153۔ 1 کفار کے یکبارگی اچانک حملے سے مسلمانوں میں جو بھگدڑ مچی اور مسلمانوں کی اکثریت نے راہ فرار اختیار کی یہ اس کا نقشہ بیان کیا جا رہا ہے۔ 153۔ 2 نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے ساتھیوں سمیت پیچھے رہ گئے اور مسلمانوں کو پکارتے رہے، اللہ کے بندو میرے طرف لوٹ کر آؤ، اللہ کے بندو میری طرف لوٹ کے آؤ۔ لیکن سراسیمگی کے عالم میں یہ پکار کون سنتا۔ 153۔ 3 فَاَثاَبَکُمْ تمہاری کوتاہی کے بدلے میں تمہیں غم پر غم دیا، غما بغم بمعنی غما علی غم ابن جریر اور ابن کثیر کے اختیار کردہ راجح قول کے مطابق پہلے غم سے مراد، مال غنیمت اور کفار پر فتح و ظفر سے محرومی کا غم اور دوسرے غم سے مراد ہے مسلمانوں کی شہادت، ان کے زخمی ہونے، نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حکم کی خلاف ورزی اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خبر شہادت سے پہنچنے والا غم۔ 153۔ 4 یعنی یہ غم پہ غم اس لئے دیا تاکہ تمہارے اندر شدائد برداشت کرنے کی قوت اور عزم و حوصلہ پیدا ہو۔ جب یہ قوت اور حوصلہ پیدا ہوجاتا ہے تو پھر انسان کو فوت شدہ چیز پر غم اور پہنچنے والے شدائد پر ملال نہیں ہوتا۔
[١٤١] غما بغم کے کئی معنی ہوسکتے ہیں۔ ایک یہ کہ اس کا معنی رنج کے بدلے رنج کیا جائے یعنی مسلمانوں نے رسول کی نافرمانی کرکے اسے رنج پہنچایا تو اس کے بدلے اللہ نے مسلمانوں کو شکست دے کر انہیں رنج پہنچایا۔ دوسرا معنی یہ ہے کہ اللہ نے تمہیں کئی قسم کے رنج پہنچائے۔ ایک منافقوں کے واپس لوٹ جانے کا، دوسرا شکست کا، تیسرا اپنے شہیدوں کا، چوتھا اپنے مجروحین کا، پانچواں رسول کی شہادت کی خبر کا اور چھٹا اس جنگ کے انجام کا، اور تیسرا معنی یہ کہ اللہ نے جو تمہیں رسول کی شہادت کی افواہ کا غم پہنچایا وہ پہلے تمام قسم کے غموں سے بھاری تھا۔- [١٤٢] اس جملہ میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو اپنی ذات پر بھروسہ کرنے کا ایسا ضابطہ بتلایا ہے جو ایک مسلمان کو کسی بھی مشکل کے وقت کم ہمت بننے سے بچاتا ہے۔ جو یہ ہے کہ جو بھی تکلیف یا مصیبت تمہیں پہنچتی ہے وہ پہلے ہی اللہ کے علم میں ہوتی ہے اور صرف وہی تکلیف اور رنج تمہیں پہنچ سکتا ہے جو پہلے سے تمہارے مقدر ہوچکا ہے۔ لہذا اس پر افسوس کرنے کے بجائے اللہ پر بھروسہ رکھو اور اسی کی طرف لو لگاؤ وہی تمہاری مشکلات کو حل کرے گا۔ اسی مضمون کو ذرا تفصیل سے سورة حدید کی آیت نمبر ٢٣ میں ذکر کرتے ہوئے فرمایا : تاکہ جو کچھ تمہارے ہاتھ سے نکل جائے اس پر افسوس نہ کرو اور جب اللہ تمہیں کوئی بھلائی عطا کرے تو اس پر پھولے نہ سمایا کرو (٥٧: ٢٣) یعنی ایک مومن کی شان یہ ہے کہ وہ نہ تو مصیبت کے وقت ڈگمگاتا اور آس توڑ بیٹھتا ہے اور نہ خوشی کے وقت بھی وہ حد سے زیادہ خوش ہو کر اترانے لگتا ہے بلکہ وہ ہر حال میں اللہ کا شکر کرنے والا اور معتدل مزاج رکھنے والا ہوتا ہے۔
اِذْ تُصْعِدُوْنَ ۔۔ : یہ بھاگتے ہوئے مسلمانوں کی کیفیت کا ذکر ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تمہاری پچھلی جماعت میں، جو ثابت قدم رہی تھی، تمہیں پکار رہے تھے کہ ( اے اللہ کے بندو میری طرف آؤ، میں یہاں ہوں، مگر تم دور دوڑے جا رہے تھے اور کسی کو نہ مڑ کر دیکھتے تھے، نہ کسی کی سنتے تھے۔ - فَاَثَابَكُمْ غَمًّـۢا بِغَمٍّ : یعنی تمہاری کوتاہی کے بدلے میں تمہیں غم پر غم پہنچایا، ایک شکست کا غم اور دوسرا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شہادت کی افواہ کا صدمہ، جو پہلے غم سے زیادہ سخت تھا، پس ” بغم “ کے معنی ” عَلٰی غَمٍّ “ ہیں اور بعض نے باء کو سببیت کے لیے مانا ہے، یعنی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مغموم کرنے کی وجہ سے تمہیں غم پہنچایا، مگر پہلا معنی زیادہ صحیح ہے۔ ( ابن کثیر۔ شوکانی)- لِّكَيْلَا تَحْزَنُوْا یعنی تمہیں دوہرے غم میں مبتلا کردیا، تاکہ نہ تو تمہیں مال غنیمت کے ہاتھ سے نکل جانے کا غم ہو اور نہ زخمی و شہید ہونے اور شکست کا غم ہو، کیونکہ متواتر غم خصوصاً بڑے غم کے آنے کے ساتھ پہلے غم ہلکے ہوجاتے ہیں اور انسان سختیاں برداشت کرنے کا عادی ہوجاتا ہے۔
ربط آیات :۔- یہ آیات بھی غزوہ احد کے واقعہ مذکورہ سے متعلق ہیں، پہلی آیت میں اس غم کے ازالہ کا بیان ہے، تیسری آیت میں مکرر اس کا اظہار ہے کہ اس میں جو شکست پیش آئی وہ بھی کوئی سزا نہیں، بلکہ مومنین مخلصین اور منافقین میں تفرقہ کرنے کے لئے ایک آزمائش تھی اور پھر مکرر صحابہ کرام کی لغزش کی معافی کا اعلان ہے۔- خلاصہ تفسیر - وہ وقت یاد کرو جب تم (بھاگتے ہوئے جنگل کو) چڑھے چلے جا رہے تھے اور کسی کو مڑ کر بھی نہ دیکھتے تھے اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تمہارے پیچھے کی جانب سے تم کو پکار رہے تھے (کہ ادھر آؤ ادھر آؤ مگر تم نے سنا ہی نہیں) سو اللہ نے اس کے بدلے میں غم دیا بسبب (تمہارے) غم دینے کے (رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو) تاکہ (اس پاداش اور مصیبت سے تم میں پختگی پیدا ہوجائے جس سے پھر) تم مغمم نہ ہوا کرو نہ اس چیز پر جو تمہارے ہاتھ سے نکل جاوے اور نہ اس پر جو تم پر مصیبت پڑے، اور اللہ تعالیٰ سب خبر رکھتے ہیں تمہارے سب کاموں کی (اس لئے تم جیسا کام کرتے ہوئے اس کے مناسب پاداش تجویز فرماتے ہیں آگے ازالہ غم کا بیان ہے) پھر اللہ تعالیٰ نے اس غم کے بعد تم پر چین (اور راحت) بھیج دی یعنی اونگھ (جب کہ کفار میدان سے واپس ہوگئے اس وقت غیب سے مسلمانوں پر اونگھ غالب ہوئی جس سے سب غم غلط ہوگیا) کہ تم میں سے ایک جماعت (یعنی مسلمانوں) پر تو نیند کا غلبہ ہو رہا تھا اور ایک جماعت وہ تھی (یعنی منافقین کی) کہ ان کو اپنی جان ہی کی فکر پڑ رہی تھی (کہ دیکھئے یہاں سے بچ کر بھی جاتے ہیں) وہ لوگ اللہ تعالیٰ کے ساتھ خلاف واقع گمان کر رہے تھے جو محض حماقت کا خیال تھا (وہ خیال آگے ان کے قول سے اور اس کا حماقت و جہالت ہونا اس کے جواب سے معلوم ہوتا ہے، ان کا قول یہ تھا کہ) وہ یوں کہہ رہے تھے کیا ہمارا اختیار کچھ چلتا ہے (مطلب یہ تھا کہ ہماری رائے کسی نے نہ سنی جو جنگ سے پہلے ہم نے دی تھی خواہ مخواہ سب کو مصیبت میں پھنسا دیا) آپ فرما دیجئے کہ اختیار تو سب اللہ ہی کا (چلتا) ہے (مطلب یہ ہے کہ اگر تمہاری رائے پر عمل بھی ہوتا جب بھی قضاء الٰہی غالب رہتی اور جو افتاد آنے والی تھی آ کر رہتی، چناچہ ان کے قول اور اس کے جواب کا مطلب آگے مفصل ظاہر نہیں کرتے (کیونکہ ظاہر میں ان کے اس قول کا کہ ہمارا کیا اختیار ہے یہ مطلب سمجھا جاسکتا ہے کہ تقدیر الہی کے سامنے بندہ کی تدبیر نہیں چلتی جو کہ عین ایمان کی بات ہے اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کا جو لطیف جواب دیا گیا اس میں اس معنی کی تصدیق بھی ہے کہ واقعی اختیار اللہ ہی کا غالب ہے مگر درحقیت ان کا مطلب اس قول سے یہ نہیں تھا، بلکہ وہ یہ بات اس معنے سے) کہتے ہیں کہ اگر ہمارا کچھ اختیار چلتا (یعنی ہمارے رائے پر عمل ہوتا) تو ہم (میں جو لوگ یہاں قتل ہوئے وہ) یہاں مقتول نہ ہوتے (جس کا حاصل یہ ہے کہ تقدیر کوئی چیز نہیں اسی لئے آگے ان کے اس قول کی تکذیب اس طرح کی گئی کہ) آپ فرما دیجئے کہ اگر تم لوگ اپنے گھروں میں بھی رہتے تب بھی جن لوگوں کے لئے قتل مفت ہوچکا تھا وہ لوگ ان مقامات کی طرف (آنے کے لئے) نکل پڑتے جاں وہ (قتل ہو ہو کر) گرے ہیں (غرض یہ ہے کہ یہ ظاہری مضرت جس قدر ہوئی وہ تو ٹلنے والی نہ تھی) اور (اس کے فوائد و منافع بہت عظیم تھے کیونکہ) جو کچھ ہوا مصیبت کے وقت منافقین کا نفاق کھل گیا اور مؤمنین کا ایمان اور زیادہ مؤ کد اور محقق کر دے (کیونکہ مصیبت سے مومن کی توجہ غیر اللہ سے ہٹ کر صرف اللہ تعالیٰ کی طرف لگ جاتی ہے جس سے ایمان کو جلاء اور قوت پہونچتی ہے) اور اللہ تعالیٰ سب باطن کی باتوں کو جرم کھل کر سامنے آجائے ایسے امور واقع کئے جاتے ہیں) یقیناً تم میں جن لوگوں نے (میدان جنگ سے) پشت پھیر دی تھی جس روز کہ وہ دونوں جماعتیں (مسلمانوں اور کفار کی) باہم مقابل ہوئیں (یعنی احد کے روز اس کی وجہ) اس کے سوا اور کچھ نہیں ہوئی کہ ان کو شیطان نے لغزش دے دیان کے بعض اعمال (گزشتہ) کے سبب سے (یعنی ان سے کچھ خطاء و قصور ایسے ہوگئے تھے جس سے شیطان کو ان سے اور بھی معصیت کرا دینے کی طمع ہوگئی اور اتفاق سے وہ طمع پوری بھی ہوگئی) اور یقین سمجھو کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو معاف فرما دیا۔ واقعی اللہ تعالیٰ بڑے مغفرت کرنے والے بڑے علم والے ہیں (کہ صدر و خطا کے وقت بھی کوئی سزا نہیں دی)- معارف و مسائل - مذکور الصدر پہلی آیت میں کچھ صحابہ کرام کا میدان جنگ چھوڑ کر چلا جانا اور خود رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے آواز دینے پر بھی ان کا نہ آنا اور اس پر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو غم ہونا اور اس غم کے بدلے میں انجام کار صحابہ کو غم ہونا مذکور ہے اور روایات حدیث میں ہے کہ حضرت کعب بن مالک نے پکارا تو مسلمان جمع ہوگئے۔ اس کی توجیہہ و تطبیق صاحب روح المعانی نے اس طرح کی ہے کہ اول رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پکارا جو صحاب کرام نے سنا نہیں اور دور نکلے چلے گئے، اس وقت حضرت کعب بن مالک نے پکارا وہ سب نے سن لیا تو جمع ہوگئے۔- بیان القرآن میں حضرت حکیم الامت نے فرمایا کہ اصل وجہ گھبراہٹ کی یہ خبر تھی کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) شہید ہوگئے، آپ کے پکارنے میں اس خبر کی کوئی تردید تو تھی نہیں اور آواز اگر پہنچی بھی ہو تو پہچانی نہیں گئی، پھر جب حضرت کعب بن مالک نے پکارا تو اس میں اس خبر کی تردید اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا حیات ہونا مذکور تھا، یہ سن کر سب کی تسلی ہوئی اور سب جمع ہوگئے باقی رہا یہ کہ پھر اس پر حق تعالیٰ کی طرف سے عتاب اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو غم کیوں ہوا ؟ اس کی وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ اگر مستقبل مزاج رہتے تو آواز کو پہچان سکتے تھے۔
اِذْ تُصْعِدُوْنَ وَلَا تَلْوٗنَ عَلٰٓي اَحَدٍ وَّالرَّسُوْلُ يَدْعُوْكُمْ فِيْٓ اُخْرٰىكُمْ فَاَثَابَكُمْ غَمًّۢا بِغَمٍّ لِّكَيْلَا تَحْزَنُوْا عَلٰي مَا فَاتَكُمْ وَلَا مَآ اَصَابَكُمْ ٠ ۭ وَاللہُ خَبِيْرٌۢ بِمَا تَعْمَلُوْنَ ١٥٣- صعد - الصُّعُودُ : الذّهاب في المکان العالي، والصَّعُودُ والحَدُورُ لمکان الصُّعُودِ والانحدار، وهما بالذّات واحد، وإنّما يختلفان بحسب الاعتبار بمن يمرّ فيهما، فمتی کان المارّ صَاعِداً يقال لمکانه : صَعُودٌ ، وإذا کان منحدرا يقال لمکانه : حَدُور، والصَّعَدُ والصَّعِيدُ والصَّعُودُ في الأصل واحدٌ ، لكنِ الصَّعُودُ والصَّعَدُ يقال للعَقَبَةِ ، ويستعار لكلّ شاقٍّ. قال تعالی: وَمَنْ يُعْرِضْ عَنْ ذِكْرِ رَبِّهِ يَسْلُكْهُ عَذاباً صَعَداً [ الجن 17] ، أي : شاقّا، وقال : سَأُرْهِقُهُ صَعُوداً- [ المدثر 17] ، أي : عقبة شاقّة، والصَّعِيدُ يقال لوجه الأرض، قال : فَتَيَمَّمُوا صَعِيداً طَيِّباً- [ النساء 43] ، وقال بعضهم : الصَّعِيدُ يقال للغبار الذي يَصْعَدُ من الصُّعُودِ «1» ، ولهذا لا بدّ للمتیمّم أن يعلق بيده غبار، وقوله : كَأَنَّما يَصَّعَّدُ فِي السَّماءِ [ الأنعام 125] ، أي : يَتَصَعَّدُ. وأما الْإِصْعَادُ فقد قيل : هو الإبعاد في الأرض، سواء کان ذلک في صُعُودٍ أو حدور . وأصله من الصُّعُودُ ، وهو الذّهاب إلى الأمكنة المرتفعة، کالخروج من البصرة إلى نجد، وإلى الحجاز، ثم استعمل في الإبعاد وإن لم يكن فيه اعتبار الصُّعُودِ ، کقولهم : تعال، فإنّه في الأصل دعاء إلى العلوّ صار أمرا بالمجیء، سواء کان إلى أعلی، أو إلى أسفل . قال تعالی:- إِذْ تُصْعِدُونَ وَلا تَلْوُونَ عَلى أَحَدٍ [ آل عمران 153] ، وقیل : لم يقصد بقوله إِذْ تُصْعِدُونَ إلى الإبعاد في الأرض وإنّما أشار به إلى علوّهم فيما تحرّوه وأتوه، کقولک : أبعدت في كذا، وارتقیت فيه كلّ مرتقی، وكأنه قال : إذ بعدتم في استشعار الخوف، والاستمرار علی الهزيمة . واستعیر الصُّعُودُ لما يصل من العبد إلى الله، كما استعیر النّزول لما يصل من اللہ إلى العبد، فقال سبحانه : إِلَيْهِ يَصْعَدُ الْكَلِمُ الطَّيِّبُ [ فاطر 10] ، وقوله : يَسْلُكْهُ عَذاباً صَعَداً- [ الجن 17] ، أي : شاقّا، يقال : تَصَعَّدَنِي كذا، أي : شَقَّ علَيَّ. قال عُمَرُ : ما تَصَعَّدَنِي أمرٌ ما تَصَعَّدَنِي خِطبةُ النّكاحِ «2» .- ( ص ع د ) الصعود - کے معنی اوپر چڑھنے کے ہیں ایک ہی جگہ کو اوپر چڑھنے کے لحاظ سے صعود اور نیچے اترنے کے لحاظ سے حدودکہاجاتا ہے کہا جاتا ہے اصل میں صعد وصعید وصعود وصعد کا لفظ عقبہ یعنی کھا ٹی پر بولا جاتا ہے اور استعارہ کے طور پر ہر دشوار اور گراں امر کو صعد کہہ دیتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَمَنْ يُعْرِضْ عَنْ ذِكْرِ رَبِّهِ يَسْلُكْهُ عَذاباً صَعَداً [ الجن 17] اور جو شخص اپنے پروردگار کی یاد سے منہ پھیریگا وہ اس کو سخت عذاب میں داخل کرلیگا سَأُرْهِقُهُ صَعُوداً [ المدثر 17] ہم اسے صعود پر چڑہائیں گے ۔ اور صعید کا لفظ وجہ الارض یعنی زمین کے بالائی حصہ کے معنی میں استعمال ہوتا ہے قرآن میں ہے : ۔ فَتَيَمَّمُوا صَعِيداً طَيِّباً [ النساء 43] تو پاک مٹی لو اور بعض نے کہا ہے کہ صعید اس گرد غیار کو کہتے ہیں جو اوپر چڑھ جاتا ہے لہذا نماز کے تیمم کے لئے ضروری ہے کہ گرد و غبار سے ہاتھ آلودہ ہوجائیں اور آیت کریمہ : ۔ كَأَنَّما يَصَّعَّدُ فِي السَّماءِ [ الأنعام 125] گویا وہ آسمان پر چڑھ رہا ہے ۔ میں یصعد اصل میں یتصعد ہے جس کے معنی اوپر چڑھنے کے ہیں ۔ الاصعاد ( افعال ) بقول بعض اس کے معنی زمین میں دور تک چلے جانا کے ہیں عام اس سے کہ وہ جانا بلندی کیطرف ہو یا پستی کی طرف گو اس کے اصل معنی بلندجگہوں کی طرف جانا کے ہیں ۔ مثلابصرہ سے بخد یا حجازی کی طرف جانا بعد ہ صرف دور نکل جانے پر اصعاد کا لفط بولا جانے لگا ہے جیسا کہ تعال کہ اس کے اصل معنی علو بلندی کی طرف بلانے کے ہیں اس کے بعد صرف آنے کے معنی میں بطور امر استعمال ہونے لگا ہے عام اس سے وہ آنا بالائی کی طرف ہو یا پستی کی طرف قرآن میں ہے : ۔ إِذْ تُصْعِدُونَ وَلا تَلْوُونَ عَلى أَحَدٍ [ آل عمران 153] جب تم لوگ دور نکلے جارہے تھے اور کسی کو پیچھے پھر کر نہیں دیکھتے تھے ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہاں اصعاد سے دور نکل جانا مراد ہے ۔ بلکہ اشارہ ہے کہ انہوں نے بھاگنے میں علو اختیار کیا یعنی کوئی کسر باقی نہ چھوڑی جیسے محاورہ ہے : ۔ ابعدت فی کذا وار تقیت فیہ کل مرتقی یعنی میں نے اس میں انتہائی کوشش کی لہذا آیت کے معنی یہ ہیں کہ تم نے دشمن کا خوف محسوس کرنے اور لگاتار ہزیمت کھانے میں انتہا کردی اور استعارہ کے طور پر صعود کا لفظ انسانی اعمال کے متعلق بھی استعمال ہوتا ہے جو خدا تک پہنچتے ہیں جیسا کہ ہر وہ چیز جو اللہ تعالیٰ کی جانب سے انسان تک پہنچتی ہے اسے نزول سے تعبیر کیا جاتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ إِلَيْهِ يَصْعَدُ الْكَلِمُ الطَّيِّبُ [ فاطر 10] اسی کی طرف پاکیزہ کلمات چڑھتے ہیں ۔ اور آیت کریمہ :۔ يَسْلُكْهُ عَذاباً صَعَداً [ الجن 17] وہ اس کو سخت عذاب میں داخل کریگا ۔ میں صعدا کے معنی شاق یعنی سخت کے ہیں اور یہ تصعدفی کذا کے محاورہ سے ماخوذ ہے جس کے معنی کیس امر کے دشوار اور مشکل ہونے کے ہیں ۔ چناچہ حضرت عمر (رض) نے فرمایا ( 4 ) ما تصعد لی امر ماتصعدنی خطبۃ النکاح کے مجھے کوئی چیز خطبہ نکاح سے زیادہ دشوار محسوس نہیں ہوتی ۔- - الو - وأَلَوْتُ في الأمر : قصّرت فيه، هو منه، كأنه رأى فيه الانتهاء، وأَلَوْتُ فلانا، أي : أولیته تقصیرا نحو : کسبته، أي : أولیته کسبا، وما ألوته جهدا، أي : ما أولیته تقصیرا بحسب الجهد، فقولک : «جهدا» تمييز، وکذلك : ما ألوته نصحا . وقوله تعالی: لا يَأْلُونَكُمْ خَبالًا[ آل عمران 118] منه، أي : لا يقصّرون في جلب الخبال، - ( ا ل و ) الوت فی الامر کے معنی ہیں کسی کام میں کو تا ہی کرنا گو یا کوتاہی کرنے والا سمجھتا ہے کہ اس امر کی انتہا یہی ہے ۔ اور الوت فلانا کے معنی اولیتہ تقصیرا ( میں نے اس کوتاہی کا والی بنا دیا ) کے ہیں جیسے کسبتہ ای اولیتہ کسبا ( میں نے اسے کسب کا ولی بنا دیا ) ماالوتہ جھدا میں نے مقدر پھر اس سے کوتاہی نہیں کی اس میں جھدا تمیز ہے جس طرح ماالوتہ نصحا میں نصحا ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ لَا يَأْلُونَكُمْ خَبَالًا ( سورة آل عمران 118) یعنی یہ لوگ تمہاری خرابی چاہنے میں کسی طرح کی کوتاہی نہیں کرتے ۔- رسل - أصل الرِّسْلِ : الانبعاث علی التّؤدة وجمع الرّسول رُسُلٌ. ورُسُلُ اللہ تارة يراد بها الملائكة، وتارة يراد بها الأنبیاء، فمن الملائكة قوله تعالی: إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير 19] ، وقوله : إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود 81] ومن الأنبیاء قوله : وَما مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ [ آل عمران 144]- ( ر س ل ) الرسل - الرسل ۔ اصل میں اس کے معنی آہستہ اور نرمی کے ساتھ چل پڑنے کے ہیں۔ اور رسول کی جمع رسل آتہ ہے اور قرآن پاک میں رسول اور رسل اللہ سے مراد کبھی فرشتے ہوتے ہیں جیسے فرمایا : إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير 19] کہ یہ ( قرآن ) بیشک معزز فرشتے ( یعنی جبریل ) کا ( پہنچایا ہوا ) پیام ہے ۔ إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود 81] ہم تمہارے پروردگار کے بھیجے ہوئے ہی یہ لوگ تم تک نہیں پہنچ پائیں گے ۔ اور کبھی اس سے مراد انبیا (علیہ السلام) ہوتے ہیں جیسے فرماٰیا وَما مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ [ آل عمران 144] اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس سے بڑھ کر اور کیا کہ ایک رسول ہے اور بس - دعا - الدُّعَاء کالنّداء، إلّا أنّ النّداء قد يقال بيا، أو أيا، ونحو ذلک من غير أن يضمّ إليه الاسم، والدُّعَاء لا يكاد يقال إلّا إذا کان معه الاسم، نحو : يا فلان، وقد يستعمل کلّ واحد منهما موضع الآخر . قال تعالی: كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِما لا يَسْمَعُ إِلَّا دُعاءً وَنِداءً [ البقرة 171] ، - ( د ع و ) الدعاء ( ن )- کے معنی ندا کے ہیں مگر ندا کا لفظ کبھی صرف یا آیا وغیرہ ہما حروف ندا پر بولا جاتا ہے ۔ اگرچہ ان کے بعد منادٰی مذکور نہ ہو لیکن دعاء کا لفظ صرف اس وقت بولا جاتا ہے جب حرف ندا کے ساتھ اسم ( منادی ) بھی مزکور ہو جیسے یا فلان ۔ کبھی یہ دونوں یعنی دعاء اور نداء ایک دوسرے کی جگہ پر بولے جاتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِما لا يَسْمَعُ إِلَّا دُعاءً وَنِداءً [ البقرة 171] ان کی مثال اس شخص کی سی ہے جو کسی ایسی چیز کو آواز دے جو پکار اور آواز کے سوا کچھ نہ سن سکے ۔ - ثوب - أصل الثَّوْب : رجوع الشیء إلى حالته الأولی التي کان عليها، أو إلى الحالة المقدّرة المقصودة بالفکرة، وهي الحالة المشار إليها بقولهم : أوّل الفکرة آخر العمل . فمن الرجوع إلى الحالة الأولی قولهم : ثَابَ فلان إلى داره، وثَابَتْ إِلَيَّ نفسي، وسمّي مکان المستسقي علی فم البئر مَثَابَة، ومن الرجوع إلى الحالة المقدرة المقصود بالفکرة الثوب، سمّي بذلک لرجوع الغزل إلى الحالة التي قدّرت له، وکذا ثواب العمل، وجمع الثوب أَثْوَاب وثِيَاب، وقوله تعالی: وَثِيابَكَ فَطَهِّرْ [ المدثر 4]- ( ث و ب ) ثوب - کا اصل معنی کسی چیز کے اپنی اصلی جو حالت مقدمہ اور مقصود ہوتی ہے اس تک پہنچ جانا کے ہیں ۔ چناچہ حکماء کے اس قول اول الفکرۃ اٰخرالعمل میں اسی حالت کی طرف اشارہ ہے یعنی آغاز فکر ہی انجام عمل بنتا ہے ۔ چناچہ اول معنی کے لحاظ سے کہا جاتا ہے ۔ شاب فلان الی درہ ۔ فلاں اپنے گھر کو لوٹ آیا ثابت الی نفسی میری سانس میری طرف ہوئی ۔ اور کنوئیں کے منہ پر جو پانی پلانے کی جگہ بنائی جاتی ہے اسے مثابۃ کہا جاتا ہے اور غور و فکر سے حالت مقدرہ مقصود تک پہنچ جانے کے اعتبار سے کپڑے کو ثوب کہاجاتا ہے کیونکہ سوت کاتنے سے عرض کپڑا بننا ہوتا ہے لہذا کپڑا بن جانے پر گویا سوت اپنی حالت مقصود ہ کی طرف لوٹ آتا ہے یہی معنی ثواب العمل کا ہے ۔ اور ثوب کی جمع اثواب وثیاب آتی ہے اور آیت کریمہ ؛۔ وَثِيابَكَ فَطَهِّرْ [ المدثر 4] اپنے کپڑوں کو پاک رکھو ۔- غم - الغَمُّ : ستر الشیء، ومنه : الغَمَامُ لکونه ساترا لضوء الشمس . قال تعالی: يَأْتِيَهُمُ اللَّهُ فِي ظُلَلٍ مِنَ الْغَمامِ [ البقرة 210] . والغَمَّى مثله، ومنه : غُمَّ الهلالُ ، ويوم غَمٌّ ، ولیلة غَمَّةٌ وغُمَّى، قال : ليلة غمّى طامس هلالها وغُمَّةُ الأمر . قال : ثُمَّ لا يَكُنْ أَمْرُكُمْ عَلَيْكُمْ غُمَّةً [يونس 71] ، أي : كربة . يقال : غَمٌ وغُمَّةٌ. أي : كرب وکربة، والغَمَامَةُ : خرقة تشدّ علی أنف النّاقة وعینها، وناصية غَمَّاءُ : تستر الوجه .- ( غ م م ) الغم - ( ن ) کے بنیادی معنی کسی چیز کو چھپا لینے کی ہیں اسی سے الغمیٰ ہے جس کے معنی غبار اور تاریکی کے ہیں ۔ نیز الغمیٰ جنگ کی شدت الغمام کہتے ہیں کیونکہ وہ سورج کی روشنی کو ڈھانپ لیتا ہے ۔ قرآن پاک میں ہے : يَأْتِيَهُمُ اللَّهُ فِي ظُلَلٍ مِنَ الْغَمامِ [ البقرة 210] کہ خدا کا عذاب بادلوں کے سائبانوں میں آنازل ہوا ۔ اسی سے غم الھلال ( چاند ابر کے نیچے آگیا اور دیکھا نہ جاسکا ۔ ویوم غم ( سخت گرم دن ولیلۃ غمۃ وغمی ٰ ( تاریک اور سخت گرم رات ) وغیرہ ہا محاورات ہیں کسی شاعر نے کہا ہے ( جز ) ( 329) لیلۃ غمی ٰ طامس ھلالھا تاریک رات جس کا چاند بےنور ہو ۔ اور غمۃ الامر کے معنی کسی معاملہ کا پیچدہ اور مشتبہ ہونا ہیں ، قرآن پاک میں ہے : ۔ ثُمَّ لا يَكُنْ أَمْرُكُمْ عَلَيْكُمْ غُمَّةً [يونس 71] پھر تمہارا معاملہ تم پر مشتبہ نہ رہے ۔ یعنی پھر وہ معاملہ تمہارے لئے قلق و اضطراب کا موجب نہ ہو اور غم وغمۃ کے ایک ہی معنی ہیں یعنی حزن وکرب جیسے کرب وکربۃ اور غمامۃ اس چیتھڑے کو کہتے ہیں جو اونٹنی کی ناک اور آنکھوں پر باندھ دیا جاتا ہے تاکہ کسی چیز کو دیکھ یاسونگھ نہ سکے ) اور ناصیۃ غماء پیشانی کے لمبے بال جو چہرے کو چھالیں ۔- حزن - الحُزْن والحَزَن : خشونة في الأرض وخشونة في النفس لما يحصل فيه من الغمّ ، ويضادّه الفرح، ولاعتبار الخشونة بالغم قيل : خشّنت بصدره : إذا حزنته، يقال : حَزِنَ يَحْزَنُ ، وحَزَنْتُهُ وأَحْزَنْتُهُ قال عزّ وجلّ : لِكَيْلا تَحْزَنُوا عَلى ما فاتَكُمْ [ آل عمران 153] - ( ح ز ن ) الحزن والحزن - کے معنی زمین کی سختی کے ہیں ۔ نیز غم کی وجہ سے جو بیقراری سے طبیعت کے اندر پیدا ہوجاتی ہے اسے بھی حزن یا حزن کہا جاتا ہے اس کی ضد فوح ہے اور غم میں چونکہ خشونت کے معنی معتبر ہوتے ہیں اس لئے گم زدہ ہوے کے لئے خشنت بصررہ بھی کہا جاتا ہے حزن ( س ) غمزدہ ہونا غمگین کرنا ۔ قرآن میں ہے : ۔ لِكَيْلا تَحْزَنُوا عَلى ما فاتَكُمْ [ آل عمران 153] تاکہ جو چیز تمہارے ہاتھ سے جاتی رہے ۔۔۔۔۔ اس سے تم اندو ہناک نہ ہو - فوت - الْفَوْتُ : بُعْدُ الشیء عن الإنسان بحیث يتعذّر إدراکه، قال : وَإِنْ فاتَكُمْ شَيْءٌ مِنْ أَزْواجِكُمْ إِلَى الْكُفَّارِ [ الممتحنة 11] ، وقال : لِكَيْلا تَأْسَوْا عَلى ما فاتَكُمْ [ الحدید 23] ، وَلَوْ تَرى إِذْ فَزِعُوا فَلا فَوْتَ [ سبأ 51] ، أي : لا يَفُوتُونَ ما فزعوا منه، ويقال : هو منّي فَوْتَ الرّمح «2» ، أي : حيث لا يدركه الرّمح، وجعل اللہ رزقه فَوْتَ فمه . أي :- حيث يراه ولا يصل إليه فمه، والِافْتِيَاتُ : افتعال منه، وهو أن يفعل الإنسان الشیء من دون ائتمار من حقّه أن يؤتمر فيه، والتَّفَاوُتُ : الاختلاف في الأوصاف، كأنه يُفَوِّتُ وصف أحدهما الآخر، أو وصف کلّ واحد منهما الآخر . قال تعالی: ما تَرى فِي خَلْقِ الرَّحْمنِ مِنْ تَفاوُتٍ [ الملک 3] ، أي : ليس فيها ما يخرج عن مقتضی الحکمة .- ( ف و ت ) الفوت ( ن ) ہاتھ سے نکل جانا کسی چیز کا انسان سے اتنا دور ہوجانا کہ اس کا حاصل کرلیناز اس کے لئے دشوارہو ۔ چناچہ فرمایا ؛ وَإِنْ فاتَكُمْ شَيْءٌ مِنْ أَزْواجِكُمْ إِلَى الْكُفَّارِ [ الممتحنة 11] اور اگر تمہاری عورتوں میں سے کوئی عورت تمہارے ہاتھ سے نکل کر کافروں کے پاس چلی جائے ۔ لِكَيْلا تَأْسَوْا عَلى ما فاتَكُمْ [ الحدید 23] ناکہ جو مطلب تم سے فوت ہوگیا ہے ۔ اس کا غم نہ کھایا کرو ۔ وَلَوْ تَرى إِذْ فَزِعُوا فَلا فَوْتَ [ سبأ 51] اور کاش تم دیکھو جب یہ گبھرا جائیں گے تو عذاب سے ) بچ نہیں سکیں گے ۔ یعنی جس عذاب سے وہ گھبرائیں گے اس سے بچ نہیں سکیں گے ۔ محاورہ ہے : ۔ ھومنی فوت الرمح وہ میرے نیزے کی دسترس سے باہر ہے ۔ جعل اللہ رزقہ فوت فمہ ( اللہ اس کا رزق اس کی سترس سے باہر کردے یعنی رزق سامنے نظر آئے لیکن منہ تک نہ پہنچ سکے ( بددعا ) اسی سے افتیات ( افتعال ) ہے اور اس کے معنی کسی ایسے شخص سے مشورہ کے بغیر کوئی کام کرنے کے ہیں جس سے مشورہ ضروری ہو ۔ التفاوت ( تفاعل ) کے معنی دو چیزوں کے اوصاف مختلف ہونے کے ہیں گویا ایک کا وصف دوسری کا یا ہر ایک کا وصف دوسری کو فوت کررہا ہے قرآن میں : ۔ ما تَرى فِي خَلْقِ الرَّحْمنِ مِنْ تَفاوُتٍ [ الملک 3] کیا تو ( خدا ) رحمٰن کی آفرینش میں کچھ نقص دکھتا ہے یعنی اس میں کوئی بات بھی حکمت کے خلاف نہیں ہے ۔- خبیر - والخَبِيرُ : الأكّار فيه، والخبر : المزادة العظیمة، وشبّهت بها النّاقة فسمّيت خبرا، وقوله تعالی: وَاللَّهُ خَبِيرٌ بِما تَعْمَلُونَ [ آل عمران 153] ، أي : عالم بأخبار أعمالکم،- ( خ ب ر ) الخبر - کسان کو ِِ ، ، خبیر ، ، کہاجاتا ہے ۔ الخبر۔ چھوٹا توشہ دان ۔ تشبیہ کے طور پر زیادہ دودھ دینے والی اونٹنی کو بھی خبر کہاجاتا ہے اور آیت کریمہ :۔ وَاللَّهُ خَبِيرٌ بِما تَعْمَلُونَ [ آل عمران 153] اور جو کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ تمہارے اعمال کی حقیقت کو جانتا ہے ۔- عمل - العَمَلُ : كلّ فعل يكون من الحیوان بقصد، فهو أخصّ من الفعل لأنّ الفعل قد ينسب إلى الحیوانات التي يقع منها فعل بغیر قصد، وقد ينسب إلى الجمادات، والعَمَلُ قلّما ينسب إلى ذلك، ولم يستعمل العَمَلُ في الحیوانات إلّا في قولهم : البقر العَوَامِلُ ، والعَمَلُ يستعمل في الأَعْمَالِ الصالحة والسّيّئة، قال : إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ- [ البقرة 277] - ( ع م ل ) العمل - ہر اس فعل کو کہتے ہیں جو کسی جاندار سے ارادۃ صادر ہو یہ فعل سے اخص ہے کیونکہ فعل کا لفظ کبھی حیوانات کی طرف بھی منسوب کردیتے ہیں جن سے بلا قصد افعال سر زد ہوتے ہیں بلکہ جمادات کی طرف بھی منسوب ہوجاتا ہے ۔ مگر عمل کا لفظ ان کی طرف بہت ہی کم منسوب ہوتا ہے صرف البقر العوامل ایک ایسی مثال ہے جہاں کہ عمل کا لفظ حیوانات کے لئے استعمال ہوا ہے نیز عمل کا لفظ اچھے اور بری دونوں قسم کے اعمال پر بولا جاتا ہے ، قرآن میں : ۔ إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة 277] جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے
(١٥٣) دشمنوں کے ڈر سے غزوہ احد میں صحابہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے جنگ کی افراتفری میں اچانک جو علیحدہ ہوئے تو اللہ تعالیٰ اس کا تذکرہ فرماتے ہیں کہ جب تم ظاہری شکست سے پہاڑ کی طرف بھاگ رہے تھے اور رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف بوجوہ توجہ نہیں کررہے تھے اور نہ آپ کے پاس کھڑے ہورہے تھے اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تمہارے پیچھے کی طرف سے جنگ کے اس شور وشغب میں بھی کمال حوصلہ سے تمہیں آوازیں دے رہے تھے، کہ مسلمانو ادھر آؤ میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہوں مگر تم نے اپنی اس شدید پریشانی کے عالم میں، اس آوازئی رسول کو سنا ہی نہیں تو اس پاداش میں اللہ تعالیٰ نے تمہیں غم پر غم دیا ایک غم خالد بن ولید کے دستہ کا اور دوسرا غم شکست کھا جانے اور زخمی ہوجانے کا (یعنی اپنے ساتھی صحابہ کرام (رض) کے شہید ہوجانے کا غم نہ کرو جیسے سید الشہداء حضرت حمزہ (رض) اور علم بردار اسلام حضرت معصب بن عمیر وغیرہ اور دیگر ستر کے قریب شہدائے اسلام کا اور اس طرح بہت سے زخمی مجاہدین کا بھی غم نہ کرو فتح ونصرت اللہ ہی کے ہاتھ میں ہے) زخمی اور قتل ہونے پر تم مغموم نہ ہوا کرو کیوں کہ اللہ تعالیٰ فتح وہزیمت سب کو جانتا ہے۔
آیت ١٥٣ (اِذْ تُصْعِدُوْنَ وَلاَ تَلْوٗنَ عَلٰٓی اَحَدٍ ) (وَّالرَّسُوْلُ یَدْعُوْکُمْ فِیْ اُخْرٰٹکُمْ ) - غزوۂ احد میں خالد بن ولید کے اچانک حملے سے ایک بھگدڑ سی مچ گئی تھی۔ بعض صحابہ (رض) نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اپنے حفاظتی حصار میں لے لیا تھا اور انہوں نے اپنے جسموں کو ڈھال بن کر آنحضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی حفاظت کی۔ بہت سے لوگ سراسیمہ ہو کر اپنی جان بچانے کی خاطر بھاگ کھڑے ہوئے۔ بعض کوہ احد پر چڑھے جا رہے تھے۔ اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) انہیں پکار پکار کر واپس بلا رہے تھے۔ - (فَاَثَابَکُمْ غَمًّام بِغَمٍّ ) (لِّکَیْلاَ تَحْزَنُوْا عَلٰی مَا فَاتَکُمْ وَلاَ مَآ اَصَابَکُمْ ط) - یعنی ع رنج سے خوگر ہوا انساں تو مٹ جاتا ہے رنج آدمی کو اگر کبھی اتفاقاً ہی رنج و غم کا سامنا کرنا پڑے تو اس کا اثر بہت زیادہ ہوتا ہے ‘ لیکن جب پے در پے رنج و غم اٹھانے پڑیں تو ان کی شدت میں کمی واقع ہوجاتی ہے۔ دامن احد میں مسلمانوں کو پے در پے تکالیف برداشت کرنا پڑیں۔ سب سے بڑا رنج جو پیش آیا وہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے انتقال کی خبر تھی ‘ جس پر کسی کو اپنے تن بدن کا تو ہوش ہی نہیں رہا کہ خود اس کو کیا زخم لگا ہے۔ اس طرح اللہ تعالیٰ نے اس وقت کی کیفیت میں ایک تخفیف پیدا کردی ۔
سورة اٰلِ عِمْرٰن حاشیہ نمبر :110 جب مسلمانوں پر اچانک دو طرف سے بیک وقت حملہ ہوا اور ان کی صفحوں میں ابتری پھیل گئی تو کچھ لوگ مدینہ کی طرف بھاگ نکلے اور کچھ احد پر چڑھ گئے ، مگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم ایک انچ اپنی جگہ سے نہ ہٹے ۔ دشمنوں کا چاروں طرف ہجوم تھا ، دس بارہ آدمیوں کی مٹھی بھر جماعت پاس رہ گئی تھی ، مگر اللہ کا رسول اس نازک موقع پر بھی پہاڑ کی طرح اپنی جگہ جما ہوا تھا اور بھاگنے والوں کو پکار رہا تھا اِلَیَّ عِبَادَ اللہِ اِلَیَّ عِبَادَاللہِ ، اللہ کے بندو میری طرف آؤ ، اللہ کے بندو میری طرف آؤ ۔ سورة اٰلِ عِمْرٰن حاشیہ نمبر :111 رنج ہزیمت کا ، رنج اس خبر کا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم شہید ہو گئے ، رنج اپنے کثیر التعداد مقتولوں اور مجروحوں کا ، رنج اس بات کا کہ اب گھروں کی بھی خبر نہیں ، تین ہزار دشمن ، جن کی تعداد مدینہ کی مجموعی آبادی سے بھی زیادہ ہے ، شکست خوردہ فوج کو روندتے ہوئے قصبہ میں آگھسیں گے اور سب کو تباہ کر دیں گے ۔
50: یعنی اس قسم کے واقعات سے تمہارے اندر پختگی آئے گی، اور آئندہ جب کوئی تکلیف پیش آئے گی اس پر زیادہ پریشان اور مغموم رہنے کے بجائے تم صبر اور استقامت سے کام لو گے