188۔ 1 ایسے لوگوں کے لئے سخت وعید ہے جو صرف اپنے واقعی کارناموں پر ہی خوش نہیں ہوتے بلکہ چاہتے ہیں کہ ان کے کھاتے میں وہ کارنامے بھی درج یا ظاہر کئے جائیں جو انہوں نے نہیں کئے ہوتے۔ یہ بیماری جس طرح عہد رسالت کے بعض لوگوں میں تھی جن کے پیش نظر آیات کا نزول ہوا۔ اسی طرح آج بھی جاہ پسند قسم کے لوگوں اور پراپیگنڈے اور دیگر ہتھکنڈوں کے ذریعے سے بننے والے لیڈروں میں یہ بیماری عام ہے، آیت کے سباق سے معلوم ہوتا ہے کہ یہودی کتاب الٰہی میں تحریف کے مجرم تھے مگر وہ اپنے ان کرتوتوں پر خوش ہوتے تھے، یہی حال باطل گروہوں کا بھی ہے وہ بھی لوگوں کو گمراہ کر کے، غلط رہنمائی کرکے اور آیات الٰہی میں معنوی تحریف و تبدیل کر کے بڑے خوش ہوتے ہیں اور دعویٰ یہ کرتے ہیں کہ وہ اہل حق ہیں اور یہ کہ انکی فریب کاری کی انہیں داد دی جائے۔ ( قٰتَلَهُمُ اللّٰهُ اَنّٰى يُؤْفَكُوْنَ 30) 009:030
[١٨٨] اس آیت کے شان نزول کے سلسلے میں مندرجہ ذیل تین احادیث ملاحظہ فرمائیے یہ تینوں حدیثیں بخاری شریف میں مذکور ہیں۔- ١۔ ابن عباس (رض) کہتے ہیں کہ آپنے یہود کو بلا بھیجا اور ان سے دین کی کوئی بات پوچھی۔ انہوں نے حق چھپایا اور غلط بات بتلادی۔ پھر سمجھے کہ ہم (نے کمال کیا) آپ کے نزدیک قابل تعریف ٹھہرے یعنی آپ کو بتلایا بھی اور حق بات چھپا بھی لی۔ پھر یہی آیت پڑھی۔ (بخاری۔ کتاب التفسیر)- ٢۔ مروان نے اپنے دربان رافع کو حضرت عبداللہ بن عباس (رض) کے پاس بھیجا کہ اس آیت کا مطلب پوچھ کے آؤ، کیونکہ اس آیت کی رو سے ہر شخص عذاب کا مستحق قرار پاتا ہے۔ کیونکہ ہر شخص کو جو نعمت ملی، یا وہ جو کرتا ہے۔ اس پر خوش ہوتا ہے اور وہ یہ بھی چاہتا ہے کہ اس کے ناکردہ کام پر اس کی تعریف کی جائے۔ چناچہ رافع ابن عباس (رض) کے پاس آئے تو ابن عباس (رض) نے فرمایا : تم مسلمانوں کا اس سے کیا تعلق ؟ پھر انہوں نے اس سے پہلی آیت ساتھ ملا کر پڑھی اور کہا کہ یہ ان یہودیوں کے حق میں ہے۔ جنہیں آپ نے بلا کر ان سے کوئی بات پوچھی تو انہوں نے حق بات تو چھپا دی اور کوئی غلط بات بتلا دی پھر یہ سمجھے کہ وہ ان کے نزدیک قابل تعریف ٹھہرے (یعنی آپ کو بتلا بھی دیا اور حق بھی چھپالیا) پھر آپ نے یہ آیت پڑھی۔ (بخاری۔ کتاب التفسیر)- ٣۔ حضرت ابو سعید خدری فرماتے ہیں کہ آپ کے زمانہ میں چند ایسے منافق تھے کہ جب آپ جہاد پر جاتے تو وہ پیچھے رہ جاتے اور خوش ہوتے۔ پھر جب آپ واپس آتے تو قسمیں کھا کر طرح طرح کے بہانے بناتے اور یہ بات انہیں اچھی لگتی تھی کہ ان کے ناکردہ کاموں پر ان کی تعریف ہو۔ انہی کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی۔ (بخاری۔ کتاب التفسیر)- ان میں سے حدیث نمبر ١ اور ٢ کے راوی ابن عباس (رض) ہیں اور اس آیت کو یہود سے متعلق بتلاتے ہیں اور حدیث ٣ کے راوی ابو سعید خدری ہیں اور وہ اس آیت کو منافقین سے متعلق بتلاتے ہیں۔ ربط مضمون کے لحاظ سے پہلی دو احادیث راجح معلوم ہوتی ہیں۔ کیونکہ پیچھے یہود کی کرتوتوں کا ذکر چل رہا ہے۔ تاہم اس مضمون میں منافقین تو کیا خود مسلمانوں کو بھی شامل کیا جاسکتا ہے۔ یعنی جو شخص بھی ایسی شہرت پسند کرتا ہو کہ فلاں آدمی بڑا مخلص، دیانتدار، ایثار پیشہ خادم خلق اور عالم دین ہے یا ان میں سے کسی بھی صفت کی شہرت چاہتا ہو جبکہ حقیقت میں معاملہ ایسا نہ ہو یا کسی نے اچھے کام میں محنت تو تھوڑی ہی کی مگر شہرت اور ناموری اس سے بہت زیادہ چاہتا تو اس کا وہی حشر ہوگا جو اس آیت میں مذکور ہے۔
یعنی جو کام انھوں نے کیے ہیں ان پر اتراتے چلے جاتے ہیں اور جو کام انھوں نے نہیں کیے ان کے متعلق بھی چاہتے ہیں کہ انھیں ان کے کارناموں میں شمار کیا جائے، ایسے لوگوں کے بارے میں ہرگز یہ خیال نہ کرو کہ وہ اللہ کی پکڑ اور اس کے عذاب سے چھوٹ جائیں گے۔ یہ آیت دراصل یہود اور منافقین کے حق میں نازل ہوئی ہے۔ چناچہ ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہود سے کوئی بات دریافت کی تو انھوں نے اس کا غلط جواب دیا، پھر خوش ہوئے کہ ہم نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مطمئن کردیا، اب انھیں ہماری تعریف کرنی چاہیے۔ [ بخاری، التفسیر، باب : ( لَا تَحْسَبَنَّ الَّذِيْنَ يَفْرَحُوْنَ بِمَآ اَتَوْا) : ٤٥٦٨ ]- ابو سعید خدری (رض) بیان کرتے ہیں کہ جب کبھی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جنگ کے لیے تشریف لے جاتے تو بعض منافقین آپ کے ساتھ نہ جاتے اور آپ کے جانے کے بعد ( اپنے گھروں میں) بیٹھے رہنے سے بہت خوش ہوا کرتے، پھر جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) واپس تشریف لاتے تو عذر اور بہانے پیش کرتے اور (ان عذر بہانوں پر ) قسم کھاتے اور چاہتے کہ اس کام پر ان کی تعریف کی جائے جو انھوں نے نہیں کیا، چناچہ اس سلسلے میں یہ آیت نازل ہوئی : ( لَا تَحْسَبَنَّ الَّذِيْنَ يَفْرَحُوْنَ بِمَآ اَتَوْا وَّيُحِبُّوْنَ اَنْ يُّحْمَدُوْا بِمَا لَمْ يَفْعَلُوْا ) [ بخاری، التفسیر، باب : ( لَا تَحْسَبَنَّ الَّذِيْنَ يَفْرَحُوْنَ بِمَآ اَتَوْا : ٤٥٦٧ ] مگر یہ حکم اہل کتاب اور مسلمانوں کے لیے عام ہے جو بھی خوشامد پسند ہوگا اور اس قسم کا ذہن رکھے گا، کہ اس کے ناکردہ کارناموں پر اس کی تعریف کی جائے۔ اس کے لیے وہ وعید ہے جو اس آیت میں مذکور ہے۔ (شوکانی)
لَا تَحْسَبَنَّ الَّذِيْنَ يَفْرَحُوْنَ بِمَآ اَتَوْا وَّيُحِبُّوْنَ اَنْ يُّحْمَدُوْا بِمَا لَمْ يَفْعَلُوْا فَلَا تَحْسَبَنَّھُمْ بِمَفَازَۃٍ مِّنَ الْعَذَابِ ٠ ۚ وَلَھُمْ عَذَابٌ اَلِيْمٌ ١٨٨- فرح - الْفَرَحُ : انشراح الصّدر بلذّة عاجلة، وأكثر ما يكون ذلک في اللّذات البدنيّة الدّنيوية، فلهذا قال تعالی: لِكَيْلا تَأْسَوْا عَلى ما فاتَكُمْ وَلا تَفْرَحُوا بِما آتاکُمْ [ الحدید 23] ، وَفَرِحُوا بِالْحَياةِ الدُّنْيا[ الرعد 26] ، ذلِكُمْ بِما كُنْتُمْ تَفْرَحُونَ [ غافر 75] ،- ( ف ر ح ) ا لفرح - کے معنی کسی فوری یا دینوی لذت پر انشراح صدر کے ہیں ۔ عموما اس کا اطلاق جسمانی لذتوں پر خوش ہونے کے معنی میں ہوتا ہے قرآن میں ہے : ۔ لِكَيْلا تَأْسَوْا عَلى ما فاتَكُمْ وَلا تَفْرَحُوا بِما آتاکُمْ [ الحدید 23] اور جو تم کو اس نے دیا ہوا اس پر اترایا نہ کرو ۔ وَفَرِحُوا بِالْحَياةِ الدُّنْيا[ الرعد 26] اور ( کافر ) لوگ دنیا کی زندگی پر خوش ہورہے ہیں ۔ ذلِكُمْ بِما كُنْتُمْ تَفْرَحُونَ [ غافر 75] یہ اس کا بدلہ ہے کہ تم ۔۔۔۔۔ خوش کرتے تھے - حب - والمحبَّة :- إرادة ما تراه أو تظنّه خيرا، وهي علی ثلاثة أوجه :- محبّة للّذة، کمحبّة الرجل المرأة، ومنه :- وَيُطْعِمُونَ الطَّعامَ عَلى حُبِّهِ مِسْكِيناً [ الإنسان 8] .- ومحبّة للنفع، کمحبة شيء ينتفع به، ومنه :- وَأُخْرى تُحِبُّونَها نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ [ الصف 13] .- ومحبّة للفضل، کمحبّة أهل العلم بعضهم لبعض لأجل العلم .- ( ح ب ب ) الحب والحبۃ - المحبۃ - کے معنی کسی چیز کو اچھا سمجھ کر اس کا ارادہ کرنے اور چاہنے کے ہیں - اور محبت تین قسم پر ہے :- ۔ ( 1) محض لذت اندوزی کے لئے - جیسے مرد کسی عورت سے محبت کرتا ہے ۔ چناچہ آیت : ۔ وَيُطْعِمُونَ الطَّعامَ عَلى حُبِّهِ مِسْكِيناً [ الإنسان 8] میں اسی نوع کی محبت کی طرف اشارہ ہے - ۔ ( 2 ) محبت نفع اندوزی کی خاطر - جیسا کہ انسان کسی نفع بخش اور مفید شے سے محبت کرتا ہے ۔ چناچہ اسی معنی میں فرمایا : وَأُخْرى تُحِبُّونَها نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ [ الصف 13 اور ایک چیز کو تم بہت چاہتے ہو یعنی تمہیں خدا کی طرف سے مدد نصیب ہوگی اور فتح حاصل ہوگی - ۔ ( 3 ) کبھی یہ محبت یہ محض فضل وشرف کی وجہ سے ہوتی ہے - جیسا کہ اہل علم وفضل آپس میں ایک دوسرے سے محض علم کی خاطر محبت کرتے ہیں ۔ - حمد - الحَمْدُ لله تعالی: الثناء عليه بالفضیلة، وهو أخصّ من المدح وأعمّ من الشکر، فإنّ المدح يقال فيما يكون من الإنسان باختیاره، ومما يقال منه وفيه بالتسخیر، فقد يمدح الإنسان بطول قامته وصباحة وجهه، كما يمدح ببذل ماله وسخائه وعلمه، والحمد يكون في الثاني دون الأول، والشّكر لا يقال إلا في مقابلة نعمة، فكلّ شکر حمد، ولیس کل حمد شکرا، وکل حمد مدح ولیس کل مدح حمدا، ويقال : فلان محمود :- إذا حُمِدَ ، ومُحَمَّد : إذا کثرت خصاله المحمودة، ومحمد : إذا وجد محمودا «2» ، وقوله عزّ وجلّ :إِنَّهُ حَمِيدٌ مَجِيدٌ [هود 73] ، يصحّ أن يكون في معنی المحمود، وأن يكون في معنی الحامد، وحُمَادَاكَ أن تفعل کذا «3» ، أي : غایتک المحمودة، وقوله عزّ وجل : وَمُبَشِّراً بِرَسُولٍ يَأْتِي مِنْ بَعْدِي اسْمُهُ أَحْمَدُ [ الصف 6] ، فأحمد إشارة إلى النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم باسمه وفعله، تنبيها أنه كما وجد اسمه أحمد يوجد وهو محمود في أخلاقه وأحواله، وخصّ لفظة أحمد فيما بشّر به عيسى صلّى اللہ عليه وسلم تنبيها أنه أحمد منه ومن الذین قبله، وقوله تعالی: مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ- [ الفتح 29] ، فمحمد هاهنا وإن کان من وجه اسما له علما۔ ففيه إشارة إلى وصفه بذلک وتخصیصه بمعناه كما مضی ذلک في قوله تعالی: إِنَّا نُبَشِّرُكَ بِغُلامٍ اسْمُهُ يَحْيى [ مریم 7] ، أنه علی معنی الحیاة كما بيّن في بابه «4» إن شاء اللہ .- ( ح م د ) الحمدللہ - ( تعالیٰ ) کے معنی اللہ تعالے کی فضیلت کے ساتھ اس کی ثنا بیان کرنے کے ہیں ۔ یہ مدح سے خاص اور شکر سے عام ہے کیونکہ مدح ان افعال پر بھی ہوتی ہے جو انسان سے اختیاری طور پر سرزد ہوتے ہیں اور ان اوصاف پر بھی جو پیدا کشی طور پر اس میں پائے جاتے ہیں چناچہ جس طرح خرچ کرنے اور علم وسخا پر انسان کی مدح ہوتی ہے اس طرح اسکی درازی قدو قامت اور چہرہ کی خوبصورتی پر بھی تعریف کی جاتی ہے ۔ لیکن حمد صرف افعال اختیار یہ پر ہوتی ہے ۔ نہ کہ اوصاف اضطرار ہپ پر اور شکر تو صرف کسی کے احسان کی وجہ سے اس کی تعریف کو کہتے ہیں ۔ لہذا ہر شکر حمد ہے ۔ مگر ہر شکر نہیں ہے اور ہر حمد مدح ہے مگر ہر مدح حمد نہیں ہے ۔ اور جس کی تعریف کی جائے اسے محمود کہا جاتا ہے ۔ مگر محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) صرف اسی کو کہہ سکتے ہیں جو کثرت قابل ستائش خصلتیں رکھتا ہو نیز جب کوئی شخص محمود ثابت ہو تو اسے بھی محمود کہہ دیتے ہیں ۔ اور آیت کریمہ ؛ إِنَّهُ حَمِيدٌ مَجِيدٌ [هود 73] وہ سزاوار تعریف اور بزرگوار ہے ۔ میں حمید بمعنی محمود بھی ہوسکتا ہے اور حامد بھی حماد اک ان تفعل کذا یعنی ایسا کرنے میں تمہارا انجام بخیر ہے ۔ اور آیت کریمہ : وَمُبَشِّراً بِرَسُولٍ يَأْتِي مِنْ بَعْدِي اسْمُهُ أَحْمَدُ [ الصف 6] اور ایک پیغمبر جو میرے بعد آئیں گے جن کا نام احمد ہوگا ان کی بشارت سناتاہوں ۔ میں لفظ احمد سے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات کی طرف اشارہ ہے اور اس میں تنبیہ ہے کہ جس طرح آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا نام احمد ہوگا اسی طرح آپ اپنے اخلاق واطوار کے اعتبار سے بھی محمود ہوں گے اور عیٰسی (علیہ السلام) کا اپنی بشارت میں لفظ احمد ( صیغہ تفضیل ) بولنے سے اس بات پر تنبیہ ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حضرت مسیح (علیہ السلام) اور ان کے بیشتر وجملہ انبیاء سے افضل ہیں اور آیت کریمہ : مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ [ الفتح 29] محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خدا کے پیغمبر ہیں ۔ میں لفظ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) گومن وجہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا نام ہے لیکن اس میں آنجناب (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اوصاف حمیدہ کی طرف بھی اشاره پایا جاتا ہے جیسا کہ آیت کریمہ : إِنَّا نُبَشِّرُكَ بِغُلامٍ اسْمُهُ يَحْيى [ مریم 7] میں بیان ہوچکا ہے کہ ان کا یہ نام معنی حیات پر دلالت کرتا ہے جیسا کہ اس کے مقام پر مذ کور ہے ۔- فوز - الْفَوْزُ : الظّفر بالخیر مع حصول السّلامة . قال تعالی: ذلِكَ الْفَوْزُ الْكَبِيرُ [ البروج 11] ، فازَ فَوْزاً عَظِيماً [ الأحزاب 71] ، - ( ف و ز ) الفوز - کے معنی سلامتی کے ساتھ خیر حاصل کرلینے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے ۔ ذلِكَ الْفَوْزُ الْكَبِيرُ [ البروج 11] یہی بڑی کامیابی ہے ۔ فازَ فَوْزاً عَظِيماً [ الأحزاب 71] تو بیشک بڑی مراد پایئکا ۔ یہی صریح کامیابی ہے ۔- ألم - الأَلَمُ الوجع الشدید، يقال : أَلَمَ يَأْلَمُ أَلَماً فهو آلِمٌ. قال تعالی: فَإِنَّهُمْ يَأْلَمُونَ كَما تَأْلَمُونَ [ النساء 104] ، وقد آلمت فلانا، و عذاب أليم، أي : مؤلم . وقوله : لَمْ يَأْتِكُمْ [ الأنعام 130] فهو ألف الاستفهام، وقد دخل علی «لم» .- ( ا ل م ) الالم - کے معنی سخت درد کے ہیں کہا جاتا ہے الم یالم ( س) أَلَمَ يَأْلَمُ أَلَماً فهو آلِمٌ. قرآن میں ہے :۔ فَإِنَّهُمْ يَأْلَمُونَ كَمَا تَأْلَمُونَ ( سورة النساء 104) تو جس طرح تم شدید درد پاتے ہو اسی طرح وہ بھی شدید درد پاتے ہیں ۔ اٰلمت فلانا میں نے فلاں کو سخت تکلیف پہنچائی ۔ اور آیت کریمہ :۔ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ ( سورة البقرة 10 - 174) میں الیم بمعنی مؤلم ہے یعنی دردناک ۔ دکھ دینے والا ۔ اور آیت :۔ اَلَم یَاتِکُم (64 ۔ 5) کیا تم کو ۔۔ نہیں پہنچی ۔ میں الف استفہام کا ہے جو لم پر داخل ہوا ہے ( یعنی اس مادہ سے نہیں ہے )
(١٨٨) یہود جو نیک کام نہیں کرتے تھے اس پر خواہ مخواہ تعریف اور ستائش کے طلب گار ہوتے تھے۔- اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ ان لوگوں کا ہرگز نہ خیال کیجیے جنہوں نے کتاب میں آپ کی نعت وصفت میں تبدیلی کردی اور وہ اب اس بات کے متمنی ہیں کہ ان کی تعریف کی جائے اور ملت ابراہیمی اور فقرا کے ساتھ احسان کرنے کے بھی دعویدار ہیں، حالانکہ ذرہ برابر بھی ان میں کوئی ایسی نیکی نہیں کہ جس کے سبب وہ عذاب الہی سے چھٹکارا حاصل کرسکیں۔- شان نزول : (آیت) ” لا تحسبن الذین یفرحون “۔ (الخ)- بخاری (رح) ومسلم (رح) نے حمید بن عبدالرحمن بن عوف (رح) کے ذریعہ سے روایت کیا ہے کہ مروان نے اپنے دربان سے کہا کہ رافع، ابن عباس (رض) کے پاس جاؤ اور ان سے کہو کہ ہم میں سے ہر ایک شخص جو چیز اس کو دی گئی ہے اس پر خوش ہے اور یہ چاہتا ہے کہ جو کام وہ نہیں کرسکتا، اس پر بھی اس کی تعریف کی جائے، ایسے شخص کو اگر عذاب ہوگا تو پھر سب عذاب میں گرفتار ہوجائیں گے۔ حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا تم لوگوں کو اس آیت سے کیا واسطہ یہ آیت تو اہل کتاب کے بارے میں نازل ہوئی ہے ان لوگوں سے رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کسی چیز کے متعلق دریافت کیا تھا انہوں نے اس بات کو تو چھپا لیا اور دوسری بات بتلا دی اور پھر آپ کے پاس سے آکر یہ ظاہر کیا جو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پوچھا تھا وہ ہی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بتلایا ہے اور بڑی ڈھٹائی سے اس پر اپنی تعریف بھی چاہی اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سوال کے جواب کو جو چھپا لیا تھا اس پر آپس میں خوش ہوئے۔- اور بخاری (رح) و مسلم (رح) نے ابوسعید خدری (رض) سے روایت نقل کی ہے کہ جب رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جہاد پر تشریف لے جاتے تو منافقین میں سے کچھ لوگ آپ کے ساتھ نہ جاتے اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی عدم موجودگی میں نہ جانے پر خوش ہوتے اور جب آپ واپس تشریف لاتے تو معذرت کرتے اور قسمیں کھاتے اور یہ چاہتے کہ جو کام انہوں نے نہیں کیا، اس پر ان کی تعریف کی جائے تب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی ،- عبدابن حمید (رح) نے اپنی تفسیر میں زید بن اسلم (رح) سے روایت نقل کی ہے کہ رافع بن خدیج (رض) اور زید بن ثابت (رض) دونوں مروان کے پاس تھے۔- مروان کہنے لگا، رافع (آیت) ” لا تحسبن الذین “۔ (الخ) یہ آیت کس چیز کے بارے میں نازل ہوئی ہے، رافع بولے یہ منافقین میں سے کچھ لوگوں کے بارے میں نازل ہوئی ہے کیوں کہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب باہر تشریف لے جاتے تو یہ عذر کرتے اور کہتے کہ ہمیں کام ہے اور حقیقت میں ہماری خواہش یہ ہے کہ ہم آپ کے ساتھ جائیں، اس پر یہ آیت نازل ہوئی، مروان نے اس واقعہ کو روایت کیا، اس پر رافع ناراض ہو کر زید بن ثابت (رض) سے بولے کہ میں تمہیں اللہ کی قسم دے کر دریافت کرتا ہوں کیا تم جانتے ہو جو میں کہہ رہا ہوں زید بن ثابت نے کہا جی ہاں، حافظ ابن حجر فرماتے ہیں کہ اس روایت اور ابن عباس (رض) کے فرمان میں مطابقت اس طرح ہے کہ ہوسکتا ہے یہ آیت دونوں قسم کے لوگوں کے بارے میں نازل ہوئی ہو۔ اور فراء نے روایت کیا ہے کہ یہ آیت یہود کے قول کے بارے میں نازل ہوئی ہے اور اس بات کے مدعی تھے کہ ہم پہلے ہی سے کتاب والے نماز والے اور اہل طاعت ہیں اور اس کے باوجود رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان نہیں لاتے تھے۔ (لباب النقول فی اسباب النزول از علامہ سیوطی (رح )
آیت ١٨٨ (لاَ تَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ یَفْرَحُوْنَ بِمَآ اَتَوْا) - اگر کچھ نیکی کرلیتے ہیں ‘ کسی کو کچھ دے دیتے ہیں تو اس پر بہت اتراتے ہیں ‘ اکڑتے ہیں کہ ہم نے یہ کچھ کرلیا ہے۔- (وَّیُحِبُّوْنَ اَنْ یُّحْمَدُوْا بِمَا لَمْ یَفْعَلُوْاص) - آج کل اس کی سب سے بڑی مثال سپاس نامے ہیں ‘ جو تقریبات میں مدعو شخصیات کو پیش کیے جاتے ہیں۔ ان سپاس ناموں میں ان حضرات کے ایسے ایسے کارہائے نمایاں بیان کیے جاتے ہیں جو ان کی پشتوں میں سے بھی کسی نے نہ کیے ہوں۔ اس طرح ان کی خوشامد اور چاپلوسی کی جاتی ہے اور وہ اسے پسند کرتے ہیں۔ - ( فَلاَ تَحْسَبَنَّہُمْ بِمَفَازَۃٍ مِّنَ الْعَذَابِ ج) تو ان کے بارے میں یہ خیال نہ کریں کہ وہ عذاب سے بچ جائیں گے۔
سورة اٰلِ عِمْرٰن حاشیہ نمبر :133 مثلا وہ اپنی تعریف میں یہ سننا چاہتے ہیں کہ حضرت بڑے متقی ہیں ، دیندار اور پارسا ہیں خادم دین ہیں ۔ حامی شرع متین ہیں ، مصلح ومزکی ہیں ، حالانکہ حضرت کچھ بھی نہیں ۔ یا اپنے حق میں یہ ڈھنڈورا پٹوانا چاہتے ہیں کہ فلاں صاحب بڑے ایثار پیشہ اور مخلص اور دیانت دار رہنما ہیں اور انہوں نے ملت کی بڑی خدمت کی ہے ۔ حالانکہ معاملہ برعکس ہے ۔