152۔ 1 اس وعدے پر بعض مفسرین نے تین ہزار اور پانچ ہزار فرشتوں کا نزول مراد لیا ہے۔ لیکن یہ رائے سرے سے صحیح نہیں بلکہ صحیح یہ ہے کہ فرشتوں کا نزول صرف جنگ بدر کے ساتھ مخصوص تھا۔ باقی رہا وہ وعدہ جو اس آیت میں مذکور ہے تو اس سے مراد فتح و نصرت کا وہ عام وعدہ ہے جو اہل اسلام کے لئے اور اس کے رسول کی طرف سے بہت پہلے سے کیا جا چکا حتٰی کہ بعض آیتیں مکہ میں نازل ہوچکی تھیں۔ اور اس کے مطابق ابتدائے جنگ میں مسلمان غالب و فاتح رہے جس کی طرف (اِذْ تَحُسُّوْنَھُمْ بِاِذْنِھٖ ) 003:152 سے اشارہ کیا گیا ہے۔ 152۔ 2 اس تنازع اور عصیان سے مراد 50 تیر اندازوں کا وہ اختلاف ہے جو فتح و غلبہ دیکھ کر ان کے اندر واقع ہوا اور جس کی وجہ سے کافروں کو پلٹ کر دوبارہ حملہ آور ہونے کا موقع ملا۔ 152۔ 3 اس سے مراد وہ فتح ہے جو ابتدا میں مسلمانوں کو حاصل ہوئی تھی۔ 152۔ 4 یعنی مال غنیمت، جس کے لئے انہوں نے وہ پہاڑی چھوڑ دی جس کے نہ چھوڑنے کی انہیں تاکید کی گئی تھی۔ 152۔ 5 وہ لوگ ہیں جنہوں نے مورچہ چھوڑنے سے منع کیا اور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے فرمان کے مطابق اسی جگہ ڈٹے رہنے کا عزم ظاہر کیا۔ 152۔ 6 یعنی غلبہ عطا کرنے کے بعد پھر تمہیں شکست دے کر ان کافروں سے پھیر دیا تاکہ تمہیں آزمائے۔ 152۔ 7 اس میں صحابہ کرام (رض) کے اس شرف اور فضل کا اظہار ہے جو ان کی کوتاہیوں کے باوجود اللہ نے ان پر فرمایا۔ یعنی ان کی غلطیوں کی وضاحت کر کے آئندہ اس کا اعادہ نہ کریں، اللہ نے ان کے لئے معافی کا اعلان کردیا تاکہ کوئی بد باطن ان پر زبان طعن دراز نہ کرے۔ جب اللہ تعالیٰ نے ہی قرآن کریم میں ان کے لئے عفو عام کا اعلان فرما دیا تو اب کسی کے لئے طعن وتشنیع کی گنجائش کہاں رہ گئی صحیح بخاری میں ایک واقعہ مذکور ہے کہ ایک حج کے موقع پر ایک شخص نے حضرت عثمان (رض) پر بعض اعتراضات کیے کہ وہ جنگ بدر میں بیعت رضوان میں شریک نہیں ہوئے۔ نیز یوم احد میں فرار ہوگئے تھے۔ حضرت ابن عمر (رض) نے فرمایا کہ جنگ بدر میں تو انکی اہلیہ (بنت رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بیمار تھیں، بیعت رضوان کے موقع پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سفیر بن کر مکہ گئے ہوئے تھے اور یوم احد کے فرار کو اللہ نے معاف فرمادیا ہے۔ (ملخصا۔ صحیح بخاری، غزوہ احد)
[١٣٩] براء بن عازب کہتے ہیں کہ احد کے دن آپ نے پچاس پیدل آدمیوں کا افسر عبداللہ بن جبیر کو مقرر کیا اور تاکید کی کہ تم اپنی جگہ سے نہ سرکنا۔ خواہ تم یہ دیکھو کہ پرندے ہم کو اچک لے جائیں جب تک میں تمہیں کہلا نہ بھیجوں اور اگر تم دیکھو کہ ہم نے دشمن کو شکست دی ہے اور اسے کچل ڈالا ہے تب بھی تم یہاں سے نہ ہلنا جب تک میں کہلا نہ بھیجوں ابتداء میں مسلمانوں نے کافروں کو مار بھگایا۔ میں نے خود مشرک عورتوں کو دیکھا کہ وہ اپنے کپڑے اٹھائے اور پنڈلیاں کھولے بھاگی جارہی تھیں۔ یہ صورت حال دیکھ کر عبداللہ بن جبیر کے ساتھیوں نے کہا۔ اب غنیمت کا مال اڑاؤ، تمہارے ساتھی تو غالب آچکے۔ اب کیا دیکھ رہے ہو۔ عبداللہ بن جبیر کہنے لگے : کیا تم وہ بات بھول گئے جو تمہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کہی تھی ؟ وہ کہنے لگے واللہ ہم تو لوگوں کے پاس جاکر غنیمت کا مال اڑائیں گے جب وہ (درہ چھوڑ کر) لوگوں کے پاس آگئے تو (پیچھے سے خالد بن ولید نے حملہ کردیا) اور کافروں نے مسلمانوں کے منہ پھیر دیئے اور شکست کھا کر بھاگنے لگے اور اللہ کا رسول انہیں پیچھے سے بلا رہا تھا۔ اس وقت آپ کے ساتھ بارہ آدمیوں کے سوا کوئی نہ رہا تھا اور کافروں نے ہمارے ستر آدمی شہید کئے جبکہ بدر کے دن مسلمانوں نے ایک سو چالیس کافروں کا نقصان کیا تھا۔ ستر کو قید کیا تھا اور ستر کو قتل کیا تھا۔ اس وقت ابو سفیان نے تین بار یہ آواز دی کیا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ( ) لوگوں میں (زندہ) موجود ہیں ؟ مگر آپ نے صحابہ کو جواب دینے سے منع کردیا۔ پھر اس نے تین بار آواز دی۔ کہا ابو قحافہ کے بیٹے موجود ہیں ؟ پھر تین بار پکارا کیا خطاب کے بیٹے موجود ہیں ؟ پھر اپنے ساتھیوں سے متوجہ ہو کر کہنے لگا : یہ تو سب قتل ہوچکے۔ حضرت عمر (رض) یہ سن کر رہ نہ سکے اور اسے کہا : اللہ کے دشمن جھوٹ کہتے ہو۔ جن کے تم نے نام لیے ہیں سب کے سب زندہ ہیں اور ابھی تیرا برا دن آنے والا ہے اس وقت ابو سفیان کہنے لگا : اچھا آج بدر کے دن کا بدلہ ہوگیا اور لڑائی تو ڈولوں کی طرح ہوتی ہے (کبھی ادھر کبھی ادھر) تم اپنے مقتولین میں مثلہ کیا ہوا دیکھو گے جس کا میں نے حکم نہیں دیا تھا۔ تاہم اسے برا بھی نہیں سمجھتا۔ پھر اس نے دو مرتبہ ہبل کی جے کا نعرہ لگایا تو آپ نے صحابہ سے کہا اسے جواب کیوں نہیں دیتے ؟ صحابہ نے پوچھا یارسول اللہ کیا جواب دیں ؟ فرمایا : کہو اللہ ہی سب سے برتر اور بزرگ ہے پھر ابوسفیان نے پکارا : ہمارا تو عزیٰ بھی ہے جو تمہارا نہیں آپ نے کہا : اسے جواب کیوں نہیں دیتے صحابہ نے پوچھا کیا جواب دیں ؟ آپ نے فرمایا : یوں کہو : ہمارا تو کارساز اللہ ہے۔ لیکن تمہارا کوئی کارساز نہیں۔ (بخاری، کتاب الجہاد، باب دواء الجرح باحراق الحصیر و غسل المراۃ)- ٢۔ سہل بن سعد ساعدی کہتے ہیں کہ آپ کو غزوہ احد میں جو زخم لگا اس کا یہ علاج کیا گیا کہ حضرت علی (رض) اپنی ڈھال میں پانی لارہے تھے اور حضرت فاطمہ آپ کے منہ سے خون دھو رہی تھیں اور ایک چٹائی جلا کر اس کی راکھ آپ کے زخم میں بھر دی گئی۔ (بخاری کتاب الجہاد، باب ایضاً )- [١٤٠] اس جنگ میں ابتداًء مسلمانوں کو کامل فتح نصیب ہوئی اور اللہ نے اپنا وعدہ نصرت پورا فرمایا۔ پھر عبداللہ بن جبیر کے ہمراہیوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صریح نافرمانی کی۔ جس کی پاداش میں مسلمانوں کو شکست سے دو چار ہونا پڑا۔ تاہم اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کا یہ قصور معاف کردیا جس کے نتیجہ میں یہ جنگ برابری کی سطح پر منتج ہوئی۔ بلکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کفار کے تعاقب میں جو دستہ بھیجا اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ بالآخر میدان مسلمانوں کے ہاتھ میں رہا اور یہ صرف اس وجہ سے تھا کہ اللہ تعالیٰ نے رسول کی نافرمانی کے جرم کو معاف کردیا تھا اور اگر قصور معاف نہ کیا جاتا تو عین ممکن تھا کہ مشرکین مکہ میدان احد کو سر کرنے کے بعد مدینہ کا رخ کرتے اور مسلمانوں کے بیوی بچوں کو قتل کردیتے یا قید کرلیتے یا لونڈی غلام بنالیتے۔ یہ اللہ کا فضل اور اس کی معافی ہی کا نتیجہ تھا کہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو ایسی ذلت سے بچا لیا ورنہ جو ذلت میدان بدر میں مشرکین مکہ کی ہوئی تھی یہ ذلت اس سے کہیں بڑھ کر ہوتی۔
وَلَقَدْ صَدَقَكُمُ اللّٰهُ وَعْدَهٗٓ ۔۔ : جنگ احد میں پہلے پہل اللہ تعالیٰ کی مدد مسلمانوں کے شامل حال رہی اور وہ مشرکین کو اللہ کے حکم سے خوب کاٹتے رہے، حتیٰ کہ جب فتح کے آثار نظر آنے لگے اور مشرکین اور ان کی عورتوں نے بھاگنا شروع کردیا تو پچاس تیر انداز، جنھیں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عبداللہ بن جبیر (رض) کی سرکردگی میں ایک پہاڑی پر متعین کیا تھا، تاکہ ادھر سے مشرک حملہ آور نہ ہوں، انھوں نے مال غنیمت دیکھ کر باہم جھگڑنا شروع کردیا۔ پچاس آدمیوں میں سے اکثر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حکم کی نافرمانی کر کے اپنی جگہ چھوڑ کر مال غنیمت کی طرف دوڑ پڑے، اس سبب سے مشرکین کو عقب سے حملہ کرنے کا موقع مل گیا اور مسلمانوں کو بہت بڑا نقصان اٹھانا پڑا۔ اس آیت میں اسی واقعہ کی طرف اشارہ ہے۔ (ابن کثیر) - جنگ کے بعد جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مدینہ واپس آئے تو بعض لوگ کہنے لگے کہ یہ مصیبت ہم پر کیسے آگئی، حالانکہ اللہ تعالیٰ نے نصرت کا وعدہ فرمایا تھا، اس پر یہ آیت نازل ہوئی کہ اللہ تعالیٰ نے تو اپنا وعدہ پورا کردیا تھا، پھر جو کچھ ہوا یہ تمہارے ہمت ہارنے اور آپس میں جھگڑنے اور تمہاری نافرمانی کا نتیجہ تھا۔ (قرطبی) - 2 ثُمَّ صَرَفَكُمْ ۔۔ : یعنی غلبہ کے بعد ان کے مقابلہ میں تمہیں پسپائی دلائی، تاکہ تمہاری آزمائش ہو کہ کون سچا مسلمان ہے اور کون کمزور ایمان والا اور جھوٹا۔ (قرطبی) - 3 وَلَقَدْ عَفَا عَنْكُمْ ۭ : یعنی گو تم نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نافرمانی اور جنگ سے فرار کی راہ اختیار کر کے نہایت سنگین جرم کا ارتکاب کیا تھا، جس کی تمہیں سخت سزا دی جاسکتی تھی، لیکن اللہ تعالیٰ نے تمہارا سارا قصور معاف فرما دیا۔ اس میں صحابہ کرام (رض) کے اس شرف کا اظہار ہے جو ان کی کوتاہیوں کے باوجود اللہ تعالیٰ نے ان پر فرمایا، یعنی ان کی غلطیوں کی وضاحت کر کے، تاکہ آئندہ ان کا اعادہ نہ کریں۔ جب اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے معافی کا عام اعلان فرما دیا تو اب کسی کے لیے ان پر طعن و تشنیع کی کیا گنجائش رہ گئی۔ صحیح بخاری میں مذکور ہے کہ ایک شخص نے ابن عمر (رض) کے پاس عثمان (رض) پر بعض اعتراضات کیے، ایک ان میں سے یہ تھا کہ وہ احد کے دن فرار ہوگئے تھے، تو ابن عمر (رض) نے فرمایا : ” میں شہادت دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے انھیں معاف فرما دیا۔ “ [ بخاری، المغازی، - باب قول اللہ تعالیٰ ( إن الذین تولوا منکم۔۔ ) : ٤٠٦٦ ]
معارف و مسائل - اللہ تعالیٰ کے نزدیک صحابہ کرام کا مقام بلند اور اس کی رعایتیں :۔- یہ ظاہر ہے کہ غزوہ احد میں بعض صحابہ کرام کی رائے کی غلطی ہوئی تھی جس پر سابقہ متعدد آیات میں تنبیہ اور آئندہ کے لئے اصلاح حال کی ہدایات کا سلسلہ چلا آتا ہے، مگر اس عتاب اور تنبیہات کے اندر بھی صحابہ کرام کے ساتھ حق جل شانہ کی عنایات قابل دید ہیں، اول تو لیتلیکم فرما کر یہ ظاہر فرما دیا کہ عارضی شکست کی جو صورت پیش آئی یہ بطور سزا کے نہیں، بلکہ آزمائش کے لئے ہے، پھر صاف لفظوں میں خطا کی معافی کا اعلان فرما دیا۔ ولقد عقا عنکم - بعض صحابہ کرام کے ارادہ دنیا کا مطلب :۔- آیات مذکور میں ارشاد ہوا ہے کہ اس وقت صحابہ کرام کے دو گروہ ہوگئے تھے، بعض دنیا چاہتے تھے، بعض صرف آخرت کے طلب گار تھے۔ یہاں یہ بات قابل غور ہے کہ جن حضرات کے متعلق طالب دنیا ہونے کا ذکر ہے یہ ان کے کسی عمل کی بناء پر ہے ظاہر ہے کہ مال غنیمت جمع کرنے کے ارادے کو طلب دنیا سے تعبیر کیا گیا ہے اب غور کرو کہ اگر یہ حضرات اپنے مورچے پر جمے رہتے اور مال غنیمت جمع کرنے میں شریک نہ ہوتے تو کیا ان کے حصہ غنیمت میں کوئی کمی آجاتی اور شریک ہوگئے تو کوئی زیادہ حصہ مل گیا، قرآن و حدیث سے ثابت شدہ قانون غنیمت کو جو شخص جانتا ہے اس کو اس میں کوئی شبہ نہیں ہوسکتا کہ مال غنیمت سے جو حصہ ان کو ملے گا اس میں کسی حال کوئی فرق کمی بیشی کا نہ تھا، مال غنیمت جمع کرنے کی صورت میں بھی ان کا حصہ وہی رہے گا جو اپنی جگہ مورچے پر جمے رہنے کے وقت ملتا۔- تو اب یہ ظاہر ہے کہ ان کا یہ عمل خلاص طلب دنیا تو ہو نہیں سکتا، بلکہ مجاہدین کے کام میں شرکت ہے، ہاں طبعی طور پر اس وقت مال غنیمت کا خیال دل میں آجا مستبعد نہیں، مگر حق تعالیٰ اپنے رسول کے ساتھیوں کے قلوب کو اس سے بھی پاک و صاف دیکھنا چاہتے ہیں کہ مال کا تصرف ہی کیوں آوے، اس لئے اس تصرف کو طلب دنیا سے تعبیر کر کے ناپسندیدگی کا اظہار فرمایا، واللہ اعلم
وَلَقَدْ صَدَقَكُمُ اللہُ وَعْدَہٗٓ اِذْ تَحُسُّوْنَھُمْ بِـاِذْنِہٖ ٠ ۚ حَتّٰٓي اِذَا فَشِلْتُمْ وَتَنَازَعْتُمْ فِي الْاَمْرِ وَعَصَيْتُمْ مِّنْۢ بَعْدِ مَآ اَرٰىكُمْ مَّا تُحِبُّوْنَ ٠ ۭ مِنْكُمْ مَّنْ يُّرِيْدُ الدُّنْيَا وَمِنْكُمْ مَّنْ يُّرِيْدُ الْاٰخِرَۃَ ٠ ۚ ثُمَّ صَرَفَكُمْ عَنْھُمْ لِـيَبْتَلِيَكُمْ ٠ ۚ وَلَقَدْ عَفَا عَنْكُمْ ٠ ۭ وَاللہُ ذُوْ فَضْلٍ عَلَي الْمُؤْمِنِيْنَ ١٥٢- ( قَدْ )- : حرف يختصّ بالفعل، والنّحويّون يقولون : هو للتّوقّع . وحقیقته أنه إذا دخل علی فعل ماض فإنما يدخل علی كلّ فعل متجدّد، نحو قوله : قَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَيْنا [يوسف 90] - وإذا دخل ( قَدْ ) علی المستقبَل من الفعل فذلک الفعل يكون في حالة دون حالة .- نحو : قَدْ يَعْلَمُ اللَّهُ الَّذِينَ يَتَسَلَّلُونَ مِنْكُمْ لِواذاً [ النور 63] ، أي : قد يتسلّلون أحيانا فيما علم اللہ .- و ( قَدْ ) و ( قط) يکونان اسما للفعل بمعنی حسب، يقال : قَدْنِي كذا، وقطني كذا، وحكي : قَدِي . وحكى الفرّاء : قَدْ زيدا، وجعل ذلک مقیسا علی ما سمع من قولهم : قدني وقدک، والصحیح أنّ ذلک لا يستعمل مع الظاهر، وإنما جاء عنهم في المضمر .- ( قد ) یہ حرف تحقیق ہے اور فعل کے ساتھ مخصوص ہے علماء نحو کے نزدیک یہ حرف توقع ہے اور اصل میں جب یہ فعل ماضی پر آئے تو تجدد اور حدوث کے معنی دیتا ہے جیسے فرمایا : قَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَيْنا [يوسف 90] خدا نے ہم پر بڑا احسان کیا ہے اگر ، ، قد فعل مستقل پر داخل ہو تو تقلیل کا فائدہ دیتا ہے یعنی کبھی وہ فعل واقع ہوتا ہے اور کبھی واقع نہیں ہوتا اور آیت کریمہ : قَدْ يَعْلَمُ اللَّهُ الَّذِينَ يَتَسَلَّلُونَ مِنْكُمْ لِواذاً [ النور 63] خدا کو یہ لوگ معلوم ہیں جو تم میں سے آنکھ بچا کر چل دیتے ہیں ۔ کی تقدیریوں ہے قد یتسللون احیانا فیما علم اللہ ( تو یہ بہت آیت بھی ماسبق کی طرح موؤل ہوگی اور قد کا تعلق تسلل کے ساتھ ہوگا ۔ قدوقط یہ دونوں اسم فعل بمعنی حسب کے آتے ہیں جیسے محاورہ ہے قد فی کذا اوقطنی کذا اور قدی ( بدون نون وقایہ ا کا محاورہ بھی حکایت کیا گیا ہے فراء نے قدنی اور قدک پر قیاس کرکے قدر زید ا بھی حکایت کیا ہے لیکن صحیح یہ ہے کہ قد ( قسم فعل اسم ظاہر کے ساتھ استعمال نہیں ہوتا بلکہ صرف اسم مضمر کے ساتھ آتا ہے ۔- صدق - الصِّدْقُ والکذب أصلهما في القول، ماضیا کان أو مستقبلا، وعدا کان أو غيره، ولا يکونان بالقصد الأوّل إلّا في القول، ولا يکونان في القول إلّا في الخبر دون غيره من أصناف الکلام، ولذلک قال : وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء 122] ،- ( ص دق) الصدق ۔- یہ ایک الکذب کی ضد ہے اصل میں یہ دونوں قول کے متعلق استعمال ہوتے ہیں خواہ اس کا تعلق زمانہ ماضی کے ساتھ ہو یا مستقبل کے ۔ وعدہ کے قبیل سے ہو یا وعدہ کے قبیل سے نہ ہو ۔ الغرض بالذات یہ قول ہی کے متعلق استعمال - ہوتے ہیں پھر قول میں بھی صرف خبر کے لئے آتے ہیں اور اس کے ماسوا دیگر اصناف کلام میں استعمال نہیں ہوتے اسی لئے ارشاد ہے ۔ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء 122] اور خدا سے زیادہ وہ بات کا سچا کون ہوسکتا ہے ۔ - وعد - الوَعْدُ يكون في الخیر والشّرّ. يقال وَعَدْتُهُ بنفع وضرّ وَعْداً ومَوْعِداً ومِيعَاداً ، والوَعِيدُ في الشّرّ خاصّة . يقال منه : أَوْعَدْتُهُ ، ويقال : وَاعَدْتُهُ وتَوَاعَدْنَا . قال اللہ عزّ وجلّ : إِنَّ اللَّهَ وَعَدَكُمْ وَعْدَ الْحَقِ [إبراهيم 22] ، أَفَمَنْ وَعَدْناهُ وَعْداً حَسَناً فَهُوَ لاقِيهِ [ القصص 61] ،- ( وع د ) الوعد - ( وعدہ کرنا ) کا لفظ خیر وشر یعنی اچھے اور برے ( وعدہ دونوں پر بولا جاتا ہے اور اس معنی میں استعمال ہوتا ہے مگر الوعید کا لفظ خاص کر شر ( یعنی دھمکی اور تہدید ) کے لئے بولا جاتا ہے ۔ اور اس معنی میں باب اوعد ( توقد استعمال ہوتا ہے ۔ اور واعدتہ مفاعلۃ ) وتوا عدنا ( تفاعل ) کے معنی باہم عہدو پیمان کر نا کے ہیں ( قرآن کریم میں ودع کا لفظ خرٰا و شر دونوں کے لئے استعمال ہوا ہے ( چناچہ وعدہ خیر کے متعلق فرمایا إِنَّ اللَّهَ وَعَدَكُمْ وَعْدَ الْحَقِ [إبراهيم 22] جو ودعے خدا نے تم سے کیا تھا وہ تو سچا تھا ۔ أَفَمَنْ وَعَدْناهُ وَعْداً حَسَناً فَهُوَ لاقِيهِ [ القصص 61] بھلا جس شخص سے ہم نے نیک وعدہ کیا ۔ - حسس - فحقیقته : أدركته بحاستي، وأحست مثله، لکن حذفت إحدی السینین تخفیفا نحو : ظلت، وقوله تعالی: فَلَمَّا أَحَسَّ عِيسى مِنْهُمُ الْكُفْرَ [ آل عمران 52]- ( ح س س )- احسستہ کے اصل معنی بھی کسی چیز کو محسوس کرنے کے ہیں اور احسنت بھی احسست ہی ہے مگر اس میں ایک سین کو تحقیقا حذف کردیا گیا ہے جیسا کہ ظلت ( میں ایک لام مخذوف ہے اور آیت کریمہ : ۔ فَلَمَّا أَحَسَّ عِيسى مِنْهُمُ الْكُفْرَ [ آل عمران 52] جب عیسٰی ( (علیہ السلام) ) نے ان کی طرف سے نافرمانی ( اور نیت قتل ) دیکھی ۔- حَتَّى- حَتَّى حرف يجرّ به تارة كإلى، لکن يدخل الحدّ المذکور بعده في حکم ما قبله، ويعطف به تارة، ويستأنف به تارة، نحو : أكلت السمکة حتی رأسها، ورأسها، ورأسها، قال تعالی: لَيَسْجُنُنَّهُ حَتَّى حِينٍ [يوسف 35] ، وحَتَّى مَطْلَعِ الْفَجْرِ [ القدر 5] .- ويدخل علی الفعل المضارع فينصب ويرفع،- وفي كلّ واحد وجهان :- فأحد وجهي النصب : إلى أن .- والثاني : كي .- وأحد وجهي الرفع أن يكون الفعل قبله ماضیا، نحو : مشیت حتی أدخل البصرة، أي :- مشیت فدخلت البصرة .- والثاني : يكون ما بعده حالا، نحو : مرض حتی لا يرجونه، وقد قرئ : حَتَّى يَقُولَ الرَّسُولُ [ البقرة 214] ، بالنصب والرفع «1» ، وحمل في كلّ واحدة من القراء تین علی الوجهين . وقیل : إنّ ما بعد «حتی» يقتضي أن يكون بخلاف ما قبله، نحو قوله تعالی: وَلا جُنُباً إِلَّا عابِرِي سَبِيلٍ حَتَّى تَغْتَسِلُوا [ النساء 43] ، وقد يجيء ولا يكون کذلک نحو ما روي :- «إنّ اللہ تعالیٰ لا يملّ حتی تملّوا» «2» لم يقصد أن يثبت ملالا لله تعالیٰ بعد ملالهم - حتی ٰ ( حرف ) کبھی تو الیٰ کی طرح یہ حرف جر کے طور پر استعمال ہوتا ہے لیکن اس کے مابعد غایت ماقبل کے حکم میں داخل ہوتا ہے اور کبھی عاطفہ ہوتا ہے اور کبھی استیناف کا فائدہ دیتا ہے ۔ جیسے اکلت السملۃ حتی ٰ راسھا ( عاطفہ ) راسھا ( جارہ ) راسھا ( مستانفہ قرآن میں ہے ليَسْجُنُنَّهُ حَتَّى حِينٍ [يوسف 35] کچھ عرصہ کے لئے نہیں قید ہی کردیں ۔ وحَتَّى مَطْلَعِ الْفَجْرِ [ القدر 5] طلوع صبح تک ۔۔۔۔ جب یہ فعل مضارع پر داخل ہو تو اس پر رفع اور نصب دونوں جائز ہوتے ہیں اور ان میں ہر ایک کی دو وجہ ہوسکتی ہیں نصب کی صورت میں حتی بمعنی (1) الی آن یا (2) گی ہوتا ہے اور مضارع کے مرفوع ہونے ایک صورت تو یہ ہے کہ حتی سے پہلے فعل ماضی آجائے جیسے ؛۔ مشیت حتی ادخل ۔ البصرۃ ( یعنی میں چلا حتی کہ بصرہ میں داخل ہوا ) دوسری صورت یہ ہے کہ حتیٰ کا مابعد حال واقع ہو جیسے مرض حتی لایرجون و دو بیمار ہوا اس حال میں کہ سب اس سے ناامید ہوگئے ) اور آیت کریمۃ ؛۔ حَتَّى يَقُولَ الرَّسُولُ [ البقرة 214] یہاں تک کہ پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پکار اٹھے ۔ میں یقول پر رفع اور نصب دونوں منقول ہیں اور ان ہر دو قرآت میں دونوں معنی بیان کئے گئے ہیں ۔ بعض نے کہا ہے کہ حتیٰ کا مابعد اس کے ماقبل کے خلاف ہوتا ہے ۔ جیسا ک قرآن میں ہے : وَلا جُنُباً إِلَّا عابِرِي سَبِيلٍ حَتَّى تَغْتَسِلُوا [ النساء 43] ۔ اور جنابت کی حالت میں بھی نماز کے پاس نہ جاؤ ) جب تک کہ غسل ( نہ ) کرو ۔ ہاں اگر بحالت سفر رستے چلے جارہے ہو اور غسل نہ کرسکو تو تیمم سے نماز پڑھ لو ۔ مگر کبھی اس طرح نہیں بھی ہوتا جیسے مروی ہے ۔ اللہ تعالیٰ لاتمل حتی تملو ا ۔ پس اس حدیث کے یہ معنی نہیں ہیں کہ تمہارے تھک جانے کے بعد ذات باری تعالیٰ بھی تھک جاتی ہے ۔ بلکہ معنی یہ ہیں کہ ذات باری تعالیٰ کو کبھی ملال لاحق نہیں ہوتا ۔- إذا - إذا يعبّر به عن کلّ زمان مستقبل، وقد يضمّن معنی الشرط فيجزم به، وذلک في الشعر أكثر، و «إذ» يعبر به عن الزمان الماضي، ولا يجازی به إلا إذا ضمّ إليه «ما» نحو :إذ ما أتيت علی الرّسول فقل له - ( اذ ا ) اذ ا - ۔ ( ظرف زماں ) زمانہ مستقبل پر دلالت کرتا ہے کبھی جب اس میں شرطیت کا مفہوم پایا جاتا ہے تو فعل مضارع کو جزم دیتا ہے اور یہ عام طور پر نظم میں آتا ہے اور اذ ( ظرف ) ماضی کیلئے آتا ہے اور جب ما کے ساتھ مرکب ہو ( اذما) تو معنی شرط کو متضمن ہوتا ہے جیسا کہ شاعر نے کہا ع (11) اذمااتیت علی الرسول فقل لہ جب تو رسول اللہ کے پاس جائے تو ان سے کہنا ۔- اذا کی مختلف صورتیں ہیں :۔- (1) یہ ظرف زمان ہے۔ ( زجاج، ریاشی)- (2) یہ ظرف مکان ہے۔ ( مبرد، سیبوبہ)- (3) اکثر و بیشتر اذا شرط ہوتا ہے۔- مفسرین نے تینوں معنوں میں اس کا استعمال کیا ہے۔- (1) ظرف زمان : اور جب تو وہاں ( کی نعمتیں) دیکھے گا۔ تو تجھ کو وہاں بڑی نعمت اور شاہی سازو سامان نظر آئے گا۔ ( تفسیر حقانی) - (2) ظرف مکان : اور جدھر بھی تم وہاں دیکھو گے تمہیں نعمتیں ہی نعمتیں اور وسیع مملکت نظر آئے گی۔ ( تفسیر ضیاء القرآن)- (3) اذا شرطیہ۔ اور اگر تو اس جگہ کو دیکھے توتجھے بڑی نعمت اور بڑی سلطنت دکھائی دے۔ ( تفسیر ماجدی)- فشل - الفَشَلُ : ضعف مع جبن . قال تعالی: حَتَّى إِذا فَشِلْتُمْ [ آل عمران 152] ، فَتَفْشَلُوا وَتَذْهَبَ رِيحُكُمْ [ الأنفال 46] ، لَفَشِلْتُمْ وَلَتَنازَعْتُمْ [ الأنفال 43] ، وتَفَشَّلَ الماء : سال .- ( ف ش ل ) الفشل ( س ) کے معنی کمزوری کے ساتھ بزدلی کے ہیں قرآن پاک میں ہے : حَتَّى إِذا فَشِلْتُمْ [ آل عمران 152] یہاں تک کہ تم نے ہمت ہاردی اور حکم ( پیغمبر میں جھگڑا کرنے لگے ۔ فَتَفْشَلُوا وَتَذْهَبَ رِيحُكُمْ [ الأنفال 46] تو تم بزدل ہوجاؤ گے ۔ اور تمہارا اقبال جاتا رہے گا ۔ لَفَشِلْتُمْ وَلَتَنازَعْتُمْ [ الأنفال 43] تو تم لوگ جی چھوڑ دیتے اور ( جو ) معاملہ ) درپیش تھا اس ) میں جھگڑنے لگتے ۔ تفسل الماء : پانی بہہ پڑا ۔- نزع - نَزَعَ الشیء : جَذَبَهُ من مقرِّه كنَزْعِ القَوْس عن کبده، ويُستعمَل ذلک في الأعراض، ومنه : نَزْعُ العَداوة والمَحبّة من القلب . قال تعالی:- وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍ [ الأعراف 43] . وَانْتَزَعْتُ آيةً من القرآن في كذا، ونَزَعَ فلان کذا، أي : سَلَبَ. قال تعالی: تَنْزِعُ الْمُلْكَ مِمَّنْ تَشاءُ [ آل عمران 26] ، وقوله : وَالنَّازِعاتِ غَرْقاً [ النازعات 1] قيل : هي الملائكة التي تَنْزِعُ الأرواح عن الأَشْباح، وقوله :إِنَّا أَرْسَلْنا عَلَيْهِمْ رِيحاً صَرْصَراً فِي يَوْمِ نَحْسٍ مُسْتَمِرٍّ [ القمر 19] وقوله : تَنْزِعُ النَّاسَ [ القمر 20] قيل : تقلع الناس من مقرّهم لشدَّة هبوبها . وقیل : تنزع أرواحهم من أبدانهم، والتَّنَازُعُ والمُنَازَعَةُ : المُجَاذَبَة، ويُعَبَّرُ بهما عن المخاصَمة والمُجادَلة، قال : فَإِنْ تَنازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ [ النساء 59] ، فَتَنازَعُوا أَمْرَهُمْ بَيْنَهُمْ [ طه 62] ، والنَّزْعُ عن الشیء : الكَفُّ عنه . والنُّزُوعُ : الاشتیاق الشّديد، وذلک هو المُعَبَّر عنه بإِمحَال النَّفْس مع الحبیب، ونَازَعَتْنِي نفسي إلى كذا، وأَنْزَعَ القومُ : نَزَعَتْ إِبِلُهم إلى مَوَاطِنِهِمْ. أي : حَنَّتْ ، ورجل أَنْزَعُ : زَالَ عنه شَعَرُ رَأْسِهِ كأنه نُزِعَ عنه ففارَقَ ، والنَّزْعَة : المَوْضِعُ من رأسِ الأَنْزَعِ ، ويقال : امرَأَةٌ زَعْرَاء، ولا يقال نَزْعَاء، وبئر نَزُوعٌ: قریبةُ القَعْرِ يُنْزَعُ منها بالید، وشرابٌ طَيِّبُ المَنْزَعَةِ. أي : المقطَع إذا شُرِبَ كما قال تعالی: خِتامُهُ مِسْكٌ [ المطففین 26] .- ( ن زع ) نزع - ( ن زع ) نزع اشئی کے معنی کسی چیز کو اس کی قرار گاہ سے کھینچنے کے ہیں ۔ جیسا کہ کمانکو در میان سے کھینچا جاتا ہے اور کبھی یہ لفظ اعراض کے معنی میں استعمال ہوتا ہے اور محبت یا عداوت کے دل سے کھینچ لینے کو بھی نزع کہا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن پاک میں ہے : ۔ وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍ [ الأعراف 43] اور جو کینے ان کے دلوں میں ہوں گے ۔ ہم سب نکال ڈالیں گے ۔ آیت کو کسی واقعہ میں بطور مثال کے پیش کرنا ۔ نزع فلان کذا کے معنی کسی چیز کو چھین لینے کے ہیں ۔ چناچہ قرآن پاک میں ہے : ۔ تَنْزِعُ الْمُلْكَ مِمَّنْ تَشاءُ [ آل عمران 26] اور جس سے چاہے بادشاہی چھین لے اور آیت کریمہ : ۔ وَالنَّازِعاتِ غَرْقاً [ النازعات 1] ان فرشتوں کی قسم جو ڈوب کر کھینچ لیتے ہیں ۔ کی تفسیر میں بعض نے کہا ہے کہ نازعات سے مراد فرشتے ہیں جو روحوں کو جسموں سے کھینچتے ہیں ۔ اور آیت کریمہ : ۔ إِنَّا أَرْسَلْنا عَلَيْهِمْ رِيحاً صَرْصَراً فِي يَوْمِ نَحْسٍ مُسْتَمِرٍّ [ القمر 19] ہم نے ان پر سخت منحوس دن میں آندھی چلائی وہ لوگوں کو اس طرح اکھیڑ ڈالتی تھی ۔ میں تنزع الناس کے معنی یہ ہیں کہ وہ ہو اپنی تیز کی وجہ سے لوگوں کو ان کے ٹھکانوں سے نکال باہر پھینک دیتی تھی بعض نے کہا ہے کہ لوگوں کی روحوں کو ان کے بد نوں سے کھینچ لینا مراد ہے ۔ التنازع والمنازعۃ : باہم ایک دوسرے کو کھینچا اس سے مخاصمت اور مجا دلہ یعنی باہم جھگڑا کرنا مراد ہوتا ہے ۔ چناچہ ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ فَإِنْ تَنازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ [ النساء 59] اور اگر کسی بات میں تم میں اختلاف واقع ہو تو رجوع کرو ۔ فَتَنازَعُوا أَمْرَهُمْ بَيْنَهُمْ [ طه 62] تو وہ باہم اپنے معاملہ میں جھگڑنے لگے ۔ النزع عن الشئی کے معنی کسی چیز سے رک جانے کے ہیں اور النزوع سخت اشتیاق کو کہتے ہیں ۔ وناز عتنی نفسی الیٰ کذا : نفس کا کسی طرف کھینچ کرلے جانا کس کا اشتیاق غالب آجانا ۔ انزع القوم اونٹوں کا پانے وطن کا مشتاق ہونا رجل انزع کے معنی سر کے بال بھڑ جانا کے ہیں ۔ اور نزعۃ سر کے اس حصہ کو کہتے ہیں جہاں سے بال جھڑ جائیں ۔ اور تانیث کے لئے نزعاء کی بجائے زعراء کا لفظ استعمال ہوتا ہے بئر نزدع کم گہرا کنواں جس سے ہاتھ کے - عصا - العَصَا أصله من الواو، لقولهم في تثنیته : عَصَوَانِ ، ويقال في جمعه : عِصِيٌّ. وعَصَوْتُهُ :- ضربته بالعَصَا، وعَصَيْتُ بالسّيف . قال تعالی: وَأَلْقِ عَصاكَ [ النمل 10] ، فَأَلْقى عَصاهُ- [ الأعراف 107] ، قالَ هِيَ عَصايَ [ طه 18] ، فَأَلْقَوْا حِبالَهُمْ وَعِصِيَّهُمْ [ الشعراء 44] . ويقال : ألقی فلانٌ عَصَاهُ : إذا نزل، تصوّرا بحال من عاد من سفره، قال الشاعر : فألقت عَصَاهَا واستقرّت بها النّوى وعَصَى عِصْيَاناً : إذا خرج عن الطاعة، وأصله أن يتمنّع بِعَصَاهُ. قال تعالی: وَعَصى آدَمُ رَبَّهُ [ طه 121] ، وَمَنْ يَعْصِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ [ النساء 14] ، آلْآنَ وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلُيونس 91] . ويقال فيمن فارق الجماعة : فلان شقّ العَصَا - ( ع ص ی ) العصا : ( لاٹھی ) یہ اصل میں ناقص وادی ہے کیونکہ اس کا تثنیہ عصوان جمع عصی آتی عصوتہ میں نے اسے لاٹھی سے مارا عصیت بالسیف تلوار کو لاٹھی کی طرح دونوں ہاتھ سے پکڑ کت مارا ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَأَلْقِ عَصاكَ [ النمل 10] اپنی لاٹھی دال دو ۔ فَأَلْقى عَصاهُ [ الأعراف 107] موسٰی نے اپنی لاٹھی ( زمین پر ) ڈال دی ۔ قالَ هِيَ عَصايَ [ طه 18] انہوں نے کہا یہ میری لاٹھی ہے ۔ فَأَلْقَوْا حِبالَهُمْ وَعِصِيَّهُمْ [ الشعراء 44] تو انہوں نے اپنی رسیاں اور لاٹھیاں ڈالیں ۔ القی فلان عصاہ کسی جگہ پڑاؤ ڈالنا کیونکہ جو شخص سفر سے واپس آتا ہے وہ اپنی لاٹھی ڈال دیتا ہے ۔ شاعر نے کہا ہے ( 313 ) والقت عصاھا واستقربھا النوی ( فراق نے اپنی لاٹھی ڈال دی اور جم کر بیٹھ گیا ) عصی عصیانا کے معنی اطاعت سے نکل جانے کے ہیں دراصل اس کے معنی ہیں اس نے لاٹھی ( عصا ) سے اپنا بچاؤ کیا ۔ قرآن میں ہے : وَعَصى آدَمُ رَبَّهُ [ طه 121] اور آدم نے اپنے پروردگار کے حکم کے خلاف کیا تو ( وہ اپنے مطلوب سے ) بےراہ ہوگئے ۔ وَمَنْ يَعْصِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ [ النساء 14] اور جو خدا اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے گا ۔ آلْآنَ وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلُ [يونس 91] ( جواب ملا کہ ) اب ( ایمان لاتا ہے ) حالانکہ تو پہلے نافرمانی کرتا رہا ۔ اور اس شخص کے متعلق جو جماعت سے علیدہ گی اختیار کر سے کہا جاتا ہے فلان شق لعصا ۔- رأى- والرُّؤْيَةُ : إدراک الْمَرْئِيُّ ، وذلک أضرب بحسب قوی النّفس :- والأوّل : بالحاسّة وما يجري مجراها، نحو :- لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ ثُمَّ لَتَرَوُنَّها عَيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر 6- 7] ،- والثاني : بالوهم والتّخيّل،- نحو : أَرَى أنّ زيدا منطلق، ونحو قوله : وَلَوْ تَرى إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا [ الأنفال 50] .- والثالث : بالتّفكّر، - نحو : إِنِّي أَرى ما لا تَرَوْنَ [ الأنفال 48] .- والرابع : بالعقل،- وعلی ذلک قوله : ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى[ النجم 11] ،- ( ر ء ی ) رای - الرؤیتہ - کے معنی کسی مرئی چیز کا ادراک کرلینا کے ہیں اور - قوائے نفس ( قوائے مدر کہ ) کہ اعتبار سے رؤیتہ کی چند قسمیں ہیں - ۔ ( 1) حاسئہ بصریا کسی ایسی چیز سے ادراک کرنا - جو حاسہ بصر کے ہم معنی ہے جیسے قرآن میں ہے : لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ ثُمَّ لَتَرَوُنَّها عَيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر 6- 7] تم ضروری دوزخ کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لوگے پھر ( اگر دیکھو گے بھی تو غیر مشتبہ ) یقینی دیکھنا دیکھو گے ۔- ۔ (2) وہم و خیال سے کسی چیز کا ادراک کرنا - جیسے ۔ اری ٰ ان زیدا منطلق ۔ میرا خیال ہے کہ زید جا رہا ہوگا ۔ قرآن میں ہے : وَلَوْ تَرى إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا [ الأنفال 50] اور کاش اس وقت کی کیفیت خیال میں لاؤ جب ۔۔۔ کافروں کی جانیں نکالتے ہیں ۔- (3) کسی چیز کے متعلق تفکر اور اندیشہ محسوس کرنا - جیسے فرمایا : إِنِّي أَرى ما لا تَرَوْنَ [ الأنفال 48] میں دیکھتا ہوں جو تم نہیں دیکھتے - ۔ (4) عقل وبصیرت سے کسی چیز کا ادارک کرنا - جیسے فرمایا : ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى[ النجم 11] پیغمبر نے جو دیکھا تھا اس کے دل نے اس میں کوئی جھوٹ نہیں ملایا ۔ - حب - والمحبَّة :- إرادة ما تراه أو تظنّه خيرا، وهي علی ثلاثة أوجه :- محبّة للّذة، کمحبّة الرجل المرأة، ومنه :- وَيُطْعِمُونَ الطَّعامَ عَلى حُبِّهِ مِسْكِيناً [ الإنسان 8] .- ومحبّة للنفع، کمحبة شيء ينتفع به، ومنه :- وَأُخْرى تُحِبُّونَها نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ [ الصف 13] .- ومحبّة للفضل، کمحبّة أهل العلم بعضهم لبعض لأجل العلم .- ( ح ب ب ) الحب والحبۃ - المحبۃ - کے معنی کسی چیز کو اچھا سمجھ کر اس کا ارادہ کرنے اور چاہنے کے ہیں - اور محبت تین قسم پر ہے :- ۔ ( 1) محض لذت اندوزی کے لئے - جیسے مرد کسی عورت سے محبت کرتا ہے ۔ چناچہ آیت : ۔ وَيُطْعِمُونَ الطَّعامَ عَلى حُبِّهِ مِسْكِيناً [ الإنسان 8] میں اسی نوع کی محبت کی طرف اشارہ ہے - ۔ ( 2 ) محبت نفع اندوزی کی خاطر - جیسا کہ انسان کسی نفع بخش اور مفید شے سے محبت کرتا ہے ۔ چناچہ اسی معنی میں فرمایا : وَأُخْرى تُحِبُّونَها نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ [ الصف 13 اور ایک چیز کو تم بہت چاہتے ہو یعنی تمہیں خدا کی طرف سے مدد نصیب ہوگی اور فتح حاصل ہوگی - ۔ ( 3 ) کبھی یہ محبت یہ محض فضل وشرف کی وجہ سے ہوتی ہے - جیسا کہ اہل علم وفضل آپس میں ایک دوسرے سے محض علم کی خاطر محبت کرتے ہیں ۔ - رود - والْإِرَادَةُ منقولة من رَادَ يَرُودُ : إذا سعی في طلب شيء، والْإِرَادَةُ في الأصل : قوّة مركّبة من شهوة وحاجة وأمل، نحو : إِنْ أَرادَ بِكُمْ سُوءاً أَوْ أَرادَ بِكُمْ رَحْمَةً [ الأحزاب 17]- ( ر و د ) الرود - الا رادۃ یہ اراد یرود سے ہے جس کے معنی کسی چیز کی طلب میں کوشش کرنے کے ہیں اور ارادۃ اصل میں اس قوۃ کا نام ہے ، جس میں خواہش ضرورت اور آرزو کے جذبات ملے جلے ہوں ۔ چناچہ فرمایا : إِنْ أَرادَ بِكُمْ سُوءاً أَوْ أَرادَ بِكُمْ رَحْمَةً [ الأحزاب 17] یعنی اگر خدا تمہاری برائی کا فیصلہ کر ہے یا تم پر اپنا فضل وکرم کرنا چاہئے ۔ - ثمَ- ثُمَّ حرف عطف يقتضي تأخر ما بعده عمّا قبله، إمّا تأخيرا بالذات، أو بالمرتبة، أو بالوضع حسبما ذکر في ( قبل) وفي (أول) . قال تعالی: أَثُمَّ إِذا ما وَقَعَ آمَنْتُمْ بِهِ آلْآنَ وَقَدْ كُنْتُمْ بِهِ تَسْتَعْجِلُونَ ثُمَّ قِيلَ لِلَّذِينَ ظَلَمُوا، [يونس 51- 52] ، وقال عزّ وجلّ : ثُمَّ عَفَوْنا عَنْكُمْ مِنْ بَعْدِ ذلِكَ [ البقرة 52] ، وأشباهه . وثُمَامَة : شجر، وثَمَّتِ الشاة : إذا رعتها ، نحو : شجّرت : إذا رعت الشجر، ثم يقال في غيرها من النبات . وثَمَمْتُ الشیء : جمعته، ومنه قيل : كنّا أَهْلَ ثُمِّهِ ورُمِّهِ ، والثُّمَّة : جمعة من حشیش . و :- ثَمَّ إشارة إلى المتبعّد من المکان، و «هنالک» للتقرب، وهما ظرفان في الأصل، وقوله تعالی: وَإِذا رَأَيْتَ ثَمَّ رَأَيْتَ [ الإنسان 20] فهو في موضع المفعول - ث م م ) ثم یہ حرف عطف ہے اور پہلی چیز سے دوسری کے متاخر ہونے دلالت کرتا ہے خواہ یہ تاخیر بالذات ہو یا باعتبار مرتبہ اور یا باعتبار وضع کے ہو جیسا کہ قبل اور اول کی بحث میں بیان ہپوچکا ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ أَثُمَّ إِذا ما وَقَعَ آمَنْتُمْ بِهِ آلْآنَ وَقَدْ كُنْتُمْ بِهِ تَسْتَعْجِلُونَ ثُمَّ قِيلَ لِلَّذِينَ ظَلَمُوا، [يونس 51- 52] کیا جب وہ آو اقع ہوگا تب اس پر ایمان لاؤگے ( اس وقت کہا جائے گا کہ ) اور اب ( ایمان لائے ) اس کے لئے تم جلدی مچایا کرتے تھے ۔ ثُمَّ قِيلَ لِلَّذِينَ ظَلَمُوا، [يونس 51- 52] پھر ظالم لوگوں سے کہا جائے گا ۔ ثُمَّ عَفَوْنا عَنْكُمْ مِنْ بَعْدِ ذلِكَ [ البقرة 52] پھر اس کے بعد ہم نے تم کو معاف کردیا ۔ ثمامۃ ایک قسم کی گھاس جو نہایت چھوٹی ہوتی ہے اور ثمت الشاۃ کے اصل معنی بکری کے ثمامۃ گھاس چرنا کے ہیں جیسے درخت چرنے کے لئے شجرت کا محاورہ استعمال ہوتا ہے پھر ہر قسم کی گھاس چرنے پر یہ لفظ بولا جاتا ہے ثمت الشئی اس چیز کو اکٹھا اور دوست کیا ۔ اسی سے محاورہ ہے ۔ کنا اھل ثمہ ورمہ ہم اس کی اصلاح و مرمت کے اہل تھے ۔ الثمۃ خشک گھاس کا مٹھا ۔ ثم ۔ ( وہاں ) اسم اشارہ بعید کے لئے آتا ہے اور اس کے بالمقابل ھنالک اسم اشارہ قریب کے لئے استعمال ہوتا ہے اور یہ دونوں لفظ دراصل اسم ظرف اور آیت کریمہ :۔ وَإِذا رَأَيْتَ ثَمَّ رَأَيْتَ [ الإنسان 20] اور بہشت میں ( جہاں آنکھ اٹھاؤ گے کثرت سے نعمت ۔۔۔ دیکھوگے ۔ میں ثم مفعول واقع ہوا ہے ۔- صرف - الصَّرْفُ : ردّ الشیء من حالة إلى حالة، أو إبداله بغیره، يقال : صَرَفْتُهُ فَانْصَرَفَ. قال تعالی: ثُمَّ صَرَفَكُمْ عَنْهُمْ [ آل عمران 152]- ( ص ر ف ) الصرف - کے معنی ہیں کسی چیز کو ایک حالت سے دوسری حالت کی طرف پھیر دینا یا کسی اور چیز سے بدل دینا ۔ محاور ہ ہے ۔ صرفتہ فانصرف میں نے اسے پھیر دیا چناچہ وہ پھر گیا ۔ قرآن میں ہے :- ثُمَّ صَرَفَكُمْ عَنْهُمْ [ آل عمران 152] پھر خدا نے تم کو ان کے مقابلے سے پھیر کر بھگادیا ۔ - ابتلاء - وإذا قيل : ابْتَلَى فلان کذا وأَبْلَاهُ فذلک يتضمن أمرین : أحدهما تعرّف حاله والوقوف علی ما يجهل من أمره، والثاني ظهور جو دته ورداء ته، وربما قصد به الأمران، وربما يقصد به أحدهما، فإذا قيل في اللہ تعالی: بلا کذا وأبلاه فلیس المراد منه إلا ظهور جو دته ورداء ته، دون التعرف لحاله، والوقوف علی ما يجهل من أمره إذ کان اللہ علّام الغیوب، وعلی هذا قوله عزّ وجل : وَإِذِ ابْتَلى إِبْراهِيمَ رَبُّهُ بِكَلِماتٍ فَأَتَمَّهُنَّ [ البقرة 124] .- ويقال : أَبْلَيْتُ فلانا يمينا : إذا عرضت عليه الیمین لتبلوه بها «3» .- ( کسی کا امتحان کرنا ) یہ دو امر کو متضمن ہوتا ہے ( 1) تو اس شخص کی حالت کو جانچنا اور اس سے پوری طرح باخبر ہونا مقصود ہوتا ہے دوسرے ( 2 ) اس کی اچھی یا بری حالت کو دوسروں کے سامنے ظاہر کرنا ۔ پھر کبھی تو یہ دونوں معنی مراد ہوتے ہیں اور کبھی صرف ایک ہی معنی مقصود ہوتا ہے ۔ جب اس کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف تو صرف دوسرے معنی مراد ہوتے ہیں یعنی اس شخص لہ خوبی یا نقص کو دوسروں کے سامنے ظاہر کرنا مقصود ہوتا ہے ۔ کیونکہ ذات ہے اسے کسی کی حالت سے باخبر ہونے کی ضرورت نہیں لہذا آیت کریمہ : وَإِذِ ابْتَلى إِبْراهِيمَ رَبُّهُ بِكَلِماتٍ فَأَتَمَّهُنَّ [ البقرة 124] اور پروردگار نے چند باتوں میں ابراھیم کی آزمائش کی تو وہ ان میں پورے اترے ۔ دوسری معنی پر محمول ہوگی ( یعنی حضرت ابراھیم کے کمالات کو دوسروں کے سامنے ظاہر کرنا مقصود تھا ) ابلیت فلانا یمینا کسی سے آزمائش قسم لینا ۔- عفو - فالعَفْوُ : هو التّجافي عن الذّنب . قال تعالی: فَمَنْ عَفا وَأَصْلَحَ [ الشوری 40] وَأَنْ تَعْفُوا أَقْرَبُ لِلتَّقْوى [ البقرة 237]- ( ع ف و ) عفوت عنہ کے معنی ہیں میں نے اس سے درگزر کرتے ہوئے اس کا گناہ متادینے کا قصد کیا ز لہذا یہاں اصل میں اس کا مفعول ترک کردیا گیا ہے اور عن کا متعلق مخذوف ہی یا قصدت ازالتہ ذنبہ سار فا عنہ پس عفو کے معنی گناہ سے درگزر کرنا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے ۔ فَمَنْ عَفا وَأَصْلَحَ [ الشوری 40] مگر جو درگزر کرے اور معاملہ کو درست کرلے وَأَنْ تَعْفُوا أَقْرَبُ لِلتَّقْوى [ البقرة 237] اور اگر تم ہی اپنا حق چھوڑ دو تو یہ پرہیز گاری کی بات ہے ۔ - ذو - ذو علی وجهين : أحدهما : يتوصّل به إلى الوصف بأسماء الأجناس والأنواع، ويضاف إلى الظاهر دون المضمر، ويثنّى ويجمع، ويقال في المؤنّث : ذات، وفي التثنية : ذواتا، وفي الجمع : ذوات، ولا يستعمل شيء منها إلّا مضافا، قال : وَلكِنَّ اللَّهَ ذُو فَضْلٍ [ البقرة 251] ، وقال : ذُو مِرَّةٍ فَاسْتَوى [ النجم 6] ، وَذِي الْقُرْبى [ البقرة 83] ، وَيُؤْتِ كُلَّ ذِي فَضْلٍ فَضْلَهُ [هود 3] ، ذَوِي الْقُرْبى وَالْيَتامی [ البقرة 177] ، إِنَّهُ عَلِيمٌ بِذاتِ الصُّدُورِ- [ الأنفال 43] ، وَنُقَلِّبُهُمْ ذاتَ الْيَمِينِ وَذاتَ الشِّمالِ [ الكهف 18] ، وَتَوَدُّونَ أَنَّ غَيْرَ ذاتِ الشَّوْكَةِ تَكُونُ لَكُمْ [ الأنفال 7] ، وقال : ذَواتا أَفْنانٍ [ الرحمن 48] ، وقد استعار أصحاب المعاني الذّات، فجعلوها عبارة عن عين الشیء، جو هرا کان أو عرضا، واستعملوها مفردة ومضافة إلى المضمر بالألف واللام، وأجروها مجری النّفس والخاصّة، فقالوا : ذاته، ونفسه وخاصّته، ولیس ذلک من کلام العرب . - والثاني في لفظ ذو :- لغة لطيّئ، يستعملونه استعمال الذي، ويجعل في الرفع، والنصب والجرّ ، والجمع، والتأنيث علی لفظ واحد نحو : وبئري ذو حفرت وذو طویت - ( ذ و ) ذو ( والا ۔ صاحب )- یہ دو طرح پر استعمال ہوتا ہے - ( 1) اول یہ کہ اسماء اجناس وانوع کے ساتھ توصیف کے لئے اسے ذریعہ بنایا جاتا ہے ۔ اس صورت میں اسم ضمیر کیطرف مضاف نہیں ہوتا بلکہ ہمیشہ اسم ظاہر کی طرف مضاف ہوتا ہے اور اس کا تنثیہ جمع بھی آتا ہے ۔ اور مونث کے لئے ذات کا صیغہ استعمال ہوتا ہے اس کا تثنیہ ذواتا اور جمع ذوات آتی ہے ۔ اور یہ تمام الفاظ مضاف ہوکر استعمال ہوتے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ وَلكِنَّ اللَّهَ ذُو فَضْلٍ [ البقرة 251] لیکن خدا اہل عالم پر بڑا مہرابان ہے ۔ ذُو مِرَّةٍ فَاسْتَوى [ النجم 6] ( یعنی جبرئیل ) طاقتور نے پھر وہ پورے نظر آئے ۔ وَذِي الْقُرْبى [ البقرة 83] اور رشتہ داروں ۔ وَيُؤْتِ كُلَّ ذِي فَضْلٍ فَضْلَهُ [هود 3] اور ہر ساحب فضل کو اسکی بزرگی ( کی داو ) دیگا ۔ ذَوِي الْقُرْبى وَالْيَتامی [ البقرة 177] رشتہ داروں اور یتیموں ۔ إِنَّهُ عَلِيمٌ بِذاتِ الصُّدُورِ [ الأنفال 43] تو دلوں تک کی باتوں سے آگاہ ہے ۔ وَنُقَلِّبُهُمْ ذاتَ الْيَمِينِ وَذاتَ الشِّمالِ [ الكهف 18] اور ہم ان کو دائیں اور بائیں کروٹ بدلاتے ہیں ۔ وَتَوَدُّونَ أَنَّ غَيْرَ ذاتِ الشَّوْكَةِ تَكُونُ لَكُمْ [ الأنفال 7] اور تم چاہتے تھے کہ جو قافلہ بےشان و شوکت ( یعنی بےہتھیار ) ہے وہ تمہارے ہاتھ آجائے ۔ ذَواتا أَفْنانٍ [ الرحمن 48] ان دونوں میں بہت سے شاخیں یعنی قسم قسم کے میووں کے درخت ہیں ۔ علمائے معانی ( منطق وفلسفہ ) ذات کے لفظ کو بطور استعارہ عین شے کے معنی میں استعمال کرتے ہیں اور یہ جو ہر اور عرض دونوں پر بولاجاتا ہے اور پھر کبھی یہ مفرد یعنی بدون اضافت کت استعمال ہوتا ہے ۔ اور کبھی اسم ضمیر کی طرف مضاف ہو کر اور کبھی معرف بلالم ہوکر ۔ اور یہ لفظ بمنزلہ نفس اور خاصہ کے بولا جاتا ہے ۔ اور نفسہ وخاصتہ کی طرح ذاتہ بھی کہاجاتا ہے ۔ مگر یہ عربی زبان کے محاورات سے نہیں ہے - ( 2 ) دوم بنی طیی ذوبمعنی الذی استعمال کرتے ہیں اور یہ رفعی نصبی جری جمع اور تانیث کی صورت میں ایک ہی حالت پر رہتا ہے جیسا کہ شاعر نے کہا ہے ع ( الوافر ) یعنی کنواں جسے میں نے کھودا اور صاف کیا ہے ۔- فضل - الفَضْلُ : الزّيادة عن الاقتصاد، وذلک ضربان : محمود : کفضل العلم والحلم، و مذموم : کفضل الغضب علی ما يجب أن يكون عليه . والفَضْلُ في المحمود أكثر استعمالا، والفُضُولُ في المذموم، والفَضْلُ إذا استعمل لزیادة أحد الشّيئين علی الآخر - فعلی ثلاثة أضرب :- فضل من حيث الجنس، کفضل جنس الحیوان علی جنس النّبات .- وفضل من حيث النّوع، کفضل الإنسان علی غيره من الحیوان، وعلی هذا النحو قوله :- وَلَقَدْ كَرَّمْنا بَنِي آدَمَ [ الإسراء 70] ، إلى قوله : تَفْضِيلًا - وفضل من حيث الذّات، کفضل رجل علی آخر . فالأوّلان جوهريّان لا سبیل للناقص فيهما أن يزيل نقصه وأن يستفید الفضل، کالفرس والحمار لا يمكنهما أن يکتسبا الفضیلة التي خصّ بها الإنسان، والفضل الثالث قد يكون عرضيّا فيوجد السّبيل علی اکتسابه، ومن هذا النّوع التّفضیل المذکور في قوله : وَاللَّهُ فَضَّلَ بَعْضَكُمْ عَلى بَعْضٍ فِي الرِّزْقِ [ النحل 71] ، لِتَبْتَغُوا فَضْلًا مِنْ رَبِّكُمْ [ الإسراء 12] ، يعني : المال وما يکتسب،- ( ف ض ل ) الفضل - کے منعی کسی چیز کے اقتضا ( متوسط درجہ سے زیادہ ہونا کے ہیں اور یہ دو قسم پر ہے محمود جیسے علم وحلم وغیرہ کی زیادتی مذموم جیسے غصہ کا حد سے بڑھ جانا لیکن عام طور الفضل اچھی باتوں پر بولا جاتا ہے اور الفضول بری باتوں میں اور جب فضل کے منعی ایک چیز کے دوسری پر زیادتی کے ہوتے ہیں تو اس کی تین صورتیں ہوسکتی ہیں ( ۔ ) بر تری بلحاظ جنس کے جیسے جنس حیوان کا جنس نباتات سے افضل ہونا ۔ ( 2 ) بر تری بلحاظ نوع کے جیسے نوع انسان کا دوسرے حیوانات سے بر تر ہونا جیسے فرمایا : ۔ وَلَقَدْ كَرَّمْنا بَنِي آدَمَ [ الإسراء 70]- اور ہم نے بنی آدم کو عزت بخشی اور اپنی بہت سی مخلوق پر فضیلت دی ۔ ( 3 ) فضیلت بلحاظ ذات مثلا ایک شخص کا دوسرے شخص سے بر تر ہونا اول الذکر دونوں قسم کی فضیلت بلحاظ جو ہر ہوتی ہے ۔ جن میں ادنیٰ ترقی کر کے اپنے سے اعلٰی کے درجہ کو حاصل نہیں کرسکتا مثلا گھوڑا اور گدھا کہ یہ دونوں انسان کا درجہ حاصل نہیں کرسکتے ۔ البتہ تیسری قسم کی فضیلت من حیث الذات چونکہ کبھی عارضی ہوتی ہے اس لئے اس کا اکتساب عین ممکن ہے چناچہ آیات کریمہ : ۔ وَاللَّهُ فَضَّلَ بَعْضَكُمْ عَلى بَعْضٍ فِي الرِّزْقِ [ النحل 71] اور خدا نے رزق ( دولت ) میں بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے ۔ لِتَبْتَغُوا فَضْلًا مِنْ رَبِّكُمْ [ الإسراء 12] تاکہ تم اپنے پروردگار کا فضل ( یعنی روزی تلاش کرو ۔ میں یہی تیسری قسم کی فضیلت مراد ہے جسے محنت اور سعی سے حاصل کیا جاسکتا ہے ۔
اطاعت امیرضروری ہے - قول باری ہے (ولقد صدقکم اللہ وعدہ اذتحسونھم باذنہ۔ اللہ نے (تائید نصرت کا) جو وعدہ تم سے کیا تھا وہ تو اس نے پورا کردیا، ابتداء میں اس کے حکم سے تم ہی ان کو قتل کررہے تھے) آیت میں یہ خبردی گئی ہے کہ مسلمانوں سے ان کے دشمنوں کے مقابلے میں فتح ونصرت کاپیشگی وعدہ فرمایا گیا تھا، اور یہ وعدہ اس وقت تک قائم رہاجب تک انھوں نے اپنے کام میں اختلاف نہیں کیا چنانچہ غزوہ احد کے موقعہ پر بالکل یہی ہوا۔ مسلمان شروع میں اپنے دشمنوں پر غالب آگئے انھیں شکست دے دی اور انھیں جانی نقصان بھی پہنچایا۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تیراندازوں کو ایک درے پر جمے رہنے کا حکم دیا تھا اور یہ فرمایا تھا کہ وہ کسی بھی حالت میں یہ درہ اور مورچہ نہ چھوڑیں۔ لیکن انھوں نے یہ دیکھتے ہوئے کہ مشرکین کو شکست ہوچکی ہے اور اب ان کا یہاں جمے رہنا بےکار ہے، مورچہ خالی کردیا اور درے کو چھوڑکر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حکم کی خلاف ورزی کے مرتکب ہوئے۔ در بے کے مورچے کو چھوڑنے یا نہ چھوڑنے کے متعلق بھی ان میں اختلاف پیدا ہوگیا مشرکین کے ایک سالاد خالدبن الولید کو موقعہ مل گیا۔ انھوں نے پیچھے سے ان پر حملہ کیا اس طرح ان کا بھاری جانی نقصان ہوا جس کی وجہ یہ تھی کہ مسلمان حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حکم کو ترک کرکے کے آپ کی نافرمانی کے مرتکب ہوئے تھے۔- اس میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت کی صحت کی دلیل بھی موجود ہے۔ اس لیے کہ مسلمانوں نے آپ کے حکم کی خلاف ورزی کرنے سے پہلے اللہ کے کیے ہوئے وعدے کو پورا ہوتے دیکھ لیا لیکن جب وہ آپ کے حکم کی خلاف ورزی کے مرتکب ہوئے انھیں تنہاچھوڑدیا گیا۔ اس میں اس بات کی بھی دلیل موجود ہے کہ دشمنوں کے خلاف جہاد میں اللہ تعالیٰ کی مدد کے حصول کی شرط یہ ہے کہ مجاہدین اس کے حکم کی پیروی اور اس کی فرمانبرداری کی بھرپورکوشش کریں۔ دشمنوں کے خلاف مسلمانوں کی مدد کے لیے عادۃ اللہ یہی ہے۔ صدراول کے مسلمان مشرکین سے دین کی بنیاد پر قتال کرتے اور اسی بنیادپران کے خلاف اللہ تعالیٰ کی مدد اور ان پر غالب آنے کی امید کرتے تھے۔ ان کا یہ قتال کثرت تعداد کی بناپر نہیں ہوتا تھا۔ اسی لیے قول باری ہے (ان الذین تولومنکم یوم التقی الجمعان انما استزلھم الشیطان ببعض ماکسبواتم میں سے جو لوگ مقابلہ کے دن پیٹھ پھیر گئے تھے ان کی اس لغزش کا سبب یہ تھا کہ ان کی بعض کمزوریوں کی وجہ سے شیطان نے ان کے قدم ڈگمگادیے) آیت میں یہ بتادیا گیا کہ درے کے مورچے کو خالی کرکے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حکم کی خلاف ورزی کی بناپرانھیں شکست ہوئی۔- قول باری ہے (منکم من یرید الدنیا ومنکم من یریدالا خرۃ ، تم میں سے کچھ لوگ دنیا کے طالب تھے اور کچھ آخرت کی خواہش رکھتے تھے) اور یہ شکست ان لوگوں کی وجہ سے ہوئی جو دنیا کے خواہشمند تھے۔ حضرت ابن مسعود کا قول ہے کہ میں نے کبھی سوچا نہیں تھا کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی معیت من جہاد کرنے والوں میں سے کوئی دنیا کا خواہشمند بھی ہوسکتا ہے حتی کہ آیت (منکم من ترید الدنیا) نازل ہوئی۔ اس نبیا د پر اللہ نے مسلمانوں پر یہ فرض کردیا تھا کہ اگر ان کی تعداد بیس ہو تو وہ دوسو کے آگے سے نہ بھاگیں، چناچہ ارشاد ہے (وان یکن منکم عشرون صابرون یغلبوامائتین، اگر تم میں سے صبر کرنے والے بیس افراد بھی ہوئے تو وہ دوسوپرغالب آجائیں گے) اس لیے کہ ابتدائے اسلام میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی معیت میں جہادفی سبیل اللہ کرنے والوں کی نیت میں اخلاص ہوتا تھا اور کسی کو دنیا کی خواہش نہیں ہوتی تھی۔ غزوہ بدر میں ان کی تعدادتین سودس سے کچھ اوپر تھی، اکثر کے پاس سواری کے جانور نہیں تھے، اور نہ ہی مکمل جنگی سازوسامان تھا، جبکہ دشمن کے سواروں اور پیدل فوجیوں کی تعدادایک ہزار تھی جو پوری طرح کیل کانٹے۔ سے لیس تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی گردنیں مسلمانوں کو تھمادیں اور ان کی اس طرح نصرت فرمائی کہ انھوں نے جس طرح چاہا دشمنوں کو تہ تیغ کیا اور جسے چاہاقیدی بنالیا۔ اس کے بعد جب مسلمانوں میں ایسے لوگ بھی آملے جو اپنی بصیرت اور خلوص نیت میں اس پائے کے نہیں تھے تو اللہ تعالیٰ نے مذکورہ بالا فرض میں سب کے لیے تخضیف کردی، چناچہ فرمایا (الئن خفف اللہ عنکم وعلم ان فیکم ضعفا فان یکن منکم مائۃ صابرۃ یغلبوا مائتین وان یکن منکم الف یغلبوالفین باذن اللہ، اب اللہ تعالیٰ نے تم سے تخفیف کردی ہے اور اسے تمہاری کمزوری کا علم ہوگیا ہے۔ اب اگر تم میں سے صبر کرنے والے ایک سوافرادبھی ہوئے تو وہ دوسورغالب آجائیں گے اور اگر ایک ہزار ہوئے تو وہ دوہزار پر غالب آجائیں گے)- یہ بات تو واضح ہے کہ یہاں اللہ تعالیٰ کا اشارہ جسمانی قوت کی کمزوری اور اسلحہ کی غیر موجود گی کی طرف نہیں ہے اس لیے کہ ان کی جسمانی قوت بحالہ باقی تھی، ان کی تعدادبھی پہلے کے مقابلہ میں زیادہ تھی اور اسلحہ وغیرہ بھی کافی تھا بلکہ اشارہ اس بات کی طرف ہے کہ ان کے ساتھ ایسے لوگ آملے تھے جن میں اس درجے کی قوت بصیرت نہیں تھی جوان سے قبل کے مسلمانوں میں تھی۔ اس لیے یہاں ضعف سے مراد، ضعف نیت ہے، فرض کی اس تخفیف میں سب کو شامل کرلیا گیا، اس لیے کہ صاحب بصیرت افراد کو ان کے ناموں اور شخصیتوں کے ساتھ کمزوریقین اور قلت بصیرت والوں سے چھانٹ کر الگ کر دنیا مصلحت کے خلاف تھا۔ اسی بناپرجنگ یمامہ کے موقعہ پر جو مسیلمہ کذاب کے خلاف لڑی گئی تھی جب مسلمان شکست کھاکرپیچھے ہٹنے لگے تو جنگ میں شریک حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صحابہ کرام نے پکار کر کہا اخلصونا، اخلصونا، (ہمیں خالص رہنے دو ) ان کا اشارہ حضرات مہاجرین و انصار کی طرف تھا۔ یعنی یہ حضرات میدان سے نہ بھاگیں۔
(١٥٢) غزوہ احد کے بارے میں جو مسلمانوں سے وعدہ فرمایا تھا، اب اللہ تعالیٰ اس کا ذکر فرماتے ہیں کہ جب احد کے دن ابتدائے قتال میں تم کفار کو اللہ تعالیٰ کی مدد اور اس کے حکم سے قتل کررہے تھے لیکن لڑائی کے آخری مرحلہ میں جب تم خود ہی اختلاف رائے کے سبب کمزور ہوگئے اور لڑائی کے مسئلہ میں اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حکم میں مورچہ چھوڑنے کے اندر مختلف ہوگے اس کے باوجود کہ فتح اور غنیمت تمہیں مل گئی تھی، بعض تیر انداز اس مرحلے پر مورچہ چھوڑ جہاد سے صرف مال غنیمت ہی حاصل کرنا چاہتے تھے اور بعض جہاد اور مورچہ پر کھڑے رہنے میں آخرت کے طلب گار تھے جیسا کہ حضرت عبداللہ بن جبیر (رض) اور ان کے ساتھی اسی مورچہ پر جمے رہے (جس پر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو متعین کیا تھا یہاں تک کہ) شہید ہوگئے۔- پھر اس نے اپنی ایک خاص تدبیر و حکمت کے سبب تمہیں ان کفار پر غلبہ دینے سے اللہ تعالیٰ نے روک دیا، تاکہ تمہارے ایمان کی آزمائش فرمائے مگر اس ظاہری حکم عدولی کے باوجود تمہارے اخلاص کے سبب اس نے تمہیں معاف کردیا، اور ان تیراندازوں سے بھی کوئی مواخذہ نہیں کیا، کیونکہ انکی نیت بھی غلط نہ تھی۔
آیت ١٥٢ (وَلَقَدْ صَدَقَکُمُ اللّٰہُ وَعْدَہٗ اِذْ تَحُسُّوْنَہُمْ بِاِذْنِہٖ ج) - غزوۂ احد میں جو عارضی شکست ہوگئی تھی اور مسلمانوں کو زَک پہنچی تھی ‘ جس سے ان کے دل زخمی تھے اس کے ضمن میں اب یہ آیت ایک قول فیصل کے انداز میں آئی ہے کہ دیکھو مسلمانو تم ہم سے کوئی شکایت نہیں کرسکتے ‘ اللہ نے تم سے تائید و نصرت کا جو وعدہ کیا تھا وہ پورا کردیا تھا جبکہ تم انہیں اللہ کے حکم سے قتل کر رہے تھے ‘ گاجر مولی کی طرح کاٹ رہے تھے۔ تمہیں فتح حاصل ہوگئی تھی اور ہمارا وعدہ پورا ہوچکا تھا۔- (حَتّٰی اِذَا فَشِلْتُمْ وَتَنَازَعْتُمْ فِی الْاَمْرِ ) - فَشِلْتُمْ کا ترجمہ بعض مترجمین نے کچھ اور بھی کیا ہے ‘ لیکن میرے نزدیک یہاں نظم (ڈسپلن) کو ڈھیلا کرنا مراد ہے۔ اسلامی نظم جماعت میں سمع وطاعت کو بنیادی اہمیت حاصل ہے ‘ اور ظاہر ہے کہ سمع وطاعت میں ایک ہی شخص کی اطاعت مقصود نہیں ہوتی۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت بھی فرض تھی اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اگر کسی کو امیر مقرر کرتے تو اس کی اطاعت بھی فرض تھی۔ حضرت ابوہریرہ (رض) روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا :- (مَنْ اَطَاعَنِیْ فَقَدْ اَطَاع اللّٰہَ ‘ وَمَنْ عَصَانِیْ فَقَدْ عَصَی اللّٰہَ ‘ وَمَنْ اَطَاعَ اَمِیْرِیْ فَقَدْ اَطَاعَنِیْ ‘ وَمَنْ عَصٰی اَمِیْرِیْ فَقَدْ عَصَانِیْ ) (١)- جس نے میری اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کی ‘ اور جس نے میری نافرمانی کی اس نے اللہ کی نافرمانی کی۔ اور جس نے میرے مقرر کردہ امیر کی اطاعت کی اس نے میری اطاعت کی ‘ اور جس نے میرے نامزد کردہ امیر کی نافرمانی کی اس نے میری نافرمانی کی۔- اگرچہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حکم کی تو انہوں نے تاویل کرلی تھی کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جو یہ فرمایا تھا کہ اگر ہم سب بھی اللہ کی راہ میں قتل ہوجائیں اور تم دیکھو کہ چیلیں اور کوے ہمارا گوشت کھا رہے ہیں تب بھی یہاں سے نہ ہٹنا ‘ تو یہ شکست کی صورت میں تھا ‘ لیکن اب تو فتح ہوگئی ہے۔ چناچہ انہوں نے جان بوجھ کر اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حکم کی خلاف ورزی نہیں کی تھی۔ لیکن انہوں نے اپنے مقامی امیر (لوکل کمانڈر) کے حکم کی خلاف ورزی کی تھی۔ میرے نزدیک یہاں عَصَیْتُمْسے یہی حکم عدولی مراد ہے۔ اسلامی نظم جماعت میں اوپر سے لے کر نیچے تک ‘ - سپہ سالار سے لے کر لوکل کمانڈر تک ‘ درجہ بدرجہ نظام سمع وطاعت کی پابندی ضروری ہے۔ فوج کا ایک سپہ سالار ہے ‘ لیکن پھر پوری فوج کے کئی حصے ہوتے ہیں اور ہر ایک کا ایک امیر ہوتا ہے۔ میسرہ ‘ میمنہ ‘ قلب اور ہراول دستہ وغیرہ ‘ ہر ایک کا ایک کمانڈر ہوتا ہے۔ اب اگر ان کمانڈروں کے احکام سے سرتابی ہوگی تو ایسی فوج کا جو انجام ہوگا وہ معلوم ہے۔ چناچہ ایک جماعت کے اندر درجہ بدرجہ جو بھی نظام سمع وطاعت ہے اس کی پوری پوری پابندی ضروری ہے۔- (وَعَصَیْتُم مِّنْم بَعْدِ مَآ اَرٰٹکُمْ مَّا تُحِبُّونَ ط) ۔- (عَصَیْتُمْ ) کے بارے میں وضاحت ہوچکی ہے کہ اس سے مراد اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نافرمانی نہیں ‘ بلکہ لوکل کمانڈر کی نافرمانی ہے۔ (مِّنْم بَعْدِ مَآ اَرٰٹکُمْ مَّا تُحِبُّونَ ط) سے اکثر مفسرین نے مال غنیمت مراد لیا ہے ‘ کہ درّے پر مامور حضرات مال غنیمت کی طلب میں درّہ چھوڑ کر چلے گئے ‘ لیکن میرے نزدیک یہ بات درست نہیں ہے۔ اس لیے کہ مال غنیمت کی تقسیم کا قانون تو غزوۂ بدر کے بعد سورة الانفال میں نازل ہوچکا تھا۔ اس کی رو سے چاہے کوئی شخص کچھ جمع کرے یا نہ کرے اسے مال غنیمت میں سے برابر کا حصہ ملے گا۔ یہاں (مِّنْم بَعْدِ مَآ اَرٰٹکُمْ مَّا تُحِبُّونَ ط) سے مراد دراصل فتح ہے اور اس کے لیے القرآن یفُسِّر بعضُہ بَعْضًاکی رو سے سورة الصف کی یہ آیت ہماری رہنمائی کرتی ہے : (وَاُخْرٰی تُحِبُّوْنَھَاط نَصْرٌ مِّنَ اللّٰہِ وَفَتْحٌ قَرِیْبٌ ط) (آیت ١٣) گویا بندۂ مؤمن کو دنیا میں فتح و نصرت محبوب تو ہوتی ہے ‘ لیکن اسے اس کو اپنا مقصود نہیں بنانا۔ اس کا مقصود اللہ کی رضا جوئی اور اپنے فرض کی ادائیگی ہے۔ باقی کامیابی یا ناکامی اللہ کی مرضی اور اس کی حکمت کے تحت ہوتی ہے۔ اللہ کب فتح لانا چاہتا ہے وہ بہتر جانتا ہے۔ - (مِنْکُمْ مَّنْ یُّرِیْدُ الدُّنْیَا) - یعنی وہ خواہش رکھتے ہیں کہ دنیا میں فتح و نصرت اور کامیابی حاصل ہوجائے ‘ ہمارا بول بالا ہوجائے ‘ ہماری حکومت قائم ہوجائے۔- (وَمِنْکُمْ مَّنْ یُّرِیْدُ الْاٰخِرَۃَ ج) (ثُمَّ صَرَفَکُمْ عَنْہُمْ لِیَبْتَلِیَکُمْ ج) - پہلے وہ بھاگ رہے تھے اور تم ان کا تعاقب کر رہے تھے ‘ اب معاملہ الٹاہو گیا کہ تم پسپا ہوگئے اور اپنی جانیں بچانے کے لیے ادھر ادھر جائے پناہ ڈھونڈنے لگے۔ تمہاری یہ پسپائی تمہارے لیے آزمائش تھی۔- (وَلَقَدْ عَفَا عَنْکُمْ ط) ۔- تم میں سے جس کسی سے جو بھی خطا ہوئی اللہ نے اسے معاف فرما دیا ہے۔
سورة اٰلِ عِمْرٰن حاشیہ نمبر :109 یعنی تم نے غلطی تو ایسی کی تھی کہ اگر اللہ تمہیں معاف نہ کردیتا تو اس وقت تمہارا استیصال ہو جاتا ۔ یہ اللہ کا فضل تھا اور اس کی تائید و حمایت تھی جس کی بدولت تمہارے دشمن تم پر قابو پالینے کے بعد ہوش گم کر بیٹھے اور بلاوجہ خود پسپا ہو کر چلے گئے ۔
49: ’’ پسندیدہ چیز‘‘ سے یہاں مراد مال غنیمت ہے جسے دیکھ کر عقبی ٹیلے کے اکثر حضرات اپنے امیر کے حکم کے خلاف ٹیلہ چھوڑ گئے تھے۔