Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

ایمان والوں اور مجاہدین کے قابل رشک اعزاز اللہ تعالیٰ اہل کتاب کے اس فرقے کی تعریف کرتا ہے جو پورے ایمان والا ہے قرآن کریم کو بھی مانتا ہے اور اپنے نبی کی کتاب پر بھی ایمان رکھتا ہے اللہ تعالیٰ کا ڈر دل میں رکھ کر اللہ تعالیٰ فرمانوں کی بجا آوری میں نہایت تندہی کے ساتھ مشغول ہے رب کے سامنے عاجزی اور گریہ وزاری کرتا رہتا ہے پیغمبر آخر الزمان صلی اللہ علیہ وسلم کے جو پاک اوصاف اور صاف نشانیاں ان کی کتابوں میں ہیں اسے دنیا کے بدلے چھپاتا نہیں بلکہ ہر ایک کو بتاتا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کو مان لینے کی رغبت دلاتا ہے ۔ ایسی جماعت اللہ تعالیٰ کے پاس اجر پائے گی خواہ وہ یہودیوں کی ہو خواہ نصرانیوں کی ، سورہ قصص میں یہ مضمون اس طرح بیان ہوا ہے آیت ( اَلَّذِيْنَ اٰتَيْنٰهُمُ الْكِتٰبَ يَعْرِفُوْنَهٗ كَمَا يَعْرِفُوْنَ اَبْنَاۗءَهُمْ ۘ اَلَّذِيْنَ خَسِرُوْٓا اَنْفُسَهُمْ فَهُمْ لَا يُؤْمِنُوْنَ ) 6 ۔ الانعام:20 ) جنہیں ہم نے اس سے پہلے کتاب دے رکھی ہے وہ اس پر بھی ایمان لاتے ہیں اور جب یہ کتاب ان کے سامنے پڑھی جاتی ہے تو صاف کہ دیتے ہیں کہ ہم اس پر ایمان لائے یہ برحق کتاب ہمارے رب کی ہے ہم تو پہلے سے ہی اسے مانتے تھے انہیں انکے صبر کا دوہرا اجر دیا جائے گا اور جگہ ہے جنہیں ہم نے کتاب دی اور جسے وہ اسے صحیح طور پر پڑھتے ہیں وہ تو اس قرآن پر بھی فوراً ایمان لاتے ہیں اور جگہ ارشاد ہے آیت ( وَمِنْ قَوْمِ مُوْسٰٓي اُمَّةٌ يَّهْدُوْنَ بِالْحَقِّ وَبِهٖ يَعْدِلُوْنَ ) 7 ۔ الاعراف:159 ) حضرت موسیٰ کی قوم میں سے بھی ایک جماعت حق کی ہدایت کرنے والی اور حق کے ساتھ عدل کرنے والی ہے دوسرے مقام پر بیان ہے آیت ( لَيْسُوْا سَوَاۗءً ۭ مِنْ اَھْلِ الْكِتٰبِ اُمَّةٌ قَاۗىِٕمَةٌ يَّتْلُوْنَ اٰيٰتِ اللّٰهِ اٰنَاۗءَ الَّيْلِ وَھُمْ يَسْجُدُوْنَ ) 3 ۔ آل عمران:113 ) یعنی اہل کتاب سب یکساں نہیں ان میں ایک جماعت راتوں کے وقت بھی اللہ کی کتاب پڑھنے والی ہے اور سجدے کرنے والی اور جگہ ہے اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم تم کہو کہ لوگوں تم ایمان لاؤ یا نہ لاؤ جنہیں پہلے سے علم دیا گیا ہے جب ان کے سامنے اس کلام مجید کی آیتیں تلاوت کی جاتی ہے تو وہ اپنے چہروں کے بل سجدے میں گر پڑتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہمارا رب پاک ہے یقینا اس کا وعدہ سچا ہے اور سچا ہو کر رہنے والا ہے یہ لوگ روتے ہوئے منہ کے بل گرتے ہیں اور خشوع و خضوع میں بڑھ جاتے ہیں یہ صفتیں یہودیوں میں پائی گئیں گو بہت کم لوگ ایسے تھے مثلاً حضرت عبداللہ بن سلام اور آپ ہی جیسے اور جگہ ہے آیت ( لَتَجِدَنَّ اَشَدَّ النَّاسِ عَدَاوَةً لِّلَّذِيْنَ اٰمَنُوا الْيَھُوْدَ وَالَّذِيْنَ اَشْرَكُوْا ) 5 ۔ المائدہ:82 ) اسے خالدین فیھا آخر آیت تک ، مطلب یہ ہے کہ ایمان والوں سے عداوت اور دشمنی رکھنے میں سب سے زیادہ بڑھے ہوئے یہود ہیں اور مشرک اور ایمان والوں سے محبت رکھنے میں پیش پیش نصرانی ہیں ، اب فرماتا ہے ایسے لوگ اللہ تعالیٰ کے ہاں اجر عظیم کے مستحق ہیں ، حدیث میں یہ بھی آچکا ہے کہ حضرت جعفر بن ابو طالب نے جب سورہ مریم کی تلاوت شاہ نجاشی کے دربار میں بادشاہ اراکین سلطت اور علماء نصاریٰ کے سامنے کی اور اس میں آپ پر رقت طاری ہوئی تو سب حاضرین دربار مع بادشاہ رو دیئے اور اس قدر متاثر ہوئے کہ روتے روتے ان کی داڑھیاں تر ہو گئیں ، صحیح بخاری مسلم میں ہے کہ نجاشی کے انتقال کی خبر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اصحاب کو دی اور فرمایا کہ تمہارا بھائی حبشہ میں انتقال کر گیا ہے اور اس کے جنازے کی نماز ادا کرو اور میدان میں جا کر صحابہ کی صفیں مرتب کر کے آپ نے ان کے جنازے کی نماز ادا کی ۔ ابن مردویہ میں ہے کہ جب نجاشی فوت ہوئے تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اپنے بھائی کیلئے استغفار کرو تو بعض لوگوں نے کہا دیکھئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں اس نصرانی کیلئے استغفار کرنے کا حکم دیتے ہیں جو حبشہ میں مرا ہے اس پر یہ آیت نازل ہوئی ۔ گویا اس کے مسلمان ہونے شہادت قرآن کریم نے دی ، ابن جریر میں ہے کہ ان کی موت کی خبر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے دی کہ تمہارا بھائی اصحمہ انتقال کر گیا ہے پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم باہر نکلے اور جس طرح جنازے کی نماز پڑھاتے تھے اسی طرح چار تکبیروں سے نماز جنازہ پڑھائی اس پر منافقوں نے وہ اعتراض کیا اور یہ آیت اتری ابو داؤد میں ہے حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ نجاشی کے انتقال کے بعد ہم یہی سنتے رہے کہ ان کی قبر پر نور دیکھا جاتا ہے ، مستدرک حاکم میں ہے کہ نجاشی کا ایک دشمن اس کی سلطنت پر حملہ آور ہوا تو مہاجرین نے کہا کہ آپ اس سے مقابلہ کرنے کیلئے چلئے ہم بھی آپ کے ساتھ ہیں آپ ہماری بہادری کے جوہر دیکھ لیں گے اور جو حسن سلوک آپ نے ہمارے ساتھ کیا ہے اس کا بدلہ بھی اتر جائے گا لیکن نجاشی رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا کہ آپ لوگوں کی امداد کے ساتھ بچاؤ کرنے سے اللہ کی امداد کا بچاؤ بہتر ہے اس بارے میں یہ آیت نازل ہوئی ۔ حضرت مجاہد رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں اس سے مراد اہل کتاب کے مسلمان لوگ ہیں ، حضرت حسن بصری فرماتے ہیں اس سے مراد وہ اہل کتاب ہیں جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے تھے اسلام کو پہچانتے تھے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی تابعداری کا بھی شرف انہیں حاصل ہوا تو انہیں اجر بھی دوہرا ملا ایک تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے کے ایمان کا دوسرا اجر آپ پر ایمان لانے کا ، بخاری مسلم میں حضرت ابو موسیٰ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تین قسم کے لوگوں کو دوہرا اجر ملتا ہے جن میں سے ایک اہل کتاب کا وہ شخص ہے جو اپنے نبی پر ایمان لایا اور مجھ پر ایمان لایا اور باقی دو کو بھی ذکر کیا ، اللہ کی آیتوں کو تھوڑی قیمت پر نہیں بیچتے یعنی اپنے پاس علمی باتوں کو چھپاتے نہیں جیسے کہ ان میں سے ایک رزیل جماعت کا شیوہ تھا بلکہ یہ لوگ تو اسے پھیلاتے اور خوب ظاہر کرتے ہیں ان کا بدلہ ان کے رب کے پاس ہے اللہ تعالیٰ جلد حساب لینے والا ہے یعنی جلد سمیٹنے اور گھیرنے اور شمار کرنے والا ہے ۔ پھر فرماتا ہے کہ اسلام جیسے میری پسندیدہ دین پر جمے رہو شدت اور نرمی کے وقت مصیبت اور راحت کے وقت غرض کسی حال میں بھی اسے نہ چھوڑو یہاں تک کہ دم نکلے تو اسی پر نکلے اور اپنے ان دشمنوں سے بھی صبر سے کام لو جو اپنے دین کو چھپاتے ہیں امام حسن بصری وغیرہ علماء سلف نے یہی تفسیر بیان فرمائی ہے مرابطہ کہتے ہیں عبادت کی جگہ میں ہمیشگی کرنے کو اور ثابت قدمی سے جم جانے کو اور کہا گیا ہے ایک نماز کے بعد دوسری نماز کے انتظار کو یہی قوم ہے حضرت عبداللہ بن عباس سہل بن حنیف اور محمد بن کعب قرضی کا صحیح مسلم شریف اور نسائی میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں آؤ میں تمہیں بتاؤں کہ کس چیز سے اللہ تعالیٰ گناہوں کو مٹا دیتا ہے اور درجوں کو بڑھاتا ہے ، تکلیف ہوتے ہوتے بھی کامل وضو کرنا دور سے چل کر مسجدوں میں آنا ایک نماز کے بعد دوسری نماز کا انتظار کرنا یہی رباط ہے یہی مرابط ہے یہی اللہ تعالیٰ کی راہ کی مستعدی ہے ، ابن مردویہ میں ہے کہ ابو سلمہ سے ایک دن حضرت ابو ہریرہ نے پوچھا اے میرے بھتیجے جانتے ہو اس آیت کا شان نزول کیا ہے؟ انہوں نے کہا مجھے معلوم نہیں آپ نے فرمایا سنو اس وقت کوئی غزوہ نہ تھا یہ آیت ان لوگوں کے حق میں نازل ہوئی ہے جو مسجدوں کو آباد رکھتی تھی اور نمازوں کو ٹھیک وقت پر ادا کرتے تھے پھر اللہ کا ذکر کرتے تھے انہیں یہ حکم دیا جاتا ہے کہ تم پانچوں نمازوں پر جمے رہو اور اپنے نفس کو اور اپنی خواہش کو روکے رکھو اور مسجدوں میں بسیرا کرو اور اللہ سے ڈرتے رہو ۔ یہی اعمال موجب ایمان ہیں ، ابن جریر کی حدیث میں ہے کیا میں تمہیں وہ اعمال نہ بتاؤں جو گناہوں کا کفارہ ہو جاتے ہیں ناپسندیدگی کے وقت کامل وضو کرنا اور ایک نماز کے بعد دوسری نماز کا انتظار کرنا تمہاری مستعدی اسی میں ہونی چاہئے اور حدیث میں زیادہ قدم رکھ کر چل کر مسجد میں آنا بھی ہے ، اور روایت میں ہے کہ گناہوں کی معافی کے ساتھ ہی درجے بھی ان اعمال سے بڑھتے رہتے ہیں اور یہی اس آیت کا مطلب ہے لیکن یہ حدیث بالکل غریب ہے ، ابو سلمہ بن عبدالرحمن فرماتے ہیں یہاں رابطوا سے مطلب انتظار نماز ہے ، لیکن اوپر بیان ہو چکا ہے کہ یہ فرمان حضرت ابو ہریرہ کا ہے واللہ اعلم ۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ رابطوا سے مراد دشمن سے جہاد کرنا اسلامی ملک کی حدود کی نگہبانی کرنا اور دشمنوں کو اسلامی شہروں میں نہ گھسنے دینا ہے اس کی ترغیب میں بھی بہت سی حدیثیں ہیں اور اس پر بھی بڑے ثواب کا وعدہ ہے ، صحیح بخاری شریف میں ہے ایک دن کی یہ تیاری ساری دنیا سے اور جو اس میں ہے سب سے افضل ہے ، مسلم شریف کی حدیث میں ہے ایک دن رات کی جہاد کی تیاری ایک ماہ کے کامل روزوں اور ایک ماہ کی تمام شب بیداری سے افضل ہے اور اسی تیاری کی حالت میں موت آجائے تو جتنے اعمال صالحہ کرتا تھا سب کا ثواب پہنچتا رہتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے پاس سے روزی پہنچائی جاتی ہے اور فتنوں سے امن پاتا ہے ، مسند احمد میں ہے ہر مرنے والے کے اعمال ختم ہو جاتے ہیں مگر جو شخص اللہ تعالیٰ کی راہ کی تیاری میں ہو اور اسی حالت میں مر جائے اس کا عمل قیامت تک بڑھتا رہتا ہے اور اسے فتنہ قبر سے نجات ملتی ہے ابن ماجہ کی روایت میں یہ بھی ہے کہ قیامت کے دن اسے امن ملے گا ، مسند کی اور حدیث میں ہے اسے صبح شام جنت سے روزی پہنچائی جاتی ہے اور قیامت تک اس کے مرابط کا اجر ملتا رہتا ہے ، مسند احمد میں ہے جو شخص مسلمانوں کی سرحد کے کسی کنارے پر تین دن تیاری میں گزارے اسے سال بھر تک کی اور جگہ کی اس اس تیاری کا اجر ملتا ہے ، امیر المومنین حضرت عثمان بن عفان نے اپنے منبر پر خطبہ پڑھتے ہوئے ایک مرتبہ فرمایا میں تمہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنی سنی ہوئی بات سناتا ہوں میں نے اب تک ایک خاص خیال سے اسے نہیں سنایا آپ نے فرمایا ہے اللہ جل شانہ کی راہ میں ایک رات کا پہرہ ایک ہزار راتوں کی عبادت سے افضل ہے جو تمام راتیں قیام میں اور تمام دن صیام میں گزارے جائیں ۔ دوسری روایت میں اس حدیث کو اب تک بیان نہ کرنے کی وجہ خلیفہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بیان فرمائی ہے کہ مجھے ڈر تھا کہ اس فضیلت کے حاصل کرنے کیلئے کہیں تم سب مدینہ چھوڑ کر میدان جنگ میں نہ چل دو اب میں سنا دیتا ہوں ہر شخص کو اختیار ہے کہ جو بات اپنے لئے پسند کرتا ہے اس کا پابند ہو جائے دوسری روایت میں یہ بھی ہے کہ آپ نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات پہنچا دی لوگوں نے کہا ہاں آپ نے فرمایا اے جناب باری تعالیٰ تو گواہ رہ ، ترمذی شریف میں ہے کہ حضرت شرحبیل بن سمط محافظت سرحد میں تھے اور زمانہ زیادہ گزر جانے کے بعد کچھ تنگ دل ہو رہے تھے کہ حضرت سلمان فارسی ان کے پاس پہنچے اور فرمایا آؤ میں تجھے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث سناؤں آپ نے فرمایا ہے ایک دن سرحد کی حفاظت ایک مہینہ کے صیام و قیام سے افضل ہے اور جو اسی حالت میں مر جائے وہ فتنہ قبر سے محفوظ رہتا ہے اور اس کے اعمال قیامت تک جاری رہتے ہیں ۔ ابن ماجہ میں ہے کہ ایک رات اللہ تعالیٰ کی راہ میں پہرہ دینا تاکہ مسلمان امن سے رہیں ہاں نیت نیک ہو گو وہ رات رمضان کی نہ ہو ایک سو سال کی عبادت سے افضل ہے جس کے دن روزے میں اور جس کی راتیں تہجد میں گزری ہوں اور ایک دن کی رب العزت کی راہ میں تیاری تا کہ مسلمان باحفاظت رہیں طلب ثواب کی نیت سے ماہ رمضان کے بغیر اللہ کے نزدیک ایک ہزار سال کے روزوں اور تہجد سے افضل ہے ، مسلمان باحفاظت رہیں طلب ثواب کی نیت سے ماہ رمضان کے بغیر اللہ کے نزدیک ایک ہزار سال کی برائیاں اس کے نامہ اعمال میں نہیں لکھی جائیں گی اور نیکیاں لکھی جائیں گی اور اس مرابط کا اجر قیامت تک اسے ملتا رہے گا یہ حدیث غریب ہے بلکہ منکر ہے اس کے ایک راوی عمرو بن صبح متہم ہیں ، ابن ماجہ کی ایک اور غریب حدیث میں ہے کہ ایک رات کی مسلم لشکر کی چوکیداری ایک ہزار سال کی راتوں کے قیام اور دنوں کے صیام سے افضل ہے ہر سال کے تین سو ساٹھ دن اور ہر دن مثل ایک ہزار سال کے اس کے راوی سعید بن خالد کو ابو زرعہ وغیرہ ہیں ائمہ نے اسے ضعیف کہا ہے بلکہ امام حاکم فرماتے ہیں اس کی روایت سے موضع حدیثیں بھی ہیں ، ایک منقطع حدیث میں ہے لشکر اسلام کے چوکیدار پر اللہ تعالیٰ کا رحم ہو ( ابن ماجہ ) حضرت سہل بن حنظلہ فرماتے ہیں کہ حنین والے دن ہم رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ چلے شام کی نماز میں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ادا کی اتنے میں ایک گھوڑا سوار آیا اور کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں آگے نکل گیا تھا اور فلاں پہاڑ پر چڑھ کر میں نے نگاہ ڈالی تو دیکھا کہ قبیلہ ہوازن کے لوگ میدان میں جمع ہو گئے ہیں یہاں تک کہ ان کی اونٹنیاں ، بکریاں ، عورتیں اور بچے بھی ساتھ ہیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم مسکرائے اور فرمایا انشاء اللہ یہ سب کل مسلمانوں کی مال غنیمت ہو گا پھر فرمایا بتاؤ آج کی رات پہرہ کون دے گا ؟ حضرت انس بن ابو مرثد نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں حاضر ہوں آپ نے فرمایا جاؤ سواری لے کر آؤ وہ اپنے گھوڑے پر سوار ہو کر حاضر ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس گھاٹی پر چلے جاؤ اور اس پہاڑی کی چوٹی پر چڑھ جاؤ خبردار تمہاری طرف سے ان کے ساتھ کوئی چھیڑ چھاڑ صبح تک نہ ہو ، صبح جس وقت نماز کیلئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے دو سنتیں ادا کیں اور لوگوں سے پوچھا کہو تمہارے پہرے دار سوار کی تو کوئی آہٹ نہیں سنی لوگوں نے کہا نہیں یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ، اب تکبیر کہی گئی اور آپ نے نماز شروع کی آپ کا خیال اسی گھاٹی کی طرف تھا نماز سے سلام پھیرتے ہی آپ نے فرمایا خوش ہو جاؤ تمہارا گھوڑے سوار آ رہا ہے ہم نے جھاڑیوں میں جھانک کر دیکھا تو تھوڑی دیر میں ہمیں بھی دکھائی دے گئے آ کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں اس وادی کے اوپر کے حصے پر پہنچ گیا اور ارشاد کے مطابق وہیں رات گزاری صبح میں نے دوسری گھاٹی بھی دیکھ ڈالی لیکن وہاں بھی کوئی نہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا رات کو وہاں سے تم نیچے بھی اترے تھے ، جواب دیا نہیں صرف نماز کیلئے اور قضاء حاجت کیلئے تو نیچے اترا تھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم نے اپنے لئے جنت واجب کر لی اب تم اس کے بعد کوئی عمل نہ کرو تو بھی تم پر کوئی حرج نہیں ، ( ابو داؤد و نسائی ) مسند احمد میں ہے ایک غزوہ کے موقعہ پر ایک رات کو ہم بلند جگہ پر تھے اور سخت سردی تھی یہاں تک کہ لوگ زمین میں گڑھے کھود کھود کر اپنے اوپر ڈھالیں لے لے کر پڑے ہوئے تھے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وقت آواز دی کہ کوئی ہے جو آج کی رات ہماری چوکیداری کرے اور مجھ سے بہترین دعا لے تو ایک انصاری کھڑا ہو گیا اور کہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم میں تیار ہوں آپ نے اسے پاس بلا کر نام دریافت کر کے اس کے لئے بہت دعا کی ابو ریحانہ یہ دعائیں سن کر آگے بڑھے اور کہنے لگے یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں بھی پہرہ دوں گا آپ نے مجھے بھی پاس بلا لیا اور نام پوچھ کر میرے لئے بھی دعائیں کیں لیکن اس انصاری صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے یہ دعا کم تھی پھر آپ نے فرمایا اس آنکھ پر جہنم کی آنچ حرام ہے جو اللہ کے ڈر سے روئے اور اس آنکھ پر بھی جو راہ اللہ میں شب بیداری کرے ، مسند حمد میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں جو شخص مسلمانوں کے پیچھے سے ان کا پہرہ دے اپنی خوشی سے بغیر سلطان کی اجرت و تنخواہ کے وہ اپنی آنکھوں سے بھی جہنم کی آگ کو نہ دیکھے گا مگر صرف قسم پوری ہونے کے لئے جو اس آیت میں ہے آیت ( وان منکم الا واردھا ) یعنی تم سب اس پر وارد ہو گئے ، صحیح بخاری میں ہے دینار کا بندہ برباد ہوا اور کپڑوں کا بندہ اگر مال دیا جائے تو خوش ہے اور اگر نہ دیا جائے تو ناخوش ہے ، یہ بھی برباد ہوا اور خراب ہوا اگر اسے کانٹا چبھ جائے تو نکالنے کی کوشش بھی نہ کی جائے خوش نصیب ہوا اور پھلا خوب پھولا وہ شخص جو اللہ کی راہ میں جہاد کے لئے اپنے گھوڑے کی لگام تھامے ہوئے ہے بکھرے ہوئے بال ہیں اور گرد آلود قدم ہیں اگر چوکیداری پر مقرر کر دیا گیا ہے تو چوکیدارہ کر رہا ہے اور اگر لشکر کے اگلے حصے میں مقرر کر دیا گیا ہے تو وہیں خوش ہے لوگوں کی نظروں میں اتنا گرا پڑا ہے کہ اگر کہیں جانا چاہے تو اجازت نہ ملے اور اگر کسی کی سفارش کرے تو قبول نہ ہو ، الحمد اللہ اس آیت کے متعلق خاصی حدیثیں بیان ہو گئیں اللہ تعالیٰ کے اس فضل و کرم پر ہم اس کا شکر ادا کرتے ہیں اور شکر گزاری سے رہتی دنیا تک فارغ نہیں ہو سکتے ۔ تفسیر ابن جریر میں ہے کہ حضرت ابو عبیدہ بن جراح رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے امیر المومنین خلیفتہ المسلمین حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو میدان جنگ سے ایک خط لکھا اور اس میں رومیوں کی فوج کی کثرت ان کی آلات حرب کی حالت اور ان کی تیاریوں کی کیفیتیں بیان کی اور لکھا کہ سخت خطرہ کا موقعہ ہے ، یہاں سے فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کا جواب گیا جس میں حمد و ثنا کے بعد تحریر تھا کہ کبھی کبھی مومن بندوں پر سختیاں بھی آجاتی ہیں لیکن اللہ تعالیٰ ان کے بعد آسانیاں بھیج دیتا ہے ۔ سنو ایک سختی دو آسانیوں پر غالب نہیں آ سکتی سنو پروردگار عالم کا فرمان ہے آیت ( يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اصْبِرُوْا وَصَابِرُوْا وَرَابِطُوْا ) 3 ۔ آل عمران:200 ) حضرت عبداللہ بن مبارک رحمتہ اللہ علیہ نے سن ١٧٠ یا ١٧٧ھ میں شہر طرسوس میں حضرت محمد بن ابراہیم بن سکینہ کو جبکہ وہ ان کو وداع کرنے آئی تھی اور یہ جہاد کو جا رہے تھے یہ اشعار لکھوا کر حضرت فضیل بن عیاض رحمۃ اللہ علیہ کو بھجوائے یا عابد الحرمین لو ابصرتنا لعلمت انک فی العبادۃ تلعب من کان یخضب خدہ بلموعہ فنحورنا بلمائنا تتخضب من کان یتعب خلیہ فی باطل فنخیولنا یوم الصبیحتہ تتعب ریح العبیر لکم ونحن عبیرنا رھج السنابک والغبار الاطیب ولقد اتانا من مقال نبینا قول صحیح صادق لا یکذب لا یستوی غبار خیل اللہ فی انف امری ودخان نار تلھب ھذا کتاب اللہ ینطق بیننا لیس الشھید بمیت لا یکذب اے مکہ مدینہ میں رہ کر عبادت کرنے والے اگر تو ہم مجاہدین کو دیکھ لیتا تو بالیقین تجھے معلوم ہو جاتا کہ تیری عبادت تو ایک کھیل ہے ، ایک وہ شخص ہے جس کے آنسو اس کے رخساروں کو تر کرتے ہیں اور ایک ہم ہیں جو اپنی گردن اللہ کی راہ میں کٹوا کر اپنے خون میں آپ نہا لیتے ہیں ۔ ایک وہ شخص ہے جس کا گھوڑا باطل اور بیکار کام میں تھک جاتا ہے اور ہمارے گھوڑے حملے اور لڑائی کے دن ہی تھکتے ہیں ۔ اگر کئ خوشبوئیں تمہارے لئے ہیں اور ہمارے لئے اگر کئ خوشبو گھوڑوں کے ٹاپوں کی خاک اور پاکیزہ گرد و غبار ہے ۔ یقین مانو ہمیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث پہنچ چکی ہے جو سراسر راستی اور درستی والی بالکل سچی ہے کہ جس کسی کے نام میں اس اللہ تعالیٰ کے لشکر کی گرد بھی پہنچ گئی اس کے ناک میں شعلے مارنے والی جہنم کی آگ کا دھواں بھی نہ جائے گا اور لو یہ ہے اللہ تعالیٰ کی پاک کتاب جو ہم میں موجود ہے اور صاف کہہ رہی ہے اور سچ کہہ رہی ہے کہ شہید مردہ نہیں ۔ محمد بن ابراہیم فرماتے ہیں جب میں نے مسجد حرام میں پہنچ کر حضرت فضیل بن عیاض رحمتہ اللہ علیہ کو یہ اشعار دکھائے تو آپ پڑھ کر زار زار روئے اور فرمایا ابو عبدالرحمن نے اللہ تعالیٰ کی رحمتیں ان پر ہوں صحیح اور سچ فرمایا اور مجھے نصیحت نامہ میرے پاس لائے اس کے بدلے میں تمہیں ایک حدیث لکھواتا ہوں وہ یہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک شخص نے درخواست کی کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے ایسا عمل بتائے جس سے میں مجاہد کا ثواب پالوں ، آپ نے فرمایا کیا تجھ میں یہ طاقت ہے کہ نماز ہی پڑھتا رہے اور تھکے نہیں اور روزے رکھتا چلا جائے اور کبھی بےروزہ رہے اس نے کہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم اس کی طاقت کہاں؟ میں اس سے بہت ہی ضعیف ہوں آپ نے فرمایا اگر تجھ میں اتنی طاقت ہوتی اور تو ایسا کر بھی سکتا تو بھی مجاہد فی سبیل اللہ کے درجے کو نہ پہنچ سکتا ، تو یہ بھی جانتا ہے کہ مجاہد کے گھوڑے کی رسی دراز ہو جائے اور وہ ادھر ادھر چر جائے تو اس پر بھی مجاہد کو نیکیاں ملتی ہیں ۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ حکم دیتا ہے کہ اللہ سے ڈرتے رہو اور ہر حال میں ہر وقت ہر معاملہ میں اللہ کا خوف کیا کرو ۔ جناب رسول اکرم حضرت محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو جب یمن کی طرف بھیجا تو فرمایا اے معاذ جہاں بھی ہو اللہ کا خوف دل میں رکھ اور اگر تجھ سے کوئی برائی ہو جائے تو فوراً کوئی نیکی بھی کر لے تا کہ وہ برائی مٹ جائے اور لوگوں سے خلق و مروت کے ساتھ پیش آیا کر ۔ پھر فرماتا ہے کہ یہ چاروں کام کر لینے سے تم اپنے مقصد میں کامیاب اور بامراد ہو جاؤ گے دنیا اور آخرت میں فلاح و نجات پالو گے ۔ حضرت محمد بن کعب قرظی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں مطلب یہ ہے کہ اللہ فرماتا ہے تم میرا لحاظ رکھو میرے خوف سے کانپتے رہو مجھ سے ڈرتے رہو میرے اور اپنے معاملہ میں متقی رہو تو کل جبکہ تم مجھ سے ملو گے نجات یافتہ اور بامراد ہو جاؤ گے ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

199۔ 1 اس آیت میں اہل کتاب کے اس گروہ کا ذکر ہے جسے رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت پر ایمان لانے کا شرف حاصل ہوا۔ ان کے ایمان اور ایمانی صفات کا تذکرہ فرما کر اللہ تعالیٰ نے انہیں دوسرے اہل کتاب سے ممتاز کردیا، جن کا مشن ہی اسلام، پیغمبر اسلام اور مسلمانوں کے خلاف سازشیں کرنا، آیات الٰہی میں تحریف و تبدیل کرنا اور دنیا کے عارضی اور فانی مفادات کے لئے کرنا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا یہ مومنین اہل کتاب ایسے نہیں ہیں، بلکہ یہ اللہ سے ڈرنے والے ہیں اور اللہ کی آیتوں کو تھوڑی تھوڑی قیمت پر بیچنے والے نہیں۔ حافظ ابن کثیرنے لکھا ہے کہ آیت میں جن مومنین اہل کتاب کا ذکر ہے، یہودیوں کی تعداد دس تک بھی نہیں پہنچی البتہ عیسائی بڑی تعداد میں مسلمان ہوئے اور انہوں نے دین حق کو اپنایا۔ (تفسیر ابن کثیر)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٢٠٠] یہود میں کچھ ایسے لوگ موجود تھے جو اللہ سے ڈرنے والے، حرام خوری سے بچنے والے دیانتدار اور نیک سرشت تھے۔ اگرچہ ایسے لوگ بہت کم تھے، تاہم تھے اور ان کا ذکر پہلے سورة آل عمران کی آیت ١١٣ تا ١١٥ میں گزر چکا ہے۔ یہی وہ لوگ تھے جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لائے اور ایسے لوگ دوہرے ثواب کے مستحق ہوتے ہیں۔ ایک اپنے نبی اور کتاب پر ایمان لانے کا دوسرے نبی آخرالزمان اور قرآن پر ایمان لانے کا۔ چناچہ آپ نے فرمایا ہے کہ تین آدمیوں کو دہرا اجر ملے گا، ایک تو اس کو جس کی کوئی لونڈی ہو اور وہ اس کی اچھی تعلیم و تربیت کرے، ادب سکھلائے پھر اس سے نکاح کرلے دوسرے اس یہودی یا عیسائی کو جو اپنے پیغمبر پر ایمان لایا، پھر محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر بھی ایمان لایا۔ تیسرے اس غلام کو جو اللہ اور اپنے آقا دونوں کا حق ادا کرے۔ (بخاری، کتاب الجہاد، باب فضل من اسلم من اھل الکتاب)

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَاِنَّ مِنْ اَھْلِ الْكِتٰبِ ۔۔ : اس آیت میں اہل کتاب (یہود و نصاریٰ ) کے اس گروہ کا ذکر ہے جو سچے دل سے مسلمان ہوگئے تھے، ان کے ایمان اور ایمانی صفات کا ذکر فرما کر اللہ تعالیٰ نے انھیں دوسرے اہل کتاب سے ممتاز فرما دیا کہ یہ لوگ اللہ تعالیٰ پر ایمان لاتے ہیں، پہلی کتابوں اور قرآن مجید پر ایمان لاتے ہیں، اللہ سے ڈرنے والے ہیں، اللہ کی آیات کے بدلے دنیاوی مفاد حاصل نہیں کرتے، ان کے لیے اللہ کے ہاں ان کا اجر محفوظ ہے، بلکہ دوہرا اجر ہے، جیسا کہ سورة حدید (٢٨) میں ہے۔ یہ صفات یہود میں بہت کم تھیں۔ علمائے یہود میں سے عبداللہ بن سلام (رض) جیسے ان صفات کے حامل چند لوگ اور تھے، جن کی تعداد دس سے زیادہ نہ تھی، البتہ نصرانیوں میں سے بہت سے لوگوں نے ایمان قبول کیا، جن میں حبشہ کے بادشاہ اصحمہ نجاشی بھی شامل تھے، ان کی موت کی خبر آنے پر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مدینہ میں ان پر غائبانہ نماز جنازہ پڑھائی۔ [ بخاری، مناقب، باب موت النجاشی : ٣٨٧٧، عن جابر (رض) ]

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَاِنَّ مِنْ اَھْلِ الْكِتٰبِ لَمَنْ يُّؤْمِنُ بِاللہِ وَمَآ اُنْزِلَ اِلَيْكُمْ وَمَآ اُنْزِلَ اِلَيْھِمْ خٰشِعِيْنَ لِلہِ۝ ٠ ۙ لَا يَشْتَرُوْنَ بِاٰيٰتِ اللہِ ثَـمَنًا قَلِيْلًا۝ ٠ۭ اُولٰۗىِٕكَ لَھُمْ اَجْرُھُمْ عِنْدَ رَبِّھِمْ۝ ٠ ۭ اِنَّ اللہَ سَرِيْعُ الْحِسَابِ۝ ١٩٩- أیمان - يستعمل اسما للشریعة التي جاء بها محمّد عليه الصلاة والسلام، وعلی ذلك : الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة 69] ، ويوصف به كلّ من دخل في شریعته مقرّا بالله وبنبوته . قيل : وعلی هذا قال تعالی: وَما يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ [يوسف 106] . وتارة يستعمل علی سبیل المدح، ويراد به إذعان النفس للحق علی سبیل التصدیق، وذلک باجتماع ثلاثة أشياء : تحقیق بالقلب، وإقرار باللسان، وعمل بحسب ذلک بالجوارح، وعلی هذا قوله تعالی: وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ أُولئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ [ الحدید 19] .- ( ا م ن ) - الایمان - کے ایک معنی شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے آتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ :۔ الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة 69] ، اور جو لوگ مسلمان ہیں یا یہودی یا عیسائی یا ستارہ پرست۔ اور ایمان کے ساتھ ہر وہ شخص متصف ہوسکتا ہے جو تو حید کا اقرار کر کے شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں داخل ہوجائے اور بعض نے آیت وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ ( سورة يوسف 106) ۔ اور ان میں سے اکثر خدا پر ایمان نہیں رکھتے مگر ( اس کے ساتھ ) شرک کرتے ہیں (12 ۔ 102) کو بھی اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔ - نزل - النُّزُولُ في الأصل هو انحِطَاطٌ من عُلْوّ.- يقال : نَزَلَ عن دابَّته، والفَرْقُ بَيْنَ الإِنْزَالِ والتَّنْزِيلِ في وَصْفِ القُرآنِ والملائكةِ أنّ التَّنْزِيل يختصّ بالموضع الذي يُشِيرُ إليه إنزالُهُ مفرَّقاً ، ومرَّةً بعد أُخْرَى، والإنزالُ عَامٌّ ، فممَّا ذُكِرَ فيه التَّنزیلُ قولُه : نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء 193] وقرئ : نزل وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء 106] - ( ن ز ل ) النزول ( ض )- اصل میں اس کے معنی بلند جگہ سے نیچے اترنا کے ہیں چناچہ محاورہ ہے : ۔ نزل عن دابۃ وہ سواری سے اتر پڑا ۔ نزل فی مکان کذا کسی جگہ پر ٹھہر نا انزل وافعال ) اتارنا قرآن میں ہے ۔ عذاب کے متعلق انزال کا لفظ استعمال ہوا ہے قرآن اور فرشتوں کے نازل کرنے کے متعلق انزال اور تنزیل دونوں لفظ استعمال ہوئے ہیں ان دونوں میں معنوی فرق یہ ہے کہ تنزیل کے معنی ایک چیز کو مرۃ بعد اخریٰ اور متفرق طور نازل کرنے کے ہوتے ہیں ۔ اور انزال کا لفظ عام ہے جو ایک ہی دفعہ مکمل طور کیس چیز نازل کرنے پر بھی بولا جاتا ہے چناچہ وہ آیات ملا حضہ ہو جہاں تنزیل لا لفظ استعمال ہوا ہے ۔ نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء 193] اس کو امانت دار فر شتہ لے کر اترا ۔ ایک قرات میں نزل ہے ۔ وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء 106] اور ہم نے اس کو آہستہ آہستہ اتارا - خشع - الخُشُوع : الضّراعة، وأكثر ما يستعمل الخشوع فيما يوجد علی الجوارح . والضّراعة أكثر ما تستعمل فيما يوجد في القلب ولذلک قيل فيما روي : روي : «إذا ضرع القلب خَشِعَتِ الجوارح» قال تعالی: وَيَزِيدُهُمْ خُشُوعاً [ الإسراء 109] ، وقال : الَّذِينَ هُمْ فِي صَلاتِهِمْ خاشِعُونَ [ المؤمنون 2] ، وَكانُوا لَنا خاشِعِينَ [ الأنبیاء 90] ، وَخَشَعَتِ الْأَصْواتُ [ طه 108] ، خاشِعَةً أَبْصارُهُمْ [ القلم 43] ، أَبْصارُها خاشِعَةٌ [ النازعات 9] ، كناية عنها وتنبيها علی تزعزعها کقوله : إِذا رُجَّتِ الْأَرْضُ رَجًّا [ الواقعة 4] ، وإِذا زُلْزِلَتِ الْأَرْضُ زِلْزالَها [ الزلزلة 1] ، يَوْمَ تَمُورُ السَّماءُ مَوْراً وَتَسِيرُ الْجِبالُ سَيْراً [ الطور 9- 10] .- ( خ ش ع ) الخشوع - ۔ ( ان ) کے معنی ضواعۃ یعنی عاجزی کرنے اور جھک جانے کے ہیں ۔ مگر زیادہ تر خشوع کا لفظ جوارح اور ضراعت کا لفظ قلب کی عاجزی پر بولا جاتا ہے ۔ اسی لئے ایک روایت میں ہے :۔ (112) اذا ضرعت القلب خشعت الجوارح جب دل میں فروتنی ہو تو اسی کا اثر جوارح پر ظاہر ہوجاتا ہے قرآن میں ہے : وَيَزِيدُهُمْ خُشُوعاً [ الإسراء 109] اور اس سے ان کو اور زیادہ عاجزی پید اہوتی ہے ۔ الَّذِينَ هُمْ فِي صَلاتِهِمْ خاشِعُونَ [ المؤمنون 2] جو نماز میں عجز و نیاز کرتے ہیں ۔ وَكانُوا لَنا خاشِعِينَ [ الأنبیاء 90] اور ہمارے آگے عاجزی کیا کرتے تھے ۔ وَخَشَعَتِ الْأَصْواتُ [ طه 108] آوازیں پست ہوجائیں گے ۔ ان کی آنکھیں جھکی ہوئی ہوں گی ۔ أَبْصارُها خاشِعَةٌ [ النازعات 9] یہ ان کی نظروں کے مضطرب ہونے سے کنایہ ہے ۔ جیسا کہ زمین وآسمان کے متعلق بطور کنایہ کے فرمایا ۔ إِذا رُجَّتِ الْأَرْضُ رَجًّا [ الواقعة 4] جب زمین بھونچال سے لرزنے لگے ۔ وإِذا زُلْزِلَتِ الْأَرْضُ زِلْزالَها [ الزلزلة 1] جب زمین بھونچال سے ہلا دی جائے گی ۔ يَوْمَ تَمُورُ السَّماءُ مَوْراً وَتَسِيرُ الْجِبالُ سَيْراً [ الطور 9- 10] جس دن آسمان لرزنے لگے کپکپا کر۔ اور پہاڑ اڑانے لگیں ( اون ہوکر )- ثمن - قوله تعالی: وَشَرَوْهُ بِثَمَنٍ بَخْسٍ [يوسف 20] . الثَّمَنُ : اسم لما يأخذه البائع في مقابلة البیع، عينا کان أو سلعة . وکل ما يحصل عوضا عن شيء فهو ثمنه . قال تعالی:- إِنَّ الَّذِينَ يَشْتَرُونَ بِعَهْدِ اللَّهِ وَأَيْمانِهِمْ ثَمَناً قَلِيلًا [ آل عمران 77] ،- ( ث م ن ) الثمن - اصل میں ہر اس چیز کو کہتے ہیں جو فروخت کرنے والا اپنی چیز کے عوض خریدار سے وصول کرتا ہے خواہ وہ زر نقد ہو یا سامان ۔ قرآن میں ہے :۔ وَشَرَوْهُ بِثَمَنٍ بَخْسٍ [يوسف 20] اور اسے تھوڑی سی قیمت یعنی چند درہموں پر بیچ ڈالا ۔ - أجر - الأجر والأجرة : ما يعود من ثواب العمل دنیویاً کان أو أخرویاً ، نحو قوله تعالی: إِنْ أَجْرِيَ إِلَّا عَلَى اللَّهِ [يونس 72] ، وَآتَيْناهُ أَجْرَهُ فِي الدُّنْيا وَإِنَّهُ فِي الْآخِرَةِ لَمِنَ الصَّالِحِينَ [ العنکبوت 27] ، وَلَأَجْرُ الْآخِرَةِ خَيْرٌ لِلَّذِينَ آمَنُوا [يوسف 57] .- والأُجرة في الثواب الدنیوي، وجمع الأجر أجور، وقوله تعالی: وَآتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ [ النساء 25] كناية عن المهور، والأجر والأجرة يقال فيما کان عن عقد وما يجري مجری العقد، ولا يقال إلا في النفع دون الضر، نحو قوله تعالی: لَهُمْ أَجْرُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران 199] ، وقوله تعالی: فَأَجْرُهُ عَلَى اللَّهِ [ الشوری 40] . والجزاء يقال فيما کان عن عقدٍ وغیر عقد، ويقال في النافع والضار، نحو قوله تعالی: وَجَزاهُمْ بِما صَبَرُوا جَنَّةً وَحَرِيراً [ الإنسان 12] ، وقوله تعالی: فَجَزاؤُهُ جَهَنَّمُ [ النساء 93] .- يقال : أَجَر زيد عمراً يأجره أجراً : أعطاه الشیء بأجرة، وآجَرَ عمرو زيداً : أعطاه الأجرة، قال تعالی: عَلى أَنْ تَأْجُرَنِي ثَمانِيَ حِجَجٍ [ القصص 27] ، وآجر کذلک، والفرق بينهما أنّ أجرته يقال إذا اعتبر فعل أحدهما، وآجرته يقال إذا اعتبر فعلاهما «1» ، وکلاهما يرجعان إلى معنی واحدٍ ، ويقال : آجره اللہ وأجره اللہ .- والأجير : فعیل بمعنی فاعل أو مفاعل، والاستئجارُ : طلب الشیء بالأجرة، ثم يعبّر به عن تناوله بالأجرة، نحو : الاستیجاب في استعارته الإيجاب، وعلی هذا قوله تعالی:- اسْتَأْجِرْهُ إِنَّ خَيْرَ مَنِ اسْتَأْجَرْتَ الْقَوِيُّ الْأَمِينُ [ القصص 26] .- ( ا ج ر ) الاجر والاجرۃ کے معنی جزائے عمل کے ہیں خواہ وہ بدلہ دنیوی ہو یا اخروی ۔ چناچہ فرمایا : ۔ إِنْ أَجْرِيَ إِلَّا عَلَى اللَّهِ [هود : 29] میرا اجر تو خدا کے ذمے ہے ۔ وَآتَيْنَاهُ أَجْرَهُ فِي الدُّنْيَا وَإِنَّهُ فِي الْآخِرَةِ لَمِنَ الصَّالِحِينَ [ العنکبوت : 27] اور ان کو دنیا میں بھی ان کا صلہ عنایت کیا اور وہ آخرت میں بھی نیک لوگوں میں سے ہوں گے ۔ وَلَأَجْرُ الْآخِرَةِ خَيْرٌ لِلَّذِينَ آمَنُوا [يوسف : 57] اور جو لوگ ایمان لائے ۔ ۔۔۔ ان کے لئے آخرت کا اجر بہت بہتر ہے ۔ الاجرۃ ( مزدوری ) یہ لفظ خاص کر دنیوی بدلہ پر بولا جاتا ہے اجر کی جمع اجور ہے اور آیت کریمہ : وَآتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ [ النساء : 25] اور ان کے مہر بھی انہیں ادا کردو میں کنایہ عورتوں کے مہر کو اجور کہا گیا ہے پھر اجر اور اجرۃ کا لفظ ہر اس بدلہ پر بولاجاتا ہے جو کسی عہد و پیمان یا تقریبا اسی قسم کے عقد کی وجہ سے دیا جائے ۔ اور یہ ہمیشہ نفع مند بدلہ پر بولا جاتا ہے ۔ ضرر رساں اور نقصان دہ بدلہ کو اجر نہیں کہتے جیسے فرمایا لَهُمْ أَجْرُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ البقرة : 277] ان کو ان کے کاموں کا صلہ خدا کے ہاں ملے گا ۔ فَأَجْرُهُ عَلَى اللهِ ( سورة الشوری 40) تو اس کا بدلہ خدا کے ذمے ہے الجزاء ہر بدلہ کو کہتے ہیں خواہ وہ کسی عہد کی وجہ سے ہو یا بغیر عہد کے اچھا ہو یا برا دونوں پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ فرمایا ۔ وَجَزَاهُمْ بِمَا صَبَرُوا جَنَّةً وَحَرِيرًا [ الإنسان : 12] اور ان کے صبر کے بدلے ان کو بہشت کے باغات اور ریشم ( کے ملبوسات) عطا کریں گے ۔ فَجَزَاؤُهُ جَهَنَّمُ ( سورة النساء 93) اس کی سزا دوزخ ہے ۔ محاورہ میں ہے اجر ( ن ) زید عمرا یا جرہ اجرا کے معنی میں زید نے عمر کو اجرت پر کوئی چیز دی اور اجر عمر زیدا کے معنی ہوں گے عمرو نے زید کو اجرت دی قرآن میں ہے :۔ عَلَى أَنْ تَأْجُرَنِي ثَمَانِيَ حِجَجٍ [ القصص : 27] کہ تم اس کے عوض آٹھ برس میری خدمت کرو ۔ اور یہی معنی اجر ( مفاعلہ ) کے ہیں لیکن اس میں معنی مشارکت کا اعتبار ہوتا ہے اور مجرد ( اجرتہ ) میں مشارکت کے معنی ملحوظ نہیں ہوتے ہاں مال کے لحاظ سے دونوں ایک ہی ہیں ۔ محاورہ ہی ۔ اجرہ اللہ واجرہ دونوں طرح بولا جاتا ہے یعنی خدا اسے بدلہ دے ۔ الاجیرہ بروزن فعیل بمعنی فاعل یا مفاعل ہے یعنی معاوضہ یا اجرت کا پر کام کرنے والا ۔ الاستیجار کے اصل معنی کسی چیز کو اجرت پر طلب کرنا پھر یہ اجرت پر رکھ لینے کے معنی میں بولا جاتا ہے جس طرح کہ استیجاب ( استفعال ) بمعنی اجاب آجاتا ہے چناچہ آیت کریمہ : اسْتَأْجِرْهُ إِنَّ خَيْرَ مَنِ اسْتَأْجَرْتَ الْقَوِيُّ الْأَمِينُ [ القصص : 26] اسے اجرت پر ملازم رکھ لیجئے کیونکہ بہتر ملازم جو آپ رکھیں وہ ہے جو توانا اور امانت دار ہو میں ( استئجار کا لفظ ) ملازم رکھنے کے معنی میں استعمال ہوا ہے ۔- سرع - السُّرْعَةُ : ضدّ البطء، ويستعمل في الأجسام، والأفعال، يقال : سَرُعَ ، فهو سَرِيعٌ ، وأَسْرَعَ فهو مُسْرِعٌ ، وأَسْرَعُوا : صارت إبلهم سِرَاعاً ، نحو :- أبلدوا، وسَارَعُوا، وتَسَارَعُوا . قال تعالی: وَسارِعُوا إِلى مَغْفِرَةٍ مِنْ رَبِّكُمْ [ آل عمران 133] ، وَيُسارِعُونَ فِي الْخَيْراتِ [ آل عمران 114] ، يَوْمَ تَشَقَّقُ الْأَرْضُ عَنْهُمْ سِراعاً [ ق 44] - ( س ر ع ) السرعۃ - اس کے معنی جلدی کرنے کے ہیں اور یہ بطا ( ورنگ گردن ) کی ضد ہے ۔ اجسام اور افعال دونوں کے ( ان کے اونٹ تیز رفتاری سے چلے گئے ) آتے ہں ۔ جیسا کہ اس کے بالمقابل ایلد وا کے معنی سست ہونا آتے ہیں ۔ سارعوا وتسارعو ایک دوسرے سے سبقت کرنا چناچہ قرآن میں ہے : وَسارِعُوا إِلى مَغْفِرَةٍ مِنْ رَبِّكُمْ [ آل عمران 133] اور اپنے پروردگار کی بخشش ( اور بہشت کی ) طرف لپکو ۔ وَيُسارِعُونَ فِي الْخَيْراتِ [ آل عمران 114] اور نیکیوں پر لپکتے ہیں ۔ يَوْمَ تَشَقَّقُ الْأَرْضُ عَنْهُمْ سِراعاً [ ق 44] اس روز زمین ان پر سے پھٹ جائے گی اور جھٹ جھٹ نکل کھڑے ہوں گے ۔ - حسب - الحساب : استعمال العدد، يقال : حَسَبْتُ «5» أَحْسُبُ حِسَاباً وحُسْبَاناً ، قال تعالی: لِتَعْلَمُوا عَدَدَ السِّنِينَ وَالْحِسابَ [يونس 5] ، وقال تعالی: وَجَعَلَ اللَّيْلَ سَكَناً وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ حُسْباناً [ الأنعام 96] ، وقیل : لا يعلم حسبانه إلا الله، - ( ح س ب ) الحساب - کے معنی گنتے اور شمار کرنے کے ہیں ۔ کہا جاتا ہے ۔ حسبت ( ض ) قرآن میں ہے : ۔ لِتَعْلَمُوا عَدَدَ السِّنِينَ وَالْحِسابَ [يونس 5] اور برسوں کا شمار اور حساب جان لو ۔ وَجَعَلَ اللَّيْلَ سَكَناً وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ حُسْباناً [ الأنعام 96] اور اسی نے رات کو ( موجب ) آرام ( ٹھہرایا ) اور سورج اور چانا ۔ کو ( ذرائع ) شمار بنایا ہے ۔ اور اسی نے رات کو ( موجب ) آرام ( ٹھہرایا ) اور سورج اور چانا ۔ کو ( ذرائع ) شمار بنایا ہے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(١٩٩) یعنی قرآن کریم اور توریت پر بھی اعتقاد رکھتے ہیں، اللہ تعالیٰ کی اطاعت میں پوری طرح مستعد ہیں اور اس کے حضور عجز کرتے ہیں، کم حقیقت معاوضہ کے بدلہ توریت میں رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نعت وصفت کو نہیں چھپاتے جیسا کہ عبداللہ بن سلام اور اس کے دیگر ساتھی ہیں۔- ان حضرات کو جنت میں ثواب ملے گا اور اللہ تعالیٰ جب حساب لیں گے تو بہت جلدی یعنی آسانی کے ساتھ حساب کردیں گے، آگے اللہ تعالیٰ جہاد اور تکالیف پر ثابت قدم رہنے کی ترغیب فرماتے ہیں کہ قرآن کریم اور رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان رکھنے والو اپنے نبی کے ساتھ جہاد میں اس قدر ثابت قدم رہو کہ دشمنوں کو مغلوب کردو۔- شان نزول : (آیت) ” وان من اھل الکتب “۔ (الخ)- امام نسائی (رح) نے حضرت انس (رض) سے روایت نقل کی ہے کہ جب شاہ حبش اصمحہ نجاشی (رض) کے انتقال کی خبر آئی تو رسول اکرم (رض) نے صحابہ کرام (رض) سے فرمایا ان پر نماز پڑھو، صحابہ کرام (رض) نے عرض کیا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کیا ایک عبدحبشی کی نماز پڑھیں، اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی ابن جریر (رح) نے جابر (رض) سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔- اور مستدرک میں عبداللہ بن زبیر (رض) سے مروی ہے کہ یہ آیت شاہ نجاشی (رض) کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ (لباب النقول فی اسباب النزول از علامہ سیوطی (رح )

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ١٩٩ (وَاِنَّ مِنْ اَہْلِ الْکِتٰبِ لَمَنْ یُّؤْمِنُ باللّٰہِ ) - ان کے دلوں میں اللہ کا خوف ہے ‘ وہ عاجزی اور تواضع اختیار کرتے ہیں۔- (اِنَّ اللّٰہَ سَرِیْعُ الْحِسَابِ ) ۔- وہ حساب لینے میں دیر نہیں لگاتا۔ آخری آیت پھر بہت جامع ہے :

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani