186۔ 1 اہل ایمان کو ان کے ایمان کے مطابق آزمانے کا بیان ہے، جیسا کہ سورة بقرہ کی آیت نمبر 155 میں گزر چکا ہے۔ اس آیت کی تفسیر میں ایک واقعہ بھی آتا ہے کہ رئیس المنافقین عبد اللہ بن ابی نے ابھی اسلام کا اظہار نہیں کیا تھا اور جنگ بدر بھی نہیں ہوئی تھی کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حضرت سعد بن عباد (رض) کی عیادت کے لئے بنی حارث بن خزرج میں تشریف لے گئے۔ راستے میں ایک مجلس میں مشرکین، یہود اور عبد اللہ بن ابی وغیرہ بیٹھے ہوئے تھے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سواری کی جو گرد اٹھی، اس نے اس پر بھی ناگواری کا اظہار کیا اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انہیں ٹھہر کر قبول اسلام کی دعوت بھی دی جس پر عبد اللہ بن ابی نے گستاخانہ کلمات بھی کہے۔ وہاں بعض مسلمان بھی تھے، انہوں نے اس کے برعکس آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تحسین فرمائی، قریب تھا کہ ان کے مابین جھگڑا ہوجائے، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سب کو خاموش کرایا پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حضرت سعد (رض) کے پاس پہنچے تو انہیں بھی یہ واقعہ سنایا، جس پر انہوں نے فرمایا کہ عبد اللہ بن ابی یہ باتیں اس لئے کرتا ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مدینہ آنے سے قبل، یہاں کے باشندوں کو اس کی تاج پوشی کرنی تھی، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے آنے سے اس کی سرداری کا یہ حسین خواب ادھورا رہ گیا، جس کا اسے سخت صدمہ ہے اور اس کی یہ باتیں اس کے اس بغض وعناد کا مظہر ہیں، اس لئے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) در گزر ہی سے کام لیں (صحیح بخاری) 186۔ 2 اہل کتاب سے مراد یہود و نصاریٰ ہیں۔ یہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اسلام اور مسلمانوں کے خلاف مختلف انداز سے طعن وتشنیع کرتے رہتے تھے۔ اسی طرح مشرکین عرب کا حال تھا۔ علاوہ ازیں مدینہ میں آنے کے بعد منافقین بالخصوص ان کا رئیس عبد اللہ بن ابی بھی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شان میں استخفاف کرتا رہتا تھا۔ آپ کے مدینہ آنے سے قبل اہل مدینہ اسے اپنا سردار بنانے لگے تھے اور اس کے سر پر تاج سیادت رکھنے کی تیاری مکمل ہوچکی تھی کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے آنے سے اس کا یہ سارا خواب بکھر کر رہ گیا، جس کا اسے شدید صدمہ تھا چناچہ انتقام کے طور پر بھی یہ شخص آپ کے خلاف کوئی موقعہ ہاتھ سے نہیں جانے دیتا تھا (جیسا کہ صحیح بخاری کے حوالے سے اس کی ضروری تفصیل گزشتہ حاشیہ میں ہی بیان کی گئی ہے) ان حالات میں مسلمانوں کو عفو و درگزر اور صبر اور تقویٰ اختیار کرنے کی تلقین کی جارہی ہے۔ جس سے معلوم ہوا کہ داعیانِ حق کا اذیتوں اور مشکلات سے دو چار ہونا اس راہ حق کے ناگزیر مرحلوں میں سے ہے اور اس کا علاج صبر فی اللہ، استعانت باللہ اور رجوع الی اللہ کے سوا کچھ نہیں (ابن کثیر)
[١٨٥] یہ انتباہ کرکے مسلمانوں کو اسلام کی راہ میں پیش آنے والی مشکلات کے لیے آمادہ کیا جارہا ہے اور آزمائش کے فوائد پہلے بتلائے جاچکے ہیں۔ مختصراً یہ کہ ابتلاء سے صبر و استقامت کی عادت پیدا ہوتی ہے۔ اخلاقی کمزوریوں کا علاج ہوتا ہے۔ درجات بلند ہوتے ہیں اور مومنوں اور منافقوں میں امتیاز ہوجاتا ہے۔- [١٨٦] یہود اور مشرکین کے ہاتھوں مسلمانوں کو جو تکالیف پہنچیں ان کی فہرست بڑی طویل ہے، اور کتاب و سنت میں جا بجا مذکور ہیں۔ ان کا حصران حواشی میں ممکن نہیں، بلکہ اگر یوں کہا جائے کہ دور نبوی میں ہجرت نبوی سے پہلے بھی اور بعد میں بھی آپ کی زندگی انہیں لوگوں سے دکھ اٹھاتے گزری تو بےجا نہ ہوگا، اور مسلمانوں کو یہ خبر اس لیے دی جارہی ہے کہ ذہنی طور پر مسلمان ان تکلیفوں کو برداشت کرنے کے لیے تیار رہیں۔
یہ خطاب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور عام مسلمانوں سے ہے کہ آئندہ بھی جان و مال میں تمہاری آزمائش ہوگی اور تمہیں ہر قسم کی قربانیاں پیش کرنا ہوں گی، جیسے اموال کا تلف ہوجانا اور بیمار پڑجانا وغیرہ۔ اہل کتاب اور مشرکین کی زبانوں سے تمہیں انتہائی دل آزار اور جگر خراش طعن و تشنیع، بےہودہ گفتگو اور جھوٹے الزامات سننا پڑیں گے، جیسا کہ منافقین نے ہر طرح ستایا۔ سورة منافقون اور سورة توبہ میں تفصیل دیکھ لیں، نیز کعب بن اشرف یہودی نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ کرام (رض) کی ہجو کی اور اپنے قصائد میں مسلمان خواتین کا نام لے کر تشبیب کہی۔ مگر ان کا علاج یہ ہے کہ تم صبر، یعنی ثابت قدمی اور استقلال سے کام لو اور اللہ تعالیٰ کا تقویٰ اپنے دلوں میں رکھو۔ اگر صبر اور تقویٰ سے ان آزمائشوں کا مقابلہ کرو گے تو یہ نہایت ہمت، حوصلہ اور اولو العزمی کا کام ہے۔ چناچہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ کرام (رض) ہمیشہ صبر اور تقویٰ سے کام لیتے رہے، حتیٰ کہ حالت جنگ میں بھی نہ ان کی طرح بد زبانی سے کام لیا اور نہ عملاً اس طرح زیادتی کی جس طرح انھوں نے کی تھی۔
لَتُبْلَوُنَّ فِيْٓ اَمْوَالِكُمْ وَاَنْفُسِكُمْ ٠ ۣ وَلَتَسْمَعُنَّ مِنَ الَّذِيْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ مِنْ قَبْلِكُمْ وَمِنَ الَّذِيْنَ اَشْرَكُوْٓا اَذًى كَثِيْرًا ٠ ۭ وَاِنْ تَصْبِرُوْا وَتَتَّقُوْا فَاِنَّ ذٰلِكَ مِنْ عَزْمِ الْاُمُوْرِ ١٨٦- بلی - يقال : بَلِيَ الثوب بِلًى وبَلَاءً ، أي : خلق، ومنه قيل لمن سافر : بلو سفر وبلي سفر، أي : أبلاه السفر، وبَلَوْتُهُ : اختبرته كأني أخلقته من کثرة اختباري له، وقرئ : هُنالِكَ تَبْلُوا كُلُّ نَفْسٍ ما أَسْلَفَتْ [يونس 30] ، أي : تعرف حقیقة ما عملت، ولذلک قيل : بلوت فلانا : إذا اختبرته، وسمّي الغم بلاءً من حيث إنه يبلي الجسم، قال تعالی: وَفِي ذلِكُمْ بَلاءٌ مِنْ رَبِّكُمْ عَظِيمٌ [ البقرة 49] - ( ب ل ی )- بلی الو ب ۔ بلی وبلاء کے معنی کپڑے کا بوسیدہ اور پرانا ہونے کے ہیں اسی سے بلاہ السفرہ ای ابلاہ ۔ کا تج اور ہ ہے ۔ یعنی سفر نے لا غر کردیا ہے اور بلو تہ کے معنی ہیں میں نے اسے آزمایا ۔ گویا کثرت آزمائش سے میں نے اسے کہنہ کردیا اور آیت کریمہ : هُنالِكَ تَبْلُوا كُلُّ نَفْسٍ ما أَسْلَفَتْ «3» [يونس 30] وہاں ہر شخص ( اپنے اعمال کی ) جو اس نے آگے بھیجے ہوں گے آزمائش کرلے گا ۔ میں ایک قرآت نبلوا ( بصیغہ جمع متکلم ) بھی ہے اور معنی یہ ہیں کہ وہاں ہم ہر نفس کے اعمال کی حقیقت کو پہچان لیں گے اور اسی سے ابلیت فلان کے معنی کسی کا امتحان کرنا بھی آتے ہیں ۔ اور غم کو بلاء کہا جاتا ہے کیونکہ وہ جسم کو گھلا کر لاغر کردیتا ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ وَفِي ذلِكُمْ بَلاءٌ مِنْ رَبِّكُمْ عَظِيمٌ [ البقرة 49] اور اس میں تمہارے پروردگار کی طرف سے بڑی سخت آزمائش تھی ۔- ميل - المَيْلُ : العدول عن الوسط إلى أَحَد الجانبین، والمَالُ سُمِّي بذلک لکونه مائِلًا أبدا وزَائلا،- ( م ی ل ) المیل - اس کے معنی وسط سے ایک جانب مائل ہوجانے کے ہیں اور المال کو مال اس لئے کہا جاتا ہے ۔ کہ وہ ہمیشہ مائل اور زائل ہوتا رہتا ہے ۔ - سمع - السَّمْعُ : قوّة في الأذن به يدرک الأصوات، وفعله يقال له السَّمْعُ أيضا، وقد سمع سمعا .- ويعبّر تارة بالسمّع عن الأذن نحو : خَتَمَ اللَّهُ عَلى قُلُوبِهِمْ وَعَلى سَمْعِهِمْ- [ البقرة 7] ، وتارة عن فعله كَالسَّمَاعِ نحو : إِنَّهُمْ عَنِ السَّمْعِ لَمَعْزُولُونَ [ الشعراء 212] ، وقال تعالی: أَوْ أَلْقَى السَّمْعَ وَهُوَ شَهِيدٌ [ ق 37] ، وتارة عن الفهم، وتارة عن الطاعة، تقول : اسْمَعْ ما أقول لك، ولم تسمع ما قلت، وتعني لم تفهم، قال تعالی: وَإِذا تُتْلى عَلَيْهِمْ آياتُنا قالُوا قَدْ سَمِعْنا لَوْ نَشاءُ لَقُلْنا[ الأنفال 31] ، - ( س م ع ) السمع ۔ قوت سامعہ - ۔ کا ن میں ایک حاسہ کا نام ہے جس کے ذریعہ آوازوں کا اور اک ہوتا ہے اداس کے معنی سننا ( مصدر ) بھی آتے ہیں اور کبھی اس سے خود کان مراد لیا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ خَتَمَ اللَّهُ عَلى قُلُوبِهِمْ وَعَلى سَمْعِهِمْ [ البقرة 7] خدا نے ان کے دلوں اور کانوں پر مہر لگا رکھی ہے ۔ اور کبھی لفظ سماع کی طرح اس سے مصدر ی معنی مراد ہوتے ہیں ( یعنی سننا ) چناچہ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّهُمْ عَنِ السَّمْعِ لَمَعْزُولُونَ [ الشعراء 212] وہ ( آسمائی باتوں کے ) سننے ( کے مقامات ) سے الگ کردیئے گئے ہیں ۔ أَوْ أَلْقَى السَّمْعَ وَهُوَ شَهِيدٌ [ ق 37] یا دل سے متوجہ ہو کر سنتا ہے ۔ اور کبھی سمع کے معنی فہم و تدبر اور کبھی طاعت بھی آجاتے ہیں مثلا تم کہو ۔ اسمع ما اقول لک میری بات کو سمجھنے کی کوشش کرو لم تسمع ماقلت لک تم نے میری بات سمجھی نہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَإِذا تُتْلى عَلَيْهِمْ آياتُنا قالُوا قَدْ سَمِعْنا لَوْ نَشاءُ لَقُلْنا[ الأنفال 31] اور جب ان کو ہماری آیتیں پڑھ کر سنائی جاتی ہیں تو کہتے ہیں ( یہ کلام ) ہم نے سن لیا ہے اگر چاہیں تو اسی طرح کا ( کلام ) ہم بھی کہدیں ۔ - شرك - وشِرْكُ الإنسان في الدّين ضربان :- أحدهما : الشِّرْكُ العظیم،- وهو : إثبات شريك لله تعالی. يقال : أَشْرَكَ فلان بالله، وذلک أعظم کفر . قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ لا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ [ النساء 48] ، - والثاني : الشِّرْكُ الصّغير،- وهو مراعاة غير اللہ معه في بعض الأمور، وهو الرّياء والنّفاق المشار إليه بقوله : جَعَلا لَهُ شُرَكاءَ فِيما آتاهُما فَتَعالَى اللَّهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ- [ الأعراف 190] ،- ( ش ر ک ) الشرکۃ والمشارکۃ - دین میں شریک دو قسم پر ہے - ۔ شرک عظیم یعنی اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی دوسرے کو شریک ٹھہرانا اور اشراک فلان باللہ کے معنی اللہ کے ساتھ شریک ٹھہرانے کے ہیں اور یہ سب سے بڑا کفر ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّ اللَّهَ لا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ [ النساء 48] خدا اس گناہ کو نہیں بخشے گا کہ کسی کو اس کا شریک بنایا جائے ۔ - دوم شرک صغیر - کو کسی کام میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی دوسرے کو بھی جوش کرنے کی کوشش کرنا اسی کا دوسرا نام ریا اور نفاق ہے جس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : جَعَلا لَهُ شُرَكاءَ فِيما آتاهُما فَتَعالَى اللَّهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ [ الأعراف 190] تو اس ( بچے ) میں جو وہ ان کو دیتا ہے اس کا شریک مقرر کرتے ہیں جو وہ شرک کرتے ہیں ۔ خدا کا ( رتبہ ) اس سے بلند ہے ۔
(١٨٦) کفار رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ کرام کو جو تکالیف پہنچاتے تھے اللہ تعالیٰ اس کا ذکر فرماتے ہیں۔ اپنے اموال کے ختم ہوجانے بیماریوں اور قتل ہر قسم کی تکالیف سے آزمائے جاؤ گے اور یہود و نصاری اور مشرکین عرب سے گالی گلوچ طعن وتشنیع اور اللہ تعالیٰ پر الزامات سنو گے، اگر ان الزامات اور اس طرح کی دیگر تکالیف میں صبر کرکے اللہ کی نافرمانی سے بچو گے تو یہ صبر بہترین کاموں اور بہت تاکیدی امور سے ہے۔- شان نزول : (آیت) ” ولتسمعن من الذین “۔ (الخ)- ابن ابی حاتم (رح) اور ابن منذر (رح) نے سند حسن کے ساتھ حضرت ابن عباس (رض) سے روایت نقل کی ہے کہ (آیت) ” ان اللہ فقیرا “۔ سے یہاں تک حضرت ابوبکرصدیق (رض) اور فخاص کے مابین جو معاملہ پیش آیا اس کے بارے میں یہ آیتیں نازل ہوئی ہیں۔- اور عبدالرزاق (رح) نے بواسطہ معمر، زہری، کعب بن مالک (رض) سے روایت کیا کہ کعب بن اشرف یہودی رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور حضرات صحابہ (رض) کی شان میں ہجو (توہین و گستاخی) کے اشعار کہا کرتا تھا، اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ (لباب النقول فی اسباب النزول از علامہ سیوطی (رح )
آیت ١٨٦ (لَتُبْلَوُنَّ فِیْ اَمْوَالِکُمْ وَاَنْفُسِکُمْ قف) - یہ وہی مضمون ہے جو سورة البقرۃ کے انیسویں رکوع میں گزر چکا ہے : (وَلَنَبْلُوَنَّکُمْ بِشَیْءٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَالْجُوْعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الْاَمْوَالِ وَالْاَنْفُسِ وَالثَّمَرٰتِ ط) (آیت ١٥٥) اور ہم تمہیں لازماً آزمائیں گے کسی قدر خوف سے اور بھوک سے اور مالوں ‘ جانوں اور ثمرات کے نقصان سے۔ یہاں مجہول کا صیغہ ہے کہ تمہیں لازماً آزمایا جائے گا ‘ تمہاری آزمائش کی جائے گی تمہارے مالوں میں بھی اور تمہاری جانوں میں بھی۔ کان کھول کر سن لو کہ یہ ایمان کا راستہ پھولوں کی سیج نہیں ہے ‘ یہ کانٹوں بھرا بستر ہے۔ ایسا نہیں ہوگا کہ ٹھنڈے ٹھنڈے اور بغیر تکلیفیں اٹھائے تمہیں جنت مل جائے گی۔ سورة البقرۃ (آیت ٢١٤) میں ہم پڑھ چکے ہیں کہ کیا تم نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ یونہی جنت میں داخل ہوجاؤ گے حالانکہ ابھی تو تم پر وہ حالات و واقعات وارد نہیں ہوئے جو تم سے پہلوں پر ہوئے تھے۔۔- (وَلَتَسْمَعُنَّ مِنَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْکِتٰبَ مِنْ قَبْلِکُمْ وَمِنَ الَّذِیْنَ اَشْرَکُوْآ اَذًی کَثِیْرًا ط) - یہ سب کچھ سنو اور صبر کرو۔ جیسے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ابتدا میں کہا گیا تھا : (وَاصْبِرْ عَلٰی مَا یَقُوْلُوْنَ وَاھْجُرْھُمْ ھَجْرًا جَمِیْلًا ) (المزمل) اور ان باتوں پر صبر کیجیے جو یہ لوگ کہتے ہیں اور وضعداری کے ساتھ ان سے الگ ہوجایئے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کیا کچھ نہیں سننا پڑا۔ کسی نے کہہ دیا مجنون ہے ‘ کسی نے کہہ دیا شاعر ہے ‘ کسی نے کہا ساحر ہے ‘ کسی نے کہا مسحور ہے۔ سورة الحجر کے آخر میں ارشاد ہے : (وَلَقَدْ نَعْلَمُ اَ نَّکَ یَضِیْقُ صَدْرُکَ بِمَا یَقُوْلُوْنَ ) (اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) ہمیں خوب معلوم ہے کہ یہ ( مشرکین) جو کچھ کہہ رہے ہیں اس سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ‘ کا سینہ بھنچتا ہے۔ ان کی زبانوں سے جو کچھ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو سننا پڑرہا ہے اس سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تکلیف پہنچتی ہے ‘ لیکن صبر کیجیے وہی بات مسلمانوں سے کہی جا رہی ہے۔
سورة اٰلِ عِمْرٰن حاشیہ نمبر :131 یعنی ان کے طعن و تشنیع ، ان کے الزامات ، ان کے بیہودہ طرز کلام اور ان کی جھوٹی نشر و اشاعت کے مقابلہ میں بے صبر ہو کر تم ایسی باتوں پر نہ اتر آؤ جو صداقت و انصاف ، وقار و تہذیب اور اخلاق فاضلہ کے خلاف ہوں ۔