1۔ 19 حدیث میں آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ قیامت والے دن ایک جہنمی سے کہے گا کہ اگر تیرے پاس دنیا بھر کا سامان ہو تو کیا تو اس عذاب نار کے بدلے اسے دینا پسند کرے گا ؟ وہ کہے گا " ہاں " اللہ تعالیٰ فرمائے گا میں نے دنیا میں تجھ سے اس سے کہیں زیادہ آسان بات کا مطالبہ کیا تھا کہ میرے ساتھ شرک نہ کرنا مگر تو شرک سے باز نہیں آیا (مسند احمد وھکذا اخرجہ البخاری ومسلم۔ ابن کثیر) اس سے معلوم ہوا کہ کافر کے لیے جہنم کا دائمی عذاب ہے اس نے اگر دنیا میں کچھ اچھے کام بھی کیے ہوں گے تو کفر کی وجہ سے وہ بھی ضائع ہی جائیں گے جیسا کہ حدیث میں ہے کہ عبد اللہ بن جدعان کی بابت پوچھا گیا کہ وہ مہمان نواز، غریب پرور تھا اور غلاموں کو آزاد کرنے والا تھا کیا یہ اعمال سے نفع دیں گے ؟ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا " نہیں " کیونکہ اس نے ایک دن بھی اپنے رب سے اپنے گناہوں کی معافی نہیں مانگی (صحیح مسلم۔ کتاب الایمان) اسی طرح اگر کوئی شخص وہاں زمین بھر سونا بطور فدیہ دے کر یہ چاہے کہ وہ عذاب جہنم سے بچ جائے تو یہ ممکن نہیں ہوگا۔ اول تو وہاں کسی کے پاس ہوگا ہی کیا ؟ اور اگر بالفرض اس کے پاس دنیا بھر کے خزانے ہوں اور انہیں دے کر عذاب سے چھوٹ جانا چاہے تو یہ بھی نہیں ہوگا، کیونکہ اس سے وہ معاوضہ یا فدیہ قبول ہی نہیں کیا جائے گا۔ جس طرح دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا (وَّلَا يُقْبَلُ مِنْهَا عَدْلٌ وَّلَا تَنْفَعُهَا شَفَاعَةٌ) 002:123 اس سے کوئی معاوضہ قبول کیا جائے گا اور نہ کوئی سفارش اسے فائدہ دے گی۔ (لابیع فیہ ولا خلال) اس دن میں کوئی خریدو فروخت ہوگی نہ کوئی دوستی کام آئے گی۔
[٨٠] آخرت میں تو صرف وہ اعمال کام آئیں گے جو کسی نے اپنے لیے آگے بھیجے ہوں گے۔ اعمال کے سوا وہاں نہ مال و دولت کام آئے گا۔ نہ قرابتداری اور نہ سفارش۔ آیت مذکورہ میں جو صورت پیش کی گئی ہے۔ وہ بفرض تسلیم ہے۔ یعنی اگر کسی کافر کے پاس سونے کے ڈھیروں کے ڈھیر حتیٰ کہ زمین بھر سونا ہو تو اس کی آرزو یہی ہوگی کہ سب کچھ دے کر عذاب جہنم سے اپنی جان چھڑا لے۔ مگر وہاں یہ بات ناممکن ہوگی۔ چناچہ صحیح حدیث میں آیا ہے کہ :- آپ نے فرمایا کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ سب سے کم عذاب والے دوزخی سے فرمائیں گے اگر تیرے پاس دنیا ومافیہا ہو تو کیا تو اسے اپنے فدیہ میں دے دے گا ؟ وہ کہے گا ہاں اللہ تعالیٰ فرمائے گا۔ جب تو انسانی شکل میں تھا تو میں نے تجھ سے اس سے آسان تر بات طلب کی تھی۔ (کہ توحید پر قائم رہنا) اور کہا تھا کہ پھر میں تجھے جہنم میں داخل نہ کروں گا، مگر تو شرک پر اڑا رہا (مسلم، کتاب صفۃ القیامۃ باب طلب الکافر الفداء مل الارض ذھبا)
اس سے مراد وہ لوگ ہیں جو کفر کی روش اختیار کرتے ہیں اور کفر ہی کی حالت میں فوت ہوجاتے ہیں۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” اللہ تعالیٰ قیامت کے دن سب سے ہلکے عذاب والے جہنمی سے پوچھے گا : ” اگر دنیا میں جو بھی چیز ہے تمہاری ہوجائے تو کیا تم اسے (اپنی جان بچانے کے لیے) فدیہ میں دے دو گے ؟ “ وہ کہے گا : ” ہاں “ اللہ تعالیٰ فرمائے گا : ” میں نے تم سے اس وقت جب تم آدم کی پشت میں تھے، اس سے بہت زیادہ آسان بات کا تقاضا کیا تھا کہ شرک نہ کرنا تو میں تمہیں دوزخ میں داخل نہیں کروں گا، لیکن تم نہ مانے اور شرک کرتے رہے۔ “ [ مسلم، صفات المنافقین، باب طلب الکافر الفداء ۔۔ : ٢٨٠٥، عن أنس (رض) ]
اِنَّ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا وَمَاتُوْا وَھُمْ كُفَّارٌ فَلَنْ يُّقْبَلَ مِنْ اَحَدِھِمْ مِّلْءُ الْاَرْضِ ذَھَبًا وَّلَوِ افْتَدٰى بِہٖ ٠ ۭ اُولٰۗىِٕكَ لَھُمْ عَذَابٌ اَلِيْمٌ وَّمَا لَھُمْ مِّنْ نّٰصِرِيْنَ ٩١ ۧ- موت - أنواع الموت بحسب أنواع الحیاة :- فالأوّل : ما هو بإزاء القوَّة النامية الموجودة في الإنسان والحیوانات والنّبات - . نحو قوله تعالی:- يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الروم 19] ، وَأَحْيَيْنا بِهِ بَلْدَةً مَيْتاً [ ق 11] .- الثاني : زوال القوّة الحاسَّة . قال : يا لَيْتَنِي مِتُّ قَبْلَ هذا - [ مریم 23] ، أَإِذا ما مِتُّ لَسَوْفَ أُخْرَجُ حَيًّا [ مریم 66] .- الثالث : زوال القوَّة العاقلة، وهي الجهالة .- نحو : أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام 122] ، وإيّاه قصد بقوله : إِنَّكَ لا تُسْمِعُ الْمَوْتى[ النمل 80] .- الرابع : الحزن المکدِّر للحیاة،- وإيّاه قصد بقوله : وَيَأْتِيهِ الْمَوْتُ مِنْ كُلِّ مَكانٍ وَما هُوَ- بِمَيِّتٍ [إبراهيم 17] .- الخامس : المنامُ ،- فقیل : النّوم مَوْتٌ خفیف، والموت نوم ثقیل، وعلی هذا النحو سمّاهما اللہ تعالیٰ توفِّيا . فقال : وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ بِاللَّيْلِ [ الأنعام 60] - ( م و ت ) الموت - یہ حیات کی ضد ہے - لہذا حیات کی طرح موت کی بھی کئی قسمیں ہیں - ۔ اول قوت نامیہ - ( جو کہ انسان حیوانات اور نباتات ( سب میں پائی جاتی ہے ) کے زوال کو موت کہتے ہیں جیسے فرمایا : ۔ يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الروم 19] زمین کو اس کے مرنے کے بعد زندہ کرتا ہے ۔ وَأَحْيَيْنا بِهِ بَلْدَةً مَيْتاً [ ق 11] اور اس پانی سے ہم نے شہر مردہ یعنی زمین افتادہ کو زندہ کیا ۔- دوم حس و شعور کے زائل ہوجانے کو موت کہتے ہیں - ۔ چناچہ فرمایا ۔ يا لَيْتَنِي مِتُّ قَبْلَ هذا[ مریم 23] کاش میں اس سے پہلے مر چکتی ۔ أَإِذا ما مِتُّ لَسَوْفَ أُخْرَجُ حَيًّا [ مریم 66] کہ جب میں مرجاؤں گا تو کیا زندہ کر کے نکالا جاؤں گا ۔ - سوم ۔ قوت عاقلہ کا زائل ہوجانا اور اسی کا نام جہالت ہے - چناچہ فرمایا : ۔ أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام 122] بھلا جو پہلے مردہ تھا پھر ہم نے اس کو زندہ کیا ۔ اور آیت کریمہ : ۔ إِنَّكَ لا تُسْمِعُ الْمَوْتى[ النمل 80] کچھ شک نہیں کہ تم مردوں کو بات نہیں سنا سکتے ۔- چہارم ۔ غم جو زندگی کے چشمہ صافی کو مکدر کردیتا ہے - چنانچہ آیت کریمہ : ۔ وَيَأْتِيهِ الْمَوْتُ مِنْ كُلِّ مَكانٍ وَما هُوَبِمَيِّتٍ [إبراهيم 17] اور ہر طرف سے اسے موت آرہی ہوگی ۔ مگر وہ مرنے میں نہیں آئے گا ۔ میں موت سے یہی مینب مراد ہیں ۔- پنجم ۔ موت بمعنی نیند ہوتا ہے - اسی لئے کسی نے کہا ہے کہ النوم موت خفیف والموت نوم ثقیل کہ نیند کا نام ہے اسی بنا پر اللہ تعالیٰ نے ان دونوں کو توفی سے تعبیر فرمایا ۔ چناچہ ارشاد ہے : ۔ وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ بِاللَّيْلِ [ الأنعام 60] اور وہی تو ہے جو ارت کو تمہاری روحیں قبض کرلیتا ہے - مِلْء) بهرنا)- مقدار ما يأخذه الإناء الممتلئ، يقال : أعطني ملأه ومِلْأَيْهِ وثلاثة أَمْلَائِهِ.- الملأ کسی چیز کی اتنی مقدار جس سے کوئی بر تن بھر جائے محاورہ ہے : ۔ اعطنی ملاءہ وملاء بہ وثلاثۃ املائہ - ذهب ( سونا)- الذَّهَبُ معروف، وربما قيل ذَهَبَةٌ ، ورجل ذَهِبٌ: رأى معدن الذّهب فدهش، وشیء مُذَهَّبٌ: جعل عليه الذّهب، وكميت مُذْهَبٌ: علت حمرته صفرة، كأنّ عليها ذهبا،- ( ذ ھ ب ) الذھب ۔ سونا ۔ اسے ذھبتہ بھی کہا جاتا ہے ۔ رجل ذھب ، جو کان کے اندر زیادہ سانا دیکھ کر ششدرہ جائے ۔ شیئ مذھب ( او مذھب ) زرا ندددہ طلاء کی ہوئی چیز ۔ کمیت مذھب ( اومذھب ) کمیت گھوڑا جس کی سرخی پر زردی غالب ہو ۔ گویا وہ سنہری رنگ کا ہے ۔- فدی - الفِدَى والفِدَاءُ : حفظ الإنسان عن النّائبة بما يبذله عنه، قال تعالی: فَإِمَّا مَنًّا بَعْدُ وَإِمَّا فِداءً [ محمد 4] ، يقال : فَدَيْتُهُ بمال، وفدیته بنفسي، وفَادَيْتُهُ بکذا، قال تعالی: إِنْ يَأْتُوكُمْ أُساری تُفادُوهُمْ [ البقرة 85] ، وتَفَادَى فلان من فلان، أي : تحامی من شيء بذله . وقال :- وَفَدَيْناهُ بِذِبْحٍ عَظِيمٍ [ الصافات 107] ، وافْتَدى: إذا بذل ذلک عن نفسه، قال تعالی: فِيمَا افْتَدَتْ بِهِ [ البقرة 229] ، وَإِنْ يَأْتُوكُمْ أُساری تُفادُوهُمْ [ البقرة 85] ، والمُفَادَاةُ : هو أن يردّ أسر العدی ويسترجع منهم من في أيديهم، قال : وَمِثْلَهُ مَعَهُ لَافْتَدَوْا بِهِ [ الرعد 18] ، لَافْتَدَتْ بِهِ [يونس 54] ، ولِيَفْتَدُوا بِهِ [ المائدة 36] ، وَلَوِ افْتَدى بِهِ [ آل عمران 91] ، لَوْ يَفْتَدِي مِنْ عَذابِ يَوْمِئِذٍ بِبَنِيهِ [ المعارج 11] ، وما يقي به الإنسان نفسه من مال يبذله في عبادة قصّر فيها يقال له : فِدْيَةٌ ، ككفّارة الیمین، وكفّارة الصّوم . نحو قوله : فَفِدْيَةٌ مِنْ صِيامٍ أَوْ صَدَقَةٍ [ البقرة 196] ، فِدْيَةٌ طَعامُ مِسْكِينٍ [ البقرة 184]- ( ف د ی ) الفدٰی والفداء - کے معنی کسی کی جانب سے کچھ دیگر اسے مصیبت سے بچالینا کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ فَإِمَّا مَنًّا بَعْدُ وَإِمَّا فِداءً [ محمد 4] پھر اس کے بعد یا تو احسان رکھ کر چھوڑ دینا چاہئے ۔ یا کچھ مال لے لر ۔ چناچہ محاورہ فدیتہ بمال میں نے کچھ خرچ کر کے اسے مسیبت سے بچالیا فدیتہ منفسی میں نے اپنی جان کے عوض اسے چھڑالیا فاواہُ بکذا ۔ اس نے کچھ دے کت اسے چھڑا لیا قرآن میں ہے ۔ إِنْ يَأْتُوكُمْ أُساری تُفادُوهُمْ [ البقرة 85] اور اگر وہ تمہارے پاس قید ہوکر آئیں تو بدلہ دے کر انہیں چھڑا بھی لیتے ہو ۔ تفادیٰ فلان من فلان کسی کا فدیہ دے کر اس کو چھڑالینا ۔ وَفَدَيْناهُ بِذِبْحٍ عَظِيمٍ [ الصافات 107] اور ہم نے ایک بڑی قربانی کو ان کا فدیہ دیا ۔ افتدیٰ کے معنی خواہ اپنے کو مال کے عوض چھڑانے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے ۔ فِيمَا افْتَدَتْ بِهِ [ البقرة 229] رہائی پانے کے بدلے میں وَمِثْلَهُ مَعَهُ لَافْتَدَوْا بِهِ [ الرعد 18]( تو وہ سب کے سب ) اور ان کے ساتھ ہی اتنے اور ( نجات کے ) بدلے میں صرف کر ڈالیں ۔ لَافْتَدَتْ بِهِ [يونس 54] تو ( عذاب سے بچنے کے لئے ( سب ) دے ڈالے ۔ ولِيَفْتَدُوا بِهِ [ المائدة 36] تاکہ بدلہ دیں۔ وَلَوِ افْتَدى بِهِ [ آل عمران 91] اگر بدلے میں دیں لَوْ يَفْتَدِي مِنْ عَذابِ يَوْمِئِذٍ بِبَنِيهِ [ المعارج 11] کہ کسی طرح اس دن کے عذاب کے بدلے میں ( سب کچھادے ڈالے یعنی بیٹے اور جو مال کسی عبادت میں کوتاہی کرنے کی وجہ سے - خرچ کر کے انسان خود اپنے کو گناہ سے بچاتا ہے اسے بھی فدیتہ کہا جاتا ہے جیسا کہ کفار یمین اور صوم کے متعلق فرمایا ۔ فَفِدْيَةٌ مِنْ صِيامٍ أَوْ صَدَقَةٍ [ البقرة 196] تو اس کے بدلے روزے رکھے یا صدقے دے یا قربانی کرے ۔ فِدْيَةٌ طَعامُ مِسْكِينٍ [ البقرة 184] روزے کے بدلے محتاج کو کھانا کھلادیں ۔- ألم - الأَلَمُ الوجع الشدید، يقال : أَلَمَ يَأْلَمُ أَلَماً فهو آلِمٌ. قال تعالی: فَإِنَّهُمْ يَأْلَمُونَ كَما تَأْلَمُونَ [ النساء 104] ، وقد آلمت فلانا، و عذاب أليم، أي : مؤلم . وقوله : لَمْ يَأْتِكُمْ [ الأنعام 130] فهو ألف الاستفهام، وقد دخل علی «لم» .- ( ا ل م ) الالم - کے معنی سخت درد کے ہیں کہا جاتا ہے الم یالم ( س) أَلَمَ يَأْلَمُ أَلَماً فهو آلِمٌ. قرآن میں ہے :۔ فَإِنَّهُمْ يَأْلَمُونَ كَمَا تَأْلَمُونَ ( سورة النساء 104) تو جس طرح تم شدید درد پاتے ہو اسی طرح وہ بھی شدید درد پاتے ہیں ۔ اٰلمت فلانا میں نے فلاں کو سخت تکلیف پہنچائی ۔ اور آیت کریمہ :۔ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ ( سورة البقرة 10 - 174) میں الیم بمعنی مؤلم ہے یعنی دردناک ۔ دکھ دینے والا ۔ اور آیت :۔ اَلَم یَاتِکُم (64 ۔ 5) کیا تم کو ۔۔ نہیں پہنچی ۔ میں الف استفہام کا ہے جو لم پر داخل ہوا ہے ( یعنی اس مادہ سے نہیں ہے )- نصر - النَّصْرُ والنُّصْرَةُ : العَوْنُ. قال تعالی: نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ- [ الصف 13] وَما لَهُمْ فِي الْأَرْضِ مِنْ وَلِيٍّ وَلا نَصِيرٍ- [ التوبة 74] ، وَكَفى بِاللَّهِ وَلِيًّا وَكَفى بِاللَّهِ نَصِيراً- [ النساء 45] ، ما لَكُمْ مِنْ دُونِ اللَّهِ مِنْ وَلِيٍّ وَلا نَصِيرٍ [ التوبة 116]- ( ن ص ر ) النصر والنصر - کے معنی کسی کی مدد کرنے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ [ الصف 13] خدا کی طرف سے مدد نصیب ہوگی اور فتح عنقریب ہوگی ۔ إِذا جاءَ نَصْرُ اللَّهِ [ النصر 1] جب اللہ کی مدد آپہنچی - الحمد لله پاره مکمل ہوا
(٩١) اور جو اسی حالت کفر میں مرگئے تو اگر وہ اپنی جان بچانے کے لیے جتنے وزن کا سونا بھی لے آئیں تو وہ بھی قبول نہیں کیا جائے گا اور ان کے لیے ایسا درد ناک عذاب ہوگا کہ اس کی شدت ان کے دلوں تک سرایت کرجائے گی اور کوئی بھی ان سے اس عذاب خداوندی کو ٹالنے والا نہ ہوگا (آیت) ” ومن یبتغ غیر الاسلام “۔ سے لے کر یہاں تک یہ آیات منافقین میں سے دن آدمیوں کے بارے میں نازل ہوئی ہیں جو دین اسلام سے مرتد ہو کر مدینہ منورہ سے مکہ مکرمہ چلے آئے تھے، چانچہ ان میں بعض مرتد ہونے کی حالت میں مرگئے تھے اور بعض اسی حالت میں مارے گئے تھے اور بعض نے ان میں سے پھر اسلام کو قبول کرلیا تھا۔
آیت ٩١ (اِنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا وَمَاتُوْا وَہُمْ کُفَّارٌ) (فَلَنْ یُّقْبَلَ مِنْ اَحَدِہِمْ مِّلْءُ الْاَرْضِ ذَہَبًا وَّلَوِ افْتَدٰی بِہٖ ط) - ظاہر ہے کہ یہ محال ہے ‘ ناممکن ہے ‘ لیکن یہ بات سمجھانے کے لیے کہ وہاں پر کوئی فدیہ نہیں ہے فرمایا کہ اگر کوئی زمین کے حجم کے برابر سونا دے کر بھی چھوٹنا چاہے گا تو نہیں چھوٹ سکے گا۔ یہ وہی بات ہے جو سورة البقرۃ کی آیت ٤٨ اور آیت ١٢٣ میں فرمائی گئی کہ اس دن کسی سے کوئی فدیہ نہیں لیا جائے گا۔