Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

اظہارخو دمختاری قتادہ وغیرہ بعض مفسرین تو فرماتے ہیں مطلب یہ ہے کہ میں تجھے اپنی طرف اٹھا لوں گا پھر اس کے بعد تجھے فوت کروں گا ، ابن عباس فرماتے ہیں یعنی میں تجھے مارنے والا ہوں ، وہب بن منبہ فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ نے آپ کو اٹھاتے وقت دن کے شروع میں تین ساعت تک فوت کر دیا تھا ، ابن اسحاق کہتے ہیں نصاریٰ کا خیال ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو سات ساعت تک فوت رکھا پھر زندہ کر دیا ، وہب فرماتے ہیں تین دن تک موت کے بعد پھر زندہ کر کے اٹھا لیا ، مطر وراق فرماتے ہیں یعنی میں تجھے دنیا میں پورا پورا کر دینے والا ہوں یہاں وفات موت مراد نہیں ، اسی طرح ابن جریر فرماتے ہیں تو فی سے یہاں مراد ان کا رفع ہے اور اکثر مفسرین کا قول ہے کہ وفات سے مراد یہاں نیند ہے ، جیسے اور جگہ قرآن حکیم میں ہے آیت ( وَهُوَ الَّذِيْ يَتَوَفّٰىكُمْ بِالَّيْلِ ) 6 ۔ الانعام:60 ) وہ اللہ ذوالمنن جو تمہیں رات کو فوت کر دیتا ہے یعنی سلا دیتا ہے اور جگہ ہے آیت ( اَللّٰهُ يَتَوَفَّى الْاَنْفُسَ حِيْنَ مَوْتِهَا وَالَّتِيْ لَمْ تَمُتْ فِيْ مَنَامِهَا ) 39 ۔ الزمر:42 ) یعنی اللہ تعالیٰ ان کی موت کے وقت جانوں کو فوت کرتا ہے اور جو نہیں مرتیں انہیں ان کی نیند کے وقت ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب نیند سے بیدار ہوتے تو فرماتے ( حدیث الحمد للہ الذی احیانا بعدما اماتنا ) یعنی اللہ عزوجل کا شکر ہے جس نے ہمیں مار ڈالنے کے بعد پھر زندہ کر دیا ، اور جگہ فرمان باری تعالیٰ وبکفرھم سے شیھدا تک پڑھو جہاں فرمایا گیا ہے ان کے کفر کی وجہ سے اور حضرت مریم پر بہتان عظیم باندھ لینے کی بنا پر اور اس باعث کہ وہ کہتے ہیں ہم نے مسیح عیسیٰ بن مریم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کر دیا حالانکہ نہ قتل کیا ہے اور نہ صلیب دی لیکن ان کو شبہ میں ڈال دیا گیا موتہ کی ضمیر کا مرجع حضرت عیسیٰ علیہ السلام ہیں یعنی تمام اہل کتاب حضرت عیسیٰ پر ایمان لائیں گے جبکہ وہ قیامت سے پہلے زمین پر اتریں گے اس کا تفصیلی بیان عنقریب آرہا ہے ۔ انشاء اللہ ، پس اس وقت تمام اہل کتاب ان پر ایمان لائیں گے کیونکہ نہ وہ جزیہ لیں گے نہ سوائے اسلام کے اور کوئی بات قبول کریں گے ، ابن ابی حاتم میں حضرت حسن سے ( آیت انی متوفیک ) کی تفسیر یہ مروی ہے کہ ان پر نیند ڈالی گئی اور نیند کی حالت میں ہی اللہ تعالیٰ نے انہیں اٹھا لیا ، حضرت حسن فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہودیوں سے فرمایا کہ حضرت عیسیٰ مرے نہیں وہ تمہاری طرف قیامت سے پہلے لوٹنے والے ہیں ۔ پھر فرماتا ہے میں تجھے اپنی طرف اٹھا کر کافروں کی گرفت سے آزاد کرنے والا ہوں ، اور تیرے تابعداروں کو کافروں پر غالب رکھنے والا ہوں قیامت تک ، چنانچہ ایسا ہی ہوا ، جب اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ کو آسمان پر چڑھا لیا تو ان کے بعد ان کے ساتھیوں کے کئی فریق ہوگئے ایک فرقہ تو آپ کی بعثت پر ایمان رکھنے والا تھا کہ آپ اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں اور اس کی ایک بندی کے لڑکے ہیں بعض وہ تھے جنہوں نے غلو سے کام لیا اور بڑھ گئے اور آپ کو اللہ تعالیٰ کا بیٹا کہنے لگے ، اوروں نے آپ کو اللہ کہا ، دوسروں نے تین میں کا ایک آپ کو بتایا ، اللہ تعالیٰ ان کے ان عقائد کا ذکر قرآن مجید میں فرماتا ہے پھر ان کی تردید بھی کر دی ہے تین سو سال تک تو یہ اسی طرح رہے ، پھر یونان کے بادشاہوں میں سے ایک بادشاہ جو بڑا فیلسوف تھا جس کا نام اسطفلین تھا کہا جاتا ہے کہ صرف اس دین کو بگڑانے کے لئے منافقانہ انداز سے اس دین میں داخل ہوا یا جہالت سے داخل ہوا ہو ، بہر صورت اس نے دین مسیح کو بالکل بدل ڈالا اور بڑی تحریف اور تفسیر کی اس دین میں اور کمی زیادہ بھی کر ڈالی ، بہت سے قانون ایجاد کئے اور امانت کبریٰ بھی اسی کی ایجاد ہے جو دراصل کمینہ پن کی خیانت ہے ، اسی نے اپنے زمانہ میں سور کو حلال کیا اسی کے حکم سے عیسائی مشرق کی طرف نمازیں پڑھنے لگے اسی نے گرجاؤں اور کلیساؤں میں عبادت خانوں اور خانقاہوں میں تصویریں بنوائیں٠ اور اپنے ایک گناہ کے باعث دس روزے روزوں میں بڑھوا دئیے ، غرض اس کے زمانہ سے دین مسیح مسیحی دین نہ رہا بلکہ دین اسطفلین ہو گیا ، اس نے ظاہری رونق تو خوب دی بارہ ہزار سے زاید تو عبادت گاہیں بنوا دیں اور ایک شہر اپنے نام سے بسایا ، ملکیہ گروہ نے اس کی تمام باتیں مان لیں لیکن باوجود ان سب سیاہ کاریوں کے یہودی ان کے ہاتھ تلے رہے اور دراصل نسبتاً حق سے زیادہ قریب یہی تھے گو فی الواقع سارے کے سارے کفار تھے اللہ خالق کل کی ان پر پھٹکار ہو ، اب جبکہ ہمارے نبی حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے اپنا برگزیدہ بنا کر دنیا میں بھیجا تو آپ پر جو لوگ ایمان لائے ان کا ایمان اللہ تعالیٰ کی ذات پر بھی تھا اس کے فرشتوں پر بھی تھا اس کی کتابوں پر بھی تھا اور اس کے تمام رسولوں پر بھی تھا پس حقیقت میں نبیوں کے سچے تابع فرمان یہی لوگ تھے یعنی امت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ، اس لئے کہ یہ نبی امی عربی خاتم الرسول سید اولاد آدم کے ماننے والے تھے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم برحق تعلیم کو سچا ماننے کی تھی ، لہذا دراصل ہر نبی کے سچے تابعدار اور صحیح معنی میں امتی کہلانے کے مستحق یہی لوگ تھے کیونکہ ان لوگوں نے جو اپنے تئیں عیسیٰ کی امت کہتے تھے تو دین عیسوی کو بالکل مسخ اور فسخ کر دیا تھا ، علاوہ ازیں پیغمبر آخرالزمان کا دین بھی اور تمام اگلی شریعتوں کا ناسخ تھا پھر محفوظ رہنے والا تھا جس کا ایک شوشہ بھی قیامت تک بدلنے والا نہیں اس لئے اس آیت کے وعدے کے مطابق اللہ تعالیٰ نے کافروں پر اس امت کو غالب کر اور یہ مشرق سے لے کر مغرب تک چھا گئے ملک کو اپنے پاؤں تلے روند دیا اور بڑے بڑے جابر اور کٹر کافروں کی گردنیں مروڑ دیں دولتیں ان کے پیروں میں آگئیں فتح و غنیمت ان کی رکابیں٠ چومنے لگی مدتوں کی پرانی سلطنتوں کے تحت انہوں نے الٹ دئیے ، کسریٰ کی عظیم الشان پر شان سلطنت اور ان کے بھڑکتے ہوئے آتش کدے ان کے ہاتھوں ویران اور سرد ہوگئے ، قیصر کا تاج و تخت ان اللہ والوں نے تاخت و تاراج کیا اور انہیں مسیح پرستی کا خوب مزا چکھایا اور ان کے خزانوں کو اللہ واحد کی رضامندی میں اور اس کے سچے نبی کے دین کی اشاعت میں دل کھول کر خرچ کئے اور اللہ کے لکھے اور نبی کے وعدے چڑھے ہوئے سورج اور چودھویں کے روشن چاند کی طرح سچے ہوئے لوگوں نے دیکھ لئے ، مسیح علیہ السلام کے نام کو بدنام کرنے والے مسیح کے نام شیطانوں کو پوجنے والے ان پاکباز اللہ پرستوں کے ہاتھوں مجبور ہو کر شام کے لہلہاتے ہوئے باغات اور آباد شہروں کو ان کے حوالے کر کے بدحواس بھاگتے ہوئے روم میں جا بسے پھر وہاں سے بھی یہ بےعزت کر کے نکالے گئے اور اپنے بادشاہ کے خاص شہر قسطنطنیہ میں پہنچے لیکن پھر وہاں سے بھی ذلیل خوار کر کے نکال دئیے گئے اور انشاء اللہ العزیز اسلام اور اہل اسلام قیامت تک ان پر غالب ہی رہیں گے ۔ سب سچوں کے سردار جن کی سچائی پر مہر الٰہی لگ چکی ہے یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خبر دے چکے ہیں جو اٹل ہے نہ کاٹے کٹے نہ توڑے ٹوٹے ، نہ ٹالے ٹلے ، فرماتے ہیں کہ آپ کی امت کا آخری گروہ قسطنطنیہ کو فتح کرے گا اور وہاں کے تمام خزانے اپنے قبضے میں لے گا اور رومیوں سے ان کی گھمسان کی لڑائی ہو گی کہ اس کی نظیر سے دنیا خالی ہو ( ہماری دعا ہے کہ ہر زمانے میں اللہ قادر کل اس امت کا حامی و ناصر رہے اور روئے زمین کے کفار پر انہیں غالب رکھے اور انہیں سمجھ دے تاکہ یہ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کی عبادت کریں نہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا کسی اور کی اطاعت کریں ، یہی اسلام کی اصل ہے اور یہی عروج دینوی کا گر ہے میں نے سب کو علیحدہ کتاب میں جمع کر دیا ہے ، آگے اللہ تعالیٰ کے قول پر نظر ڈالیے کہ مسیح علیہ السلام کے ساتھ کفر کرنے والے یہود اور آپ کی شان میں بڑھ چڑھ کر باتیں بنا کر بہکنے والے نصرانیوں کو قتل و قید کی مار اور سلطنت کے تباہ ہو جانے کی یہاں بھی سزا دی اور آخرت کا عذاب وہاں دیکھ لیں گے جہاں نہ کوئی بچا سکے نہ مدد کر سکے گا لیکن برخلاف ان کے ایمانداروں کو پورا اجر اللہ تعالیٰ عطا فرمائے گا دنیا میں بھی فتح اور نصرت عزت و حرمت عطا ہو گی اور آخرت میں بھی خاص رحمتیں اور نعمتیں ملیں گی ، اللہ تعالیٰ ظالموں کو ناپسند رکھتا ہے ۔ پھر فرمایا اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم یہ تھی حقیقت حضرت عیسیٰ کی ابتداء پیدائش کی اور ان کے امر کی جو اللہ تعالیٰ نے لوح محفوظ سے آپ کی طرف بذریعہ اپنی خاص وحی کے اتار دی جس میں کوئی شک و شبہ نہیں جیسے سورۃ مریم میں فرمایا ، عیسیٰ بن مریم یہی ہیں یہی سچی حقیقت ہے جس میں تم شک و شبہ میں پڑے ہو ، اللہ تعالیٰ کو تو لائق ہی نہیں کہ اس کی اولاد ہو وہ اس سے بالکل پاک ہے وہ جو کرنا چاہے کہدیتا ہے ہو جا ، بس وہ ہو جاتا ہے ، اب یہاں بھی اس کے بعد بیان ہو رہا ہے ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

55۔ 1 انسان کی موت پر جو وفات کا لفظ بولا جاتا ہے تو اس لئے کہ اس کے جسمانی اختیارات مکمل طور پر سلب کر لئے جاتے ہیں اس اعتبار سے موت اس کے معنی کی مختلف صورتوں میں سے محض ایک صورت ہے۔ نیند میں بھی چونکہ انسانی اختیارات عارضی طور پر معطل کردیئے جاتے ہیں اس لئے نیند پر بھی قرآن نے وفات کے لفظ کا اطلاق کیا ہے جس سے معلوم ہوا کہ اس کے حقیقی اور اصل معنی پورا پورا لینے کے ہی ہیں۔ یعنی اے عیسیٰ تجھے میں یہودیوں کی سازش سے بچا کر پورا پورا اپنی طرف آسمانوں پر اٹھا لونگا۔ چناچہ ایسا ہی ہوا اور پھر جب دوبارہ دنیا میں نزول ہوگا تو اس وقت موت سے ہمکنار کروں گا۔ یعنی یہودیوں کے ہاتھوں تیرا قتل نہیں ہوگا بلکہ تجھے طبعی موت ہی آئے گی۔ (فتح القدیر) 55۔ 2 اس سے مراد ان الزامات سے پاکیزگی ہے جن سے یہودی آپ کو متہم کرتے تھے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ذریعے سے آپ کی صفائی دنیا میں پیش کردی جائے گی۔ 55۔ 3 اس سے مراد یا تو نصاریٰ کا دنیاوی غلبہ ہے جو یہودیوں پر قیامت تک رہے گا گو وہ اپنے غلط عقائد کی وجہ سے نجات اخروی سے محروم ہی رہیں گے یا امت محمدیہ کے افراد کا غلبہ ہے جو درحقیقت حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اور دیگر تمام انبیاء کی تصدیق کرتے اور ان کے صحیح دین کی پیروی کرتے ہیں۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٥٣۔ ا ] اس جملہ میں اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ سے دو باتوں کا وعدہ فرمایا اور انہیں یقین دلایا۔ پہلی بات یہ کہ اللہ تعالیٰ عیسیٰ (علیہ السلام) کو ان کافروں کے الزامات سے پاک کرے گا اور کافروں سے مراد اہل کتاب یعنی یہود اور نصاریٰ دونوں ہیں۔ یہود کا الزام یہ تھا کہ حضرت عیسیٰ معاذ اللہ ولدالحرام ہیں، اور عیسائیوں کا الزام یہ تھا کہ آپ فی الواقعہ مصلوب ہوئے تھے اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبان پر ان دونوں الزاموں کی مدلل اور بھرپور تردید فرما کر عیسیٰ (علیہ السلام) کو ان الزامات سے پاک و بری قرار دیا۔- اور دوسرا وعدہ یہ تھا کہ میں (اے عیسیٰ ) تیرے تابعداروں کو تجھے نہ ماننے والے یعنی یہودیوں پر غالب رکھوں گا۔ پھر حضرت عیسیٰ کو ماننے والوں میں مسلمان بھی شامل ہوجاتے ہیں اور یہ پیشین گوئی یوں پوری ہوئی کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے قریباً چالیس سال بعد رومی قیصر طیطوس یہودیوں پر حملہ آور ہوا اور شہر یروشلم کو ڈھا کر تباہ کردیا۔ حتیٰ کہ بیت المقدس کو بھی مسمار کردیا۔ لاکھوں یہودیوں کو قتل کیا اور بہت سے پکڑ کر ساتھ لے گیا اور انہیں غلام بنایا۔ اس دن سے یہود کی رہی سہی عزت و شوکت بھی خاک میں مل گئی جو بعد کے ادوار میں بھی بحال نہ ہوسکی۔- [٥٤] یہ اختلاف صرف یہود اور نصاریٰ میں ہی نہیں مسلمانوں میں بھی ہے۔ قرآن و حدیث کے ان واضح ارشادات کے باوجود مسلمانوں کا ہی ایک فرقہ معجزات کا منکر ہے۔ یہ لوگ احادیث کو درخور اعتنا سمجھتے ہی نہیں اور قرآنی آیات کی ایسی دورازکار تاویلیں کرنے لگتے ہیں کہ ان سے عقل شرمانے لگتی ہے۔ عیسیٰ (علیہ السلام) کی پیدائش اور وفات کو بھی ان لوگوں نے تختہ مشق بنایا ہے ان حواشی میں تمام معجزات پر بحث ناممکن ہے۔ البتہ جو حضرات یہ تفصیلات دیکھنا چاہیں وہ میری تصانیف عقل پرستی اور انکار معجزات اور آئینہ پرویزیت ملاحظہ فرما سکتے ہیں۔ موقعہ کی مناسبت سے میں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی پیدائش اور وفات کے متعلق کچھ عرض کروں گا۔ پیدائش کے متعلق قرآن پاک میں دو مقامات پر سورة آل عمران اور سورة مریم میں تفصیلی ذکر موجود ہے۔ جن سے صاف طور پر معلوم ہوجاتا ہے کہ عیسیٰ (علیہ السلام) کی پیدائش بن باپ معجزانہ طور پر ہوئی تھی۔ اب اگر بفرض محال منکرین معجزات کی بات تسلیم کرلیں اور سمجھیں کہ حضرت عیسیٰ کی پیدائش بھی اللہ کے عام قانون کے مطابق ہوئی اور حضرت مریم کا (نعوذ باللہ) کوئی شوہر بھی تھا تو اس پر درج ذیل اعتراضات وارد ہوتے ہیں۔- ١۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں جہاں بھی کسی پیغمبر یا کسی دوسرے شخص کا ذکر کیا ہے تو اس کی ابنیت کا کبھی ذکر نہیں کیا۔ آخر عیسیٰ میں کیا اختصاص ہے کہ جہاں بھی ان کا نام آیا توابنیت کا ذکر یعنی ابن مریم کا لاحقہ ضروری سمجھا گیا۔- ٢۔ اللہ تعالیٰ نسب کے بارے میں فرماتے ہیں ( اُدْعُوْهُمْ لِاٰبَاۗىِٕهِمْ ۝) 33 ۔ الأحزاب :5) یعنی ہر شخص کو اس کے باپ کے نام سے منسوب کیا کرو۔ اگر عیسیٰ (علیہ السلام) کا واقعی کوئی باپ تھا تو اللہ تعالیٰ کو اپنے مقرر کردہ ضابطہ کے مطابق اس کا نام لینا چاہئے تھا۔ اللہ تعالیٰ نے ہر ہر مقام پر عیسیٰ کی ماں ہی کا کیوں نام لے کر انہیں ماں سے منسوب کیا ہے۔ ؟- ٣۔ اس دور کے یہود نے حضرت مریم پر زنا کی تہمت لگائی۔ اگر انہیں حضرت مریم کا کوئی شوہر معلوم تھا تو تہمت لگانے کی کیا تک تھی۔ پھر اگر انہیں شوہر کا علم نہ ہوسکا تو آج کل کے لوگوں کو کیسے علم ہوگیا ؟- ٤۔ اگر عیسیٰ کی پیدائش بھی عام لوگوں کی طرح فطری طور پر ہوئی تھی تو اللہ تعالیٰ کو متعدد مقامات پر آپ کی پیدائش کے متعلق تفصیلات دینے کی کیا ضرورت تھی ؟ اللہ تعالیٰ یہود کو یہ جواب نہ دے سکتے تھے کہ عیسیٰ کا باپ تو فلاں ہے۔ پھر تم کیسے تہمت لگا رہے ہو اور یہ مضمون صرف ایک جملہ یا آیت میں ادا ہوسکتا تھا۔- ٥۔ حضرت عیسیٰ کی پیدائش کے متعلق سورة مریم کی آیت ٢١ میں (اٰيَةً لِّلنَّاسِ ) 19 ۔ مریم :21) فرمایا اور سورة مومنون کی آیت نمبر ٥٠ میں حضرت مریم اور حضرت عیسیٰ دونوں کو (اٰيَةً لِّلنَّاسِ ) 19 ۔ مریم :21) فرمایا : اگر حضرت عیسیٰ عام دستور کے مطابق ہی پیدا ہوئے تھے تو وہ خود اور ان کی ماں لوگوں کے لیے نشانی کیسے بن گئے ؟۔- ٦۔ اگر حضرت عیسیٰ کی پیدائش عام دستور کے مطابق ہوئی تھی تو حضرت مریم اکیلی دور دراز مقام میں کیوں چلی گئی تھیں اور بچہ کی پیدائش کے وقت اپنے مرنے کی آرزو کیوں کی تھی ؟- اب آپ رفع عیسیٰ کے متعلق غور فرمائیے۔ منکرین کا سارا زور لفظ توفی پر ہوتا ہے جس کے لغوی معنی پورے کا پورا وصول کرلینا۔ اس لفظ کو قرآن ہی نے نیند اور موت کے موقع پر قبض روح کے لیے استعمال کیا۔ حالانکہ نیند کی حالت میں پوری روح قبض نہیں ہوتی بلکہ جسم میں بھی ہوتی ہے۔ پھر اگر اس لفظ کو روح اور بدن دونوں کو وصول کرنے کے لیے استعمال کیا جائے تو لغوی لحاظ سے یہ معنی اور بھی زیادہ درست ہے ( رَافِعُکَ اِلَیَّ ) کے الفاظ اس معنی کی تائید مزید کرتے ہیں اور دوسرے مقام پر تو اس سے بھی زیادہ واضح الفاظ میں فرمایا (وَمَا قَتَلُوْهُ وَمَا صَلَبُوْهُ وَلٰكِنْ شُبِّهَ لَهُمْ ١٥٧؀ۙ ) 4 ۔ النسآء :157) (٤: ١٥٧) اس آیت میں آپ کی زندگی اور رفع پر تین دلائل دیئے گئے ہیں۔- ١۔ یہ یقینی بات ہے کہ یہود عیسیٰ (علیہ السلام) کو مار نہ سکے۔- ٢۔ پھر مزید صراحت یہ فرمائی کہ اللہ تعالیٰ نے اسے اپنی طرف اٹھا لیا۔- ٣۔ بعد میں (وَكَان اللّٰهُ عَزِيْزًا حَكِـيْمًا ١٥٨۔ ) 4 ۔ النسآء :158) کہہ کر یہ وضاحت فرما دی کہ یہ رفع روح مع الجسد تھا ورنہ یہاں لفظ (عَزِیْزا) لانے کی کوئی تک نہیں کیونکہ رفع روح تو ہر نیک و بد کا ہوتا ہے اور رفع درجات ہر صالح آدمی کا۔ لہذا لازماً روح مع الجسد کا رفع ہی ہوسکتا ہے۔- واضح رہے کہ شریعت کے مسلمہ امور کو تسلیم کرنے میں دو چیزیں رکاوٹ کا سبب بنتی ہیں۔ (١) فلسفیانہ یا سائنٹیفک نظریات سے مرعوبیت اور (٢) اتباع ہوائے نفس۔ منکرین معجزات خارق عادت امور کا انکار اور پھر ان کی تاویل اس لیے کرتے ہیں کہ یہ موجودہ زمانہ کے مادی معیاروں پر پوری نہیں اترتیں۔ لہذا سب عقل پرستوں نے حضرت عیسیٰ کے بن باپ پیدائش۔ ان کے دیگر سب معجزات اور آسمانوں پر اٹھائے جانے کی تاویل کر ڈالی۔ البتہ ان میں مرزا غلام احمد قادیانی متنبی منفرد ہیں جو باقی سب معجزات کے تو قائل ہیں۔ البتہ حضرت عیسیٰ کے آسمانوں پر اٹھائے جانے اور پھر قیامت سے پہلے اس دنیا میں آنے کے منکر ہیں وہ اس لیے کہ اس نے خود مسیح موعود ہونے کا دعویٰ کیا، اور اگر یہ رفع عیسیٰ کو تسلیم کرلیتے تو ان کی اپنی بات نہیں بنتی تھی۔ گویا یہ کام اس نے دوسری وجہ یعنی اتباع ہوائے نفس کے تحت سرانجام دیا ہے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

مُتَوَفِّيْكَ وَرَافِعُكَ اِلَیکَ : ” وَفَی یَفِیْ “ کا معنی پورا ہونا یا پورا کرنا ہے۔ ” اِسْتَوْفَی “ اور ” تَوَفّٰی “ کا معنی پورا لے لینا ہے۔ ” اِسْتَوْفَیْتُ مِنْہُ وَ تَوَفَّیْتُ “ کا معنی ہے ” میں نے اس سے پورا حق لے لیا۔ “ اس بنا پر ” مُتَوَفِّيْكَ “ کا معنی ہے ” میں تمہیں پورا لینے والا ہوں “ اور یہ اسی صورت میں ہوسکتا ہے کہ عیسیٰ (علیہ السلام) کو روح و بدن دونوں کے ساتھ اٹھا لیا جاتا۔ بعض نے اس کا معنی ”(وقت پر) فوت کرنے والا ہوں “ کیا ہے اور میں نے ترجمہ کیا ہے ” قبض کرنے والا ہوں۔ “ اس میں دونوں معنی آجاتے ہیں۔ یوں تو قرآن میں ” تَوَفِّیْ “ کا معنی سلا دینا بھی آیا ہے، جیسا کہ فرمایا : (وَهُوَ الَّذِيْ يَتَوَفّٰىكُمْ بالَّيْلِ ) [ الأنعام : ٦٠ ]” اور وہی ہے جو تمہیں رات کو قبض کرلیتا (سلا دیتا) ہے “ اور فرمایا : ( اَللّٰهُ يَتَوَفَّى الْاَنْفُسَ حِيْنَ مَوْتِهَا وَالَّتِيْ لَمْ تَمُتْ فِيْ مَنَامِهَا ۚ ) [ الزمر : ٤٢ ] ” اللہ جانوں کو ان کی موت کے وقت قبض کرتا ہے اور ان کو بھی جو نہیں مریں ان کی نیند میں۔ “- شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ (رض) نے ” اَلْجَوَاب الصَّحِیْحُ “ میں لکھا ہے کہ لغت عرب میں ” تَوَفِّیْ “ کے معنی ” اِسْتِیْفَاءٌ“ اور قبض کے آئے ہیں اور یہ نیند کی صورت میں بھی ہوسکتا ہے اور موت کی صورت میں بھی اور یہ ” تَوَفِّی الرُّوْحِ مَعَ الْبَدَنِ جَمِیْعًا “ (روح اور بدن دونوں کو لے لینے) کے معنی میں بھی آتا ہے اور اس آیت میں یہی معنی مراد ہیں۔ خلاصہ یہ کہ اس آیت میں (مُتَوَفِّيْكَ وَرَافِعُكَ ) سے عیسیٰ (علیہ السلام) کا مع جسم آسمان کی طرف اٹھایا جانا مراد ہے۔ جیسا کہ فرمایا : ( وَرَافِعُكَ اِلَيَّ )” اور تجھے اپنی طرف اٹھانے والا ہوں۔ “ دوسری جگہ اللہ تعالیٰ نے عیسیٰ (علیہ السلام) کے قتل اور سولی کی نفی فرمائی اور ” تَوَفِّیْ “ کا لفظ استعمال کیے بغیر فرمایا : (بَلْ رَّفَعَهُ اللّٰهُ اِلَيْهِ ) [ النساء : ١٥٨] ” بلکہ اللہ نے اسے اپنی طرف اٹھا لیا۔ “ - وَجَاعِلُ الَّذِيْنَ اتَّبَعُوْكَ فَوْقَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْٓا : عیسیٰ (علیہ السلام) کے اول تابع نصاریٰ تھے، ان کے بعد مسلمان ہیں، سو یہ ہمیشہ غالب رہے۔ (موضح) حافظ ابن کثیر (رض) لکھتے ہیں کہ ان سے مراد صرف نصاریٰ بھی ہوسکتے ہیں اور مطلب یہ ہے کہ یہود جو مسیح (علیہ السلام) کے منکر ہیں ان پر نصاریٰ ہمیشہ غالب رہیں گے۔ (ابن کثیر)- اس سے مراد یہ بھی ہے کہ قیامت کے قریب جب مسیح (علیہ السلام) تشریف لائیں گے تو ان کے پیروکار مسلمان سب کفار پر غالب ہوں گے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

(انی متوفیک) لفظ " متوفی " کا مصدر " توفی " اور مادہ " وفی " ہے۔ اس کے اصل معنی عربی لغت کے اعتبار سے پورا پورا لینے کے ہیں، وفاء، ایفاء، استیفاء، اسی معنی کے لئے بولے جاتے ہیں، توفی کے بھی اصلی معنی پورا پورا لینے کے ہیں، تمام کتب لغت عربی زبان کی اس پر شاہد ہیں۔ اور چونکہ موت کے وقت انسان اپنی اجل مقدر پوری کرلیتا ہے، اور خدا کی دی ہوئی روح پوری لے لی جاتی ہے، اس کی مناسبت سے یہ لفظ بطور کنایہ موت کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے، اور موت کا ایک ہلکا سا نمونہ روزانہ انسان کی نیند ہے، اس کے لئے بھی قرآن کریم میں اس لفظ کا استعمال ہوا ہے ( اللہ یتوفی الانفس حین موتھا والتی لم تمت فی منامھا۔ ٣٩: ٤٢) جس کا ترجمہ یہ ہے کہ " اللہ لے لیتا ہے جانوں کو ان کی موت کے وقت، اور جن کی موت نہیں آتی ان کی نیند کے وقت "۔- حافظ ابن تیمیہ (رح) نے الجواب الصحیح صفحہ ٨٣ جلد ٢ میں فرمایا : (التوفی فی لغۃ العرب معنھا القبض والاستیفاع و ذلک ثلاثۃ انواع، احدھا التوفی فی النوم و الثانی توفی الموت والثالث توفی الروح والبدن جمیعا) ۔ - اور کلیات ابو البقاء میں ہے : ( التوفی الاماتۃ وقبض الروح وعلیہ استعمال العامۃ او الاستیفاء واخذ الحق وعلیہ استعمال البلغاء) - اسی لئے آیت مذکورہ میں لفظ متوفیک کا ترجمہ اکثر حضرات نے پورا لینے سے کیا ہے، جیسا کہ ترجمہ شیخ الہند میں مذکور ہے، اس ترجمہ کے لحاظ سے مطلب واضح ہے کہ ہم آپ کو یہودیوں کے ہاتھ میں نہ چھوڑیں گے، بلکہ خود آپ کو لے لیں گے، جس کی صورت یہ ہوگی کہ اپنی طرف آسمان پر چڑھا لیں گے۔- اور بعض حضرات نے اس کا ترجمہ موت دینے سے کیا ہے، جیسا کہ بیان القرآن کے خلاصہ میں اوپر مذکور ہے، اور یہی ترجمہ مفسر القرآن حضرت عبداللہ بن عباس (رض) سے اسانید صحیحہ کے ساتھ منقول ہے، مگر اس کے ساتھ ہی یہ بھی منقول ہے کہ معنی آیت کے ہیں کہ حق تعالیٰ نے اس وقت جبکہ یہودی آپ کے قتل کے درپے تھے آپ کی تسلی کے لئے دو لفظ ارشاد فرمائے، ایک یہ کہ آپ کی موت ان کے ہاتھوں قتل کی صورت میں نہیں بلکہ طبعی موت کی صورت میں ہوگی۔ دوسرا یہ کہ اس وقت ان لوگوں کے نرغہ سے نجات دینے کی ہم یہ صورت کریں گے کہ آپ کو اپنی طرف اٹھالیں گے، یہی تفسیر حضرت ابن عباس (رض) سے منقول ہے۔ تفسیر در منثور میں حضرت ابن عباس (رض) کی یہ روایت اس طرح منقول ہے : (اخرج اسحاق بن بشر وابن عساکر من طریق جوھر عن الضحاک عن ابن عباس فی قولہ تعالیٰ انی متوفیک ورافعک الی یعنی رافعک ثم متوفیک فی اخرالزمان۔ (درمنثور صفحہ : ٣٦ جلد ٢) " اسحاق بن بشر اور ابن عساکر نے بروایت جوہر عن الضحاک حضرت ابن عباس (رض) سے آیت انی متوفیک وافعک الی کی تفسیر میں یہ لفظ نقل کئے ہیں کہ میں آپ کو اپنی طرف اٹھا لوں گا، پھر آخر زمانہ میں آپ کو طبعی طور پر وفات دوں گا "۔- اس تفسیر کا خلاصہ یہ ہے کہ توفی کے معنی موت ہی کے ہیں، مگر الفاظ میں تقدیم و تاخیر ہے (رافعک) کا پہلے اور (متوفیک) کا وقوع بعد میں ہوگا، اور اس موقع پر متوفیک کو مقدم ذکر کرنے کی حکمت و مصلحت اس پورے معاملے کی طرف اشارہ کرنا ہے جو آگے ہونے والا ہے یعنی یہ اپنی طرف بلا لینا ہمیشہ کے لئے نہیں، چند روزہ ہوگا اور پھر آپ اس دنیا میں آئیں گے اور دشمنوں پر فتح پائیں گے، اور بعد میں طبعی طور پر آپ کی موت واقع ہوگی، اس طرح دوبارہ آسمان سے نازل ہونے اور دنیا پر فتح پانے کے بعد موت آنے کا واقعہ ایک معجزہ بھی تھا اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے اعزازو اکرام کی تکمیل بھی، نیز اس میں عیسائیوں کے عقیدہ الوہیت کا ابطال بھی تھا، ورنہ ان کے زندہ آسمان پر چلے جانے کے واقعہ سے ان کا یہ عقیدہ باطل اور پختہ ہوجاتا کہ وہ بھی اللہ تعالیٰ کی طرح حی وقیوم ہے، اس لئے پہلے متوفیک کا لفظ ارشاد فرما کر ان تمام خیالات کا ابطال کردیا پھر اپنی طرف بلانے کا ذکر فرمایا۔ اور حقیقت یہ ہے کہ کفار و مشرکین کی مخالفت و عداوت تو انبیاء (علیہم السلام) سے ہمیشہ ہی ہوتی چلی آئی ہے، اور عادۃ اللہ یہ رہی ہے کہ جب کسی نبی کی قوم اپنے انکار اور ضد پر جمی رہی پیغمبر کی بات نہ مانی، ان کے معجزات دیکھنے کے بعد بھی ایمان نہ لائی، تو دو صورتوں میں سے ایک صورت کی گئی ہے۔ یا تو اس قوم پر آسمانی عذاب بھیج کر سب کو فنا کردیا گیا، جیسے عاد و ثمون اور قوم لوط (علیہ السلام) کے ساتھ معاملہ کیا گیا۔ یا پھر یہ صورت ہوتی کہ اپنے پیغمبر کو اس دار الکفر سے ہجرت کرا کے کسی دوسری طرف منتقل کیا گیا اور وہاں ان کو وہ قوت و شوکت دی گئی کہ پھر اپنی قوم پر فتح پائی۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے عراق سے ہجرت کر کے شام میں پناہ لی اسی طرح حضرت موسیٰ (علیہ السلام) مصر سے ہجرت کر کے علاقہ شام میں تشریف لائے، اور آخر میں خاتم الانبیاء (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مکہ سے ہجرت کر کے مدینہ طیبہ تشریف لائے۔ پھر وہاں سے حملہ آور ہو کر مکہ فتح کیا۔ یہودیوں کے نرغہ سے بچانے کے لئے یہ آسمان پر بلالینا بھی درحقیقت ایک قسم کی ہجرت تھی، جس کے بعد وہ پھر دنیا میں واپس آکر یہودیوں پر مکمل فتح حاصل کریں گے۔ رہا یہ معاملہ کہ ان کی یہ ہجرت سب سے الگ آسمان کی طرف کیوں ہے ؟ تو حق تعالیٰ نے ان کے بارے میں خود فرمادیا ہے کہ ان کی مثال آدم (علیہ السلام) کی سی ہے، جس طرح آدم (علیہ السلام) کی پیدائش عام مخلوقات کے طریق پیدائش سے مختلف بغیر ماں باپ کے ہے، اسی طرح ان کی پیدائش عام انسانوں کی پیدائش سے مختلف صورت سے ہوئی اور موت بھی عجیب و غریب طریقہ سے صدہا سال کے بعد دنیا میں آکر عجیب ہوگی۔ تو اس میں کیا تعجب ہے کہ ان کی ہجرت بھی کسی ایسے عجیب طریقہ سے ہو۔ - یہی عجائبات قدرت تو جاہل نصاری کے لئے اس عقیدہ میں مبتلا ہونے کا سبب بن گئے، کہ ان کو خدا کہنے لگے، حالانکہ انہی عجائب کے ہر قدم اور ہر چیز پر غور کیا جائے تو ہر ایک واقعہ میں ان کی عبدیت و بندگی اور تابع فرمان الہی ہونے اور بشری خصائص سے متصف ہونے کے دلائل ہیں، اور اسی لئے ہر ایسے موقع پر قرآن حکیم نے عقیدہ الوہیت کے ابطال کی طرف اشارہ کردیا ہے۔ آسمان پر اٹھانے سے یہ شبہ بہت قوی ہوجاتا، اس لئے متوفیک کو پہلے بیان کر کے شبہ کا قلع قمع کردیا۔ اس سے معلوم ہوا کہ اس آیت میں یہود کی تردید تو مقصود ہی ہے کہ یہود جو حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو قتل کرنے اور سولی دینے کا عزم کر رہے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے عزائم کو خاک میں ملا دیا اس تقدیم و تاخیر الفاظ کے ذریعہ اسی کے ساتھ نصاری کی بھی تردید ہوگئی کہ وہ خدا نہیں جو موت سے بری ہوں، ایک وقت آئے گا جب ان کو بھی موت آئے گی۔- امام رازی (رح) نے تفسیر کبیر میں فرمایا کہ قرآن کریم میں اس طرح کہ تقدیم و تاخیر اسی طرح کے مصالح کے ماتحت بکثرت آئی ہے کہ جو واقعہ بعد میں ہونے والا تھا اس کو پہلے اور پہلے ہونے والے واقعہ کو بعد میں بیان فرمایا (تفسیر کبیر، صفحہ ٤٨١، جلد ٢) - (ورافعک الی) اس کا مفہوم ظاہر ہے کہ عیسیٰ (علیہ السلام) کو خطاب کر کے کہا گیا ہے کہ آپ کو اپنی طرف اٹھا لوں گا، اور سب جانتے ہیں کہ عیسیٰ نام صرف روح کا نہیں بلکہ روح مع جسم کا ہے، تو رفع عیسیٰ کا یہ مفہوم لینا کہ صرف رفع روحانی ہوا جسمانی نہیں اٹھا یا گیا بالکل غلط ہے، رہا یہ کہ لفظ رفع کبھی بلندی مرتبہ کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے جیسا کہ قرآن کریم میں رفع بعضکم فوق بعض درجات۔ (٦: ١٦٦) اور یرفع اللہ الذین امنوا منکم والذین اوتوا العلم۔ (٥٨: ١١) وغیرہ آیات میں مذکور ہے۔- تویہ ظاہر ہے کہ لفظ رفع کو رفع درجہ کے معنی میں استعمال کرنا ایک مجاز ہے جو قرائن کی بنا پر مذکورہ آیات میں ہوا ہے، یہاں حقیقی معنی چھوڑ کر مجازی لینے کی کوئی وجہ نہیں، اس کے علاوہ اس جگہ لفظ رفع کے ساتھ لفظ الی استعمال فرما کر اس مجازی معنی کا احتمال بالکل ختم کردیا گیا ہے، اس آیت میں رافعک الی فرمایا، اور سورة نساء کی آیت میں بھی جہاں یہودیوں کے عقیدہ کا رد کیا گیا وہاں بھی یہی فرمایا وما قتلوہ یقینا بل رفع اللہ الیہ۔ (٤: ١٥٨) یعنی یہودیوں نے یقینا حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو قتل نہیں کیا، بلکہ ان کو تو اللہ نے اپنی طرف اٹھا لیا، اپنی طرف اٹھا لینا روح مع جسد کے زندہ اٹھالینے ہی کے لئے بولا جاتا ہے۔ (یہاں تک الفاظ آیت کی تشریح ہوئی) - آیت مذکورہ میں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) سے اللہ تعالیٰ کے پانچ وعدے :- اس آیت میں حق تعالیٰ نے یہودیوں کے مقابلہ میں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) سے پانچ وعدے فرمائے : سب سے پہلا وعدہ یہ تھا کہ ان کی موت یہودیوں کے ہاتھوں قتل کے ذریعہ نہیں ہوگی، طبعی طور سے وقت موعود پر ہوگی، اور وہ وقت موعود قرب قیامت میں آئے گا، جب عیسیٰ (علیہ السلام) آسمان سے زمین پر نازل ہوں گے، جیسا کہ احادیث صحیحہ متواترہ میں اس کی تفصیل موجود ہے، اور اس کا کچھ حصہ آگے آئے گا۔- دوسرا وعدہ : فی الحال عالم بالا کی طرف اٹھا لینے کا تھا، یہ اسی وقت پورا کردیا گیا جس کے پورا کرنے کی خبر سورة نساء کی آیت میں اس طرح دے دیگئی۔ (وما قتلوہ یقینا بل رفعہ اللہ الیہ۔ (٤: ١٥٨) " یقینا ان کو یہودیوں نے قتل نہیں کیا بلکہ اللہ تعالیٰ نے اپنی طرف اٹھا لیا "۔ - تیسرا وعدہ : ان کو دشمنوں کی تہمتوں سے پاک کرنے کا تھا (ومطھرک من الذین کفروا) میں وہ اس طرح پورا ہوا کہ خاتم الانبیاء (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تشریف لائے، اور یہود کے سب غلط الزامات کو صاف کردیا۔ مثلا یہود حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے بغیر باپ کے پیدا ہونے کی وجہ سے ان کے نسب کو مطعون کرتے تھے، قرآن کریم نے اس الزام کو یہ فرما کر صاف کردیا کہ وہ محض اللہ کی قدرت اور اس کے حکم سے بلا باپ کے پیدا ہوئے، اور یہ کوئی تعجب کی چیز نہیں۔ حضرت آدم (علیہ السلام) کی پیدائش اس سے زیادہ تعجب کی چیز ہے کہ ماں اور باپ دونوں کے بغیر پیدا ہوئے۔- یہودی حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) پر خدائی کے دعوے کا الزام لگاتے تھے، قرآن کریم کی بہت سی آیات میں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا اس کے خلاف اپنی عبدیت اور بندگی اور بشریت کا اقرار نقل فرمایا۔- چوتھا وعدہ : (وجاعل الذین اتبعوک) میں ہے کہ آپ کے متبعین کو آپ کے منکرین پر قیامت تک غالب رکھا جائے گا، یہ وعدہ اس طرح پورا ہوا کہ یہاں اتباع سے مراد حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی نبوت کا اعتقاد اور اقرار مراد ہے۔ ان کے سب احکام پر ایمان و اعتقاد کی شرط نہیں، تو اس طرح نصاری اور اہل اسلام دونوں اس میں داخل ہوگئے کہ وہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی نبوت و رسالت کے معتقد ہیں، یہ دوسری بات ہے کہ صرف اتنا اعتقاد نجات آخرت کے لئے کافی نہیں، بلکہ نجات آخرت اس پر موقوف ہے کہ عیسیٰ (علیہ السلام) کے تمام احکام پر اعتقاد و ایمان رکھے، اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے قطعی اور ضروری احکام میں سے ایک یہ بھی تھا کہ ان کے بعد خاتم الانبیاء (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر بھی ایمان لائیں، نصاری نے اس پر اعتقاد و ایمان اختیار نہ کیا، اس لئے نجات آخرت سے محروم رہے، مسلمانوں نے اس پر بھی عمل کیا، اس لئے نجات آخرت کے مستحق ہوگئے۔ لیکن دنیا میں یہودیوں پر غالب رہنے کا وعدہ صرف عیسیٰ (علیہ السلام) کی نبوت پر موقوف تھا، وہ دنیا کا غلبہ نصاری اور مسلمانوں کو بمقابلہ یہود ہمیشہ حاصل رہا اور یقینا قیامت تک رہے گا۔- جب سے اللہ تعالیٰ نے یہ وعدہ فرمایا تھا اس وقت سے آج تک ہمیشہ مشاہدہ یہی ہوتا چلا آیا ہے کہ بمقابلہ یہود ہمیشہ نصاری اور مسلمان غالب رہے، انہیں کی حکومتیں دنیا میں قائم ہوئیں اور رہیں۔- اسرائیل کی موجودہ حکومت سے اس پر کوئی شبہ نہیں ہوسکتا :- کیونکہ اول تو اس حکومت کی حقیقت اس کے سوا نہیں کہ وہ روس اور یورپ کے نصاری کی مشترکہ چھاؤ نی ہے جو انہوں نے مسلمانوں کے خلاف قائم کر رکھی ہے، ایک دن کے لئے بھی اگر حکومت روس و امریکہ و دیگر ممالک یورپ اپنا ہاتھ اس کے سر سے ہٹالیں تو دنیا کے نقشہ سے اس کا وجود مٹتا ہوا ساری دنیا مشاہدہ کرلے، اس لئے یہود یا اسرائیل کی یہ حکومت حقیقت شناس لوگوں کی نظر میں ایک مجاز تو ہوسکتا ہے اس سے زیادہ کوئی حقیقت نہیں اور بالفرض اس کو ان کی اپنی ہی حکومت تسلیم کرلیا جائے تو بھی نصاری اور اہل اسلام کے مجموعہ کے مقابلہ میں اس کے مغلوب و مقہور ہونے سے کون سا صحیح العقل انسان انکار کرسکتا ہے، اس سے بھی قطع نظر کرو تو قریب قیامت میں چند روزہ یہود کے غلبہ کی خبر تو خود اسلام کی متواتر روایات میں موجود ہے، اگر اس دنیا کو اب زیادہ باقی رہنا نہیں، اور قیامت قریب آچکی ہے تو اس کا ہونا بھی اسلامی روایات کے منافی نہیں اور ایسی چند روزہ شورش کو سلطنت یا حکومت نہیں کہہ سکتے۔- پانچواں وعدہ : قیامت کے روز ان مذہبی اختلافات کا فیصلہ فرمانے کا تو وہ وعدہ بھی اپنے وقت پر ضرور پورا ہوگا، جیسا کہ آیت میں ارشاد ہے (ثم الی مرجعکم فاحکم بینکم) ۔- مسئلہ حیات و نزول عیسیٰ (علیہ السلام) :- دنیا میں صرف یہودیوں کا یہ کہنا ہے کہ عیسیٰ (علیہ السلام) مقتول و مصلوب ہو کر دفن ہوگئے اور پھر زندہ نہیں ہوئے، اور ان کے اس خیال کی حقیقت قرآن کریم نے سورة نساء کی آیت میں واضح کردی ہے، اور اس آیت میں بھی ( ومکروا ومکر اللہ) میں اس کی طرف اشارہ کردیا گیا ہے کہ حق تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے دشمنوں کے کید اور تدبیر کو خود انہی کی طرف لوٹا دیا کہ جو یہودی حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے قتل کے لئے مکان کے اندر گئے تھے، اللہ تعالیٰ نے انہی میں سے ایک شخص کی شکل و صورت تبدیل کر کے بالکل عیسیٰ (علیہ السلام) کی صورت میں ڈھال دیا، اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو زندہ آسمان پر اٹھا لیا۔ آیت کے الفاظ یہ ہیں :- ( وما قتلوہ وماصلبوہ ولکن شبہ لھم۔ ٤: ١٥٧) " نہ انہوں نے عیسیٰ (علیہ السلام) کو قتل کیا نہ سولی چڑھایا لیکن تدبیر حق نے ان کو شبہ میں ڈال دیا (کہ اپنے ہی آدمی کو قتل کر کے خوش ہولئے) "۔ اس کی مزید تفصیل سورة نساء میں آئے گی۔- نصاری کا کہنا یہ تھا کہ عیسیٰ (علیہ السلام) مقتول ومصلوب تو ہوگئے مگر پھر دوبارہ زندہ کر کے آسمان پر اٹھا لئے گئے، مذکورہ آیت نے ان کے اس غلط خیال کی بھی تردید کردی، اور بتلادیا کہ جیسے یہودی اپنے ہی آدمی کو قتل کر کے خوشیاں منا رہے تھے اس سے یہ دھوکہ عیسائیوں کو بھی لگ گیا کہ قتل ہونے والے عیسیٰ (علیہ السلام) ہیں اس لئے شبہ لھم کے مصداق یہود کی طرح نصاری بھی ہوگئے۔ ان دونوں گروہوں کے بالمقابل اسلام کا وہ عقیدہ ہے جو اس آیت اور دوسری کئی آیتوں میں وضاحت سے بیان ہوا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو یہودیوں کے ہاتھ سے نجات دینے کے لئے آسمان پر زندہ اٹھا لیا نہ ان کو قتل کیا جاسکا نہ سولی پر چڑھا یا جاسکا، وہ زندہ آسمان پر موجود ہیں اور قرب قیامت میں آسمان سے نازل ہو کر یہودیوں پر فتح پائیں گے اور آخر میں طبعی موت سے وفات پائیں گے۔ اسی عقیدہ پر تمام امت مسلمہ کا اجماع و اتفاق ہے، حافظ ابن حجر (رح) نے تلخیص الجیر صفحہ ٣١٩ میں یہ اجماع نقل کیا ہے۔ قرآن مجید کی متعدد آیات اور حدیث کی متواتر روایات سے یہ عقیدہ اور اس پر اجماع امت سے ثابت ہے، یہاں اس کی پوری تفصیل کا موقع بھی نہیں اور ضرورت نہیں، کیونکہ علماء امت نے اس مسئلہ کو مستقل کتابوں اور رسالوں میں پورا پورا واضح فرمادیا ہے، اور منکرین کے جوابات تفصیل سے دیئے ہیں، ان کا مطالعہ کافی ہے۔ مثلا حضرت حجۃ الاسلام مولانا سید محمد انور شاہ کشمیری (رح) کی تصنیف بزبان عربی عقیدۃ الاسلام فی حیات عیسیٰ (علیہ السلام) ، حضرت مولانا بدر عالم صاحب مہاجر مدنی (رح) کی تصنیف بزبان اردو حیات عیسیٰ (علیہ السلام) ، مولانا سید محمد ادریس صاحب (رح) کی تصنیف حیات مسیح (علیہ السلام) ، اور بھی سینکڑوں چھوٹے بڑے رسائل اس مسئلہ پر مطبوع و مشتہر ہوچکے ہیں، احقر نے بامر استاذ محترم حضرت مولانا سید محمد انور شاہ صاحب کشمیری (رح) سو سے زائد احادیث جن سے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا زندہ اٹھایا جانا اور پھر قرب قیامت میں نازل ہونا بتواتر ثابت ہوتا ہے ایک مستقل کتاب التصریح بما تواتر فی نزول المسیح میں جمع کردیا ہے، جس کو حال میں حواشی و شرح کے ساتھ حلب شام کے ایک بزرگ علامہ عبدالفتاح ابو غدہ (رح) نے بیروت میں چھپوا کر شائع کیا ہے۔- اور حافظ ابن کثیر (رح) نے سورة زخرف کی آیت وانہ لعلم للساعۃ (٤٣: ٦١) کی تفسیر میں لکھا ہے : ( وقد تواترت الاحادیث عن رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) انہ اخبر بنزول عیسیٰ (علیہ السلام) قبل یوم القیامۃ اماما عادلا الخ۔ ) " یعنی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی احایث اس معاملے میں متواتر ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے قبل قیامت نازل ہونے کی خبردی ہے "۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے زندہ آسمان پر اٹھائے جانے اور زندہ رہنے پھر قرب قیامت میں نازل ہونے کا عقیدہ قرآن کریم کی نصوص قطعیہ اور احادیث متواترہ سے ثابت ہے جن کو علماء امت نے مستقل کتابوں، رسالوں کی صورت میں شائع کردیا ہے جن میں سے بعض کے نام اوپر درج ہیں، مسئلہ کی مکمل تحقیق کے لئے تو انہی کی طرف رجوع کرنا چاہئے۔- یہاں صرف ایک بات کی طرف توجہ دلاتا ہوں جس پر نظر کرنے سے ذرا بھی عقل و انصاف ہو تو اس مسئلہ میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں رہتی، وہ یہ ہے کہ سورة آل عمران کے چوتھے رکوع میں حق تعالیٰ نے انبیاء سابقین (علیہم السلام) کا ذکر فرمایا تو حضرت آدم، حضرت نوح، آل ابراہیم، آل عمران علیہم السلام۔ سب کا ذکر ایک ہی آیت میں اجمالا کرنے پر اکتفا فرمایا۔ اس کے بعد تقریبا تین رکوع اور بائیس آیتوں میں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اور ان کے خاندان کا ذکر اس بسط و تفصیل کے ساتھ کیا گیا کہ خود خاتم الانبیاء (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جن پر قرآن نازل ہوا ان کا ذکر بھی اتنی تفصیل کے ساتھ نہیں آیا، حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی نانی کا ذکر، ان کی نذر کا بیان، والدہ کی پیدائش، ان کا نام، ان کی تربیت کا تفصیلی ذکر، حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا بطن مادر میں آنا، پھر ولادت کا مفصل حال، ولادت کے بعد ماں نے کیا کھایا پیا اس کا ذکر، اپنے خاندان میں بچے کو لے کر آنا، ان کے طعن وتشنیع، اولا ولادت میں ان کو بطور معجزہ گویائی عطا ہونا، پھر جوان ہونا اور قوم کو دعوت دینا، ان کی مخالفت، حواریین کی امداد، یہودیوں کا نرغہ، ان کو زندہ آسمان پر اٹھایا جانا وغیرہ۔ پھر احادیث متواترہ میں ان کی مزید صفات، شکل و صورت، ہیئت، لباس وغیرہ کی پوری تفصیلات، یہ ایسے حالات ہیں کہ پورے قرآن و حدیث میں کسی نبی و رسول کے حالات اس تفصیل سے بیان نہیں کئے گئے۔ یہ بات ہر انسان کو دعوت فکر دیتی ہے کہ ایسا کیوں اور کس حکمت سے ہوا۔- ذرا بھی غور کیا جائے تو بات صاف ہوجاتی ہے کہ حضرت خاتم الانبیاء (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) چونکہ آخری نبی و رسول ہیں کوئی دوسرا نبی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد آنے والا نہیں، اس لئے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی تعلیمات میں اس کا بڑا اہتمام فرمایا کہ قیامت تک جو جو مراحل امت کو پیش آنے والے ہیں ان کے متعلق ہدایات دیدیں، اس لئے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک طرف تو اس کا اہتمام فرمایا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد قابل اتباع کون لوگ ہوں گے، ان کا تذکرہ اصولی طور پر عام اوصاف کے ساتھ بھی بیان فرمایا، بہت سے حضرات کے نام متعین کر کے بھی امت کو ان کے اتباع کی تاکید فرمائی، اس کے بالمقابل ان گمراہ لوگوں کا بھی پتہ دیا جن سے امت کے دن کو خطرہ تھا۔- بعد کے آنے والے گمراہوں میں سب سے بڑا شخص مسیح دجال تھا، جس کا فتنہ گمراہ کن تھا اس کے اتنے حالات وصفات بیان فرمادیئے کہ اس کے آنے کے وقت امت کو اس کے گمراہ ہونے میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہ رہے، اسی طرح بعد کے آنے والے مصلحین اور قابل اقتداء بزرگوں میں سب سے زیادہ بڑے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) ہیں، جن کو حق تعالیٰ نے نبوت و رسالت سے نوازا، اور فتنہ دجال میں امت مسلمہ کی امداد کے لئے ان کو آسمان میں زندہ رکھا اور قرب قیامت میں ان کو قتل دجال کے لئے مامور فرمایا، اس لئے ضرورت تھی کہ ان کے حالات وصفات بھی امت کو ایسے واشگاف بتلائے جائیں جن کے بعد نزول عیسیٰ (علیہ السلام) کے وقت کسی انسان کو ان کے پہچاننے میں کوئی شک و شبہ نہ رہ جائے۔ اس میں بہت سی حکم و مصالح ہیں۔ اول یہ کہ اگر امت کو ان کے پہچاننے ہی میں اشکال پیش آیا تو ان کے نزول کا مقصد ہی فوت ہوجائے گا، امت مسلمہ ان کے ساتھ نہ لگے گی تو وہ امت کی امداد و نصرت کس طرح فرمائیں گے۔ دوسرے یہ کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اگرچہ اس وقت فرائض نبوت و رسالت پر مامور ہو کر دنیا میں نہ آئیں گے، بلکہ امت محمدیہ کی قیادت و امامت کے لئے بحیثیت خلیفہ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تشریف لائیں گے۔ مگر ذاتی طور پر جو ان کو منصب نبوت و رسالت حاصل ہے اس سے معزول بھی نہ ہوں گے، بلکہ اس وقت ان کی مثال اس گورنر کی سی ہوگی جو اپنے صوبہ کا گورنر ہے، مگر کسی ضرورت سے دوسرے صوبہ میں چلا گیا ہے، تو وہ اگرچہ صوبے میں گورنر کی حیثیت پر نہیں مگر اپنے عہدہ گورنری سے معزول بھی نہیں، خلاصہ یہ ہے کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اس وقت بھی صفت نبوت و رسالت سے الگ نہیں ہوں گے، اور جس طرح ان کی نبوت سے انکار پہلے کفر تھا اس وقت بھی کفر ہوگا، تو امت مسلمہ جو پہلے سے ان کی نبوت پر قرآنی ارشادات کی بناء پر ایمان لائے ہوئے ہے، اگر نزول کے وقت ان کو نہ پہچانے تو انکار میں مبتلا ہوجائے گی، اس لئے ان کی علامات وصفات کو بہت زیادہ واضح کرنے کی ضرورت تھی تیسرے یہ کہ نزول عیسیٰ (علیہ السلام) کا واقعہ تو دنیا کی آخری عمر میں پیش آئے گا، اگر ان کی علامات و حالات مبہم ہوتے تو بہت ممکن ہے کہ کوئی دوسرا آدمی دعوی کر بیٹھے کہ میں مسیح عیسیٰ ابن مریم ہوں، ان علامات کے ذریعہ اس کی تردید کی جاسکے گی، جیسا کہ ہندوستان میں مرزا قادیانی نے دعوی کیا کہ میں مسیح موعود ہوں، اور علماء امت نے انہی علامات کی بناء پر اس کے قول کو رد کیا۔ خلاصہ یہ ہے کہ اس جگہ اور دوسرے مواقع میں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے حالات وصفات کا اتنی تفصیل کے ساتھ بیان ہونا خود ان کے قرب قیامت میں نازل ہونے اور دوبارہ دنیا میں تشریف لانے ہی کی خبر دے رہا ہے۔ احقر نے اس مضمون کو پوری وضاحت کے ساتھ اپنے رسالہ مسیح موعود کی پہچان میں بیان کردیا ہے اس کو دیکھ لیا جائے۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

اِذْ قَالَ اللہُ يٰعِيْسٰٓى اِنِّىْ مُتَوَفِّيْكَ وَرَافِعُكَ اِلَيَّ وَمُطَہِّرُكَ مِنَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا وَجَاعِلُ الَّذِيْنَ اتَّبَعُوْكَ فَوْقَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْٓا اِلٰى يَوْمِ الْقِيٰمَۃِ۝ ٠ ۚ ثُمَّ اِلَيَّ مَرْجِعُكُمْ فَاَحْكُمُ بَيْنَكُمْ فِيْمَا كُنْتُمْ فِيْہِ تَخْتَلِفُوْنَ۝ ٥٥- قول - القَوْلُ والقِيلُ واحد . قال تعالی: وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء 122]- ( ق و ل ) القول - القول اور القیل کے معنی بات کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء 122] اور خدا سے زیادہ بات کا سچا کون ہوسکتا ہے ۔- الله - الله : قيل : أصله إله فحذفت همزته، وأدخل عليها الألف واللام، فخصّ بالباري تعالی، ولتخصصه به قال تعالی: هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا [ مریم 65] . - ( ا ل ہ ) اللہ - (1) بعض کا قول ہے کہ اللہ کا لفظ اصل میں الہ ہے ہمزہ ( تخفیفا) حذف کردیا گیا ہے اور اس پر الف لام ( تعریف) لاکر باری تعالیٰ کے لئے مخصوص کردیا گیا ہے اسی تخصیص کی بناء پر فرمایا :۔ هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا ( سورة مریم 65) کیا تمہیں اس کے کسی ہمنام کا علم ہے ۔ - - عيسی - عِيسَى اسم علم، وإذا جعل عربيّا أمكن أن يكون من قولهم : بعیر أَعْيَسُ ، وناقة عَيْسَاءُ ، وجمعها عِيسٌ ، وهي إبل بيض يعتري بياضها ظلمة، أو من الْعَيْسِ وهو ماء الفحل يقال : عَاسَهَا يَعِيسُهَا - ( ع ی س ) یہ ایک پیغمبر کا نام اور اسم علم ہے اگر یہ لفظ عربی الاصل مان لیا جائے تو ہوسکتا ہے کہ یہ اس عیس سے ماخوذ ہو جو کہ اعیس کی جمع ہے اور اس کی مؤنث عیساء ہے اور عیس کے معنی ہیں سفید اونٹ جن کی سفیدی میں قدرے سیاہی کی آمیزش ہو اور یہ بھی ہوسکتا ہے عیس سے مشتق ہو جس کے معنی سانڈ کے مادہ منو یہ کے ہیں اور بعیر اعیس وناقۃ عیساء جمع عیس اور عاسھا یعسھا کے معنی ہیں نر کا مادہ سے جفتی کھانا ۔- وفی ( موت)- وتَوْفِيَةُ الشیءِ : بذله وَافِياً ، وقد عبّر عن الموت والنوم بالتَّوَفِّي، قال تعالی: اللَّهُ يَتَوَفَّى الْأَنْفُسَ حِينَ مَوْتِها[ الزمر 42] ، وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ بِاللَّيْلِ [ الأنعام 60] يا عِيسى إِنِّي مُتَوَفِّيكَ وَرافِعُكَ إِلَيَ [ آل عمران 55] ، وقدقیل : تَوَفِّيَ رفعةٍ واختصاص لا تَوَفِّيَ موتٍ. قال ابن عباس : تَوَفِّي موتٍ ، لأنّه أماته ثمّ أحياه - اور توفیتہ الشیئ کے معنی بلا کسی قسم کی کمی پورا پورادینے کے ہیں اور کبھی توفی کے معنی موت اور نیند کے بھی آتے ہیں ۔ چناچہ قرآن پاک میں ہے : ۔ اللَّهُ يَتَوَفَّى الْأَنْفُسَ حِينَ مَوْتِها[ الزمر 42] خدا لوگوں کی مرنے کے وقت ان کی روحیں قبض کرلیتا ہے ۔ وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ بِاللَّيْلِ [ الأنعام 60] اور وہی تو ہے جو رات کو ( سونے کی حالت میں ) تمہاری روح قبض کرلیتا ہے ۔ اور آیت : ۔ يا عِيسى إِنِّي مُتَوَفِّيكَ وَرافِعُكَ إِلَيَ [ آل عمران 55] عیسٰی (علیہ السلام) میں تمہاری دنیا میں رہنے کی مدت پوری کرکے تم کو اپنی طرف اٹھا لوں گا ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ توفی بمعنی موت نہیں ہے ۔ بلکہ اس سے مدراج کو بلند کرنا مراد ہے ۔ مگر حضرت ابن عباس رضہ نے توفی کے معنی موت کئے ہیں چناچہ ان کا قول ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسٰی (علیہ السلام) کو فوت کر کے پھر زندہ کردیا تھا ۔- رفع - الرَّفْعُ في الأجسام الموضوعة إذا أعلیتها عن مقرّها، نحو : وَرَفَعْنا فَوْقَكُمُ الطُّورَ [ البقرة 93] ، قال تعالی: اللَّهُ الَّذِي رَفَعَ السَّماواتِ بِغَيْرِ عَمَدٍ تَرَوْنَها[ الرعد 2] - ( ر ف ع ) الرفع - ( ف ) کے معنی اٹھانے اور بلند کرنے کے ہیں یہ مادی چیز جو اپنی جگہ پر پڑی ہوئی ہو اسے اس کی جگہ سے اٹھا کر بلند کرنے پر بولا جاتا ہے ۔ جیسے فرمایا : وَرَفَعْنا فَوْقَكُمُ الطُّورَ [ البقرة 93] اور ہم نے طو ر پہاڑ کو تمہارے اوپر لاکر کھڑا کیا ۔ اللَّهُ الَّذِي رَفَعَ السَّماواتِ بِغَيْرِ عَمَدٍ تَرَوْنَها[ الرعد 2] وہ قادر مطلق ہے جس نے آسمان کو بدوں کسی سہارے کے اونچا بناکر کھڑا کیا ۔ - طهر - والطَّهَارَةُ ضربان :- طَهَارَةُ جسمٍ ، وطَهَارَةُ نفسٍ ، وحمل عليهما عامّة الآیات . يقال : طَهَّرْتُهُ فَطَهُرَ ، وتَطَهَّرَ ، وَاطَّهَّرَ فهو طَاهِرٌ ومُتَطَهِّرٌ. قال تعالی: وَإِنْ كُنْتُمْ جُنُباً فَاطَّهَّرُوا[ المائدة 6] ، أي : استعملوا الماء، أو ما يقوم مقامه، قال : وَلا تَقْرَبُوهُنَّ حَتَّى يَطْهُرْنَ فَإِذا تَطَهَّرْنَ [ البقرة 222] ،- ( ط ھ ر ) طھرت - طہارت دو قسم پر ہے - ۔ طہارت جسمانی اور طہارت قلبی اور قرآن پاک میں جہاں کہیں طہارت کا لفظ استعمال ہوا ہے وہاں بالعموم دونوں قسم کی طہارت مراد ہے کہا جاتا ہے : ۔ طھرتہ فطھروتطھر واطھر فھو طاھر ومتطھر - میں نے اسے پاک کیا چناچہ وہ پاک ہوگیا ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَإِنْ كُنْتُمْ جُنُباً فَاطَّهَّرُوا[ المائدة 6] اور اگر نہانے کی حاجت ہو تو نہاکر پاک ہوجایا کرو ۔ یعنی یا جو چیز اس کے قائم مقام ہو اس کے ذریعہ طہارت کرلیا کرو ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَلا تَقْرَبُوهُنَّ حَتَّى يَطْهُرْنَ فَإِذا تَطَهَّرْنَ [ البقرة 222] اور جب تک پاک نہ ہوجائیں ان سے مقاربت نہ کرو ۔ - كفر - الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، - وأعظم الكُفْرِ- : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] - ( ک ف ر ) الکفر - اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔- اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔- جعل - جَعَلَ : لفظ عام في الأفعال کلها، وهو أعمّ من فعل وصنع وسائر أخواتها،- ( ج ع ل ) جعل ( ف )- یہ لفظ ہر کام کرنے کے لئے بولا جاسکتا ہے اور فعل وصنع وغیرہ افعال کی بنسبت عام ہے ۔- تبع - يقال : تَبِعَهُ واتَّبَعَهُ : قفا أثره، وذلک تارة بالجسم، وتارة بالارتسام والائتمار، وعلی ذلک قوله تعالی: فَمَنْ تَبِعَ هُدايَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ البقرة 38] - ( ت ب ع) تبعہ واتبعہ - کے معنی کے نقش قدم پر چلنا کے ہیں یہ کبھی اطاعت اور فرمانبرداری سے ہوتا ہے جیسے فرمایا ؛ فَمَنْ تَبِعَ هُدايَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ البقرة 38] تو جنہوں نے میری ہدایت کی پیروی کی ان کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ غمناک ہونگے - فوق - فَوْقُ يستعمل في المکان، والزمان، والجسم، والعدد، والمنزلة،- وذلک أضرب :- الأول : باعتبار العلوّ.- نحو : وَرَفَعْنا فَوْقَكُمُ الطُّورَ [ البقرة 63] ، مِنْ فَوْقِهِمْ ظُلَلٌ مِنَ النَّارِ [ الزمر 16] ، وَجَعَلَ فِيها رَواسِيَ مِنْ فَوْقِها [ فصلت 10] ، ويقابله تحت . قال : قُلْ هُوَ الْقادِرُ عَلى أَنْ يَبْعَثَ عَلَيْكُمْ عَذاباً مِنْ فَوْقِكُمْ أَوْ مِنْ تَحْتِ أَرْجُلِكُمْ [ الأنعام 65] - الثاني : باعتبار الصّعود والحدور - . نحو قوله :إِذْ جاؤُكُمْ مِنْ فَوْقِكُمْ وَمِنْ أَسْفَلَ مِنْكُمْ [ الأحزاب 10] .- الثالث : يقال في العدد .- نحو قوله : فَإِنْ كُنَّ نِساءً فَوْقَ اثْنَتَيْنِ [ النساء 11] .- الرابع : في الکبر والصّغر - مَثَلًا ما بَعُوضَةً فَما فَوْقَها[ البقرة 26] .- الخامس : باعتبار الفضیلة الدّنيويّة .- نحو : وَرَفَعْنا بَعْضَهُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجاتٍ [ الزخرف 32] ، أو الأخرويّة : وَالَّذِينَ اتَّقَوْا فَوْقَهُمْ يَوْمَ الْقِيامَةِ [ البقرة 212] ، فَوْقَ الَّذِينَ كَفَرُوا [ آل عمران 55] .- السادس : باعتبار القهر والغلبة .- نحو قوله : وَهُوَ الْقاهِرُ فَوْقَ عِبادِهِ [ الأنعام 18] ، وقوله عن فرعون : وَإِنَّا فَوْقَهُمْ قاهِرُونَ [ الأعراف 127] - ( ف و ق ) فوق - یہ مکان ازمان جسم عدد اور مرتبہ کے متعلق استعمال ہوتا ہے - اور کئی معنوں میں بولا جاتا ہے - اوپر جیسے فرمایا ۔ وَرَفَعْنا فَوْقَكُمُ الطُّورَ [ البقرة 63] اور کوہ طور کو تم پر اٹھا کھڑا کیا ۔ مِنْ فَوْقِهِمْ ظُلَلٌ مِنَ النَّارِ [ الزمر 16] کے اوپر تو آگ کے سائبان ہوں گے ۔ وَجَعَلَ فِيها رَواسِيَ مِنْ فَوْقِها [ فصلت 10] اور اسی نے زمین میں اس کے پہاڑ بنائے ۔ اس کی ضد تحت ہے جس کے معنی نیچے کے ہیں چناچہ فرمایا ۔ قُلْ هُوَ الْقادِرُ عَلى أَنْ يَبْعَثَ عَلَيْكُمْ عَذاباً مِنْ فَوْقِكُمْ أَوْ مِنْ تَحْتِ أَرْجُلِكُمْ [ الأنعام 65] کہ وہ اس پر بھی قدرت رکھتا ہے کہ تم پر اوپر کی طرف سے یا تمہارے پاؤں کے نیچے سے عذاب بھیجے - ۔ 2 صعود یعنی بلند ی کی جانب کے معنی میں - اس کی ضدا سفل ہے جس کے معنی پستی کی جانب کے ہیں چناچہ فرمایا : ۔ إِذْ جاؤُكُمْ مِنْ فَوْقِكُمْ وَمِنْ أَسْفَلَ مِنْكُمْ [ الأحزاب 10] جب وہ تمہارے اوپر اور نیچے کی جانب سے تم پر چڑھ آئے - ۔ 3 کسی عدد پر زیادتی کے معنی - ظاہر کرنے کے لئے آتا ہے جیسے فرمایا : ۔ فَإِنْ كُنَّ نِساءً فَوْقَ اثْنَتَيْنِ [ النساء 11] اگر اولاد صرف لڑکیاں ہی ہوں ( یعنی دو یا ) دو سے زیادہ - ۔ 4 جسمانیت کے لحاظ سے بڑا یا چھوٹا ہونے کے معنی - دیتا ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ : مَثَلًا ما بَعُوضَةً فَما فَوْقَها[ البقرة 26] مچھر یا اس سے بڑھ کر کسی چیز مثلا مکھی ۔ مکڑی کی مثال بیان فرمائے ۔- 5 بلحاظ فضیلت دنیوی کے استعمال ہوتا ہے - جیسے فرمایا ۔ وَرَفَعْنا بَعْضَهُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجاتٍ [ الزخرف 32] اور ایک دوسرے پر درجے بلند کئے ۔ اور کبھی فضلیت اخروی کے لحاظ سے آتا ہے جیسے فرمایا : ۔ وَالَّذِينَ اتَّقَوْا فَوْقَهُمْ يَوْمَ الْقِيامَةِ [ البقرة 212] لیکن جو پرہیز گار ہیں وہ قیامت کے دن ان پر پر فائق ہوں گے ۔ فَوْقَ الَّذِينَ كَفَرُوا [ آل عمران 55] کافروں پر فائق ۔- 6 فوقیت معنی غلبہ اور تسلط - کے جیسے فرمایا : ۔ وَهُوَ الْقاهِرُ فَوْقَ عِبادِهِ [ الأنعام 18] اور وہ اپنے بندوں پر غالب ہے ۔ وَإِنَّا فَوْقَهُمْ قاهِرُونَ [ الأعراف 127] فرعون سے اور بےشبہ ہم ان پر غالب ہیں ۔ - إلى- إلى: حرف يحدّ به النهاية من الجوانب الست، - الیٰ ۔ حرف ( جر ) ہے اور جہات ستہ میں سے کسی جہت کی نہایتہ حدبیان کرنے کے لئے آتا ہے - القیامتہ - سے مراد وہ ساعت ( گھڑی ) ہے جس کا ذکر کہ وَيَوْمَ تَقُومُ السَّاعَةُ [ الروم 12] اور جس روز قیامت برپا ہوگی ۔ يَوْمَ يَقُومُ النَّاسُ لِرَبِّ الْعالَمِينَ [ المطففین 6] جس دن لوگ رب العلمین کے سامنے کھڑے ہوں گے ۔ وَما أَظُنُّ السَّاعَةَ قائِمَةً [ الكهف 36] اور نہ خیال کرتا ہوں کہ قیامت برپا ہو۔ وغیرہ آیات میں پایاجاتا ہے ۔ اصل میں قیامتہ کے معنی انسان یکبارگی قیام یعنی کھڑا ہونے کے ہیں اور قیامت کے یکبارگی وقوع پذیر ہونے پر تنبیہ کرنے کے لئے لفظ قیام کے آخر میں ھاء ( ۃ ) کا اضافہ کیا گیا ہے - رجع - الرُّجُوعُ : العود إلى ما کان منه البدء، أو تقدیر البدء مکانا کان أو فعلا، أو قولا، وبذاته کان رجوعه، أو بجزء من أجزائه، أو بفعل من أفعاله . فَالرُّجُوعُ : العود، - ( ر ج ع ) الرجوع - اس کے اصل معنی کسی چیز کے اپنے میدا حقیقی یا تقدیر ی کی طرف لوٹنے کے ہیں خواہ وہ کوئی مکان ہو یا فعل ہو یا قول اور خواہ وہ رجوع بذاتہ ہو یا باعتبار جز کے اور یا باعتبار فعل کے ہو الغرض رجوع کے معنی عود کرنے اور لوٹنے کے ہیں اور رجع کے معنی لوٹا نے کے - حكم - والحُكْم بالشیء : أن تقضي بأنّه كذا، أو ليس بکذا، سواء ألزمت ذلک غيره أو لم تلزمه، قال تعالی: وَإِذا حَكَمْتُمْ بَيْنَ النَّاسِ أَنْ تَحْكُمُوا بِالْعَدْلِ [ النساء 58]- ( ح ک م ) حکم - الحکم کسی چیز کے متعلق فیصلہ کرنے کا نام حکم ہے یعنی وہ اس طرح ہے یا اس طرح نہیں ہے خواہ وہ فیصلہ دوسرے پر لازم کردیا جائے یا لازم نہ کیا جائے ۔ قرآں میں ہے :۔ وَإِذا حَكَمْتُمْ بَيْنَ النَّاسِ أَنْ تَحْكُمُوا بِالْعَدْلِ [ النساء 58] اور جب لوگوں میں فیصلہ کرنے لگو تو انصاف سے فیصلہ کیا کرو ۔- بين - بَيْن موضوع للخلالة بين الشيئين ووسطهما . قال تعالی: وَجَعَلْنا بَيْنَهُما زَرْعاً «1» [ الكهف 32] ، يقال : بَانَ كذا أي : انفصل وظهر ما کان مستترا منه، ولمّا اعتبر فيه معنی الانفصال والظهور استعمل في كلّ واحد منفردا، فقیل للبئر البعیدة القعر : بَيُون، لبعد ما بين الشفیر والقعر لانفصال حبلها من يد صاحبها .- ( ب ی ن ) البین - کے معنی دو چیزوں کا درمیان اور وسط کے ہیں : ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَجَعَلْنا بَيْنَهُما زَرْعاً «1» [ الكهف 32] اور ان کے درمیان کھیتی پیدا کردی تھی ۔ محاورہ ہے بان کذا کسی چیز کا الگ ہوجانا اور جو کچھ اس کے تحت پوشیدہ ہو ، اس کا ظاہر ہوجانا ۔ چونکہ اس میں ظہور اور انفصال کے معنی ملحوظ ہیں اس لئے یہ کبھی ظہور اور کبھی انفصال کے معنی میں استعمال ہوتا ہے - الاختلافُ والمخالفة- والاختلافُ والمخالفة : أن يأخذ کلّ واحد طریقا غير طریق الآخر في حاله أو قوله، والخِلَاف أعمّ من الضّدّ ، لأنّ كلّ ضدّين مختلفان، ولیس کلّ مختلفین ضدّين، ولمّا کان الاختلاف بين النّاس في القول قد يقتضي التّنازع استعیر ذلک للمنازعة والمجادلة، قال : فَاخْتَلَفَ الْأَحْزابُ [ مریم 37] - ( خ ل ف ) الاختلاف والمخالفۃ - الاختلاف والمخالفۃ کے معنی کسی حالت یا قول میں ایک دوسرے کے خلاف کا لفظ ان دونوں سے اعم ہے کیونکہ ضدین کا مختلف ہونا تو ضروری ہوتا ہے مگر مختلفین کا ضدین ہونا ضروری نہیں ہوتا ۔ پھر لوگوں کا باہم کسی بات میں اختلاف کرنا عموما نزاع کا سبب بنتا ہے ۔ اس لئے استعارۃ اختلاف کا لفظ نزاع اور جدال کے معنی میں استعمال ہونے لگا ہے ۔ قرآن میں ہے : فَاخْتَلَفَ الْأَحْزابُ [ مریم 37] پھر کتنے فرقے پھٹ گئے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٥٥) اللہ تعالیٰ نے اس وقت جب کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) گرفتاری کے وقت پریشان ہوئے، فرمایا کچھ فکر نہ کرو میں تمہیں عالم بالا کی طرف اٹھانے والا ہوں اور تمہارے منکرین سے تمہیں پاک کرنے والا ہوں اور تمہارے پیروکاروں کو منکرین پر مدد اور حجت کے ساتھ غلبہ دینے والا ہوں اور پھر قیامت کے قریب آسمان سے اترنے کے بعد تمہیں فطری طریقہ کے مطابق موت دوں گا اور مرنے کے بعد سب کی واپسی میرے سامنے ہوگی، اس وقت میں سب کے درمیان ان امور دین میں جس میں تم باہم جھگڑتے تھے فیصلہ کردوں گا۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٥٥ (اِذْ قَال اللّٰہُ یٰعِیْسٰٓی اِنِّیْ مُتَوَفِّیْکَ وَرَافِعُکَ اِلَیَّ ) - لفظ مُتَوَفِّیْکَکو قادیانیوں نے اپنے اس غلط عقیدے کے لیے بہت بڑی بنیاد بنایا ہے کہ حضرت مسیح ( علیہ السلام) کی وفات ہوچکی ہے۔ لہٰذا اس لفظ کو اچھی طرح سمجھ لیجیے۔ وَفٰی کے معنی ہیں پورا کرنا۔ اردو میں بھی کہا جاتا ہے وعدہ وفا کرو۔ اسی سے باب تفعیل میں وَفّٰی۔ یُوَفِّیْ ۔ تَوْفِیَۃً کا مطلب ہے کسی کو پورا دینا۔ جیسا کہ آیت ٢٥ میں ہم پڑھ آئے ہیں : (فَکَیْفَ اِذَا جَمَعْنٰہُمْ لِیَوْمٍ لاَّ رَیْبَ فِیْہِقف وَوُفِّیَتْ کُلُّ نَفْسٍ مَّا کَسَبَتْ وَہُمْ لاَ یُظْلَمُوْنَ ) تو کیا حال ہوگا جب ہم انہیں اکٹھا کریں گے اس دن جس کے بارے میں کوئی شک نہیں اور ہر جان کو پورا پورا بدلہ اس کے اعمال کا دے دیا جائے گا اور ان پر کوئی زیادتی نہیں ہوگی۔ باب تفعّل میں تَوَفّٰی۔ یَتَوَفّٰیکا معنی ہوگا کسی کو پورا پورا لے لینا۔ اور یہ لفظ گویا بتمام و کمال منطبق ہوتا ہے حضرت مسیح ( علیہ السلام) پر کہ جن کو اللہ تعالیٰ ان کے جسم اور جان سمیت دنیا سے لے گیا۔ ہم جب کہتے ہیں کہ کوئی شخص وفات پا گیا تو یہ استعارتاً کہتے ہیں۔ اس لیے کہ اس کا جسم تو یہیں رہ گیا صرف جان گئی ہے۔ اور یہی لفظ قرآن میں نیند کے لیے بھی آیا ہے : (اَللّٰہُ یَتَوَفَّی الْاَنْفُسَ حِیْنَ مَوْتِہَا وَالَّتِیْ لَمْ تَمُتْ فِیْ مَنَامِہَا ج) (الزمر : ٤٢) وہ اللہ ہی ہے جو موت کے وقت روحیں قبض کرلیتا ہے اور جو ابھی نہیں مرا اس کی روح نیند میں قبض کرلیتا ہے۔ اس لیے کہ نیند میں بھی انسان سے خود شعوری نکل جاتی ہے ‘ اگرچہ وہ زندہ ہوتا ہے۔ روح کا تعلق خود شعوری کے ساتھ ہے۔ پھر جب انسان مرتا ہے تو روح اور جان دونوں چلی جاتی ہیں اور صرف جسم رہ جاتا ہے۔ قرآن حکیم نے ان دونوں حالتوں (نیند اور موت) کے لیے توفّی کا لفظ استعمال کیا ہے۔ اور سب سے زیادہ مکمل تَوَفّی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ حضرت مسیح ( علیہ السلام) کو ان کے جسم ‘ جان اور روح تینوں سمیت ‘ جوں کا توں ‘ زندہ سلامت لے گیا۔ حضرت مسیح ( علیہ السلام) کے رفع سماوی کا یہ عقیدہ مسلمانوں کا ہے ‘ اور جہاں تک لفظ تَوَفّی کا تعلق ہے اس میں قطعاً کوئی ایسی پیچیدہ بات نہیں ہے جس سے کوئی شخص آپ ( علیہ السلام) کی موت کی دلیل پکڑ سکے ‘ سوائے اس کے کہ ان لوگوں کو بہکانا آسان ہے جنہیں عربی زبان کی گرامر سے واقفیت نہیں ہے اور وہ ایک ہی وفات جانتے ہیں ‘ جبکہ ازروئے قرآن تین قسم کی وفات ثابت ہوتی ہے ‘ جس کی میں نے وضاحت کی ہے۔ آیت زیر مطالعہ کے متذکرہ بالا ٹکڑے کا ترجمہ پھر کر لیجیے : یاد کرو جب اللہ نے کہا کہ اے عیسیٰ ( علیہ السلام) میں تمہیں لے جانے والا ہوں اور تمہیں اپنی طرف اٹھا لینے والا ہوں۔- (وَمُطَہِّرُکَ مِنَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا) (وَجَاعِلُ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْکَ فَوْقَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْآ اِلٰی یَوْمِ الْقِیٰمَۃِ ج) - یہود جنہوں نے حضرت مسیح ( علیہ السلام) کا انکار کیا تھا اس وقت سے لے کر موجودہ زمانے تک حضرت مسیح ( علیہ السلام) کے پیروکاروں سے مار کھاتے رہے ہیں۔ حضرت مسیح ( علیہ السلام) ٣٠ ء یا ٣٣ ء میں آسمان پر اٹھا لیے گئے تھے اور اس کے بعد سے یہود پر عیسائیوں کے ہاتھوں مسلسل عذاب کے کوڑے برستے رہے ہیں۔ حضرت مسیح ( علیہ السلام) کے رفع سماوی کے چالیس برس بعد ٧٠ ء میں ٹائٹس رومی کے ہاتھوں ہیکل سلیمانی مسمار ہوا اور یروشلم میں ایک لاکھ بیس ہزار یا ایک لاکھ تینتیس ہزار یہودی ایک دن میں قتل کیے گئے۔ گویا دو ہزار برس ہونے کو ہیں کہ ان کا کعبہ گرا پڑا ہے۔ اس کی صرف ایک دیوار (دیوار گریہ) باقی ہے جس پر جا کر یہ رو دھو لیتے ہیں۔ - ہیکل سلیمانی اوّلاً بخت نصر نے چھٹی صدی قبل مسیح میں مسمار کیا تھا اور پورے یروشلم کی اینٹ سے اینٹ بجا دی تھی۔ اس نے لاکھوں یہودی تہ تیغ کردیے تھے اور لاکھوں کو قیدی بنا کر اپنے ساتھ بابل لے گیا تھا۔ یہ ان کا اسارت ( ) کا دور کہلاتا ہے۔ حضرت عزیر (علیہ السلام) کے زمانے میں یہ فلسطین واپس آئے تھے اور معبد ثانیتعمیر کیا تھا ‘ جو ٧٠ ء میں منہدم کردیا گیا اور انہیں فلسطین سے نکال دیا گیا۔ چناچہ یہ مختلف ملکوں میں منتشر ہوگئے۔ کوئی روس ‘ کوئی ہندوستان ‘ کوئی مصر اور کوئی یورپ چلا گیا۔ اس طرح یہ پوری دنیا میں پھیل گئے۔ یہ ان کا دور انتشار ( ) کہلاتا ہے۔ حضرت عمر فاروق (رض) کے دور میں جب عیسائیوں نے ایک معاہدے کے تحت یروشلم مسلمانوں کے حوالے کردیا تو حضرت عمر (رض) نے اسے کھلا شہر ( ) قرار دے دیا کہ یہاں مسلمان ‘ عیسائی اور یہودی سب آسکتے ہیں۔ اس طرح ان کی یروشلم میں آمد و رفت شروع ہوگئی۔ البتہ عیسائیوں نے اس معاہدے میں یہ شرط لکھوائی تھی کہ یہودیوں کو یہاں آباد ہونے یا جائیداد خریدنے کی اجازت نہیں ہوگی۔ چناچہ حضرت عمر (رض) کے زمانے سے خلافت عثمانیہ کے دور تک اس معاہدے پر عمل درآمد ہوتا رہا اور یہودیوں کو فلسطین میں آباد ہونے کی اجازت نہیں دی گئی۔ یہودیوں نے عثمانی خلفاء کو بڑی سے بڑی رشوتوں کی پیشکش کی ‘ لیکن انہیں اس میں کامیابی نہ ہوئی۔ چناچہ انہوں نے سازشیں کیں اور خلافت عثمانیہ کا خاتمہ کروا دیا۔ اس لیے کہ انہیں یہ نظر آتا تھا کہ اس خلافت کے ہوتے ہوئے یہ ممکن نہیں ہوگا کہ ہم کسی طرح بھی فلسطین میں دوبارہ آباد ہو سکیں۔ انہوں نے ١٩١٧ ء میں برطانوی وزیر بالفور ( ) کے ذریعے بالفور ڈیکلریشن منظور کرایا ‘ جس میں ان کو یہ حق دیا گیا کہ وہ فلسطین میں آکر جائیداد بھی خرید سکتے ہیں اور آباد بھی ہوسکتے ہیں۔ اس ڈیکلریشن کی منظوری کے ٣١ برس بعد اسرائیل کی ریاست وجود میں آگئی۔ یہ تاریخ ذہن میں رہنی چاہیے۔ - اب ایک طرح سے محسوس ہوتا ہے کہ یہودی دنیا بھر میں سیاست اور اقتدار پر چھائے ہوئے ہیں ‘ تعداد میں ڈیڑھ کروڑ سے بھی کم ہونے کے باوجود اس وقت دنیا کی معیشت کا بڑا حصہ ان کے کنٹرول میں ہے۔ لیکن معلوم ہونا چاہیے کہ یہ سب کچھ عیسائیوں کی پشت پناہی کی وجہ سے ہے۔ اگر عیسائی ان کی مدد نہ کریں تو عرب ایک دن میں ان کے ٹکڑے اڑا کر رکھ دیں۔ اس وقت پوری امریکی حکومت ان کی پشت پر ہے ‘ بلکہ یعنی امریکہ اور برطانیہ تو گویا ان کے زرخرید ہیں۔ دوسرے عیسائی ممالک بھی ان کے اشاروں پر ناچتے ہیں۔ بہرحال اب بھی صورت حال یہ ہے کہ اوپر تو عیسائی ہی ہیں اور یہ معنوی طور پر سازشی انداز میں نیچے سے انہیں کنٹرول کر رہے ہیں۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

23: حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے مخالفین نے انہیں سولی پر چڑھانے کا منصوبہ بنایا تھا، لیکن اﷲ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو آسمان پر اُٹھا لیا اور جو لوگ آپ کو گرفتار کرنے آئے تھے ان میں سے ایک شخص کو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا ہم شکل بنا دیا، اور مخالفین نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے دھوکے میں اسے سولی پر چڑھا دیا۔ آیت کا جو ترجمہ یہاں کیا گیا ہے وہ عربی لفظ ’’توفی‘‘ کے لغوی معنیٰ پر مبنی ہے، اور مفسرین کی ایک بڑی جماعت نے یہاں یہی معنیٰ مراد لئے ہیں۔ اس لفظ کی ایک اور تشریح بھی ممکن ہے جو حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے بھی مروی ہے۔ اس کے لئے ملاحظہ ہو معارف القرآن ص :74 ج :2۔ 24: یعنی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو ماننے والے (خواہ انہیں صحیح طور پر مانتے ہوں جیسے مسلمان، یا غلو کے ساتھ مانتے ہوں جیسے عیسائی) ان کے مخالفین پر ہمیشہ غالب رہیں گے۔ چنانچہ تاریخ میں یسا ہی ہوتا رہا ہے، البتہ صدیوں کی تاریخ میں اگر کچھ مختصر عرصے کے لئے جزوی طور پر کہیں ان کے مخالفین کا غلبہ ہوگیا ہو تو وہ اس کے منافی نہیں ہے۔