Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

211یعنی تمہاری ہی جنس سے عورتیں پیدا کیں تاکہ وہ تمہاری بیویاں بنیں اور تم جوڑا جوڑا ہوجاؤ زوج عربی میں جوڑے کو کہتے ہیں۔ اس اعتبار سے مرد عورت کے اور عورت مرد کے لیے زوج ہے۔ عورتوں کے جنس بشر ہونے کا مطلب ہے کہ دنیا کی پہلی عورت۔ حضرت حوا کو حضرت آدم (علیہ السلام) کی بائیں پسلی سے پیدا کیا گیا۔ پھر ان دونوں سے نسل انسانی کا سلسلہ چلا۔ 212مطلب یہ ہے کہ اگر مرد اور عورت کی جنس ایک دوسرے سے مختلف ہوتی، مثلاً عورتیں جنات یا حیوانات میں سے ہوتیں، تو ان سے سکون کبھی حاصل نہ ہوتا جو اس وقت دونوں کے ایک ہی جنس سے ہونے کی وجہ سے حاصل ہوتا ہے۔ بلکہ ایک دوسرے سے نفرت وحشت ہوتی۔ یہ اللہ تعالیٰ کی کمال رحمت ہے کہ اس نے انسانوں کی بیویاں، انسان ہی بنائیں۔ 212مَوَدَّۃ یہ ہے کہ مرد بیوی سے بےپناہ پیار کرتا ہے اور ایسے ہی بیوی شوہر سے۔ جیسا کہ عام مشاہدہ ہے۔ ایسی محبت جو میاں بیوی کے درمیان ہوتی ہے، دنیا میں کسی بھی دو شخصوں کے درمیان نہیں ہوتی۔ اور رحمت یہ ہے کہ مرد بیوی کو ہر طرح کی سہولت اور آسائش بہم پہنچاتا ہے، جس کا مکلف اسے اللہ تعالیٰ نے بنایا ہے اور ایسے ہی عورت بھی اپنے قدرت و اختیار کے دائرہ میں۔ تاہم انسان کو یہ سکون اور باہمی پیار انہی جوڑوں سے حاصل ہوتا ہے جو قانون شریعت کے مطابق باہم نکاح سے قائم ہوتے ہیں اور اسلام انہی کو جوڑا قرار دیتا ہے۔ غیر قانونی جوڑوں کو وہ جوڑا ہی تسلیم نہیں کرتا بلکہ انھیں زانی اور بدکار قرار دیتا ہے اور ان کے لئے سزا تجویز کرتا ہے۔ آج کل مغربی تہذیب کے علم بردار شیاطین ان مذموم کوششوں میں مصروف ہیں کہ مغربی معاشروں کی طرح اسلامی ملکوں میں بھی نکاح کو غیر ضروری قرار دیتے ہوئے بدکار مرد و عورت کو جوڑا تسلیم کروایا جائے اور ان کے لیے سزا کے بجائے وہ حقوق منوائے جائیں جو ایک قانونی جوڑے کو حاصل ہوتے ہیں۔ (قٰتَلَهُمُ اللّٰهُ ۡ اَنّٰى يُؤْفَكُوْنَ ) 63 ۔ المنفقون :4) ۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١٨] یعنی مٹی کے پتلے سے ہی اس کا جوڑا پیدا کرتا ہے جو انسانیت کے لحاظ سے ایک ہی جنس ہے۔ لیکن جسمانی ساخت کے لحاظ سے یہ دو قسمیں ہیں۔ جو دونوں ایک دوسرے کے طالب بھی ہیں اور مطلوب بھی۔ مرد کو عورت سے اور عورت کو مرد سے سکون حاصل ہوتا ہے۔ اور دونوں میں ایک دوسرے کے لئے اس قدر کشش رکھ دی کہ وہ ایک دوسرے سے الگ رہ کر سکون حاصل کر ہی نہیں سکتے۔ پھر اللہ تعالیٰ کس جوڑے کو لڑکے ہی عطا کرتا جاتا ہے اور کسی کو لڑکیاں ہی لڑکیں اور کسی ملی جلی اولاد دیتا ہے مگر نوع انسانی پر کبھی کوئی ایسا دور نہیں آیا کہ دنیا میں مرد اتنے زیادہ ہوگئے ہیں کہ انھیں بیویاں نہ مل سکیں اور یا عورتیں اس کثیر تعداد میں پیدا ہوجائیں اور مردوں کی تعداد ان کے مقابلہ میں اتنی کم ہو کہ عورتوں کو کوئی خاوند ہی میسر نہ آئے۔ گویا مرد و عورت کی تخلیق میں بھی اللہ تعالیٰ اس تناسب کو بھی ملحوظ رکھتا ہے۔ تو بقائے نوع کے لئے ضروری ہے۔ پھر مرد اور عورت کے اسی جذبہ کے نتیجہ میں ہی بقائے نسل انسانی کا راز مضمر ہے۔ اسی سے خاندان اور قبیلے بنتے ہیں اور تمدن اور معاشرت کی داغ بیل پڑتی ہے۔ پھر ان زوجین (میاں، بیوی) میں اس قدر محبت رکھ دی کہ وہ ایک دوسرے پر فنا ہونے کو تیار ہوتے ہیں اور پیدا ہونے والی اولاد کے حق میں دونوں شفیق رحیم ہوتے ہیں۔ حتیٰ کہ یہی احساسات و جذبات ان دونوں میں اس حد تک پیدا ہوجاتے ہیں کہ وہ اپنے مقدس رشتہ ازدواج کو تازیست نباہنے میں کوشاں رہتے ہیں۔ اب ذرا غور کیجئے کہ اگر اللہ تعالیٰ زوجین میں یہ جذبات و احساسات پیدا نہ کرتا تو کیا زمین کی آبادی یا نسل انسانی کی بقا ممکن تھی۔ اور کیا یہ کام اللہ کے سوا کوئی دوسرا الٰہ کرسکتا ہے ؟ یا بےجان، بےشعور اور اندھے مادے کے اتفاقات سے یہ ممکن ہے کہ وہ ان حکمتوں اور مصلحتوں کا لحاظ رکھ سکے ؟

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَمِنْ اٰيٰتِهٖٓ اَنْ خَلَقَ لَكُمْ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ اَزْوَاجًا ۔۔ : یعنی اللہ تعالیٰ کی عظمت اور اس کی کمال قدرت پر دلالت کرنے والی نشانیوں میں سے ایک نشانی یہ ہے کہ اس نے تمہاری خاطر (نہ کہ اپنے کسی فائدے کے لیے) خود تمھی میں سے بیویاں پیدا کیں، تاکہ تم ان کی طرف جاکر سکون حاصل کرو۔ ” سَکَنَ عِنْدَہُ “ کا معنی ہے جسمانی طور پر کسی کے پاس جا کر رہنا اور ” سَکَنَ إِلَیْہِ “ قلبی اور روحانی طور پر کسی کے پاس راحت و سکون پانا۔ یہ اللہ تعالیٰ کی ایک عظیم نشانی ہے کہ ہمارے والد ماجد آدم (علیہ السلام) کو جنت میں رہ کر بھی، جہاں ہر نعمت موجود تھی، سکون اسی وقت حاصل ہوا جب اللہ تعالیٰ نے خود ان کی ذات سے ان کی بیوی اور ہماری ماں حوا [ کو پیدا فرمایا، جیسا کہ فرمایا : ( هُوَ الَّذِيْ خَلَقَكُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَةٍ وَّجَعَلَ مِنْهَا زَوْجَهَا لِيَسْكُنَ اِلَيْهَا ) [ الأعراف : ١٨٩ ] ” وہی ہے جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا اور اس سے اس کا جوڑا بنایا، تاکہ وہ اس کی طرف (جاکر) سکون حاصل کرے۔ “ آدم (علیہ السلام) کے بعد ان کی اولاد کے سکون کے لیے مردوں اور عورتوں کو ایک دوسرے کے جوڑے بنادیا۔ یہ اس کی قدرت کا کمال ہے کہ مردوں اور عورتوں کی پیدائش ہمیشہ اس اعتدال اور توازن سے رہی ہے کہ ان کی باہمی زوجیت کی ضرورت پوری ہوتی رہتی ہے۔ کبھی ایسا نہیں ہوا کہ مرد اتنے زیادہ ہوجائیں کہ انھیں بیوی نہ مل سکے یا عورتیں اتنی بڑھ جائیں کہ انھیں خاوند نہ مل سکیں، اور یہ بھی اس کی حکمت ہے کہ مرد کو عورت اور عورت کو مرد کے پاس ہی سکون حاصل ہوسکتا ہے، اس لیے اللہ تعالیٰ نے خود انسانوں میں سے ان کے جوڑے پیدا فرمائے۔ معلوم ہوا وہ تمام کہانیاں یکسر افسانے ہیں جن میں انسانوں اور جنوں کے درمیان زوجیت اور توالد و تناسل کا ذکر ہے اور یہ بھی معلوم ہوا کہ وہ راہب اور جوگی جو انسانی فطرت سے جنگ کر کے عورتوں سے قطع تعلق کے ساتھ سکون تلاش کرتے رہے یا کر رہے ہیں، سخت دھوکے میں پڑے ہوئے ہیں، کیونکہ فطرت سے جنگ کا انجام ہمیشہ شکست ہوتا ہے۔ جس طرح بھوک کے وقت کھانا اللہ تعالیٰ سے تعلق کی راہ میں رکاوٹ نہیں ہے بلکہ انسان کی زندگی کی ایک بنیادی ضرورت ہے، اسی طرح شادی اللہ تعالیٰ سے تعلق کی راہ میں رکاوٹ نہیں ہے، بلکہ انسان کے لیے سکون کا باعث اور اس کی بنیادی ضرورت ہے۔ اولاد آدم میں سب سے زیادہ متقی شخص رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( حُبِّبَ إِلَيَّ مِنَ الدُّنْیَا النِّسَاءُ وَالطِّیْبُ وَجُعِلَ قُرَّۃُ عَیْنِيْ فِي الصَّلاَۃِ ) [ نساءي، عشرۃ النساء، باب حب النساء : ٣٣٩١، عن أنس ] ” دنیا میں سے میرے لیے عورتیں اور خوشبو محبوب بنادی گئیں اور میری آنکھوں کی ٹھنڈک نماز میں بنادی گئی۔ “ - یاد رہے یہ سکون مرد اور عورت کے نکاح کے تعلق ہی سے حاصل ہوسکتا ہے، کیونکہ زوجیت کا جائز طریقہ یہی ہے۔ بدکاروں کو یہ نعمت میسر نہیں آسکتی۔ کافر اقوام نے اللہ کے احکام سے بغاوت کر کے نکاح کے بغیر مرد عورت کے زندگی گزارنے کی جو روش اختیار کر رکھی ہے اس سے انھیں وہ سکون کبھی حاصل نہیں ہوسکتا جو خاوند اور بیوی کو حاصل ہوتا ہے، اور ان ملعونوں کا تو ذکر ہی کیا جو مردوں کی مردوں سے یا عورتوں کی عورتوں سے ہوس پوری کر کے، یا کتوں بلیوں اور دوسرے جانوروں سے سکون حاصل کرنے کی ناکام و نامراد کوشش کر رہے ہیں، کیونکہ یہ انسانوں ہی نہیں جانوروں کی فطرت کے بھی خلاف ہے۔- وَجَعَلَ بَيْنَكُمْ مَّوَدَّةً ۔۔ : یعنی مرد عورت کی زوجیت میں سکون کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ نے دوستی اور رحمت رکھ دی ہے۔ دنیا میں عشق کی بیشمار داستانیں مشہور ہیں اور ہر طرف اسی کا شور اور ہنگامہ ہے، مگر حقیقی دوستی اور محبت جو اللہ تعالیٰ کے فضل سے خاوند اور بیوی کے درمیان پیدا ہوتی ہے، ناجائز عشق اور حرام محبت میں گرفتار لوگ اس کی بو بھی نہیں پاسکتے۔ کیا یہ اللہ تعالیٰ کی عظیم نشانی نہیں کہ وہ مرد اور عورت جو ایک دوسرے سے پوری طرح واقف بھی نہیں ہوتے، نکاح کے بعد صرف اللہ تعالیٰ کے فضل سے مودّت اور محبت کے ایسے رشتے میں بندھ جاتے ہیں جو زندگی بھر قائم رہتا اور دن بدن مضبوط ہوتا چلا جاتا ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( لَمْ نَرَ لِلْمُتَحَابَّیْنِ مِثْلَ النِّکَاحِ ) [ ابن ماجہ، النکاح، باب ما جاء في فضل النکاح : ١٨٤٧، عن ابن عباس و صححہ البوصیري و الألباني ] ” ہم نے دو محبت کرنے والوں کے لیے نکاح جیسی چیز نہیں دیکھی۔ “ اس حدیث کی شرح میں ملا علی قاری لکھتے ہیں : ” یعنی جب عورت اور مرد کو ایک دوسرے سے محبت ہوجائے تو ہم نے ان کے لیے نکاح جیسی کوئی چیز نہیں دیکھی، کیونکہ اس سے محبت میں مزید اضافہ ہوتا ہے، جب کہ زنا کے نتیجے میں محبت کے بجائے عداوت اور بغض پیدا ہوتا ہے۔ “- وَّرَحْمَةً : اللہ کی قدرت کی عظیم نشانیوں میں سے ایک نشانی دوستی اور محبت کے ساتھ ساتھ وہ رحم اور مہربانی ہے جو اللہ تعالیٰ نے میاں بیوی کے درمیان رکھ دی ہے کہ وہ تندرستی اور صحت و جوانی میں بھی اور بڑھاپے اور بیماری میں بھی ایک دوسرے پر نہایت مہربان اور رحم کرنے والے ہوتے ہیں۔ جب کہ عاشقوں اور بدکاروں کا عشق کتنا ہی شور انگیز ہو، حسن کے ڈھلنے کے ساتھ ہوا میں بکھر جاتا ہے اور اس میں محبوب پر رحم کے بجائے اصل جذبہ اپنی ہوس پوری کرنا اور خالص خود غرضی ہوتا ہے۔- اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيٰتٍ لِّــقَوْمٍ يَّتَفَكَّرُوْنَ : ” فِيْ ذٰلِكَ “ (اس میں) سے مراد پچھلی آیت اور اس آیت میں مذکور چیزیں ہیں، یعنی تمہیں حقیر مٹی سے پیدا کرنے میں، تمہارے زمین کے اندر بشر کی صورت میں پھیل جانے میں، تمہارے سکون کے لیے خود تمھی میں سے تمہارے جوڑے پیدا کرنے میں اور تمہارے درمیان دوستی اور رحمت کا جذبہ پیدا کرنے میں اللہ تعالیٰ کے وجود، اس کی وحدانیت، اس کی قدرت اور اس کے آخرت قائم کرنے پر دلالت کرنے والی بہت سی نشانیاں ہیں، مگر صرف ان لوگوں کے لیے جو ان چیزوں میں غور و فکر کریں۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

دوسری آیت قدرت : یہ ہے کہ انسان ہی کی جنس میں اللہ تعالیٰ نے عورتیں پیدا کردیں جو مردوں کی بیبیاں بنیں، ایک ہی مادہ سے ایک ہی جگہ میں ایک ہی غذا سے پیدا ہونے والے بچوں میں یہ دو مختلف قسمیں پیدا فرما دیں جن کے اعضاء وجوارح، صورت و سیرت، عادات و اخلاق میں نمایاں تفاوت و امتیاز پایا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی کمال قدرت و حکمت کے لئے یہ تخلیق ہی کافی نشانی ہے۔ اس کے بعد عورتوں کی اس خاص نوع کی تخلیق کی حکمت و مصلحت یہ بیان فرمائی لِّتَسْكُنُوْٓا اِلَيْهَا یعنی ان کو اس لئے پیدا کیا گیا ہے کہ تمہیں ان کے پاس پہنچ کر سکون ملے۔ مرد کی جتنی ضروریات عورت سے متعلق ہیں ان سب میں غور کیجئے تو سب کا حاصل سکون قلب اور راحت و اطمینان نکلے گا، قرآن کریم نے ایک لفظ میں ان سب کو جمع فرما دیا ہے۔- اس سے معلوم ہوا کہ ازدواجی زندگی کے تمام کاروبار کا خلاصہ سکون و راحت قلب ہے جس گھر میں یہ موجود ہے وہ اپنی تخلیق کے مقصد میں کامیاب ہے جہاں قلبی سکون نہ ہو اور چاہے سب کچھ ہو وہ ازدواجی زندگی کے لحاظ سے ناکام و نامراد ہے اور یہ بھی ظاہر ہے کہ باہمی سکون قلب صرف اسی صورت سے ممکن ہے کہ مرد و عورت کے تعلق کی بنیاد شرعی نکاح اور ازدواجی پر ہو، جن ممالک اور جن لوگوں نے اس کے خلاف کی حرام صورتوں کو رواج دیا اگر تفتیش کی جائے تو ان کی زندگی کو کہیں پرسکون نہ پائیں گے، جانوروں کی طرح وقتی خواہش پوری کرلینے کا نام سکون نہیں ہو سکتا۔- ازدواجی زندگی کا مقصد سکون ہے جس کے لئے باہمی الفت و محبت اور رحمت ضروری ہے :- اس آیت نے مرد و عورت کی ازدواجی زندگی کا مقصد سکون قلب قرار دیا ہے اور یہ جب ہی ممکن ہے کہ طرفین ایک دوسرے کا حق پہچانیں اور ادا کریں، ورنہ حق طلبی کے جھگڑے خانگی سکون کو برباد کردیں گے۔ اس ادائے حقوق کے لئے ایک صورت تو یہ تھی کہ اس کے قوانین بنا دینے اور احکام نافذ کردینے پر اکتفا کیا جاتا ہے۔ جیسے دوسرے لوگوں کے حقوق کے معاملہ میں ایسا ہی کیا گیا ہے کہ ایک دوسرے کی حق تلفی کو حرام کر کے اس پر سخت وعیدیں سنائی گئیں سزائیں مقرر کی گئیں، ایثار و ہمددی کی نصیحت کی گئی لیکن تجربہ شاہد ہے کہ صرف قانون کے ذریعہ کوئی قوم اعتدال پر نہیں لائی جاسکتی جب تک اس کے ساتھ خدا کا خوف نہ ہو، اسی لئے معاشرتی معاملات میں احکام شرعیہ کے ساتھ ساتھ پورے قرآن میں ہر جگہ اتَّقُوا اللّٰهَ ، وَاخْشَوْا وغیرہ کے کلمات بطور تکملہ کے لائے گئے ہیں۔- مرد و عورت کے باہمی معاملات کچھ اس نوعیت کے ہیں کہ ان کے حقوق باہمی پورے ادا کرانے پر نہ کوئی قانون حاوی ہوسکتا ہے نہ کوئی عدالت ان کا پورا انصاف کرسکتی ہے اس لئے خطبہ نکاح میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قرآن کریم کی وہ آیات انتخاب فرمائی ہیں جن میں تقوی اور خوف خدا اور آخرت کی تلقین ہے کہ وہی درحقیقت زوجین کے باہمی حقوق کا ضامن ہوسکتا ہے۔- اس پر ایک مزید انعام حق تعالیٰ نے یہ فرمایا کہ ازدواجی حقوق کو صرف شرعی اور قانونی نہیں رکھا بلکہ طبعی اور نفسانی بنادیا۔ جس طرح ماں باپ اور اولاد کے باہمی حقوق کے ساتھ بھی ایسا ہی معاملہ فرمایا، کہ ان کے قلوب میں فطرةً ایک ایسی محبت پیدا فرما دی کہ ماں باپ اپنی جان سے زیادہ اولاد کی حفاظت کرنے پر مجبور ہیں اور اسی طرح اولاد کے قلوب میں بھی ایک فطری محبت ماں باپ کی رکھ دی گئی ہے۔ یہی معاملہ زوجین کے متعلق بھی فرمایا گیا۔ اس کے لئے ارشاد فرمایا وَجَعَلَ بَيْنَكُمْ مَّوَدَّةً وَّرَحْمَةً ، یعنی اللہ تعالیٰ نے زوجین کے درمیان صرف شرعی اور قانونی تعلق نہیں رکھا بلکہ ان کے دلوں میں مودت اور رحمت پیوست کردی۔ وُدَّ اور مودت کے لفظی معنی چاہنے کے ہیں جس کا ثمرہ محبت و الفت ہے۔ یہاں حق تعالیٰ نے دو لفظ اختیار فرمائے ایک مودت دوسرے رحمت ممکن ہے اس میں اشارہ اس طرف ہو کہ مودت کا تعلق جوانی کے اس زمانے سے ہو جس میں طرفین کی خواہشات ایک دوسرے سے محبت و الفت پر مجبور کرتی ہیں اور بڑھاپے میں جب یہ جذبات ختم ہوجاتے ہیں تو باہمی رحمت و ترحم طبعی ہوجاتا ہے۔ (کما ذکرہ القرطبی عن البعض)- اس کے بعد فرمایا اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيٰتٍ لِّــقَوْمٍ يَّتَفَكَّرُوْنَ ، یعنی اس میں بہت سی نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لئے جو غور و فکر کرتے ہیں، یہاں ذکر تو ایک نشانی کا کیا گیا ہے اور اس کے آخر میں اس کو آیات اور نشانیاں فرمایا، وجہ یہ ہے کہ ازدواجی تعلق جس کا ذکر اس میں کیا گیا اس کے مختلف پہلوؤں پر اور ان سے حاصل ہونے والے دینی اور دنیوی فوائد پر نظر کی جائے تو یہ ایک نہیں بہت سی نشانیاں ہیں۔- تیسری آیت قدرت : آسمان و زمین کی تخلیق اور انسانوں کے مختلف طبقات کی زبانیں اور لب و لہجہ کا مختلف ہونا اور مختلف طبقات کے رنگوں میں امتیاز ہونا ہے کہ بعض سفید ہیں بعض سیاہ بعض سرخ بعض زرد، اس میں آسمان و زمین کی تخلیق تو قدرت کا عظیم شاہکار ہے ہی، انسانوں کی زبانیں مختلف ہونا بھی ایک عجیب کرشمہ قدرت ہے۔ زبانوں کے اختلاف میں لغات کا اختلاف بھی داخل ہے، عربی، فارسی، ہندی، ترکی، انگریزی وغیرہ کتنی مختلف زبانیں ہیں، جو مختلف خطوں میں رائج ہیں اور ایک دوسرے سے بعض تو ایسی مختلف ہیں کہ کوئی باہمی ربط و مناسبت بھی معلوم نہیں ہوتی اور اس اختلاف السنہ میں لب و لہجہ کا اختلاف بھی شامل ہے کہ قدرت حق نے ہر فرد انسان مرد، عورت، بچے، بوڑھے کی آواز میں ایسا امتیاز پیدا فرمایا ہے کہ ایک فرد کی آواز کسی دوسرے فرد سے ایک صنف کی آواز دوسری صنف سے پوری طرح نہیں ملتی، کچھ نہ کچھ امتیاز ضرور رہتا ہے۔ حالانکہ اس آواز کے آلات زبان، ہونٹ، تالو، حلق، سب میں مشترک اور یکساں ہیں۔ تبارک اللہ احسن الخالقین

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَمِنْ اٰيٰتِہٖٓ اَنْ خَلَقَ لَكُمْ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ اَزْوَاجًا لِّتَسْكُنُوْٓا اِلَيْہَا وَجَعَلَ بَيْنَكُمْ مَّوَدَّۃً وَّرَحْمَۃً۝ ٠ ۭ اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيٰتٍ لِّــقَوْمٍ يَّتَفَكَّرُوْنَ۝ ٢١- نفس - الَّنْفُس : ذاته وقوله : وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ [ آل عمران 30] فَنَفْسُهُ : ذَاتُهُ ، - ( ن ف س ) النفس - کے معنی ذات ، وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ [ آل عمران 30] اور خدا تم کو اپنے ( غضب سے ڈراتا ہے ۔ میں نفس بمعنی ذات ہے - زوج - يقال لكلّ واحد من القرینین من الذّكر والأنثی في الحیوانات الْمُتَزَاوِجَةُ زَوْجٌ ، ولكلّ قرینین فيها وفي غيرها زوج، کالخفّ والنّعل، ولكلّ ما يقترن بآخر مماثلا له أو مضادّ زوج . قال تعالی:- فَجَعَلَ مِنْهُ الزَّوْجَيْنِ الذَّكَرَ وَالْأُنْثى[ القیامة 39] - ( ز و ج ) الزوج - جن حیوانات میں نرا اور پایا جاتا ہے ان میں سے ہر ایک دوسرے کا زوج کہلاتا ہے یعنی نرا اور مادہ دونوں میں سے ہر ایک پر اس کا اطلاق ہوتا ہے ۔ حیوانات کے علا وہ دوسری اشیائیں سے جفت کو زوج کہا جاتا ہے جیسے موزے اور جوتے وغیرہ پھر اس چیز کو جو دوسری کی مما ثل یا مقابل ہونے کی حثیت سے اس سے مقترن ہو وہ اس کا زوج کہلاتی ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَجَعَلَ مِنْهُ الزَّوْجَيْنِ الذَّكَرَ وَالْأُنْثى[ القیامة 39] اور خر کار اس کی دو قسمیں کیں یعنی مرد اور عورت ۔- جعل - جَعَلَ : لفظ عام في الأفعال کلها، وهو أعمّ من فعل وصنع وسائر أخواتها،- ( ج ع ل ) جعل ( ف )- یہ لفظ ہر کام کرنے کے لئے بولا جاسکتا ہے اور فعل وصنع وغیرہ افعال کی بنسبت عام ہے ۔- بين - بَيْن موضوع للخلالة بين الشيئين ووسطهما . قال تعالی: وَجَعَلْنا بَيْنَهُما زَرْعاً «1» [ الكهف 32] ، يقال : بَانَ كذا أي : انفصل وظهر ما کان مستترا منه، ولمّا اعتبر فيه معنی الانفصال والظهور استعمل في كلّ واحد منفردا، فقیل للبئر البعیدة القعر : بَيُون، لبعد ما بين الشفیر والقعر لانفصال حبلها من يد صاحبها .- ( ب ی ن ) البین - کے معنی دو چیزوں کا درمیان اور وسط کے ہیں : ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَجَعَلْنا بَيْنَهُما زَرْعاً «1» [ الكهف 32] اور ان کے درمیان کھیتی پیدا کردی تھی ۔ محاورہ ہے بان کذا کسی چیز کا الگ ہوجانا اور جو کچھ اس کے تحت پوشیدہ ہو ، اس کا ظاہر ہوجانا ۔ چونکہ اس میں ظہور اور انفصال کے معنی ملحوظ ہیں اس لئے یہ کبھی ظہور اور کبھی انفصال کے معنی میں استعمال ہوتا ہے - ودد - الودّ : محبّة الشیء، وتمنّي كونه، ويستعمل في كلّ واحد من المعنيين علی أن التّمنّي يتضمّن معنی الودّ ، لأنّ التّمنّي هو تشهّي حصول ما تَوَدُّهُ ، وقوله تعالی: وَجَعَلَ بَيْنَكُمْ مَوَدَّةً وَرَحْمَةً [ الروم 21]- ( و د د ) الود ۔- کے معنی کسی چیز سے محبت اور اس کے ہونے کی تمنا کرنا کے ہیں یہ لفظ ان دونوں معنوں میں الگ الگ بھی استعمال ہوتا ہے ۔ اس لئے کہ کسی چیز کی تمنا اس کی محبت کے معنی کو متضمعن ہوتی ہے ۔ کیونکہ تمنا کے معنی کسی محبوب چیز کی آرزو کرنا کے ہوتے ہیں ۔ اور آیت : ۔ وَجَعَلَ بَيْنَكُمْ مَوَدَّةً وَرَحْمَةً [ الروم 21] اور تم میں محبت اور مہربانی پیدا کردی ۔- رحم - والرَّحْمَةُ رقّة تقتضي الإحسان إلى الْمَرْحُومِ ، وقد تستعمل تارة في الرّقّة المجرّدة، وتارة في الإحسان المجرّد عن الرّقّة، وعلی هذا قول النّبيّ صلّى اللہ عليه وسلم ذاکرا عن ربّه «أنّه لمّا خلق الرَّحِمَ قال له : أنا الرّحمن، وأنت الرّحم، شققت اسمک من اسمي، فمن وصلک وصلته، ومن قطعک بتتّه» فذلک إشارة إلى ما تقدّم، وهو أنّ الرَّحْمَةَ منطوية علی معنيين : الرّقّة والإحسان، فركّز تعالیٰ في طبائع الناس الرّقّة، وتفرّد بالإحسان، فصار کما أنّ لفظ الرَّحِمِ من الرّحمة، فمعناه الموجود في الناس من المعنی الموجود لله تعالی، فتناسب معناهما تناسب لفظيهما . والرَّحْمَنُ والرَّحِيمُ ، نحو : ندمان وندیم، ولا يطلق الرَّحْمَنُ إلّا علی اللہ تعالیٰ من حيث إنّ معناه لا يصحّ إلّا له، إذ هو الذي وسع کلّ شيء رَحْمَةً ، والرَّحِيمُ يستعمل في غيره وهو الذي کثرت رحمته، قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ [ البقرة 182] ، وقال في صفة النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم : لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ [ التوبة 128] ، وقیل : إنّ اللہ تعالی: هو رحمن الدّنيا، ورحیم الآخرة، وذلک أنّ إحسانه في الدّنيا يعمّ المؤمنین والکافرین، وفي الآخرة يختصّ بالمؤمنین، وعلی هذا قال : وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُها لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأعراف 156] ، تنبيها أنها في الدّنيا عامّة للمؤمنین والکافرین، وفي الآخرة مختصّة بالمؤمنین .- ( ر ح م ) الرحم ۔- الرحمۃ وہ رقت قلب جو مرحوم ( یعنی جس پر رحم کیا جائے ) پر احسان کی مقتضی ہو ۔ پھر کبھی اس کا استعمال صرف رقت قلب کے معنی میں ہوتا ہے اور کبھی صرف احسان کے معنی میں خواہ رقت کی وجہ سے نہ ہو ۔ اسی معنی میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک حدیث قدسی میں فرمایا ہے (152) انہ لما خلق اللہ الرحم قال لہ انا الرحمن وانت الرحم شفقت اسمک میں اسمی فمن وصلک وصلتہ ومن قطعت قطعتۃ ۔ کہ جب اللہ تعالیٰ نے رحم پیدا کیا تو اس سے فرمایا :۔ تین رحمان ہوں اور تو رحم ہے ۔ میں نے تیرے نام کو اپنے نام سے اخذ کیا ہے ۔ پس جو تجھے ملائے گا ۔ ( یعنی صلہ رحمی کرے گا ) میں بھی اسے ملاؤں گا اور جو تجھے قطع کرلیگا میں اسے پارہ پارہ کردوں گا ، ، - اس حدیث میں بھی معنی سابق کی طرف اشارہ ہے کہ رحمت میں رقت اور احسان دونوں معنی پائے جاتے ہیں ۔ پس رقت تو اللہ تعالیٰ نے طبائع مخلوق میں ودیعت کردی ہے احسان کو اپنے لئے خاص کرلیا ہے ۔ تو جس طرح لفظ رحم رحمت سے مشتق ہے اسی طرح اسکا وہ معنی جو لوگوں میں پایا جاتا ہے ۔ وہ بھی اس معنی سے ماخوذ ہے ۔ جو اللہ تعالیٰ میں پایا جاتا ہے اور ان دونوں کے معنی میں بھی وہی تناسب پایا جاتا ہے جو ان کے لفظوں میں ہے : یہ دونوں فعلان و فعیل کے وزن پر مبالغہ کے صیغے ہیں جیسے ندمان و ندیم پھر رحمن کا اطلاق ذات پر ہوتا ہے جس نے اپنی رحمت کی وسعت میں ہر چیز کو سما لیا ہو ۔ اس لئے اللہ تعالیٰ کے سوا اور کسی پر اس لفظ کا اطلاق جائز نہیں ہے اور رحیم بھی اسماء حسنیٰ سے ہے اور اس کے معنی بہت زیادہ رحمت کرنے والے کے ہیں اور اس کا اطلاق دوسروں پر جائز نہیں ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے :َ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ [ البقرة 182] بیشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے ۔ اور آنحضرت کے متعلق فرمایا ُ : لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ [ التوبة 128] لوگو تمہارے پاس تمہیں سے ایک رسول آئے ہیں ۔ تمہاری تکلیف ان پر شاق گزرتی ہے ( اور ) ان کو تمہاری بہبود کا ہو کا ہے اور مسلمانوں پر نہایت درجے شفیق ( اور ) مہربان ہیں ۔ بعض نے رحمن اور رحیم میں یہ فرق بیان کیا ہے کہ رحمن کا لفظ دنیوی رحمت کے اعتبار سے بولا جاتا ہے ۔ جو مومن اور کافر دونوں کو شامل ہے اور رحیم اخروی رحمت کے اعتبار سے جو خاص کر مومنین پر ہوگی ۔ جیسا کہ آیت :۔ وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُها لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأعراف 156] ہماری جو رحمت ہے وہ ( اہل ونا اہل ) سب چیزوں کو شامل ہے ۔ پھر اس کو خاص کر ان لوگوں کے نام لکھ لیں گے ۔ جو پرہیزگاری اختیار کریں گے ۔ میں اس بات پر متنبہ کیا ہے کہ دنیا میں رحمت الہی عام ہے اور مومن و کافروں دونوں کو شامل ہے لیکن آخرت میں مومنین کے ساتھ مختص ہوگی اور کفار اس سے کلیۃ محروم ہوں گے )- قوم - والقَوْمُ : جماعة الرّجال في الأصل دون النّساء، ولذلک قال : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات 11] ، - ( ق و م ) قيام - القوم۔ یہ اصل میں صرف مرودں کی جماعت پر بولا جاتا ہے جس میں عورتیں شامل نہ ہوں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات 11] - فكر - الْفِكْرَةُ : قوّة مطرقة للعلم إلى المعلوم، والتَّفَكُّرُ : جولان تلک القوّة بحسب نظر العقل، وذلک للإنسان دون الحیوان، قال تعالی: أَوَلَمْ يَتَفَكَّرُوا فِي أَنْفُسِهِمْ ما خَلَقَ اللَّهُ السَّماواتِ [ الروم 8] ، أَوَلَمْ يَتَفَكَّرُوا ما بصاحبِهِمْ مِنْ جِنَّةٍ [ الأعراف 184] ، إِنَّ فِي ذلِكَ لَآياتٍ لِقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَ [ الرعد 3]- ( ف ک ر ) الفکرۃ - اس قوت کو کہتے ہیں جو علم کو معلوم کی طرف لے جاتی ہے اور تفکر کے معنی نظر عقل کے مطابق اس قوت کی جو لانی دینے کے ہیں ۔ اور غور فکر کی استعداد صرف انسان کو دی گئی ہے دوسرے حیوانات اس سے محروم ہیں اور تفکرفیہ کا لفظ صرف اسی چیز کے متعلق بولا جاتا ہے جس کا تصور دل ( ذہن میں حاصل ہوسکتا ہے ۔ قرآن میں ہے : أَوَلَمْ يَتَفَكَّرُوا فِي أَنْفُسِهِمْ ما خَلَقَ اللَّهُ السَّماواتِ [ الروم 8] کیا انہوں نے اپنے دل میں غو ر نہیں کیا کہ خدا نے آسمانوں کو پیدا کیا ہے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

اور اس کی علامت قدرت وحدانیت سے یہ امر ہے کہ تمہارے فائدے کے لیے اس نے تمہاری جنس کی بیویاں بنائیں یہ کہ تمہیں اپنی بیوی کے ساتھ رہ کر آرام سے ہے اور تم دونوں میں محبت و ہمدردی پیدا کی کہ یہ بیوی کو خاوند سے محبت اور خاوند کو بیوی کے ساتھ ہمدردی ہوتی ہے یا یہ کہ چھوٹے کو بڑے کے ساتھ محبت اور بڑے کو چھوٹے پر شفقت اور اس کے ساتھ ہمدردی ہوتی ہے ان مذکورہ امور میں عقل مندوں کے لیے قدرت خداوندی کی نشانیاں ہیں۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الروم حاشیہ نمبر : 28 یعنی خالق کا کمال حکمت یہ ہے کہ اس نے انسان کی صرف ایک صنف نہیں بنائی بلکہ اسے دو صنفوں ( ) کی شکل میں پیدا کیا جو انسانیت میں یکساں ہیں ، جن کی بناوٹ کا بنیادی فارمولا بھی یکساں ہے ، مگر دونوں ایک دوسرے سے مختلف جسمانی ساخت ، مختلف ذہنی و نفسی اوصاف اور مختلف جذبات و داعیات لے کر پیدا ہوتی ہیں ۔ اور پھر ان کے درمیان یہ حیرت انگیز مناسبت رکھ دی گئی ہے کہ ان میں سے ہر ایک دوسرے کا پورا جوڑ ہے ، ہر ایک کا جسم اور اس کے نفسیات و داعیات دوسرے کے جسمانی و نفسیاتی تقاضوں کا مکمل جواب ہیں ۔ مزید برآں وہ خالق حکیم ان دونوں صنفوں کے افراد کو آغاز آفرینش سے برابر اس تناسب کے ساتھ پید کیے چلا جارہا ہے کہ آج تک کبھی ایسا نہیں ہوا کہ دنیا کی کسی قوم یا کسی خطہ زمین میں صرف لڑکے ہی لڑکے پیدا ہوئے ہوں ، یا کہیں کسی قوم میں صرف لڑکیاں ہی لڑکیاں پیدا ہوتی چلی گئی ہوں ۔ یہ ایسی چیز ہے جس میں کسی انسانی تدبیر کا قطعا کوئی دخل نہیں ہے ۔ انسان ذرہ برابر بھی نہ اس معاملہ میں اثر انداز ہوسکتا ہے کہ لڑکیاں مسلسل ایسی زنانہ خصوصیات اور لڑکے مسلسل ایسی مردانہ خصوصیات لیے ہوئے پیدا رہیں جو ایک دوسرے کا ٹھیک جوڑ ہوں ، اور نہ اس معاملہ ہی میں اس کے اپس اثر انداز ہونے کا کوئی ذریعہ ہے کہ عورتوں اور مردوں کی پیدائش اس طرح مسلسل ایک تناسب کے ساتھ ہوتی چلی جائے ۔ ہزار ہا سال سے کروڑوں اور اربوں انسانوں کی پیدائش میں اس تدبیر و انتظام کا اتنے متناسب طریقے سے پیہم جاری رہنا اتفاقا بھی نہیں ہوسکتا اور یہ بہت سے خداؤں کی مشترک تدبیر کا نتیجہ بھی نہیں ہوسکتا ۔ یہ چیز صریحا اس بات پر دلالت کر رہی ہے کہ ایک خالق حکیم ، اور ایک ہی خالق حکیم نے اپنی غالب حکمت و قدرت سے ابتداء مرد اور عورت کا ایک موزوں ترین ڈیزائن بنایا ، پھر اس بات کا انتظام کیا کہ اس ڈیزائن کے مطابق بے حد و حساب مرد اور بے حد و حساب عورتیں اپنی الگ الگ انفرادی خصوصیات لیے ہوئے دنیا بھر میں ایک تناسب کے ساتھ پیدا ہوں ۔ سورة الروم حاشیہ نمبر : 29 یعنی یہ انتظام الل ٹپ نہیں ہوگیا ہے بلکہ بنانے والے نے بالارادہ اس غرض کے لیے یہ انتظام کیا ہے کہ مرد اپنی فطرت کے تقاضے عورت کے پاس ، اور عورت اپنی فطرت کی مانگ مرد کے پاس پائے ، اور دونوں ایک دوسرے سے وابستہ ہوکر ہی سکون و اطمینان حاصل کریں ۔ یہی وہ حکیمانہ تدبیر ہے جسے خالق نے ایک طرف انسانی نسل کے برقرار رہنے کا ، اور دوسری طرف انسانی تہذیب و تمدن کو وجود میں لانے کا ذریعہ بنایا ہے ۔ اگر یہ دونوں صنفیں محض الگ الگ ڈیزائنوں کے ساتھ پیدا کردی جاتیں اور ان میں وہ اضطراب نہ رکھ دیا جاتا جو ان کے باہمی اتصال و وابستگی کے بغیر مدبل بسکون نہیں ہوسکتا ، تو انسانی نسل تو ممکن ہے کہ بھیڑ بکریوں کی طرح چل جاتی ، لیکن کسی تہذیب و تمدن کے وجود میں آنے کا کوئی امکان نہ تھا ۔ تمام انواع حیوانی کے برعکس نوع انسانی میں تہذیب و تمدن کے رونما ہونے کا بنیادی سبب یہی ہے کہ خالق نے اپنی حکمت سے مرد اور عورت میں ایک دوسرے کے لیے وہ امنگ ، وہ پیاس ، وہ اضطراب کی کیفیت رکھ دیی جسے سکون میسر نہیں آتا جب تک کہ وہ ایک دوسرے سے جڑ کر نہ رہیں ۔ یہی سکون کی طلب ہے جس نے انہیں مل کر گھر بنانے پر مجبور کیا ۔ اسی کی بدولت خاندان اور قبیلے وجود میں آئے ۔ اور اسی کی بدولت انسان کی زندگی میں تمدن کا نشو و نما ہوا ۔ اس نشو و نما میں انسان کی ذہنی صلاحیتیں مددگار ضرور ہوئی ہیں مگر وہ اس کی اصلی محرک نہیں ہیں ۔ اصل محرک یہی اضطراب ہے جسے مرد و عورت کے وجود میں ودیعت کر کے انہیں گھر کی تاسیس پر مجبور کردیا گیا ۔ کون صاحب عقل یہ سوچ سکتا ہے کہ دانائی کا یہ شاہکات فطرت کی اندھی طاقتوں سے محض اتفاقا سرزد ہوگیا ہے؟ یا بہت سے خدا یہ انتظام کرسکتے تھے کہ اس گہرے حکیمانہ مقصد کو ملحوظ رکھ کر ہزارہا برس سے مسلسل بے شمار مردوں کو یہ خاص اضطراب لیے ہوئے پیدا کرتے چلے جائیں؟ یہ تو ایک حکیم اور ایک حکیم کی حکمت کا صریح نشان ہے جسے صرف عقل کے اندھے ہی دیکھنے سے انکار کرسکتے ہیں ۔ سورة الروم حاشیہ نمبر : 30 محبت سے مراد یہاں جنسی محبت ( ) ہے جو مرد اور عورت کے اندر جذب و کشش کی ابتدائی محرک بنتی ہے اور پھر انہیں ایک دوسرے سے چسپاں کیے رکھتی ہے ۔ اور رحمت سے مراد وہ روحانی تعلق ہے جو ازدواجی زندگی میں بتدریج ابھرتا ہے ، جس کی بدولت وہ ایک دوسرے کے خیر خواہ ، ہمدرد و غم خوار اور شریک رنج و راحت بن جاتے ہیں ، یہاں تک کہ ایک وقت ایسا آتا ہے جب جنسی محبت پیچھے جا پڑتی ہے اور بڑھاپے میں یہ جیون ساتھی کچھ جوانی سے بھی بڑھ کر ایک دوسرے کے حق میں رحیم و شفیق ثابت ہوتے ہیں ۔ یہ دو مثبت طاقتیں ہیں جو خالق نے اس ابتدائی اضطراب کی مدد کے لیے انسان کے اندر پیدا کی ہیں جس کا ذکر اوپر گزرا ہے ۔ وہ اضطراب تو صرف سکون چاہتا ہے اور اس کی تلاش میں مرد و عورت کو ایک دوسرے کی طرف لے جاتا ہے ۔ اس کے بعد یہ دو طاقتیں آگے بڑھ کر ان کے درمیان مستقل رفاقت کا ایسا رشتہ جوڑ دیتی ہیں جو دو الگ ماحولوں میں پرورش پائے ہوئے اجنبیوں کو ملا کر کچھ اس طرح پیوستہ کرتا ہے کہ عمر بھر وہ زندگی کے منجدھار میں اپنی کشتی ایک ساتھ کھینچتے رہتے ہیں ۔ ظاہر ہے کہ یہ محبت و رحمت جس کا تجربہ کروڑوں انسانوں کو اپنی زندگی میں ہو رہا ہے ، کوئی مادی چیز نہیں ہے جو وزن اور پیمائش میں آسکے ، نہ انسانی جسم کے عناصر ترکیبی میں کہیں اس کے سرچشمے کی نشان دہی کی جاسکتی ہے ، نہ کسی لیبارٹری میں اس کی پیدائش اور اس کے نشو و نما کے اسباب کا کھوج لگایا جاسکتا ہے ۔ اس کی کوئی توجیہ اس کے سوا نہیں کی جاسکتی کہ ایک خالق حکیم نے بالارادہ ایک مقصد کے لیے پوری مناسبت کے ساتھ اسے نفس انسانی میں ودیعت کردیا ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

8: عام طور پر نکاح سے پہلے میاں بیوی الگ الگ ماحول میں پرورش پاتے ہیں، لیکن نکاح کے بعد ان میں ایسا گہرا رشتہ پیدا ہوجاتا ہے کہ وہ اپنے پچھلے طرز زندگی کو خیر باد کہہ کر ایک دوسرے کے ہورہتے ہیں، ان کے درمیان یک بیک وہ محبت پیدا ہوجاتی ہے کہ ایک دوسرے کے بغیر رہنا ان کے لئے مشکل ہوجاتا ہے، جوانی میں ان کے درمیان محبت کا جوش ہوتا ہے اور بڑھاپے میں اس پر رحمت اور ہمدردی کا اضافہ ہوجاتا ہے۔