ربط آیات - اوپر آیت میں مذکور تھا کہ " میں ان اختلاف کرنے والوں کے درمیان قیامت کے روز عملی فیصلہ کروں گا " اس آیت میں اس فیصلہ کا بیان ہے۔- خلاصہ تفسیر :- تفصیل ( فیصلہ کی) یہ ہے کہ جو لوگ (ان اختلاف کرنے والوں میں) کافر تھے سو ان کو (ان کے کفر پر) سخت سزا دوں گا ( مجموعہ دونوں جہان میں) دنیا بھی ( کہ وہ تو ہوچکی) اور آخرت میں بھی ( کہ وہ باقی رہی) اور ان لوگوں کا کوئی حامی ( طرف دار) نہ ہوگا اور جو لوگ مومن تھے اور انہوں نے نیک کام کئے تھے سو ان کو اللہ تعالیٰ ان کے (ایمان اور نیک کاموں کا) ثوابدیں گے اور (کافر کو سزا ملنے کی وجہ یہ ہے کہ) اللہ تعالیٰ محبت نہیں رکھتے ( ایسے) ظلم کرنے والوں سے ( جو اللہ تعالیٰ یا پیغمبروں کے منکر ہوں یعنی چونکہ یہ ظلم عظیم ہے، معافی کے قابل نہیں، اس لئے مبغوض شدید ہو کر سزا یاب ہوجاتا ہے) یہ ( قصہ مذکورہ) ہم تم کو ( بذریعہ وحی کے) پڑھ پڑھ کر سناتے ہیں جو کہ (آپ کے) منجملہ دلائل (نبوت) کے ہے اور منجملہ حکمت آمیز مضامین کے ہے۔- معارف و مسائل :- مصائب دنیا کفار کے لئے کفارہ نہیں ہوتے مومن کے کفارہ ہو کر مفید ہوتے ہیں :- (فاعذبھم عذابا شدیدا فی الدینا والاخرۃ) اس آیت کے مضمون پر ایک خفیف سا اشکال ہوتا ہے، کہ قیامت کے فیصلہ کے بیان میں اس کہنے کے کیا معنی کہ میں دنیا و آخرت میں سزا دوں گا، کیونکہ اس وقت تو سزائے دنیوی نہیں ہوگی۔- حل اس کا یہ ہے کہ اس کہنے کی ایسی مثال ہے جیسے کوئی حاکم کسی مجرم کو یہ کہے کہ اس وقت تو ایک سال کی قید کرتا ہوں، اگر جیل خانہ میں کوئی شرارت کی تو دو سال کی سزا کروں گا، فقط اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ یہ دو سال آج کی تاریخ سے ہوں گے، پس اس بنا پر یقینی ہے کہ شرارت کے بعد دو سال کا حکم ہوجاوے گا، حاصل یہ ہوتا ہے کہ شرارت پر اس مجموعہ کی تکمیل بطور انضمام ایک سال زائد کے مرتب ہوجاوے گی۔ اسی طرح یہاں سمجھنا چاہئے کہ دنیا میں تو سزا ہوچکی اس کے ساتھ سزائے آخرت منضم ہو کر مجموعہ قیامت کے روز تکمیل کردیا جائے گا۔ یعنی سزائے دنیا کفارہ نہ ہوگا سزائے آخرت کے لئے بخلاف اہل ایمان کے کہ اگر ان پر دنیا میں کوئی مصیبت وغیرہ آتی ہے تو گناہ معاف ہوتے ہیں اور عاقبت کی عقوبت خفیف یا دفع ہوجاتی ہے، اور اسی وجہ سے اس کی طرف لا یحب الظالمین میں اشارہ فرمایا گیا، یعنی اہل ایمان بسبب ایمان کے محبوب ہیں، محبوب کے ساتھ ایسے معاملات ہوا کرتے ہیں اور اہل کفر بسبب کفر کے مبغوض ہیں، مبغوض کے ساتھ ایسا معاملہ نہیں ہوتا۔ (بیان القرآن)
فَاَمَّا الَّذِيْنَ كَفَرُوْا فَاُعَذِّبُھُمْ عَذَابًا شَدِيْدًا فِي الدُّنْيَا وَالْاٰخِرَۃِ ٠ ۡوَمَا لَھُمْ مِّنْ نّٰصِرِيْنَ ٥٦- «أمَّا»- و «أمَّا» حرف يقتضي معنی أحد الشيئين، ويكرّر نحو : أَمَّا أَحَدُكُما فَيَسْقِي رَبَّهُ خَمْراً وَأَمَّا الْآخَرُ فَيُصْلَبُ [يوسف 41] ، ويبتدأ بها الکلام نحو : أمّا بعد فإنه كذا . ( ا ما حرف ) اما ۔ یہ کبھی حرف تفصیل ہوتا ہے ) اور احد اشیئین کے معنی دیتا ہے اور کلام میں مکرر استعمال ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا :۔ أَمَّا أَحَدُكُمَا فَيَسْقِي رَبَّهُ خَمْرًا وَأَمَّا الْآخَرُ فَيُصْلَبُ ( سورة يوسف 41) تم میں سے ایک ( جو پہلا خواب بیان کرنے ولا ہے وہ ) تو اپنے آقا کو شراب پلایا کریگا اور جو دوسرا ہے وہ سونی دیا جائے گا ۔ اور کبھی ابتداء کلام کے لئے آتا ہے جیسے امابعد فانہ کذا ۔- عذب - والعَذَابُ : هو الإيجاع الشّديد، وقد عَذَّبَهُ تَعْذِيباً : أكثر حبسه في - العَذَابِ. قال : لَأُعَذِّبَنَّهُ عَذاباً شَدِيداً [ النمل 21]- واختلف في أصله، فقال بعضهم : هو من قولهم : عَذَبَ الرّجلُ : إذا ترک المأكل والنّوم فهو عَاذِبٌ وعَذُوبٌ ، فَالتَّعْذِيبُ في الأصل هو حمل الإنسان أن يُعَذَّبَ ، أي : يجوع ويسهر،- ( ع ذ ب )- العذاب - سخت تکلیف دینا عذبہ تعذیبا اسے عرصہ دراز تک عذاب میں مبتلا رکھا ۔ قرآن میں ہے ۔ لَأُعَذِّبَنَّهُ عَذاباً شَدِيداً [ النمل 21] میں اسے سخت عذاب دوں گا ۔ - لفظ عذاب کی اصل میں اختلاف پا یا جاتا ہے - ۔ بعض کہتے ہیں کہ یہ عذب ( ض ) الرجل کے محاورہ سے مشتق ہے یعنی اس نے ( پیاس کی شدت کی وجہ سے ) کھانا اور نیند چھوڑدی اور جو شخص اس طرح کھانا اور سونا چھوڑ دیتا ہے اسے عاذب وعذوب کہا جاتا ہے لہذا تعذیب کے اصل معنی ہیں کسی کو بھوکا اور بیدار رہنے پر اکسانا - شدید - والشِّدَّةُ تستعمل في العقد، وفي البدن، وفي قوی النّفس، وفي العذاب، قال : وَكانُوا أَشَدَّ مِنْهُمْ قُوَّةً [ فاطر 44] ، عَلَّمَهُ شَدِيدُ الْقُوى[ النجم 5] ، يعني : جبریل عليه السلام، - ( ش دد ) الشد - اور شدۃ کا لفظ عہد ، بدن قوائے نفس اور عذاب سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : وَكانُوا أَشَدَّ مِنْهُمْ قُوَّةً [ فاطر 44] وہ ان سے قوت میں بہت زیادہ تھے ۔ عَلَّمَهُ شَدِيدُ الْقُوى[ النجم 5] ان کو نہایت قوت والے نے سکھایا ؛نہایت قوت والے سے حضرت جبریل (علیہ السلام) مراد ہیں - دنا - الدّنوّ : القرب بالذّات، أو بالحکم، ويستعمل في المکان والزّمان والمنزلة . قال تعالی: وَمِنَ النَّخْلِ مِنْ طَلْعِها قِنْوانٌ دانِيَةٌ [ الأنعام 99] ، وقال تعالی: ثُمَّ دَنا فَتَدَلَّى[ النجم 8] ، هذا بالحکم . ويعبّر بالأدنی تارة عن الأصغر، فيقابل بالأكبر نحو : وَلا أَدْنى مِنْ ذلِكَ وَلا أَكْثَرَ وعن الأوّل فيقابل بالآخر، نحو : خَسِرَ الدُّنْيا وَالْآخِرَةَ [ الحج 11] - دنا - ( دن و ) الدنو ( ن) کے معنی قریب ہونے کے ہیں اور یہ قرب ذاتی ، حکمی ، مکانی ، زمانی اور قرب بلحاظ مرتبہ سب کو شامل ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ وَمِنَ النَّخْلِ مِنْ طَلْعِها قِنْوانٌ دانِيَةٌ [ الأنعام 99] اور کھجور کے گابھے میں سے قریب جھکے ہوئے خوشے کو ۔ اور آیت کریمہ :۔ ثُمَّ دَنا فَتَدَلَّى[ النجم 8] پھر قریب ہوئے اور آگے بڑھے ۔ میں قرب حکمی مراد ہے ۔ اور لفظ ادنیٰ کبھی معنی اصغر ( آنا ہے۔ اس صورت میں اکبر کے بالمقابل استعمال ہوتا هے۔ جیسے فرمایا :۔ وَلا أَدْنى مِنْ ذلِكَ وَلا أَكْثَرَاور نہ اس سے کم نہ زیادہ ۔ اور کبھی ادنیٰ بمعنی ( ارذل استعمال ہوتا ہے اس وقت یہ خبر کے مقابلہ میں استعمال ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا :۔ أَتَسْتَبْدِلُونَ الَّذِي هُوَ أَدْنى بِالَّذِي هُوَ خَيْرٌ [ البقرة 61] بھلا عمدہ چیزیں چھوڑ کر ان کے عوض ناقص چیزیں کیوں چاہتے ہو۔ اور کبھی بمعنی اول ( نشاۃ اولٰی ) استعمال ہوتا ہے اور الآخر ( نشاۃ ثانیہ) کے مقابلہ میں بولا جاتا ہے جیسے فرمایا :۔ کہ اگر اس کے پاس ایک دینا بھی امانت رکھو ۔ خَسِرَ الدُّنْيا وَالْآخِرَةَ [ الحج 11] اس نے دنیا میں بھی نقصان اٹھایا اور آخرت میں بھی - آخرت - آخِر يقابل به الأوّل، وآخَر يقابل به الواحد، ويعبّر بالدار الآخرة عن النشأة الثانية، كما يعبّر بالدار الدنیا عن النشأة الأولی نحو : وَإِنَّ الدَّارَ الْآخِرَةَ لَهِيَ الْحَيَوانُ [ العنکبوت 64] ، وربما ترک ذکر الدار نحو قوله تعالی: أُولئِكَ الَّذِينَ لَيْسَ لَهُمْ فِي الْآخِرَةِ إِلَّا النَّارُ [هود 16] . وقد توصف الدار بالآخرة تارةً ، وتضاف إليها تارةً نحو قوله تعالی: وَلَلدَّارُ الْآخِرَةُ خَيْرٌ لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأنعام 32] ، وَلَدارُ الْآخِرَةِ خَيْرٌ لِلَّذِينَ اتَّقَوْا[يوسف 109] .- وتقدیر الإضافة : دار الحیاة الآخرة .- اخر ۔ اول کے مقابلہ میں استعمال ہوتا ہے اور اخر ( دوسرا ) واحد کے مقابلہ میں آتا ہے اور الدارالاخرۃ سے نشاۃ ثانیہ مراد لی جاتی ہے جس طرح کہ الدار الدنیا سے نشاۃ اولیٰ چناچہ فرمایا وَإِنَّ الدَّارَ الْآخِرَةَ لَهِيَ الْحَيَوَانُ ( سورة العنْکبوت 64) ہمیشہ کی زندگی کا مقام تو آخرت کا گھر ہے لیکن کھی الدار کا لفظ حذف کر کے صرف الاخرۃ کا صیغہ استعمال کیا جاتا ہے جیسے فرمایا : ۔ أُولَئِكَ الَّذِينَ لَيْسَ لَهُمْ فِي الْآخِرَةِ إِلَّا النَّارُ ( سورة هود 16) یہ وہ لوگ ہیں جن کے لئے آخرت میں آتش جہنم کے سوا اور کچھ نہیں ۔ اور دار کا لفظ کبھی اخرۃ کا موصوف ہوتا ہے اور کبھی اس کی طر ف مضاف ہو کر آتا ہے چناچہ فرمایا ۔ وَلَلدَّارُ الْآخِرَةُ خَيْرٌ لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ ( سورة الأَنعام 32) اور یقینا آخرت کا گھر بہتر ہے ۔ ان کے لئے جو خدا سے ڈرتے ہیں ۔ (6 ۔ 32) وَلَأَجْرُ الْآخِرَةِ أَكْبَرُ لَوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ ( سورة النحل 41) اور آخرت کا اجر بہت بڑا ہے ۔ اگر وہ اسے جانتے ہوتے ۔- نصر - النَّصْرُ والنُّصْرَةُ : العَوْنُ. قال تعالی: نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ- [ الصف 13] وَما لَهُمْ فِي الْأَرْضِ مِنْ وَلِيٍّ وَلا نَصِيرٍ- [ التوبة 74] ، وَكَفى بِاللَّهِ وَلِيًّا وَكَفى بِاللَّهِ نَصِيراً- [ النساء 45] ، ما لَكُمْ مِنْ دُونِ اللَّهِ مِنْ وَلِيٍّ وَلا نَصِيرٍ [ التوبة 116]- ( ن ص ر ) النصر والنصر - کے معنی کسی کی مدد کرنے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ [ الصف 13] خدا کی طرف سے مدد نصیب ہوگی اور فتح عنقریب ہوگی - إِذا جاءَ نَصْرُ اللَّهِ [ النصر 1] جب اللہ کی مدد آپہنچی
(٥٦) چناچہ جو لوگ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولوں بالخصوص حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے منکر تھے ان پر دنیا میں تلوار اور جزیہ مسلط کردیا (یعنی یا تو وہ مفتوح ہوگئے اور یا زیر تسلط آگئے ، ) اور آخرت میں نار جہنم کی سخت ترین سزادوں گا اور وہ دنیا وآخرت میں کوئی تدبیر کرکے بھی عذاب الہی کو ٹال نہیں سکیں گے۔