بارگاہ رسالت صلی اللہ علیہ وسلم میں یہودی وفد مسند احمد میں ہے کہ یہودیوں کی ایک جماعت حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی اور کہنے لگی کہ ہم آپ سے چند سوال کرنا چاہتے ہیں جن کے جواب نبیوں کے سوا اور کوئی نہیں آپ نے فرمایا پوچھو لیکن پہلے تم لوگ وعدہ کرو اگر میں صحیح صحیح جواب دے دوں تو تمہیں میری نبوت کے تسلیم کر لینے میں کوئی عذر نہ ہو گا انہوں نے اس شرط کو منظور کر لیا کہ اگر آپ نے سچے جواب دے تو ہم اسلام قبول کرلیں گے ساتھ ہی انہوں نے بڑی بڑی قسمیں بھی کھائیں پھر پوچھا کہ بتائیے ۔ حضرت اسرائیل نے کیا چیز اپنے اوپر حرام کی تھی؟ عورت مرد کے پانی کی کیا کیفیت ہے؟ اور کیوں کبھی لڑکا ہوتا ہے اور کبھی لڑکی؟ اور نبی امی کی نیند کیسی ہے؟ اور فرشتوں میں سے کونسا فرشتہ اس کے پاس وحی لے کر آتا ہے؟ آپ نے فرمایا جب حضرت اسرائیل سخت بیمار ہوئے تو نذر مانی کہ اگر اللہ تعالیٰ مجھے شفا دے گا تو میں سب سے زیادہ پیاری چیز کھانے پینے کی چھوڑ دوں گا جب شفا یاب ہو گئے تو اونٹ کا گوشت اور دودھ چھوڑ دیا ، مرد کا پانی سفید رنگ اور گاڑھا ہوتا ہے اور عورت کا پانی زردی مائل پتلا ہوتا ہے دونوں سے جو اوپر آجائے اس پر اولاد نر مادہ ہوتی ہے ، اور شکل و شباہت میں بھی اسی پر جاتی ہے ۔ اس نبی امی صلی اللہ علیہ وسلم کی نیند میں اس کی آنکھیں سوتی ہیں لیکن دل جاگتا رہتا ہے ۔ میرے پاس وحی لے کر وہی فرشتہ آتا ہے جو تمام انبیاء کے پاس بھی آتا رہا یعنی جبرائیل علیہ السلام ، بس اس پر وہ چیخ اٹھے اور کہنے لگے کوئی اور فرشتہ آپ کا ولی ہوتا تو ہمیں آپ کی نبوت تسلیم کرنے میں کوئی عذر نہ رہتا ۔ ہر سوال کے جواب کے وقت آپ انہیں قسم دیتے اور ان سے دریافت فرماتے اور وہ اقرار کرتے کہ ہاں جواب صحیح ہے انہیں کے بارے میں آیت ( قُلْ مَنْ كَانَ عَدُوًّا لِّجِبْرِيْلَ فَاِنَّهٗ نَزَّلَهٗ عَلٰي قَلْبِكَ بِاِذْنِ اللّٰهِ مُصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيْهِ وَھُدًى وَّبُشْرٰى لِلْمُؤْمِنِيْنَ ) 2 ۔ البقرۃ:97 ) نازل ہوئی اور روایت میں ہے کہ حضرت اسرائیل کو عرق النساء کی بیماری تھی اور اس میں ان کا ایک پانچواں سوال یہ بھی ہے کہ یہ رعد کیا چیز ہے؟ آپ نے فرمایا اللہ عزوجل کے فرشتوں میں سے ایک فرشتہ جو بادلوں پر مقرر ہے اس کے ہاتھ میں آگ کا کوڑا ہے جس سے بادلوں کا جہاں اللہ تعالیٰ کا حکم ہو لے جاتا ہے اور یہ گرج کی آواز اسی کی آواز ہے ۔ جبرائیل کا نام سن کر یہ کہنے لگے وہ تو عذاب اور جنگ وجدال کا فرشتہ ہے اور ہمارا دشمن ہے ، اگر پیداوار اور بارش کے فرشتے حضرت میکائیل آپ کے رفیق ہوتے تو ہم مان لیتے ۔ حضرت یعقوب کی روش پر ان کی اولاد بھی رہی اور وہ بھی اونٹ کے گوشت سے پرہیز کرتی رہی ، اس آیت کو اگلی آیت سے مناسبت ایک تو یہ ہے کہ جس طرح حضرت اسرائیل نے اپنی چہیتی چیز اللہ کی نذر کر دی اسی طرح تم بھی کیا کرو ۔ لیکن یعقوب کی شریعت میں اس کا طریقہ یہ تھا کہ اپنی پسندیدہ اور مرغوب چیز کا نام اللہ پر ترک کر دیتے تھے اور ہماری شریعت میں یہ طریقہ نہیں بلکہ ہمیں یہ فرمایا گیا ہے کہ ہم اپنی چاہت کی چیزیں اللہ کے نام پر خرچ کر دیا کریں ، جیسے فرمایا آیت ( وَاٰتَى الْمَالَ عَلٰي حُبِّهٖ ذَوِي الْقُرْبٰى وَالْيَـتٰمٰى وَالْمَسٰكِيْنَ وَابْنَ السَّبِيْلِ ) 2 ۔ البقرۃ:177 ) اور فرمایا آیت ( وَيُطْعِمُوْنَ الطَّعَامَ عَلٰي حُبِّهٖ مِسْكِيْنًا وَّيَـتِـيْمًا وَّاَسِيْرًا ) 76 ۔ الدہر:8 ) باوجود محبت اور چاہت کے وہ ہماری راہ میں مال خرچ کرتے اور مسکینوں کو کھانا دیتے ہیں ، دوسری مناسبت یہ بھی ہے کہ پہلی آیتوں میں نصرانیوں کی تردید تھی تو یہاں یہودیوں کا رد ہو رہا ہے ان کے رد میں حضرت عیسیٰ کی پیدائش کا صحیح واقعہ بتا کر ان کے عقیدے کا رد کیا تھا ، یہاں نسک کا صاف بیان کر کے ان کی اولاد بھی اسے حرام جانتی رہی چنانچہ توراۃ میں بھی اس کی حرمت نازل ہوئی ، اسی طرح اور بھی بعض چیزیں حرام کی گئیں یہ نسخ نہیں تو اور کیا ہے؟ حضرت آدم علیہ السلام کی صلبی اولاد کا آپس میں بہن بھائی کا نکاح ابتداء جائز ہوتا تھا لیکن بعد میں حرام کر دیا ، عورتوں پر لونڈیوں سے نکاح کرنا شریعت ابراہیمی میں مباح تھا خود حضرت ابراہیم حضرت سارہ پر حضرت ہاجرہ کو لائے ، لیکن پھر توراۃ میں اس سے روکا گیا ، دو بہنوں سے ایک ساتھ نکاح کرنا حضرت یعقوب کے زمانہ میں جائز تھا بلکہ خود حضرت یعقوب کے گھر میں بیک وقت دو سگی بہنیں تھیں لیکن پھر توراۃ میں یہ حرام ہو گیا اسی کو نسخ کہتے ہیں اسے وہ دیکھ رہے ہیں اپنی کتاب میں پڑھ رہے ہیں لیکن پھر نسخ کا انکار کر کے انجیل کو اور حضرت عیسیٰ کو نہیں مانتے اور ان کے بعد ختم المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بھی یہی سلوک کرتے ہیں ، تو یہاں فرمایا کہ توراۃ کے نازل ہونے سے پہلے تمام کھانے حلال تھے سوائے اس کے جسے اسرائیل علیہ السلام نے اپنی جان پر حرام کر لیا تھا تم توراۃ لاؤ اور پڑھو اس میں موجود ہے ، پھر اس کے باوجود تمہاری یہ بہتان بازی اور افتراء پردازی کہ اللہ نے ہمارے لئے ہفتہ ہی کے دن کو ہمیشہ کے لئے عید کا دن مقرر کیا ہے اور ہم سے عہد لیا ہے کہ ہم ہمیشہ توراۃ ہی کے عامل رہیں اور کسی اور نبی کو نہ مانیں یہ کس قدر ظلم و ستم ہے ، تمہاری یہ باتیں اور تمہاری یہ روش یقینا تمہیں ظالم و جابر ٹھہراتی ہے ۔ اللہ نے سچی خبر دے دی ابراہیمی دین وہی ہے جسے قرآن بیان کر رہا ہے تم اس کتاب اور اس نبی کی پیروی کرو ان سے اعلیٰ کوئی نبی ہے نہ اس سے بہتر اور زیادہ واضح کوئی اور شریعت ہے ، جیسے اور جگہ ہے آیت ( قُلْ اِنَّنِيْ هَدٰىنِيْ رَبِّيْٓ اِلٰي صِرَاطٍ مُّسْتَقِيْمٍ ) 6 ۔ الانعام:161 ) اے نبی تم کہدو کہ مجھے میرے رب نے موحد ابراہیم حنیف کے مضبوط دین کی سیدھی راہ دکھا دی ہے ۔ اور جگہ ہے ہم نے تیری طرف وحی کی کہ موحد ابراہیم حنیف کے دین کی تابعداری کر ۔
93۔ 1 یہ اور ما بعد دو آیتیں یہود کے اس اعتراض پر نازل ہوئیں کہ انہوں نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دین ابراہیمی کے پیروکار ہونے کا دعوی کرتے ہیں اور اونٹ کا گوشت بھی کھاتے ہیں جب کہ اونٹ کا گوشت اور اس کا دودھ دین ابراہیمی میں حرام تھا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا یہود کا دعوی غلط ہے حضرت ابراہیم کے دین میں یہ چیزیں حرام نہیں تھیں۔ ہاں البتہ بعض چیزیں اسرائیل (حضرت یعقوب (علیہ السلام) نے خود اپنے اوپر حرام کرلی تھیں اور وہ یہی اونٹ کا گوشت اور دودھ تھا (اس کی ایک وجہ نذر یا بیماری تھی اور حضرت یعقوب (علیہ السلام) کا یہ فعل بھی نزول تورات سے پہلے کا ہے۔ اس لیے کہ تورات تو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) و حضرت یعقوب (علیہ السلام) کے بہت بعد نازل ہوئی ہے۔ پھر تم کس طرح مزکورہ دعویٰ کرسکتے ہو ؟ علاوہ ازیں تورات میں بعض چیزیں تم (یہودیوں) پر تمہارے ظلم اور سرکشی کی وجہ سے حرام کی گئی تھیں۔ (سورۃ الانعام 46۔ النساء۔ 160) اگر تمہیں یقین نہیں ہے تو تورات لاؤ اور اسے پڑھ کر سناؤ جس سے یہ بات واضح ہوجائے گی کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے زمانے میں یہ چیزیں حرام نہیں تھیں اور تم پر بھی بعض چیزیں حرام کی گئیں تو اس کی وجہ تمہاری ظلم و زیادتی تھی یعنی ان کی حرمت بطور سزا تھی۔ (ایسرالتفاسیر)
[٨٢] یہ دراصل یہود کے مسلمانوں پر ایک اعتراض کا جواب ہے۔ وہ مسلمانوں سے یہ کہتے تھے کہ تم نے تو شریعت کی حرام کردہ چیزوں کو حلال بنا رکھا ہے۔ تم لوگ اونٹ کا گوشت شوق سے کھاتے ہو اور اس کا دودھ بھی پیتے ہو ؟ اللہ تعالیٰ نے اس کا جواب یہ دیا کہ یہ چیزیں میں نے حرام نہیں کی تھیں بلکہ تورات کے نازل ہونے سے مدتوں پہلے یعقوب نے خود اپنے آپ پر حرام قرار دے لی تھیں۔ یعقوب نے ان چیزوں کو کیوں حرام قرار دے لیا تھا ؟ اس بارے میں کئی روایات ہیں جن میں سے ایک یہ ہے کہ انہیں ان چیزوں سے طبعاً کراہت تھی اور دوسری یہ کہ آپ کو عرق النساء کی بیماری تھی اور پرہیز کے طور پر آپ نے ایسا کیا تھا۔ پھر ان کی اتباع میں آپ کے پیروکاروں نے بھی ان چیزوں کو چھوڑ دیا اور فی الواقع انہیں حرام سمجھ لیا تھا۔ ان حرام کردہ چیزوں میں، بکری، گائے اور اونٹ کی چربی بھی شامل تھی۔- بائیبل کے جو نسخے آج کل متداول ہیں ان میں اونٹ، خرگوش اور سافان کی حرمت کا ذکر موجود ہے۔ (احبار ١١، ٤٠-٤١ استثناء ١٤: ٧) حالانکہ دور نبوی میں قرآن نے بطور چیلنج یہ بات کہی تھی کہ اگر تورات میں حضرت ابراہیم پر یہ چیزیں حرام کی گئی ہیں تو لاکر دکھاؤ اور یہود اس بات سے عاجز رہے جس کا مطلب یہ ہے کہ اس قسم کے اضافے کئے گئے ہیں کیونکہ اگر تورات میں اس وقت ایسے احکام موجود ہوتے تو یہود فوراً لاکر پیش کردیتے۔
كُلُّ الطَّعَامِ ۔۔ : اوپر کی آیات میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت کے اثبات میں دلائل پیش کیے اور اہل کتاب پر الزامات قائم کیے ہیں۔ اب یہاں سے ان کے شبہات کا جواب ہے، جو وہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت پر پیش کرتے تھے۔ (رازی) جب قرآن نے بیان کیا کہ یہود کے ظلم اور سرکشی کی وجہ سے بہت سی چیزیں ان پر حرام کردی گئیں۔ (النساء : ١٦٠۔ الأنعام : ١٤٦) ورنہ یہ چیزیں ابراہیم (علیہ السلام) کے عہد نبوت میں حلال تھیں، تو یہود نے ان آیات کو جھٹلایا اور کہنے لگے کہ یہ چیزیں تو ابراہیم (علیہ السلام) کے وقت سے حرام چلی آئی ہیں، اس پر یہ آیات نازل ہوئیں۔ (شوکانی) بعض مفسرین نے ان آیات (٩٣، ٩٤) کی شان نزول میں لکھا ہے کہ یہود تورات میں نسخ کے قائل نہیں تھے اور عیسیٰ (علیہ السلام) کو بھی یہود نے اسی لیے جھٹلا دیا تھا کہ وہ تورات میں بعض حرام کردہ چیزوں کو حلال قرار دیتے تھے اور اسی لیے انھوں نے قرآن کے ناسخ و منسوخ پر بھی اعتراض کیا تو ان کے جواب میں یہ آیات نازل ہوئیں کہ یہ نسخ تو خود تمہاری شریعت میں بھی موجود ہے کہ جب تک تورات نازل نہیں ہوئی تھی تو کھانے کی تمام چیزیں تمہارے لیے حلال تھیں، جن میں اونٹ کا گوشت اور دودھ بھی شامل ہے، پھر جب یعقوب (علیہ السلام) عرق النساء کے مرض میں مبتلا ہوئے تو انھوں نے صحت یاب ہونے پر بطور نذر اونٹ کا گوشت حرام قرار دے لیا۔ پھر جب تورات نازل ہوئی تو اس میں اونٹ کا گوشت اور دودھ حرام قرار دے دیا گیا۔ (ابن کثیر۔ الکشاف) ( حلال کو حرام قرار دے لینے کی یہ نذر ان کی شریعت میں جائز تھی۔ خود رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بھی ایک واقعہ میں شہد پینے کو اپنے اوپر حرام قرار دے لیا تھا، گو یہ نذر نہ تھی مگر قرآن نے اس قسم کی نذر سے اور حلال کو حرام کرنے سے منع فرما دیا اور کفارہ مقرر فرما دیا۔ تفصیل کے لیے دیکھیے سورة تحریم۔ - بعض نے لکھا ہے کہ یہود رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت کے سلسلہ میں یہ اعتراض بھی کرتے تھے کہ یہ پیغمبر خود کو ملت ابراہیمی کی اتباع کا دعوے دار بتاتا ہے اور اونٹ کا گوشت کھاتا ہے، حالانکہ یہ گوشت ملت ابراہیمی میں حرام ہے، اس پر یہ آیات نازل ہوئیں کہ تورات کے اترنے سے پہلے تو یہ سب چیزیں حلال تھیں، پھر ملت ابراہیمی میں یہ کیسے حرام ہوسکتی ہیں، اگر تم اپنے دعوے میں سچے ہو تو تورات میں دکھاؤ، ورنہ اللہ تعالیٰ پر اس قسم کے بہتان گھڑنے سے باز رہو۔ (ابن کثیر)- مسند احمد میں ابن عباس (رض) سے یہود کے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے چار سوال اور ان کے جواب مذکور ہیں۔ ان میں سے ایک یہ تھا کہ کھانے کی وہ کون سی چیزیں تھیں جنھیں یعقوب (علیہ السلام) نے تورات نازل ہونے سے پہلے اپنے لیے حرام قرار دے لیا تھا ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کا جواب یہ دیا کہ اسرائیل یعنی یعقوب (علیہ السلام) جب سخت بیمار ہوگئے تھے، ان کی بیماری بہت طول اختیار کرگئی تو انھوں نے یہ نذر مانی تھی کہ اگر اللہ تعالیٰ انھیں شفا عطا فرما دے تو وہ اپنے پسندیدہ کھانے اور پسندیدہ مشروب کو ترک کردیں گے اور ان کا پسندیدہ کھانا اونٹ کا گوشت اور پسندیدہ مشروب اونٹ کا دودھ تھا۔ یہ بات سن کر یہود نے آپ کی تصدیق کی، آپ نے فرمایا : ” اے اللہ تو ان پر گواہ ہوجا۔ [ احمد : ١ ٢٧٨، ح : ٢٥١٨۔ المعجم الکبیر للطبرانی : ١٢؍١٩٠، ١٩١، ح : ١٣٠١٢ ] اس واقعہ کی ( لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتّٰى تُنْفِقُوْا مِمَّا تُحِبُّوْن ) سے مناسبت بھی ظاہر ہے۔
خلاصہ تفسیر :- (جن کھانے کی چیزوں میں گفتگو ہے یہ) سب کھانے کی چیزیں (حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے وقت سے ہرگز حرام نہیں چلی آرہی ہیں بلکہ یہ چیزیں) نزول توراۃ کے قبل باستثناء اس کے (یعنی گوشت شتر کے) جس کو (حضرت) یعقوب (علیہ السلام) نے (ایک خاص وجہ سے) اپنے نفس پر حرام کرلیا تھا، (اور پھر وہ ان کی اولاد میں بھی حرام چلا آیا، باقی سب چیزیں خود) بنی اسرائیل (تک) پر (بھی) حلال تھیں (تو ابراہیم (علیہ السلام) کے وقت سے ان کی تحریم کا دعوی کب صحیح ہوسکتا ہے، اور نزول توراۃ کے قبل اس واسطے فرمایا کہ نزول توراۃ کے بعد ان مذکورہ حلال چیزوں میں سے بھی بہت سی چیزیں حرام ہوگئی تھیں، جس کی کچھ تفصیل سورة انعام کی اس آیت میں ہے ( وعلی الذین ھادوا حرمنا کل ذی ظفر۔ الخ۔ ٦: ١٤٧) اور اگر اب بھی یہود کو تحریم کی قدامت مذکورہ کا دعوی ہے تو اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان سے) فرما دیجیے کہ (اچھا تو) پھر توراۃ لاؤ پھر اس کو (لاکر) پڑھو اگر تم (دعوی مذکور میں) سچے ہو (تو اس میں کوئی آیت وغیرہ اس مضمون کی نکال دو ، کیونکہ امور منقولہ میں نص کی ضرورت ہے، اور دوسری نصوص یقینا منفی ہیں، صرف توراۃ باقی ہے، سو اس میں دکھلا دو ، چناچہ اس میں نہ دکھلا سکے تو کذب ان کا اس دعوے میں ثابت ہوگیا، آگے اس پر مرتب کر کے فرماتے ہیں) سو جو شخص اس (ظہور کذب بالدلیل) کے بعد (بھی) اللہ تعالیٰ پر جھوٹ بات کی تہمت لگائے (جاوے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے وقت سے گوشت شتر وغیرہ کو حرام فرمایا ہے) تو ایسے لوگ بڑے بےانصاف ہیں۔ آپ کہہ دیجیے کہ اللہ تعالیٰ نے سچ کہہ دیا سو (اب) تم (کو چاہئے کہ بعد ثبوت حقیت قرآن کے) ملت ابراہیم (یعنی اسلام) کا اتباع (اختیار) کرو جس میں ذرا کجی نہیں اور وہ (ابراہیم علیہ السلام) مشرک نہ تھے۔- معارف و مسائل :- اوپر کی آیتوں میں اہل کتاب سے بحث چلی آتی ہے، کہیں یہود سے کہیں نصاری سے کہیں دونوں سے، ایک بحث کا آگے بیان آتا ہے، جس کا قصہ روح المعانی میں بروایت واحدی کلبی سے منقول ہے کہ جب حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنا ملت ابراہیمی پر ہونا باعتبار تمام اصول شرعیہ اور اکثر فروع کے بیان فرمایا تو یہود نے اعتراضا کہا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اونٹ کا گوشت اور دودھ کھاتے ہیں، حالانکہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) پر حرام تھا، جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جواب دیا کہ نہیں، ان پر یہ حلال تھا، یہود نے کہا جتنی چیزیں ہم حرام سمجھتے ہیں یہ سب حضرت نوح و حضرت ابراہیم (علیہما السلام) کے وقت سے حرام چلی آتی ہیں۔ یہاں تک کہ ہم تک وہ تحریم پہنچی، تو اللہ تعالیٰ نے مذکورہ آیت کل الطعام کان حلا لبنی اسرائیل الخ تکذیب یہود کے لئے نازل فرمائی، جس میں ارشاد فرمایا گیا ہے کہ نزول توراۃ کے قبل باستثناء اس کے یعنی گوشت شتر کے جس کو حضرت یعقوب (علیہ السلام) نے ایک خاص وجہ سے خود اپنے نفس پر حرام کرلیا تھا اور پھر وہ ان کی اولاد میں حرام چلا آیا، باقی سب چیزیں خود بنی اسرائیل پر بھی حلال تھیں۔ دراصل اس میں قصہ یہ ہوا کہ حضرت یعقوب (علیہ السلام) کو عرق النساء کا مرض تھا، آپ نے نذر مانی تھی کہ اگر اللہ تعالیٰ اس سے شفاء دیں تو سب سے زیادہ جو کھانا مجھ کو محبوب ہے اس کو چھوڑ دوں گا، ان کو شفاء ہوگئی اور سب سے زیادہ محبوب آپ کو اونٹ کا گوشت تھا اس کر ترک فرما دیا۔ (اخرجہ الحاکم وغیرہ بسند صحیح عن ابن عباس کذا فی روح المعانی واخرجہ الترمذی فی سورة الرعد مرفوعا) پھر یہی تحریم جو نذر سے ہوئی تھی بنی اسرائیل میں بحکم وحی باقی رہ گئی، اور معلوم ہوتا ہے کہ ان کی شریعت میں نذر سے تحریم بھی ہوجاتی ہوگی، جس طرح ہماری شریعت میں مباح کا ایجاب ہوجاتا ہے، مگر تحریم کی نذر جو درحقیقت یمین ہے ہماری شریعت میں جائز نہیں بلکہ اس میں قسم توڑنا پھر اس کا کفارہ دینا واجب ہے۔ کما قال اللہ تعالیٰ لم تحرم ما احل اللہ لک۔ ٦٦: ١) الایۃ۔ اسی طرح تفسیر کبیر میں ہے۔
كُلُّ الطَّعَامِ كَانَ حِلًّا لِّبَنِىْٓ اِسْرَاۗءِيْلَ اِلَّا مَا حَرَّمَ اِسْرَاۗءِيْلُ عَلٰي نَفْسِہٖ مِنْ قَبْلِ اَنْ تُنَزَّلَ التَّوْرٰىۃُ ٠ ۭ قُلْ فَاْتُوْا بِالتَّوْرٰىۃِ فَاتْلُوْھَآ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِيْنَ ٩٣- طعم - الطَّعْمُ : تناول الغذاء، ويسمّى ما يتناول منه طَعْمٌ وطَعَامٌ. قال تعالی: وَطَعامُهُ مَتاعاً لَكُمْ [ المائدة 96] ، قال : وقد اختصّ بالبرّ فيما روی أبو سعید «أنّ النّبيّ صلّى اللہ عليه وسلم أمر بصدقة الفطر صاعا من طَعَامٍ أو صاعا من شعیر» «2» . قال تعالی: وَلا طَعامٌ إِلَّا مِنْ غِسْلِينٍ [ الحاقة 36] ، - ( ط ع م ) الطعم - ( س) کے معنی غذا کھانے کے ہیں ۔ اور ہر وہ چیز جو بطورغذا کھائی جائے اسے طعم یا طعام کہتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : وَطَعامُهُ مَتاعاً لَكُمْ [ المائدة 96] اور اس کا طعام جو تمہارے فائدہ کے لئے ۔ اور کبھی طعام کا لفظ خاص کر گیہوں پر بولا جاتا ہے جیسا کہ ابوسیعد خدری سے ۔ روایت ہے ان النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) امر بصدقۃ الفطر صاعا من طعام اوصاعا من شعیر ۔ کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صدقہ فطر میں ایک صحابی طعام یا ایک صاع جو د ینے کے حکم دیا ۔ قرآن میں ہے : وَلا طَعامٌ إِلَّا مِنْ غِسْلِينٍ [ الحاقة 36] اور نہ پیپ کے سوا ( اس کے ) لئے کھانا ہے - حلَال - حَلَّ الشیء حلالًا، قال اللہ تعالی: وَكُلُوا مِمَّا رَزَقَكُمُ اللَّهُ حَلالًا طَيِّباً [ المائدة 88] ، وقال تعالی: هذا حَلالٌ وَهذا حَرامٌ [ النحل 116] - ( ح ل ل ) الحل - اصل میں حل کے معنی گرہ کشائی کے ہیں ۔ حل ( ض ) اشئی حلا کا محاورہ استعمال ہوتا ہے جس کے معنی کسی چیز کے حلال ہونا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَكُلُوا مِمَّا رَزَقَكُمُ اللَّهُ حَلالًا طَيِّباً [ المائدة 88] اور جو حلال طیب روزی خدا نے تم کو دی ہے اسے کھاؤ ۔ هذا حَلالٌ وَهذا حَرامٌ [ النحل 116] کہ یہ حلال ہے اور یہ حرام ہے - اِسْرَاۗءِيْلَ- ( بني) ، جمع ابن، والألف في ابن عوض من لام الکلمة المحذوفة فأصلها بنو .(إسرائيل) ، علم أعجمي، وقد يلفظ بتخفیف الهمزة إسراييل، وقد تبقی الهمزة وتحذف الیاء أي إسرائل، وقد تحذف الهمزة والیاء معا أي : إسرال .- حرم - الحرام : الممنوع منه إمّا بتسخیر إلهي وإمّا بشريّ ، وإما بمنع قهريّ ، وإمّا بمنع من جهة العقل أو من جهة الشرع، أو من جهة من يرتسم أمره، فقوله تعالی: وَحَرَّمْنا عَلَيْهِ الْمَراضِعَ [ القصص 12] ، فذلک تحریم بتسخیر، وقد حمل علی ذلك : وَحَرامٌ عَلى قَرْيَةٍ أَهْلَكْناها [ الأنبیاء 95] ، وقوله تعالی: فَإِنَّها مُحَرَّمَةٌ عَلَيْهِمْ أَرْبَعِينَ سَنَةً [ المائدة 26] ، وقیل : بل کان حراما عليهم من جهة القهر لا بالتسخیر الإلهي، وقوله تعالی: إِنَّهُ مَنْ يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَقَدْ حَرَّمَ اللَّهُ عَلَيْهِ الْجَنَّةَ [ المائدة 72] ، فهذا من جهة القهر بالمنع، وکذلک قوله تعالی: إِنَّ اللَّهَ حَرَّمَهُما عَلَى الْكافِرِينَ [ الأعراف 50] ، والمُحرَّم بالشرع : کتحریم بيع الطعام بالطعام متفاضلا، وقوله عزّ وجلّ : وَإِنْ يَأْتُوكُمْ أُساری تُفادُوهُمْ وَهُوَ مُحَرَّمٌ عَلَيْكُمْ إِخْراجُهُمْ [ البقرة 85] ، فهذا کان محرّما عليهم بحکم شرعهم، ونحو قوله تعالی: قُلْ : لا أَجِدُ فِي ما أُوحِيَ إِلَيَّ مُحَرَّماً عَلى طاعِمٍ يَطْعَمُهُ - الآية [ الأنعام 145] ، وَعَلَى الَّذِينَ هادُوا حَرَّمْنا كُلَّ ذِي ظُفُرٍ [ الأنعام 146] ، وسوط مُحَرَّم : لم يدبغ جلده، كأنه لم يحلّ بالدباغ الذي اقتضاه قول النبي صلّى اللہ عليه وسلم : «أيّما إهاب دبغ فقد طهر» .- وقیل : بل المحرّم الذي لم يليّن، والحَرَمُ : سمّي بذلک لتحریم اللہ تعالیٰ فيه كثيرا مما ليس بمحرّم في غيره من المواضع - وکذلک الشهر الحرام، وقیل : رجل حَرَام و حلال، ومحلّ ومُحْرِم، قال اللہ تعالی: يا أَيُّهَا النَّبِيُّ لِمَ تُحَرِّمُ ما أَحَلَّ اللَّهُ لَكَ تَبْتَغِي مَرْضاتَ أَزْواجِكَ [ التحریم 1] ، أي : لم تحکم بتحریم ذلک ؟ وكلّ تحریم ليس من قبل اللہ تعالیٰ فلیس بشیء، نحو : وَأَنْعامٌ حُرِّمَتْ ظُهُورُها [ الأنعام 138] ، وقوله تعالی: بَلْ نَحْنُ مَحْرُومُونَ [ الواقعة 67] ، أي : ممنوعون من جهة الجدّ ، وقوله : لِلسَّائِلِ وَالْمَحْرُومِ [ الذاریات 19] ، أي : الذي لم يوسّع عليه الرزق کما وسّع علی غيره . ومن قال : أراد به الکلب فلم يعن أنّ ذلک اسم الکلب کما ظنّه بعض من ردّ عليه، وإنما ذلک منه ضرب مثال بشیء، لأنّ الکلب کثيرا ما يحرمه الناس، أي : يمنعونه . والمَحْرَمَة والمَحْرُمَة والحُرْمَة، واستحرمت الماعز کناية عن إرادتها الفحل .- ( ح ر م ) الحرام - ( ح ر م ) الحرام وہ ہے جس سے روک دیا گیا ہو خواہ یہ ممانعت تسخیری یا جبری ، یا عقل کی رو س ہو اور یا پھر شرع کی جانب سے ہو اور یا اس شخص کی جانب سے ہو جو حکم شرع کو بجالاتا ہے پس آیت کریمہ ؛۔ وَحَرَّمْنا عَلَيْهِ الْمَراضِعَ [ القصص 12] اور ہم نے پہلے ہی سے اس پر ( دوائیوں کے ) دودھ حرام کردیتے تھے ۔ میں حرمت تسخیری مراد ہے ۔ اور آیت کریمہ :۔ وَحَرامٌ عَلى قَرْيَةٍ أَهْلَكْناها [ الأنبیاء 95] اور جس بستی ( والوں ) کو ہم نے ہلاک کردیا محال ہے کہ ( وہ دنیا کی طرف رجوع کریں ۔ کو بھی اسی معنی پر حمل کیا گیا ہے اور بعض کے نزدیک آیت کریمہ ؛فَإِنَّها مُحَرَّمَةٌ عَلَيْهِمْ أَرْبَعِينَ سَنَةً [ المائدة 26] کہ وہ ملک ان پر چالیس برس تک کے لئے حرام کردیا گیا ۔ میں بھی تحریم تسخیری مراد ہے اور بعض نے کہا ہے کہ یہ منع جبری پر محمول ہے اور آیت کریمہ :۔ إِنَّهُ مَنْ يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَقَدْ حَرَّمَ اللَّهُ عَلَيْهِ الْجَنَّةَ [ المائدة 72] جو شخص خدا کے ساتھ شرگ کریگا ۔ خدا اس پر بہشت کو حرام کردے گا ۔ میں بھی حرمت جبری مراد ہے اسی طرح آیت :۔ إِنَّ اللَّهَ حَرَّمَهُما عَلَى الْكافِرِينَ [ الأعراف 50] کہ خدا نے بہشت کا پانی اور رزق کا فروں پر حرام کردیا ہے ۔ میں تحریم بواسطہ منع جبری ہے اور حرمت شرعی جیسے (77) آنحضرت نے طعام کی طعام کے ساتھ بیع میں تفاضل کو حرام قرار دیا ہے ۔ اور آیت کریمہ ؛ وَإِنْ يَأْتُوكُمْ أُساری تُفادُوهُمْ وَهُوَ مُحَرَّمٌ عَلَيْكُمْ إِخْراجُهُمْ [ البقرة 85] اور اگر وہ تمہارے پاس قید ہوکر آئیں تو بدلادے کر ان کو چھڑی ابھی لیتے ہو حالانکہ ان کے نکال دینا ہی تم پر حرام تھا ۔ میں بھی تحریم شرعی مراد ہے کیونکہ ان کی شریعت میں یہ چیزیں ان پر حرام کردی گئی ۔ تھیں ۔ نیز تحریم شرعی کے متعلق فرمایا ۔ قُلْ : لا أَجِدُ فِي ما أُوحِيَ إِلَيَّ مُحَرَّماً عَلى طاعِمٍ يَطْعَمُهُ ... الآية [ الأنعام 145] الآیۃ کہو کہ ج و احکام مجھ پر نازل ہوئے ہیں ان کو کوئی چیز جسے کھانے والا حرام نہیں پاتا ۔ وَعَلَى الَّذِينَ هادُوا حَرَّمْنا كُلَّ ذِي ظُفُرٍ [ الأنعام 146] اور یہودیوں پر ہم نے سب ناخن والے جانور حرام کردیئے ۔ سوط محرم بےدباغت چمڑے کا گوڑا ۔ گویا دباغت سے وہ حلال نہیں ہوا جو کہ حدیث کل اھاب دبغ فقد طھر کا مقتضی ہے اور بعض کہتے ہیں کہ محرم اس کوڑے کو کہتے ہیں ۔ جو نرم نہ کیا گیا ہو ۔ الحرم کو حرام اس لئے کہا جاتا ہے کہ اللہ نے اس کے اندر بہت سی چیزیں حرام کردی ہیں جو دوسری جگہ حرام نہیں ہیں اور یہی معنی الشہر الحرام کے ہیں یعنی وہ شخص جو حالت احرام میں ہو اس کے بالمقابل رجل حلال ومحل ہے اور آیت کریمہ : يا أَيُّهَا النَّبِيُّ لِمَ تُحَرِّمُ ما أَحَلَّ اللَّهُ لَكَ تَبْتَغِي مَرْضاتَ أَزْواجِكَ [ التحریم 1] کے معنی یہ ہیں کہ تم اس چیز کی تحریم کا حکم کیون لگاتے ہو جو اللہ نے حرام نہیں کی کیونکہ جو چیز اللہ تعالیٰ نے حرام نہ کی ہو وہ کسی کے حرام کرنے سے حرام نہیں ہوجاتی جیسا کہ آیت : ۔ وَأَنْعامٌ حُرِّمَتْ ظُهُورُها [ الأنعام 138] اور ( بعض ) چار پائے ایسے ہیں کہ ان کی پیٹھ پر چڑھنا حرام کردیا گیا ہے ۔ میں مذکور ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ بَلْ نَحْنُ مَحْرُومُونَ [ الواقعة 67] بلکہ ہم ( برکشتہ نصیب ) بےنصیب ہیں ان کے محروم ہونے سے بد نصیبی مراد ہے ۔ اور آیت کریمہ : لِلسَّائِلِ وَالْمَحْرُومِ [ الذاریات 19] مانگنے والے اور نہ مانگنے ( دونوں ) میں محروم سے مراد وہ شخص ہے جو خوشحالی اور وسعت رزق سے محروم ہو اور بعض نے کہا ہے المحروم سے کتا مراد ہے تو اس کے معنی نہیں ہیں کہ محروم کتے کو کہتے ہیں جیسا ان کی تردید کرنے والوں نے سمجھا ہے بلکہ انہوں نے کتے کو بطور مثال ذکر کیا ہے کیونکہ عام طور پر کتے کو لوگ دور ہٹاتے ہیں اور اسے کچھ نہیں دیتے ۔ المحرمۃ والمحرمۃ کے معنی حرمت کے ہیں ۔ استحرمت الما ر عذ بکری نے نر کی خواہش کی دیہ حرمۃ سے ہے جس کے معنی بکری کی جنس خواہش کے ہیں ۔- نزل - النُّزُولُ في الأصل هو انحِطَاطٌ من عُلْوّ.- يقال : نَزَلَ عن دابَّته، والفَرْقُ بَيْنَ الإِنْزَالِ والتَّنْزِيلِ في وَصْفِ القُرآنِ والملائكةِ أنّ التَّنْزِيل يختصّ بالموضع الذي يُشِيرُ إليه إنزالُهُ مفرَّقاً ، ومرَّةً بعد أُخْرَى، والإنزالُ عَامٌّ ، فممَّا ذُكِرَ فيه التَّنزیلُ قولُه : نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء 193] وقرئ : نزل وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء 106] - ( ن ز ل ) النزول ( ض )- اصل میں اس کے معنی بلند جگہ سے نیچے اترنا کے ہیں چناچہ محاورہ ہے : ۔ نزل عن دابۃ وہ سواری سے اتر پڑا ۔ نزل فی مکان کذا کسی جگہ پر ٹھہر نا انزل وافعال ) اتارنا قرآن میں ہے ۔ عذاب کے متعلق انزال کا لفظ استعمال ہوا ہے قرآن اور فرشتوں کے نازل کرنے کے متعلق انزال اور تنزیل دونوں لفظ استعمال ہوئے ہیں ان دونوں میں معنوی فرق یہ ہے کہ تنزیل کے معنی ایک چیز کو مرۃ بعد اخریٰ اور متفرق طور نازل کرنے کے ہوتے ہیں ۔ اور انزال کا لفظ عام ہے جو ایک ہی دفعہ مکمل طور کیس چیز نازل کرنے پر بھی بولا جاتا ہے چناچہ وہ آیات ملا حضہ ہو جہاں تنزیل لا لفظ استعمال ہوا ہے ۔ نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء 193] اس کو امانت دار فر شتہ لے کر اترا ۔ ایک قرات میں نزل ہے ۔ وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء 106] اور ہم نے اس کو آہستہ آہستہ اتارا - توراة- التوراة التاء فيه مقلوب، وأصله من الوری، وبناؤها عند الکوفيين : ووراة، تفعلة «4» ، وقال بعضهم : هي تفعلة نحو تنفلة ولیس في کلامهم تفعلة اسما . وعند البصريين وورية، هي فوعلة نحو حوصلة . قال تعالی: إِنَّا أَنْزَلْنَا التَّوْراةَ فِيها هُدىً وَنُورٌ [ المائدة 44] ، ذلِكَ مَثَلُهُمْ فِي التَّوْراةِ ، وَمَثَلُهُمْ فِي الْإِنْجِيلِ [ الفتح 29] .- ( ت و ر ) التوراۃ آسمانی کتاب جو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر نازل کی گئی یہ وری سے مشتق ہے اور تاؤ واو سے مبدل سے علماء کوفہ کے نزدیک یہ وؤراۃ بروزن نفعلۃ ہے اور بعض کے نزدیک تفعل کے وزن پر ہے جیسے تنفل لیکن کلام عرب میں تفعل کے وزن پر اسم کا صیغہ نہیں آتا ۔ علماء بصرہ کے نزدیک یہ وؤری بروزن فوعل ہے جیسے قل قرآن میں ہے ؛۔ إِنَّا أَنْزَلْنَا التَّوْراةَ فِيها هُدىً وَنُورٌ [ المائدة 44] بیشک ہم نے تو رات نازل فرمائی جس میں ہدایت اور روشنی ہے ۔ ذلِكَ مَثَلُهُمْ فِي التَّوْراةِ ، وَمَثَلُهُمْ فِي الْإِنْجِيلِ [ الفتح 29] . ان کے اوصاف تو رات میں ( مرقوم ) ہیں اور یہی اوصاف انجیل میں ہیں ۔- أتى- الإتيان : مجیء بسهولة، ومنه قيل للسیل المارّ علی وجهه : أَتِيّ وأَتَاوِيّ وبه شبّه الغریب فقیل : أتاويّ والإتيان يقال للمجیء بالذات وبالأمر وبالتدبیر، ويقال في الخیر وفي الشر وفي الأعيان والأعراض، نحو قوله تعالی: إِنْ أَتاكُمْ عَذابُ اللَّهِ أَوْ أَتَتْكُمُ السَّاعَةُ [ الأنعام 40]- ( ا ت ی ) الاتیان ۔ ( مص ض ) کے معنی کسی چیز کے بسہولت آنا کے ہیں ۔ اسی سے سیلاب کو اتی کہا جاتا ہے اور اس سے بطور تشبیہ مسافر کو اتاوی کہہ دیتے ہیں ۔ الغرض اتیان کے معنی " آنا " ہیں خواہ کوئی بذاتہ آئے یا اس کا حکم پہنچے یا اس کا نظم ونسق وہاں جاری ہو یہ لفظ خیرو شر اور اعیان و اعراض سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : إِنْ أَتَاكُمْ عَذَابُ اللَّهِ أَوْ أَتَتْكُمُ السَّاعَةُ [ الأنعام : 40] اگر تم پر خدا کا عذاب آجائے یا قیامت آموجود ہو۔- تلو - تَلَاهُ : تبعه متابعة ليس بينهم ما ليس منها، وذلک يكون تارة بالجسم وتارة بالاقتداء في الحکم، ومصدره : تُلُوٌّ وتُلْوٌ ، وتارة بالقراءة وتدبّر المعنی، ومصدره : تِلَاوَة وَالْقَمَرِ إِذا تَلاها [ الشمس 2] - ( ت ل و ) تلاہ ( ن )- کے معنی کسی کے پیچھے پیچھے اس طرح چلنا کے ہیں کہ ان کے درمیان کوئی اجنبی کو چیز حائل نہ ہو یہ کہیں تو جسمانی طور ہوتا ہے اور کہیں اس کے احکام کا اتباع کرنے سے اس معنی میں اس کا مصدر تلو اور تلو آتا ہے اور کبھی یہ متا بعت کسی کتاب کی قراءت ( پڑھنے ) ۔ اور اس کے معانی سمجھنے کے لئے غور وفکر کرنے کی صورت میں ہوتی ہے اس معنی کے لئے اس کا مصدر تلاوۃ آتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَالْقَمَرِ إِذا تَلاها [ الشمس 2] اور چاند کی قسم جب وہ سورج کا اتباع کرتا ہے - صدق - الصِّدْقُ والکذب أصلهما في القول، ماضیا کان أو مستقبلا، وعدا کان أو غيره، ولا يکونان بالقصد الأوّل إلّا في القول، ولا يکونان في القول إلّا في الخبر دون غيره من أصناف الکلام، ولذلک قال : وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء 122] ،- ( ص دق) الصدق ۔- یہ ایک الکذب کی ضد ہے اصل میں یہ دونوں قول کے متعلق استعمال ہوتے ہیں خواہ اس کا تعلق زمانہ ماضی کے ساتھ ہو یا مستقبل کے ۔ وعدہ کے قبیل سے ہو یا وعدہ کے قبیل سے نہ ہو ۔ الغرض بالذات یہ قول ہی کے متعلق استعمال - ہوتے ہیں پھر قول میں بھی صرف خبر کے لئے آتے ہیں اور اس کے ماسوا دیگر اصناف کلام میں استعمال نہیں ہوتے اسی لئے ارشاد ہے ۔ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء 122] اور خدا سے زیادہ وہ بات کا سچا کون ہوسکتا ہے ۔
تمام ماکولات حلال ہیں مگر جس پر شریعت پابندی لگادے - قول باری ہے۔ (کل الطعام کان حلال لبنی اسرائیل الاماحرم اسرلم یل علی نفسہ، کھانے کی یہ ساری چیزیں (جوشریعت محمدی میں حلال ہیں) بنی اسرائیل کے لیے بھی حلال تھیں سوائے ان چیزوں کے جو بنی اسرائیل نے اپنے اوپر خود حرام کرلی تھیں) ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ یہ آیت اس بات کو واجب کرتی ہے کہ تمام ماکولات بنی اسرائیل کے لیے مباح تھیں۔ یہاں تک کہ اسرائیل یعنی حضرت یعقوب نے وہ چیزیں حرام کردیں جو انہوں نے اپنی ذات پر حرام کردی تھیں۔ حضرت ابن عباس (رض) اور حسن مروی ہے کہ اسرائیل کو عرق النساء کے درد کی بیماری لاحق ہوگئی تھی (یہ جوڑوں کے درد کی ایک قسم ہے جو ران سے شروع ہوتی ہے اور گھٹنے یاقدم تک چلی جاتی ہے۔ انہوں نے یہ تذرمانی تھی کہ اگر اللہ انہیں شفادے گا تو وہ اپنی مرغوب ترین غذا یعنی اونٹوں کا گوشت اپنے اوپر حرام کرلیں گے۔ قتادہ کا قول ہے کہ انہوں نے گوشت اتری ہوئی ہڈیاں (اور رگیں اپنے اور پر حرام کرلی تھیں۔- ایک روایت ہے کہ اسرائیل یعنی حضرت یعقوب بن اسحاق بن ابراہیم نے یہ نذرمانی تھی کہ اگر وہ عرق النساء کی بیماری سے صحت یاب ہوگئے تو اپنی مرغوب ترین غذ اور مشروب یعنی اونٹوں کا گوشت اور ان کادودھ اپنے اوپر حرام کرلیں گے۔ اس آیت کے نزول کا سبب یہ تھا کہ یہودنے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف سے اونٹوں کے گوشت کی تحلیل کے حکم پر تنقید کی کیونکہ وہ نسخ کو جائز نہیں سمجھتے تھے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی اور بتادیا کہ اونٹوں کا گوشت حضرت ابراہیم اور ان کی اولاد کے لیے مباح تھا یہاں تک کہ اسرائیل نے اسے اپنے اوپر حرام کرلیا۔ آپ نے یہودکوتورات سے دلیل دی لیکن انہیں تورات پیش کرنے کی ہمت نہیں ہوئی۔ کیونکہ انہیں معلوم تھا کہ آپ نے جس بات کی خبردی ہے وہ سچی بات ہے۔ اور تورات میں موجود ہے۔ نیز اس کے ذریعے آپ نے نسخ سے انکار کے بطلان کو بھی واضح کردیا اس لیے کہ یہ ممکن تھا کہ ایک چیز ایک وقت می مباح ہو پھر اس کی ممانعت ہوگئی ہو اور اس کے بعد پھر اس کی اباحرت ہوجائے۔ اس میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت کی صحت اور صداقت پر دلالت ہورہی ہے۔ اس لیے کہ آپ امی تھے نہ آپ نے آسمانی کتاب بیں پڑھی تھیں اور نہ ہی اہل کتاب کی ہمنشینی اختیار کی تھی۔ اس لیے آپ ابنیائے سابقین کی لائی ہوئی کتابوں میں درج شدہ باتوں سے صرف اللہ تعالیٰ کی طرف سے اطلاع دینے کی بناپرمطلع ہوئے تھے۔ کھانے کی یہ چیز جسے اسرائیل (علیہ السلام) نے اپنے اوپر حرام کردی تھی اور پھر وہ ان پر اور ان کی اولاد بنی اسرائیل پر حرام رہی اس پر قرآن کی یہ آیت دلالت کررہی ہے (کل الطعام کان حلالبنی اسرائیل الاماحرم اسرائیل علی نفسہ، اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کے لیے جو چیزیں حلال کردی تھیں ان میں سے اسے مستثنیٰ کردیا اور یہی وہ چیز تھی جو اسرائیل نے اپنے اوپرحرام کرلی تھی اور پھر وہ اسرائیل اور بنی اسرائیل سب کے لیے ممنوع ہوگئی۔- اگریہ کہاجائے کہ ایک انسان اپنے اوپر کس طرح کوئی چیز حرام کرسکتا ہے جبکہ اسے اباحت اور ممانعت کے تحت پائی جانے والی مصلحت کا کوئی علم نہیں ہوتا اس لیئے کہ بندوں کے مصالح کا علم تو صرف اللہ تعالیٰ کو ہے۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ ایسا کرنا جائز ہے کیونکہ ہوسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے انہیں کرنے کی اجازت مل گئی ہو جس طرح کہ احکام میں اللہ ہی کی اجازت سے اجتہاد کا جوازپیدا ہوا ہے اور اس طرح اجتہاد کی بناپر نکلنے والا نتیجہ اللہ تعالیٰ کا حکم بن جاتا ہے۔ نیز جب انسان کے لیے یہ جائز ہے کہ وہ اپنی بیوی کو طلاق کے ذریعے اور اپنی لونڈی کو عتق کے ذریعے اپنے اوپر حرام کرلے تو اسی طرح یہ جائز ہے کہ اللہ تعالیٰ اسے کسی خوردنی شئی کی تحریم کی اجازت دے دے اور یہ اجازت اسے یا تو بطریق نص حاصل ہو یا بطریق اجتہاد۔ اسرائیل نے اپنے اوپر جو کچھ حرام کرلیاتھایا تو اس کی تحریم ان کے اپنے اجتہاد کی بناپرواقع ہوئی تھی یا اللہ کی طرف سے ان کے حسب منشاء اس کی اجازت مل گئی تھی۔ ظاہر آیت اس پر دلالت کررہی ہے کہ تحریم کا وقوع حضرت اسرائیل (علیہ السلام) کے اپنے اجتہاد کی بناپر ہوا تھا اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے تحریم کی نسبت ان کی طرف کی ہے۔ اگر یہ تحریم اللہ تعالیٰ کی طرف سے توقیف کی بناپرہوتی توتحریم کی نسبت اللہ کی طرف ہوتی اور عبارت یوں ہوتی، الاماحرم اللہ علی سرائیل، (مگر جو کچھ اللہ نے اسرائیل پر حرام کردیا تھا) لیکن جب تحریم کی نسبت حضرت یعقوب (علیہ السلام) کی طرف ہوگئی تو اس سے یہ دلالت حاصل ہوگئی کہ بطریق اجتہاد اللہ تعالیٰ نے ان پر تحریم واجب کردی تھی۔- یہ بات اس پر دلالت کرتی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے احکام میں اجتہاد کرنا اسی طرح جائز تھا جس طرح کسی اور کے لیے۔ اس کام کے لیے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات دوسروں کے مقابلے میں اولی تھی اس لیے کہ آپ کی رائے کو دوسروں کی رائے پر فضیلت تھی اور قیاس کی صورتوں اور رائے سے کام لینے کی شکلوں کے متعلق آپ کا علم دوسروں کے علم کے مقابلے میں برتر تھا۔ ہم نے اصول فقہ میں ان تمام باتوں کی وضاحت کردی ہے۔- ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ اسرائیل (علیہ السلام) کی اپنی ذات پر چند کھانوں کی تحریم واقع ہوچکی تھی۔ اور ان کے کہے ہوئے الفاظ کا موجب اور تقاضا اس تحریم کے سوا اور کوئی چیز نہیں تھی۔ یہی تحریم ہمارے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شریعت کی وجہ سے منسوخ ہوگئی۔ وہ اس لیے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ماریہ قبطیہ کو اپنے اوپر حرام کرلیا تھا۔ ایک روایت میں ہے کہ آپ نے شہد کو اپنے اوپر حرام کرلیا تھا۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے ان دونوں چیزوں کو آپ کے لیے حرام قراردینے کی اجازت نہیں دی اور آپ کے کہے ہوئے الفاظ کے موجب اور تقاضے کو پورا کرنے کے لیے آپ پر قسم کا کفارہ لازم کردیا۔- اللہ کی حلال کردہ اشیاء کو نبی بھی حرام قرار نہیں دے سکتے۔- چنانچہ ارشاد ہوا (یایھا النبی لم تحرم مااحل اللہ لک تبتغی مرضات ازواجک واللہ غفوررحیم قدفرض اللہ لکم تحلۃ ایمانکم، اے نبی تم کیوں اپنے اوپر وہ چیزیں حرام کرتے ہو جو اللہ نے تمہارے لیے حلال کردی ہیں تم اپنی بیویوں کی خوشنودی کے طلبگارہو۔ اللہ تعالیٰ غفورالرحیم ہے اللہ نے تم پر تمھاری قسموں کا توڑدینا فرض قراردے دیا ہے) اللہ تعالیٰ نے تحریم کی صورت میں کفارئہ یمین کو جبکہ حرام کی ہوئی چیز کو اپنے لیے دوبارہ مباح کرلی جائے ۔ کسی چیزکو اپنے لیے مباح قرارنہ دینے کے سلسلے میں حلف اٹھالینے کے برابر قراردیا۔- ہمارے اصحاب کا بھی یہی قول ہے کہ اگر ایک شخص اپنی بیوی یا لونڈی یا اپنی مملوکہ کی کوئی شی اپنے سے مباح کرلے البتہ اس پر قسم کا کفارہ لازم ہوگا۔ ٹھیک اسی طرح جیسے کہ وہ یہ قسم کھالے کہ میں فلاں کھانا نہیں کھاؤں گا۔ اس لیے کہ وہ کھانا حلال ہوگا البتہ اس پر قسم کا کفارہ لازم ہوگا۔ تاہم ہمارے اصحاب نے ان دونوں صورتوں میں ایک فرق رکھا ہے وہ یہ کہ اگر کوئی شخص یہ قسم کھائے کہ میں یہ کھانا نہیں کھاؤں گا تو جب تک وہ ساراکھانا نہیں کھائے گا حانث نہیں ہوگا۔ لیکن اگر اس نے یہ کہا ہو کہ میں نے اپنے اوپر یہ کھانا حرام کرلیا ہے تو وہ اس کھانے کا کوئی حصہ بھی کھانے پر حانث ہوجائے گا اس لیے کہ جب اس نے لفظ تحریم کے ساتھ کھانا نہ کھانے کی قسم اٹھائی ہو تو اس نے گویا اس کھانے کے حصے کے کھالینے کے ساتھ قسم توڑلینے کا ارادہ کرلیا تھا۔- اس کے اس قول کی وہی حیثیت ہوگی جو اگر وہ یہ کہتا کہ ، خدا کی قسم میں اس کھانے کا کوئی جز نہیں کھاؤں گا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعلای نے جو چیزیں حرام کردی ہیں ان کا قلیل جز اور کثیر حصہ دونوں حرام کردیئے ہیں۔ اس طرح جو شخص کسی چیز کو اپنے اوپر حرام کرلیتا ہے توگویاوہ اس کے کسی بھی جز کونہ کھانے کی قسم کھالیتا ہے۔
(٩٣۔ ٩٤) سب کھانے کی چیزیں نزول توریت سے پہلے سوائے اس کے جس کو حضرت یعقوب (علیہ السلام) نے اپنے اوپر حرام کرلیا تھا، بنی اسرائیل پر حلال تھیں وہ سب کھانے کی چیزیں آج رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کی امت پر حلال ہیں۔- توریت کے نازل ہونے سے پہلے حضرت یعقوب (علیہ السلام) نے نذر مانی تھی جس کی بنا پر انہوں نے اپنے اوپر اونٹ کا گوشت اور اس کا دودھ حرام کرلیا تھا۔- جب یہ آیت مبارکہ نازل ہوئی تو رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہود سے دریافت کیا کہ حضرت یعقوب (علیہ السلام) نے اپنے کون سے کھانوں کو حرام کیا تھا وہ بولے حضرت یعقوب (علیہ السلام) نے اپنے اوپر کھانے کی کسی بھی چیز کو حرام نہیں کیا تھا اور جو چیزیں ہم پر حرام ہیں، جیسا کہ اونٹ کا گوشت اور اس کا دودھ اور گائے، بکری کی چربی وغیرہ وہ حضرت آدم سے لے کر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) تک ہر ایک نبی پر حرام رہی ہیں اور تم ان چیزوں کو حلال سمجھتے ہو پھر یہودی بولے کہ ان چیزوں کی حرمت توریت میں موجود ہے، اس پر اللہ تعالیٰ نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے فرمایا کہ آپ ان لوگوں سے فرما دیجیے کہ اگر تم لوگ اپنے دعوے میں سچے ہو تو توریت لا کر دکھا دو مگر وہ لے کر نہ آئے اور بخوبی سمجھ گئے کہ وہی جھوٹے ہیں، اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ اس واضح بیان کے بعد بھی جو اللہ تعالیٰ پر جھوٹ باندھے وہ پکا کافر ہے۔
آیت ٩٣ (کُلُّ الطَّعَامِ کَان حلاًّ لِّبَنِیْ اِسْرَآءِ یْلَ ) (اِلاَّ مَا حَرَّمَ اِسْرَآءِ یْلُ عَلٰی نَفْسِہٖ مِنْ قَبْلِ اَنْ تُنَزَّلَ التَّوْرٰٹۃُ ط) - یہودی شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر اعتراض کرتے تھے کہ اس میں بعض ایسی چیزیں حلال قرار دی گئی ہیں جو شریعت موسوی ( علیہ السلام) میں حرام تھیں۔ مثلاً ان کے ہاں اونٹ کا گوشت حرام تھا ‘ لیکن شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں یہ حرام نہیں ہے۔ اگر یہ بھی آسمانی شریعت ہے تو یہ تغیر کیسے ہوگیا ؟ یہاں اس کی حقیقت بتائی جا رہی ہے کہ تورات کے نزول سے قبل حضرت یعقوب (علیہ السلام) نے طبعی کراہت یا کسی مرض کے باعث بعض چیزیں اپنے لیے ممنوع قرار دے لی تھیں جن میں اونٹ کا گوشت بھی شامل تھا۔ جیسے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی دو ازواج کی دلجوئی کی خاطر شہد نہ کھانے کی قسم کھالی تھی ‘ جس پر یہ آیت نازل ہوئی : (یٰٓاَیُّھَا النَّبِیُّ لِمَ تُحَرِّمُ مَا اَحَلَّ اللّٰہُ لَکَج تَبْتَغِیْ مَرْضَاتَ اَزْوَاجِکَ ط) (التحریم : ١) حضرت یعقوب ( علیہ السلام) کی اولاد نے بعد میں ان چیزوں کو حرام سمجھ لیا ‘ اور یہ چیز ان کے ہاں رواج کے طور پر چلی آرہی تھی۔ تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ان چیزوں کی حرمت تورات میں نازل نہیں ہوئی۔ کھانے پینے کی وہ تمام چیزیں جو اسلام نے حلال کی ہیں وہ بنی اسرائیل کے لیے بھی حلال تھیں ‘ سوائے ان چیزوں کے کہ جنہیں حضرت یعقوب (علیہ السلام) نے اپنی ذاتی ناپسند کے باعث اپنے اوپر حرام ٹھہرا لیا تھا ‘ اور یہ بات تورات کے نزول سے بہت پہلے کی ہے۔ اس لیے کہ حضرت یعقوب ( علیہ السلام) میں اور نزول تورات میں چار پانچ سو سال کا فصل ہے۔ - ( قُلْ فَاْتُوْا بالتَّوْرٰٹۃِ فَاتْلُوْہَآ اِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ ) - تورات کے اندر تو کہیں بھی اونٹ کے گوشت کی حرمت مذکور نہیں ہے۔
سورة اٰلِ عِمْرٰن حاشیہ نمبر :76 قرآن اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات پر جب علماء یہود کوئی اصولی اعتراض نہ کر سکے ( کیونکہ اساس دین جن امور پر ہے ان میں انبیاء سابقین کی تعلیمات اور نبی عربی صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم میں یک سر مو فرق نہ تھا ) تو انہوں نے فقہی اعتراضات شروع کیے ۔ اس سلسلہ میں ان کا پہلا اعتراض یہ تھا کہ آپ نے کھانے پینے کی بعض ایسی چیزوں کو حلال قرار دیا ہے جو پچھلے انبیاء کے زمانہ سے حرام چلی آرہی ہیں ۔ اسی اعتراض کا یہاں جواب دیا جا رہا ہے ۔ سورة اٰلِ عِمْرٰن حاشیہ نمبر :77 ”اسرائیل“ سے مراد اگر بنی اسرائیل لیے جائیں تو مطلب یہ ہو گا کہ نزول توراة سے قبل بعض چیزیں بنی اسرائیل نے محض رسماً حرام قرار دے لی تھیں ۔ اور اگر اس سے مراد حضرت یعقوب علیہ السلام لیے جائیں تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ آنجناب نے بعض چیزوں سے طبعی کراہت کی بنا پر یا کسی مرض کی بنا پر احتراز فرمایا تھا اور ان کی اولاد نے بعد میں انہیں ممنوع سمجھ لیا ۔ یہی موخر الذکر روایت زیادہ مشہور ہے ۔ اور بعد والی آیت سے یہ بات صاف طور پر ظاہر ہوتی ہے کہ اونٹ اور خرگوش وغیرہ کی حرمت کا جو حکم بائیبل میں لکھا ہے وہ اصل توراة کا حکم نہیں ہے بلکہ یہودی علماء نے بعد میں اسے داخل کتاب کر دیا ہے ۔ ( مفصل بحث کے لیے ملاحظہ ہو سورہ انعام حاشیہ نمبر ١۲۲ ) ۔
33: بعض یہودیوں نے مسلمانوں پر یہ اعتراض کیا تھا کہ آپ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ آپ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پیروکار ہیں، حالانکہ آپ اُونٹ کا گوشت کھاتے ہیں، جوتورات کی رُو سے حرام ہے۔ ان آیات میں اس اعتراض کا جواب یہ دیا گیا ہے کہ اُونٹ کا گوشت حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دین میں حرام نہیں تھا، بلکہ تورات نازل ہونے سے پہلے بنی اِسرائیل کے لئے بھی وہ سب چیزیں حلال تھیں جو آج مسلمانوں کے لئے حلال ہیں۔ البتہ ہوا یہ تھا کہ حضرت یعقوب علیہ السلام نے اُونٹ کا گوشت اپنے اوپر حرام کرلیا تھا، جس کی وجہ حضرت ابن عباسؓ نے یہ بتائی ہے کہ ان کو عرق النساء کی بیماری تھی، اور انہوں نے یہ نذر مانی تھی کہ اگر مجھے اس بیماری سے شفا ہوگئی تو میں اپنے کھانے کی سب سے پسندیدہ چیز چھوڑدوں گا۔ انہیں اُونٹ کا گوشت سب سے زیادہ پسند تھا، اس لئے شفا حاصل ہونے پر انہوں نے اسے چھوڑدیا (روح المعانی بحوالہ مستدرک حاکم بسند صحیح) اب قرآنِ کریم نے یہاں صریح الفاظ میں یہ بات نہیں بتائی کہ آیا اس کے بعد یہ گوشت بنی اسرائیل پر بھی حرام کردیا گیا تھا یا نہیں، لیکن سورہ نسا (۴: ۰۶۱) میں اﷲ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ بنی اسرائیل کی نافرمانیوں کی وجہ سے ان پر بہت سی اچھی چیزیں بھی حرام کردی گئی تھیں۔ اور اسی سورت کی آیت نمبر ۵۰ میں گذرچکا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے بنی اسرائیل سے کہا تھا کہ: ’’اور جو کتاب مجھ سے پہلے آچکی ہے، یعنی تورات، میں اس کی تصدیق کرنے والا ہوں، اور (اس لئے بھیجا گیا ہوں) تاکہ کچھ چیزیں جو تم پر حرام کی گئی تھیں، اب تمہارے لئے حلال کردوں۔‘‘ نیز یہاں ’’تورات نازل ہونے سے پہلے‘‘ کے الفاظ بھی یہ بتارہے ہیں کہ اُونٹ کا گوشت شاید تورات نازل ہونے کے بعد ان پر حرام کردیا گیا تھا، اب جو چیلنج ان کو دیا گیا ہے کہ ’’اگر تم سچے ہو تو تورات لے کر آو اور اس کی تلاوت کرو۔‘‘ اس کا مطلب یہ ہے کہ تورات میں یہ کہیں مذکور نہیں ہے کہ اُونٹ کا گوشت حضرت ابراہیم علیہ السلام کے وقت سے حرام چلا آتا ہے۔ اس کے برعکس یہ حکم صرف بنی اسرائیل کو دیا گیا تھا، چنانچہ اب بھی بائبل کی کتاب احبار میں جو یہودیوں اور عیسائیوں کی نظر میں تورات کا ایک حصہ ہے، اُونٹ کی حرمت بنی اسرائیل ہی کے لئے بیان ہوئی ہے : ’’تم بنی اسرائیل سے کہو کہ… تم اِن جانوروں کا گوشت نہ کھانا، یعنی اُونٹ کو… سو وہ تمہارے لئے ناپاک ہے۔‘‘ (احبار ۱۱: ۱۔ ۴) خلاصہ یہ کہ اُونٹ کا گوشت اصلا حلال ہے، مگر حضرت یعقوب علیہ السلام کے لئے نذر کی وجہ سے اور بنی اسرائیل کے لئے ان کی نافرمانیوں کی بنا پر حرام کیا گیا تھا۔ اب اُمتِ محمدیہ علیٰ صاحبہا السلام میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے زمانے کا اصل حکم لوٹ آیا ہے۔