Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

تلواروں کے سایہ میں ایمان کی جانچ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں پر اس غم و رنج کے وقت جو احسان فرمایا تھا اس کا بیان ہو رہا ہے کہ اس نے ان پر اونگھ ڈال دی ہتھیار ہاتھ میں ہیں دشمن سامنے ہے لیکن دل میں اتنی تسکین ہے کہ آنکھیں اونگھ سے جھکی جا رہی ہیں جو امن و امان کا نشان ہے جیسے سورۃ انفال میں بدر کے واقعہ میں ہے آیت ( اذ یغشیکم النعاس امنتہ منہ ) یعنی اللہ تعالیٰ کی طرف سے امن بصورت اونگھ نازل ہوئی ۔ حضرت عبداللہ بن مسعود فرماتے ہیں لڑائی کے وقت انکی اونگھ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی طرف سے ہے اور نماز میں اونگھ کا آنا شیطانی حکمت ہے ، حضرت ابو طلحہ کا بیان ہے کہ احد والے دن مجھے اس زور کی اونگھ آنے لگی کہ بار بار تلوار میرے ہاتھ سے چھوٹ گئی آپ فرماتے ہیں جب میں نے آنکھ اٹھا کر دیکھا تو تقریباً ہر شخص کو اسی حالت میں پایا ، ہاں البتہ ایک جماعت وہ بھی تھی جن کے دلوں میں نفاق تھا یہ مارے خوف و دہشت کے ہلکان ہو رہے تھے اور ان کی بدگمانیاں اور برے خیال حد کو پہنچ گئے تھے ، پس اہل ایمان اہل یقین اہل ثبات اہل توکل اور اہل صدق تو یقین کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ضرور مدد کرے گا اور ان کی منہ مانگی مراد پوری ہو کر رہے گی لیکن اہل نفاق اہل شک ، بےیقین ، ڈھلمل ایمان والوں کی عجب حالت تھی ان کی جان عذاب میں تھی وہ ہائے وائے کر رہے تھے اور ان کے دل میں طرح طرح کے وسو اس پیدا ہو رہے تھے انہیں یقین کامل ہو گیا تھا کہ اب مرے ، وہ جان چکے تھے کہ رسول اور مومن ( نعوذ باللہ ) اب بچ کر نہیں جائیں گے اب بچاؤ کی کوئی صورت نہیں ، فی الواقع منافقوں کا یہی حال ہے کہ جہاں ذرا نیچا پانسہ دیکھا تو ناامیدی کی گھٹگھور گھٹاؤں نے انہیں گھیر لیا ان کے برخلاف ایماندار بد سے بد تر حالت میں بھی اللہ تعالیٰ سے نیک گمان رکھتا ہے ۔ ان کے دلوں کے خیالات یہ تھے کہ اگر ہمارا کچھ بھی بس چلتا تو آج کی موت سے بچ جاتے اور چپکے چپکے یوں کہتے بھی تھے حضرت زبیر کا بیان ہے کہ اس سخت خوف کے وقت ہمیں تو اس قدر نیند آنے لگی کہ ہماری ٹھوڑیاں سینوں سے لگ گئیں میں نے اپنی اسی حالت میں معتب بن قشیر کے یہ الفاظ سنے کہ اگر ہمیں کچھ بھی اختیار ہوتا تو یہاں قتل نہ ہوتے ، اللہ تعالیٰ انہیں فرماتا ہے کہ یہ تو اللہ تعالیٰ کے فیصلے ہیں مرنے کا وقت نہیں ٹلتا گو تم گھروں میں ہوتے لیکن پھر بھی جن پر یہاں کٹنا لکھا جا چکا ہوتا وہ گھروں کو چھوڑ کر نکل کھڑے ہوئے اور یہاں میدان میں آ کر ڈٹٹ گئے اور اللہ کا لکھا پورا اترا ۔ یہ وقت اس لئے تھا کہ اللہ تعالیٰ تمہارے دلوں کے ارادوں اور تمہارے مخفی بھیدوں کو بےنقاب کرے ، اس آزمائش سے بھلے اور برے نیک اور بد میں تمیز ہو گئی ، اللہ تعالیٰ جو دلوں کے بھیدوں اور ارادوں سے پوری طرح واقف ہے اس نے اس ذرا سے واقعہ سے منافقوں کو بےنقاب کر دیا اور مسلمانوں کا بھی ظاہری امتحان ہو گیا ، اب سچے مسلمانوں کی لغزش کا بیان ہو رہا ہے جو انسانی کمزوری کی وجہ سے ان سے سرزد ہوئی فرماتا ہے شیطان نے یہ لغزش ان سے کرا دی دراصل یہ سب ان کے عمل کا نتیجہ تھا نہ یہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی کرتے نہ ان کے قدم اکھڑتے انہیں اللہ تعالیٰ معذور جانتا ہے اور ان سے اس نے درگزر فرما لیا اور ان کی اس خطا کو معاف کر دیا اللہ کا کام ہی درگزر کرنا بخشنا معاف فرمانا حلم اور بربادی برتنا تحمل اور عفو کرنا ہے اس سے معلوم ہوا کہ حضرت عثمان وغیرہ کی اس لغزش کو اللہ تعالیٰ نے معاف فرما دیا ۔ مسند احمد میں ہے کہ ولید بن عقبہ نے ایک مرتبہ حضرت عبدالرحمن بن عوف سے کہا آخر تم امیر المومنین حضرت عثمان بن عفان سے اس قدر کیوں بگڑے ہوئے ہو؟ انہوں نے کہا اس سے کہدو کہ میں نے احد والے دن فرار نہیں کیا بدر کے غزوے میں غیر حاضر نہیں رہا اور نہ سنت عمر ترک کی ، ولید نے جا کر حضرت عثمان سے یہ واقعہ بیان کیا تو آپ نے اس کے جواب میں فرمایا کہ قرآن کہہ رہا ہے آیت ( وَلَقَدْ عَفَا اللّٰهُ عَنْھُمْ ) 3 ۔ آل عمران:155 ) یعنی احد والے دن کی اس لغزش سے اللہ تعالیٰ نے درگزر فرمایا پھر جس خطا کو اللہ نے معاف کر دیا اس پر عذر لانا کیا ؟ بدر والے دن میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی میری بیوی حضرت رقیہ کی تیمارداری میں مصروف تھا یہاں تک کہ وہ اسی بیماری میں فوت ہو گئیں چنانچہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مال غنیمت میں سے پور احصہ دیا اور ظاہر ہے کہ حصہ انہیں ملتا ہے جو موجود ہیں پس حکماً میری موجودگی ثابت ہوا ہے ، رہی سنت عمر اس کی طاقت نہ مجھ میں ہے نہ عبدالرحمن میں ، جاؤ انہیں یہ جواب بھی پہنچا دو ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

154۔ 1 مذکورہ سراسیمگی کے بعد اللہ تعالیٰ نے پھر مسلمانوں پر اپنا فضل فرمایا اور میدان جنگ میں باقی رہ جانے والے مسلمانوں پر اونگھ مسلط کردی۔ یہ اونگھ اللہ کی طرف سے نصرت کی دلیل تھی۔ حضرت ابو طلحہ (رض) فرماتے ہیں کہ میں بھی ان لوگوں میں سے تھا جن پر احد کے دن اونگھ چھائی جا رہی تھی حتیٰ کہ میری تلوار کئی مرتبہ میرے ہاتھ سے گری میں اسے پکڑتا وہ پھر گر جاتی، پھر پکڑتا پھر گر جاتی (صحیح بخاری) نعاسا امنۃ سے بدل ہے۔ طائفہ واحد اور جمع دونوں کے لیے مستعمل ہے (فتح القدیر) 154۔ 2 اس سے مراد منافقین ہیں۔ ظاہر ہے کہ ایسے حالات میں ان کو اپنی جانوں کی فکر تھی۔ 154۔ 3 وہ یہ تھیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا معاملہ باطل ہے، یہ جس دین کی دعوت دیتے ہیں، اس کا مستقبل مخدوش ہے، انہیں اللہ کی مدد ہی حاصل نہیں وغیرہ وغیرہ۔ 154۔ 4 یعنی کیا اب ہمارے لئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے کسی فتح و نصرت کا امکان ہے ؟ یا یہ کہ ہماری بھی کوئی بات چل سکتی ہے اور مانی جاسکتی ہے۔ 154۔ 5 تمہارے یا دشمن کے اختیار میں نہیں ہے، مدد بھی اسی کی طرف سے آئے گی اور کامیابی بھی اسی کے حکم سے ہوگی اور امر و نہی بھی اسی کا ہے۔ 154۔ 6 اپنے دلوں میں نفاق چھپائے ہوئے ہیں، ظاہر یہ کرتے ہیں، کہ رہنمائی کے طالب ہیں۔ 154۔ 7 یہ وہ آپس میں کہتے یا اپنے دل میں کہتے تھے۔ 154۔ 8 اللہ تعالیٰ نے فرمایا، اس قسم کی باتوں کا کیا فائدہ ؟ موت تو ہر صورت میں آنی ہے اور اسی جگہ پر آنی ہے جہاں اللہ تعالیٰ کی طرف سے لکھ دی گئی۔ اگر تم گھروں میں بیٹھے ہوتے اور تمہاری موت کسی مقتل میں لکھی ہوتی تو تمہیں قضا ضرور وہاں کھینچ لے جاتی۔ 154۔ 9 یہ جو کچھ ہوا اس سے ایک مقصد یہ بھی تھا کہ تمہارے سینوں کے اندر جو کچھ ہے یعنی ایمان اسے آزمائے (تاکہ منافق الگ ہوجائیں) اور پھر تمہارے دلوں کو شیطانی وساوس سے پاک کر دے۔ 154۔ 10 یعنی اس کو تو علم ہے کہ مخلص مسلمان کون ہے اور نفاق کا لبادہ کس نے اوڑھ رکھا ہے ؟ جہاد کی متعدد حکمتوں میں سے ایک حکمت یہ ہے کہ اس سے مومن اور منافق کھل کر سامنے آجاتے ہیں، جنہیں عام لوگ دیکھ اور پہچان لیتے ہیں۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١٤٣] اتنے شدید قسم کے غموں کے بعد اللہ تعالیٰ کا مسلمانوں پر اونگھ طاری کرنا ایک نعمت غیر مترقبہ اور غیر معمولی امداد تھی۔ اونگھ سے جسمانی اور روحانی دونوں طرح کا سکون حاصل ہوجاتا ہے۔ بدن کی تھکاوٹ دور ہوتی ہے اور غم یکدم بھول جاتے ہیں۔ چناچہ حضرت ابو طلحہ (رض) کہتے ہیں کہ احد کے دن عین جنگ کے دوران مجھے اونگھ نے آدبایا، تلوار میرے ہاتھ سے گرنے کو ہوتی، میں اسے تھام لیتا، پھر گرنے کو ہوتی، پھر تھام لیتا۔ (بخاری کتاب التفسیر)- [١٤٤] جو مسلمان غزوہ احد میں شریک ہوئے تھے۔ سب ایک جیسے پختہ ایمان والے اولوالعزم اور بہادر نہ تھے بلکہ کچھ کمزور دل بھی تھے اور انصار میں سے کچھ منافقین بھی تھے۔ جو انصار کے رشتہ دار ہونے کی وجہ سے جنگ میں شریک تھے۔ اور یہ عبداللہ بن ابی کے ساتھیوں کے علاوہ تھے۔ یہی وہ لوگ تھے جنہیں نہ اسلام کی فکر تھی نہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی، انہیں بس اپنی ہی جانوں کی فکر تھی، وہ یہ سوچ رہے تھے کہ اگر ابو سفیان نے دوبارہ حملہ کردیا تو پھر ہمارا کیا حشر ہوگا۔ کبھی وہ یہ سوچتے تھے اللہ اور اس کے رسول نے فتح و نصرت کے جو دعوے کئے تھے وہ کہاں گئے ؟ ان لوگوں کے متعلق ترمذی میں جو روایت آئی ہے وہ یوں ہے : یہ دوسرا گروہ منافقین کا تھا، جنہیں اپنی باتوں کے علاوہ اور کسی بات کی فکر نہ تھی وہ قوم میں سب سے زیادہ بزدل سب سے زیادہ مرعوب اور سب سے زیادہ حق کی حمایت سے گریز کرنے والے تھے۔ (ترمذی، ابو اب التفسیر)- [١٤٥] یعنی جنگی تدابیر اور ان کے متعلق مشورہ میں ہماری بات کو بھی درخور اعتنا سمجھا جاسکتا ہے ؟ واقعہ یہ ہے کہ اس گروہ کے لوگوں کا بھی یہی خیال اور رائے تھی کہ جنگ مدینہ میں رہ کر لڑی جائے اور ان کی یہ رائے کسی صوابدید پر نہیں بلکہ محض بزدلی کی بنا پر تھی۔ اب شکست کے بعد انہیں یہ کہنے کا موقع میسر آگیا کہ اگر ہماری رائے پر عمل کیا جاتا تو یہ برا دن دیکھنا نصیب نہ ہوتا۔ نہ ہی ہمارے بھائی بند یہاں مارے جاتے۔- [١٤٦] کیونکہ اللہ تعالیٰ کی تقدیر یہ ہے کہ جس مقام پر کسی کی موت واقع ہونا مقدر ہوتی ہے۔ وہ کسی نہ کسی بہانے اپنے مقررہ وقت پر وہاں پہنچ کے رہتا ہے، وہ مقام کون سا ہوگا ؟ یہ ایسی بات ہے جس کا اللہ کے سوا کسی کو بھی علم نہیں جیسا کہ ارشاد باری ہے (وَمَا تَدْرِيْ نَفْسٌۢ بِاَيِّ اَرْضٍ تَمُوْتُ 34؀ ) 31 ۔ لقمان :34) (٣١: ٣٤) (کسی کو بھی اس بات کا علم نہیں کہ وہ کس جگہ مرے گا) یعنی اگر جنگ برپا نہ بھی ہوتی تو جن جن لوگوں کا یہاں مرنا مقدر ہوچکا تھا وہ کسی نہ کسی طرح یہاں پہنچ کے رہتے اور اگر میدان جنگ میں ان کا مرنا مقدر ہوتا اور میدان جنگ میں نہ آنے کے ہزاروں جتن کرتے، وہ کسی نہ کسی حیلے بہانے یہاں پہنچ کے رہتے۔ کیونکہ اللہ کی تقدیر باقی سب باتوں پر غالب ہے۔- [١٤٧] اس جنگ اور پھر اس میں شکست کے واقعہ سے ایک فائدہ یہ بھی حاصل ہوا کہ ہر مسلمان کے متعلق سب کو پتہ چل گیا کہ وہ اپنے ایمان میں کس قدر مضبوط ہے۔ بہادر ہے اور عزم کا پکا ہے اور اسی طرح کمزور ایمان والوں، بزدلوں اور منافقوں کا بھی سب کو پتہ چل گیا۔ گویا یہ جنگ ایک امتحان گاہ تھی جس نے واضح کردیا کہ ہر ایک کے دل میں کیا کچھ ہے اور دوسرا فائدہ یہ ہے کہ مخلص مسلمان اپنی کمزوریوں کو دور کرسکیں اور ان کے دلوں کو اللہ تعالیٰ آئندہ کے لیے وساوس اور کمزوریوں سے پاک و صاف بنا دے، اور منافقین کا نفاق کھل کر سامنے آجائے اور لوگ ان کے خبث باطن سے بچ سکیں۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

ثُمَّ اَنْزَلَ عَلَيْكُمْ ۔۔ : ان پے درپے صدموں کے بعد اللہ تعالیٰ نے میدان جنگ میں موجود مسلمانوں پر اپنا خاص فضل فرمایا کہ ان پر اونگھ مسلط کردی، جس سے انھیں امن و اطمینان حاصل ہوگیا۔ ابو طلحہ (رض) بیان کرتے ہیں : ” ہم پر اونگھ چھا گئی، جب کہ ہم احد کے دن اپنی صفوں میں کھڑے تھے، حالت یہ تھی کہ میری تلوار میرے ہاتھ سے گری جاتی تھی، میں اسے اٹھا لیتا تھا، وہ پھر گرجاتی تھی اور میں اسے پھر اٹھا لیتا تھا۔ “ [ بخاری، التفسیر، باب قولہ ( أمنۃ نعاسًا ) : ٤٥٦٢ ] ابو طلحہ (رض) ہی بیان فرماتے ہیں : ” میں نے احد کے دن اپنا سر بلند کیا اور لوگوں کو دیکھنے لگا تو ( کیا دیکھتا ہوں کہ) ہر شخص اونگھ کی وجہ سے اپنے سر کو ڈھال کے نیچے جھکائے ہوئے ہے اور یہی اللہ تعالیٰ کے اس قول کا مطلب ہے : ( ثُمَّ اَنْزَلَ عَلَيْكُمْ مِّنْۢ بَعْدِ الْغَمِّ اَمَنَةً نُّعَاسًا ) [ ترمذی، أبواب التفسیر، باب ومن سورة آل عمران : ٣٠٠٧ ]- 2 ۙ وَطَاۗىِٕفَةٌ قَدْ اَهَمَّتْھُمْ اَنْفُسُھُمْ : اس سے مراد منافقین اور ضعیف ایمان والے مسلمان ہیں۔ ظاہر ہے کہ ایسے حالات میں انھیں تو اپنی جانوں ہی کی فکر تھی۔ ابو طلحہ (رض) بیان فرماتے ہیں : ” دوسرا گروہ منافقین کا تھا، انھیں اپنی جانوں کے سوا اور کوئی دوسری فکر نہ تھی، وہ قوم میں سے سب سے زیادہ بزدل، سب سے زیادہ مرعوب اور حق کی حمایت سے سب سے زیادہ گریز کرنے والے تھے۔ “ [ ترمذی، أبواب التفسیر، ، باب و من سورة آل عمران : ٣٠٠٨ ]- 3 يَظُنُّوْنَ باللّٰهِ غَيْرَ الْحَقِّ ظَنَّ الْجَاهِلِيَّةِ ۭ۔۔ : ” ِ ظَنَّ الْجَاهِلِيَّةِ ۭ“ یہ ” غیر الحق “ سے بدل ہے، یعنی وہ یہ گمان کر رہے تھے کہ دین اسلام اور اس کے حاملین بس اب ہلاک ہوگئے، مسلمانوں کی کبھی مدد نہیں ہوگی اور یہ دعوت حق پروان نہیں چڑھے گی۔ - 4 يَقُوْلُوْنَ ھَلْ لَّنَا مِنَ الْاَمْرِ مِنْ شَيْءٍ : یہ جملہ ” يَظُنُّوْنَ “ سے بدل ہے اور ” من الامر “ سے مراد فتح و نصرت ہے، یعنی بالکل مایوسی کا اظہار کرنے لگے اور یہ کہنا شروع کردیا کہ ہمیں کبھی فتح بھی نصیب ہوگی اور کچھ ملے گا بھی ؟ یا ” من الامر “ سے مراد معاملے کا فیصلہ ہے کہ اس معاملے میں ہماری بات تو مانی ہی نہیں گئی، ہمیں مجبوراً ساتھ دینا پڑا، ورنہ ہم تو شہر سے باہر نکل کر لڑنے کے حق میں نہیں تھے۔ بعض نے یہ معنی کیے ہیں کہ ہم تو مجبور محض ہیں، ہمارا تو کچھ بھی اختیار نہیں۔ (فتح القدیر)- 5 مَّا قُتِلْنَا ھٰهُنَا ۔۔ : مطلب یہ کہ اگر ہماری بات مان لی جاتی کہ شہر کے اندر رہ کر ہی جنگ لڑی جائے تو آج ہمارا یہ جانی نقصان نہ ہوتا، مگر ہماری کسی نے نہ سنی۔ یہ بات یا تو ان منافقین نے کہی جو جنگ میں شریک تھے، جیسا کہ زبیر (رض) فرماتے ہیں : ” اللہ کی قسم میں معتب بن بشیر، جو بنو عمرو بن عوف سے تھا، اس کی بات سن رہا تھا، جب کہ اونگھ مجھے ڈھانپ رہی تھی، میں خواب کی طرح اس کی بات سن رہا تھا، جب وہ کہہ رہا تھا، اگر اس معاملے میں ہمارا کچھ اختیار ہوتا تو ہم یہاں قتل نہ کیے جاتے۔ “ [ المختارۃ، ح : ٨٦٤، ٨٦٥ ] اسے ابن ابی حاتم نے اپنی تفسیر میں بھی حسن سند کے ساتھ ذکر کیا ہے۔ - یہ بھی ہوسکتا ہے کہ یہ بات ان منافقین نے کہی ہو جو عبداللہ بن ابی کے ساتھ مدینہ لوٹ آئے تھے، اس صورت میں ” ھٰھُنَا “ ( یہاں) کا اشارہ مدینہ کے قریب احد کی طرف ہوگا۔ (قرطبی، شوکانی) - 6 قُلْ لَّوْ كُنْتُمْ فِيْ بُيُوْتِكُمْ ۔۔ : اس سے ان کے خیال کی تردید مقصود ہے، یعنی اگر تم اپنے گھروں میں بیٹھے رہتے تب بھی جن لوگوں کی قسمت میں قتل ہونا لکھا جا چکا تھا وہ ضرور اپنے گھروں سے نکلتے اور جہاں اب مارے گئے ہیں، وہیں مارے جاتے، کیونکہ اللہ کی تقدیر سے بھاگنے کا کوئی راستہ نہیں ہے۔ - 7 وَلِيَبْتَلِيَ اللّٰهُ مَا فِيْ صُدُوْرِكُمْ ۔۔ : یہ جملہ محذوف کی علت ہے، یعنی جنگ احد میں جو کچھ ہوا اور جن حالات سے مسلمان دوچار ہوئے، اس سے کئی اور حکمتوں کے ساتھ مقصود یہ بھی تھا کہ تمہارے دلوں کی حالت ظاہر ہوجائے اور تمہارے دل وساوس سے پاک ہوجائیں، یا یہ کہ منافقین کے دلوں کا نفاق باہر نکل آئے، چناچہ ایسا ہی ہوا اور احد کی لڑائی بگڑنے سے سارا بھانڈا پھوٹ گیا۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

احد کے مصائب سزا نہیں بلکہ آزمائش تھے اور جو لغزش بعض صحابہ کرام سے ہوئی وہ معاف کردی گئی - ولیبتلی اللہ ما فی صدور کم آلایتہ سے معلوم ہوا کہ غزوہ احد میں جو مصائب اور تکالیف صحابہ کرام کو پیش آئیں وہ بطو سزا نہیں بلکہ بطور آزمائش تھیں، اس امتحان کے ذریعہ مؤ منین، مخلصین اور منافقین میں فرق کا اظہار کرنا تھا اور اثابکم غماً کے الفاظ سے جو اس کا سزا ہونا معلوم ہوتا ہے اس کی تطبیق یہ ہے کہ صورت تو سزا ہی کی تھی مگر یہ سزا مربیانہ اصلاح کے لئے تھی، جیسے کوئی بات اپنے بیٹے کو، استاذ اپنے شاگرد کو کچھ سزا دیتا ہے تو عرف میں اس کو سزا بھی کہہ سکتے ہیں، مگر درحقیقت یہ تربیت اور اصلاح کی ایک صورت ہوتی ہے، حاکمانہ سزا اس سے مختلف ہے۔- واقعہ احد میں مسلمانوں پر مصائب کے اسباب کیا تھے ؟:۔ جملہ مذکور لیبتلی سے آخر آیت تک جو ارشاد ہے اس سے تو معلوم ہوتا ہے کہ وقوع مصائب کا سبب یہ ربانی حکمتیں تھیں، لیکن اگلی آیت میں انما استزلھم الشیطان بعض ماکسبوا سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ان حضرات کی کوئی سابقہ لغزش اس شیطانی اثر کا سبب ہے۔ جواب یہ ہے کہ ظاہری سبب تو وہ لغزش ہی ہوئی کہ اس کی وجہ سے شیطان کو ان سے اور معصیت کرا دینے کی بھی طمع ہوگئی اور اتفاق سے اس کی وہ طلمع پوری بھی ہوگئی، مگر اس لغزش اور اس کے پیچھے آنے والے نتائج میں یہ تکوینی حکمتیں مستر تھیں، جن کو لیبتلیکم دلائے جن کو لے کر حق تعالیٰ سے ملنا ان کو اچھا نہ معلوم ہوا، اس لئے جہاں سے ہٹ گئے، تاکہ وہ اپنی حالت کو درست کر کے پھر پسندیدہ حالت پر جہاد کریں اور شہید ہو کر اللہ سے ملیں۔ ایک گناہ دوسرے گناہ کا بھی سبب ہوجاتا ہے :۔ آیت مذکورہ سے معلوم ہوا کہ ایک گناہ دوسرے گناہ کو کھینچ لاتا ہے، جیسے ایک نیکی دوسری کو کھینچتی ہعے، بعض اعمال حسنہ اور سیسہ میں تجاذب ہے، جب انسان کوئی ایک نیک کام کرلیتا ہے تو تجربہ شاہد ہے اس کے لئے دوسری نیکیاں بھی آسان ہوا کرتی ہیں، اس کے دل میں نیک اعمال کی رغبت بڑھ جاتی ہے، اسی طرح انسان کوئی گناہ کرتا ہے تو وہ اس کے دسرے گناہوں کا راستہ ہموار کردیتا ہے، دل میں گناہ کی رغبت بڑھ جاتی ہے، اسی لئے بعض بزرگوں نے فرمایا۔- ” یعنی نیک کام کی ایک نقد جزاء وہ دوسری نیکی ہے جس کی توفیق اس کو ہوجاتی ہے اور برے عمل کی ایک سا وہ دوسرا گناہ جس کے لئے پہلے گناہ نے راستہ ہموار کردیا ہے۔ حضرت حکیم الامت نے مسائل السلوک میں فرمایا کہ حدیث کی تصریح کے مطابق گناہ سے قلب میں ایک ظلمت اور تاریکی پیدا ہوجاتی ہے اور جب قلب میں ظلمت آجاتی ہے تو شیطان قابو پا لیتا ہے۔- اللہ تعالیٰ کے نزدیک صحابہ کرام کا مقام بلند اور ان کی خطاؤں پر عفو و درگذر کا بیمثال معاملہ :۔- واقعہ احد میں جو لغزشیں اور خطائیں بعض اصحاب کرام سے صادر ہوئیں وہ اپنی ذات میں بڑی شدید اور سخت تھیں، جس مورچہ پر پچاس صحابہ کو یہ حکم دے کر بٹھایا تھا کہ ہم پر کچھ بھی حال گذرے تم یہاں سے نہ ہٹنا، ان کی بڑی تعداد یہاں سے ہٹ گی، اگرچہ ہٹنے کا سبب ان کی یہ اجتہادی غلطی سہی کہ اب فتح ہوچکی ہے اس حکم کی تعمیل پوری ہوچکی ہے، یہاں سے نیچے آ کر سب مسلمانوں کے ساتھ مل جانا چاہئے، مگر درحقیت آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی واضح ہدایات کے خلاف تھا، اسی خطاء و قصور کے نتیجہ میں میدان جنگ سے بھاگنے کی غلطی سر زد ہونی چاہئے اس میں بھی کسی تاویل ہی کا سہارا لیا گیا ہو، جیسا کہ زجاج سے اوپر نقل کیا جا چکا ہے پھر یہ میدان جنگ سے بھاگنا ایسی حالت میں ہوا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کے ساتھ ہیں اور پیچھے سے ان کو آواز دے رہے ہیں، یہ چیزیں اگر شخصیات اور گرد و پیش کے حالات سے الگ کر کے دیکھی جائیں تو بلاشبہ سخت ترین اور ایسے سنگین جرم تھے، کہ مشاجرات صحابہ کے سلسلہ میں مختف صحابہ پر جتن الزامات مخالفین کی طرف سے لگائے جاتے ہیں یہ ان سب سے زیادہ شدید جرائم کی حیثیت رکھتے ہیں۔ مگر غور کیجئے کہ حق تعالیٰ نے ان تمام خطاؤں اور لغزشوں کے بعد بھی ان حضرات کے ساتھ کیا معاملہ فرمایا، وہ مذکورہ آیات میں بڑی وضاحت سے آگیا کہ اول ظاہری انعام اونگھ کا بھیج کر انکی تکلیف اور تکان و پریشانی دور کی گئی، پھر یہ بتلایا گیا کہ جو مصائب اور غم مسلمانوں کو اس وقت پہنچا ہے وہ نری سزا اور عقوبت نہیں بلکہ اس میں کچھ مربیانہ حکمتیں مستور ہیں، پھر صاف لفظوں میں معافی کا اعلان فرمایا، یہ سب چیزیں ایک مرتبہ اس سے پہلے آ چکی ہیں، اس جگہ پھر ان کا اعادہ فرمایا، اس تکرار کی ایک حکمت یہ بھی ہے کہ پہلی مرتبہ تو خود صحابہ کرام کی تسلی کے لئے یہ ارشاد فرمایا گیا اور اس جگہ منافقین کے اس قول کا رد بھی مقصود ہے، جو وہ مسلمانوں سے کہتے تھے کہ تم نے ہماری رائے پر عمل نہ کیا اس لئے مصائب و تکالیف کا سامنا ہوا۔ بہرحال ان تمام آیات میں یہ بات بڑی وضاحت سے سامنے آگئی کہ حق تعالیٰ کی بارگاہ میں اپنے رسول محمد مصطفے (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھیوں کو محبوبیت کا وہ مقام حاصل ہے کہ اتنی بڑی عظیم خطاؤں اور لغزشوں کو باوجود ان کے ساتھ معاملہ صرف عفو و درگزر کا ہی نہیں، بلکہ لطف و کرم کار فرمایا گیا، یہ معاملہ تو خود حق تعالیٰ کا اور نصوص قرآنی کا بیان کیا کیا ہوا ہے، اسی طرح کا ایک معاملہ حضرت حاطب ابن ابی بلتعہ کا حضور کے سامنے پیش ہوا، انہوں نے مشرکین مکہ کو مسلمانوں کے حالات کے متعلق ایک خط لکھ رہا تھا، جب حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بذریعہ وحی اس کی حقیقت کھلی اور خط پکڑا گیا تو صحابہ کرام میں حاطب ابن ابی بلتعہ کے خلاف سخت غیظ و غضب تھا، فاروق اعظم، نے عرض کیا کہ مجھے اجازت دیجئے کہ اس منافق کی گردن مار دوں، مگر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو معلوم تھا کہ وہ منافق نہیں مومن مخلص ہیں مگر یہ غلطی ان سے سرزد ہوگئی۔ اس لئے اس کو معاف فرمایا اور فرمایا کہ یہ اہل بدر میں سے ہیں اور شاید اللہ تعالیٰ نے تمام حاضر بن بدر کے متعلق مغفرت اور معافی کا حکم نافذ کردیا ہے (یہ روایت حدیث کی سب معتبر کتب میں موجود ہے)- صحابہ کرام کے متعلق عام مسلمانوں کے لئے ایک سبق :۔- یہیں سے اہل سنت والجماعت کے اس عقیدہ اور عمل کی تصدیق ہوتی ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اگرچہ گناہوں سے معصوم نہیں، ان سے بڑے گناہ بھی ہو سکتے ہیں اور ہوئے بھی ہیں، لیکن اس کے باوجود امت کے لئے یہ جائز نہیں کہ ان کی طرف کسی برائی اور عیب کو منسوب کرے، جب اللہ تعالیٰ اور اس کو رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کی اتنی بڑی لغزشوں اور خطاؤں کو معاف کر کے ان کے ساتھ لطف و کرم کا معاملہ فرمایا اور ان کو (رض) و رضوا عنہ کا مقام عطا فرمایا، تو پھر کسی کو کیا حق ہے کہ ان میں سے کسی کا برائی کے ساتھ تذکرہ کرے۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمر کے سامنے ایک مرتبہ کسی نے حضرت عثمان غنی اور بعض صحابہ کرام پر غزوہ احد کے اسی واقعہ کا ذکر کر کے طعن کیا کہ میدان چھوڑ کر بھاگ گئے تھے۔ اس پر حضرت عبداللہ بن عمر نے فرمایا کہ جس چیز کی معافی کا اللہ تعالیٰ نے اعلان فرما دیا اس پر طعن کرنے کا کسی کو کیا حق ہے۔ (صحیح بخاری)- اس لئے اہل السنت و الجماعتہ کے عقائد کی کتابیں سب اس پر متفق ہیں کہ تمام صحابہ کرام کی تعظیم اور ان پر طعن اعتراض سے پرہیز واجب ہے، عقائد نسفیہ میں ہے :- ” یعنی واجب ہے کہ صحابہ کا ذکر بغیر خیر کے اور بھلائی کے نہ کرے۔ “- ” یعنی اہل السنتہ و الجماعتہ کا عقیدہ یہ ہے کہ تمام صحابہ کرام کو عدول و ثقافت سمجھیں، ان کا ذکر مدح وثناء کے ساتھ کریں۔ “” یعنی تمام صحابہ کی تعظیم واجب ہے، اور ان پر طعن و اعتراض سے باز رہنا واجب ہے۔ “- حافظ ابن تیمیمہ نے عقیدہ واسطیہ میں فرمایا ہے کہ :۔ اہل سنت والجماعتہ کا عقیدہ یہ ہے کہ صحابہ کرام کے درمیان جو اختلافات اور قتل و قتال ہوئے ہیں ان میں کسی پر الزام و اعتراض کرنے سے باز رہیں وجہ یہ ہے کہ تاریخ میں جو روایات ان کے عیوب کے متعلق آئی ہیں ان میں بکثرت تو جھوٹی اور غلط ہیں جو (دشمنوں نے اڑائی ہیں اور بعض وہ ہیں جن میں کمی بیشی کر کے اپنی اصلیت کے خلاف کردی گئی ہیں اور جو بات صحیح بھی ہے تو صحابہ کرام اس میں اجتہادی رائے کی بناء پر معذور ہیں اور بالفرض جہاں وہ معذور بھی نہ ہوں تو اللہ کا قانون یہ ہے کہ ان الحسنات یدھبن السیات یعنی اعمال صالحت کے مجولے اعمال کا بھی کفارہ ہوجاتا ہے، اور یہ ظاہر ہے کہ صحابہ کرام کے اعمال صالحہ کے برابر کسی دوسرے کے اعمال نہیں ہو سکتے، اور اللہ تعالیٰ کے عفو و کرم کے جتنے وہ مستحق ہیں کوئی دوسرا نہیں ہو سکتا، اس لئے کیسے ہو سکتے اور اللہ تعالیٰ کے عفو و کرم کے جتنے وہ مستحق ہیں کوئی دوسرا نہیں ہو سکتا، اس لئے کسی کو یہ حق نہیں کہ ان کے اعمال پر مواخذہ کرے اور ان میں سے کسی پر لعن و اعتراض کی زبان کھولے (عقیدہ واسطیہ ملخصاً ) ۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

ثُمَّ اَنْزَلَ عَلَيْكُمْ مِّنْۢ بَعْدِ الْغَمِّ اَمَنَۃً نُّعَاسًا يَّغْشٰى طَاۗىِٕفَۃً مِّنْكُمْ۝ ٠ ۙ وَطَاۗىِٕفَۃٌ قَدْ اَہَمَّـتْھُمْ اَنْفُسُھُمْ يَظُنُّوْنَ بِاللہِ غَيْرَ الْحَـقِّ ظَنَّ الْجَاہِلِيَّۃِ۝ ٠ ۭ يَقُوْلُوْنَ ھَلْ لَّنَا مِنَ الْاَمْرِ مِنْ شَيْءٍ۝ ٠ ۭ قُلْ اِنَّ الْاَمْرَ كُلَّہٗ لِلہِ۝ ٠ ۭ يُخْفُوْنَ فِيْٓ اَنْفُسِھِمْ مَّا لَا يُبْدُوْنَ لَكَ۝ ٠ ۭ يَقُوْلُوْنَ لَوْ كَانَ لَنَا مِنَ الْاَمْرِ شَيْءٌ مَّا قُتِلْنَا ھٰہُنَا۝ ٠ ۭ قُلْ لَّوْ كُنْتُمْ فِيْ بُيُوْتِكُمْ لَبَرَزَ الَّذِيْنَ كُتِبَ عَلَيْہِمُ الْقَتْلُ اِلٰى مَضَاجِعِھِمْ۝ ٠ ۚ وَلِــيَـبْتَلِيَ اللہُ مَا فِيْ صُدُوْرِكُمْ وَلِـيُمَحِّصَ مَا فِيْ قُلُوْبِكُمْ۝ ٠ ۭ وَاللہُ عَلِيْمٌۢ بِذَاتِ الصُّدُوْرِ۝ ١٥٤- نزل - النُّزُولُ في الأصل هو انحِطَاطٌ من عُلْوّ.- يقال : نَزَلَ عن دابَّته، والفَرْقُ بَيْنَ الإِنْزَالِ والتَّنْزِيلِ في وَصْفِ القُرآنِ والملائكةِ أنّ التَّنْزِيل يختصّ بالموضع الذي يُشِيرُ إليه إنزالُهُ مفرَّقاً ، ومرَّةً بعد أُخْرَى، والإنزالُ عَامٌّ ، فممَّا ذُكِرَ فيه التَّنزیلُ قولُه : نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء 193] وقرئ : نزل وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء 106] - ( ن ز ل ) النزول ( ض )- اصل میں اس کے معنی بلند جگہ سے نیچے اترنا کے ہیں چناچہ محاورہ ہے : ۔ نزل عن دابۃ وہ سواری سے اتر پڑا ۔ نزل فی مکان کذا کسی جگہ پر ٹھہر نا انزل وافعال ) اتارنا قرآن میں ہے ۔ عذاب کے متعلق انزال کا لفظ استعمال ہوا ہے قرآن اور فرشتوں کے نازل کرنے کے متعلق انزال اور تنزیل دونوں لفظ استعمال ہوئے ہیں ان دونوں میں معنوی فرق یہ ہے کہ تنزیل کے معنی ایک چیز کو مرۃ بعد اخریٰ اور متفرق طور نازل کرنے کے ہوتے ہیں ۔ اور انزال کا لفظ عام ہے جو ایک ہی دفعہ مکمل طور کیس چیز نازل کرنے پر بھی بولا جاتا ہے چناچہ وہ آیات ملا حضہ ہو جہاں تنزیل لا لفظ استعمال ہوا ہے ۔ نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء 193] اس کو امانت دار فر شتہ لے کر اترا ۔ ایک قرات میں نزل ہے ۔ وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء 106] اور ہم نے اس کو آہستہ آہستہ اتارا - أمن - أصل الأَمْن : طمأنينة النفس وزوال الخوف، والأَمْنُ والأَمَانَةُ والأَمَانُ في الأصل مصادر، ويجعل الأمان تارة اسما للحالة التي يكون عليها الإنسان في الأمن، وتارة اسما لما يؤمن عليه الإنسان، نحو قوله تعالی: وَتَخُونُوا أَماناتِكُمْ [ الأنفال 27] ، أي : ما ائتمنتم عليه، - ( ا م ن ) الامن ۔ اصل میں امن کا معنی نفس کے مطمئن ہونا کے ہیں ۔ امن ، امانۃ اور امان یہ سب اصل میں مصدر ہیں اور امان کے معنی کبھی حالت امن کے آتے ہیں اور کبھی اس چیز کو کہا جاتا ہے جو کسی کے پاس بطور امانت رکھی جائے ۔ قرآن میں ہے ؛۔ وَتَخُونُوا أَمَانَاتِكُمْ ( سورة الأَنْفال 27) یعنی وہ چیزیں جن پر تم امین مقرر کئے گئے ہو ان میں خیانت نہ کرو ۔ - نعس - النُّعَاسُ : النَّوْمُ القلیلُ. قال تعالی: إِذْ يُغَشِّيكُمُ النُّعاسَ أَمَنَةً [ الأنفال 11] ، نُعاساً [ آل عمران 154] وقیل : النُّعَاسُ هاهنا عبارةٌ عن السُّكُونِ والهُدُوِّ ، وإشارةٌ إلى قول النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم : «طُوبَى لِكُلِّ عَبْدٍ نُوَمَةٍ» ( ن ع س ) النعاس کے معنی اونگھ یا ہلکی سی نیند کے ہیں ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ إِذْ يُغَشِّيكُمُ النُّعاسَ أَمَنَةً [ الأنفال 11] جب اس نے تمہیں نیند کی چادر اڑھادی ۔ نُعاساً [ آل عمران 154] تسلی ۔۔۔۔ یعنی نیند بعض نے کہا ہے کہ یہاں نعاس سے مراد سکون اور اطمینان ہے اور یہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قول مبارک کی طرف اشارہ ہے طوبیٰ لکل عبد نومۃ کہ ہر باسکون آدمی کے لئے خوش خبری ہے ۔- غشي - غَشِيَهُ غِشَاوَةً وغِشَاءً : أتاه إتيان ما قد غَشِيَهُ ، أي : ستره . والْغِشَاوَةُ : ما يغطّى به الشیء، قال : وَجَعَلَ عَلى بَصَرِهِ غِشاوَةً [ الجاثية 23] - ( غ ش و ) غشیۃ غشاوۃ وغشاء - اس کے پاس اس چیز کی طرح آیا جو اسے چھپائے غشاوۃ ( اسم ) پر دہ جس سے کوئی چیز ڈھانپ دی جائے قرآن میں ہے : ۔ وَجَعَلَ عَلى بَصَرِهِ غِشاوَةً [ الجاثية 23] اور اس کی آنکھوں پر پر دہ ڈال دیا ۔ - طَّائِفَةُ- وَالطَّائِفَةُ من الناس : جماعة منهم، ومن الشیء : القطعة منه، وقوله تعالی:- فَلَوْلا نَفَرَ مِنْ كُلِّ فِرْقَةٍ مِنْهُمْ طائِفَةٌ لِيَتَفَقَّهُوا فِي الدِّينِ [ التوبة 122] ، قال بعضهم : قد يقع ذلک علی واحد فصاعدا وعلی ذلک قوله : وَإِنْ طائِفَتانِ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ [ الحجرات 9] ، إِذْ هَمَّتْ طائِفَتانِ مِنْكُمْ [ آل عمران 122] ، والطَّائِفَةُ إذا أريد بها الجمع فجمع طَائِفٍ ، وإذا أريد بها الواحد فيصحّ أن يكون جمعا، ويكنى به عن الواحد، ويصحّ أن يجعل کراوية وعلامة ونحو ذلك .- الطائفۃ (1) لوگوں کی ایک جماعت (2) کسی چیز کا ایک ٹکڑہ ۔ اور آیت کریمہ : فَلَوْلا نَفَرَ مِنْ كُلِّ فِرْقَةٍ مِنْهُمْ طائِفَةٌ لِيَتَفَقَّهُوا فِي الدِّينِ [ التوبة 122] تویوں کیوں نہیں کیا کہ ہر ایک جماعت میں چند اشخاص نکل جاتے تاکہ دین کا علم سیکھتے ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ کبھی طائفۃ کا لفظ ایک فرد پر بھی بولا جاتا ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ : وَإِنْ طائِفَتانِ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ [ الحجرات 9] ، اور اگر مومنوں میں سے کوئی دوفریق ۔۔۔ اور آیت کریمہ :إِذْ هَمَّتْ طائِفَتانِ مِنْكُمْ [ آل عمران 122] اس وقت تم میں سے دو جماعتوں نے چھوڑ دینا چاہا ۔ طائفۃ سے ایک فرد بھی مراد ہوسکتا ہے مگر جب طائفۃ سے جماعت مراد لی جائے تو یہ طائف کی جمع ہوگا ۔ اور جب اس سے واحد مراد ہو تو اس صورت میں یہ بھی ہوسکتا ہے کہ جمع بول کر مفر د سے کنایہ کیا ہو اور یہ بھی کہ راویۃ وعلامۃ کی طرح مفرد ہو اور اس میں تا برائے مبالغہ ہو )- همم - الهَمُّ الحَزَنُ الذي يذيب الإنسان . يقال : هَمَمْتُ الشّحم فَانْهَمَّ ، والهَمُّ : ما هممت به في نفسک، وهو الأصل، وَلَقَدْ هَمَّتْ بِهِ وَهَمَّ بِها[يوسف 24]- ( ھ م م ) الھم - کے معنی پگھلا دینے والے غم کے ہیں اور یہ ھممت الشحم فا نھم کے محاورہ سے ماخوذ ہے جس کے معنی ہیں میں نے چربی کو پگھلا یا چناچہ وہ پگھل گئی اصل میں ھم کے معنی اس ارادہ کے ہیں جو ابھی دل میں ہو قرآن میں ہے : ۔ وَلَقَدْ هَمَّتْ بِهِ وَهَمَّ بِها[يوسف 24] اور اس عورت نے ان کا قصد کیا وہ وہ اس کا قصد کرلیتے۔- ظن - والظَّنُّ في كثير من الأمور مذموم، ولذلک قال تعالی: وَما يَتَّبِعُ أَكْثَرُهُمْ إِلَّا ظَنًّا[يونس 36] ، وَإِنَّ الظَّنَ [ النجم 28] ، وَأَنَّهُمْ ظَنُّوا كَما ظَنَنْتُمْ [ الجن 7] ،- ( ظ ن ن ) الظن - اور ظن چونکہ عام طور پر برا ہوتا ہے اس لئے اس کی مذمت کرتے ہوئے فرمایا : وَما يَتَّبِعُ أَكْثَرُهُمْ إِلَّا ظَنًّا[يونس 36] اور ان میں کے اکثر صرف ظن کی پیروی کرتے ہیں ۔ - حقَ- أصل الحَقّ : المطابقة والموافقة، کمطابقة رجل الباب في حقّه لدورانه علی استقامة .- والحقّ يقال علی أوجه :- الأول :- يقال لموجد الشیء بسبب ما تقتضيه الحکمة، ولهذا قيل في اللہ تعالی: هو الحقّ قال اللہ تعالی: وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ وقیل بعید ذلک : فَذلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُمُ الْحَقُّ فَماذا بَعْدَ الْحَقِّ إِلَّا الضَّلالُ فَأَنَّى تُصْرَفُونَ [يونس 32] .- والثاني :- يقال للموجد بحسب مقتضی الحکمة، ولهذا يقال : فعل اللہ تعالیٰ كلّه حق، نحو قولنا : الموت حق، والبعث حق، وقال تعالی: هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس 5] ،- والثالث :- في الاعتقاد للشیء المطابق لما عليه ذلک الشیء في نفسه، کقولنا : اعتقاد فلان في البعث والثواب والعقاب والجنّة والنّار حقّ ، قال اللہ تعالی: فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة 213] .- والرابع :- للفعل والقول بحسب ما يجب وبقدر ما يجب، وفي الوقت الذي يجب، کقولنا :- فعلک حقّ وقولک حقّ ، قال تعالی: كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس 33] - ( ح ق ق) الحق ( حق )- کے اصل معنی مطابقت اور موافقت کے ہیں ۔ جیسا کہ دروازے کی چول اپنے گڑھے میں اس طرح فٹ آجاتی ہے کہ وہ استقامت کے ساتھ اس میں گھومتی رہتی ہے اور - لفظ ، ، حق ، ، کئی طرح پر استعمال ہوتا ہے - ۔ (1) وہ ذات جو حکمت کے تقاضوں کے مطابق اشیاء کو ایجاد کرے - ۔ اسی معنی میں باری تعالیٰ پر حق کا لفظ بولا جاتا ہے چناچہ قرآن میں ہے :۔ وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ پھر قیامت کے دن تمام لوگ اپنے مالک برحق خدا تعالیٰ کے پاس واپس بلائیں جائنیگے ۔ - (2) ہر وہ چیز جو مقتضائے حکمت کے مطابق پیدا کی گئی ہو - ۔ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ہر فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس 5] وہی تو ہے جس نے سورج کو روشن اور چاند کو منور بنایا اور اس کی منزلیں مقرر کیں ۔۔۔ یہ پ ( سب کچھ ) خدا نے تدبیر سے پیدا کیا ہے ۔- (3) کسی چیز کے بارے میں اسی طرح کا اعتقاد رکھنا - جیسا کہ وہ نفس واقع میں ہے چناچہ ہم کہتے ہیں ۔ کہ بعث ثواب و عقاب اور جنت دوزخ کے متعلق فلاں کا اعتقاد حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔۔ فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة 213] تو جس امر حق میں وہ اختلاف کرتے تھے خدا نے اپنی مہربانی سے مومنوں کو اس کی راہ دکھادی - ۔ (4) وہ قول یا عمل جو اسی طرح واقع ہو جسطرح پر کہ اس کا ہونا ضروری ہے - اور اسی مقدار اور اسی وقت میں ہو جس مقدار میں اور جس وقت اس کا ہونا واجب ہے چناچہ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے ۔ کہ تمہاری بات یا تمہارا فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس 33] اسی طرح خدا کا ارشاد ۔۔۔۔ ثابت ہو کر رہا ۔- جهل - الجهل علی ثلاثة أضرب :- الأول : وهو خلوّ النفس من العلم، هذا هو الأصل، وقد جعل ذلک بعض المتکلمین معنی مقتضیا للأفعال الخارجة عن النظام، كما جعل العلم معنی مقتضیا للأفعال الجارية علی النظام .- والثاني : اعتقاد الشیء بخلاف ما هو عليه .- والثالث : فعل الشیء بخلاف ما حقّه أن يفعل، سواء اعتقد فيه اعتقادا صحیحا أو فاسدا، كمن يترک الصلاة متعمدا، وعلی ذلک قوله تعالی: قالُوا : أَتَتَّخِذُنا هُزُواً ؟ قالَ : أَعُوذُ بِاللَّهِ أَنْ أَكُونَ مِنَ الْجاهِلِينَ [ البقرة 67]- ( ج ھ ل ) الجھل - ۔ ( جہالت ) نادانی جہالت تین قسم پر ہے - ۔ ( 1) انسان کے ذہن کا علم سے خالی ہونا اور یہی اس کے اصل معنی ہیں اور بعض متکلمین نے کہا ہے کہ انسان کے وہ افعال جو نظام طبعی کے خلاف جاری ہوتے ہیں ان کا مقتضی بھی یہی معنی جہالت ہے ۔- ( 2) کسی چیز کے خلاف واقع یقین و اعتقاد قائم کرلینا ۔ - ( 3) کسی کام کو جس طرح سر انجام دینا چاہئے اس کے خلاف سر انجام دنیا ہم ان سے کہ متعلق اعتقاد صحیح ہو یا غلط مثلا کوئی شخص دیا ۔ دانستہ نماز ترک کردے چناچہ اسی معنی کے اعتبار سے آیت : أَتَتَّخِذُنا هُزُواً ؟ قالَ : أَعُوذُ بِاللَّهِ أَنْ أَكُونَ مِنَ الْجاهِلِينَ [ البقرة 67] میں ھزوا کو جہالت قرار دیا گیا ہے ۔- هَلْ- : حرف استخبار، إما علی سبیل الاستفهام، وذلک لا يكون من اللہ عزّ وجلّ : قال تعالی: قُلْ هَلْ عِنْدَكُمْ مِنْ عِلْمٍ فَتُخْرِجُوهُ لَنا[ الأنعام 148] وإمّا علی التّقریر تنبيها، أو تبكيتا، أو نفیا . نحو : هَلْ تُحِسُّ مِنْهُمْ مِنْ أَحَدٍ أَوْ تَسْمَعُ لَهُمْ رِكْزاً [ مریم 98] . وقوله :- هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا[ مریم 65] ، فَارْجِعِ الْبَصَرَ هَلْ تَرى مِنْ فُطُورٍ [ الملک 3] كلّ ذلک تنبيه علی النّفي . وقوله تعالی: هَلْ يَنْظُرُونَ إِلَّا أَنْ يَأْتِيَهُمُ اللَّهُ فِي ظُلَلٍ مِنَ الْغَمامِ وَالْمَلائِكَةُ- [ البقرة 210] ، لْ يَنْظُرُونَ إِلَّا أَنْ تَأْتِيَهُمُ الْمَلائِكَةُ [ النحل 33] ، هَلْ يَنْظُرُونَ إِلَّا السَّاعَةَ [ الزخرف 66] ، هَلْ يُجْزَوْنَ إِلَّا ما کانوا يَعْمَلُونَ [ سبأ 33] ، هَلْ هذا إِلَّا بَشَرٌ مِثْلُكُمْ [ الأنبیاء 3] قيل : ذلک تنبيه علی قدرة الله، و تخویف من سطوته .- ( ھل ) ھل یہ حرف استخبار اور کبھی استفہام کے لئے آتا ہے ۔ جیسے قرآن پاک میں ہے : هَلْ عِنْدَكُمْ مِنْ عِلْمٍ فَتُخْرِجُوهُ لَنا[ الأنعام 148] کہدو کہ تمہارے پاس کوئی سند ہے اگر ہے تو اسے ہمارے سامنے نکالو ۔ اور کبھی تنبیہ تبکیت یا نفی کے لئے چناچہ آیات : ۔ هَلْ تُحِسُّ مِنْهُمْ مِنْ أَحَدٍ أَوْ تَسْمَعُ لَهُمْ رِكْزاً [ مریم 98] بھلا تم ان میں سے کسی کو دیکھتے ہو یار کہیں ان کی بھنکسنتے ہو ۔ هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا[ مریم 65] بھلا ئم اس کا کوئی ہم نام جانتے ہو ۔ فَارْجِعِ الْبَصَرَ هَلْ تَرى مِنْ فُطُورٍ [ الملک 3] ذرا آنکھ اٹھا کر دیکھو کیا تجھے ( آسمان میں ) کوئی شگاف نظر آتا ہے ۔ میں نفی کے معنی پائے جاتے ہیں ۔ اور آیات : ۔ هَلْ يَنْظُرُونَ إِلَّا أَنْ يَأْتِيَهُمُ اللَّهُ فِي ظُلَلٍ مِنَ الْغَمامِ وَالْمَلائِكَةُ [ البقرة 210] کیا یہ لوگ اسی بات کے منتظر ہیں کہ ان پر خدا کا عذاب ) بادل کے سائبانوں میں نازل ہو اور فرشتے بھی اتر آئیں ۔ ھلْ يَنْظُرُونَ إِلَّا أَنْ تَأْتِيَهُمُ الْمَلائِكَةُ [ النحل 33] یہ اس کے سوا اور کسی بات کے منتظر ہیں کہ ان کے پاس فرشتے آئیں ۔ هَلْ يَنْظُرُونَ إِلَّا السَّاعَةَ [ الزخرف 66] یہ صرف اس بات کے منتظر ہیں کہ قیامت هَلْ يُجْزَوْنَ إِلَّا ما کانوا يَعْمَلُونَ [ سبأ 33] یہ جیسے عمل کرتے ہیں ویسا ہی ان کو بدلہ ملے گا ۔ هَلْ هذا إِلَّا بَشَرٌ مِثْلُكُمْ [ الأنبیاء 3] یہ شخص کچھ بھی ) نہیں ہے مگر تمہارے جیسا آدمی ہے ۔ میں اللہ تعالیٰ کی قدرت پر تنبیہ اور اس کی سطوت سے تخو یف کی طرف اشارہ پایا جاتا ہے : ۔- خفی - خَفِيَ الشیء خُفْيَةً : استتر، قال تعالی: ادْعُوا رَبَّكُمْ تَضَرُّعاً وَخُفْيَةً [ الأعراف 55] ،- ( خ ف ی ) خفی ( س )- خفیتہ ۔ الشیء پوشیدہ ہونا ۔ قرآن میں ہے : ادْعُوا رَبَّكُمْ تَضَرُّعاً وَخُفْيَةً [ الأعراف 55] اپنے پروردگار سے عاجزی سے اور چپکے چپکے دعائیں مانگا کرو ۔- بدا - بَدَا الشیء بُدُوّاً وبَدَاءً أي : ظهر ظهورا بيّنا، قال اللہ تعالی: وَبَدا لَهُمْ مِنَ اللَّهِ ما لَمْ يَكُونُوا يَحْتَسِبُونَ [ الزمر 47] - ( ب د و ) بدا - ( ن ) الشئ یدوا وبداء کے معنی نمایاں طور پر ظاہر ہوجانا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے :۔ وَبَدا لَهُمْ مِنَ اللَّهِ ما لَمْ يَكُونُوا يَحْتَسِبُونَ [ الزمر 47] اور ان کیطرف سے وہ امر ظاہر ہوجائے گا جس کا ان کو خیال بھی نہ تھا ۔ - قتل - أصل القَتْلِ : إزالة الروح عن الجسد کالموت، لکن إذا اعتبر بفعل المتولّي لذلک يقال : قَتْلٌ ، وإذا اعتبر بفوت الحیاة يقال : موت . قال تعالی: أَفَإِنْ ماتَ أَوْ قُتِلَ [ آل عمران 144] - ( ق ت ل ) القتل - ( ن ) الموت کی طرح اس کے معنی بھی جسم سے روح کو زائل کرنے کے ہیں لیکن موت اور قتل میں فرق یہ ہے کہ اگر اس فعل کو سرا انجام دینے والے کا اعتبار کیا جائے تو اسے قتل کہا جاتا ہے اور اگر صرف روح کے فوت ہونے کا اعتبار کیا جائے تو اسے موت کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں قرآن میں ہے : ۔ أَفَإِنْ ماتَ أَوْ قُتِلَ [ آل عمران 144]- بيت - أصل البیت : مأوى الإنسان باللیل، قال عزّ وجلّ : فَتِلْكَ بُيُوتُهُمْ خاوِيَةً بِما ظَلَمُوا [ النمل 52] ، - ( ب ی ت ) البیت - اصل میں بیت کے معنی انسان کے رات کے ٹھکانہ کے ہیں ۔ کیونکہ بات کا لفظ رات کو کسی جگہ اقامت کرنے پر بولا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے ؛۔ فَتِلْكَ بُيُوتُهُمْ خاوِيَةً بِما ظ َلَمُوا [ النمل 52] یہ ان کے گھر ان کے ظلم کے سبب خالی پڑے ہیں ۔ - برز - البَرَاز : الفضاء، وبَرَزَ : حصل في براز، وذلک إمّا أن يظهر بذاته نحو : وَتَرَى الْأَرْضَ بارِزَةً- [ الكهف 47] تنبيها أنه تبطل فيها الأبنية وسكّانها، ومنه : المبارزة للقتال، وهي الظهور من الصف، قال تعالی: لَبَرَزَ الَّذِينَ كُتِبَ عَلَيْهِمُ الْقَتْلُ [ آل عمران 154] ، وقال عزّ وجلّ : وَلَمَّا بَرَزُوا لِجالُوتَ وَجُنُودِهِ [ البقرة 250] ، وإمّا أن يظهر بفضله، وهو أن يسبق في فعل محمود، وإمّا أن ينكشف عنه ما کان مستورا منه، ومنه قوله تعالی: وَبَرَزُوا لِلَّهِ الْواحِدِ الْقَهَّارِ [إبراهيم 48] ، وقال تعالی: يَوْمَ هُمْ بارِزُونَ [ غافر 16] ، وقوله : عزّ وجلّ : وَبُرِّزَتِ الْجَحِيمُ لِلْغاوِينَ [ الشعراء 91] تنبيها أنهم يعرضون عليها، ويقال : تَبَرَّزَ فلان، كناية عن التغوّط «1» . وامرأة بَرْزَة «2» ، عفیفة، لأنّ رفعتها بالعفة، لا أنّ اللفظة اقتضت ذلك .- ( ب رز ) البراز - کے معنی فضا یعنی کھلی جگہ کے ہیں ۔ اور برزرن کے معنی ہیں کھلی جگہ میں چلے جانا اور برود ( ظہور ) کئی طرح پر ہوتا ہے - ( 1) خود کسی چیز کا ظاہر ہوجانا - جیسے فرمایا : وَتَرَى الْأَرْضَ بارِزَةً [ الكهف 47] اور تم زمین کو صاف یہاں دیکھو گے ۔ اس میں تنبیہ ہے کہ زمین پر سے عمارات اور ان کے ساکنین سب ختم ہوجائیں گے اسی سے مبارزۃ ہے جسکے معنی صفوف جنگ سے آگے نکل کر مقابلہ کرنے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے ۔ لَبَرَزَ الَّذِينَ كُتِبَ عَلَيْهِمُ الْقَتْلُ [ آل عمران 154] تو جن کی تقدیر میں مارا جانا لکھا تھا وہ اپنی اپنی قتل گاہوں کی طرف ضرور نکل آتے ۔ وَلَمَّا بَرَزُوا لِجالُوتَ وَجُنُودِهِ [ البقرة 250] اور جب وہ لوگ جالوت اور اس کے لشکر کے بالمقابل میں آئے - ۔ ( 2) دوم بروز کے معنی فضیلت ظاہر ہونے کے ہیں - جو کسی محمود کام میں سبقت لے جانے سے حاصل ہوتی ہے - ۔ ( 3 ) کسی مستور چیز کا منکشف ہو کر سامنے آجانا - جیسے فرمایا : وَبَرَزُوا لِلَّهِ الْواحِدِ الْقَهَّارِ [إبراهيم 48] اور سب لوگ خدائے یگا نہ زبردست کے سامنے نکل کھڑے ہوں گے ۔ وَبَرَزُوا لِلَّهِ جَمِيعًا ( سورة إِبراهيم 21) اور قیامت کے دن سب لوگ خدا کے سامنے کھڑے ہونگے ۔ يَوْمَ هُمْ بارِزُونَ [ غافر 16] جس روز وہ نکل پڑیں گے ۔ اور آیت کریمہ : وَبُرِّزَتِ الْجَحِيمُ لِلْغاوِينَ [ الشعراء 91] اور دوزخ گمراہوں کے سامنے لائی جائے گی میں اس بات پر تنبیہ پائی جاتی ہے کہ انہیں دو زخ کے سامنے لایا جائیگا محاورہ ہے تبرز فلان کنایہ از قضائے حاجت اور پاکدامن عورت کو امراءۃ برزۃ کہا جاتا ہے کیونکہ اس کی رفعت پاک دامنی اور عفت میں مضمر ہوتی ہے نہ یہ کہ برزۃ کا لفظ اس معنی کا مقتضی ہے ۔- مضاجعھم - ۔ اسم ظرف مکان۔ مضاف۔ ہم ضمیر جمع مذکر غائب مضاف الیہ ۔ قتل گاہیں۔ مقتل ۔ صنجع سے جس کا اصل معنی سونا ہے لیکن سونے سے کبھی موت مراد لی جاتی ہے۔- صدر - الصَّدْرُ : الجارحة . قال تعالی: رَبِّ اشْرَحْ لِي صَدْرِي [ طه 25] ، وجمعه : صُدُورٌ. قال : وَحُصِّلَ ما فِي الصُّدُورِ [ العادیات 10] - ( ص در ) الصدر - سینہ کو کہتے ہیں قرآن میں ہے ۔ رَبِّ اشْرَحْ لِي صَدْرِي [ طه 25] میرے پروردگار اس کا م کے لئے میرا سینہ کھول دے ۔ اس کی جمع صدور آتی ہے جیسے فرمایا : وَحُصِّلَ ما فِي الصُّدُورِ [ العادیات 10] اور جو بھید دلوں میں وہ ظاہر کردیئے جائیں گے - محص - أصل المَحْصِ : تخلیص الشیء مما فيه من عيب کالفحص، لکن الفحص يقال في إبراز شيء من أثناء ما يختلط به، وهو منفصل عنه، والمَحْصُ يقال في إبرازه عمّا هو متّصل به، يقال : مَحَصْتُ الذّهب ومَحَّصْتُهُ : إذا أزلت عنه ما يشوبه من خبث . قال تعالی: وَلِيُمَحِّصَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا[ آل عمران 141] ، وَلِيُمَحِّصَ ما فِي قُلُوبِكُمْ [ آل عمران 154] ، فَالتَّمْحِيصُ هاهنا کالتّزكية والتّطهير ونحو ذلک من الألفاظ .- ويقال في الدّعاء : ( اللهمّ مَحِّصْ عنّا ذنوبنا) «5» أي : أزل ما علق بنا من الذّنوب . ومَحَصَ الثّوبُ «6» : إذا ذهب زِئبِرُهُ «7» ، ومَحَصَ الحبل يَمْحَصُ : أخلق حتی يذهب عنه وبره، ومَحَصَ الصّبيُّ : إذا عدا .- ( م ح ص ) المحص کے اصل معنی کسی چیز کو کھوٹ اور عیب سے پاک کرنے کے ہیں یہ فحص کے ہم معنی ہے مگر فحص کا لفظ ایک چیز کو دوسری ایسی چیزوں سے الگ کرنے پر بولا جاتا ہے جو اس میں مل جائیں لیکن درحقیقت اس سے منفصل ہوں مگر محص کا لفظ ان ملی ہوئی چیزوں کو کسی چیز سے الگ کرنے کے لئے آتا ہے جو اس سے متصل اور گھل مل گئی ہوں ۔۔۔۔۔ چناچہ محاورہ ہے : ۔ محصت الذھب ومخصتہ سونے کو آگ میں گلا کر اس کے کھوٹ کو الگ کردیا چناچہ آیات کریمہ : ۔ وَلِيُمَحِّصَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا[ آل عمران 141] اور یہ بھی مقصود تھا کہ خدا ایمان والوں کو خالص مومن بنادے وَلِيُمَحِّصَ ما فِي قُلُوبِكُمْ [ آل عمران 154] اور جو کچھ تمہارے دلوں میں ہے اس کو خالص اور صاف کردے ۔ میں دلوں کے پاک کرنے پر تمحیص کا استعمال ایسے ہی ہے جیسا کہ تزکیۃ اور اس قسم کے دوسرے الفاظ استعمال ہوتے ہیں چناچہ دعا کرتے وقت کہا جاتا ہے ۔ اللھم محص عنا ذنوبنا اے اللہ ہمارے گناہوں کو جو ہمارے ساتھ لگے ہوئے ہیں دور کر دے ۔ محص الثوب کپڑے کا رواں استعمال سے گھس گیا اور اس کی تاذگی چلی گئی ۔ محص الحبل یمحص رسی پرانی ہوگئی ۔ اور اس کا روآں صاف ہوگیا ۔ محص النبی بچہ ( طاقت ور ہوکر ) دوڑ نے لگا ۔ ( م ح ق ) المحق کے معنی گھٹنے اور کم ہونے کے ہیں اور اسی سے المحاق قمری مہینہ کی ان آخری راتوں کو کہتے ہیں جن میں چاند نمودار نہیں ہوتا ۔ انمحق وامتحق کے معنی کم ہونا اور مٹ جانا ہیں اور محقہ کے معنی کسی چیز کو کم کرنے اور اس سے برکت کو ختم کردینے کے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے ؛ يَمْحَقُ اللَّهُ الرِّبا وَيُرْبِي الصَّدَقاتِ [ البقرة 276] خدا سود کرنا بود ( یعنی بےبرکت کرتا ) اور خیرات ( کی برکت ) کو بڑھاتا ہے ۔ وَيَمْحَقَ الْكافِرِينَ [ آل عمران 141] اور کافروں کو نابود کردے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

میدان احد میں اللہ تعالیٰ کی مدد کی عجیب کیفیت - قول باری ہے (ثم انزل علیکم من بعد الغم امنۃ نعاسا لیغشی طائفۃ منکم ، اس غم کے بعد اللہ تعالیٰ نے تم میں سے کچھ لوگوں پر ایسی اطمنان کی سی حالت طاری کردی کہ وہ ادنگھنے لگے) حضرت طلحہ (رض) ، حضرت عبدالرحمن بن عوف (رض) ، حضرت زبیر (رض) ، قتادہ، ربیع بن انس کا قول ہے کہ یہ واقعہ غزوہ احد میں پیش آیا، مسلمانوں میں سے کچھ تو شکست کھاکرپیچھے ہٹ گئے، ساتھ ہی مشرکین کی طرف سے دوبارہ حملے کی دھمکی کی، ادھر جو مسلمان میدان جنگ میں ڈٹے رہے اور دشمن سے دودوہاتھ ہونے کے لیے پوری طری تیار تھے ان پر اللہ تعالیٰ نے اطمینان کی کیفیت طاری کردی اور وہ اونگھ گئے ، لیکن منافقین کو ان کے سوئے ظن اور خوف کے غلبے کی بناپر یہ کیفیت حاصل نہ ہوسکی۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صحابہ کا کہنا ہے کہ ہم سوگئے حتی کہ پورے لشکر میں اونگھ کی کیفیت میں منہ سے نکلنے والی آواز پھر گئی۔ منافقین کو یہ کیفیت نصیب نہیں ہوئی بلکہ انھین اپنے جان کے لالے پڑے رہے۔ ایک صحابی نے یہ کہا کہ میں نے نیم خوابی کے عالم میں معتب بن قشیر اور کچھ دوسرے منافقین کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ، اس کام کے چلانے میں ہمارا بھی کچھ حصہ ہے۔ ایسے موقعہ پر جبکہ دشمن سرپرسوار تھا، بہت سے رفقاء شکست کھاچکے تھے اور بہت سے شہید ہوچکے تھے، یہ اللہ کا محض لطف و کرم تھا اور اس کی طرف ہے نبوت کی نشانی کا اظہار کہ مسلمانوں کو اس وقت عین دشمنوں کے مقابلہ میں کھڑے کھڑے نیند آگئی حالانکہ وہ ایسا نازک وقت تھا کہ دیکھنے والے کی آنکھوں سے بھی گھبراہٹ کی وجہ سے نینداڑجاتی ہے چہ جاٹی کہ جو دشمن کے خلاف صف آراہوں اور دشمن کی تلواریں اور نیزے ان کی جان لینے اور ان کا نام ونشان مٹادینے کے لیے لہرا رہے ہوں۔ اس واقعہ میں کئی وجوہ سے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت کی صحت کی بڑی سے بڑی نشانی اور قوی سے قوی حجت اور دلیل موجود ہے۔- اول ایسے وقت میں اطمینان کا حصول جبکہ بظاہر دشمن غالب ہو، کسی طرف سے کسی کمک کے آنے کی امیدنہ ہو، دشمن کا زیادہ نقصان بھی نہ ہو اہو، نیز وہ میدان چھوڑکرجانا بھی نہ چاہتا ہو اور اس کی تعدادبھی کم نہ ہو۔ ایسے نازک وقت میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے خصوصی طورپر اہل ایمان ویقین کے دلوں میں اطمینان پیدا کردینا ان کے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صداقت کی بہت بڑی دلیل ہے دوم ایسے نازک موقعہ پر اونگھ کی کیفیت کا طاری ہوجانا جبکہ اس منظر کا مشاہدہ کرکے لوٹنے والے کی آنکھوں سے بھی نینداڑجاتی ہے، ان لوگوں کی حالت کا آسانی سے انداز ہ لگایا جاسکتا ہے جو اس منظر میں موجود ہیں اور دشمن انھیں ختم کرنے اور ان کا نام ونشان مٹانے پر تلاہوا ہے۔ سوم، اہل ایمان اور منافقین کے درمیان خط امتیاز کھینچ دینا کہ اول الذکرگردہ کو سکون واطمینان اور راونگھ جانے کی نعمت مل گئی جبکہ موخرالذکر گروہ انتہائی خوف ودہشت اور قلق واضطراب کے عالم میں گرفتاررہا بیشک پاک ہے وہ ذات جو عزیز وعلیم ہے۔ جو نیکوکاروں کے اجر کو ضائع ہونے نہیں دیتی۔

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(١٥٤) اس غم کے بعد اللہ تعالیٰ نے تم پر احسان فرمایا کہ اہل صدق ویقین کو کفار سے بھاگنے کے بعد ایک اونگھ جیسے سکینت آگئی۔- (جنگ کی اس شدید افراتفری میں جب جسم وذہن پر شدید بوجھ ہوتا ہے اور جنگ کے مہیب شعلے اور تڑپتی لاشیں، زخمیوں کی چیخ و پکار کے اس سخت ترین ماحول میں کہ جب نیند اڑ جاتی ہے اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو بطور سکینت نیند کے جھونکے دے کر تروتازہ کردیا۔ ابوطلحہ کا بیان ہے کہ میں بھی ان لوگوں میں تھا، جن پر احد کے روز نیند چھا رہی تھی، یہاں تک کہ میرے ہاتھ سے کئی بار تلوار گرگئی، حالت یہ تھی کہ وہ گرتی تھی اور میں پکڑتا تھا، پھر گرتی تھی اور میں پھر پکڑتا تھا۔ (صحیح بخاری جلد ٢ صفحہ ٨٥٢)- جس سے انکا سارا غم دور ہوگیا اور دوسری معتب بن قشیر منافق کی جماعت کو اپنی جان کی فکروہی رہی تھی ان پر اونگھ طاری نہیں ہوئی یہ لوگ جاہلیت کے عقیدہ کے مطابق یہ سمجھے ہوئے تھے کہ اللہ تعالیٰ اپنے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ کرام (رض) کی مدد نہیں فرمائے گا اور یہ کہہ رہے تھے کہ ہمارا ہی سب کچھ اختیار چلتا ہے، محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ فرما دیجیے کہ دولت ونصرت سب اللہ تعالیٰ کے قبضہ قدرت میں ہے۔- یہ منافق اپنے دلوں میں ایسی خطرناک سازش پوشیدہ رکھتے ہیں، جو آپ کے سامنے قتل ہونے کے ڈر سے ظاہر نہیں کرتے۔- اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ ان منافقین سے فرما دیجیے کہ اگر تم مدینہ منورہ میں بھی ہوتے تو جن کے مقدر میں قتل ہونا لکھا جا چکا تھا وہ ضرور احد کے میدان میں آتے یہ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ منافقین کے دلوں کی آزمائش کرتا اور ان کے نفاق کو سامنے لاتا ہے اور ان کے دلوں میں جو خیر و شر ہے، اللہ تعالیٰ اسے خوب جانتا ہے۔- شان نزول : (آیت) ” انزل علیکم من بعد “۔ (الخ)- ابن راہویہ نے حضرت زبیر (رض) سے روایت کیا ہے فرماتے ہیں کہ احد کے دن جب ہم پر دشمنوں کا خوف ہوا سمجھے دیکھتے کہ ہم میں سے ہر ایک پر ایک قسم کی اونگھ طاری ہوگئی اور میں خواب دیکھنے کی طرح معتب بن قشیر کا یہ قول سن رہا تھا کہ اگر اہمار اکچھ اور اختیار چلتا تو ہم یہاں مقتول نہ ہوتے، میں نے اس کے اس قول کو یاد کرلیا، اسی حوالے سے اللہ تعالیٰ نے (آیت) ” ثم انزل “۔ سے ”۔ علیم بذات الصدور “۔ تک یہ آیات نازل فرمائیں۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ١٥٤ (ثُمَّ اَنْزَلَ عَلَیْکُمْ مِّنْم بَعْدِ الْغَمِّ اَمَنَۃً (نُّعَاسًا یَّغْشٰی طَآءِفَۃً مِّنْکُمْ لا) - انسان کو نیند جو آتی ہے یہ اطمینان قلب کا مظہر ہوتی ہے کہ جیسے اب اس نے سب کچھ بھلا دیا۔ عین حالت جنگ میں ایسی کیفیت اللہ کی رحمت کا مظہر تھی۔- (وَطَاءِفَۃٌ قَدْ اَہَمَّتْہُمْ اَنْفُسُہُمْ ) (یَظُنُّوْنَ باللّٰہِ غَیْرَ الْحَقِّ ظَنَّ الْجَاہِلِیَّۃِط ) ۔- عبداللہ بن ابی اور اس کے تین سو ساتھی تو میدان جنگ کے راستے ہی سے واپس ہوگئے تھے۔ اس کے بعد بھی اگر مسلمانوں کی جماعت میں کچھ منافقین باقی رہ گئے تھے تو ان کا حال یہ تھا کہ اس وقت انہیں اپنی جانوں کے لالے پڑے ہوئے تھے۔ ایسی کیفیت میں انہیں اونگھ کیسے آتی ؟ ان کا حال تو یہ تھا کہ ان کے دلوں میں وسوسے آ رہے تھے کہ اللہ نے تو مدد کا وعدہ کیا تھا ‘ لیکن وہ وعدہ پورا نہیں ہوا ‘ اللہ کی بات سچی ثابت نہیں ہوئی۔ اس طرح ان کے دل و دماغ میں خلاف حقیقت زمانۂ جاہلیت کے گمان پیداہو رہے تھے۔ - (یَقُوْلُوْنَ ہَلْ لَّنَا مِنَ الْاَمْرِ مِنْ شَیْءٍ ط) - یہ وہ لوگ ہوسکتے ہیں جنہوں نے جنگ سے قبل مشورہ دیا تھا (جیسے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اپنی رائے بھی تھی) کہ مدینے کے اندر محصور رہ کر جنگ کی جائے۔ جب ان کے مشورے پر عمل نہیں ہوا تو وہ کہنے لگے کہ ان معاملات میں ہمارا بھی کوئی اختیار ہے یا ساری بات محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہی کی چلے گی ؟ یہ بھی جماعتی زندگی کی ایک خرابی ہے کہ ہر شخص چاہتا ہے کہ میری بات بھی مانی جائے ‘ میری رائے کو بھی اہمیت دی جائے۔ آخر ہم سب اپنے امیر ہی کی رائے کیوں مانتے چلے جائیں ؟ ہمارا بھی کچھ اختیار ہے یا نہیں ؟- (قُلْ اِنَّ الْاَمْرَ کُلَّہٗ لِلَّہِ ط) ۔- (یُخْفُوْنَ فِیْ اَنْفُسِہِمْ مَّا لاَ یُبْدُوْنَ لَکَ ط) - ان کے دل میں کیا ہے ‘ اب اللہ کھول کر بتارہا ہے۔- (یَقُوْلُوْنَ لَوْ کَانَ لَنَا مِنَ الْاَمْرِ شَیْءٌ مَّا قُتِلْنَا ہٰہُنَا ط) ۔- اگر ہماری رائے مانی جاتی ‘ ہمارے مشورے پر عمل ہوتا تو ہم یہاں قتل نہ ہوتے۔ یعنی ہمارے اتنے لوگ یہاں پر شہید نہ ہوتے۔ - (قُلْ لَّوْ کُنْتُمْ فِیْ بُیُوْتِکُمْ ) (لَبَرَزَ الَّذِیْنَ کُتِبَ عَلَیْہِمُ الْقَتْلُ اِلٰی مَضَاجِعِہِمْ ج) - اللہ کی مشیت میں جن کے لیے طے تھا کہ انہیں شہادت کی خلعت فاخرہ پہنائی جائے گی وہ خود بخود اپنے گھروں سے نکل آتے اور کشاں کشاں ان جگہوں پر پہنچ جاتے جہاں انہوں نے خلعت شہادت زیب تن کرنی تھی۔ یہ تو اللہ تعالیٰ کے فیصلے ہوتے ہیں ‘ تمہاری تدبیر سے ان کا کوئی تعلق نہیں ہے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة اٰلِ عِمْرٰن حاشیہ نمبر :112 یہ ایک عجیب تجربہ تھا جو اس وقت لشکر اسلام کے بعض لوگوں کو پیش آیا ۔ حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ جو اس جنگ میں شریک تھے خود بیان کرتے ہیں کہ اس حالت میں ہم پر اونگھ کا ایسا غلبہ ہو رہا تھا کہ تلواریں ہاتھ سے چھوٹی پڑتی تھیں ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

51: جنگ احد میں جو غیر متوقع شکست ہوئی، اس پر صحابہ صدمے سے مغلوب ہو رہے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے دشمن کے جانے کے بعد بہت سے صحابہ پر اونگھ مسلط فرما دی جس سے غم غلط ہوگیا۔ 52: یہ منافقین کا ذکر ہے وہ جو کہہ رہے تھے کہ : کیا ہمیں بھی کوئی اختیار حاصل ہے؟ اس کا ظاہری مطلب تو یہ تھا کہ اللہ کی تقدیر کے آگے کسی کا اختیار نہیں چلتا اور یہ بات صحیح تھی ؛ لیکن ان کا اصل مقصد وہ تھا جو آگے قرآن کریم نے دہرایا ہے یعنی یہ کہ اگر ہماری بات مانی جاتی اور باہر نکل کر دشمن کا مقابلہ کرنے کے بجائے شہر میں رہ کر دفاع کیا جاتا تواتنے سارے آدمیوں کے قتل کی نوبت نہ آتی. 53: اشارہ اس طرف ہے کہ اس طرح کے مصائب سے ایمان میں پختگی آتی ہے اور باطنی بیماریاں دور ہوتی ہیں.