54۔ 1 حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے زمانے میں شام کا علاقہ رومیوں کے زیرنگین تھا یہاں ان کا جو حکمران مقرر تھا وہ کافر تھا یہودیوں نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے خلاف اس حکمران کے کان بھرے کہ یہ نعوذ باللہ بےباپ کے اور فسادی ہے وغیرہ وغیرہ حکمران نے ان کے مطالبے پر حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو سولی دینے کا فیصلہ کرلیا لیکن اللہ نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو بحفاظت آسمان پر اٹھا لیا اور ان کی جگہ ان کے ہمشکل ایک آدمی کو سولی دے دی (مکر) عربی زبان میں لطیف اور خفیہ تدبیر کو کہتے ہیں اور اس معنی میں یہاں اللہ تعالیٰ (خیرُ الْماکِرِیْنَ ) کہا گیا گویا یہ مکر (برا) بھی ہوسکتا ہے اگر غلط مقصد کے لئے ہو اور خیر (اچھا) بھی ہوسکتا ہے اگر اچھے مقصد کے لئے ہو۔
[٥٣] یہود اور ان کے علماء و فقہاء سب کے سب حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے دشمن بن گئے تھے مگر آپ کے دلائل کے سامنے انہیں مجبوراً خاموش ہونا پڑتا تھا۔ پھر جب آپ نے سبت کے احکام میں تخفیف کا اعلان کیا تو یہود کو پروپیگنڈا کے لیے ایک نیا میدان ہاتھ آگیا کہ یہ شخص ملحد ہے اور تورات میں تبدیلی کرنا چاہتا ہے۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے ملک شام کو اپنی دعوت کا مرکز بنایا ہوا تھا اور یہاں یہود کی حکومت نہ تھی بلکہ رومیوں کی حکومت تھی۔ آپ اپنے حواریوں کو ساتھ لے کر شام کے مختلف شہروں میں تبلیغ فرماتے اور معجزہ دکھلاتے جس سے لا تعداد شفایاب بھی ہوجاتے تھے اور آپ پر ایمان بھی لے آتے تھے۔ ہر شہر میں سینکڑوں مرد اور عورتیں آپ پر ایمان لے آئے تو یہودیوں کے بغض اور حسد میں اور بھی اضافہ ہوگیا اور وہ آپ کی جان لینے کے درپے ہوگئے۔ آپ کے حواریوں میں سے ہی ایک شخص نے یہود سے بہت سی رقم بطور رشوت وصول کرکے یہ مخبری کردی کہ اس وقت عیسیٰ (علیہ السلام) فلاں پہاڑی پر مقیم ہیں۔ چناچہ یہود کی ایک مسلح جماعت اس پہاڑی پر پہنچ گئی اور آپ کو گرفتار کرلیا۔ یہ صورت حال دیکھ کر آپ کے حواری سب تتر بتر ہوگئے۔ ان کے پاس صرف دو تلواریں تھیں اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو بھی معلوم ہوگیا تھا کہ یہ حواری ایک مسلح جماعت کا مقابلہ نہ کرسکیں گے۔ اس وقت حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے اللہ سے دعا مانگی تو اللہ تعالیٰ نے انہیں تسلی دیتے ہوئے فرمایا کہ یہ لوگ تمہارا بال بھی بیکا نہ کرسکیں گے اور میں تمہیں اپنی طرف زندہ اٹھا لوں گا۔- قیصر روم کی طرف سے جو حاکم شام پر مقرر تھا۔ اس کا نام ہیروڈیس تھا۔ یہودیوں نے جب حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو گرفتار کرلیا تو آپ کے منہ پر طمانچے مارے اور مذاق اڑاتے ہوئے شہر میں لے گئے۔ پھر آپ کو ہیرو ڈیس کے نائب حاکم پلاطوس کے پاس لے گئے اور آپ پر دو الزام لگا کر پلاطوس سے آپ کے قتل کا مطالبہ کیا۔ ایک الزام یہ تھا کہ یہ شخص قیصر روم کو محصول دینے سے منع کرتا ہے اور دوسرا یہ کہ یہ خود اپنے آپ کو مسیح بادشاہ کہتا ہے لیکن آپ نے ان دو الزاموں سے انکار کردیا تو پلاطوس کہنے لگا کہ میرے نزدیک اس کا کوئی ایسا جرم نہیں جو مستوجب قتل ہو۔ مگر جب اس نے یہودیوں کا اپنے مطالبہ پر اصرار دیکھا تو اس نے یہ مقدمہ ہیروڈویس کے پاس بھیج دیا۔ لیکن اسے بھی حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا کوئی ایسا جرم نظر نہ آیا جو مستوجب قتل ہو۔ لہذا اس نے یہ مقدمہ واپس پلاطوس کے پاس بھیج دیا۔ لیکن یہود کے علماء و فقہاء سب اسی بات پر بضد تھے کہ اس شخص کو ملحد ہونے اور دوسروں کو ملحد بنانے کی بنا پر قتل کرنا ضروری ہے۔ پلاطوس نے ان لوگوں کی ہٹ دھرمی اور ضد سے مجبور ہو کر کہا کہ میں تمہارے کہنے پر اسے سولی تو دے دیتا ہوں مگر اس کا گناہ تم پر اور تمہاری اولاد پر ہوگا۔ یہود نے ضد میں آکر اس بات کو بھی تسلیم کرلیا۔- پھر جب آپ کو سولی پر چڑھانے کا وقت آیا تو اللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ حرکت میں آئی۔ اللہ تعالیٰ کے فرشتے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو آسمانوں کی طرف اٹھا لے گئے اور کسی دوسرے شخص کی شکل و صورت اللہ تعالیٰ نے عیسیٰ (علیہ السلام) سے ملتی جلتی بنادی اور سب کو یہی معلوم ہونے لگا کہ یہی شخص عیسیٰ ہے۔ قرآن کریم نے اس مقام پر (وَلٰكِنْ شُبِّهَ لَهُمْ ١٥٧ۙ ) 4 ۔ النسآء :157) کے الفاظ استعمال فرمائے ہیں۔ رہی یہ بات کہ یہ دوسرا شخص کون تھا ؟۔ تو اس کے متعلق ایک قول تو یہ ہے کہ یہ وہی شخص تھا جو آپ کو سولی کی سزا دلوانے میں سب سے پیش پیش تھا۔ اس طرح اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے سب سے بڑے دشمن کو اس کی کرتوت کی سزا سولی کی شکل میں دے دی۔ اور دوسرا قول یہ ہے کہ یہ شخص وہی حواری تھا جس نے بھاری رشوت لے کر آپ کی مخبری کرکے آپ کو گرفتار کروایا تھا۔ واللہ اعلم بالصواب۔ بعض لوگوں نے اس شبہ کی اور بھی کچھ صورتیں ذکر کی ہیں۔ تاہم ان سب کا ماحصل یہی ہے کہ آپ کو تو اللہ تعالیٰ نے اپنی طرف اٹھالیا اور آپ کی جگہ مصلوب کوئی دوسرا مشتبہ شخص ہوا تھا۔- یہ تو تھی قرآن کی وضاحت لیکن اناجیل کا بیان اس سے مختلف ہے۔ عیسائی یہ کہتے ہیں کہ سولی آپ ہی کو دی گئی تھی اور آپ نے چیخ چیخ کر جان دی۔ پھر یوسف نامی ایک شخص نے پلاطوس سے درخواست کی کہ لاش اس کے حوالے کردی جائے۔ چناچہ اس نے آپ کو قبر میں دفنا دیا اور اوپر چٹان دھر دی، یہ جمعہ کی شام کا واقعہ تھا۔ پھر تین دن بعد اتوار کو حضرت عیسیٰ زندہ ہو کر لوگوں کو دکھائی دیئے۔ پھر آسمان پر چڑھ گئے اور دوبارہ آنے کا وعدہ کر گئے۔ اس وقت آپ کی عمر ٣٣ سال کی تھی۔ اناجیل کے اسی بیان پر عیسائیوں کے مشہور و معروف عقیدہ کفارہ مسیح کی عمارت کھڑی کی گئی۔- اناجیل کا حضرت عیسیٰ کے مصلوب ہونے سے متعلق بیان کئی لحاظ سے محل نظر ہے۔ مثلاً ( : ١) اناجیل اربعہ کے مؤلفین میں سے کوئی بھی موقعہ کا عینی شاہد نہیں۔ حتیٰ کہ یہ اناجیل دوسری صدی عیسوی میں مرتب ہوئیں۔ یہ مؤلفین حضرت عیسیٰ کے حواریوں کے شاگرد در شاگرد ہیں اور صلیب کے موقعہ پر ایک بھی حواری موجود نہ تھا۔ سب تتر بتر ہوگئے تھے۔ (٢) انجیل برنباس کا مؤلف برنباس حواری ہے اور یہ انجیل رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانہ سے صدہاسال پیشتر عیسائیوں میں مشہور و معروف تھی۔ اس میں یہ عبارت موجود ہے تب فرشتوں نے باکرہ سے کہا کیونکہ یہودا عیسیٰ کی شکل میں مبدل ہوگیا اور یہ یہودا وہی حواری ہے۔ جس نے حضرت عیسیٰ کی مخبری کی تھی۔ یہ انجیل برنباس چونکہ عیسائیوں کے تمام مشہور و معروف عقاید یعنی الوہیت مسیح، عقیدہ تثلیث اور کفارہ مسیح کی تردید کرتی ہے۔ لہذا اہل کلیسا نے اس انجیل کو الہامی کتابوں کے زمرہ سے خارج کردیا ہے اور اسے ضبط کرلیا گیا۔ تاہم یہ کتاب آج بھی دنیا سے ناپید نہیں ہوئی۔ (٣) اسلام سے پیشتر عیسائیوں کے کئی فرقے ایسے موجود تھے جو حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے مصلوب ہونے کے منکر تھے۔ مثلاً فرقہ باسلیدی، سربنتی، کاریوکراتی، ناصری، پوئی وغیرہ۔ لہذا عیسائیوں کا یہ دعویٰ کہ حضرت مسیح کے مصلوب ہونے کا عقیدہ متفق علیہ ہے۔ غلط ثابت ہوتا ہے۔- بہت سی صحیح احادیث سے ثابت ہے کہ عیسیٰ (علیہ السلام) قیامت کے قریب دمشق کی مسجد کے سفید منارہ پر نزول فرمائیں گے۔ ان کے ایک طرف جبرائیل ہوں گے اور دوسری طرف میکائیل، اس وقت مسلمان کئی طرح کے فتنوں میں مبتلا ہوں گے جن میں سب سے بڑا فتنہ دجال کا ہوگا۔ آپ دجال کو قتل کریں گے اور مسلمانوں کی امداد فرمائیں گے۔ آپ کوئی نئی شریعت نہیں لائیں گے، بلکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے امتی بن کے رہیں گے اسی زمانہ میں آپ شادی کریں گے اولاد ہوگی آپ کے دور میں اسلام کا بول بالا ہوگا، اور بعدہ آپ اپنی طبعی موت مریں گے۔ اس دوران آپ یہود کو چن چن کر ماریں گے۔ حتیٰ کہ اگر کوئی یہودی کسی پتھر کے پیچھے چھپا ہوگا تو وہ پتھر بھی بول اٹھے گا کہ یہاں ایک یہودی موجود ہے۔ یہی وہ صورت حال ہے جس کا مابعد والی آیت میں ذکر ہے۔ حضرت ابوہریرہ (رض) نزول عیسیٰ کے متعلق حدیث بیان کرنے کے بعد فرمایا کرتے تھے کہ اگر تم چاہو تو (دلیل کے طور پر) یہ آیت پڑھ لو ( وَاِنْ مِّنْ اَهْلِ الْكِتٰبِ اِلَّا لَيُؤْمِنَنَّ بِهٖ قَبْلَ مَوْتِهٖ ١٥٩ۚ ) 4 ۔ النسآء :159) اہل کتاب میں سے کوئی نہ رہے گا مگر عیسیٰ (علیہ السلام) کی وفات سے پہلے ان پر ضرور ایمان لائے گا۔
وَمَكَرُوْا وَمَكَرَ اللّٰهُ ۔۔ : شیخ شنقیطی نے فرمایا : ” یہاں نہ یہود کی خفیہ تدبیر کا ذکر فرمایا ہے اور نہ اللہ تعالیٰ کی خفیہ تدبیر کا، مگر دوسری جگہ ان کی تدبیر کا ذکر کیا ہے کہ انھوں نے آپ کو قتل کرنے کا ارادہ کرلیا تھا، جیسا کہ فرمایا : ( وَّقَوْلِهِمْ اِنَّا قَتَلْنَا الْمَسِيْحَ عِيْسَى ابْنَ مَرْيَمَ رَسُوْلَ اللّٰهِ ۚ ) [ النساء : ١٥٧ ] ” اور ان کے یہ کہنے کی وجہ سے کہ بلاشبہ ہم نے ہی مسیح عیسیٰ ابن مریم کو قتل کیا، جو اللہ کا رسول تھا۔ “ اور اللہ کی خفیہ تدبیر کا ذکر فرمایا ہے : (وَلٰكِنْ شُبِّهَ لَهُمْ ۭ ) [ النساء : ١٥٧ ] ” اور لیکن ان کے لیے (کسی کو اس مسیح کا) کا شبیہ بنادیا گیا۔ “ وہ عیسیٰ (علیہ السلام) کی شبیہ کو سولی دے کر سمجھ بیٹھے کہ ہم نے مسیح کو قتل کردیا۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے سورة نساء (١٥٧) ۔
خلاصہ تفسیر - اور ان لوگوں نے ( جو کہ بنی اسرائیل میں سے آپ کے منکر نبوت تھے آپ کو ہلاک کرنے اور ایذا پہنچانے کے لئے) خفیہ تدبیر کی ( چناچہ مکر و حیلہ سے آپ کو گرفتار کر کے سولی دینے پر آمادہ ہوئے) اور اللہ تعالیٰ نے ( آپ کو محفوظ رکھنے کے لئے) خفیہ تدبیر فرمائی ( جس کی حقیقت کا ان لوگوں کو بھی پتہ نہ لگا، کیونکہ انہیں مخالفین میں سے ایک شخص کو حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی شکل پر بنادیا، اور عیسیٰ (علیہ السلام) کو آسمان پر اٹھا لیا جس سے وہ محفوظ رہے، اور وہ ہمشکل سولی دیا گیا، ان لوگوں کو اس تدبیر کا علم تک بھی نہ ہوسکا اور دفع پر تو کیا قدرت ہوتی) اور اللہ تعالیٰ سب تدبیریں کرنے والوں سے اچھے ہیں ( کیونکہ اوروں کی تدبیریں ضعیف ہوتی ہیں، اور کبھی قبیح اور بےموقع بھی ہوتی ہیں، اور حق تعالیٰ کی تدبیریں قوی بھی ہوتی ہیں اور ہمیشہ خیر محض اور موافق حکمت کے ہوتی ہیں، اور وہ تدبیر اللہ تعالیٰ نے اس وقت فرمائی) جبکہ اللہ تعالیٰ نے (حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) سے جبکہ وہ گرفتاری کے وقت متردد اور پریشان ہوئے) فرمایا اے عیسیٰ ( کچھ غم نہ کرو) بیشک میں آپ کو (اپنے وقت موعود پر طبعی موت سے) وفات دینے والا ہوں ( پس جب تمہارے لئے موت طبعی مقدر ہے تو ظاہر ہے کہ ان دشمنوں کے ہاتھوں دار پر جان دینے سے محفوظ رہو گے) اور (فی الحال) میں تم کو اپنے ( عالم بالا کی) طرف اٹھائے لیتا ہوں، اور تم کو ان لوگوں (کی تہمت) سے پاک کرنے والا ہوں جو (تمہارے) منکر ہیں اور جو لوگ تمہارا کہنا ماننے والے ہیں ان کو غالب رکھنے والا ہوں ان لوگوں پر جو کہ ( تمہارے) منکر ہیں روز قیامت تک ( گو اس وقت یہ منکرین غلبہ اور قدرت رکھتے ہیں) پھر (جب قیامت آجائے گی اس وقت) میری طرف ہوگی، سب کی واپسی ( دنیا و برزخ سے) سو میں ( اس وقت) تمہارے ( سب کے) درمیان (عملی) فیصلہ کردوں گا ان امور میں جن میں تم باہم اختلاف کرتے تھے کہ ( منجملہ ان امور کے مقدمہ ہے عیسیٰ (علیہ السلام) کا) ۔- آیت کے اہم الفاظ کی تشریح : اس آیت کے الفاظ و معانی میں بعض فرقوں نے تحریفات کا دروازہ کھولا ہے جو تمام امت کے خلاف حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی حیات اور آخر زمانہ میں نزول کے منکر ہیں، اس لئے مناسب معلوم ہوا کہ ان الفاظ کی تشریح و ضاحت کے ساتھ کردی جائے۔- (واللہ خیر الماکرین) لفظ " مکر " عربی زبان میں لطیف و خفیہ تدبیر کو کہتے ہیں، اگر وہ اچھے مقصد کے لئے ہو تو اچھا ہے، اور برائی کے لئے ہو تو برا ہے، اسی لئے ولا یحیق المنکر السیء (٣٥: ٤٣) میں مکر کے ساتھ " سیء " کی قید لگائی، اردو زبان کے محاورات میں مکر صرف سازش اور بری تدبیر اور حیلہ کے لئے بولا جاتا ہے، اس سے عربی محاورات پر شبہ نہ کیا جائے، اسی لئے یہاں خدا کو " خیر الماکرین " کہا گیا، مطلب یہ ہے کہ یہود نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے خلاف طرح طرح کی سازشیں اور خفیہ تدبیریں شروع کردیں، حتی کہ بادشاہ کے کان بھر دیئے کہ یہ شخص (معاذ اللہ) ملحد ہے، تورات کو بدلنا چاہتا ہے، سب کو بد دین بنا کر چھوڑے گا، اس نے مسیح (علیہ السلام) کی گرفتاری کا حکم دیدیا، ادھر یہ ہورہا تھا، اور ادھر حق تعالیٰ کی لطیف و خفیہ تدبیر ان کے توڑ میں اپنا کام کر رہی تھی جس کا ذکر اگلی آیات میں ہے۔ ( تفسیر عثمانی)
وَمَكَرُوْا وَمَكَرَ اللہُ ٠ ۭ وَاللہُ خَيْرُ الْمٰكِرِيْنَ ٥٤ ۧ- مكر - المَكْرُ : صرف الغیر عمّا يقصده بحیلة، وذلک ضربان : مکر محمود، وذلک أن يتحرّى بذلک فعل جمیل، وعلی ذلک قال : وَاللَّهُ خَيْرُ الْماكِرِينَ [ آل عمران 54] . و مذموم، وهو أن يتحرّى به فعل قبیح، قال تعالی: وَلا يَحِيقُ الْمَكْرُ السَّيِّئُ إِلَّا بِأَهْلِهِ [ فاطر 43] - ( م ک ر ) المکر ک - ے معنی کسی شخص کو حیلہ کے ساتھ اس کے مقصد سے پھیر دینے کے ہیں - یہ دو قسم پر ہے ( 1) اگر اس سے کوئی اچھا فعل مقصود ہو تو محمود ہوتا ہے ورنہ مذموم چناچہ آیت کریمہ : ۔ وَاللَّهُ خَيْرُ الْماكِرِينَ [ آل عمران 54] اور خدا خوب چال چلنے والا ہے ۔ پہلے معنی پر محمول ہے ۔- اور دوسرے معنی کے متعلق فرمایا : ۔ وَلا يَحِيقُ الْمَكْرُ السَّيِّئُ إِلَّا بِأَهْلِهِ [ فاطر 43] اور بری چال کا وبال اس کے چلنے والے پر ہی پڑتا ہے :- الله - الله : قيل : أصله إله فحذفت همزته، وأدخل عليها الألف واللام، فخصّ بالباري تعالی، ولتخصصه به قال تعالی: هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا [ مریم 65] . - ( ا ل ہ ) اللہ - (1) بعض کا قول ہے کہ اللہ کا لفظ اصل میں الہ ہے ہمزہ ( تخفیفا) حذف کردیا گیا ہے اور اس پر الف لام ( تعریف) لاکر باری تعالیٰ کے لئے مخصوص کردیا گیا ہے اسی تخصیص کی بناء پر فرمایا :۔ هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا ( سورة مریم 65) کیا تمہیں اس کے کسی ہمنام کا علم ہے ۔ - - خير - الخَيْرُ : ما يرغب فيه الكلّ ، کالعقل مثلا، والعدل، والفضل، والشیء النافع، وضدّه :- الشرّ. قيل : والخیر ضربان : خير مطلق، وهو أن يكون مرغوبا فيه بكلّ حال، وعند کلّ أحد کما وصف عليه السلام به الجنة فقال : «لا خير بخیر بعده النار، ولا شرّ بشرّ بعده الجنة» . وخیر وشرّ مقيّدان، وهو أن يكون خيرا لواحد شرّا لآخر، کالمال الذي ربما يكون خيرا لزید وشرّا لعمرو، ولذلک وصفه اللہ تعالیٰ بالأمرین فقال في موضع : إِنْ تَرَكَ خَيْراً [ البقرة 180] ،- ( خ ی ر ) الخیر - ۔ وہ ہے جو سب کو مرغوب ہو مثلا عقل عدل وفضل اور تمام مفید چیزیں ۔ اشر کی ضد ہے ۔ - اور خیر دو قسم پر ہے - ( 1 ) خیر مطلق جو ہر حال میں اور ہر ایک کے نزدیک پسندیدہ ہو جیسا کہ آنحضرت نے جنت کی صفت بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ خیر نہیں ہے جس کے بعد آگ ہو اور وہ شر کچھ بھی شر نہیں سے جس کے بعد جنت حاصل ہوجائے ( 2 ) دوسری قسم خیر وشر مقید کی ہے ۔ یعنی وہ چیز جو ایک کے حق میں خیر اور دوسرے کے لئے شر ہو مثلا دولت کہ بسا اوقات یہ زید کے حق میں خیر اور عمر و کے حق میں شربن جاتی ہے ۔ اس بنا پر قرآن نے اسے خیر وشر دونوں سے تعبیر کیا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ إِنْ تَرَكَ خَيْراً [ البقرة 180] اگر وہ کچھ مال چھوڑ جاتے ۔
(٥٤) یہودیوں نے حضرت عسی (علیہ السلام) کو قتل کرنے اور ان کو سولی پر چڑھانے کی تدبیر کی اور اللہ تعالیٰ نے ان ہی کے لوگوں میں سے طیطانوس نامی ایک شخص کو حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی شکل میں تبدیل کرکے سولی پر چڑھوا دیا اور اللہ تعالیٰ جل شانہ سب تدبیریں کرنے والوں میں سے بہترین تدبیر فرمانے والے ہیں۔
آیت ٥٤ (وَمَکَرُوْا وَمَکَرَ اللّٰہُ ط) - یہود کے علماء اور فریسی حضرت مسیح ( علیہ السلام) کے خلاف مختلف چالیں چل رہے تھے کہ کسی طرح یہ قانون کی گرفت میں آجائیں اور ان کا کام تمام کردیا جائے۔ ان لوگوں نے آنجناب ( علیہ السلام) کو مرتد اور واجب القتل قرار دے دیا تھا ‘ لیکن ملک پر سیاسی اقتدار چونکہ رومیوں کا تھا لہٰذا رومی گورنر کی توثیق ( ) کے بغیر کسی کو سزائے موت نہیں دی جاسکتی تھی۔ ملک کا بادشاہ اگرچہ ایک یہودی تھا لیکن اس کی حیثیت کٹھ پتلی بادشاہ کی تھی ‘ جیسے انگریزی حکومت کے تحت مصر کے شاہ فاروق ہوتے تھے۔ یہود کی مذہبی عدالتیں موجود تھیں جہاں ان کے علماء ‘ مفتی اور فریسی بیٹھ کر فیصلے کرتے تھے ‘ اور اگر وہ سزائے موت کا فیصلہ دے دیتے تھے تو اس فیصلے کی تنفیذ ‘ ( ) رومی گورنر کے ذریعے ہوتی تھی۔ اس صورت حال میں علماء یہود کے ہاتھ بندھے ہوئے تھے اور وہ حضرت مسیح ( علیہ السلام) کو رومی قانون کی زد میں لانے کے لیے اپنی سی چالیں چل رہے تھے۔ وہ آنجناب ( علیہ السلام) سے اس طرح کے الٹے سیدھے سوالات کرتے کہ آپ ( علیہ السلام) کے جوابات سے یہ ثابت کیا جاسکے کہ یہ شخص رومی حکومت کا باغی ہے۔ - یہود کی ان چالوں کا توڑ کرنے کے لیے اللہ نے اپنی چال چلی۔ اب اللہ کی چال کیا تھی ؟ اس کی تفصیل قرآن یا حدیث میں نہیں ہے ‘ بلکہ انجیل برنباس میں ہے جو پوپ کی لائبریری سے برآمد ہوئی تھی۔ حضرت مسیح ( علیہ السلام) کے حواریوں میں سے ایک حواری یہودا کو یہود نے رشوت دے کر اس بات پر راضی کرلیا تھا کہ وہ آپ ( علیہ السلام) کی مخبری کر کے گرفتار کرائے۔ اللہ تعالیٰ نے اسی غدار حواری کی شکل حضرت مسیح ( علیہ السلام) کی سی بدل دی اور وہ خود گرفتارہو کر سولی چڑھ گیا۔ حضرت مسیح ( علیہ السلام) پر وہ ہاتھ ڈال ہی نہیں سکے۔ حضرت مسیح ( علیہ السلام) ایک باغ میں روپوش تھے اور باغ کے اندر بنی ہوئی ایک کو ٹھڑی میں رات کے وقت عبادت میں مشغول تھے ‘ جبکہ آپ ( علیہ السلام) کے بارہ حواری باہر موجود تھے۔ اس وقت وہ شخص وہاں سے چپکے سے سٹک گیا اور جا کر سپاہیوں کو لے آیا تاکہ آپ ( علیہ السلام) کو گرفتار کرا سکے۔ یہ رومی سپاہی تھے اور قندیلیں لے کر آئے تھے۔ اس نے سپاہیوں سے کہا تھا کہ میں اندر جاؤں گا ‘ جس شخص کو میں کہوں اے ہمارے استادبس اسی کو پکڑ لینا ‘ وہی مسیح ( علیہ السلام) ہیں۔ اس لیے کہ رومیوں کو کیا پتا تھا کہ مسیح ( علیہ السلام) کون ہیں ؟ یہ شخص جیسے ہی کو ٹھڑی کے اندر داخل ہوا اسی وقت کو ٹھڑی کی چھت پھٹی اور چار فرشتے نازل ہوئے ‘ جو حضرت مسیح ( علیہ السلام) کو لے کر چلے گئے۔ اللہ تعالیٰ نے اس شخص کی شکل تبدیل کردی اور حضرت مسیح ( علیہ السلام) والی شکل بنا دی۔ اب یہ گھبرا کر باہر نکلا تو دوسرے حواریوں نے اس سے کہا اے ہمارے استاد یہ سنتے ہی سپاہیوں نے اسے قابو کرلیا اور اصل میں یہی شخص سولی چڑھا ہے ‘ نہ کہ حضرت مسیح ( علیہ السلام) ۔ یہ ساری تفاصیل انجیل برنباس میں موجود ہیں۔ یہ شہادت درحقیقت نصاریٰ ہی کے گھر سے ہمیں ملی ہے اور قرآن کا جو بیان ہے اس میں یہ پوری طرح فٹ بیٹھتی ہے کہ انہوں نے اپنی سی چالیں چلیں اور اللہ نے اپنی چال چلی۔