200۔ 1 صبر کرو یعنی طاعت کے اختیار کرنے اور شہوات اور لذات ترک کرنے میں اپنے نفس کو مضبوط اور ثابت قدم رکھو، جنگ کی شدت میں دشمن کے مقابلے میں ڈٹے رہنا، یہ صبر کی سخت ترین صورت ہے اس لئے اسے علٰیحدہ بیان فرمایا محاذ جنگ میں مورچہ بند ہو کر ہمہ وقت چوکنا اور جہاد کے لئے تیار رہنا مرابطہ ہے۔ یہ بھی بڑے عزم ولولہ کا کام ہے، اسی لئے حدیث میں اس کی فضیلت بیان کی گئی ہے (رباط یوم فی سبیل اللہ خیر من الدنیا وما علیھا) (صحیح بخاری، باب فضل رباط یوم فی سبیل اللہ) اللہ کے راستے (جہاد) میں ایک سن پڑاؤ ڈالنا۔ (یعنی مورچہ بند ہونا) دنیا ومافیہا سے بہتر ہے " علاوہ ازیں حدیث میں مکارہ (یعنی ناگواری کے حالات میں) مکمل وضو کرنے، مسجدوں میں زیادہ دور سے چل کر جانے اور نماز کے بعد دوسری نماز کے انتظار کرنے کو بھی رباط کہا گیا ہے۔ (صحیح مسلم کتاب الطہارۃ)
[٢٠١] (صَابِرُوْا) کے دو معنے ہوسکتے ہیں۔ ایک یہ کہ ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر صبر کرو اور دوسرے یہ کہ ایک دوسرے کو صبر کی تلقین کرتے رہو۔ یعنی جو اسلام کی راہ میں مشکلات آنے پر خود بھی ثابت قدم رہیں اور دوسروں کو بھی ایسی ہی تلقین کرتے اور ان کی ڈھارس بندھاتے رہیں۔- [٢٠٢] اسی طرح (رَابِطُوْا) میں جہاد کے لیے تیار رہنا، کسی چوکی پر پہرہ دینا، مورچے پر رہنا اور اپنی مملکت کی سرحدوں کی حفاظت کرنا سب کچھ شامل ہے اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے کہ اللہ کی راہ میں ایک دن مورچے پر رہنا دنیا ومافیہا سے بہتر ہے اور تم میں کسی کو ایک کوڑا رکھنے کے برابر جنت میں جگہ مل جائے تو وہ دنیا ومافیہا سے بہتر ہے اور شام کو جو آدمی اللہ کی راہ (جہاد) میں چلے یا صبح کو تو وہ دنیا ومافیہا سے بہتر ہے (بخاری، کتاب الجہاد، باب فضل رباط یوم فی سبیل اللہ )- نیز آپ نے فرمایا : ایک دن رات پہرہ دینا، ایک ماہ کے روزے اور قیام سے بہتر ہے۔ اگر وہ پہرہ دیتے ہوئے شہید ہوگیا تو اس کا یہ عمل برابر جاری رہے گا اور اس کو اس پر اجر دیا جائے گا اور وہ فتنوں سے امن میں رہے گا (مسلم، کتاب الامارۃ، باب فضل الرباط فی سبیل اللہ عزوجل)- بعض فقہاء رباط کو جہاد فی سبیل اللہ سے بھی زیادہ اہمیت دیتے ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ جہاد غیر مسلموں سے کیا جاتا ہے اور رباط خود مسلمانوں کی حفاظت کے لیے ہوتا ہے۔- مدنی دور کے ابتدائی سالوں میں مدینہ کے ارد گرد بسنے والے مشرک قبائل آپس میں گٹھ جوڑ کرکے مدینہ پر حملہ کی سازشیں کرتے رہتے تھے۔ آپ ان کے حالات سے ہر لحظہ باخبر رہتے اور جب محسوس کرتے کہ مدینہ کی طرف کوئی بری نظروں سے دیکھ رہا ہے تو فوراً خود وہاں پہنچ جاتے، یا سریہ بھیج دیتے تھے۔ صلح حدیبیہ سے پہلے اکثر ایسے واقعات پیش آتے رہے اور بسا اوقات یوں ہوا کہ دشمن اسلامی دستوں کی آمد کی خبر پاکر تتر بتر ہوجاتا تھا۔- ٩ ھ میں عرب کا بیشتر علاقہ اسلام کے زیر نگین آگیا تو شام کی سرحد پر عرب عیسائیوں نے جو قیصر روم کے زیراثر تھے۔ مسلمانوں کی سرحد پر اپنی افواج کو اکٹھا کرنا شروع کردیا۔ افواہ یہ گرم تھی کہ دو لاکھ عیسائی اس سرحد پر جمع ہورہے ہیں۔ غزوہ تبوک اسی وجہ سے پیش آیا تھا۔ اسلامی لشکر کے پہنچنے سے پہلے ہی دشمن کا لشکر منتشر ہوگیا اور جنگ کی نوبت ہی نہ آئی۔- دور فاروقی میں جب اسلامی سلطنت کی سرحدیں بہت وسیع ہوگئیں تو سرحدوں پر فوجی چھاؤنیاں قائم کردی گئیں۔ جہاں ہر وقت فوج موجود رہتی تھی تاکہ دشمن کی نقل و حرکت کی بروقت سرکوبی کی جاسکے۔- اور بعض لوگوں نے رابِطُوْا سے باہمی روابط اور معاشرتی آداب کو ملحوظ رکھنا مراد لیا ہے۔ یعنی صلہ رحمی، رشتوں ناطوں کا پورا پورا لحاظ رکھو اور ہر شخص دوسرے کے حقوق و آداب کو ملحوظ رکھ کر معاشرہ میں ہمدردی، مروت اور اخوت کی فضا پیدا کرنے کی کوشش کرے۔ دوسروں سے احسان اور بہتر سلوک کرنا وغیرہ سب باتیں اس میں شامل ہیں۔- سورة آل عمران میں چونکہ غزوہ احد کا تفصیلی بیان آیا ہے اور اسکا بہت سا حصہ اسی غزوہ کے حالات پر مشتمل ہے اور یہ آخری آیت گویا اس سورة کا تتمہ اور لب لباب ہے جس میں مسلمانوں کو کفار کے مقابلہ میں ہر وقت تیار رہنے کے ضمن میں جامع ہدایات دی گئی ہیں۔
” اصْبِرُوْا “ یعنی دین اسلام پر ثابت قدمی سے جمے رہو۔ ” صابروا “ یہ باب مفاعلہ سے ہے جس میں مقابلہ کا معنی پایا جاتا ہے، یعنی کافروں کے مقابلے میں ان سے بڑھ کر پامردی اور ثابت قدمی کا مظاہرہ کرو۔ ” ورابطوا “ یعنی دشمنوں سے جہاد کے مورچوں پر ڈٹے رہو۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” اللہ کے راستے میں ایک دن (سرحدوں پر) پہرا دینا دنیا اور دنیا میں جو کچھ موجود ہے، اس سب سے بہتر ہے۔ “ [ بخاری، الجہاد والسیر، باب فضل رباط یوم فی سبیل اللہ : ٢٨٩٢، عن سہل بن سعد (رض) ]- اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” اللہ کے راستے میں ایک دن اور ایک رات کا پہرا دینا ایک مہینے کے قیام اور صیام سے بہت رہے اور اگر اس حالت میں مجاہد فوت ہوگیا تو اس کا وہ عمل جاری رہے گا جو وہ کیا کرتا تھا اور اس کے مطابق اس کا رزق بھی جاری رہے گا، نیز وہ آزمائش سے بھی محفوظ رہے گا۔ “ [ مسلم، - الإمارۃ، باب فضل الرباط فی سبیل اللہ عز وجل : ١٩١٣، عن سلمان الفارسی (رض) ]
ربط آیات - یہ سورة آل عمران کی آخری آیت ہے، مسلمانوں کے لئے چند اہم وصیتوں پر مشتمل ہے، گویا پوری سورت کا خلاصہ ہے۔- خلاصہ تفسیر - اے ایمان والو (تکالیف پر) خود صبر کرو اور (جب کفار سے مقاتلہ ہو تو) مقاتلہ میں صبر کرو اور (احتمال مقاتلہ کے وقت) مقابلہ کے لئے مستعد رہو اور (ہر حال میں) اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو (کہ حدود شرعیہ سے نہ نکلو) تاکہ تم پورے کامیاب ہو (آخرت میں لازمی اور ضروری اور بعض اوقات دنیا میں بھی) ۔- معارف و مسائل - اس آیت میں تین چیزوں کی وصیت مسلمانوں کو کی گئی ہے، صبر، مصابرہ، مرابطہ اور چوتھی چیز تقوی ہے جو ان تینوں کے ساتھ لازم ہے۔- صبر کے لفظی معنی روکنے اور باندھنے کے ہیں اور اصطلاح قرآن و سنت میں نفس کو خلاف طبع چیزوں پر جمائے رکھنے کو صبر کہا جاتا ہے، جس کی تین قسمیں ہیں : اول : صبر علی الطاعات، یعنی جن کاموں کا اللہ تعالیٰ نے اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حکم دیا ہے، ان کی پابندی طبیعت پر کتنی بھی شاق ہو اس پر نفس کو جمائے رکھنا۔- دوسرے، صبر عن المعاصی، یعنی جن چیزوں سے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے منع فرمایا ہے وہ نفس کیلئے کتنی ہی مرغوب ولذیذ ہوں نفس کو اس سے روکنا۔- تیسرے صبر علی المصائب، یعنی مصیبت و تکلیف پر صبر کرنا حد سے زائد پریشان نہ ہونا اور سب تکلیف و راحت کو حق تعالیٰ کی طرف سے سمجھ کر نفس کو بےقابو نہ ہونے دینا۔- مصابرت اسی لفظ صبر سے ماخوذ ہے، اس کے معنی ہیں دشمن کے مقابلہ میں ثابت قدم رہنا، مرابطہ، یہ لفظ صبر سے ماخوذ ہے، اس کے معنی ہیں دشمن کے مقابلہ میں ثابت قدم رہنا، مرابطہ، یہ لفظ رب سے بنا ہے جس کے اصل معنی باندھنے کے ہیں اور اسی وجہ سے رباط اور مرابطہ کے معنے گھوڑے باندھنے اور جنگ کی تیاری کے لئے جاتے ہیں، قرآن کریم میں اسی معنی کے لئے آیا ہے، ومن رباط الخیل (٨: ٠٦) اصطلاح قرآن و حدیث میں یہ لفظ دو معنی کے لئے استعمال کیا گیا ہے :- اول اسلامی سرحدوں کی حفاظت جس کے لئے جنگی گھوڑوں اور جنگی سامان کے ساتھ مسلح رہنا لازمی ہے، تاکہ دشمن اسلامی سرحد کی طرف رخ کرنے کی جرأت نہ کرے۔- دوسرے نماز با جماعت کی ایسی پابندی کہ ایک نماز کے بعد ہی دوسری نماز کے انتظار میں رہے، یہ دونوں چیزیں اسلام میں بڑی مقبول عبادت ہیں، جن کے فضائل بیشمار ہیں، ان میں سے چند یہاں لکھے جاتے ہیں :- رباط یعنی اسلامی سرحد کی حفاظت کا انتظام :۔- اسلامی سرحدوں کی حفاظت کے لئے جنگ کی تیاری کے ساتھ وہاں قیام کرنے کو رباط اور مرابطہ کہا جاتا ہے، اس کی دو صورتیں ہیں، ایک تو یہ کہ کسی جنگ کا خطرہ سامنے نہیں، سرحد مامون و محفوظ ہے، محض حفظ ماتقدم کے طور پر اس کی نگرانی کرنا ہے، ایسی حالت میں تو یہ بھی جائز ہے کہ آدمی وہاں اپنے اہل و عیال کے ساتھ رہنے بسنے لگے اور زمین کی کاشت وغیرہ سے اپنا معاش پیدا کرتا رہے، اس حالت میں اگر اس کی اصل نیت حفاظت سرحد کی ہے، رہنا بسنا اور کسب معاش اس کے تابع ہے تو اس شخص کو بھی رباط فی سبیل اللہ کا ثواب ملے گا، خواہ کبھی جنگ نہ کرنا پڑے، لیکن جس کی اصل نیت حفاظت سرحد نہ ہو بلکہ اپنا گذارہ ہی مقصد ہو خواہ اتفاقی طور پر سرحد کی حفاظت کی بھی نوبت آجائے یہ شخص مرابطہ فی سبیل اللہ نہیں ہوگا۔- دوسری صورت یہ ہے کہ سرحد پر دشمن کے حملہ کا خطرہ ہے، ایسی حالت میں عورتوں بچوں کو وہاں رکھنا درست نہیں، صرف وہ لوگ رہیں جو دشمن کا مقابلہ کرسکتے ہیں۔ (قرطبی)- ان دونوں صورتوں میں رباط کے فضائل بیشمار ہیں، صحیح بخاری میں حضرت سہل بن سعد ساعدی سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ :” اللہ کے راستے میں ایک دن کا رباط تمام دنیا ومافیہا سے بہتر ہے۔ “ اور صحیح مسلم میں بروایت سلمان مذکور ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ :” ایک دن رات کا رباط ایک مہینہ کے مسلسل روزے اور تمام شب عبادت میں گذارنے سے بہتر ہے اور اگر وہ اسی حال میں مر گیا تو اس کے عمل رباط کا روزانہ ثواب ہمیشہ کے لئے جاری رہے گا اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کا رزق جاری رہے گا اور وہ شیطان سے مامون و محفوظ رہے گا۔- اور ابوداؤد نے بروایت فضالہ بن عبید نقل کیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ ہر ایک مرنے والے کا عمل اس کی موت کے ساتھ ختم ہوجاتا ہے، بجز مرابط کے کہ اس کا عمل قیامت تک بڑھتا ہی رہتا ہے اور قبر میں حساب و کتاب لینے والوں سے مامون و محفوظ رہتا ہے۔- ان روایات سے معلوم ہوا کہ عمل رباط ہر صدقہ جاریہ سے بھی زیادہ افضل ہے، کیونکہ صدقہ جاریہ کا ثواب تو اسی وقت تک جاری رہتا ہے، جب تک اس کے صدقہ کئے ہوئے مکان، زمین یا تصانیف کتب یا وقف کی ہوئی کتابوں وغیرہ سے لوگ فائدہ اٹھاتے رہیں جب یہ فائدہ منقطع ہوجائے تو ثواب بھی بند ہوجاتا ہے، مگر مرابط فی سبیل اللہ کا ثواب قیامت تک منقطع ہونے والا نہیں، وجہ یہ ہے کہ سب مسلمانوں کو اعمال صالحہ پر قائم رہنا جب ہی ممکن ہے جبکہ وہ دشمن کے حملوں سے محفوظ ہوں تو ایک مرابط کا عمل تمام مسلمانوں کے اعمال صالحہ کا سبب بنتا ہے، اسی لئے قیامت تک اس کے عمل رباط کا ثواب بھی جاری رہے گا اور اس کے علاوہ وہ جتنے نیک کام دنیا میں کیا کرتا تھا ان کا ثواب بھی بغیر عمل کئے ہمیشہ جاری رہے گا، جیسا کہ ابن ماجہ میں باسناد صحیح حضرت ابوہریرہ سے منقول ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ :- ” جو شخص حالت رباط میں مر جائے تو وہ جو کچھ عمل صالح دنیا میں کیا کرتا تھا ان سب اعمال کا ثواب برابر جاری رہے گا اور اس کا رزق بھی جاری رہے گا اور شیطان سے (یا سوال قبر سے) محفوظ رہے گا اور قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اس کو ایسا مطمئن اٹھائیں گے کہ محشر کا کوئی خوف اس پر نہ ہوگا۔ “- اس روایت میں جو فضائل مذکور ہیں ان میں شرط یہ ہے کہ حالت رباط ہی میں اس کی موت آجائے، مگر بعض دوسری روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر وہ زندہ بھی اپنے اہل و عیال کی طرف لوٹ گیا تو یہ ثواب پھر بھی جاری رہے گا۔- حضرت ابن بن کعب کی روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ مسلمانوں کی کمزور سرحد کی حفاظت اخلاص کے ساتھ ایک دن، رمضان کے علاوہ دوسرے دنوں میں کرنے کا ثواب سو سال کے مسلسل روزوں اور شب بیداری سے افضل ہے اور رمضان میں ایک دن کا رباط افضل و اعلی ہے ایک ہزار سال کے صیام و قیام سے (اس لفظ میں راوی نے کچھ تردد کا اظہار کیا ہے) پھر فرمایا اور اگر اللہ تعالیٰ نے اس کو صحیح سالم اپنے اہل و عیال کی طرف لوٹا دیا تو ایک ہزار سال تک اس پر کوئی گناہ نہ لکھا جائے گا اور نیکیاں لکھی جاتی رہیں گی اور اس کے عملی رباط کا اجر قیامت تک جاری رہے گا۔ (قرطبی)- نماز کے بعد دوسری کے انتظار میں رہنا بھی رباط فی سبیل اللہ ہے :۔- ابوسلمہ بن عبدالرحمن کی روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ میں تمہیں وہ چیز بتاتا ہوں جس سے اللہ تعالیٰ گناہوں کو معاف فرما دیں اور تمہارے درجات بلند کریں، وہ چیزیں یہ ہیں، وصول کو مکمل طور پر کرنا باوجود یکہ سردی یا کسی زخم ورد وغیرہ کے سبب اعضاء وضو کا دھونا مشکل نظر آ رہا ہو اور مسجد کی طرف کثرت سے جانا اور ایک نماز کے بعد دوسری نماز کا انتظار پھر فرمایا : ذلکم الرباط (یعنی یہی رباط فی سبیل اللہ ہے)- امام قرطبی نے اس کو نقل کرنے کے بعد فرمایا کہ اس حدیث کی رو سے امید ہے کہ جو شخص ایک نماز کے بعد دوسری نماز کے انتظار کی پابندی کرے اس کو بھی اللہ تعالیٰ وہ ثواب عظیم عطا فرما دیں گے جو رباط فی سبیل اللہ کے لئے احادیث میں مذکور ہے۔- فائدہ :۔ اس آیت میں اول تو مسلمانوں کو صبر کا حکم دیا گیا ہے جو ہر وقت ہر حال میں ہر جگہ ہوسکتا ہے، اور اس کی تفصیل اوپر بیان ہوچکی ہے، دوسرا حکم مصابرہ کا جو کفار سے مقابلہ اور مقاتلہ کے وقت ہوتا ہے، تیسرا حکم مرابطہ کا جو کفار سے مقابلہ کا احتمال اور خطرہ لاحق ہونے کے وقت ہوتا ہے اور سب سے آخر میں تقوی کا حکم ہے جو ان سب کاموں کی روح اور قبولیت اعمال کا مدار ہے، یہ مجموعہ تقریباً تمام احکام شرعیہ پر حاوی ہے حق تعالیٰ ہم سب کو ان احکام پر عمل کرنے کی توفیق کامل عطا فرمائیں۔ وللہ الحمداولہ و اخرة
يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اصْبِرُوْا وَصَابِرُوْا وَرَابِطُوْا ٠ ۣ وَاتَّقُوا اللہَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ ٢٠٠ ۧ- صبر - الصَّبْرُ : الإمساک في ضيق، والصَّبْرُ : حبس النّفس علی ما يقتضيه العقل والشرع، أو عمّا يقتضیان حبسها عنه، وَالصَّابِرِينَ وَالصَّابِراتِ [ الأحزاب 35] ، وسمّي الصّوم صبرا لکونه کالنّوع له، وقال عليه السلام :«صيام شهر الصَّبْرِ وثلاثة أيّام في كلّ شهر يذهب وحر الصّدر»- ( ص ب ر ) الصبر - کے معنی ہیں کسی کو تنگی کی حالت میں روک رکھنا ۔ لہذا الصبر کے معنی ہوئے عقل و شریعت دونوں یا ان میں سے کسی ایک کے تقاضا کے مطابق اپنے آپ کو روک رکھنا ۔ وَالصَّابِرِينَ وَالصَّابِراتِ [ الأحزاب 35] صبر کرنے والے مرو اور صبر کرنے والی عورتیں اور روزہ کو صبر کہا گیا ہے کیونکہ یہ بھی ضبط نفس کی ایک قسم ہے چناچہ آنحضرت نے فرمایا «صيام شهر الصَّبْرِ وثلاثة أيّام في كلّ شهر يذهب وحر الصّدر»- ماه رمضان اور ہر ماہ میں تین روزے سینہ سے بغض کو نکال ڈالتے ہیں - رَبْطُ- رَبْطُ الفرس : شدّه بالمکان للحفظ، ومنه : رِبَاطُ الخیل «3» ، وسمّي المکان الذي يخصّ بإقامة حفظة فيه : رباطا، والرِّبَاط مصدر رَبَطْتُ ورَابَطْتُ ، والمُرَابَطَة کالمحافظة، قال اللہ تعالی: وَمِنْ رِباطِ الْخَيْلِ تُرْهِبُونَ بِهِ عَدُوَّ اللَّهِ وَعَدُوَّكُمْ [ الأنفال 60] ، وقال : يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اصْبِرُوا وَصابِرُوا وَرابِطُوا[ آل عمران 200] ، فالمرابطة ضربان : مرابطة في ثغور المسلمین، وهي کمرابطة النّفس البدن، فإنها كمن أقيم في ثغر وفوّض إليه مراعاته، فيحتاج أن يراعيه غير مخلّ به، وذلک کالمجاهدة وقد قال عليه السلام : «من الرِّبَاطِ انتظار الصّلاة بعد الصّلاة» «1» ، وفلان رَابِطُ الجأش : إذا قوي قلبه، وقوله تعالی: وَرَبَطْنا عَلى قُلُوبِهِمْ- [ الكهف 14] ، وقوله : لَوْلا أَنْ رَبَطْنا عَلى قَلْبِها [ القصص 10] ، وَلِيَرْبِطَ عَلى قُلُوبِكُمْ- [ الأنفال 11] ، فذلک إشارة إلى نحو قوله : هُوَ الَّذِي أَنْزَلَ السَّكِينَةَ فِي قُلُوبِ الْمُؤْمِنِينَ [ الفتح 4] ، وَأَيَّدَهُمْ بِرُوحٍ مِنْهُ [ المجادلة 22] ، فإنّه لم تکن أفئدتهم كما قال : وَأَفْئِدَتُهُمْ هَواءٌ [إبراهيم 43] ، وبنحو هذا النّظر قيل : فلان رابط الجأش .- ( ر ب ط )- ربط الفرس کے معنی گھوڑے کو کسی جگہ پر حفاظت کے لئے باندھ دینے کے ہیں اور اسی سے رباط الجیش ہے یعنی فوج کا کسی جگہ پر متعین کرنا اور وہ مقام جہاں حفاظتی دستے متعین رہتے ہوں اسے رباط کہا جاتا ہے ۔ اور ربطت ورابطت کا مصدر بھی رباط آتا ہے اور مرابطۃ کے معنی حفاظت کے ہیں ۔ چناچہ قران میں ہے : ۔ وَمِنْ رِباطِ الْخَيْلِ تُرْهِبُونَ بِهِ عَدُوَّ اللَّهِ وَعَدُوَّكُمْ [ الأنفال 60] اور گھوڑوں کے سرحدوں پر باندھے رکھنے سے جس سے تم اللہ کے دشمن اور اپنے دشمن کو مرعوب کرو ۔ يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اصْبِرُوا وَصابِرُوا وَرابِطُوا[ آلعمران 200] ان تکلیفوں کو جو راہ خدا مین تم کو پیش آئیں ) برداشت کرو اور ایک دوسرے کو صبر کی ترغیب دو اور دشمن کے مقابلے کے لئے تیار رہو ۔ پس معلوم ہوا کہ مرابطۃ کی دو قسمیں ہیں ایک یہ کہ اسلامی سرحدوں پر دفاع کے لئے پہرہ دینا اور دوسرے نفس کو ناجائز خواہشات سے روکنا اور اس میں کوتاہی نہ کرنا جیسے مجاہدہ نفس کی صورت میں ہوتا ہے اور اس مجاہدہ نفس کا ثواب بھی جہاد فی سبیل اللہ کے برا بر ہے جیسا کہ آنحضرت نے فرمایا ہے «من الرِّبَاطِ انتظار الصّلاة بعد الصّلاة» کہ ایک نماز کے بعد دوسری نماز کا انتظار کرنا بھی رباط ہے ۔ فلان رَابِطُ الجأش ۔ فلاں مضبوط دل ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ لَوْلا أَنْ رَبَطْنا عَلى قَلْبِها [ القصص 10] اگر ہم اس کے دل کو مضبوط نہ کئے رہتے ( تو عجب نہ تھا کہ وہ ہمارا معاملہ ظاہر کردیں ) ۔ وَلِيَرْبِطَ عَلى قُلُوبِكُمْ [ الأنفال 11] تاکہ تمہارے دلوں کی ڈھارس بندھائے ۔ اور اسی معنی کی طرف دوسرے مقام پر اشارہ فرمایا ہے ۔ هُوَ الَّذِي أَنْزَلَ السَّكِينَةَ فِي قُلُوبِ الْمُؤْمِنِينَ [ الفتح 4] وہ خدا ہی تو تھا جس نے مسلمانوں کے دلوں میں تحمل ڈالا اور اپنے فیضان غیبی سے ان کی تائید کی ۔ اور اپنے فیضان غیبی سے ان کی تائید کی ۔ کیونکہ ان کے دل ایسے نہیں تھے جیسے فرمایا : ۔ وَأَفْئِدَتُهُمْ هَواءٌ [إبراهيم 43] اور ان کے دل ( ہیں کہ ) ہوا ہوئے چلے جارہے ہیں ۔ اور اسی سے فلان رابط الجأش کا محاورہ ماخوذ ہے جس کے معنی مضبوط دل شخص کے ہیں ۔- لعل - لَعَلَّ : طمع وإشفاق، وذکر بعض المفسّرين أنّ «لَعَلَّ» من اللہ واجب، وفسّر في كثير من المواضع ب «كي» ، وقالوا : إنّ الطّمع والإشفاق لا يصحّ علی اللہ تعالی، و «لعلّ» وإن کان طمعا فإن ذلك يقتضي في کلامهم تارة طمع المخاطب، وتارة طمع غيرهما . فقوله تعالیٰ فيما ذکر عن قوم فرعون : لَعَلَّنا نَتَّبِعُ السَّحَرَةَ [ الشعراء 40] - ( لعل ) لعل - ( حرف ) یہ طمع اور اشفاق ( دڑتے ہوئے چاہنے ) کے معنی ظاہر کرنے کے لئے آتا ہے ۔ بعض مفسرین کا قول ہے کہ جب یہ لفظ اللہ تعالیٰ اپنے لئے استعمال کرے تو اس کے معنی میں قطیعت آجاتی ہے اس بنا پر بہت سی آیات میں لفظ کی سے اس کی تفسیر کی گئی ہے کیونکہ ذات باری تعالیٰ کے حق میں توقع اور اندیشے کے معنی صحیح نہیں ہیں ۔ اور گو لعل کے معنی توقع اور امید کے ہوتے ہیں مگر کبھی اس کا تعلق مخاطب سے ہوتا ہے اور کبھی متکلم سے اور کبھی ان دونوں کے علاوہ کسی تیسرے شخص سے ہوتا ہے ۔ لہذا آیت کریمہ : لَعَلَّنا نَتَّبِعُ السَّحَرَةَ [ الشعراء 40] تاکہ ہم ان جادو گروں کے پیرو ہوجائیں ۔ میں توقع کا تعلق قوم فرعون سے ہے ۔- فلح - والفَلَاحُ : الظَّفَرُ وإدراک بغية، وذلک ضربان :- دنیويّ وأخرويّ ، فالدّنيويّ : الظّفر بالسّعادات التي تطیب بها حياة الدّنيا، وهو البقاء والغنی والعزّ ، وإيّاه قصد الشاعر بقوله : أَفْلِحْ بما شئت فقد يدرک بال ... ضعف وقد يخدّع الأريب - وفَلَاحٌ أخرويّ ، وذلک أربعة أشياء : بقاء بلا فناء، وغنی بلا فقر، وعزّ بلا ذلّ ، وعلم بلا جهل . ولذلک قيل : «لا عيش إلّا عيش الآخرة» وقال تعالی: وَإِنَّ الدَّارَ الْآخِرَةَ لَهِيَ الْحَيَوانُ [ العنکبوت 64] - ( ف ل ح ) الفلاح - فلاح کے معنی کامیابی اور مطلب وری کے ہیں - اور یہ دو قسم پر ہے دینوی اور اخروی ۔ فلاح دنیوی ان سعادتوں کو حاصل کرلینے کا نام ہے جن سے دنیوی زندگی خوشگوار بنتی ہو یعنی بقاء لمال اور عزت و دولت ۔ چناچہ شاعر نے اسی معنی کے مدنظر کہا ہے ( نحلع البسیط) (344) افلح بماشئت فقد یدرک بالضد عف وقد یخدع الاریب جس طریقہ سے چاہو خوش عیشی کرو کبھی کمزور کامیاب ہوجاتا ہے اور چالاک دہو کا کھانا جاتا ہے ۔ اور فلاح اخروی چار چیزوں کے حاصل ہوجانے کا نام ہے بقابلا فناء غنا بلا فقر، عزت بلا ذلت ، علم بلا جہلاسی لئے کہا گیا ہے (75) لاعیش الاعیش الاخرۃ کہ آخرت کی زندگی ہی حقیقی زندگی ہے اور اسی فلاح کے متعلق فرمایا : وَإِنَّ الدَّارَ الْآخِرَةَ لَهِيَ الْحَيَوانُ [ العنکبوت 64] اور زندگی کا مقام تو آخرت کا گھر ہے ۔
اللہ کی راہ میں کمربستہ رہنے کی فضیلت - قول باری ہے (یایھا الذین امنوا اصبرواصابرو اورابطوا۔ اے ایمان والو صبر سے کام لو۔ باطل پرستوں کے مقابلہ میں پامردی دکھاؤ اورحق کی خدمت کے لیے کمربستررہو۔ ) حسن قتادہ ابن جریج اور ضحاک سے اس کی یہ تفسیر منقول ہے۔ طاعت اللہ پر صبر سے کام لو، اپنے دین پر ڈٹ جاؤنیز اللہ کے دشمنوں کے آگے سینرسپر ہوجاؤ اور اللہ کی راہ میں کمربستہ ہوجاؤ۔ محمد بن کعب القرضی کا قول ہے۔ اپنے دین پر ڈٹ جاؤ تم سے کیے گئے میرے وعدے کے پورا ہونے کا صبر سے انتظارکرو اور اپنے دشمنوں کے مقابلہ میں پامردی دکھاؤ۔ زیدبن اسلم کا قول ہے۔ جہاد میں صبر سے کام لو۔ دشمن کا صبر سے مقابلہ کرو اور اس کے مقابلہ کے لیے گھوڑے پال رکھو۔ ابوسلمہ بن عبدالرحمن کا قول ہے۔ ایک نماز پڑھ لینے کے بعد دوسری نماز کے انتظار میں جمے بیٹھے رہو۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مروی ہے کہ آپ نے نماز پرھ لینے کے بعد دوسری نماز کے انتظار میں بیٹھے رہنے کے متعلق فرمایا (فذلکم الرباط۔ یہی رباط ہے) قول باری ہے ومن رباطالخیل ترھبون یہ عدواللہ وعدوکم اور پلے ہوئے گھوڑوں سے جس کے ذریعے تم اللہ کے دشمن اور اپنے دشمن پر رعب رکھتے ہو) سلیمان نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا (رباط یوم فی سبیل اللہ افضل من صیام شھروقیامہ ومن مات فیہ وفی فتنۃ القبرونمالہ عملہ الی یوم القیامۃ، اللہ تعالیٰ کے راستے میں ایک دن کی پہرہ داری ایک مہینے کے روزوں اور قیام لیل سے افض ہے۔ اور جو شخص اس حالت میں دنیا سے گزرجائے گا وہ قبر کے ابتلا سے محفوظ رہے گا اور اس کا یہ عمل قیامت تک بڑھتا ہی رہے گا) حضرت عثمان نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا (حرس لیلۃ فی سبیل اللہ افضل من الغالیلۃ قیام لیلھا وصیا م تھا رھا، اللہ کے راستے میں ایک رات کی پہرہ داری ایک ہزار راتوں کے قیام یعنی عبادت اور ان کے دنوں کے روزوں سے افضل ہے۔ واللہ اعلم۔
(٢٠٠) اور اپنے نفسوں کو دشمنوں کے مقابلہ کے لیے مستعد و تیار رکھو اور ایک یہ بھی معنی بیان کیے گئے ہیں کہ فرائض کی ادائیگی اور گناہوں سے بچنے پر جمے رہو، اور خواہشات نفس کی پیروی کرنے والوں اور بدنیتوں کا خاتمہ کردو اور اپنے گھوڑوں کو جہاد فی سبیل اللہ کے لیے تیار رکھو۔- اور جن باتوں کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے ان کو بجا لاؤ اور ہرگز ان سے اعراض (بےتوجہی) مت کرو تاکہ عذاب الہی اور غصہ خداوندی سے نجات حاصل کرو۔
آیت ٢٠٠ (یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اصْبِرُوْا وَصَابِرُوْا) - مصابرت باب مفاعلہ سے ہے اور اس میں مقابلہ ہوتا ہے۔ ایک تو ہے صبر کرنا ‘ ثابت قدم رہنا ‘ اور ایک ہے مصابرت یعنی صبر و استقامت میں دشمن سے بڑھ جانا۔ ایک صبر وہ بھی تو کر رہے ہیں۔ تمہیں آج چرکا لگا ہے تو انہیں ایک سال پہلے ایسا ہی چرکا لگا تھا اور ٧٠ مارے گئے تھے۔ وہ ایک سال کے اندر پھر چڑھائی کر کے آگئے ‘ تو تم اپنا دل غمگین کر کے کیوں بیٹھے ہوئے ہو ؟ تمہیں تو ان سے بڑھ کر صبر کرنا ہے ‘ ان سے بڑھ کر قربانیاں دینی ہیں ‘ تبھی تم حقیقت میں اللہ کے وفادار ثابت ہو گے۔ - ( وَرَابِطُوْاقف) ۔- مرابطہ پہرے کو بھی کہتے ہیں اور نظم و ضبط ( ) کی پابندی کرتے ہوئے باہم جڑے رہنے کو بھی۔ غزوۂ احد میں شکست کا سبب نظم کا ڈھیلا پن اور سمع وطاعت میں کمی تھی۔ لہٰذا یہاں صبر و مصابرت کے ساتھ ساتھ نظم کی پابندی اور باہم مربوط رہنے کی تاکید فرمائی گئی ہے۔ - (وَاتَّقُوا اللّٰہَ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ ) ۔- یہ آخری اور اہم ترین چیز ہے۔ یہ سب کچھ کرو گے تو فلاح ملے گی۔ ایسے ہی گھر بیٹھے تم فوز و فلاح سے ہمکنار نہیں ہو سکو گے۔- بارک اللّٰہ لی ولکم فی ال قرآن العظیم۔ ونفعنی وایاکم بالآیات والذکر الحکیم ۔
سورة اٰلِ عِمْرٰن حاشیہ نمبر :141 اصل عربی متن میں صَابِرُوْا کا لفظ آیا ہے ۔ اس کے دو معنی ہیں ۔ ایک یہ کہ کفار اپنے کفر پر جو مضبوطی دکھا رہے ہیں اور اس کو سربلند رکھنے کے لیے جو زحمتیں اٹھارہے ہیں تم ان کے مقابلے میں ان سے بڑھ کر پامردی دکھاؤ ۔ دوسرے یہ کہ ان کے مقابلہ میں ایک دوسرے سے بڑھ کر پامردی دکھاؤ ۔
تشریح : قرآنی اصطلاح میں صبر بہت وسیع مفہوم رکھتا ہے، اس کی ایک قسم اللہ تعالیٰ کی اطاعت میں استقامت کا مظاہرہ ہے، دوسری قسم گناہوں کے لئے اپنی خواہشات کو دبانا ہے اور تیسری قسم تکلیفوں کو برداشت کرنا ہے یہاں ان تینوں قسموں کے صبر کا حکم دیا گیا ہے، اور سرحدوں کی حفاظت میں جغرافی سرحدوں کی حفاظت بھی داخل ہے اور نظریاتی حفاظت بھی، اللہ تعالیٰ ہمیں ان تمام احکام پر عمل کی توفیق عطا فرمائیں۔ آمین