سب سے زیادہ پیاری چیز اور صدقہ حضرت عمرو بن میمون فرماتے ہیں بر سے مراد جنت ہے ، یعنی اگر تم اپنی پسند کی چیزیں اللہ تعالیٰ کی راہ میں صدقہ کرتے رہو گے تو تمہیں جنت ملے گی ، مسند احمد میں ہے کہ حضرت ابو طلحہ مالدار صحابی تھے مسجد کے سامنے ہی بیئرحا نامی آپ کا ایک باغ تھا جس میں کبھی کبھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بھی تشریف لے جایا کرتے تھے اور یہاں کا خوش ذائقہ پانی پیا کرتے تھے جب یہ آیت اتری تو حضرت ابو طلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بارگاہ نبوی میں حاضر ہو کر عرض کرنے لگے کہ یا رسول اللہ میرا تو سب سے زیادہ پیارا مال یہی باغ ہے میں آپ کو گواہ کرتا ہوں کہ میں نے اسے اللہ کی راہ میں صدقہ کیا اللہ تعالیٰ مجھے بھلائی عطا فرمائے اور اپنے پاس اسے میرے لئے ذخیرہ کرے آپ کو اختیار ہے جس طرح چاہیں اسے تقسیم کر دیں آپ بہت ہی خوش ہوئے اور فرمانے لگے مسلمانوں کو اس سے بہت فائدہ پہنچے گا تم اسے اپنے قرابت داروں میں تقسیم کر دو چنانچہ حضرت ابو طلحہ نے اسے اپنے رشتہ داروں اور چچا زاد بھائیوں میں بانٹ دیا ، بخاری و مسلم میں ہے کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی خدمت رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں حاضر ہوئے اور کہا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم مجھے اپنے تمام مال میں سب سے زیاد مرغوب مال خیبر کی زمین کا حصہ ہے میں اسے راہ اللہ دینا چاہتا ہوں فرمائیے کیا کروں؟ آپ نے فرمایا اسے وقف کر دو اصل روک لو اور پھل وغیرہ راہ اللہ کر دو ۔ مسند بزاز میں ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں میں نے اس آیت کی تلاوت کر کے سوچا تو مجھے کوئی چیز ایک کنیز سے زیادہ پیاری نہ تھی ۔ میں نے اس لونڈی کو راہ للہ آزاد کر دیا ، اب تک بھی میرے دل میں اس کی ایسی محبت ہے کہ اگر کسی چیز کو اللہ تعالیٰ کے نام پر دے کر پھر لوٹا لینا جائز ہو تو میں کم از کم اس سے نکاح کر لیتا ۔
92۔ 1 بر (نیکی بھلائی) سے مراد عمل صالح یا جنت ہے (فتح القدیر) حدیث میں آتا ہے جب یہ آیت نازل ہوئی حضرت ابو طلحہ انصاری (رض) جو مدینہ کے اصحاب حیثیت میں سے تھے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بیرحا کا باغ مجھے سب سے زیادہ محبوب ہے، میں اسے اللہ کی رضا کے لئے صدقہ کرتا ہوں، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا وہ تو بہت نفع بخش مال ہے، میری رائے یہ ہے کہ تم اسے اپنے رشتہ داروں میں تقسیم کردو چناچہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مشورے سے انہوں نے اسے اپنے اقارب اور عم زادوں میں تقسیم کردیا، اچھی چیز صدقہ کی جائے، یہ افضل اور اکمل درجہ حاصل کرنے کا طریقہ ہے۔ جس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ کمتر چیز یا اپنی ضرورت سے زائد فالتو چیز یا استعمال شدہ پرانی چیز کا صدقہ نہیں کیا جاسکتا یا اس کا اجر نہیں ملے گا۔ اس قسم کی چیزوں کا صدقہ کرنا بھی یقینا جائز اور باعث اجر ہے گو کمال و افضلیت محبوب چیز کے خرچ کرنے میں ہے۔ 92۔ 2 تم جو کچھ بھی خرچ کرو گے اچھی یا بری چیز، اللہ اسے جانتا ہے، اس کے مطابق جزا سے نوازے گا۔
[٨١] اگرچہ سابقہ مضمون یہود سے سے متعلق چل رہا ہے۔ تاہم اس آیت کا خطاب یہود، نصاریٰ ، مسلمانوں اور سب بنی نوع انسان سے ہے اور مال سے محبت انسان کی فطرت میں داخل ہے۔ اللہ کی راہ میں خرچ کرنے سے اس کے دل میں گھٹن سی پیدا ہونے لگتی ہے اور اگر کسی کے کہنے کہلانے پر مال خرچ کرنا ہی پڑے تو اس کا جی یہ چاہتا ہے کہ تھوڑا سا مال یا کوئی حقیر قسم کا مال دے کر چھوٹ جائے، جب کہ اللہ تعالیٰ یہ فرما رہے ہیں کہ جب تم اللہ کی راہ میں ایسا مال خرچ نہ کرو گے جو تمہیں محبوب اور پسندیدہ ہے۔ اس وقت تک تم نیکی کی وسعتوں کو پا نہیں سکتے۔ اس آیت کا صحابہ کرام (رض) نے بہت اچھا اثر قبول کیا۔ چناچہ حضرت انس بن مالک (رض) فرماتے ہیں کہ :- انصار میں حضرت ابو طلحہ (رض) کے سب سے زیادہ باغ تھے۔ ان میں سے بیرحاء کا باغ آپ کو سب سے زیادہ محبوب تھا۔ یہ مسجد نبوی کے سامنے تھا۔ آپ اس باغ میں جایا کرتے تھے اور وہاں عمدہ اور شیریں پانی پیتے۔ جب یہ آیت نازل ہوئی تو ابو طلحہ (رض) نے رسول اکرم سے عرض کیا : میری کل جائداد سے بیرحاء کا باغ مجھے بہت پیارا ہے۔ میں اس باغ کو اللہ کی راہ میں صدقہ کرتا ہوں اور اس سے ثواب اور اللہ کے ہاں ذخیرہ کی امید رکھتا ہوں آپ جہاں مناسب سمجھیں اسے استعمال کریں آپ نے فرمایا : بہت خوب یہ مال تو بالآخر فنا ہونے والا ہے۔ ایک دوسری روایت میں ہے کہ مال تو بہت نفع دینے والا ہے) اب تم ایسا کرو کہ اپنے غریب رشتہ داروں میں بانٹ دو ۔ ابو طلحہ (رض) کہنے لگے بہت خوب یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں ایسے ہی کرتا ہوں۔ چناچہ یہ باغ حضرت ابو طلحہ (رض) نے اپنے اقارب اور چچا زاد بھائیوں میں بانٹ دیا۔ (بخاری، کتاب التفسیر) نیز کتاب الزکوٰۃ، باب الزکوٰۃ علی الاقارب)- اور بالخصوص اس آیت کے مخاطب یہود ہیں۔ کیونکہ اس آیت سے پہلے اور بعد والی آیات میں انہیں سے خطاب کیا جارہا ہے۔ سود خوری اور حرام خوری کی وجہ سے بخل ان کی طبیعتوں میں رچ بس گیا تھا۔ مذہبی تقدس اور پہچان کے لیے انہوں نے چند ظاہری علامت کو ہی معیار بنا رکھا تھا اسی تقدس کے پردہ میں ان کی تمام تر قباحتیں چھپ جاتی تھیں۔ جن میں سے ایک قباحت بخل اور مال سے شدید محبت تھی۔
لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ ۔۔ : ” الْبِرَّ “ ” کامل نیکی “ ، ” مِمَّا تُحِبُّوْنَ “ (اس میں سے کچھ خرچ کرو جس سے تم محبت رکھتے ہو) عام ہے، یعنی جان و مال، اولاد و اقارب، جاہ و عزت، غرض ہر چیز کو شامل ہے۔ یہ خطاب مسلمانوں کو بھی ہے اور یہود کو بھی۔ مسلمانوں سے خطاب کی مناسبت یہ معلوم ہوتی ہے کہ پچھلی آیت میں بیان فرمایا ہے کہ کافر کو خرچ کرنے سے کچھ بھی نفع نہیں ہوگا۔ اب اس آیت میں مومنوں کو خرچ کرنے کی کیفیت بتلائی، جس سے آخرت میں انھیں نفع ہوگا۔ - 2 ڛ وَمَا تُنْفِقُوْا مِنْ شَيْءٍ ۔۔ : مقصد یہ کہ انسان جو کچھ بھی فی سبیل اللہ خرچ کرتا ہے، تھوڑا ہو یا زیادہ، وہ اللہ تعالیٰ کے علم میں ہے اور انسان کو (بشرطیکہ مسلمان ہو اور اخلاص سے خرچ کرے) اس کا بدلہ ضرور ملے گا۔ اس لیے معمولی چیز خرچ کرنے کو بھی عار نہ سمجھے۔ مگر نیکی میں کامل درجہ حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ عزیز ترین چیز صرف کی جائے۔ یہ آیت سن کر اس پر صحابہ کرام (رض) کے اس پر عمل کی ایک دو مثالیں ملاحظہ فرمائیں۔ انس (رض) بیان کرتے ہیں کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو ابو طلحہ انصاری (رض) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی : ” یا رسول اللہ میری جائداد میں سے مجھے سب سے محبوب ” بَیْرُحَاء “ باغ ہے (جو عین مسجد نبوی کے سامنے تھا، نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس میں تشریف لے جایا کرتے اور اس کا نفیس پانی پیا کرتے تھے) اور اے اللہ کے رسول اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : (لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتّٰى تُنْفِقُوْا مِمَّا تُحِبُّوْنَ ) سو میں اسے اللہ کی راہ میں صدقہ کرتا ہوں اور اس کے اجر و ثواب کی امید رکھتا ہوں، آپ اس کے بارے میں جو چاہیں فیصلہ فرما دیں۔ “ [ بخاری، الزکوٰۃ، باب الزکوٰۃ علی الأقارب ۔۔ : ١٤٦١، مختصرًا ]- عمر بن خطاب (رض) نے عرض کیا : ” اے اللہ کے رسول مجھے خیبر میں سے جو حصہ ملا ہے اس سے بڑھ کر نفیس مال مجھے آج تک حاصل نہیں ہوا، میں نے ارادہ کیا ہے کہ اسے صدقہ کر دوں۔ “ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” اصل اپنے پاس رکھو اور اس کے پھل کو اللہ کے راستے میں تقسیم کر دو ۔ “ چناچہ عمر (رض) نے اسے وقف کردیا۔ [ ابن ماجہ، الصدقات، باب من وقف : ٢٣٩٦، ٢٣٩٧ ]- 3 یہود سے خطاب کی صورت میں شاہ عبد القادر (رض) لکھتے ہیں : ” شاید یہود کے ذکر میں یہ آیت اس واسطے ذکر فرمائی کہ ان کو اپنی ریاست بہت عزیز تھی، جس کے تھامنے کو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے تابع نہ ہوتے تھے، تو جب وہی نہ چھوڑیں تو اللہ کی راہ میں درجۂ ایمان نہ پائیں۔ “ (موضح) - 4 مِمَّا تُحِبُّوْنَ : اللہ کا کرم دیکھیے، بندوں سے ان کی محبوب چیزیں ساری نہیں مانگیں، بلکہ اس میں سے کچھ خرچ کرنے ہی کو کامل نیکی قرار دے دیا ہے۔
ربط آیات مع تشریح :- اس سے پہلی آیت میں کفار و منکرین کے صدقات و خیرات کا اللہ تعالیٰ کے نزدیک غیر مقبول ہونا بیان کیا گیا تھا، اس آیت میں مومنین کو صدقہ مقبولہ اور اس کے آداب بتلائے گئے ہیں، اس آیت کے الفاظ میں سب سے پہلے لفظ بر کے معنی اور اس کی حقیقت کو سمجھئے، تاکہ آیت کا پورا مفہوم صحیح طور پر ذہن نشین ہوسکے۔- لفظ بر کے لفظی اور حقیقی معنی ہیں کسی شخص کے حق کی پوری ادائیگی اور اس سے کامل سبکدوشی اور احسان اور حسن سلوک کے معنی میں بھی آتا ہے، بر بالفتح اور بار اس شخص کے لئے استعمال ہوتا ہے جو اپنے ذمہ عائد ہونے والے حقوق کو پوری طرح ادا کردے۔ قرآن کریم میں برا بوالدتی۔ ١٩: ٣٢) اور برا بوالدیہ۔ ١٩: ١٤) اسی معنی میں استعمال ہوا ہے، ان حضرات کے لئے یہ لفظ استعمال کیا گیا ہے جو اپنے والدین کے حقوق کو مکمل طور پر ادا کرنے والے تھے۔- اسی لفظ بر بالفتح کی جمع ابرار ہے، جو قرآن کریم میں بکثرت استعمال ہوئی ہے، ارشاد ہے ( ان الابرار یشربون من کاس کان مزاجھا کافورا۔ ٧٦: ٥) اور دوسری جگہ ارشاد ہے (ان الابرار لفی نعیم علی الارائک ینظرون۔ ٨٣: ٢٢، ٢٣) اور ایک جگہ ارشاد ہے (ان الابرار لفی نعیم وان الفجار لفی جحیم۔ ٨٢: ١٣، ١٤) اس آخری آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ " بر " کا مقابل اور ضد " فجور " ہے۔- امام بخاری (رح) کے ادب المفرد میں اور ابن ماجہ اور مسند احمد میں حضرت صدیق اکبر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ سچ بولنے کو لازم پکڑو، کیونکہ " صدق "، " بر " کا ساتھی ہے، اور وہ دونوں جنت میں ہیں، اور جھوٹ سے بچو، کیونکہ وہ فجور کا ساتھی ہے، اور یہ دونوں دوزخ میں ہیں۔- اور سورة بقرہ کی آیت میں مذکور ہے کہ (لیس البر ان تولوا وجوھکم قبل المشرق والمغرب ولکن البر من امن باللہ والیوم الاخر۔ ٢: ١٧٧) اس آیت میں نیک اعمال کی ایک فہرست دے کر ان سب کو " بر " فرمایا گیا ہے، مذکورہ آیت سے معلوم ہوا کہ اعمال بر میں افضل ترین بر یہ ہے کہ اپنی محبوب چیز اللہ کی راہ میں خرچ کی جائے، آیت مذکورہ میں ارشاد ہے کہ تم ہرگز " بر " کو حاصل نہیں کرسکتے جب تک اپنی پیاری چیزوں میں سے کچھ خرچ نہ کرو، تو معنی یہ ہوئے کہ اللہ تعالیٰ کے حق کی مکمل ادائیگی اور اس سے پوری سبکدوشی اس وقت تک نہیں ہوسکتی جب تک اپنی محبوب اور پیاری چیزوں سے اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ نہ کریں، اسی مکمل ادائیگی کو خیرکامل یا نیکی میں کمال ثواب عظیم سے ترجمہ کیا گیا ہے، اور مراد یہ ہے کہ ابرار کی صفت میں داخل ہونا اس پر موقوف ہے کہ اپنی محبوب چیزیں اللہ کی راہ میں قربان کی جائیں۔- خلاصہ تفسیر :- (اے مسلمانو) تم خیر کامل (یعنی اعظم ثواب) کو کبھی حاصل نہ کرسکو گے یہاں تک کہ اپنی (بہت) پیاری چیز کو (اللہ کی راہ میں) خرچ نہ کرو گے اور (یوں) جو کچھ بھی خرچ کرو گے (گو غیر محبوب چیز ہو) اللہ تعالیٰ اس کو خوب جانتے ہیں (مطلق ثواب اس پر بھی دیدیں گے، لیکن کمال ثواب حاصل کرنے کا وہی طریقہ ہے)- معارف و مسائل : - آیت مذکورہ اور صحابہ کرام (رض) کا جذبہ عمل :- صحابہ کرام (رض) جو قرآنی احکام کے اولین مخاطب اور رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بلا واسطہ شاگرد اور احکام قرآنی کی تعمیل کے عاشق تھے، اس آیت کے نازل ہونے پر ایک ایک نے اپنی محبوب چیزوں پر نظر ڈالی، اور ان کو اللہ کی راہ میں خڑچ کرنے کے لئے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے درخواستیں ہونے لگیں، انصار مدینہ میں سب سے زیادہ مالدار حضرت ابو طلحہ (رض) تھے، مسجد نبوی کے بالکل مقابل اور متصل ان کا باغ تھا، جس میں ایک کنواں بیر حاء کے نام سے موسوم تھا، اب اس باغ کی جگہ تو باب مجیدی کے سامنے اصطفا منزل کے نام سے ایک عمارت بنی ہوئی ہے جس میں زائرین مدینہ قیام کرتے ہیں، مگر اس کے شمال مشرق کے گوشے میں یہ بیر حاء اسی نام سے اب تک موجود ہے۔ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کبھی کبھی اس باغ میں تشریف لے جاتے اور بیرحاء کا پانی پیتے تھے، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس کنویں کا پانی پسند تھا، حضرت طلحہ (رض) کا یہ باغ بڑا قیمتی اور زرخیز اور ان کو اپنی جائیداد میں سب سے زیادہ محبوب تھا، اس آیت کے نازل ہونے پر وہ حضرت رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ میرے تمام اموال میں بیر حاء مجھے سب سے زیادہ محبوب ہے، میں اس کو اللہ کی راہ میں خرچ کرنا چاہتا ہوں، آپ جس کام میں پسند فرمائیں اس کو صرف فرماویں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ وہ تو عظیم الشان منافع کا باغ ہے، میں مناسب یہ سمجھتا ہوں کہ اس کو آپ اپنے اقرباء میں تقسیم کردیں، حضرت ابو طلحہ (رض) نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اس مشورہ کو قبول فرماکر اپنے اقرباء اور چچازاد بھائیوں میں تقسیم فرمادیا۔ (یہ حدیث بخاری و مسلم کی ہے) اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ خیرات صرف وہ نہیں جو عام فقراء اور مساکین پر صرف کی جائے، اپنے اہل و عیال اور عزیز و رشتہ داروں کو دینا بھی بڑی خیرات اور موجب ثواب ہے۔- حضرت زید بن حارثہ (رض) اپنا ایک گھوڑا لئے ہوئے حاضر خدمت ہوئے، اور عرض کیا کہ مجھے اپنی املاک میں یہ سب سے زیادہ محبوب ہے میں اس کو اللہ کی راہ میں خرچ کرنا چاہتا ہوں، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کو قبول فرمالیا، لیکن ان سے لے کر انہی کے صاحبزادے اسامہ (رض) کو دیدیا، زید بن حارثہ (رض) اس پر کچھ دلگیر ہوئے کہ میرا صدقہ میرے ہی گھر میں واپس آگیا، لیکن آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کی تسلی کے لئے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارا یہ صدقہ قبول کرلیا ہے۔ (تفسیر مظہری، بحوالہ ابن جریر و طبری وغیرہ)- حضرت فاروق اعظم (رض) کے پاس ایک کنیز سب سے زیادہ محبوب تھی، آپ نے اس کو لوجہ اللہ آزاد کردیا۔ الغرض آیت متذکرہ کا حاصل یہ ہے کہ حق اللہ کی مکمل ادائیگی اور خیر کامل اور نیکی کا کمال جب ہی حاصل ہوسکتا ہے جب کہ آدمی اپنی محبوب چیزوں میں سے کچھ اللہ کی راہ میں خرچ کرے، آیت مذکورہ میں چند مسائل قابل نظر اور یاد رکھنے کے قابل ہیں۔ اس آیت میں لفظ بر تمام صدقات واجبہ اور نفلیہ کو شامل ہے : اول یہ کہ اس آیت میں اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کی ترغیب ہے اس سے مراد بعض حضرات مفسرین کے نزدیک صدقات واجبہ زکوٰۃ وغیرہ ہیں، اور بعض کے نزدیک صدقات نافلہ ہیں، لیکن جمہور محققین نے اس کے مفہوم کو صدقات واجبہ اور نفلیہ دونوں میں عام قرار دیا ہے، اور صحابہ کرام (رض) کے واقعات متذکرہ بالا اس پر شاہد ہیں کہ ان کے یہ صدقات، صدقات نفلیہ تھے۔ اس لئے مفہوم آیت کا یہ ہوگیا کہ اللہ کی راہ میں جو صدقہ بھی ادا کرو خواہ زکوٰۃ فرض ہو یا کوئی نفلی صدقہ و خیرات ان سب میں مکمل فضیلت اور ثواب جب ہے کہ اپنی محبوب اور پیاری چیز کو اللہ کی راہ میں خرچ کرو، یہ نہیں کہ صدقہ کو تاوان کی طرح سر سے ٹالنے کے لئے فالتو، بیکار، یا خراب چیزوں کا انتخاب کرو۔ قرآن کریم کی دوسری ایک آیت میں اس مضمون کو اور زیادہ واضح اس طرح بیان فرمایا گیا ہے : - ( یایھا الذین امنوا انفقوا من طیبت ما کسبتم ومما اخرجنا لکم من الارض و لا تیمموا الخبیث منہ تنفقون ولستم باخذیہ الا ان تغمضوا فیہ۔ ٢: ٢٦٨) " یعنی اے ایمان والو اپنی کمائی میں سے اور جو کچھ ہم نے تمہارے لئے زمین سے نکالا ہے اس میں سے عمدہ چیزوں کو چھانٹ کر اس میں سے خرچ کرو اور ردی چیز کی طرف نیت مت لے جایا کرو کہ اس میں سے خرچ کردو حالانکہ دو چیزیں اگر تمہارے حق کے بدلے میں تمہیں دی جائیں تو تم ہرگز قبول نہ کرو گے، بجز اس کے کہ کسی وجہ سے چشم پوشی کر جاؤ "۔- اس کا حاصل یہ ہوا کہ خراب اور بےکار چیزوں کا انتخاب کر کے صدقہ کرنا مقبول نہیں، بلکہ صدقہ مقبولہ جس پر مکمل ثواب ملتا ہے وہی ہے جو محبوب اور پیاری چیزوں میں سے خرچ کیا جائے۔- صدقہ کرنے میں اعتدال چاہئے :- دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ آیت میں لفظ مما سے اشارہ کردیا گیا ہے کہ یہ مقصود نہیں ہے کہ جتنی چیزیں اپنے نزدیک محبوب اور پیاری ہیں ان سب کو اللہ کی راہ میں خرچ کردیا جائے، بلکہ مقصود یہ ہے کہ جتنا بھی خرچ کرنا ہے اس میں اچھی اور پیاری چیز دیکھ کر خرچ کریں تو مکمل ثواب کے مستحق ہوں گے۔- تیسرا مسئلہ یہ کہ محبوب چیز خرچ کرنا صرف اسی کا نام نہیں کہ کوئی بڑی قیمت کی چیز خرچ کی جائے، بلکہ جو چیز کسی کے نزدیک عزیز اور محبوب ہے، خواہ کتنی ہی قلیل اور قیمت کے اعتبار سے کم ہو، اس کے خرچ کرنے سے بھی اس " بر " کا مستحق ہوجائے گا، حضرت حسن بصری (رح) نے فرمایا کہ جو چیز آدمی اخلاص کے ساتھ اللہ کی رضا کے لئے خرچ کرے وہ اگرچہ کھجور کا ایک دانہ بھی ہو اس سے بھی انسان اس ثواب عظیم اور بر کامل کا مستحق ہوجاتا ہے جس کا آیت میں وعدہ کیا گیا ہے۔ چوتھا مسئلہ یہ ہے کہ اس آیت سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس میں جس خیر عظیم اور بر کا ذکر ہے اس سے وہ غریب لوگ محروم رہیں گے جن کے پاس خرچ کرنے کے لئے مال نہیں، کیونکہ آیت میں یہ فرمایا گیا ہے کہ یہ خیر عظیم بغیر محبوب مال خرچ کئے حاصل نہیں کی جاسکتی، اور فقراء و مساکین کے پاس مال ہی نہیں جس کے ذریعہ ان کی یہاں تک رسائی ہو، لیکن غور کیا جائے تو آیت کا یہ مقصد پورا نہیں ہوسکتا، بلکہ بات یہ ہے کہ یہ خیر عظیم کسی دوسرے ذریعہ سے مثلا عبادت، ذکر اللہ، تلاوت قرآن، کثرت نوافل سے بھی حاصل کی جاسکتی ہے۔ اس لئے فقراء و غرباء کو بھی یہ خیر عظیم دوسرے ذرائع سے حاصل ہوسکتی ہے، جیسا کہ بعض روایات حدیث میں صراحۃ بھی یہ مضمون آیا ہے۔- مال محبوب سے کیا مراد ہے :- پانچواں مسئلہ یہ ہے کہ مال کے محبوب ہونے سے کیا مراد ہے ؟ قرآن کی دوسری آیت سے معلوم ہوا کہ محبوب ہونے کا مطلب یہ ہے کہ وہ چیز اس کے کام میں آرہی ہو اور اس کو اس چیز کی حاجت ہو، فالتو اور بیکار نہ ہو، قرآن کریم کا ارشاد ہے : (ویطعمون الطعام علی حبہ مسکینا۔ ٧٦: ٨) " یعنی اللہ کے مقبول بندے وہ ہیں جو حاجت مندوں کو کھانا کھلاتے ہیں، باوجود اس کے کہ اس کھانے کی خود ان کو بھی ضرورت ہے "۔ - اسی طرح دوسری آیت میں اسی مضمون کی اور زیادہ وضاحت اس طرح فرمائی : (ویوثرون علی انفسھم ولوکان بھم خصاصۃ۔ ٥٩: ٩) " یعنی اللہ کے مقبول بندے اپنے اوپر دوسروں کو مقدم رکھتے ہیں اگرچہ خود بھی حاجت مند ہوں "۔- فالتو سامان اور حاجت سے زائد چیزیں اللہ کی راہ میں خرچ کرنا بھی ثواب سے خالی نہیں : چھٹا مسئلہ یہ ہے کہ آیت میں یہ بتلایا گیا ہے کہ خیر کامل اور ثواب عظیم اور وصف ابرار میں داخلہ اس پر موقوف ہے کہ اپنی محبوب چیز اللہ کی راہ میں خرچ کریں، مگر اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ ضرورت سے زائد فالتو مال خرچ کرنے والے کو کوئی ثواب ہی نہ ملے، بلکہ آیت کے آخر میں جو یہ ارشاد ہے (وما تنفقوا من شیء فان اللہ بہ علیم) " یعنی تم جو کچھ مال خرچ کرو گے اللہ تعالیٰ اس سے باخبر ہے "۔ آیت کے اس جملہ کا مفہوم یہ ہے کہ اگرچہ خیر کامل اور صف ابرار میں داخلہ خاص محبوب چیز خرچ کرنے پر موقوف ہے، لیکن مطلق ثواب سے کوئی صدقہ خالی نہیں، خواہ محبوب چیز خرچ کریں یا زائد اور فالتو اشیاء۔ ہاں مگر وہ اور ممنوع یہ ہے کہ کوئی آدمی اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کے لئے یہی طریقہ اختیار کرلے کہ جب خرچ کرے فالتو اور خراب چیز ہی کا انتخاب کر کے خرچ کیا کرے، لیکن جو شخص صدقہ خیرات میں اپنی محبوب اور عمدہ چیزیں بھی خرچ کرتا ہے، اور اپنی ضرورت سے زائد چیزیں، بچا ہوا کھانا یا پرانے کپڑے، عیب دار برتن یا استعمالی چیزیں بھی خیرات میں دیدیتا ہے، وہ ان چیزوں کا صدقہ کرنے سے کسی گناہ کا مرتکب نہیں بلکہ اس کو ان پر بھی ضرور ثواب ملے گا، اور محبوب چیزوں کے خرچ کرنے پر اس کو خیر عظیم بھی حاصل ہوگی، اور صف ابرار میں اس کا داخلہ بھی ہوگا۔- آیت کے اس آخری جملہ میں یہ بھی بتلایا گیا ہے کہ آدمی جو کچھ خرچ کرتا ہے اس کی اصلی حقیقت اللہ پر روشن ہے کہ وہ اس کے نزدیک محبوب ہے یا نہیں۔ اور اخلاص کے ساتھ اللہ کی رضا کے لئے خرچ کر رہا ہے یا ریا وشہرت کے لئے، محض کسی کا زبانی دعوے اس کے لئے کافی نہیں کہ میں اپنی محبوب چیز کو اللہ کے لئے خرچ کر رہا ہوں، بلکہ علیم وخبیر جو دل کے پوشیدہ رازوں سے واقف ہے، دیکھ رہا ہے کہ واقع میں اس کے لئے خرچ کا کیا درجہ ہے۔
لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتّٰى تُنْفِقُوْا مِمَّا تُحِبُّوْنَ ٠ۥۭ وَمَا تُنْفِقُوْا مِنْ شَيْءٍ فَاِنَّ اللہَ بِہٖ عَلِيْمٌ ٩٢- نيل - النَّيْلُ : ما يناله الإنسان بيده، نِلْتُهُ أَنَالُهُ نَيْلًا . قال تعالی: لَنْ تَنالُوا الْبِرَّ [ آل عمران 92] ، وَلا يَنالُونَ مِنْ عَدُوٍّ نَيْلًا [ التوبة 120] ، لَمْ يَنالُوا خَيْراً [ الأحزاب 25] والنَّوْلُ : التّناول . يقال : نِلْتُ كذا أَنُولُ نَوْلًا، وأَنَلْتُهُ : أولیته، وذلک مثل : عطوت کذا : تناولت، وأعطیته : أنلته . ونِلْتُ : أصله نَوِلْتُ علی فعلت، ثم نقل إلى فلت . ويقال : ما کان نَوْلُكَ أن تفعل کذا . أي : ما فيه نَوَال صلاحک، قال الشاعر : جزعت ولیس ذلک بالنّوال قيل : معناه بصواب . وحقیقة النّوال : ما يناله الإنسان من الصلة، وتحقیقه ليس ذلک مما تنال منه مرادا، وقال تعالی: لَنْ يَنالَ اللَّهَ لُحُومُها وَلا دِماؤُها وَلكِنْ يَنالُهُ التَّقْوى مِنْكُمْ [ الحج 37] .- ( ن ی ل ) النیل ۔ ہر اس چیز کو کہتے ہیں جسے انسان اپنے ہاتھ سے پکڑلیتا ہے ۔ اور یہ نلتہ الالہ نیلا کا مصدر ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ لَنْ تَنالُوا الْبِرَّ [ آل عمران 92] تم کبھی نیکی حاصل نہیں کرسکو گے ۔ وَلا يَنالُونَ مِنْ عَدُوٍّ نَيْلًا [ التوبة 120] یا دشمنوں سے کوئی چیز لیتے ۔ لَمْ يَنالُوا خَيْراً [ الأحزاب 25] کچھ بھلائی حاصل نہ کرسکے ۔- برَّ- ومن العبد الطاعة . وذلک ضربان :- ضرب في الاعتقاد . وضرب في الأعمال، وقد اشتمل عليه قوله تعالی: لَيْسَ الْبِرَّ أَنْ تُوَلُّوا وُجُوهَكُمْ [ البقرة 177] وعلی هذا ما روي «أنه سئل عليه الصلاة والسلام عن البرّ ، فتلا هذه الآية» . فإنّ الآية متضمنة للاعتقاد والأعمال الفرائض والنوافل . وبِرُّ الوالدین : التوسع في الإحسان إليهما، وضده العقوق، قال تعالی: لا يَنْهاكُمُ اللَّهُ عَنِ الَّذِينَ لَمْ يُقاتِلُوكُمْ فِي الدِّينِ وَلَمْ يُخْرِجُوكُمْ مِنْ دِيارِكُمْ أَنْ تَبَرُّوهُمْ [ الممتحنة 8]- ( ب رر)- البر ( نیکی ) دو قسم پر ہے اعتقادی اور عملی اور آیت کریمہ ؛۔ لَيْسَ الْبِرَّ أَنْ تُوَلُّوا وُجُوهَكُمْ [ البقرة 177] ( آلایۃ ) دونوں قسم کی نیکی کے بیان پر مشتمل ہے ۔ اسی بنا ہر جب آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بر کی تفسیر دریافت کی گئی ثو آن جناب نے جوابا یہی آیت تلاوت فرمائی کیونکہ اس آیت میں عقائد و اعمال فرائض و نوافل کی پوری تفصیل بتائی جاتی ہے ۔ برالوالدین کے معنی ہیں ماں اور باپ کے ساتھ نہایت اچھا برتاؤ اور احسان کرنا اس کی ضد عقوق ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ لا يَنْهاكُمُ اللَّهُ عَنِ الَّذِينَ لَمْ يُقاتِلُوكُمْ فِي الدِّينِ وَلَمْ يُخْرِجُوكُمْ مِنْ دِيارِكُمْ أَنْ تَبَرُّوهُمْ [ الممتحنة 8] جن لوگون میں نے تم سے دین کے بارے میں جنگ نہیں کی اور نہ تم کو تمہارے گھروں سے نکالا ان کے ساتھ بھلائی کرنے سے خدا تم کو منع نہیں کرتا ہے ۔- حَتَّى- حَتَّى حرف يجرّ به تارة كإلى، لکن يدخل الحدّ المذکور بعده في حکم ما قبله، ويعطف به تارة، ويستأنف به تارة، نحو : أكلت السمکة حتی رأسها، ورأسها، ورأسها، قال تعالی: لَيَسْجُنُنَّهُ حَتَّى حِينٍ [يوسف 35] ، وحَتَّى مَطْلَعِ الْفَجْرِ [ القدر 5] .- ويدخل علی الفعل المضارع فينصب ويرفع،- وفي كلّ واحد وجهان :- فأحد وجهي النصب : إلى أن .- والثاني : كي .- وأحد وجهي الرفع أن يكون الفعل قبله ماضیا، نحو : مشیت حتی أدخل البصرة، أي :- مشیت فدخلت البصرة .- والثاني : يكون ما بعده حالا، نحو : مرض حتی لا يرجونه، وقد قرئ : حَتَّى يَقُولَ الرَّسُولُ [ البقرة 214] ، بالنصب والرفع «1» ، وحمل في كلّ واحدة من القراء تین علی الوجهين . وقیل : إنّ ما بعد «حتی» يقتضي أن يكون بخلاف ما قبله، نحو قوله تعالی: وَلا جُنُباً إِلَّا عابِرِي سَبِيلٍ حَتَّى تَغْتَسِلُوا [ النساء 43] ، وقد يجيء ولا يكون کذلک نحو ما روي :- «إنّ اللہ تعالیٰ لا يملّ حتی تملّوا» «2» لم يقصد أن يثبت ملالا لله تعالیٰ بعد ملالهم - حتی ٰ ( حرف ) کبھی تو الیٰ کی طرح یہ حرف جر کے طور پر استعمال ہوتا ہے لیکن اس کے مابعد غایت ماقبل کے حکم میں داخل ہوتا ہے اور کبھی عاطفہ ہوتا ہے اور کبھی استیناف کا فائدہ دیتا ہے ۔ جیسے اکلت السملۃ حتی ٰ راسھا ( عاطفہ ) راسھا ( جارہ ) راسھا ( مستانفہ قرآن میں ہے ليَسْجُنُنَّهُ حَتَّى حِينٍ [يوسف 35] کچھ عرصہ کے لئے نہیں قید ہی کردیں ۔ وحَتَّى مَطْلَعِ الْفَجْرِ [ القدر 5] طلوع صبح تک ۔۔۔۔ جب یہ فعل مضارع پر داخل ہو تو اس پر رفع اور نصب دونوں جائز ہوتے ہیں اور ان میں ہر ایک کی دو وجہ ہوسکتی ہیں نصب کی صورت میں حتی بمعنی (1) الی آن یا (2) گی ہوتا ہے اور مضارع کے مرفوع ہونے ایک صورت تو یہ ہے کہ حتی سے پہلے فعل ماضی آجائے جیسے ؛۔ مشیت حتی ادخل ۔ البصرۃ ( یعنی میں چلا حتی کہ بصرہ میں داخل ہوا ) دوسری صورت یہ ہے کہ حتیٰ کا مابعد حال واقع ہو جیسے مرض حتی لایرجون و دو بیمار ہوا اس حال میں کہ سب اس سے ناامید ہوگئے ) اور آیت کریمۃ ؛۔ حَتَّى يَقُولَ الرَّسُولُ [ البقرة 214] یہاں تک کہ پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پکار اٹھے ۔ میں یقول پر رفع اور نصب دونوں منقول ہیں اور ان ہر دو قرآت میں دونوں معنی بیان کئے گئے ہیں ۔ بعض نے کہا ہے کہ حتیٰ کا مابعد اس کے ماقبل کے خلاف ہوتا ہے ۔ جیسا ک قرآن میں ہے : وَلا جُنُباً إِلَّا عابِرِي سَبِيلٍ حَتَّى تَغْتَسِلُوا [ النساء 43] ۔ اور جنابت کی حالت میں بھی نماز کے پاس نہ جاؤ ) جب تک کہ غسل ( نہ ) کرو ۔ ہاں اگر بحالت سفر رستے چلے جارہے ہو اور غسل نہ کرسکو تو تیمم سے نماز پڑھ لو ۔ مگر کبھی اس طرح نہیں بھی ہوتا جیسے مروی ہے ۔ اللہ تعالیٰ لاتمل حتی تملو ا ۔ پس اس حدیث کے یہ معنی نہیں ہیں کہ تمہارے تھک جانے کے بعد ذات باری تعالیٰ بھی تھک جاتی ہے ۔ بلکہ معنی یہ ہیں کہ ذات باری تعالیٰ کو کبھی ملال لاحق نہیں ہوتا ۔- نفق - نَفَقَ الشَّيْءُ : مَضَى ونَفِدَ ، يَنْفُقُ ، إِمَّا بالبیع نحو : نَفَقَ البَيْعُ نَفَاقاً ، ومنه : نَفَاقُ الأَيِّم، ونَفَقَ القَوْمُ : إذا نَفَقَ سُوقُهُمْ ، وإمّا بالمَوْتِ نحو : نَفَقَتِ الدَّابَّةُ نُفُوقاً ، وإمّا بالفَنَاءِ نحو : نَفِقَتِ الدَّرَاهِمُ تُنْفَقُ وأَنْفَقْتُهَا . والإِنْفَاقُ قد يكون في المَالِ ، وفي غَيْرِهِ ، وقد يكون واجباً وتطوُّعاً ، قال تعالی: وَأَنْفِقُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ [ البقرة 195] ، وأَنْفِقُوا مِمَّا رَزَقْناكُمْ [ البقرة 254] - ( ن ف ق ) نفق - ( ن ) س الشئی کے منعی کسی چیز کے ختم ہونے یا چلے جانے کے ہیں ۔ اور چلے جانے کی مختلف صورتیں ہیں ( 1 ) خوب فروخت ہونے سے جیسے نفق البیع ( سامان کا ) خوب فروخت ہونا اسی سے نفاق الایتیم ہے جس کے معنی بیوہ عورت سے نکاح کے طلب گاروں کا بکثرت ہونا کے ہیں ۔ نفق القوم بازار کا پر رونق ہونا ۔ ( 2 ) بذیعہ مرجانے کے جیسے نفقت الدابۃ نفوقا جانور کا مرجانا ۔ ( 3 ) بذریعہ فنا ہوجانے کے جیسے نفقت الدراھم درواہم خرچ ہوگئے ۔ انفق تھا ان کو خرچ کردیا ۔ الا نفاق کے معنی مال وغیرہ صرف کرنا کے ہیں اور یہ کبھی واجب ہوتا ہے ۔ اور کبھی مستحب اور مال اور غیر مال یعنی علم وغیرہ کے متعلق استعمال ہوتا ہے جیسے فرمایا ۔ وَأَنْفِقُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ [ البقرة 195] اور خدا کی راہ میں مال خرچ کرو ۔ وأَنْفِقُوا مِمَّا رَزَقْناكُمْ [ البقرة 254] اور جو مال ہم نے تم کو دیا ہے اس میں سے خرچ کرلو ۔- حب - والمحبَّة :- إرادة ما تراه أو تظنّه خيرا، وهي علی ثلاثة أوجه :- محبّة للّذة، کمحبّة الرجل المرأة، ومنه :- وَيُطْعِمُونَ الطَّعامَ عَلى حُبِّهِ مِسْكِيناً [ الإنسان 8] .- ومحبّة للنفع، کمحبة شيء ينتفع به، ومنه :- وَأُخْرى تُحِبُّونَها نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ [ الصف 13] .- ومحبّة للفضل، کمحبّة أهل العلم بعضهم لبعض لأجل العلم .- ( ح ب ب ) الحب والحبۃ - المحبۃ - کے معنی کسی چیز کو اچھا سمجھ کر اس کا ارادہ کرنے اور چاہنے کے ہیں - اور محبت تین قسم پر ہے :- ۔ ( 1) محض لذت اندوزی کے لئے - جیسے مرد کسی عورت سے محبت کرتا ہے ۔ چناچہ آیت : ۔ وَيُطْعِمُونَ الطَّعامَ عَلى حُبِّهِ مِسْكِيناً [ الإنسان 8] میں اسی نوع کی محبت کی طرف اشارہ ہے - ۔ ( 2 ) محبت نفع اندوزی کی خاطر - جیسا کہ انسان کسی نفع بخش اور مفید شے سے محبت کرتا ہے ۔ چناچہ اسی معنی میں فرمایا : وَأُخْرى تُحِبُّونَها نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ [ الصف 13 اور ایک چیز کو تم بہت چاہتے ہو یعنی تمہیں خدا کی طرف سے مدد نصیب ہوگی اور فتح حاصل ہوگی - ۔ ( 3 ) کبھی یہ محبت یہ محض فضل وشرف کی وجہ سے ہوتی ہے - جیسا کہ اہل علم وفضل آپس میں ایک دوسرے سے محض علم کی خاطر محبت کرتے ہیں ۔ - الله - الله : قيل : أصله إله فحذفت همزته، وأدخل عليها الألف واللام، فخصّ بالباري تعالی، ولتخصصه به قال تعالی: هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا [ مریم 65] . - ( ا ل ہ ) اللہ - (1) بعض کا قول ہے کہ اللہ کا لفظ اصل میں الہ ہے ہمزہ ( تخفیفا) حذف کردیا گیا ہے اور اس پر الف لام ( تعریف) لاکر باری تعالیٰ کے لئے مخصوص کردیا گیا ہے اسی تخصیص کی بناء پر فرمایا :۔ هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا ( سورة مریم 65) کیا تمہیں اس کے کسی ہمنام کا علم ہے ۔
راہ خدا میں محبوب چیز قربان کرنا - قول باری ہے (لن تنالوالبرحتی تنفقوامما تحبون، تم نیکی کو نہیں پہنچ سکتے جب تک کہ اپنی وہ چیزیں (اللہ کی راہ میں) خرچ نہ کرو جنہیں تم عزیزرکھتے ہو) البر کے معنی دواقوال ہیں اول جنت عمروبن میمون اور سدی سے یہی منقول ہے۔ دوم نیکی کا کام جس کی بناپربندے اجر کے مستحق قرارپاتے ہیں نفقہ سے مراد اللہ کی راہ میں صدقہ وغیرہ کی صورت میں پسند یدہ چیزیں دے دینا ہے۔ یزیدبن ہارون نے حمید سے، انہوں نے حضرت انس (رض) سے روایت کی ہے کہ جب درج بالاآیت نازل ہوئی نیزیہ آیت (من ذا الذی یقرض اللہ قرضا حسنا، کون ہے جو اللہ تعالیٰ کو قرض حسنہ دے) تو حضرت ابوطلحہ (رض) نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرض کیا کہ ، میراباغ جو فلاں جگہ ہے اسے میں اللہ کے لیے دیتا ہوں، اگر میں اس بات کو پوشیدہ رکھ سکتا تو ہرگزا سے ظاہرنہ کرتا۔ یہ سن کر آپ نے فرمایا۔ یہ باغ اپنے رشتہ داروں یا قرابت داروں کودے دو ۔- انفاق فی سبیل اللہ کی اعلی مثال - یزیدبن ہارون نے محمد بن عمرو سے انہوں نے ابوعمروبن حماس سے انہوں نے حمزہ بن عبداللہ سے اور انہوں نے حضرت عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت کی ہے کہ، میری نظر سے یہ آیت گذری ہیں نے ان تمام چیزوں کے متعلق غور کیا جو اللہ نے مجھے عطاکی تھیں۔ ان میں میرے لیے سب سے زیادہ پیاری چیزمیری لونڈی امیمہ تھی، میں نے فوراکہا کہ یہ لوجہ اللہ آزاد ہے۔ اگر اللہ کی راہ میں دی ہوئی چیز کو واپس لینا میرے لیئے ممکن ہوتاتو میں ضرور اس سے نکاح کرلیتا۔ لیکن چونکہ یہ ممکن نہ تھا اس لیئے میں نے نافع سے اس کا نکاح کردیا۔ اب وہ اس کے بیٹے کی ماں ہے۔- ہمیں عبداللہ بن محمد بن اسحاق نے روایت بیان کی انہیں حسن بن ابی الربیع نے انہیں عبدالرزاق نے انہیں معمرنے ایوب اور دوسرے راویوں سے کہ جب آیت (لن تنا لوا البرحتی تنفقوامما تحبون) نازل ہوئی تو حضرت زیدبن حارثہ (رض) اپنا ایک پسندیدہ گھوڑاحضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں لے کر آئے اور عرض کیا کہ، یہ گھوڑا اللہ کے راستے میں دیتا ہوں۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے وہ گھوڑا ان کے بیٹے اسامہ بن زید کو سواری کے لیے دے دیاحضرت زید کے چہرے پر اس کی وجہ سے کچھ کبیدگی کے آثارنمودارہوگئے۔ جب حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کی یہ کیفیت دیکھی تو فرمایا سنو اللہ تعالیٰ نے اسے قبول فرمالیا ہے حسن بصری سے مروی ہے کہ البر سے مراد زکوۃ نیز مال میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے مقررکردہ فرائض ہیں۔- ابوبکرجصاص کہتے ہیں کہ حضرت ابن عمرکا آیت کی تاویل کے بموجب لونڈی کو آزاد کردینا اس پر دلالت کرتا ہے کہ ان کی رائے میں ہر وہ چیزجو اللہ تعالیٰ سے ثواب حاصل کرنے کی خاطر اس کے راستے میں دے دی جائے اس کا تعلق اس نفقہ سے ہوتا ہے جو آیت میں مراد ہے نیز اس پر بھی دلالت ہورہی ہے کہ حضرت ابن عمر (رض) کے نزدیک اس نفاق فی سبیل اللہ کا مفہوم عموم کی حیثیت رکھتا تھا یعنی اس کا تعلق فرض سے بھی ہوسکتا تھا اور نفل سے بھی۔ اسی طرح حضرت ابوطلحہ (رض) اور حضرت زیدبن حارثہ (رض) کے اقداماتاس پر دلالت کررہے ہیں۔ کہ انفاق فی سبیل اللہ صرف فرض تک محدود نہیں تھا کہ نفل اس میں داخل نہ ہو۔- اس صورت میں قول باری (لن تنالوا البر) کا مفہوم یہ ہوگا کہ ، تم اس نیکی کو حاصل نہیں کرسکتے جو تقرب الی اللہ کی اعلی ترین منزل ہے۔ جب تک تم اپنی عزیز چیزیں اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کروگے، اس لیئے قول باری (حتی تنفقوامماتحبون) ترغیب انفاق کے سلسلے میں بطورمبالغہ ذکرہوا ہے اس لیئے پسندیدہ چیز کو اللہ کی راہ میں خرچ کرنا خود اس کی صدق نیت پر دلالت کرتا ہے۔ جیسا کہ ارشاد باری ہے (لن ینال اللہ لحومھا ولادماء ھاولکن ینالہ التقوی منکم، ان قربانیوں کا گوشت اور نہ ہی ان کا خون اللہ تعالیٰ تک پہنچتا ہے۔ بلکہ اللہ تک پہنچے والی جو چیز ہے وہ تمھاراتقوی ہے) لغت میں اس کا اطلاق درست ہوتا ہے۔ اگرچہ اس میں سرے سے اس فعل کی نفی مراد نہیں ہے بلکہ نفی کمال مراد ہے۔- جیسا کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے (لیس المسکین الذین تردہ اللقمۃ واللقمتان والتمرۃ والتمرتان ولکنالمسکین الذی لایجدماینفقولایفطن لہ فیتصدق علیہ، مسکین وہ نہیں ہے جو ایک یادولقمے یا ایک یادرکھجوریں لے کر واپس چلاجائے بلکہ مسکین وہ ہے جس کے پاس خرچ کرنے کے لیے کچھ نہ ہو۔ لوگوں کو اس کی حالت کا علم بھی نہ ہوسکے کہ بطورصدقہ ہی اسے کچھ مل جائے۔- حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسے مسکنت کے وصف سے بطورمبالغہ موصوف کرنے کی خاطر اس پر اس لفظ کا اطلاق کیا اس سے مقصدیہ نہیں تھا کہ دوسروں سے فی الحقیقت مسکنت کی نفی کردی جائے۔
(٩٢) اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو راہ اللہ میں اپنے اموال خرچ کرنے کی ترغیب دلا رہے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے یہاں ثواب و بزرگی اور جنت نہیں حاصل کرسکو گے جب تک کہ اپنی بہت پیاری چیز کو راہ اللہ میں نہ خرچ کرو اور ایک معنی یہ بھی بیان کیے گئے کہ توکل اور تقوی اس کے بغیر ہرگز نہیں حاصل ہوسکتا اور جو بھی اموال خرچ کرتے ہو وہ ذات اس میں تمہاری نیتوں سے بخوبی واقف ہے کہ حق تعالیٰ کی رضاجوئی کے لیے خرچ کیا ہے یا لوگوں کی تعریف کے لیے ،
آیت ٩٢ (لَنْ تَنَالُوْا الْبِرَّ حَتّٰی تُنْفِقُوْا مِمَّا تُحِبُّوْنَ ط) ۔- آیۃ البر (البقرۃ : ١٧٧) کے ضمن میں اس آیت کا حوالہ بھی آیا تھا کہ نیکی کے مظاہر میں سے سب سے بڑی اور سب سے مقدم شے انسانی ہمدردی ہے ‘ اور انسانی ہمدردی میں اپنا وہ مال خرچ کرنا مطلوب ہے جو خود اپنے آپ کو محبوب ہو۔ ایسا مال جو ردّی ہو ‘ دل سے اتر گیا ہو ‘ بوسیدہ ہوگیا ہو وہ کسی کو دے کر سمجھا جائے کہ ہم نے حاتم طائی کی قبر پر لات مار دی ہے تو یہ بجائے خود حماقت ہے۔
سورة اٰلِ عِمْرٰن حاشیہ نمبر :75 اس سے مقصود ان کی اس غلط فہمی کو دور کرنا ہے جو وہ ”نیکی“ کے بارے میں رکھتے تھے ۔ ان کے دماغوں میں نیکی کا بلند سے بلند تصور بس یہ تھا کہ صدیوں کے توارث سے ”تشرُّع“ کی جو ایک خاص ظاہری شکل ان کے ہاں بن گئی تھی اس کا پورا چربہ آدمی اپنی زندگی میں اتار لے اور ان کے علماء کی قانونی موشگافیوں سے جو ایک لمبا چوڑا فقہی نظام بن گیا تھا اس کے مطابق رات دن زندگی کے چھوٹے چھوٹےضمنی و فروعی معاملات کی ناپ تول کرتا رہے ۔ اس تشرُّع کی اوپری سطح سے نیچے بالعموم یہودیوں کے بڑے بڑے ”دیندار“ لوگ تنگ دلی ، حرض ، بخل ، حق پوشی اور حق فروشی کے عیوب چھپائے ہوئے تھے اور رائے عام ان کو نیک سمجھتی تھی ۔ اسی غلط فہمی کو دور کرنے کے لیے انہیں بتایا جا رہا ہے کہ ”نیک انسان“ ہونے کا مقام ان چیزوں سے بالاتر ہے جن کو تم نے مدار خیر و صلاح سمجھ رکھا ہے ۔ نیکی کی اصل روح خدا کی محبت ہے ، ایسی محبت کہ رضائے الٰہی کے مقابلہ میں دنیا کی کوئی چیز عزیز تر نہ ہو ۔ جس چیز کی محبت بھی آدمی کے دل پر اتنی غالب آجائے کہ وہ اسے خدا کی محبت پر قربان نہ کر سکتا ہو ، بس وہی بت ہے اور جب تک اس بت کو آدمی توڑ نہ دے ، نیکی کے دروازے اس پر بند ہیں ۔ اس روح سے خالی ہونے کے بعد ظاہری تشرُّع کی حیثیت محض اس چمکدار روغن کی سی ہے جو گھن کھائی ہوئی لکڑی پر پھیر دیا گیا ہو ۔ انسان ایسے روغنوں سے دھوکا کھا سکتے ہیں ، مگر خدا نہیں کھا سکتا ۔
32: پیچھے سورۃ بقرہ کی آیت نمبر 267 میں یہ حکم گذرا ہے کہ صرف خراب اور ردی قسم کی چیزیں صدقے میں نہ دیا کرو، بلکہ اچھی چیزوں میں اللہ کی راہ میں خرچ کیا کرول۔ اب اس آیت میں مزید آگے بڑھ کر یہ کہا جارہا ہے کہ صرف یہی نہیں کہ اچھی چیزیں اللہ کی خوشنودی کے لیے دو، بلکہ جن چیزوں سے تمہیں زیادہ محبت ہے، ان کو اس راہ میں نکالو تاکہ صحیح معنی میں اللہ کے لیے قربانی کا مظاہرہ ہو سکے۔ جب یہ آیت نازل ہوئی تو صحابہ کرام نے اپنی سب سے زیادہ پسندیدہ چیزیں صدقہ کرنی شروع کردیں جس کے بہت سے واقعات حدیث اور تفسیر کی کتابوں میں مذکور ہیں۔ ملاحظہ معارف القرآن جلد دوم ص :107 و 108،