء 105] ، أي : من بعد الکتاب المتقدم . وقوله هَلْ أَتى عَلَى الْإِنْسانِ حِينٌ مِنَ الدَّهْرِ لَمْ يَكُنْ شَيْئاً مَذْكُوراً [ الدهر 1] ، أي : لم يكن شيئا موجودا بذاته،- ( ذک ر ) الذکر - ۔ یہ کبھی تو اس ہیت نفسانیہ پر بولا جاتا ہے جس کے ذریعہ سے انسان اپنے علم کو محفوظ رکھتا ہے ۔ یہ قریبا حفظ کے ہم معنی ہے مگر حفظ کا لفظ احراز کے لحاظ سے بولا جاتا ہے اور ذکر کا لفظ استحضار کے لحاظ سے اور کبھی ، ، ذکر، ، کا لفظ دل یاز بان پر کسی چیز کے حاضر ہونے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے ۔ اس بنا پر بعض نے کہا ہے کہ ، ، ذکر ، ، دو قسم پر ہے ۔ ذکر قلبی اور ذکر لسانی ۔ پھر ان میں کسے ہر ایک دو قسم پر ہے لسیان کے بعد کسی چیز کو یاد کرنا یا بغیر نسیان کے کسی کو ہمیشہ یاد رکھنا اور ہر قول کو ذکر کر کہا جاتا ہے ۔ چناچہ ذکر لسانی کے بارے میں فرمایا۔ لَقَدْ أَنْزَلْنا إِلَيْكُمْ كِتاباً فِيهِ ذِكْرُكُمْ [ الأنبیاء 10] ہم نے تمہاری طرف ایسی کتاب نازل کی ہے جس میں تمہارا تذکرہ ہے ۔ وَهذا ذِكْرٌ مُبارَكٌ أَنْزَلْناهُ [ الأنبیاء 50] اور یہ مبارک نصیحت ہے جسے ہم نے نازل فرمایا ہے ؛هذا ذِكْرُ مَنْ مَعِيَ وَذِكْرُ مَنْ قَبْلِي [ الأنبیاء 24] یہ میری اور میرے ساتھ والوں کی کتاب ہے اور مجھ سے پہلے ( پیغمبر ) ہوئے ہیں ۔ اور آیت کریمہ ؛۔ أَأُنْزِلَ عَلَيْهِ الذِّكْرُ مِنْ بَيْنِنا [ ص 8] کیا ہم سب میں سے اسی پر نصیحت ( کی کتاب ) اتری ہے ۔ میں ذکر سے مراد قرآن پاک ہے ۔ نیز فرمایا :۔ ص وَالْقُرْآنِ ذِي الذِّكْرِ [ ص 1] اور ایت کریمہ :۔ وَإِنَّهُ لَذِكْرٌ لَكَ وَلِقَوْمِكَ [ الزخرف 44] اور یہ ( قرآن ) تمہارے لئے اور تمہاری قوم کے لئے نصیحت ہے ۔ میں ذکر بمعنی شرف ہے یعنی یہ قرآن تیرے اور تیرے قوم کیلئے باعث شرف ہے ۔ اور آیت کریمہ :۔ فَسْئَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ [ النحل 43] تو اہل کتاب سے پوچھ لو ۔ میں اہل ذکر سے اہل کتاب مراد ہیں ۔ اور آیت کریمہ ؛۔ قَدْ أَنْزَلَ اللَّهُ إِلَيْكُمْ ذِكْراً رَسُولًا [ الطلاق 10- 11] خدا نے تمہارے پاس نصیحت ( کی کتاب ) اور اپنے پیغمبر ( بھی بھیجے ) ہیں ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ یہاں الذکر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وصف ہے ۔ جیسا کہ عیسیٰ کی وصف میں کلمۃ قسم ہے اس قرآن کی جو نصیحت دینے والا ہے ۔ کا لفظ وارد ہوا ہے ۔ اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو الذکر اس لحاظ سے کہا گیا ہے ۔ کہ کتب سابقہ میں آپ کے متعلق خوش خبردی پائی جاتی تھی ۔ اس قول کی بنا پر رسولا ذکرا سے بدل واقع ہوگا ۔ بعض کے نزدیک رسولا پر نصب ذکر کی وجہ سے ہے گویا آیت یوں ہے ۔ قد أنزلنا إليكم کتابا ذکرا رسولا يتلوجیسا کہ آیت کریمہ ؛ أَوْ إِطْعامٌ فِي يَوْمٍ ذِي مَسْغَبَةٍ يَتِيماً [ البلد 14- 15] میں کی وجہ سے منصوب ہے اور نسیان کے بعد ذکر کے متعلق فرمایا :َفَإِنِّي نَسِيتُ الْحُوتَ وَما أَنْسانِيهُ إِلَّا الشَّيْطانُ أَنْ أَذْكُرَهُ [ الكهف 63] قو میں مچھلی ( وہیں ) بھول گیا اور مجھے ( آپ سے ) اس کا ذکر کرنا شیطان نے بھلا دیا ۔ اور ذکر قلبی اور لسانی دونوں کے متعلق فرمایا :۔ فَاذْكُرُوا اللَّهَ كَذِكْرِكُمْ آباءَكُمْ أَوْ أَشَدَّ ذِكْراً [ البقرة 200] تو ( مبی میں ) خدا کو یاد کرو جسطرح اپنے پاب دادا کیا کرتے تھے بلکہ اس سے بھی زیادہ ۔ فَاذْكُرُوا اللَّهَ عِنْدَ الْمَشْعَرِ الْحَرامِ وَاذْكُرُوهُ كَما هَداكُمْ [ البقرة 198] تو مشعر حرام ( یعنی مزدلفہ ) میں خدا کا ذکر کرو اور اسطرح ذکر کرو جس طرح تم کو سکھایا ۔ اور آیت کریمہ :۔ لَقَدْ كَتَبْنا فِي الزَّبُورِ مِنْ بَعْدِ الذِّكْرِ [ الأنبیاء 105] اور ہم نے نصیحت ( کی کتاب یعنی تورات ) کے بعد زبور میں لکھ دیا تھا ۔ میں الذکر سے کتب سابقہ مراد ہیں ۔ اور آیت کریمہ ؛هَلْ أَتى عَلَى الْإِنْسانِ حِينٌ مِنَ الدَّهْرِ لَمْ يَكُنْ شَيْئاً مَذْكُوراً [ الدهر 1] انسان پر زمانے میں ایک ایسا وقت بھی آچکا ہے کہ وہ کوئی چیز قابل ذکر نہ تھی ۔- استغفار - الغَفْرُ : إلباس ما يصونه عن الدّنس، والاسْتِغْفَارُ : طلب ذلک بالمقال والفعال، وقوله : اسْتَغْفِرُوا رَبَّكُمْ إِنَّهُ كانَ غَفَّاراً [ نوح 10] - ( غ ف ر ) الغفر - ( ض ) کے معنی کسی کو ایسی چیز پہنا دینے کے ہیں جو اسے میل کچیل سے محفوظ رکھ سکے اور استغفار کے معنی قول اور عمل سے مغفرت طلب کرنے کے ہیں لہذا آیت کریمہ : ۔ اسْتَغْفِرُوا رَبَّكُمْ إِنَّهُ كانَ غَفَّاراً [ نوح 10] اپنے پروردگار سے معافی مانگو کہ بڑا معاف کر نیوالا ہے ۔ - ذنب - والذَّنْبُ في الأصل : الأخذ بذنب الشیء، يقال : ذَنَبْتُهُ : أصبت ذنبه، ويستعمل في كلّ فعل يستوخم عقباه اعتبارا بذنب الشیء، ولهذا يسمّى الذَّنْبُ تبعة، اعتبارا لما يحصل من عاقبته، وجمع الذّنب ذُنُوب، قال تعالی: فَأَخَذَهُمُ اللَّهُ بِذُنُوبِهِمْ [ آل عمران 11] ،- الذنب ( ض )- کے اصل معنی کسی چیز کی دم پکڑنا کے ہیں کہا جاتا ہے ذنبتہ میں نے اس کی دم پر مارا دم کے اعتبار ست ہر اس فعل کو جس کا انجام برا ہوا سے ذنب کہہ دیتے ہیں اسی بناء پر انجام کے اعتباڑ سے گناہ کو تبعتہ بھی کہا جاتا ہے ۔ ذنب کی جمع ذنوب ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ فَأَخَذَهُمُ اللَّهُ بِذُنُوبِهِمْ [ آل عمران 11] تو خدا نے ان کو ان کے گناہوں کے سبب ( عذاب میں ) پکڑلیا تھا۔- صر - الْإِصْرَارُ : التّعقّد في الذّنب والتّشدّد فيه، والامتناع من الإقلاع عنه . وأصله من الصَّرِّ أي : الشّدّ ، والصُّرَّةُ : ما تعقد فيه الدّراهم، والصِّرَارُ : خرقة تشدّ علی أطباء الناقة لئلا ترضع . قال اللہ تعالی: وَلَمْ يُصِرُّوا عَلى ما فَعَلُوا[ آل عمران 135] ، ثُمَّ يُصِرُّ مُسْتَكْبِراً [ الجاثية 8] ، وَأَصَرُّوا وَاسْتَكْبَرُوا اسْتِكْباراً [ نوح 7] ، وَكانُوا يُصِرُّونَ عَلَى الْحِنْثِ الْعَظِيمِ [ الواقعة 46] ، والْإِصْرَارُ : كلّ عزم شددت عليه، يقال : هذا منّي صِرِّي، وأَصِرِّي وصِرَّى وأَصِرَّى وصُرِّي وصُرَّى أي : جدّ وعزیمة، والصَّرُورَةُ من الرّجال والنساء : الذي لم يحجّ ، والّذي لا يريد التّزوّج، وقوله : رِيحاً صَرْصَراً [ فصلت 16] ، لفظه من الصَّرِّ ، وذلک يرجع إلى الشّدّ لما في البرودة من التّعقّد، والصَّرَّةُ : الجماعة المنضمّ بعضهم إلى بعض كأنّهم صُرُّوا، أي : جُمِعُوا في وعاء . قال تعالی: فَأَقْبَلَتِ امْرَأَتُهُ فِي صَرَّةٍ [ الذاریات 29] ، وقیل : الصَّرَّةُ الصّيحةُ.- ( ص ر ر ) الاصرار کسی گناہ پر سختی ہے جم جانا اور اس سے باز نہ آنا اصل میں یہ صر سے ہے جس کے معنی باندھنے کے ہیں اور صرۃ اس تھیلی کو کہتے ہیں جس میں نقدی باندھ کر رکھ دی جاتی ہے اور صرار ( پستان بند ) اس لتہ کو کہتے ہیں جس سے اونٹنی کے تھن باندھ دیئے جاتے ہیں تاکہ اس کا بچہ دودھ نہ پی سکے ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَلَمْ يُصِرُّوا عَلى ما فَعَلُوا[ آل عمران 135] اور وہ اپنی غلطی پر اصرار نہیں کرتے ۔ وَلَمْ يُصِرُّوا عَلى ما فَعَلُوا[ آل عمران 135] مگر پھر غرور سے ضد کرتا ہے ۔ وَأَصَرُّوا وَاسْتَكْبَرُوا اسْتِكْباراً [ نوح 7] اور اڑگئے اور اکڑبیٹھے ۔ وَكانُوا يُصِرُّونَ عَلَى الْحِنْثِ الْعَظِيمِ [ الواقعة 46] اور گناہ عظیم پر اڑے ہوئے تھے ۔ الاصرار : پختہ عزم کو کہتے ہیں محاورہ ہے ھذا منی صری واصری وصری وصری وصری وصریٰ ۔ وہ مرد یا عورت جو جج نہ کرے وہ شخص جسے نکاح کی کو اہش نہ ہو اور آیت کریمہ : ۔ رِيحاً صَرْصَراً [ فصلت 16] زور کی ہوا ( چلائی ) میں صر صر کا لفظ صر سے ہے گویا سخت سرد ہونے کی وجہ سے اس میں پستگی پائی جاتی ہے الصرۃ جماعت جس کے افراد باہم ملے جلے ہوں گویا وہ کسی تھیلی میں باندھ دیئے گئے ہیں قرآن میں ہے فَأَقْبَلَتِ امْرَأَتُهُ فِي صَرَّةٍ [ الذاریات 29] ابراہیم (علیہ السلام) کی بیوی چلاتی آئی ۔ بعض نے کہا ہے کہ صرۃ کے معنی چیخ کے ہیں ۔ - علم - العِلْمُ : إدراک الشیء بحقیقته،- ( ع ل م ) العلم - کسی چیز کی حقیقت کا ادراک کرنا

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(١٣٥) یہ آیت انصار میں سے ایک شخص کے بارے میں نازل ہوئی ہے جس نے قبیلہ ثقیف کی ایک عورت کی طرف دیکھا تھا اور ہاتھ وغیرہ لگا یا تھا (اس کے بعد ندامت اور سر پر مٹی ڈال کر توبہ و استغفار کرنے کے لیے دور نکل گیا)- اور ایسے لوگ جب کوئی دیکھنے، چھونے کا کام جذبات میں آکر کرجاتے ہیں تو اللہ تعالیٰ سے ڈرتے ہیں اور فورا اپنے گناہوں کی معافی طلب کرتے ہیں اور اللہ کے علاوہ کون توبہ قبول کرنے والا ہے اور یہ سمجھتے ہوئے کہ یہ کام اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کا باعث ہے، اس پر قائم نہیں رہتے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ١٣٥ (وَالَّذِیْنَ اِذَا فَعَلُوْا فَاحِشَۃً اَوْ ظَلَمُوْآ اَنْفُسَہُمْ ذَکَرُوا اللّٰہَ ) (فَاسْتَغْفَرُوْا لِذُنُوْبِہِمْ قف) - یہ مضمون سورة النساء میں آئے گا کہ کسی مسلمان شخص سے اگر کوئی خطا ہوجائے اور وہ فوراً توبہ کرلے تو اللہ تعالیٰ نے اپنے اوپر واجب ٹھہرا لیا ہے کہ اس کی توبہ ضرور قبول فرمائے گا۔ - (وَمَنْ یَّغْفِرُ الذُّنُوْبَ الاَّ اللّٰہُ قف) (وَلَمْ یُصِرُّوْا عَلٰی مَا فَعَلُوْا وَہُمْ یَعْلَمُوْنَ ) - یعنی ایسا نہیں کہ گناہ پر گناہ کرتے چلے جا رہے ہیں کہ موت آنے پر توبہ کرلیں گے۔ اس وقت کی توبہ توبہ نہیں ہے۔ ایک مسلمان سے اگر جذبات کی رو میں بہہ کر یا بھول چوک میں کوئی گناہ سرزد ہوجائے اور وہ ہوش آنے پر اللہ کے حضور گڑگڑائے ‘ عزم مصمم کرے کہ دوبارہ ایسا نہیں کرے گا ‘ اور پوری پشیمانی کے ساتھ صمیم قلب سے اللہ کی جناب میں توبہ کرے تو اللہ تعالیٰ اس کی توبہ قبول کرنے کی ضمانت دیتا ہے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani