Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

151۔ 1 مسلمانوں کی شکست دیکھتے ہوئے بعض کافروں کے دل میں یہ خیال آیا کہ یہ موقع مسلمانوں کو ختم کرنے کے لئے بڑا اچھا ہے۔ اس موقع پر اللہ تعالیٰ نے کافروں کے دلوں میں مسلمانوں کا رعب ڈال دیا پھر انہیں اس خیال کو عملی جامہ پہنانے کا حوصلہ نہ ہوا (فتح القدیر) ۔ صحیحین کی حدیث میں ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ مجھے پانچ چیزیں ایسی عطا کی گئی ہیں جو مجھ سے قبل کسی نبی کو نہیں دی گئیں۔ ان میں ایک یہ ہے کہ " نصرت بالرعب مسیرۃ شھر " دشمن کے دل میں ایک مہینے کی مسافت پر میرا رعب ڈال کر میری مدد کی گئی ہے۔ " اس حدیث سے معلوم ہوا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا رعب مستقل طور پر دشمن کے دل میں ڈال دیا گیا تھا۔ اور اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی امت یعنی مسلمانوں کا رعب بھی مشرکوں پر ڈال دیا گیا ہے۔ اور اس کی وجہ ان کا شرک ہے۔ گویا شرک کرنے والوں کا دل دوسروں کی ہیبت سے لرزاں و ترساں رہتا ہے۔ غالباً یہی وجہ ہے کہ جب مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد مشرکانہ عقائد و اعمال میں مبتلا ہوئی ہے، دشمن ان سے مرعوب ہونے کی بجائے، وہ دشمنوں سے مرعوب ہیں۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١٣٧] آپ کے زخمی ہونے کے بعد جب مشرکین نے گھیرا ڈالا اور صحابہ کرام (رض) نے نہایت جانبازی سے مشرکین کو منتشر کردیا تو آپ نے ہمت کرکے نہایت دانشمندی اور حربی مہارت سے نقشہ جنگ میں تبدیلی کی اور ثابت قدمی کے ساتھ پہاڑ کی چوٹی پر چڑھ گئے۔ آپ کے اس اقدام سے فوراً جنگ کا نقشہ بدل گیا۔ ابو سفیان نے آپ کو دیکھا تو فوج لے کر پہاڑ پر چڑھنے کی کوشش کی۔ اوپر سے صحابہ نے پتھر برسائے، لہذا وہ آگے نہ بڑھ سکا۔ اس طرح شکست خوردہ مسلمان پھر سے برابری کی سطح پر آگئے اور ابو سفیان کو ناکام واپس جانا پڑا۔- چونکہ یہ جنگ فیصلہ کن نہ تھی اور اسی حال میں ابو سفیان واپس چلا گیا۔ لہذا آپ کو خیال آیا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ ابو سفیان واپس مڑ کر مسلمانوں پر دوبارہ حملہ کردے۔ لہذا آپ نے صحابہ کو تعاقب کا حکم دیا۔ چناچہ زخم خوردہ اور غمزدہ مسلمانوں میں سے ستر آدمیوں کی ایک جماعت تعاقب کے لیے تیار ہوگئی اور وہ مدینہ سے نکل کھڑے ہوئے اور مدینہ سے آٹھ میل دور حمراء الاسد تک پہنچ گئے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا گمان بالکل درست نکلا۔ ابو سفیان جب مقام روحاء پر پہنچا تو اسے خیال آیا کہ کام تو ناتمام ہی رہ گیا۔ لہذا واپس مدینہ چل کر دوبارہ حملہ کرنا چاہئے۔ ان حالات میں اللہ تعالیٰ کی مدد مسلمانوں کے شامل حال ہوئی۔ قبیلہ خزاعہ کا رئیس معبد (یہ قبیلہ ابھی تک مسلمان نہیں ہوا تھا۔ تاہم وہ مسلمانوں کا حلیف اور خیر خواہ ضرور تھا) مسلمانوں کی شکست کی خبر سن کر دلجوئی کے لیے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوا اور جب اسے صورت حال معلوم ہوئی تو آپ سے مشورہ کے بعد وہ ابو سفیان کے پاس گیا۔ ابو سفیان نے اسے اپنا خیر خواہ سمجھ کر جب اپنا واپس جاکر حملہ کرنے کا ارادہ ظاہر کیا تو معبد کہنے لگا میں ادھر سے ہی آرہا ہوں محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ( ) ایک لشکر جرار لے کر آپ لوگوں کے تعاقب میں آرہے ہیں اور اس لشکر میں وہ نوجوان بھی شامل ہیں جو کسی نہ کسی وجہ سے اس معرکہ میں شریک نہ ہوسکے تھے۔ ابو سفیان نے جب یہ قصہ سنا تو اس پر ایسا رعب طاری ہوا کہ اپنا ارادہ بدل دیا اور مکہ کی راہ لی۔- [١٣٨] مشرکوں کے مرعوب ہوجانے کی وجہ اللہ تعالیٰ نے یہ بتلائی ہے کہ وہ ایسی چیزوں کی پرستش کرتے ہیں جو مخلوق ہیں اور اپنے بھی نفع و نقصان پر قادر نہیں تو دوسروں کی کیا مدد کرسکتے ہیں (ضَعُفَ الطَّالِبُ وَالْمَطْلُوْبُ 73؀) 22 ۔ الحج :73) والا معاملہ ہوتا ہے۔ جبکہ مومن صرف ایک اللہ کا پرستار ہوتا ہے جو مدد کرنے پر پوری قدرت رکھتا ہے اور اپنے بندوں کی ضرور مدد فرماتا ہے۔ بشرطیکہ مومن اس کی اطاعت کریں اور اسی پر توکل کریں۔ اللہ پر توکل اور تقدیر الٰہی کا عقیدہ اسے اللہ کے علاوہ باقی سب چیزوں سے بےخوف اور نڈر بنا دیتا ہے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

سَـنُلْقِيْ ۔۔ : یہ آیت اپنے سیاق کے اعتبار سے اوپر کے بیان کو مکمل کر رہی ہے، اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے مختلف وجوہ سے جہاد کی ترغیب دی ہے اور کفار کے خوف کو دلوں سے نکالا ہے۔ یہاں فرمایا ہے کہ اگر تم اللہ تعالیٰ پر بھروسا رکھو گے اور اسی سے مدد مانگو گے تو اللہ تعالیٰ کفار کے دلوں میں تمہارا خوف ڈال دے گا، اس طرح تمہیں ان پر غلبہ حاصل ہوجائے گا، کیونکہ وہ اللہ کے ساتھ دوسروں کو شریک ٹھہراتے ہیں، لہٰذا ” بِمَآ اَشْرَكُوْا “ میں باء برائے سببیت ہے۔ (قرطبی) - 2 شاہ عبد القادر (رض) لکھتے ہیں : ” مشرک اللہ تعالیٰ کے چور ہیں اور چور کے دل میں ڈر ہوتا ہے۔ “ (موضح) چناچہ اللہ تعالیٰ کا یہ وعدہ سچا ہوا اور کافر احد میں باوجود غالب ہونے کے چپکے سے میدان چھوڑ کر بھاگ گئے۔ سیرت کی کتابوں میں مذکور ہے کہ واپسی کے وقت راستے میں انھوں نے دوبارہ مدینہ پر حملے کا ارادہ کیا مگر مرعوب ہوگئے۔ بخاری و مسلم میں ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” پانچ چیزوں میں مجھے پہلے انبیاء پر فضیلت دی گئی ہے، ان میں سے ایک یہ ہے کہ ایک ماہ کی مسافت پر دشمن کے دل میں میرا رعب ڈال کر میری مدد کی گئی ہے۔ “ [ بخاری، التیمم، بابٌ : ٣٣٣٥۔ مسلم : ٥٢١، عن جابر بن عبد اللہ (رض) ] اس حدیث سے معلوم ہوا کہ کفار کے دل میں رعب ڈالنے کا وعدہ احد کے ساتھ خاص نہیں بلکہ عام ہے۔ - 3 اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ آپ کی امت، یعنی مسلمانوں کا رعب بھی مشرکوں پر ڈال دیا گیا ہے اور اس کی وجہ ان کا شرک ہے، گویا شرک کرنے والوں کا دل دوسروں کی ہیبت سے ڈرتا اور لرزتا رہتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب مسلمانوں کی بڑی تعداد مشرکانہ عقائد و اعمال میں گرفتار ہوئی، تقریباً ہر شہر اور محلہ میں پختہ قبریں اور غیر اللہ کے آستانے بن گئے اور غیر اللہ سے استغاثہ اور مدد مانگنا شروع ہوگئے۔ تو وہی رعب جو شرک کی وجہ سے کفار کے دل میں تھا، ڈیڑھ ارب کے قریب تعداد ہونے کے باوجود مسلمانوں کے دلوں میں پڑگیا۔ ہاں، توحید والے اس رعب سے محفوظ ہیں اور قیامت تک کفار سے جہاد جاری رکھیں گے اور ان کا رعب کفار کے دلوں میں کفار کے مشرکانہ عقائد و اعمال کی وجہ سے رہے گا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( لَنْ یَّبْرَحَ ھٰذَا الدِّیْنُ قَاءِمًا یُقَاتِلُ عَلَیْہِ عِصَابَۃٌ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ حَتّٰی تَقُوْمَ السَّاعَۃُ ) [ مسلم، الأمارۃ، باب قولہ (رض) : لا تزال من أمتی۔۔ : ١٩٢٢، عن جابر بن سمرۃ (رض) ] ” یہ دین ہمیشہ قائم رہے گا، مسلمانوں کی ایک جماعت اس پر لڑتی رہے گی، حتیٰ کہ قیامت قائم ہو۔ “

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

ربط آیات :۔- سابقہ آیت میں اللہ تعالیٰ کا ناصر و مددگار ہونا مذکور تھا، ان آیات میں نصرت الٰہی کے کچھ واقعات کا ذکر ہے۔- خلاصہ تفسیر - ہم ابھی ڈالے دیتے ہیں رعب (ہیبت) کافروں کے دلوں میں، بسب اس کے کہ انہوں نے اللہ کا شریک ایک ایسی چیز کو ٹھہرایا جس (کے قابل شرکت ہونے) پر اللہ تعالیٰ نے کوئی دلیل نازل نہیں فرمائی (نہ لفظاً اور صراحتاً اور نہ معنی یعنی ایسی دلیل جس کا شرع میں اعتبار ہوا اس میں تمام دلائل عقلیہ قطعیہ داخل ہوگئے، مطلب یہ ہے کہ یوں تو ہر جاہ اپنی کوئی دلیل پیش کیا ہی کرتا ہے، مگر کوئی قابل اعتبار دلیل ان کے پاس نہیں) اور ان کی جگہ جہنم اور وہ بری جگہ ہے ظالموں کی، (اس آیت میں کافر پر رعب وہیبت طاری کرنے کا آج وعدہ ہے اس کا ظہور اس طرح ہوا کہ اول تو باوجود اس کے کہ شکست مسلمانوں کو ہو رہی تھی، مشرکین عرب بلا کسی ظاہری سبب کے مکہ کی طرف لوٹ گئے (بیضاوی) پھر جب کچھ راستہ طے کرچکے تو اپنی حماقت پر افسوس کرنے لگے کہ جب مسلمان دم توڑ چکے تھے تو اس وقت وہاں سے واپس آنا کوئی دانشمندی نہیں تھی اور پھر مدینہ کی طرف واپسی کا کچھ ارادہ کیا، تو اللہ نے ان کے دلوں پر ایسا رعب ڈالا کہ مدینہ کی طرف بڑھنے کی ہمت نہ ہوئی۔- کسی راہ چلتے گاؤں والے سے کہہ دیا کہ ہم تجھے اتنا مال دیں گے، تم مدینہ جا کر مسلمانوں کو ڈرا دو کہ وہ پھر لوٹ کر آ رہے ہیں، یہاں پر سارا واقعہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بذریعہ وحی معلوم ہوگیا تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کے تعاقب کے لئے مقام حمرا، الاسد تک پہونچے، مگر وہ بھاگ چکے تھے، یہ آیت اسی واقعہ کے متعلق نازل ہوئی۔- اگلی آیتوں میں غزوہ احد کے اندر مسلمانوں کی عارضی شکست اور مغلوبیت کے اسباب کا بیان ہے، ارشاد ہے) اور یقینا اللہ تعالیٰ نے تو تم سے اپنا وعدہ (نصرت کو سچا کر دکھایا، جس وقت کہ تم (ابتداء قتال میں) ان کفار کو بحکم خداوند قتل کر رہے تھے، (اور یہ تمہارا غلبہ آہستہ آہستہ بڑھتا گیا) یہاں تک کہ تم خود ہی (رائے میں) کمزور ہوگئے (اس طرح کہ جو تجویز رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے عقب کے مورچہ پر پچاس سپاہی اور ایک افسر کو بٹھا کر فرمائی تھی اس میں بعض کو غلط فہمی ہوگئی کہ مسلمان فتح پاچکے ہیں، اب یہاں بیٹھے رہنے کی ضرورت ختم ہوگئی، اس لئے ہمیں بھی دشمن کے مقابلہ میں شریک ہوجانا چاہئے، جمے رہنے کی ہدایت پر قائم رہے، مگر بعض دوسروں نے دوسری تجویز پیش کردی، انکار و ملامت اسی دوسری تجویز پر ہے کہ) اور تم (آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے) کہنے پر نہ چلے بعد اس کے کہ تم کو تمہاری دل خواہ بات (آنکھوں سے) دکھا دی تھی (یعنی مسلمانوں کا غلبہ دکھلایا تھا اور اس وقت تمہاری یہ حالت تھی کہ) تم میں سے بعض تو وہ تھے جو دنیا (کا لینا) چاہتے تھے (یعنی کفار کا تعاقب کر کے مال غنیمت جمع کرنا چاہتے تھے) اور بعض تم میں وہ تھے جو (صرف) آخرت کے طلبگار تھے (اب چونکہ بعض سے رائے کی کمزری اور خلاف حکم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دوسری تجویز پیش کرنا اور آپ کہ کہنے پر نہ چلنا اور مطلب دنیا جیسے بعض امور سرزد ہوگئے تو اللہ تعالیٰ نے آئندہ کے لئے اپنی نصرت کو بند کرلیا اور پھر تم کو ان کافر (پر غالب آنے) سے ہٹا دیا (باوجودیکہ یہ عارضی شکست تمہارے فعل کا نتیجہ تھی، مگر پھر بھی منجانب اللہ پر عمل بطور و سزا کے نہیں بلکہ اس مصلحت سے ہوا) تاکہ اللہ تعالیٰ تمہاری آزمائش (ایمان کی) فرما دے (چنانچہ اس وقت منافقین کا نفاق کھل گیا اور مخلصین کی قدر بڑھ گئی اور یقین سمجھو کہ اللہ تعالیٰ نے تم کو معاف کردیا (اب آخرت میں مواخذہ نہ ہوگا) اور اللہ تعالیٰ بڑے فضل والے ہیں مسلمانوں (کے حال) پر

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

سَـنُلْقِيْ فِيْ قُلُوْبِ الَّذِيْنَ كَفَرُوا الرُّعْبَ بِمَآ اَشْرَكُوْا بِاللہِ مَا لَمْ يُنَزِّلْ بِہٖ سُلْطٰنًا۝ ٠ ۚ وَمَاْوٰىھُمُ النَّارُ۝ ٠ ۭ وَبِئْسَ مَثْوَى الظّٰلِــمِيْنَ۝ ١٥١- لقی( افعال)- والإِلْقَاءُ : طرح الشیء حيث تلقاه، أي : تراه، ثم صار في التّعارف اسما لكلّ طرح . قال : فَكَذلِكَ أَلْقَى السَّامِرِيُ [ طه 87] ، قالُوا يا مُوسی إِمَّا أَنْ تُلْقِيَ وَإِمَّا أَنْ نَكُونَ نَحْنُ الْمُلْقِينَ- [ الأعراف 115] ،- ( ل ق ی ) لقیہ ( س)- الالقآء ( افعال) کے معنی کسی چیز کو اس طرح ڈال دیناکے ہیں کہ وہ دوسرے کو سمانے نظر آئے پھر عرف میں مطلق کس چیز کو پھینک دینے پر القاء کا لفظ بولا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : فَكَذلِكَ أَلْقَى السَّامِرِيُ [ طه 87] اور اسی طرح سامری نے ڈال دیا ۔ قالُوا يا مُوسی إِمَّا أَنْ تُلْقِيَ وَإِمَّا أَنْ نَكُونَ نَحْنُ الْمُلْقِينَ [ الأعراف 115] تو جادو گروں نے کہا کہ موسیٰ یا تو تم جادو کی چیز ڈالو یا ہم ڈالتے ہیں ۔ موسیٰ نے کہا تم ہی ڈالو۔ - قلب - قَلْبُ الشیء : تصریفه وصرفه عن وجه إلى وجه، کقلب الثّوب، وقلب الإنسان، أي : صرفه عن طریقته . قال تعالی: وَإِلَيْهِ تُقْلَبُونَ [ العنکبوت 21] .- ( ق ل ب ) قلب - الشئی کے معنی کسی چیز کو پھیر نے اور ایک حالت سے دوسری حالت کی طرف پلٹنے کے ہیں جیسے قلب الثوب ( کپڑے کو الٹنا ) اور قلب الانسان کے معنی انسان کو اس کے راستہ سے پھیر دینے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : وَإِلَيْهِ تُقْلَبُونَ [ العنکبوت 21] اور اسی کی طرف تم لوٹائے جاؤ گے ۔ - كفر - الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، - وأعظم الكُفْرِ- : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] - ( ک ف ر ) الکفر - اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔- اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔- رعب - الرُّعْبُ : الانقطاع من امتلاء الخوف، يقال : رَعَبْتُهُ فَرَعَبَ رُعْباً ، فهو رَعِبٌ ، والتِّرْعَابَةُ :- الفروق . قال تعالی: وَقَذَفَ فِي قُلُوبِهِمُ الرُّعْبَ [ الأحزاب 26] ، وقال : سَنُلْقِي فِي قُلُوبِ الَّذِينَ كَفَرُوا الرُّعْبَ [ آل عمران 151] ، وَلَمُلِئْتَ مِنْهُمْ رُعْباً [ الكهف 18] ، ولتصوّر الامتلاء منه قيل : رَعَبْتُ الحوص : ملأته، وسیل رَاعِبٌ: يملأ الوادي،- ( ر ع ب ) الرعب - ۔ اس کے اصل معنی خوف سے بھر کر کٹ جانے کے ہیں کہا جاتا ہے : ۔ رعبتہ فرعب رعبا ۔ میں نے اسے خوف زدہ کیا تو وہ خوف زدہ ہوگیا ۔ اور خوف زدہ شخص کو رعب کہا جاتا ہے ۔ الترعابۃ ( صیغہ صفت ) بہت زیادہ ڈر پوک ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَقَذَفَ فِي قُلُوبِهِمُ الرُّعْبَ [ الأحزاب 26] ہم عنقریب تمہاری ہیبت کافروں کے دلوں میں بیٹھا دیں گے ۔ وَلَمُلِئْتَ مِنْهُمْ رُعْباً [ الكهف 18] اور ان کی ( صورت حال سے ) تجھ میں ایک دہشت سما جائے پھر کبھی یہ صرف بھرنے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے جیسے رعبت الحوض میں نے حوض کو پانی سے پر کردیا ۔ سیل راعب : سیلاب جو وادی کو پر کر دے ۔ اور جاریۃ رعبوبۃ کے معنی جوانی سے بھرپور اور نازک اندام دو شیزہ کے ہیں اس کی جمع رعابیب آتی ہے ۔- شرك - وشِرْكُ الإنسان في الدّين ضربان :- أحدهما : الشِّرْكُ العظیم،- وهو : إثبات شريك لله تعالی. يقال : أَشْرَكَ فلان بالله، وذلک أعظم کفر . قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ لا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ [ النساء 48] ، - والثاني : الشِّرْكُ الصّغير،- وهو مراعاة غير اللہ معه في بعض الأمور، وهو الرّياء والنّفاق المشار إليه بقوله : جَعَلا لَهُ شُرَكاءَ فِيما آتاهُما فَتَعالَى اللَّهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ- [ الأعراف 190] ،- ( ش ر ک ) الشرکۃ والمشارکۃ - دین میں شریک دو قسم پر ہے - ۔ شرک عظیم یعنی اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی دوسرے کو شریک ٹھہرانا اور اشراک فلان باللہ کے معنی اللہ کے ساتھ شریک ٹھہرانے کے ہیں اور یہ سب سے بڑا کفر ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّ اللَّهَ لا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ [ النساء 48] خدا اس گناہ کو نہیں بخشے گا کہ کسی کو اس کا شریک بنایا جائے ۔ - دوم شرک صغیر - کو کسی کام میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی دوسرے کو بھی جوش کرنے کی کوشش کرنا اسی کا دوسرا نام ریا اور نفاق ہے جس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : جَعَلا لَهُ شُرَكاءَ فِيما آتاهُما فَتَعالَى اللَّهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ [ الأعراف 190] تو اس ( بچے ) میں جو وہ ان کو دیتا ہے اس کا شریک مقرر کرتے ہیں جو وہ شرک کرتے ہیں ۔ خدا کا ( رتبہ ) اس سے بلند ہے ۔- الله - الله : قيل : أصله إله فحذفت همزته، وأدخل عليها الألف واللام، فخصّ بالباري تعالی، ولتخصصه به قال تعالی: هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا [ مریم 65] . - ( ا ل ہ ) اللہ - (1) بعض کا قول ہے کہ اللہ کا لفظ اصل میں الہ ہے ہمزہ ( تخفیفا) حذف کردیا گیا ہے اور اس پر الف لام ( تعریف) لاکر باری تعالیٰ کے لئے مخصوص کردیا گیا ہے اسی تخصیص کی بناء پر فرمایا :۔ هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا ( سورة مریم 65) کیا تمہیں اس کے کسی ہمنام کا علم ہے ۔ - - نزل - النُّزُولُ في الأصل هو انحِطَاطٌ من عُلْوّ.- يقال : نَزَلَ عن دابَّته، والفَرْقُ بَيْنَ الإِنْزَالِ والتَّنْزِيلِ في وَصْفِ القُرآنِ والملائكةِ أنّ التَّنْزِيل يختصّ بالموضع الذي يُشِيرُ إليه إنزالُهُ مفرَّقاً ، ومرَّةً بعد أُخْرَى، والإنزالُ عَامٌّ ، فممَّا ذُكِرَ فيه التَّنزیلُ قولُه : نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء 193] وقرئ : نزل وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء 106] - ( ن ز ل ) النزول ( ض )- اصل میں اس کے معنی بلند جگہ سے نیچے اترنا کے ہیں چناچہ محاورہ ہے : ۔ نزل عن دابۃ وہ سواری سے اتر پڑا ۔ نزل فی مکان کذا کسی جگہ پر ٹھہر نا انزل وافعال ) اتارنا قرآن میں ہے ۔ عذاب کے متعلق انزال کا لفظ استعمال ہوا ہے قرآن اور فرشتوں کے نازل کرنے کے متعلق انزال اور تنزیل دونوں لفظ استعمال ہوئے ہیں ان دونوں میں معنوی فرق یہ ہے کہ تنزیل کے معنی ایک چیز کو مرۃ بعد اخریٰ اور متفرق طور نازل کرنے کے ہوتے ہیں ۔ اور انزال کا لفظ عام ہے جو ایک ہی دفعہ مکمل طور کیس چیز نازل کرنے پر بھی بولا جاتا ہے چناچہ وہ آیات ملا حضہ ہو جہاں تنزیل لا لفظ استعمال ہوا ہے ۔ نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء 193] اس کو امانت دار فر شتہ لے کر اترا ۔ ایک قرات میں نزل ہے ۔ وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء 106] اور ہم نے اس کو آہستہ آہستہ اتارا - سلط - السَّلَاطَةُ : التّمكّن من القهر، يقال : سَلَّطْتُهُ فَتَسَلَّطَ ، قال تعالی: وَلَوْ شاءَ اللَّهُ لَسَلَّطَهُمْ [ النساء 90] ، وقال تعالی: وَلكِنَّ اللَّهَ يُسَلِّطُ رُسُلَهُ عَلى مَنْ يَشاءُ [ الحشر 6] ، ومنه سمّي السُّلْطَانُ ، والسُّلْطَانُ يقال في السَّلَاطَةِ ، نحو : وَمَنْ قُتِلَ مَظْلُوماً فَقَدْ جَعَلْنا لِوَلِيِّهِ سُلْطاناً [ الإسراء 33] ،- ( س ل ط ) السلاطۃ - اس کے معنی غلبہ حاصل کرنے کے ہیں اور سلطتہ فتسلط کے معنی ہیں میں نے اسے مقہود کیا تو وہ مقہود ہوگیا ۔ قرآن میں ہے :۔ وَلَوْ شاءَ اللَّهُ لَسَلَّطَهُمْ [ النساء 90] اور اگر خدا چاہتا تو ان کو تم پر مسلط کردتیاوَلكِنَّ اللَّهَ يُسَلِّطُ رُسُلَهُ عَلى مَنْ يَشاءُ [ الحشر 6] لیکن خدا اپنے پیغمبروں کو جن پر چاہتا ہے مسلط کردیتا ہے ۔ اور اسی سے بادشاہ کو سلطان ، ، کہا جاتا ہے ۔ اور سلطان کا لفظ تسلط اور غلبہ کے معنی میں بھی آتا ہے ۔ جیسے فرمایا : وَمَنْ قُتِلَ مَظْلُوماً فَقَدْ جَعَلْنا لِوَلِيِّهِ سُلْطاناً [ الإسراء 33] اور جو شخص ظلم سے قتل کیا جائے ہم نے اس کے وارث کو اختیار دیا ہے۔- أوى- المَأْوَى مصدر أَوَى يَأْوِي أَوِيّاً ومَأْوًى، تقول : أوى إلى كذا : انضمّ إليه يأوي أويّا ومأوى، وآوَاهُ غيره يُؤْوِيهِ إِيوَاءً. قال عزّ وجلّ : إِذْ أَوَى الْفِتْيَةُ إِلَى الْكَهْفِ [ الكهف 10] ، وقال : سَآوِي إِلى جَبَلٍ [هود 43] - ( ا و ی ) الماویٰ ۔- ( یہ اوی ٰ ( ض) اویا و ماوی کا مصدر ہے ( جس کے معنی کسی جگہ پر نزول کرنے یا پناہ حاصل کرنا کے ہیں اور اویٰ الیٰ کذا ۔ کے معنی ہیں کسی کے ساتھ مل جانا اور منضم ہوجانا اور آواہ ( افعال ) ایواء کے معنی ہیں کسی کو جگہ دینا قرآن میں ہے إِذْ أَوَى الْفِتْيَةُ إِلَى الْكَهْفِ ( سورة الكهف 10) جب وہ اس غار میں جار ہے قَالَ سَآوِي إِلَى جَبَلٍ ( سورة هود 43) اس نے کہا کہ میں ( ابھی ) پہاڑ سے جا لگوں گا ۔ - بِئْسَ- و «بِئْسَ» كلمة تستعمل في جمیع المذام،- كما أنّ نعم تستعمل في جمیع الممادح، ويرفعان ما فيه الألف واللام، أو مضافا إلى ما فيه الألف واللام، نحو : بئس الرجل زيد، وبئس غلام الرجل زيد . وينصبان النکرة نحو : بئس رجلا، ولَبِئْسَ ما کانوا يَفْعَلُونَ [ المائدة 79] ، أي : شيئا يفعلونه،- ( ب ء س) البؤس والباس - بئس ۔ فعل ذم ہے اور ہر قسم کی مذمت کے لئے استعمال ہوتا ہے جیسا کہ نعم ہر قسم کی مدح کے لئے استعمال ہوتا ہے ان کا اسم اگر معرف بالللام ہو یا معرف باللام کی طرف مضاف ہو تو اسے رفع دیتے ہیں جیسے بئس الرجل زید وبئس غلام الرجل زید ۔ اور اسم نکرہ کو نصب دیتے ہیں جیسے قرآن میں ہے ؛ ۔ بِئْسَ مَا كَانُوا يَفْعَلُونَ ( سورة المائدة 79) یعنی بلا شبہ وہ برا کرتے تھے - ثوی - الثَّوَاء : الإقامة مع الاستقرار، يقال : ثَوَى يَثْوِي ثَوَاءً ، قال عزّ وجلّ : وَما كُنْتَ ثاوِياً فِي أَهْلِ مَدْيَنَ [ القصص 45] ، وقال : أَلَيْسَ فِي جَهَنَّمَ مَثْوىً لِلْمُتَكَبِّرِينَ [ الزمر 60] ، قال اللہ تعالی: فَالنَّارُ مَثْوىً لَهُمْ [ فصلت 24] ، ادْخُلُوا أَبْوابَ جَهَنَّمَ خالِدِينَ فِيها فَبِئْسَ مَثْوَى الْمُتَكَبِّرِينَ [ الزمر 72] ، وقال : النَّارُ مَثْواكُمْ [ الأنعام 128] ، وقیل : من أمّ مثواک «3» ؟ كناية عمّن نزل به ضيف، والثَّوِيَّة : مأوى الغنم - ( ث و ی ) الثواء ( ص) کے اصل معنی کسی جگہ پر مستقل طور پر اقامت کرنا کے ہیں کہا جاتا ہے ثویٰ یثویٰ ثواء وہ اقامت پذیر ہوگیا ۔ قرآن میں ہے ۔ وَما كُنْتَ ثاوِياً فِي أَهْلِ مَدْيَنَ [ القصص 45] اور نہ تم مدین والوں میں رہ رہے تھے ۔ أَلَيْسَ فِي جَهَنَّمَ مَثْوىً لِلْمُتَكَبِّرِينَ [ الزمر 60] کیا غرور والوں کا ٹھکانا دوزخ میں نہیں ہے ۔ فَالنَّارُ مَثْوىً لَهُمْ [ فصلت 24] اور انکا ٹھکانا دوزخ ہے ۔ ادْخُلُوا أَبْوابَ جَهَنَّمَ خالِدِينَ فِيها فَبِئْسَ مَثْوَى الْمُتَكَبِّرِينَ [ الزمر 72]( اب ) جہنم کے دروازوں میں داخل ہوجاؤ ۔ ہمیشہ اسی میں رہو گے ۔ متکبروں کا کیسا برا ٹھکانا ہے ۔ النَّارُ مَثْواكُمْ [ الأنعام 128] خدا فرمائے گا ( اب ) تمہارا ٹھکانا درزخ ہے ۔ من ام مثواک ( کنایہ ) تمہارا میز بان کو ن ہے ۔ الثویۃ بھیڑ بکریوں کے باڑہ کو کہتے ہیں ۔- ظلم - وَالظُّلْمُ عند أهل اللّغة وكثير من العلماء : وضع الشیء في غير موضعه المختصّ به، إمّا بنقصان أو بزیادة، وإمّا بعدول عن وقته أو مکانه،- قال بعض الحکماء : الظُّلْمُ ثلاثةٌ:- الأوّل : ظُلْمٌ بين الإنسان وبین اللہ تعالی،- وأعظمه : الکفر والشّرک والنّفاق، ولذلک قال :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان 13] - والثاني : ظُلْمٌ بينه وبین الناس،- وإيّاه قصد بقوله : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ وبقوله : إِنَّمَا السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ [ الشوری 42] - والثالث : ظُلْمٌ بينه وبین نفسه،- وإيّاه قصد بقوله : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر 32] ،- ( ظ ل م ) ۔- الظلم - اہل لغت اور اکثر علماء کے نزدیک ظلم کے معنی ہیں کسی چیز کو اس کے مخصوص مقام پر نہ رکھنا خواہ کمی زیادتی کرکے یا اسے اس کی صحیح وقت یا اصلی جگہ سے ہٹاکر - بعض حکماء نے کہا ہے کہ ظلم تین قسم پر ہے - (1) وہ ظلم جو انسان اللہ تعالیٰ کے ساتھ کرتا ہے اس کی سب سے بڑی قسم کفر وشرک اور نفاق ہے ۔ چناچہ فرمایا - :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان 13] شرک تو بڑا بھاری ظلم ہے ۔ - (2) دوسری قسم کا ظلم وہ ہے جو انسان ایک دوسرے پر کرتا ہے - ۔ چناچہ آیت کریمہ : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ اور برائی کا بدلہ تو اسی طرح کی برائی ہے مگر جو درگزر کرے اور معاملے کو درست کرلے تو اس کا بدلہ خدا کے ذمہ ہے اس میں شک نہیں کہ وہ ظلم کرنیوالوں کو پسند نہیں کرتا ۔ میں ظالمین سے اسی قسم کے لوگ مراد ہیں ۔- ۔ (3) تیسری قسم کا ظلم وہ ہے جو ایک انسان خود اپنے نفس پر کرتا ہے - ۔ چناچہ اسی معنی میں فرمایا : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر 32] تو کچھ ان میں سے اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

قول باری ہے (سنلقی فی قلوب الذین کفروا الّرعب بما اشرکواباللہ ما لم ینزل بہ سلطانا۔ عنقریب وہ وقت آنے والا ہے جب ہم منکرین حق کے دلوں میں رعب بٹھا دیں گے اس لیے کہ انھوں نے اللہ کے ساتھ ان کو خدائی میں شریک ٹھہرایا ہے جن کے شریک ہونے پر اللہ نے کوئی سندنازل نہیں کی) آیت میں تقلید کے بطلان کی دلیل موجود ہے ۔ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کے قول کے بطلان کا اس وجہ سے حکم لگادیا کہ ان کے پاس اس کی کوئی دلیل نہیں تھی یہاں سلطان سے مراد برہان اور دلیل ہے۔ ایک قول ہے کہ سلطان کے اصل معنی قوت کے ہیں۔ بادشاہ کا سلطان اس کی قو ت ہوتی ہے۔ حجت اور دلیل کو بھی اس لیے سلطان کہتے ہیں کہ اس میں باطل کو جڑ سے اکھاڑدینے اور طابل پرست پر غالب آجانے کی قوت ہوتی ہے۔ کسی چیز پر تسلیط اور غلبہ کا مفہوم یہ ہے کہ اس بھڑکاکر اس کے خلاف قوت کا مظاہرہ کیا جائے ورا سے دبالیا جائے۔ آیت میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت کی صحت کی دلیل موجود ہے۔ اس میں مشرکین کے دلوں میں رعب ڈال دینے کی خبردی گئی ہے۔ بعد میں پیش آمدہ واقعات نے اسے سچ کردکھایا۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے (نصرت بالرعب حتی ان العد ولیرعب منی وھوعلی مسیرۃ شھر، دشمنوں کے دل میں رعب ڈال کر میری نصرت کی گئی ہے حتی کہ دشمن ایک ماہ کی مسافت پر بھی مجھ سے مرعوب ہوجاتا ہے۔

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ١٥١ (سَنُلْقِیْ فِیْ قُلُوْبِ الَّذِیْنَ کَفَرُوا الرُّعْبَ ) (بِمَآ اَشْرَکُوْا باللّٰہِ مَا لَمْ یُنَزِّلْ بِہٖ سُلْطٰنًا ج) (وَمَاْوٰٹہُمُ النَّارُط وَبِءْسَ مَثْوَی الظّٰلِمِیْنَ ) - اس آیت میں دراصل توجیہہ بیان ہو رہی ہے کہ غزوۂ احد میں مشرکین واپس کیوں چلے گئے ‘ جب کہ ان کو اس درجے کھلی فتح حاصل ہوچکی تھی اور مسلمانوں کو ہزیمت اٹھانا پڑی تھی۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ کرام (رض) نے پہاڑ کے اوپر چڑھ کر پناہ لے لی تھی۔ خالد بن ولید کہہ رہے تھے کہ ہمیں ان کا تعاقب کرنا چاہیے اور اس معاملے کو ختم کردینا چاہیے۔ لیکن ابوسفیان کے دل میں اللہ نے اس وقت ایسا رعب ڈال دیا کہ وہ لشکر کو لے کر وہاں سے چلے گئے۔ ورنہ واقعتا اس وقت صورت حال بہت مخدوش ہوچکی تھی۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani