Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

بدترین خریدوفروخت اللہ تعالیٰ یہاں اہل کتاب کو ڈانٹ رہا ہے کہ پیغمبروں کی وساطت سے جو عہد ان کا جناب باری سے ہوا تھا کہ حضور پیغمبر الزمان صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائیں گے اور آپ کے ذکر کو اور آپ کی بشارت کی پیش گوئی کو لوگوں میں پھیلائیں گے انہیں آپ کی تابعداری پر آمادہ کریں گے اور پھر جس وقت آپ آجائیں تو دل سے آپ کے تابعدار ہو جائیں گے لیکن انہوں نے اس عہد کو چھپا لیا اور اللہ تعالیٰ اس کے ظاہر کرنے پر جن دنیا اور آخرت کی بھلائیوں کا ان سے وعدہ کیا تھا ان کے بدلے دنیا کی تھوڑی سی پونجی میں الجھ کر رہ گئے ان کی یہ خریدو فروخت بد سے بدتر ہے ، اس میں علماء کو تنبیہہ ہے کہ وہ ان کی طرح نہ کریں ورنہ ان پر بھی وہی سزا ہوگی جو ان کو ملی اور انہیں بھی اللہ کی وہ ناراضگی اٹھانی پڑے گی جو انہوں نے اٹھائی علماء کرام کو چاہئے کہ ان کے پاس جو نفع دینے والا دینی علم ہو جس سے لوگ نیک عمل جم کر سکتے ہوں اسے پھیلاتے رہیں اور کسی بات کو نہ چھپائیں ، حدیث شریف میں سے جس شخص سے علم کا کوئی مسئلہ پوچھا جائے اور وہ اسے چھپائے تو قیامت کے دن آگ کی لگام پہنایا جائے گا ۔ دوسری آیت میں ریاکاروں کی مذمت بیان ہو رہی ہے ، بخاری و مسلم کی حدیث میں ہے جو شخص جھوٹا دعویٰ کر کے زیادہ مال کمانا چاہے اسے اللہ تعالیٰ اور کم کر دے گا ، بخاری و مسلم کی دوسری حدیث میں ہے جو نہ دیا گیا ہو اس کے ساتھ آسودگی جتنانے والا دو چھوٹے کپڑے پہننے والے کی مثل ہے ، مسند احمد میں ہے کہ ایک مرتبہ مروان نے اپنے دربان رافع سے کہا کہ حضرت عبداللہ بن عباس کے پاس جاؤ اور ان سے کہو کہ اگر اپنے کام پر خوش ہونے اور نہ کئے ہوئے کام پر تعریف پسند کرنے کے باعث اللہ کا عذاب ہوگا تو ہم سے کوئی اس سے چھٹکارا نہیں پا سکتا ، حضرت عبداللہ نے اس کے جواب میں فرمایا کہ تمہیں اس آیت سے کیا تعلق؟ یہ تو اہل کتاب کے بارے میں ہے پھر آپ نے ( واذ اخذ اللہ ) سے اس آیت کے ختم تک تلاوت کی اور فرمایا کہ ان سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی چیز کے بارے میں سوال کیا تھا تو انہوں نے اس کا کچھ اور ہی غلط جواب دیا اور باہر نکل کر گمان کرنے لگے کہ ہم نے آپ کے سوال کا جواب دے دیا جس کی وجہ سے آپ کے پاس ہماری تعریف ہوگی اور سوال کے اصلی جواب کے چھپا لینے اور اپنے جھوٹے فقرہ چل جانے پر بھی خوش تھے ، اسی کا بیان اس آیت میں ہے ، یہ حدیث بخاری وغیرہ میں بھی ہے اور صحیح بخاری شریف میں یہ بھی ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میدان جنگ میں تشریف لے جاتے تو منافقین اپنے گھروں میں گھسے بیٹھے رہتے ساتھ نہ جاتے پھر خوشیاں مناتے کہ ہم لڑائی سے بچ گئے اب جب اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم واپس لوٹتے تو یہ باتیں بناتے جھوٹے سچے عذر پیش کرتے اور قسمیں کھا کھا کر اپنے معذور ہونے کا آپ کو یقین دلاتے اور چاہتے کہ نہ کئے ہوئے کام پر بھی ہماری تعریفیں ہوں جس پر یہ آیت اتری ، تفسیر ابن مردویہ میں ہے کہ مروان نے حضرت ابو سعید سے اس آیت کے بارے میں اسی طرح سوال کیا تھا جس طرح اوپر گزرا کہ حضرت ابن عباس سے پچھوایا تو حضرت ابو سعید نے اس کا مصداق اور اس کا شان نزول ان مناقوں کو قرار دیا جو غزوہ کے وقت بیٹھ جاتے اگر مسلمانوں کو نقصان پہنچا تو بغلیں بجاتے اگر فائدہ ہوا تو اپنا معذور ہونا ظاہر کرتے اور فتح و نصرت کی خوشی کا اظہار کرتے اس پر مروان نے کہا کہاں یہ واقعہ کہاں یہ آیت؟ تو حضرت ابو سعید نے فرمایا کہ یہ زید بن ثابت بھی اس سے واقف ہیں مروان نے حضرت زید سے پوچھا آپ نے بھی اس کی تصدیق کی پھر حضرت ابو سعید نے اونٹنیاں جو صدقہ کی ہیں چھین لیں گے باہر نکل کر حضرت زید نے کہا میری شہادت پر تم میری تعریف نہیں کرتے؟ حضرت ابو سعید نے فرمایا تم نے سچی شہادت ادا کر دی تو حضرت زید نے فرمایا پھر میں بھی سچی شہادت دینے پر مستحق تعریف تو ہوں مروان اس زمانہ میں مدینہ کا امیر تھا ، دوسری روایت میں ہے کہ مروان کا یہ سوال رافع بن خدیج سے ہی پہلے ہوا تھا ، اس سے پہلے کی روایت میں گزر چکا ہے کہ مروان نے اس آیت کی بابت حضرت عبداللہ بن عباس سے پچھوایا تھا تو یاد رہے کہ ان دونوں میں کوئی تضاد اور نفی کا عنصر نہیں ہم کہہ سکتے ہیں کہ آیت عام ہے اس میں بھی شامل ہے اور اس میں بھی ، مروان والی روایت میں بھی ممکن ہے پہلے ان دونوں صاحبوں نے جواب دیئے پھر مزید تشفی کے طور پر حبر الامہ حضرت عبداللہ بن عباس سے بھی مروان نے بذریعہ اپنے آدمی کے سوال کیا ہو ، واللہ اعلم ، حضرت ثابت بن قیس انصاری خدمت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں حاضر ہو کر عرض کرتے ہیں کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے تو اپنی ہلاکت کا بڑا اندیشہ ہے آپ نے فرمایا کیوں؟ جواب دیا ایک تو اس وجہ سے کہ اللہ تعالیٰ نے اس بات سے روکا ہے کہ جو نہ کیا ہو اس پر تعریف کو پسند کریں اور میرا یہ حال ہے کہ میں تعریف پسند کرتا ہوں ، دوسری بات یہ ہے کہ تکبر سے اللہ نے روکا ہے اور میں جمال کو پسند کرتا ہوں تیسرے یہ کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز سے بلند آواز کرنا ممنوع ہے اور میں بلند آواز ہوں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا تو اس بات سے خوش نہیں کہ تیری زندگی بہترین اور باخیر ہو اور تیری موت شہادت کی موت ہو اور تو جنتی بن جائے خوش ہو کر کہنے لگے کیوں نہیں یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ تو بہت ہی اچھی بات ہے چنانچہ یہی ہوا کہ آپ کی زندگی انتہائی اچھی گزری اور موت شہادت کی نصیب ہوئی ، مسیلمہ کذاب سے مسلمانوں کی جنگ میں آپ نے شہادت پائی ۔ تحسبنھم کو یحسبنھم پڑھا گیا ہے ، پھر فرمان ہے کہ تو انہیں عذاب سے نجات پانے والے خیال نہ کر انہیں عذاب ضرور ہوگا اور وہ بھی درد ناک ، پھر ارشاد ہے کہ ہر چیز کا مالک اور ہر چیز پر قادر اللہ تعالیٰ ہے اسے کوئی کام عاجز نہیں کر سکتا پس تم اس سے ڈرتے رہو اور اس کی مخالفت نہ کرو اس کے غضب سے بچنے کی کوشش کرو اس کے عذابوں سے اپنا بچاؤ کر لو نہ تو کوئی اس سے بڑا نہ اس سے زیادہ قدرت والا ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

187۔ 1 اس میں اہل کتاب کو بتایا جا رہا ہے کہ ان سے اللہ نے یہ عہد لیا تھا کہ کتاب الٰہی (تورات اور انجیل) میں جو باتیں درج ہیں اور آخری نبی کی جو صفات ہیں، انہیں لوگوں کے سامنے بیان کریں گے اور انہیں چھپائیں گے نہیں، لیکن انہوں نے دنیا کے تھوڑے سے مفادات کے لئے اللہ کے اس عہد کو پس پشت ڈال دیا، یہ گویا اہل علم کو تلقین و تنبیہ ہے کہ ان کے ہاں جو علم نافع ہے، جس سے لوگوں کے عقائد و اعمال کی اصلاح ہوسکتی ہو، وہ لوگوں تک ضرور پہنچانا چاہیے اور دنیاوی اغراض و مفادات کی خاطر ان کو چھپانا بہت بڑا جرم ہے، قیامت والے دن ایسے لوگوں کو آگ کی لگام پہنائی جائیگی (کما فی الحدیث)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١٨٧] یہود سے ہرگز یہ عہد نہیں لیا گیا تھا کہ صرف اسی نبی کو سچا سمجھیں اور اس پر ایمان لائیں جس کو آتشیں قربانی کا معجزہ دیا گیا ہو۔ لیکن انہوں نے اپنی طرف سے اللہ پر یہ بہتان لگا دیا تھا، تاکہ رسول اللہ پر ایمان نہ لانے کا معقول بہانہ ہاتھ آجائے اور جو عہد ان سے فی الواقعہ لیا گیا تھا اس کی ایک ایک شق میں انہوں نے اس عہد کو توڑ ڈالا اور جی بھر کے عہد شکنی کی۔ ان سے عہد یہ لیا گیا تھا کہ وہ تورات پر سختی سے عمل کریں گے۔ اس کی خوب اشاعت کریں گے۔ اس میں سے کچھ بھی چھپائیں گے نہیں۔ لیکن یہود نے یہ کیا کہ اس کے بیشمار احکام کی خلاف ورزی کی جن کی تفصیل پہلے گزر چکی ہے۔ اس کی بہت سی آیات کو چھپاتے رہے۔ مثلاً ایسی آیات جن میں آپ کی بشارت دی گئی تھی یا رجم سے متعلقہ آیات کو، پھر انہوں نے تحریف لفظی بھی کی اور معنوی بھی، جیسے دوسروں کا مال بٹورنے کی خاطر (لَيْسَ عَلَيْنَا فِي الْاُمِّيّٖنَ سَبِيْلٌ 75؀) 3 ۔ آل عمران :75) کا مسئلہ گھڑ لیا تھا اور غیر یہود سے سود بھی وصول کرلیتے اور کسی بھی ناجائز طریقہ سے ان کا مال ہڑپ کرنے میں کوئی قباحت نہیں سمجھتے تھے۔ یا غلط فتوے دے کر پیسے بٹورتے تھے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

یعنی اہل کتاب سے یہ عہد لیا گیا تھا کہ ان کی کتابوں میں جو احکام دیے گئے ہیں اور نبی آخر الزمان (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے متعلق جو بشارتیں اور علامتیں بیان کی گئی ہیں، ان کا اعلانیہ اظہار کریں گے اور ان کو چھپانے کے جرم کا ارتکاب نہیں کریں گے، مگر انھوں نے دنیا طلبی میں پڑ کر اس عہد کی کوئی پروا نہ کی اور ان احکام کی بھی لفظی اور معنوی تحریف کی اور ان بشارتوں اور علامتوں کو چھپایا، ( فبئس ما یشترون ) ” سو برا ہے جو وہ خرید رہے ہیں۔ “ اس آیت میں ضمناً عام مسلمان علماء کو بھی یہ ہدایت کی گئی ہے کہ وہ حق بات کو جانتے بوجھتے ہوئے چھپانے کے جرم کا ارتکاب نہ کریں۔ حدیث میں متعدد سندوں سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ ارشاد مروی ہے : ( مَنْ سُءِلَ عَنْ عِلْمٍ فَکَتَمَہُ اُلْجِمَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ بِلِجَامٍ مِّنْ نَارٍ ) [ ترمذی، العلم، باب ما جاء فی کتمان العلم : ٢٦٤٩، عن أبی ہریرہ (رض) ] ” جس سے علم کی کوئی بات پوچھی گئی اور اس نے اسے چھپایا تو قیامت کے دن اس کے منہ میں آگ کی لگام دی جائے گی۔ “

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

ربط آیات :- جیسا کہ پچھلی ایٓات میں یہودیوں کے افعال بد اور بری خصلتوں کا بیان تھا، مذکورہ پہلی آیت میں ان کے ایک ایسے ہی برے عمل کا ذکر ہے اور وہ ہے عہد و پیمان کی خلاف ورزی کیونکہ اہل کتاب سے اللہ تعالیٰ نے یہ عہد لیا تھا کہ اللہ تعالیٰ کے احکام جو تورات میں آئے ہیں وہ ان کی اشاعت عام کریں گے اور کسی حکم کو اپنی نفسانی غرض سے چھپائیں گے نہیں اہل کتاب نے یہ عہد توڑ دیا، احکام کو چھپایا اور پھر دلیری یہ کی کہ اس پر خوشی کا اظہار کیا اور اپنے اس فعل کو قابل تعریف قرار دیا۔- خلاصہ تفسیر - (یہ حالت بھی قابل ذکر ہے) جبکہ اللہ تعالیٰ نے (کتب سابقہ میں) اہل کتاب سے یہ عہد لیا (یعنی ان کو حکم فرمایا اور انہوں نے قبول کرلیا) کہ اس کتاب کے (سب مضامین) عام لوگوں کے روبرو بیان کردینا اور اس (کے کسی مضمون) کو (دنیوی غرض سے) پوشیدہ نہ رکھنا، سو ان لوگوں نے اس (عہد) کو اپنے پس پشت پھینک دیا، (یعنی اس پر عمل نہ کیا) اور اس کے مقابلہ میں (دنیا کا) کم حقیقت معاوضہ لے لیا، سو بری چیز ہے جس کو وہ لوگ لے رہے ہیں (کیونکہ انجام اس کا سزائے دوزخ ہے)- (اے مخاطب) جو لوگ ایسے ہیں کہ اپنے کردار (بد) پر خوش ہوتے ہیں اور جو (نیک) کام نہیں کیا اس پر چاہتے ہیں کہ ان کی تعریف ہو سو ایسے شخصوں کو ہرگز ہرگز مت خیال کرو کہ وہ (دنیا میں) خاص طور کے عذاب سے بچاؤ اور (حفاظت) میں رہیں گے (ہرگز نہیں بلکہ دنیا میں بھی کچھ سزا ہوگی) اور (آخری میں بھی) ان کو درد ناک سزا ہوگی۔- اور اللہ ہی کے لئے (خاص) ہے سلطنت آسمانوں کی اور زمین کی اور اللہ تعالیٰ ہر شئے پر پوری قدرت رکھتے ہیں۔- معارف و مسائل - علم دین کو چھپانا حرام اور بغیر عمل کئے اس مدح پر تعریف کا انتظار و اہتمام مذموم ہے :- مذکورہ تین آیتوں میں علماء اہل کتاب کے دو جرم اور ان کی سزا کا بیان ہے اور یہ کہ ان کو حکم یہ تھا کہ اللہ تعالیٰ کی کاتب میں جو احکام آئے ہیں ان کو سب کے سامنے بےکم وکاست بیان کریں گے اور کسی حکم کو چھپائیں گے نہیں، مگر انہوں نے اپنی دنیوی اغراض اور طمع نفسانی کی خاطر اس عہد کی پروا نہ کی، بہت سے احکام کو لوگوں سے چھپا لیا۔- دوسرے یہ کہ وہ نیک عمل کرتے تو ہے نہیں اور چاہتے ہیں کہ بغیر عمل کے ان کی تعریف کی جائے۔- احکام تو رات کو چھپانے کا واقعہ تو صحیح بخاری میں بروایت حضرت عبداللہ بن عباس منقول ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہود سے ایک بات پوچھی کہ کیا یہ تورات میں ہے ان لوگوں نے چھپا لیا، اور جو تورات میں تھا اس کے خلاف بیان کردیا اور اپنے اس عمل بد پر خوش ہوتے ہوئے واپس آئے کہ ہم نے خوب دھوکا دیا، اس پر یہ آیت نازل ہوئی، جس میں ان لوگوں کے لئے وعید ہے۔- اور دوسرا معاملہ نہ کئے ہوئے عمل پر تعریف و مدح کے خواہشمند ہیں یہ ہے کہ منافقین یہود کا ایک طرز عمل یہ بھی تھا کہ جب کسی جہاد کا وقت آتا تو بہانے کر کے گھر میں بیٹھ جاتے، اور اس طرح جہاد کی مشقت سے بچنے پر خوشیاں مناتے اور جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) واپس آتے تو آپ کے سامنے جھوٹی قسمیں کھا کر عذر بیان کردیتے اور اس کے طالب ہوتے تھے کہ ان کے اس عمل کی تعریف کی جائے (رواہ البخاری)- قرآن کریم نے ان دونوں چیزوں پر ان کی مذمت فرمائی جس سے معلوم ہوا کہ علم دین اور احکام خدا رسول کو چھپانا حرام ہے، مگر یہ حرمت اسی طرح کے چھپانے کی ہے جو یہود کا عمل تھا کہ اپنی دنیوی اغرض سے احکام خداوندی کو چھپاتے تھے اور اس پر لوگوں سے مال وصول کرتے تھے اور اگر کسی دینی اور شرعی مصلحت سے کوئی کم عوام پر ظاہر نہ کیا جائے تو وہ اس میں داخل نہیں، جیسا کہ امام بخاری نے ایک مستقل باب میں اس مسئلہ کو بحوالہ احادیث بیان فرمایا ہے کہ بعض اوقات کسی حکم کے اظہار سے عوام کی غلط فہمی اور فتنہ میں مبتلا ہوجانے کا خطرہ ہوتا ہے اس خطرہ کی بناء پر کوئی حکم پوشیدہ رکھا جائے تو مضائقہ نہیں۔- اور کوئی نیک عمل کرنے کے بعد بھی اس پر مدح ثناء کا انتظار و اہتمام کرے تو عمل کرنے کے باوجود بھی قواعد شرعیہ کی رو سے مذموم ہے اور نہ کرنے کی صورت میں تو اور بھی زیادہ مذموم ہے اور طبعی طور پر یہ خواہش ہونا کہ میں بھی فلاں نیک کام کروں اور نیک نام ہوں وہ اس میں داخل نہیں، جبکہ اس نیک نامی کا اہتمام نہ کرے۔ (بیان القرآن)

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَاِذْ اَخَذَ اللہُ مِيْثَاقَ الَّذِيْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ لَتُبَيِّنُنَّہٗ لِلنَّاسِ وَلَا تَكْتُمُوْنَہٗ۝ ٠ ۡفَنَبَذُوْہُ وَرَاۗءَ ظُہُوْرِھِمْ وَاشْتَرَوْا بِہٖ ثَمَنًا قَلِيْلًا۝ ٠ ۭ فَبِئْسَ مَا يَشْتَرُوْنَ۝ ١٨٧- أخذ - الأَخْذُ : حوز الشیء وتحصیله، وذلک تارةً بالتناول نحو : مَعاذَ اللَّهِ أَنْ نَأْخُذَ إِلَّا مَنْ وَجَدْنا مَتاعَنا عِنْدَهُ [يوسف 79] ، وتارةً بالقهر نحو قوله تعالی: لا تَأْخُذُهُ سِنَةٌ وَلا نَوْمٌ [ البقرة 255] - ( اخ ذ) الاخذ - ۔ کے معنی ہیں کسی چیز کو حاصل کرلینا جمع کرلینا اور احاطہ میں لے لینا اور یہ حصول کبھی کسی چیز کو پکڑلینے کی صورت میں ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ مَعَاذَ اللهِ أَنْ نَأْخُذَ إِلَّا مَنْ وَجَدْنَا مَتَاعَنَا عِنْدَهُ ( سورة يوسف 79) خدا پناہ میں رکھے کہ جس شخص کے پاس ہم نے اپنی چیز پائی ہے اس کے سو اہم کسی اور پکڑ لیں اور کبھی غلبہ اور قہر کی صورت میں جیسے فرمایا :۔ لَا تَأْخُذُهُ سِنَةٌ وَلَا نَوْمٌ ( سورة البقرة 255) نہ اس پر اونگھ غالب آسکتی اور نہ ہ نیند ۔ محاورہ ہے ۔- وثق - وَثِقْتُ به أَثِقُ ثِقَةً : سکنت إليه واعتمدت عليه، وأَوْثَقْتُهُ : شددته، والوَثَاقُ والوِثَاقُ : اسمان لما يُوثَقُ به الشیء، والوُثْقَى: تأنيث الأَوْثَق . قال تعالی: وَلا يُوثِقُ وَثاقَهُ أَحَدٌ [ الفجر 26] ، حَتَّى إِذا أَثْخَنْتُمُوهُمْ فَشُدُّوا الْوَثاقَ [ محمد 4] - والمِيثاقُ :- عقد مؤكّد بيمين وعهد، قال : وَإِذْ أَخَذَ اللَّهُ مِيثاقَ النَّبِيِّينَ [ آل عمران 81] ، وَإِذْ أَخَذْنا مِنَ النَّبِيِّينَ مِيثاقَهُمْ [ الأحزاب 7] ، وَأَخَذْنا مِنْهُمْ مِيثاقاً غَلِيظاً [ النساء 154] - والمَوْثِقُ الاسم منه . قال : حَتَّى تُؤْتُونِ مَوْثِقاً مِنَ اللَّهِ إلى قوله : مَوْثِقَهُمْ [يوسف 66] - ( و ث ق )- وثقت بہ اثق ثقتہ ۔ کسی پر اعتماد کرنا اور مطمئن ہونا ۔ اوثقتہ ) افعال ) زنجیر میں جکڑنا رسی سے کس کر باندھنا ۔ اولوثاق والوثاق اس زنجیر یارسی کو کہتے ہیں جس سے کسی چیز کو کس کو باندھ دیا جائے ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَلا يُوثِقُ وَثاقَهُ أَحَدٌ [ الفجر 26] اور نہ کوئی ایسا جکڑنا چکڑے گا ۔- حَتَّى إِذا أَثْخَنْتُمُوهُمْ فَشُدُّوا الْوَثاقَ [ محمد 4] یہ ان تک کہ جب ان کو خوب قتل کرچکو تو ( جو زندہ پکڑے جائیں ان کو قید کرلو ۔- المیثاق - کے منیق پختہ عہدو پیمان کے ہیں جو قسموں کے ساتھ موکد کیا گیا ہو ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَإِذْ أَخَذَ اللَّهُ مِيثاقَ النَّبِيِّينَ [ آل عمران 81] اور جب ہم نے پیغمبروں سے عہد لیا ۔ وَأَخَذْنا مِنْهُمْ مِيثاقاً غَلِيظاً [ النساء 154] اور عہد بھی ان سے پکالیا ۔- الموثق - ( اسم ) پختہ عہد و پیمان کو کہتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ حَتَّى تُؤْتُونِ مَوْثِقاً مِنَ اللَّهِ إلى قوله : مَوْثِقَهُمْ [يوسف 66] کہ جب تک تم خدا کا عہد نہ دو ۔- كتم - الْكِتْمَانُ : ستر الحدیث، يقال : كَتَمْتُهُ كَتْماً وكِتْمَاناً. قال تعالی: وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنْ كَتَمَ شَهادَةً عِنْدَهُ مِنَ اللَّهِ [ البقرة 140] ، - ( ک ت م ) کتمہ ( ن ) کتما وکتما نا کے معنی کوئی بات چھپانا کے ہیں ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنْ كَتَمَ شَهادَةً عِنْدَهُ مِنَ اللَّهِ [ البقرة 140] اور اس سے بڑھ کر ظالم کون جو خدا کی شہادت کو جو اس کے پاس کتاب اللہ میں موجود ہے چھپائے - نبذ - النَّبْذُ : إلقاء الشیء وطرحه لقلّة الاعتداد به، ولذلک يقال : نَبَذْتُهُ نَبْذَ النَّعْل الخَلِق، قال تعالی: لَيُنْبَذَنَّ فِي الْحُطَمَةِ [ الهمزة 4] ، فَنَبَذُوهُ وَراءَ ظُهُورِهِمْ [ آل عمران 187] لقلّة اعتدادهم به، وقال : نَبَذَهُ فَرِيقٌ مِنْهُمْ [ البقرة 100] أي : طرحوه لقلّة اعتدادهم به، وقال : فَأَخَذْناهُ وَجُنُودَهُ فَنَبَذْناهُمْ فِي الْيَمِ [ القصص 40] ، فَنَبَذْناهُ بِالْعَراءِ [ الصافات 145] ، لَنُبِذَ بِالْعَراءِ [ القلم 49] ، وقوله : فَانْبِذْ إِلَيْهِمْ عَلى سَواءٍ [ الأنفال 58] فمعناه : ألق إليهم السّلم، واستعمال النّبذ في ذلک کاستعمال الإلقاء کقوله : فَأَلْقَوْا إِلَيْهِمُ الْقَوْلَ إِنَّكُمْ لَكاذِبُونَ [ النحل 86] ، وَأَلْقَوْا إِلَى اللَّهِ يَوْمَئِذٍ السَّلَمَ [ النحل 87] تنبيها أن لا يؤكّد العقد معهم بل حقّهم أن يطرح ذلک إليهم طرحا مستحثّا به علی سبیل المجاملة، وأن يراعيهم حسب مراعاتهم له، ويعاهدهم علی قدر ما عاهدوه، وَانْتَبَذَ فلان : اعتزل اعتزال من لا يقلّ مبالاته بنفسه فيما بين الناس . قال تعالی: فَحَمَلَتْهُ فَانْتَبَذَتْ بِهِ مَکاناً قَصِيًّا[ مریم 22] وقعد نَبْذَةً ونُبْذَةً. أي : ناحية معتزلة، وصبيّ مَنْبُوذٌ ونَبِيذٌ کقولک : ملقوط ولقیط، لکن يقال : منبوذ اعتبارا بمن طرحه، وملقوط ولقیط اعتبارا بمن تناوله، والنَّبِيذُ : التّمرُ والزّبيبُ الملقَى مع الماء في الإناء، ثمّ صار اسما للشّراب المخصوص .- ( ن ب ذ) النبذ - کے معنی کسی چیز کو در خود اعتنا نہ سمجھ کر پھینک دینے کے ہیں اسی سے محاورہ مشہور ہے ۔ نبذ تہ نبذلنعل الخلق میں نے اسے پرانے جو تا کی طرح پھینک دیا ۔ قرآن میں ہے : ۔ لَيُنْبَذَنَّ فِي الْحُطَمَةِ [ الهمزة 4] وہ ضرور حطمہ میں ڈالا جائیگا ۔ فَنَبَذُوهُ وَراءَ ظُهُورِهِمْ [ آل عمران 187] تو انہونے اسے پس پشت پھینک دیا ۔ یعنی انہوں نے اسے قابل التفات نہ سمجھا نیز فرمایا ۔ نَبَذَهُ فَرِيقٌ مِنْهُمْ [ البقرة 100] تو ان بیس ایک فریق نے اس کو بےقدر چیز کی طرح پھینک دیا فَأَخَذْناهُ وَجُنُودَهُ فَنَبَذْناهُمْ فِي الْيَمِ [ القصص 40] تو ہم نے ان کو اور ان کے لشکر کو پکڑ لیا ۔ اور دریا میں ڈال دیا ۔ فَنَبَذْناهُ بِالْعَراءِ [ الصافات 145] پھر ہم نے ان کو فراخ میدان میں ڈال دیا ۔ لَنُبِذَ بِالْعَراءِ [ القلم 49] تو وہ چٹیل میدان میں ڈال دیئے جاتے ۔ تو ان کا عہد انہی کی طرف پھینک دو اور برابر کا جواب دو میں کے معنی یہ ہیں کہ معاہدہ صلح سے دستبر ہونے کے لئے لہذا یہاں معاہدہ صلح ست دستبر دار ہونے کے لئے مجازا نبذا کا لفظ استعمال ہوا ہے جیسا کہ آیت کریمہ : ۔ فَانْبِذْ إِلَيْهِمْ عَلى سَواءٍ [ الأنفال 58] تو ان کے کلام کو مسترد کردیں گے اور ان سے نہیں کے کہ تم جھوٹے ہو اور اس دن خدا کے سامنے سرنگوں ہوجائیں گے میں قول ( اور متکلم القاء کا لفظ استعمال ہوا ہے اور آیت ۔ فَأَلْقَوْا إِلَيْهِمُ الْقَوْلَ إِنَّكُمْ لَكاذِبُونَ [ النحل 86] فانبذا الخ میں متنبہ کیا ہے کہ اس صورت میں ان کے معاہدہ کو مزید مؤکد نہ کیا جائے بلکہ حسن معاملہ سے اسے فسخ کردیا جائے اور ان کے رویہ کے مطابق ان سے سلوک کیا جائے یعنی جب تک وہ معاہدہ کو قائم رکھیں اسکا احترام کیا جائے فانتبذ فلان کے معنی اس شخص کی طرح یکسو ہوجانے کے ہیں جو اپنے آپ کو ناقابل اعتبار سمجھاتے ہو ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَحَمَلَتْهُ فَانْتَبَذَتْ بِهِ مَکاناً قَصِيًّا[ مریم 22] اور وہ اس بچے کے ساتھ حاملہ ہوگئیں اور اسے لے کر ایک دور جگہ چلی گئیں ۔ اور قعد نبذ ۃ کے معنی یکسو ہوکر بیٹھ جانے کے ہیں اور راستہ میں پڑے ہوئے بچے کو صبی منبوذ ونبیذ کہتے ہیں جیسا کہ اسئ ملقوط یا لقیط کہا جاتا ہے ۔ لیکن اس لحاظ سے کہ کسی نے اسے پھینک دیا ہے اسے منبوذ کہا جاتا ہے اور اٹھائے جانے کے لحاظ سے لقیط کہا جاتا ہے ۔ النبذ اصل میں انگور یا کجھور کو کہتے ہیں ۔ جو پانی میں ملائی گئی ہو ۔ پھر خاص قسم کی شراب پر بولا جاتا ہے ۔- وراء - ( وَرَاءُ ) إذا قيل : وَرَاءُ زيدٍ كذا، فإنه يقال لمن خلفه . نحو قوله تعالی:- وَمِنْ وَراءِ إِسْحاقَ يَعْقُوبَ [هود 71] ،- ( و ر ی ) واریت - الورآء کے معنی خلف یعنی پچھلی جانب کے ہیں مثلا جو زہد کے پیچھے یا بعد میں آئے اس کے متعلق ورآء زید کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَمِنْ وَراءِ إِسْحاقَ يَعْقُوبَ [هود 71] اور اسحاق کے بعد یعقوب کی خوش خبری دی ۔ - ظهر - الظَّهْرُ الجارحةُ ، وجمعه ظُهُورٌ. قال عزّ وجل :- وَأَمَّا مَنْ أُوتِيَ كِتابَهُ وَراءَ ظَهْرِهِ [ الانشقاق 10]- ( ظ ھ ر ) الظھر - کے معنی پیٹھ اور پشت کے ہیں اس کی جمع ظھور آتی ہے ۔ قرآن میں ہے : وَأَمَّا مَنْ أُوتِيَ كِتابَهُ وَراءَ ظَهْرِهِ [ الانشقاق 10] اور جس کا نام اعمال اس کی پیٹھ کے پیچھے سے دیا جائیگا - شری - الشِّرَاءُ والبیع يتلازمان، فَالْمُشْتَرِي دافع الثّمن، وآخذ المثمن، والبائع دافع المثمن، وآخذ الثّمن . هذا إذا کانت المبایعة والْمُشَارَاةُ بناضّ وسلعة، فأمّا إذا کانت بيع سلعة بسلعة صحّ أن يتصور کلّ واحد منهما مُشْتَرِياً وبائعا، ومن هذا الوجه صار لفظ البیع والشّراء يستعمل کلّ واحد منهما في موضع الآخر . وشَرَيْتُ بمعنی بعت أكثر، وابتعت بمعنی اشْتَرَيْتُ أكثر، قال اللہ تعالی: وَشَرَوْهُ بِثَمَنٍ بَخْسٍ [يوسف 20] ، أي : باعوه،- ( ش ر ی ) شراء - اور بیع دونوں لازم ملزوم ہیں ۔ کیونکہ مشتری کے معنی قیمت دے کر اس کے بدلے میں کوئی چیز لینے والے کے ہیں ۔ اور بائع اسے کہتے ہیں جو چیز دے کہ قیمت لے اور یہ اس وقت کہا جاتا ہے جب ایک طرف سے نقدی اور دوسری طرف سے سامان ہو لیکن جب خریدو فروخت جنس کے عوض جنس ہو ۔ تو دونوں میں سے ہر ایک کو بائع اور مشتری تصور کرسکتے ہیں یہی وجہ ہے کہ بیع اور شراء کے الفاظ ایک دوسرے کی جگہ استعمال ہوتے ہیں اور عام طور پر شربت بمعنی بعت اور ابتعت بمعنی اشتریت آتا ہے قرآن میں ہے ۔ وَشَرَوْهُ بِثَمَنٍ بَخْسٍ [يوسف 20] اور اس کو تھوڑی سی قیمت پر بیچ ڈالا ۔- ثمن - قوله تعالی: وَشَرَوْهُ بِثَمَنٍ بَخْسٍ [يوسف 20] . الثَّمَنُ : اسم لما يأخذه البائع في مقابلة البیع، عينا کان أو سلعة . وکل ما يحصل عوضا عن شيء فهو ثمنه . قال تعالی:- إِنَّ الَّذِينَ يَشْتَرُونَ بِعَهْدِ اللَّهِ وَأَيْمانِهِمْ ثَمَناً قَلِيلًا [ آل عمران 77] ،- ( ث م ن ) الثمن - اصل میں ہر اس چیز کو کہتے ہیں جو فروخت کرنے والا اپنی چیز کے عوض خریدار سے وصول کرتا ہے خواہ وہ زر نقد ہو یا سامان ۔ قرآن میں ہے :۔ وَشَرَوْهُ بِثَمَنٍ بَخْسٍ [يوسف 20] اور اسے تھوڑی سی قیمت یعنی چند درہموں پر بیچ ڈالا ۔ - قل - القِلَّةُ والکثرة يستعملان في الأعداد، كما أنّ العظم والصّغر يستعملان في الأجسام، ثم يستعار کلّ واحد من الکثرة والعظم، ومن القلّة والصّغر للآخر . وقوله تعالی: ثُمَّ لا يُجاوِرُونَكَ فِيها إِلَّا قَلِيلًا[ الأحزاب 60] - ( ق ل ل ) القلۃ - والکثرۃ بلحاظ اصل وضع کے صفات عدد سے ہیں جیسا کہ عظم اور صغر صفات اجسام سے ہیں بعد کثرت وقلت اور عظم وصغڑ میں سے ہر ایک دوسرے کی جگہ بطور استعارہ استعمال ہونے لگا ہے اور آیت کریمہ ؛ثُمَّ لا يُجاوِرُونَكَ فِيها إِلَّا قَلِيلًا[ الأحزاب 60] پھر وہاں تمہارے پڑوس میں نہیں رہ سکیں گے مگر تھوڑے دن ۔ میں قلیلا سے عرصہ قلیل مراد ہے ۔ - بِئْسَ- و «بِئْسَ» كلمة تستعمل في جمیع المذام،- كما أنّ نعم تستعمل في جمیع الممادح، ويرفعان ما فيه الألف واللام، أو مضافا إلى ما فيه الألف واللام، نحو : بئس الرجل زيد، وبئس غلام الرجل زيد . وينصبان النکرة نحو : بئس رجلا، ولَبِئْسَ ما کانوا يَفْعَلُونَ [ المائدة 79] ، أي : شيئا يفعلونه،- ( ب ء س) البؤس والباس - بئس ۔ فعل ذم ہے اور ہر قسم کی مذمت کے لئے استعمال ہوتا ہے جیسا کہ نعم ہر قسم کی مدح کے لئے استعمال ہوتا ہے ان کا اسم اگر معرف بالللام ہو یا معرف باللام کی طرف مضاف ہو تو اسے رفع دیتے ہیں جیسے بئس الرجل زید وبئس غلام الرجل زید ۔ اور اسم نکرہ کو نصب دیتے ہیں جیسے قرآن میں ہے ؛ ۔ بِئْسَ مَا كَانُوا يَفْعَلُونَ ( سورة المائدة 79) یعنی بلا شبہ وہ برا کرتے تھے

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

قول باری ہے (واذاخذاللہ میثاق الذین اوتوالکتاب لتبیننہ للناس ولاتکتمونہ، ان اہل کتاب کو وہ عہد بھی یاددلاؤجو اللہ نے ان سے لیا تھا کہ تمہیں کتاب کی تعلیمات کو لوگوں میں پھیلانا ہوگا۔ انھیں پوشیدہ نہیں رکھنا ہوگا) اس آیت کی نظیر کا ذکرسورہ بقرہ میں گزرچکا ہے۔ حضرت ابن عباس (رض) ، سعید بن جبیر (رض) اور سدی مروی ہے کہ اہل کتاب سے مرادیہود ہیں ۔- دوسرے حضرات کا قول ہے کہ یہاں یہودونصاری دونوں مراد ہیں۔ حسن اور قتادہ کا قول ہے کہ اس سے مراد وہ شخص ہے جسے کوئی علم دیاگیا ہو اور پھر وہ اسے لوگوں سے چھپائے رکھے۔ حضرت ابوہریر (رض) ہ نے فرمایا، اگر قرآن مجید میں ایک آیت نہ ہوتی تو میں تمہارے سامنے حدثیں بیان نہ کرتا، پھر آپ نے یہ آیت تلاوت کی (واذاخذاللہ میثاق الذین اوتوا الکتاب) تاآخر آیت۔ پہلے گروہ کے قول کے مطابق (لتبننہ) میں غمیرحضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف راجع ہوگی۔ اس لیے کہ یہودنے آپ کی صفات اور آپ کی باتوں کو چھپائے رکھا تھا۔ دوسرے حضرات کے قول کے مطابق ضمیر کتاب کی طرف راجع ہوگی۔ اس صورت میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے معاملے کا بیان اور اللہ کی نازل کردہ تمام کتابوں کی باتیں ان میں داخل ہوجائیں گی۔

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(١٨٧) اہل کتاب سے اللہ تعالیٰ نے رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نعت وصفت بیان کرنے کا جو عہد لیا تھا اس کا تذکرہ فرماتے ہیں جن لوگوں کو توریت وانجیل دی گئی تھی، ان سے عہد و پیمان لیا گیا تھا کہ اپنی کتابوں میں رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نعت وصفت کو نہیں چھپائیں گے مگر انہوں نے کتاب اور اس عہد کو بھی فراموش کردیا اور اس کی قدر نہ کی بلکہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نعت واوصاف چھپا کر اس کے مقابلہ کم حقیقت کھانے پینے کی معمولی سی چیز لی، ان لوگوں کا ایسا کرنا اور یہودیت کو اپنے لیے پسند کرنا بہت ہی بری اختیار کردہ چیز ہے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة اٰلِ عِمْرٰن حاشیہ نمبر :132 یعنی انہیں یہ تو یاد رہ گیا کہ بعض پیغمبروں کو آگ میں جلنے والی قربانی بطور نشان کے دی گئی تھی ، مگر یہ یاد نہ رہا کہ اللہ نے اپنی کتاب ان کے سپرد کرتے وقت ان سے کیا عہد لیا تھا اور کس خدمت عظمٰی کی ذمہ داری ان پر ڈالی تھی ۔ یہاں جس عہد کا ذکر کیا گیا ہے اس کا ذکر جگہ جگہ بائیبل میں آتا ہے ۔ خصوصاً کتاب استثناء میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کی جو آخری تقریر نقل کی گئی ہے اس میں تو وہ بار بار بنی اسرائیل سے عہد لیتے ہیں کہ جو احکام میں نے تم کو پہنچائے ہیں انہیں اپنے دل پر نقش کر نا ، اپنی آئندہ نسلوں کو سکھانا ، گھر بیٹھے اور راہ چلتے اور لیٹتے اور اٹھتے ، ہر وقت ان کا چرچا کرنا ، اپنے گھر کی چوکھٹوں پر اور اپنے پھاٹکوں پر ان کو لکھ دینا ( ٦:٤ ۔ ۹ ) ۔ پھر اپنی آخری نصیحت میں انھوں نے تاکید کی کہ فلسطین کی سرحد میں داخل ہونے کے بعد پہلا کام یہ کرنا کہ کوہ عیبال پر بڑے بڑے پتھر نصب کر کے توراة کے احکام ان پر کندہ کر دینا ( ۲۷:۲ ۔ ٤ ) ۔ نیز بنی لاوی کو توراة کا ایک نسخہ دے کر ہدایت فرمائی کہ ہر ساتویں برس عید خیام کے موقع پر قوم کے مردوں ، عورتوں ، بچوں سب کو جگہ جگہ جمع کر کے یہ پوری کتاب لفظ بلفظ ان کو سناتے رہنا ۔ لیکن اس پر بھی کتاب اللہ سے بنی اسرائیل کی غفلت رفتہ رفتہ یہاں تک بڑھی کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے سات سو برس بعد ہیکل سلیمانی کے سجادہ نشین ، اور یروشلم کے یہودی فرماں روا تک کو یہ معلوم نہ تھا کہ ان کے ہاں توراة نامی بھی کوئی کتاب موجود ہے ۔ ( ۲ ۔ سلاطین ۔ ۲۲ :۸ ۔ ١۳ ) ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani