Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

بتدریج نظام حیات فرماتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی قدرت کی بیشمار نشانیوں میں سے ایک نشانی یہ بھی ہے کہ اس نے تمہارے باپ حضرت آدم کو مٹی سے پیدا کیا ۔ تم سب کو اس نے بےوقعت پانی کے قطرے سے پیدا کیا ۔ پھر تمہاری بہت اچھی صورتیں بنائیں نطفے سے خون بستہ کی شکل میں پھر گوشت کے لوتھڑے کی صورت میں ڈھال کر پھر ہڈیاں بنائیں اور ہڈیوں کو گوشت پہنایا ۔ پھر روح پھونکی ، آنکھ ، کان ، ناک پیدا کئے ماں کے پیٹ سے سلامتی سے نکالا ، پھر کمزوری کو قوت سے بدلا ، دن بدن طاقتور اور مضبوط قدآور زورآور کیا ، عمر دی حرکت وسکون کی طاقت دی اسباب اور آلات دئیے اور مخلوق کا سردار بنایا اور ادھر سے ادھر پہنچنے کے ذرائع دئیے ۔ سمندروں کی زمین کی مختلف سواریاں عطا فرمائیں عقل سوچ سمجھ تدبر غور کے لیے دل ودماغ عطا فرمائے ۔ دنیاوی کام سمجھائے رزق عزت حاصل کرنے لے طریقے کھول دئیے ۔ ساتھ ہی آخرت کو سنوارنے کا علم اور دنیاوی علم بھی سکھایا ۔ پاک ہے وہ اللہ جو ہر چیز کا صحیح اندازہ کرتا ہے ہر ایک کو ایک مرتبے پر رکھتا ہے ۔ شکل وصورت میں بول چال میں امیری فقیری میں عقل وہنر میں بھلائی برائی میں سعادت وشقات میں ہر ایک کو جداگانہ کردیا ۔ تاکہ ہر شخص رب کی بہت سی نشانیاں اپنے میں اور دوسرے میں دیکھ لے ۔ مسند احمد میں حدیث ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے تمام زمین سے ایک مٹھی مٹی کی لیکر اس سے حضرت آدم علیہ السلام کو پیدا کیا ۔ پس زمین کے مختلف حصوں کی طرح اولاد آدم کی مختلف رنگتیں ہوئیں ۔ کوئی سفید کوئی سرخ کوئی سیاہ کوئی خبیث کوئی طیب کوئی خوش خلق کوئی بدخلق وغیرہ ۔ پھر فرماتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ایک نشانی قدرت یہ بھی ہے کہ اس نے تمہاری ہی جنس سے تمہارے جوڑے بنائے کہ وہ تمہاری بیویاں بنتی ہیں اور تم ان کے خاوند ہوتے ہو ۔ یہ اس لئے کہ تمہیں ان سے سکوں وراحت آرام وآسائش حاصل ہو ۔ جیسے ایک اور آیت میں ہے اللہ تعالیٰ نے تمہیں ایک ہی نفس سے پیدا کیا اور اسی سے اس کی بیویاں پیدا کی تاکہ وہ اس کی طرف راحت حاصل کرے ۔ حضرت حوا حضرت آدم کی بائیں پسلی سے جو سب سے زیادہ چھوٹی ہے پیدا ہوئی ہیں پس اگر انسان کا جوڑا انسان سے نہ ملتا اور کسی اور جنس سے ان کا جوڑا بندھتا تو موجودہ الفت ورحمت ان میں نہ ہوسکتی ۔ یہ پیار اخلاص یک جنسی کی وجہ سے ہے ۔ ان میں آپس میں محبت مودت رحمت الفت پیار اخلاص رحم اور مہربانی ڈال دی پس مرد یا تو محبت کی وجہ سے عورت کی خبر گیری کرتا ہے یاغم کھاکر اس کا خیال رکھتا ہے ۔ اس لئے کہ اس سے اولاد ہو چکی ہے اس کی پرورش ان دونوں کے میل ملاپ پر موقوف ہے الغرض بہت سی وجوہات رب العلمین نے رکھ دی ہیں ۔ جن کے باعث انسان با آرام اپنے جوڑے کے ساتھ زندگی گذارتا ہے ۔ یہ بھی رب کی مہربانی اور اس کی قدرت کاملہ کی ایک زبردست نشانی ہے ۔ ادنی غور سے انسان کا ذہن اس تک پہنچ جاتا ہے ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

201اذا فجائیہ ہے مقصود اس سے ان اطوار کی طرف اشارہ ہے جن سے گزر کر بچہ پورا انسان بنتا ہے جس کی تفصیل قرآن میں دوسرے مقامات پر بیان کی گئی ہے تَنْتَشِرُو نَ سے مراد انسان کا کسب معاش اور دیگر حاجات و ضروریات بشریہ کے لئے چلنا پھرنا ہے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١٧] انسان کیا ہے ؟ چند عناصر کا مجموعہ جو سطح ارضی پر ہر جگہ پائے جاتے ہیں۔ مثلاً سوڈی، کیلشم، کاربن، اور چند دوسرے نمکیات اور یہ انسان میں کتنی کتنی مقدار میں موجود ہوتے ہیں۔ یہ بھی حضرت انسان نے پتہ لگا لیا ہے مگر انھیں عناصر کو اسی مقادر میں لے کر ایک زندہ انسان پیدا کردینا اس کی بساط اور اس کی سمجھ سے باہر ہے۔ روح کی چیز ہے، کہاں سے آتی ہے اور کب آتی ہے۔ یہ سمجھنا بھی ناممکنات سے ہے۔ پھر اس مٹی کے پتلے کے اندر اللہ تعالیٰ جذبات، احساسات، عقل، شعور، ارادہ، اختیار اور بیشمار قوتیں پیدا کردی ہیں جو از خود کام کر رہی ہیں اور اسی میں انسان کے ارادہ کو ذرہ بھر دخل نہ ہوگا۔ سامنے سے کسی خطرناک چیز کے منہ پر گرنے کا خطرہ ہو تو انسان کے سوچنے سے پہلے ہی اس کی آنکھ کے پپوٹے بند ہو کر اس کی آنکھوں کو محفوظ کرتے ہیں۔ خوراک ہضم ہو کر معدہ خالی ہوجائے تو از خود بھوک لگ جاتی ہے۔ اور انسان مجبور ہوتا ہے کہ کچھ کھائے۔ بدن کو پانی کی ضرورت ہو تو انسان پانی پینے پر مجبور ہوتا ہے۔ اسی طرح ہضم شدہ خوراک کے فضلات کے دفع کرنے کے لئے طبیعت اس کو مجبور کردیتی ہے کہ اٹھ کر سب سے پہلے یہ کام کرے۔ پھر اس آدم کے مٹی کے پتلے سے ہی اس کا جوڑا بنایا اور ان دونوں سے اربوں کی تعداد میں انسان پیدا کردیئے۔ جن میں سے ہر ایک کی شکل و صورت، آواز، لب و لہجہ، حتیٰ کہ کھانسنے کی آواز دوسرے سے الگ ہوتی ہے۔ ایسا نہیں ہوتا کہ اللہ نے ایک مشین لگا دی ہو جس سے ایک ہی ماڈل کے انسان بن کر نکل رہے ہوں۔ جس کا صاف مطلب یہ ہے کہ ہر انسان کی تخلیق میں اللہ تعالیٰ کی انفرادی توجہ ہوتی ہے۔ کیا اس تخلیق کے عظیم کارنامہ کو اتفاقات کا نتیجہ کہا جاسکتا ہے ؟ جیسا کہ مادہ پرستوں کا خیال ہے۔ اور یہ اتفاقات کا ہی نتیجہ ہو تو ایسا کیوں نہیں ہوتا کہ ایک شخص کی ایک ٹانگ لمبی ہو اور دوسری چھوٹی ہو۔ یا ایک آنکھ کی پتلی کالی ہو اور دوسری کی نیلی ہو۔ اختلاف اور یکسانیت کا یہ حسین امتزاج اس بات پر دلالت نہیں کرتا کہ انسان کو بنانے والے قادر مطلق بھی ہے اور حکیم مطلق بھی اور وہ صرف ایک ہی ہوسکتی ہے ؟

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَمِنْ اٰيٰتِهٖٓ ۔۔ : یہاں سے چھ آیات تک ایسی نشانیوں یعنی عجیب و غریب چیزوں کا بیان ہے جو ایک تو اوپر کے سلسلہ کلام کے مطابق اس بات کی دلیل ہیں کہ اللہ تعالیٰ اس پر قادر ہے کہ مرنے کے بعد لوگوں کو دوبارہ زندہ کر کے ان کا محاسبہ کرے اور انھیں جزا و سزا دے۔ دوسرے وہ اس بات کی دلیل ہیں کہ یہ کائنات نہ خود بنی ہے، نہ خودبخود چل رہی ہے اور نہ ہی ایک سے زیادہ ہستیوں نے اسے بنایا ہے، بلکہ اسے اکیلے اللہ نے پیدا فرمایا ہے، وہی اسے چلا رہا ہے، اس کارخانہ ہستی میں کوئی اس کا شریک نہیں۔ یہ چھ کی چھ آیات ”ۧوَمِنْ اٰيٰتِهٖٓ“ کے الفاظ سے شروع ہوتی ہیں۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی آیات اور اس کے عجائب قدرت میں سے یہ چند آیات ہیں، تمام آیات کا شمار ہی نہیں، مگر سمجھنے اور ایمان لانے کے لیے یہی نشانیاں کافی ہیں۔- اَنْ خَلَقَكُمْ مِّنْ تُرَابٍ ۔۔ : ” تُرَابٍ “ پر تنوین تقلیل و تحقیر کی ہے، اس لیے ترجمہ ” حقیر مٹی “ کیا گیا ہے۔ اپنی نشانیوں میں سب سے پہلے انسان کی پیدائش کا ذکر فرمایا، کیونکہ انسان دوسری تمام چیزوں سے زیادہ اپنے آپ کو جانتا ہے اور اسے اپنے وجود پر غور کسی بھی دوسری چیز پر غور سے زیادہ آسان ہے۔ ” اَنْ خَلَقَكُمْ مِّنْ تُرَابٍ “ کے دو مطلب ہوسکتے ہیں، ایک یہ کہ تمہیں حقیر مٹی سے پیدا کرنے سے مراد یہ ہو کہ تمہارے باپ آدم کو حقیر مٹی سے پیدا کیا۔ ” ثم “ (پھر) کے لفظ کا مطلب یہ ہے کہ اسے اکیلے ہی کو بنا کر نہیں چھوڑ دیا بلکہ نطفے اور بیضے کے ملاپ کے ساتھ اس کے توالد و تناسل کا ایسا عظیم الشان سلسلہ جاری کیا کہ تم بشر کی صورت میں ساری زمین پر پھیل رہے ہو اور سیکڑوں ہزاروں سالوں سے یہ سلسلہ جاری ہے۔ لفظ ” اذا “ (اچانک) عموماً ” فاء “ کے بعد آتا ہے، یہاں ” ثم “ کے بعد آیا ہے، جس میں تاخیر کا مفہوم پایا جاتا ہے۔ اس میں اس تاخیر اور ان مراحل کی طرف بھی اشارہ ہے جو آدم (علیہ السلام) کی مٹی سے تخلیق اور اس کے بعد کے انسانوں کے وجود میں آنے کے دوران پیش آتے ہیں، مثلاً نطفہ، علقہ اور مضغہ وغیرہ۔- دوسرا مطلب یہ کہ ” تمہیں حقیر مٹی سے پیدا کیا “ سے مراد یہ ہو کہ اس نے تم سب کو حقیر مٹی سے پیدا کیا، یعنی یہ اللہ تعالیٰ کی قدرت کی ایک نشانی ہے کہ اس نے تمام انسانوں کو مٹی سے پیدا کیا، جو مردہ ہے، جس میں زندگی کا نام و نشان نہیں۔ ” مٹی “ کا مزاج سرد خشک ہے، وہ حرارت سے خالی ہے اور رطوبت سے بھی، جن سے حیات وجود میں آتی ہے۔ تمہارا وجود اور ان تمام اشیاء کا وجود جن سے تمہاری زندگی قائم ہے، اسی بےجان مٹی سے قائم ہے۔ کیونکہ انسان کی پیدائش نطفہ سے ہے، جو ظاہر ہے غذا سے بنتا ہے اور غذا نباتات سے بنتی ہے یا حیوانات کے گوشت، دودھ اور گھی سے، ان حیوانات کی زندگی بھی نباتات یا ایسی چیزوں پر موقوف ہے جو زمین سے پیدا ہوتی ہیں۔ غرض تمہارا وجود اس مردہ مٹی سے ہے جس سے پیدا ہونے کے مرحلے گزارنے کے بعد تم اچانک بشر کی صورت میں زمین میں پھیل رہے ہو۔ ” اچانک “ اس لیے فرمایا کہ تخلیق کے تمام مراحل لوگوں کی نگاہوں سے مخفی ہوتے ہیں، تمام مراحل مکمل ہونے کے بعد ماں کے پیٹ سے بچے اور انڈے سے چوزے کا ظہور اچانک ہوتا ہے۔ ان مراحل کے لیے دیکھیے سورة حج (٥) اور سورة مومنون (١٢، ١٣) ۔- تَنْتَشِرُوْنَ : یعنی بےجان مٹی سے پیدا کر کے تمہیں ایسی بھرپور زندگی عطا فرمائی کہ تم پوری زمین میں پھیل گئے۔ تم نے محل، قلعے، آبادیاں اور شہر تعمیر کیے، خشکی، سمندر اور فضا میں سفر کے ذریعے سے زمین کا کونا کونا چھان مارا۔ شہروں میں دیکھو یا صحراؤں میں، جنگلوں میں دیکھو یا پہاڑوں کی چوٹیوں پر یا سمندروں کی وسعتوں میں، ہر جگہ انسان کا وجود نظر آجائے گا۔ یہ سب اس وحدہ لا شریک لہ کی قدرت کا کرشمہ ہے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر - اور اسی کی (قدرت کی) نشانیوں میں سے ایک یہ (امر) ہے کہ تم کو مٹی سے پیدا کیا (یا تو اس طرح کہ آدم (علیہ السلام) مٹی سے پیدا ہوئے جو مشتمل تھے تمام ذریت پر اور یا اس طرح کہ نطفہ کی اصل غذا ہے اور اس کی اصل عناصر ہیں جس میں جزو غالب مٹی ہے) پھر تھوڑے ہی روز بعد (کیا ہوا کہ) تم آدمی بن کر (زمین پر) پھیلے ہوئے پھرتے (نظر آتے) ہو اور اسی کی (قدرت کی) نشانیوں میں سے یہ (امر) ہے کہ اس نے تمہارے (فائدے کے) واسطے تمہاری جنس کی بیبیاں بنائیں (اور وہ فائدہ یہ ہے کہ) تاکہ تم کو ان کے پاس آرام ملے اور تم میاں بی بی میں محبت اور ہمدردی پیدا کی، اس (امر مذکور) میں (بھی) ان لوگوں کے لئے (قدرت کی نشانیاں ہیں جو فکر سے کام لیتے ہیں (کیونکہ استدلال کے لئے فکر کی ضرورت ہے اور نشانیاں جمع اس لئے فرمایا کہ امر مذکور کئی امر پر مشتمل ہے) اور اسی کی قدرت کی) نشانیوں میں سے آسمان اور زمین کا بنانا ہے اور تمہارے لب و لہجہ اور رنگتوں کا الگ الگ ہونا ہے، (لب و لہجہ سے مراد یا لغات ہوں یا آواز و طرز گفتگو) اس (امر مذکور) میں (بھی) دانشمندوں کے لئے (قدرت کی) نشانیاں ہیں (یہاں بھی صیغہ جمع لانے کی وہی توجیہہ مذر ہو سکتی ہے اور اس کی (قدرت کی) نشانیوں میں سے تمہارا سونا لیٹنا ہے رات میں اور دن میں (گو رات کو زیادہ اور دن کو کم ہو) اور اس کی روزی کو تمہارا تلاش کرنا ہے (دن کو زیادہ اور رات کو کم، اسی لئے دوسری آیات میں نیند کو رات کے ساتھ اور تلاش معاش کو دن کے ساتھ خاص کر کے بیان کیا گیا ہے) اس امر مذکور) میں (بھی) ان لوگوں کے لئے (قدرت کی) نشانیاں ہیں جو (دلیل کو توجہ سے) سنتے ہیں اور اسی کی (قدرت کی) نشانیوں میں سے یہ (امر) ہے کہ وہ تم کو (بارش کے وقت) بجلی (چمکتی ہوئی) دکھلاتا ہے جس سے (اس کے گرنے کا) ڈر بھی ہوتا ہے اور (اس سے بارش کی) امید بھی ہوتی ہے اور وہی آسمان سے پانی برساتا ہے پھر اس سے زمین کو اس کے مردہ (یعنی خشک) ہوجانے کے بعد زندہ (یعنی ترو تازہ) کردیتا ہے اس (امر مذکور) میں (بھی) ان لوگوں کے لئے (قدرت کی) نشانیاں ہیں جو عقل (نافع رکھتے ہیں) اور اسی کی (قدرت کی) نشانیوں میں سے یہ (امر) ہے کہ آسمان اور زمین اس کے حکم (یعنی ارادہ) سے قائم ہیں (اس میں بیان ہے کہ ان کے ابقاء کا اور اوپر خَلْقُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ میں ذکر تھا ان کی ابتداء آفرنیش کا اور یہ تمام نظام عالم جو مذکور ہوا، یعنی تمہارا سلسلہ توالد و تناسل کا جاری ہونا اور باہم ازواج ہونا اور آسمان و زمین کا بہیئت کذائیہ موجود و قائم ہونا اور زبانوں اور رنگتوں کا اختلاف اور لیل و نہار کے انقلاب میں خاص مصلحتوں کا ہونا اور بارش کا نزول اور اس کے مبادی و آثار کا ظہور وہ سب اسی وقت تک باقی ہیں جب تک دنیا کو باقی رکھنا مقصود ہے اور ایک روز یہ سب ختم ہوجائے گا) پھر (اس وقت یہ ہوگا کہ) جب تم کو پکار کر زمین میں سے بلاوے گا تو تم یکبارگی نکل پڑو گے (اور دوسرا نظام شروع ہوجائے گا جو مقصود مقام ہے) اور (اوپر دلائل قدرت سے معلوم ہوگیا ہوگا کہ) جتنے (فرشتے اور انسان وغیرہ) آسمان اور زمین میں موجود ہیں سب اسی کے (مملوک) ہیں (اور) سب اسی کے تابع (یعنی مسخر قدرت) ہیں اور (اس ثبوت و اختصاص قدرت کاملہ سے یہ ثابت ہوگیا کہ) وہی ہے جو اول بار پیدا کرتا ہے (چنانچہ یہ مخاطبین کے نزدیک بھی مسلم تھا) پھر وہی دوبارہ پیدا کرے گا (جیسا کہ دلائل مذکورہ کے ساتھ خبر صادق کے مل جانے سے معلوم ہوا) اور یہ (دوبارہ پیدا کرنا) اس کے نزدیک (با اعتبار مخاطبین کے بادی النظر کے بہ نسبت اول بار پیدا کرنے کے) زیادہ آسان ہے (جیسا قدرت بشریہ کے اعتبار سے عادت غالبہ یہی ہے کہ کسی چیز کو پہلی بار کے بنانے سے دوسری بار بنانا سہل تر ہوتا ہے) اور آسمان اور زمین میں اسی کی شان (سب سے) اعلی ہے (یعنی نہ آسمانوں میں کوئی ایسا بڑا ہے اور نہ زمین میں کقولہ وَلَهُ الْكِبْرِيَاۗءُ فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ) اور وہ (بڑا) زبردست (یعنی قادر مطلق اور) حکمت والا ہے چناچہ اوپر کے تصرفات سے قدرت اور حکمت دونوں ظاہر ہیں، پس وہ اپنی قدرت سے اعادہ کرے گا اور اس اعادہ تخلیق میں جتنا توقف ہو رہا ہے اس میں حکمت و مصلحت ہے، پس قدرت و حکمت کے ثبوت کے بعد فی الحال واقع نہ ہونے سے انکار کرنا جہل ہے۔ )- معارف و مسائل - سورة روم کے شروع میں روم وفارس کی جنگ کا ایک واقعہ سنانے کے بعد منکرین اور کفار کی گمراہی اور حق بات کے سننے سمجھنے سے بےپروائی کا سبب ان کا صرف دنیا کی فانی زندگی کو اپنا مقصد حیات بنا لینا اور آخرت کی طرف کوئی توجہ نہ دینا قرار دیا گیا تھا اس کے بعد قیامت میں دوبارہ زندہ ہونے اور حساب کتاب اور جزاء و سزا کے واقع ہونے پر جو سطحی نظر والوں کو استبعاد ہوسکتا ہے، اس کا جواب مختلف پہلوؤں سے دیا گیا ہے، پہلے خود اپنے نفس میں غور و فکر کی پھر گرد و پیش میں گذرنے والی اقوام کے حالات اور ان کے انجام میں نظر کرنے کی دعوت دی گئی۔ پھر حق تعالیٰ کی قدرت کاملہ مطلقہ کا ذکر فرمایا جس میں اس کا کوئی سہیم و شریک نہیں، ان سب شواہد و دلائل کا لازمی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ مستحق عبادت صرف اس کی یکتا ذات کو قرار دیا جائے اور اس نے جو اپنے انبیاء کے ذریعہ قیامت قائم ہونے اور تمام اولین و آخرین کے دوبارہ زندہ ہو کر حساب کتاب کے بعد جنت یا دوزخ میں جانے کی خبر دی ہے اس پر ایمان لایا جائے۔ مذکور الصدر آیات میں اسی قدرت کاملہ اور اس کے ساتھ حکمت بالغہ کے چھ مظاہر آیات قدرت کے عنوان سے بیان فرمائے گئے ہیں، جو اللہ تعالیٰ کی بےمثال قدرت و حکمت کی نشانیاں ہیں۔- پہلی آیت قدرت : انسان جیسے اشرف المخلوقات اور حاکم کائنات کو مٹی سے حس و حرکت اور شعور و ادراک کا کوئی شمہ نظر نہیں آتا، کیونکہ مشہور چار عناصر آگ، پانی، ہوا، اور مٹی، میں سے مٹی کے سوا اور سب عناصر میں کچھ نہ کچھ حرکت تو ہے، مٹی اس سے بھی محروم ہے، قدرت نے تخلیق انسانی کے لئے اس کو منتخب فرمایا۔ ابلیس کی گمراہی کا سبب یہی بنا کہ اس نے آگ کے عنصر کو مٹی سے اشرف و اعلی سمجھ کر تکبر اختیار کیا اور یہ نہ سمجھا کہ شرافت اور بزرگی خالق ومالک کے ہاتھ میں ہے وہ جس کو چاہے بڑا بنا سکتا ہے۔- اور انسان کی تخلیق کا مادہ مٹی ہونا حضرت آدم (علیہ السلام) کے اعتبار سے ظاہر ہی ہے اور وہ چونکہ تمام بنی آدم کے وجود کی اصل بنیاد ہیں اس لئے دوسرے انسانوں کی تخلیق بالواسطہ ان ہی کی طرف منسوب کرنا کچھ بعید نہیں اور یہ بھی ممکن ہے کہ عام انسان جو توالد و تناسل کے سلسلہ سے نطفہ کے ذریعہ پیدا ہوتے ہیں ان میں بھی نطفہ جن اجزاء سے مرکب ہوتا ہے ان میں مٹی کا جزو غالب ہے۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

رکوع نمبر 6- وَمِنْ اٰيٰتِہٖٓ اَنْ خَلَقَكُمْ مِّنْ تُرَابٍ ثُمَّ اِذَآ اَنْتُمْ بَشَرٌ تَنْتَشِرُوْنَ۝ ٢٠- الآية- والآية : هي العلامة الظاهرة، وحقیقته لکل شيء ظاهر، وهو ملازم لشیء لا يظهر ظهوره، فمتی أدرک مدرک الظاهر منهما علم أنه أدرک الآخر الذي لم يدركه بذاته، إذ کان حكمهما سواء، وذلک ظاهر في المحسوسات والمعقولات، فمن علم ملازمة العلم للطریق المنهج ثم وجد العلم علم أنه وجد الطریق، وکذا إذا علم شيئا مصنوعا علم أنّه لا بدّ له من صانع .- الایۃ ۔- اسی کے معنی علامت ظاہر ہ یعنی واضح علامت کے ہیں دراصل آیۃ ، ، ہر اس ظاہر شے کو کہتے ہیں جو دوسری ایسی شے کو لازم ہو جو اس کی طرح ظاہر نہ ہو مگر جب کوئی شخص اس ظاہر شے کا ادراک کرے گو اس دوسری ( اصل ) شے کا بذاتہ اس نے ادراک نہ کیا ہو مگر یقین کرلیاجائے کہ اس نے اصل شے کا بھی ادراک کرلیا کیونکہ دونوں کا حکم ایک ہے اور لزوم کا یہ سلسلہ محسوسات اور معقولات دونوں میں پایا جاتا ہے چناچہ کسی شخص کو معلوم ہو کہ فلاں راستے پر فلاں قسم کے نشانات ہیں اور پھر وہ نشان بھی مل جائے تو اسے یقین ہوجائیگا کہ اس نے راستہ پالیا ہے ۔ اسی طرح کسی مصنوع کے علم سے لامحالہ اس کے صانع کا علم ہوجاتا ہے ۔- خلق - الخَلْقُ أصله : التقدیر المستقیم، ويستعمل في إبداع الشّيء من غير أصل ولا احتذاء، قال : خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام 1] ، أي : أبدعهما، - ( خ ل ق ) الخلق - ۔ اصل میں خلق کے معنی ( کسی چیز کو بنانے کے لئے پوری طرح اندازہ لگانا کسے ہیں ۔ اور کبھی خلق بمعنی ابداع بھی آجاتا ہے یعنی کسی چیز کو بغیر مادہ کے اور بغیر کسی کی تقلید کے پیدا کرنا چناچہ آیت کریمہ : ۔ خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام 1] اسی نے آسمانوں اور زمین کو مبنی بر حکمت پیدا کیا میں خلق بمعنی ابداع ہی ہے - ترب - التُّرَاب معروف، قال تعالی: أَإِذا كُنَّا تُراباً [ الرعد 5] ، وقال تعالی: خَلَقَكُمْ مِنْ تُرابٍ [ فاطر 11] ، یالَيْتَنِي كُنْتُ تُراباً [ النبأ 40] .- ( ت ر ب )- التراب کے معنی مٹی کے ہیں ۔ قرآن میں ہے خَلَقَكُمْ مِنْ تُرابٍ [ فاطر 11] کہ اس نے تمہیں مٹی سے پیدا کیا ۔ یالَيْتَنِي كُنْتُ تُراباً [ النبأ 40] کہ اے کاش کے میں مٹی ہوتا ۔ - بشر - وخصّ في القرآن کلّ موضع اعتبر من الإنسان جثته وظاهره بلفظ البشر، نحو : وَهُوَ الَّذِي خَلَقَ مِنَ الْماءِ بَشَراً [ الفرقان 54] ،- ( ب ش ر ) البشر - اور قرآن میں جہاں کہیں انسان کی جسمانی بناوٹ اور ظاہری جسم کا لحاظ کیا ہے تو ایسے موقع پر خاص کر اسے بشر کہا گیا ہے جیسے فرمایا : وَهُوَ الَّذِي خَلَقَ مِنَ الْماءِ بَشَراً [ الفرقان 54] اور وہی تو ہے جس نے پانی سے آدمی پیدا کیا ۔ إِنِّي خالِقٌ بَشَراً مِنْ طِينٍ [ ص 71] کہ میں مٹی سے انسان بنانے والا ہوں ۔ - نشر - النَّشْرُ ، نَشَرَ الثوبَ ، والصَّحِيفَةَ ، والسَّحَابَ ، والنِّعْمَةَ ، والحَدِيثَ : بَسَطَهَا . قال تعالی: وَإِذَا الصُّحُفُ نُشِرَتْ [ التکوير 10] ، وقال : وهو الّذي يرسل الرّياح نُشْراً بين يدي رحمته [ الأعراف 57] «2» ، وَيَنْشُرُ رَحْمَتَهُ [ الشوری 28] ، وقوله : وَالنَّاشِراتِ نَشْراً- [ المرسلات 3] أي : الملائكة التي تَنْشُرُ الریاح، أو الریاح التي تنشر السَّحابَ ، ويقال في جمع النَّاشِرِ : نُشُرٌ ، وقرئ : نَشْراً فيكون کقوله :«والناشرات» ومنه : سمعت نَشْراً حَسَناً. أي :- حَدِيثاً يُنْشَرُ مِنْ مَدْحٍ وغیره، ونَشِرَ المَيِّتُ نُشُوراً. قال تعالی: وَإِلَيْهِ النُّشُورُ- [ الملک 15] ، بَلْ كانُوا لا يَرْجُونَ نُشُوراً [ الفرقان 40] ، وَلا يَمْلِكُونَ مَوْتاً وَلا حَياةً وَلانُشُوراً [ الفرقان 3] ، وأَنْشَرَ اللَّهُ المَيِّتَ فَنُشِرَ. قال تعالی: ثُمَّ إِذا شاءَ أَنْشَرَهُ- [ عبس 22] ، فَأَنْشَرْنا بِهِ بَلْدَةً مَيْتاً [ الزخرف 11] وقیل : نَشَرَ اللَّهُ المَيِّتَ وأَنْشَرَهُ بمعنًى، والحقیقة أنّ نَشَرَ اللَّهُ الميِّت مستعارٌ من نَشْرِ الثَّوْبِ. كما قال الشاعر :- 440-- طَوَتْكَ خُطُوبُ دَهْرِكَ بَعْدَ نَشْرٍ ... كَذَاكَ خُطُوبُهُ طَيّاً وَنَشْراً- «4» وقوله تعالی: وَجَعَلَ النَّهارَ نُشُوراً [ الفرقان 47] ، أي : جعل فيه الانتشارَ وابتغاء الرزقِ كما قال : وَمِنْ رَحْمَتِهِ جَعَلَ لَكُمُ اللَّيْلَ وَالنَّهارَ الآية [ القصص 73] ، وانْتِشَارُ الناس : تصرُّفهم في الحاجاتِ. قال تعالی: ثُمَّ إِذا أَنْتُمْ بَشَرٌ تَنْتَشِرُونَ [ الروم 20] ، فَإِذا طَعِمْتُمْ فَانْتَشِرُوا[ الأحزاب 53] ، فَإِذا قُضِيَتِ الصَّلاةُ فَانْتَشِرُوا فِي الْأَرْضِ [ الجمعة 10] وقیل : نَشَرُوا في معنی انْتَشَرُوا، وقرئ : ( وإذا قيل انْشُرُوا فَانْشُرُوا) [ المجادلة 11] «1» أي : تفرّقوا . والانْتِشَارُ : انتفاخُ عَصَبِ الدَّابَّةِ ، والنَّوَاشِرُ : عُرُوقُ باطِنِ الذِّرَاعِ ، وذلک لانتشارها، والنَّشَرُ : الغَنَم المُنْتَشِر، وهو للمَنْشُورِ کالنِّقْضِ للمَنْقوض، ومنه قيل : اکتسی البازي ريشا نَشْراً. أي : مُنْتَشِراً واسعاً طویلًا، والنَّشْرُ : الكَلَأ الیابسُ ، إذا أصابه مطرٌ فَيُنْشَرُ. أي : يَحْيَا، فيخرج منه شيء كهيئة الحَلَمَةِ ، وذلک داءٌ للغَنَم، يقال منه :- نَشَرَتِ الأرضُ فهي نَاشِرَةٌ. ونَشَرْتُ الخَشَبَ بالمِنْشَارِ نَشْراً اعتبارا بما يُنْشَرُ منه عند النَّحْتِ ، والنُّشْرَةُ : رُقْيَةٌ يُعَالَجُ المریضُ بها .- ( ن ش ر )- النشر کے معنی کسی چیز کو پھیلانے کے ہیں یہ کپڑے اور صحیفے کے پھیلانے ۔ بارش اور نعمت کے عام کرنے اور کسی بات کے مشہور کردیتے پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : وَإِذَا الصُّحُفُ نُشِرَتْ [ التکوير 10] اور جب دفتر کھولے جائیں گے ۔ وهو الّذي يرسل الرّياح نُشْراً بين يدي رحمته [ الأعراف 57] اور وہی تو ہے جو لوگوں کے ناامیدہو جانیکے بعد مینہ برساتا اور اپنی رحمت ( یعنی بارش کے برکت ) کو پھیلا دیتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : وَالنَّاشِراتِ نَشْراً [ المرسلات 3] اور بادلوں کو ( بھاڑ ) ( پہلا دیتی ہے ۔ میں ناشرات سے مراد وہ فرشتے ہن جو ہواؤں کے پھیلاتے ہیں یا اس سے وہ ہوائیں مراد ہیں جو بادلون کو بکھیرتی ہیں ۔ چناچہ ایک قرات میں نشرابین یدی رحمتہ بھی ہے جو کہ وہ الناشرات کے ہم معنی ہے اور اسی سے سمعت نشرا حسنا کا محاورہ ہے جس کے معنی میں نے اچھی شہرت سنی ۔ نشرالمیت نشودا کے معنی ہیت کے ( ازسرنو زندہ ہونے کے ہیں ) چناچہ قرآن میں ہے : وَإِلَيْهِ النُّشُورُ [ الملک 15] اسی کے پاس قبروں سے نکل کر جانا ہے بَلْ كانُوا لا يَرْجُونَ نُشُوراً [ الفرقان 40] بلکہ ان کو مرنے کے بعد جی اٹھنے کی امیدہی نہیں تھی ۔ وَلا يَمْلِكُونَ مَوْتاً وَلا حَياةً وَلا نُشُوراً [ الفرقان 3] اور نہ مرنا ان کے اختیار میں ہے ۔ اور نہ جینا اور نہ مرکراٹھ کھڑے ہونا ۔ انشر اللہ المیت ک معنی میت کو زندہ کرنے کے ہیں۔ اور نشر اس کا مطاوع آتا ہے ۔ جس کہ معنی زندہ ہوجانے کے ہیں چناچہ قرآن میں ہے : ثُمَّ إِذا شاءَ أَنْشَرَهُ [ عبس 22] پھر جب چاہے گا اسے اٹھا کھڑا کرے گا ۔ فَأَنْشَرْنا بِهِ بَلْدَةً مَيْتاً [ الزخرف 11] پھر ہم نے اس سے شہر مردہ کو زندہ کردیا ۔ بعض نے کہا ہے ک نشر اللہ المیت وانشرہ کے ایک ہی معنی میں ۔ لیکن درحقیقت نشر اللہ المیت نشرالثوب کے محاورہ سے ماخوذ ہے شاعر نے کہا ہے ( الوافر) (425) طوتک خطوب دھرک بعد نشر کذاک خطوبہ طیا ونشرا تجھے پھیلانے کے بعد حوادث زمانہ نے لپیٹ لیا اس طرح حوادث زمانہ لپیٹنے اور نشر کرتے رہتے ہیں ۔ اور آیت کریمہ : فَأَنْشَرْنا بِهِ بَلْدَةً مَيْتاً [ الزخرف 11] اور دن کو اٹھ کھڑا ہونے کا وقت ٹھہرایا ۔ میں دن کے نشوربنانے سے مراد یہ ہے کہ اس کا روبار کے پھیلانے اور روزی کمانے کے لئے بنایا ہے جیسا کہ دوسری جگہ فرمایا : وَمِنْ رَحْمَتِهِ جَعَلَ لَكُمُ اللَّيْلَ وَالنَّهارَ الآية [ القصص 73] اور اس نے رحمت سے تمہارے لئے رات کو اور دن کو بنایا ۔ تاکہ تم اس میں آرام کرو اور اس میں اس کا فضل تلاش کرو ۔ اور انتشارالناس کے معنی لوگوں کے اپنے کاروبار میں لگ جانے کے ہیں ۔ چناچہ فرمایا : ثُمَّ إِذا أَنْتُمْ بَشَرٌ تَنْتَشِرُونَ [ الروم 20] پھر اب تم انسان ہوکر جابجا پھیل رہے ہو ۔ فَإِذا طَعِمْتُمْ فَانْتَشِرُوا[ الأحزاب 53] تو جب کھانا کھا چکو تو چل دو ۔ فَإِذا قُضِيَتِ الصَّلاةُ فَانْتَشِرُوا فِي الْأَرْضِ [ الجمعة 10] پھر جب نماز ہوچکے تو اپنی اپنی راہ لو ۔ اور بعض نے کہا ہے کہ نشروا بمعنی انتشروا کے آتا ہے۔ چناچہ آیت کریمہ : وإذا قيل انْشُرُوا فَانْشُرُوا) [ المجادلة 11] اور جب کہاجائے کہ اٹھ کھڑے ہو تو اٹھ کھڑا ہوا کرو ۔ میں ایک قراءت فاذا قیل انشروافانشروا بھی ہے ۔ یعنی جب کہاجائے کہ منتشر ہوجاؤ تو منتشر ہوجایا کرو ۔ الانتشار کے معنی چوپایہ کی رگوں کا پھول جانا ۔۔ بھی آتے ہیں ۔ اور نواشر باطن ذراع کی رگوں کو کہاجاتا ہے ۔ کیونکہ وہ بدن میں منتشر ہیں ۔ النشر ( ایضا) پھیلنے والے بادل کو کہتے ہیں ۔ اور یہ بمعنی منشور بھی آتا ہے جیسا کہ نقض بمعنی منقوض آجاتا ہے اسی سے محاورہ ہے ؛اکتسی البازی ریشا نشرا ۔ یعنی باز نے لمبے چوڑے پھیلنے والے پروں کا لباس پہن لیا ۔ النشر ( ایضا) خشک گھاس کو کہتے ہیں ۔ جو بارش کے بعد سرسبز ہوکر پھیل جائے اور اس سے سر پستان کی سی کونپلیں پھوٹ نکلیں یہ گھاس بکریوں کے لئے سخت مضر ہوتی ہے ۔ اسی سے نشرت الارض فھی ناشرۃ کا محاورہ ہے جس کے معنی زمین میں نشر گھاس پھوٹنے کے ہیں ۔ شرت الخشب بالمنشار کے معنی آرے سے لکڑی چیرنے کے ہیں ۔ اور لکڑی چیر نے کو نشر اس لئے کہتے ہیں کہ اسے چیرتے وقت نشارہ یعنی پر ادہ پھیلتا ہے ۔ اور نشرہ کے معنی افسوں کے ہیں جس سے مریض کا علاج کیا جاتا ہے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

اور اس کی وحدانیت وقدرت اور اپنے نبی کو نبوت عطا کرنے کی نشانیوں میں سے ایک نشانی یہ ہے کہ تمہیں آدم (علیہ السلام) سے اور آدم (علیہ السلام) کو مٹی سے پیدا کیا اور تم سب آدم (علیہ السلام) کی اولاد ہو اور پھر تم سب آدمی بن کر زمین پر فائدہ اٹھا رہے ہو۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آئندہ آیات کا اسلوب اور انداز بہت منفرد ہے۔ ان میں اللہ کی خلاقیّ کی علامات اور اس کی رحمت کے مظاہر کا ذکر تکرار کے ساتھ اس طرح ہوا ہے کہ ہر آیت کے آغاز میں وَمِنْ اٰیٰتِہٖٓ اور آخر میں اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَاٰیٰتٍ کے الفاظ دہرائے گئے ہیں۔ قبل ازیں اس سے ملتا جلتا ا انداز ہم سورة النمل اور سورة الشعراء میں بھی دیکھ آئے ہیں۔ سورة النمل کے پانچویں رکوع میں بھی آفاقی و انفسی آیات الٰہیہ کا ذکر اسی طرح تکرار کے ساتھ کیا گیا ہے اور ہر آیت کے آخر میں ءَاِلٰہٌ مَّعَ اللّٰہِکے الفاظ آئے ہیں۔ جبکہ سورة الشعراء میں ایک تسلسل کے ساتھ عبرت انگیز تاریخی حقائق و بصائر کا ذکر ہوا ہے اور ہر واقعہ کے آخر میں اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَاٰیٰتٍ کے الفاظ کی تکرار ہے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الروم حاشیہ نمبر : 26 خبردار رہنا چاہیے کہ یہاں سے رکوع کے خاتمہ تک اللہ تعالی کی جو نشانیاں بیان کی جارہی ہیں وہ ایک طرف تو اوپر کے سلسلہ کلام کی مناسبت سے حیات اخروی کے امکان و وقوع پر دلالت کرتی ہیں ، اور دوسری طرف یہی نشانیاں اس بات پر بھی دلالت کرتی ہیں کہ یہ کائنات نہ بے خدا ہے اور نہ اس کے بہت سے خدا ہیں ، بلکہ صرف ایک خدا اس کا تنہا خالق ، مدبر ، مالک اور فرمانروا ہے جس کے سوا انسانوں کا کوئی معبود نہیں ہونا چاہیے ۔ اس طرح یہ رکوع اپنے مضمون کے لحاظ سے تقریر ماسبق ما بعد دونوں کے ساتھ مربوط ہے ۔ سورة الروم حاشیہ نمبر : 27 یعنی انسان کا مایہ تخلیق اس کے سوا کیا ہے کہ چند بے جان مادے ہیں جو زمین میں پائے جاتے ہیں ۔ مثلا کچھ کاربن ، کچھ کیلشیم ، کچھ سوڈیم اور ایسے ہی چند اور عناصر ۔ انہی کو ترکیب دے کر وہ حیرت انگیز ہستی بنا کھڑی کی گئی ہے جس کا نام انسان ہے اور اس کے اندر احساسات ، جذبات ، شعور ، تعقل اور تخیل کی وہ عجیب قوتیں پیدا کردی گئی ہیں جن میں سے کسی کا منبع بھی اس کے عناصر ترکیبی میں تلاش نہیں کیا جاسکتا ۔ پھر یہی نہیں کہ ایک انسان اتفاقا ایسا بن کھڑا ہوا ہو ، بلکہ اس کے اندر وہ عجیب تولیدی قوت بھی پیدا کردی گئی جس کی بدولت کروڑوں اور اربوں انسان وہی ساخت اور وہی صلاحیتیں لیے ہوئے بے شمار موروثی اور بے حد و حساب انفرادی خصوصیات کے حامل نکلتے چلے آرہے ہیں ۔ کیا تمہاری عقل یہ گواہی دیتی ہے کہ یہ انتہائی حکیمانہ خلقت کسی صانع حکیم کی تخلیق کے بغیر آپ سے آپ ہوگئی ہے؟ کیا تم بحالت ہوش و حواس یہ کہہ سکتے ہو کہ تخلیق انسان جیسا عظیم الشان منصوبہ بنانا اور اس کو عمل میں لانا اور زمین و آسمان کی بے حد و حساب قوتوں کو انسانی زندگی کے لیے سازگار کردینا بہت سے خداؤں کی فکر و تدبیر کا نتیجہ ہوسکتا ہے؟ اور کیا تمہارا دماغ اپنی صحیح حالت میں ہوتا ہے جب تم یہ گمان کرتے ہو کہ جو خدا انسان کو خالص عدم سے وجود میں لایا ہے وہ اسی انسان کو موت دینے کے بعد دوبارہ زندہ نہیں کرسکتا ؟

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

7: یہاں سے آیت نمبر : ٣٧ تک اللہ تعالیٰ کی توحید کا بیان ہے، اس غرض کے لئے اللہ تعالیٰ نے کائنات میں پھیلی ہوئی اپنی قدرت کی بہت سی نشانیوں کی طرف توجہ دلائی ہے، اگر کوئی شخص حقیقت پسندی اور انصاف سے ان پر غور کرے تو اسے نظر آئے گا کہ ان میں سے ہر چیز گواہی دے رہی ہے کہ جس ذات نے کائنات کا یہ محیر العقول نظام بنایا ہے، وہ اپنی خدائی میں کسی شریک کا محتاج نہیں ہوسکتی، اور نہ یہ بات معقول ہے کہ اتنے عظیم الشان کارناموں کے بعد چھوٹے چھوٹے خداؤں کی ضرورت محسوس کرے۔