Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

یہ رنگ یہ زبانیں اور وسیع تر کائنات رب العلمین اپنی زبردست قدرت کی ایک نشانی اور بیان فرماتا ہے کہ اس قدر بلند کشادہ آسمان کی پیدائش اس میں ستاروں کا جڑاؤ ان کی چمک دمک ان میں سے بعض کا چلتا پھرتا ہونا بعض کا ایک جا ثابت رہنا زمین کو ایک ٹھوس شکل میں بنانا اسے کثیف پیدا کرنا اس میں پہاڑ میدان جنگل دریا سمندر ٹیلے پتھر درخت وغیرہ جمادینا ۔ خود تمہاری زبانوں میں رنگتوں میں اختلاف رکھنا عرب کی زبان تاتاریوں کی زبان ، کردوں ، رومیوں ، فرنگیوں ، تکرونیوں ، بربر ، حبشیوں ، ہندیوں ، ایرانیوں ، حقابلہ ، آرمینوں ، جزریوں اور اللہ جانے کتنی کتنی زبانیں زمین پر بنو آدم میں بولی جاتی ہیں ۔ انسانی زبانوں کے اختلاف کیساتھ ہی ان کی رنگتوں کا اختلاف بھی شان اللہ کا مظہر ہے ۔ خیال تو فرمائیے کہ لاکھوں آدمی جمع ہوجائیں ایک کنبے قبیلے کے ایک ملک ایک زبان کے ہوں لیکن ناممکن ہے کہ ہر ایک میں کوئی نہ کوئی اختلاف نہ ہو ۔ حالانکہ اعضائے بدن کے اعتبار سے کلی موافقت ہے ۔ سب کی دو آنکھیں دو پلکیں ایک ناک دو دو کان ایک پیشانی ایک منہ دو ہونٹ دو رخسار وغیرہ لیکن تاہم ایک سے ایک علیحدہ ہے ۔ کوئی نہ کوئی عادت خصلت کلام بات چیت طرز ادا ایسی ضرور ہوگی کہ جس میں ایک دوسرے کا امتیاز ہوجائے گو وہ بعض مرتبہ پوشیدہ سی اور ہلکی سی چیزیں ہی ہو ۔ گو خوبصورتی اور بدصورتی میں کئی ایک یکساں نظر آئیں لیکن جب غور کیا جائے تو ہر ایک کو دوسرے سے ممتاز کرنے والا کوئی نہ کوئی وصف ضرور نظر آجائے گا ۔ ہر جاننے والا اتنی بڑی طاقتوں اور قوتوں کے مالک کو پہچان سکتا ہے اور اس صنعت سے صانع کو جان سکتا ہے ۔ نیند بھی قدرت کی ایک نشانی ہے جس سے تھکان دور ہوجاتی ہے راحت وسکون حاصل ہوتا ہے اس کے لئے قدرت نے رات بنادی ۔ کام کاج کے لئے دنیا حاصل کرنے کے لئے کمائی دھندے کے لئے تلاش معاش کے لئے اللہ نے دن کو پیدا کردیا جو رات کے بالکل خلاف ہے ۔ یقینا سننے سمجھنے والوں کے لئے یہ چیزیں نشان قدرت ہیں ۔ طبرانی میں حضرت زید بن ثاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ راتوں کو میری نیند اچاٹ ہوجایاکرتی تھی تو میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے اس امر کی شکایت کی آپ نے فرمایا یہ دعا پڑھاکرو ۔ ( اللھم غارت النجوم وھدات العیون وانت حی قیوم یاحی یاقیوم انم عینی واھدی لیلی ) ۔ میں نے جب اس دعا کو پڑھا تو نیند نہ آنے کی بیماری بفضل اللہ دور ہوگئی ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

221دنیا میں اتنی زبانوں کا پیدا کردینا بھی اللہ کی قدرت کی ایک بہت بڑی نشانی ہے۔ پھر ایک ایک زبان کے مختلف لہجے اور اسلوب ہیں۔ اسی طرح ایک ہی ماں باپ (آدم و حوا علیہما السلام) سے ہونے کے باوجود رنگ ایک دوسرے سے مختلف ہیں کوئی کالا، کوئی گورا اور شکلیں بھی ایک دوسرے سے مختلف بولنے کے لہجے جدا جدا اور حتیّٰ کہ آواز بھی ایک دوسرے سے الگ الگ، ایک بھائی دوسرے بھائی سے مختلف ہے لیکن اللہ کی قدرت کا کمال ہے کہ پھر بھی کسی ایک ہی ملک کے باشندے، دوسرے ملک کے باشندوں سے ممتاز ہوتے ہیں۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١٩] سب سے پہلے تو انسان ایک ہی جیسے عناصر کا مرکب ہے پھر ایک کا منہ، زبان، گلا اور لب سب کچھ ایک جیسے ہیں لیکن آواز اور لب و لہجہ ہر شخص کا دوسرے سے مختلف ہوتا ہے۔ کسی کی آواز سریلی اور شریں ہوتی ہے کسی دوسرے کی بھاری اور ناگوار۔ حالانکہ توائے نطفہ سب انسانوں کے ایک جیسے ہیں۔ پھر ہر ایک علاقہ اور ملک کی زبان ایک دوسرے سے مختلف ہے کہیں عرب زبان بولی جاتی ہے، کہیں فارسی، کہیں انگریزی، کہیں پشتو، کہیں اردو غرضیکہ سینکڑوں کی قسم کی زبانیں ہیں اور یہ انواع ہیں۔ پھر ایک ہی علاقہ میں چند میلوں کے فاصلہ پر ہی زبان میں ذیلی قسم کی تبدیلیاں اور محاورات میں اختلاف ہوتے ہیں جن میں فرق صرف اس علاقہ کے لوگ ہی سمجھ سکتے ہیں۔ پھر ہر علاقہ کی زبان کے ساتھ اس کے حروف تہجی میں ان کے مخارج میں اور لب و لہجہ میں اختلاف واقعہ ہوتا ہے یہی حال رنگوں کا ہے۔ کسی علاقہ کے لوگ سفید رنگ کے ہوتے ہیں کسی کے کالے، کسی کے سرخ، اور کسی کے گندمی رنگ کے، کہا جاتا کہ انسان کی جلد کے رنگ پر اس علاقہ کی مخصوص آب و ہوا کا اثر ہوتا ہے جس سے رنگت میں تبدیلی آجاتا ہے۔ یہ بات بھی صرف جزوی طور پر ہی تسلیم کی جاسکتی ہے۔ کیونکہ اکثر دیکھنے میں آتا ہے کہ ایک ہی ماں باپ اور ایک علاقہ ہوتا ہے۔ مگر اولاد کی رنگت میں فرق ہوتا ہے۔ اگرچہ اس آیت میں صرف دو چیزوں لسان اور رنگ کا ذکر کیا گیا ہے۔ مگر اور بھی بہت سے پہلو ہیں جن کے اختلافات واقع ہوتے ہیں مثلاً کسی علاقے کے لوگ بلند قدو قامت رکھتے ہیں، کہیں پست قامت ہوتے ہیں اور کہیں درمیانہ حد والے۔ اسی طرح کہیں لوگ چپٹی ناک والے ہوتے ہیں اور لمبوتری اور کہیں اونچی ناک والے مثلاً ایک ہی والدین کے اولاد کی شکلوں میں جو فرق ہوتا ہے اسے والدین اور قریبی رشتہ دار تو محسوس کرسکتے ہیں لیکن اجنبی لوگ ان میں یکسانیت ہی محسوس کرتے ہیں اور بعض دفعہ امتیاز بھی نہیں کرسکتے۔ ان سب باتوں سے یہی نتیجہ سامنے آتا ہے کہ رحم مادر میں پرورش پانے والا ہر جاندار اللہ تعالیٰ کی انفرادی توجہ کا محتاج ہوتا ہے۔ بیشمار ایسی باتیں ہیں جو رحم مادر میں ہی انسان کے حصہ میں آتی ہیں۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَمِنْ اٰيٰتِهٖ خَلْقُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ : یعنی اللہ تعالیٰ کی وحدانیت، اس کی قدرت کاملہ اور تمہیں دوبارہ زندہ کرنے پر دلالت کرنے والی بیشمار نشانیوں میں سے ایک نشانی جو بہت سی نشانیوں پر مشتمل ہے، آسمانوں اور زمین کی پیدائش ہے، جس کے مقابلے میں تمہیں پہلی یا دوسری دفعہ پیدا کرنا بالکل ہی معمولی بات ہے۔ لاکھوں کروڑوں سال سے چلا آنے والا زمین اور آسمانوں کا نظام اور ان میں موجود سورج چاند اور بیشمار وسیع و عریض سیاروں پر مشتمل کہکشاؤں کا سلسلہ جو دن بدن وسیع سے وسیع تر ہوتا چلا جا رہا ہے (دیکھیے ذاریات : ٤٧) رب تعالیٰ کی بےپایاں قدرتوں کی واضح نشانی ہے، جیسا کہ فرمایا : (لَخَــلْقُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ اَكْبَرُ مِنْ خَلْقِ النَّاسِ وَلٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُوْنَ ) [ المؤمن : ٥٧ ] ” یقیناً آسمانوں اور زمین کا پیدا کرنا لوگوں کے پیدا کرنے سے زیادہ بڑا (کام) ہے اور لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔ “ اگر یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور نے پیدا کیا ہے، یا کسی اور کا اس میں کوئی حصہ ہے، یا کم از کم اسے پیدا کرنے کا کوئی دعوے دار ہی ہے تو سامنے لاؤ۔- وَاخْتِلَافُ اَلْسِنَتِكُمْ وَاَلْوَانِكُمْ : اللہ تعالیٰ کی قدرت کی نشانیوں میں سے ایک عظیم نشانی کائنات میں پایا جانے والا تنوع ہے کہ اس نے جو چیز پیدا کی وہ دوسری چیز سے الگ پیدا کی۔ یہاں اللہ تعالیٰ نے اس تنوع میں سے صرف دو چیزیں ذکر فرمائی ہیں، ایک انسانوں کی زبانوں کا مختلف ہونا، دوسرا ان کے رنگوں کا مختلف ہونا۔ ایک مٹی اور ایک پانی سے پیدا ہونے والے انسانوں کی زبانیں مختلف ہیں۔ عربی، فارسی، انگریزی، ہندی، جاپانی، ترکی، حبشی، چینی، روسی، فرانسیسی، جرمنی، سپینی، غرض ہر قوم کی الگ زبان ہے، پھر ہر زبان کی بیشمار ذیلی زبانیں ہیں۔ ان ذیلی زبانوں کے لہجے اور بعض الفاظ ہرچند میل کے فاصلے پر مختلف ہوجاتے ہیں۔ پھر بولتے وقت ایک ہی زبان مثلاً عربی یا انگلش میں بات کرتے ہوئے کسی ایک شخص کا لہجہ، آواز، ادائیگی، تیزی یا آہستگی، نرمی یا سختی، شیرینی یا تلخی دوسرے شخص سے نہیں ملتی، حتیٰ کہ آدم (علیہ السلام) سے لے کر آخری انسان تک ہر شخص جب بولتا ہے تو اس کا تکلم صرف اسی کو عطا ہوا ہے، جس سے وہ پوری بنی نوع انسان میں دوسروں سے ممتاز ہے۔ اسے جاننے والا شخص پردے کے پیچھے اس کی بات سن کر پہچان لے گا کہ فلاں شخص بول رہا ہے۔ کمپیوٹر کی ایجاد سے اللہ تعالیٰ کی قدرت کی یہ عجیب نشانی مزید نمایاں ہوگئی ہے کہ اسے کسی شخص کا تکلم دے دیا جائے، تو وہ کروڑوں اربوں انسانوں میں سے جدا کر دے گا۔ - اسی طرح انسانوں کے رنگوں کا مختلف ہونا اللہ تعالیٰ کی قدرت کی عظیم نشانی ہے کہ ایک ہی اصل سے پیدا ہونے والے انسانوں میں کوئی سفید ہے، کوئی گندمی، کوئی سیاہ، کوئی سرخ، کوئی زرد اور کوئی ان کے درمیان۔ پھر کمال یہ ہے کہ بظاہر ایک ہی رنگ، مثلاً سیاہ رنگ والے ایک انسان کا رنگ دوسرے سیاہ فام انسان کے رنگ سے نہیں ملتا۔ اللہ تعالیٰ نے رنگ میں اتنی قسمیں رکھ دی ہیں کہ ہر سیاہ کا رنگ دوسرے سیاہ کے رنگ سے اور ہر سفید کا رنگ دوسرے سفید کے رنگ سے مختلف ہے۔ کسی شخص کی آنکھوں کی پتلی کی رنگت اور ساخت دوسرے شخص کی آنکھ کی رنگت اور ساخت سے نہیں ملتی۔ کسی ایک شخص کے بالوں کا سیاہ یا سرخ یا سنہری یا سفید رنگ دوسرے کے سیاہ یا سرخ یا سنہری یا سفید رنگ سے نہیں ملتا۔ کسی شخص کی جسمانی ساخت اور اس کے ہاتھ پاؤں کی لکیریں دوسرے شخص سے نہیں ملتیں، جب کہ دیکھنے میں سب انسان ہیں۔ تخلیق کا یہ باریک ترین اور عظیم ترین سلسلہ کیا اس بات کی واضح دلیل نہیں کہ یہ سب کچھ ایک رب قدیر کی قدرت کا شاہکار ہے ؟ جس نے جو چاہا پیدا کردیا، جو پیدا کیا خوب صورت پیدا کیا اور بےمثال اور لاجواب پیدا کیا۔ عقل سے کتنے خالی ہیں وہ لوگ جو کہتے ہیں کہ یہ سب کچھ خود بخود ہوگیا، یا کہتے ہیں کہ دو خالقوں یا مالکوں کی موجودگی میں یہ نظام چل رہا ہے، یا کہتے ہیں کہ اتنی عظیم قدرتوں کا مالک مٹی ہوجانے کے بعد انسانوں کو دوبارہ کیسے زندہ کرے گا ؟- پھر تنوع کے اس سلسلے کو ذرا پھیلا کر دیکھیے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (وَفِي الْاَرْضِ قِطَعٌ مُّتَجٰوِرٰتٌ وَّجَنّٰتٌ مِّنْ اَعْنَابٍ وَّزَرْعٌ وَّنَخِيْلٌ صِنْوَانٌ وَّغَيْرُ صِنْوَانٍ يُّسْقٰى بِمَاۗءٍ وَّاحِدٍ ۣ وَنُفَضِّلُ بَعْضَهَا عَلٰي بَعْضٍ فِي الْاُكُلِ ۭ اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيٰتٍ لِّقَوْمٍ يَّعْقِلُوْنَ ) [ الرعد : ٤ ] ” اور زمین میں ایک دوسرے سے ملے ہوئے مختلف ٹکڑے ہیں اور انگوروں کے باغ اور کھیتی اور کھجور کے درخت کئی تنوں والے اور ایک تنے والے، جنھیں ایک ہی پانی سے سیراب کیا جاتا ہے اور ہم ان میں سے بعض کو پھل میں بعض پر فوقیت دیتے ہیں، بلاشبہ اس میں ان لوگوں کے لیے یقیناً بہت سی نشانیاں ہیں جو سمجھتے ہیں۔ “ زمین سے پیدا ہونے والی ہر جنس، حیوانات ہوں یا نباتات یا جمادات، ان کی ہر قسم دوسری قسم سے جدا ہے، مثلاً گائے بکری سے جدا ہے، آم کا درخت جامن سے جدا ہے، گندم جو سے الگ ہے، لوہا تانبے سے الگ ہے۔ پھر لامحدود تنوع دیکھیے کہ ہر درخت کا ہر پتا اسی درخت کے دوسرے پتے سے الگ ہے۔ ذرا اس کی لکیروں پر غور کرو، ہر ایک کی لکیریں دوسرے کی لکیروں سے الگ ہیں۔ دیکھنے میں تمام درخت اور تمام پودے سبز ہیں، مگر ہر ایک کو دوسرے سے الگ سبز رنگ عطا ہوا ہے۔ صرف درخت ہی نہیں چرندوں، پرندوں، درندوں اور آبی جانوروں میں سے ہر ایک کا یہی حال ہے۔ رنگوں کا یہ اختلاف ہی اللہ تعالیٰ کے وجود، اس کی توحید اور اس کی قدرت کی کافی دلیل ہے۔ ۭ اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيٰتٍ لِّــلْعٰلِمِيْنَ : یعنی آسمان و زمین کی پیدائش اور زبانوں اور رنگوں کے اختلاف سے اللہ تعالیٰ کی اور اس کی قدرتوں کی پہچان ہر ایرے غیرے کا کام نہیں، ان نشانیوں کی پہچان علم والوں کا کام ہے، جیسا کہ فرمایا : (وَتِلْكَ الْاَمْثَالُ نَضْرِبُهَا للنَّاسِ ۚ وَمَا يَعْقِلُهَآ اِلَّا الْعٰلِمُوْنَ ) [ العنکبوت : ٤٣ ] ” اور یہ مثالیں ہیں جو ہم لوگوں کے لیے بیان کرتے ہیں اور انھیں صرف جاننے والے ہی سمجھتے ہیں۔ “ رنگوں کے اختلاف سے اللہ تعالیٰ کی قدرتوں کی معرفت اور اس کی خشیت صرف علماء کا حصہ ہونا دوسری جگہ اللہ تعالیٰ نے تفصیل کے ساتھ بیان فرمایا ہے، چناچہ فرمایا : ( اَلَمْ تَرَ اَنَّ اللّٰهَ اَنْزَلَ مِنَ السَّمَاۗءِ مَاۗءً ۚ فَاَخْرَجْنَا بِهٖ ثَمَرٰتٍ مُّخْتَلِفًا اَلْوَانُهَا ۭوَمِنَ الْجِبَالِ جُدَدٌۢ بِيْضٌ وَّحُمْرٌ مُّخْتَلِفٌ اَلْوَانُهَا وَغَرَابِيْبُ سُوْدٌ وَمِنَ النَّاسِ وَالدَّوَاۗبِّ وَالْاَنْعَامِ مُخْتَلِفٌ اَلْوَانُهٗ كَذٰلِكَ ۭ اِنَّمَا يَخْشَى اللّٰهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَمٰۗؤُا ۭاِنَّ اللّٰهَ عَزِيْزٌ غَفُوْرٌ ) [ فاطر : ٢٧، ٢٨ ] ” کیا تو نے نہیں دیکھا کہ اللہ نے آسمان سے کچھ پانی اتارا، پھر ہم نے اس کے ساتھ کئی پھل نکالے، جن کے رنگ مختلف ہیں اور پہاڑوں میں سے کچھ سفید اور سرخ قطعے ہیں، جن کے رنگ مختلف ہیں اور کچھ سخت کالے سیاہ ہیں۔ اور کچھ لوگوں اور جانوروں اور چوپاؤں میں سے بھی ہیں جن کے رنگ اسی طرح مختلف ہیں، اللہ سے تو اس کے بندوں میں سے صرف جاننے والے ہی ڈرتے ہیں، بیشک اللہ سب پر غالب، بیحد بخشنے والا ہے۔ “

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

اسی طرح الوان کا اختلاف ہے کہ ایک ہی ماں باپ سے ایک ہی قسم کے حالات میں دو بچے مختلف رنگوں کے پیدا ہوتے ہیں۔ یہ تو تخلیق و صنعت گری کا کمال تھا، آگے زبانیں اور لہجے مختلف ہوتے ہیں۔ اسی طرح انسانوں کے رنگ مختلف ہونے میں کیا کیا حکمتیں مستور ہیں، ان کا بیان طویل ہے اور بہت سی حکمتوں کا معمولی غور و فکر سے سمجھ لینا مشکل بھی نہیں۔- اس آیت قدرت میں متعدد چیزیں آسمان، زمین، اختلاف السنہ، اختلاف الوان اور ان کے ضمن میں اور بہت سی قدرت و حکمت کی نشانیاں ہیں اور وہ ایسی کھلی ہوتی ہیں کہ کسی مزید غور و فکر کی بھی ضرورت نہیں، ہر آنکھوں والا دیکھ سکتا ہے اس لئے اس کے ختم پر ارشاد فرمایا اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيٰتٍ لِّــلْعٰلِمِيْنَ یعنی اس میں بہت سی نشانیاں ہیں سمجھ رکھنے والوں کے لئے۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَمِنْ اٰيٰتِہٖ خَلْقُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَاخْتِلَافُ اَلْسِنَتِكُمْ وَاَلْوَانِكُمْ۝ ٠ۭ اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيٰتٍ لِّــلْعٰلِمِيْنَ۝ ٢٢- الاختلافُ والمخالفة- والاختلافُ والمخالفة : أن يأخذ کلّ واحد طریقا غير طریق الآخر في حاله أو قوله، والخِلَاف أعمّ من الضّدّ ، لأنّ كلّ ضدّين مختلفان، ولیس کلّ مختلفین ضدّين، ولمّا کان الاختلاف بين النّاس في القول قد يقتضي التّنازع استعیر ذلک للمنازعة والمجادلة، قال :- فَاخْتَلَفَ الْأَحْزابُ [ مریم 37] - ( خ ل ف ) الاختلاف والمخالفۃ - الاختلاف والمخالفۃ کے معنی کسی حالت یا قول میں ایک دوسرے کے خلاف کا لفظ ان دونوں سے اعم ہے کیونکہ ضدین کا مختلف ہونا تو ضروری ہوتا ہے مگر مختلفین کا ضدین ہونا ضروری نہیں ہوتا ۔ پھر لوگوں کا باہم کسی بات میں اختلاف کرنا عموما نزاع کا سبب بنتا ہے ۔ اس لئے استعارۃ اختلاف کا لفظ نزاع اور جدال کے معنی میں استعمال ہونے لگا ہے ۔ قرآن میں ہے : فَاخْتَلَفَ الْأَحْزابُ [ مریم 37] پھر کتنے فرقے پھٹ گئے ۔ - لسن - اللِّسَانُ : الجارحة وقوّتها، وقوله : وَاحْلُلْ عُقْدَةً مِنْ لِسانِي [ طه 27] يعني به من قوّة لسانه، فإنّ العقدة لم تکن في الجارحة، وإنما کانت في قوّته التي هي النّطق به، ويقال : لكلّ قوم لِسَانٌ ولِسِنٌ بکسر اللام، أي : لغة . قال تعالی: فَإِنَّما يَسَّرْناهُ بِلِسانِكَ [ الدخان 58] ، وقال : بِلِسانٍ عَرَبِيٍّ مُبِينٍ [ الشعراء 195] ، وَاخْتِلافُ أَلْسِنَتِكُمْ وَأَلْوانِكُمْ- [ الروم 22] فاختلاف الْأَلْسِنَةِ إشارة إلى اختلاف اللّغات، وإلى اختلاف النّغمات، فإنّ لكلّ إنسان نغمة مخصوصة يميّزها السّمع، كما أنّ له صورة مخصوصة يميّزها البصر .- ( ل س ن ) اللسان - ۔ زبان اور قوت گویائی کو کہتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : وَاحْلُلْ عُقْدَةً مِنْ لِسانِي [ طه 27] اور میری زبان کی گرہ گھول دے ۔ یہاں لسان کے معنی قلت قوت گویائی کے ہیں کیونکہ وہ بندش ان کی زبان پر نہیں تھی بلکہ قوت گویائی سے عقدہ کشائی کا سوال تھا ۔ محاورہ ہے : یعنی ہر قوم را لغت دلہجہ جدا است ۔ قرآن میں ہے : فَإِنَّما يَسَّرْناهُ بِلِسانِكَ [ الدخان 58]( اے پیغمبر ) ہم نے یہ قرآن تمہاری زبان میں آسان نازل کیا ۔ بِلِسانٍ عَرَبِيٍّ مُبِينٍ [ الشعراء 195] فصیح عربی زبان میں ۔ اور آیت کریمہ : وَاخْتِلافُ أَلْسِنَتِكُمْ وَأَلْوانِكُمْ [ الروم 22] اور تمہاری زبانوں اور نگوں کا اختلاف ۔ میں السنہ سے اصوات اور لہجوں کا اختلاف مراد ہے ۔ چناچہ ہم دیکھتے ہیں کہ جس طرح دیکھنے میں ایک شخص کی صورت دوسرے سے نہیں ملتی اسی طرح قوت سامعہ ایک لہجہ کو دوسرے سے الگ کرلیتی ہے ۔- لون - اللَّوْنُ معروف، وينطوي علی الأبيض والأسود وما يركّب منهما، ويقال : تَلَوَّنَ : إذا اکتسی لونا غير اللّون الذي کان له . قال تعالی: وَمِنَ الْجِبالِ جُدَدٌ بِيضٌ وَحُمْرٌ مُخْتَلِفٌ أَلْوانُها - [ فاطر 27] ، وقوله : وَاخْتِلافُ أَلْسِنَتِكُمْ وَأَلْوانِكُمْ [ الروم 22] فإشارة إلى أنواع الألوان واختلاف الصّور التي يختصّ كلّ واحد بهيئة غير هيئة صاحبه، وسحناء غير سحنائه مع کثرة عددهم، وذلک تنبيه علی سعة قدرته . ويعبّر بِالْأَلْوَانِ عن الأجناس والأنواع . يقال : فلان أتى بالألوان من الأحادیث، وتناول کذا ألوانا من الطّعام .- ( ل و ن ) اللون - ۔ کے معنی رنگ کے ہیں اور یہ سیاہ سفید اور ان دونوں سے مرکب یعنی ہر قسم کے - رنگ پر بولا جاتا ہے ۔ تلون کے معنی رنگ بدلنے کے ہیں قرآن میں ہے ۔ وَمِنَ الْجِبالِ جُدَدٌ بِيضٌ وَحُمْرٌ مُخْتَلِفٌ أَلْوانُها[ فاطر 27] اور پہاڑوں میں سفید اور سرخ رنگوں کی دھار یاں ہیں ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَاخْتِلافُ أَلْسِنَتِكُمْ وَأَلْوانِكُمْ [ الروم 22] اور تمہاری زبانوں اور رنگوں کا مختلف الوادع و اقسام کے رنگوں اور شکلوں کے مختلف ہونے کی طرف اشارہ ہے اور باوجود اس قدر تعداد کے ہر انسان اپنی ہیئت کذائی اور رنگت میں دوسرے سے ممتاز کذابی اور رنگت میں دوسرے سے ممتاز نظر آتا ہے ۔ اس سے خدا کی وسیع قدرت پر تنبیہ کی گئی ۔ اور کبھی الوان سے کسی چیز کے لوادع و اقسام مراد ہوتے ہیں چناچہ محاورہ ہے اس نے رنگا رنگ کی باتیں کیں اور الوان من الطعام سے مراد ہیں قسم قسم کے کھانے ۔- علم - العِلْمُ : إدراک الشیء بحقیقته، وذلک ضربان :- أحدهما : إدراک ذات الشیء .- والثاني : الحکم علی الشیء بوجود شيء هو موجود له،- أو نفي شيء هو منفيّ عنه .- فالأوّل : هو المتعدّي إلى مفعول واحد نحو :- لا تَعْلَمُونَهُمُ اللَّهُ يَعْلَمُهُمْ [ الأنفال 60] .- والثاني : المتعدّي إلى مفعولین، نحو قوله :- فَإِنْ عَلِمْتُمُوهُنَّ مُؤْمِناتٍ [ الممتحنة 10] ، وقوله : يَوْمَ يَجْمَعُ اللَّهُ الرُّسُلَ إلى قوله :- لا عِلْمَ لَنا «3» فإشارة إلى أنّ عقولهم طاشت .- والعِلْمُ من وجه ضربان : نظريّ وعمليّ.- فالنّظريّ : ما إذا علم فقد کمل، نحو : العلم بموجودات العالَم .- والعمليّ : ما لا يتمّ إلا بأن يعمل کالعلم بالعبادات .- ومن وجه آخر ضربان : عقليّ وسمعيّ ،- وأَعْلَمْتُهُ وعَلَّمْتُهُ في الأصل واحد، إلّا أنّ الإعلام اختصّ بما کان بإخبار سریع، والتَّعْلِيمُ اختصّ بما يكون بتکرير وتكثير حتی يحصل منه أثر في نفس المُتَعَلِّمِ. قال بعضهم : التَّعْلِيمُ : تنبيه النّفس لتصوّر المعاني، والتَّعَلُّمُ : تنبّه النّفس لتصوّر ذلك، وربّما استعمل في معنی الإِعْلَامِ إذا کان فيه تكرير، نحو : أَتُعَلِّمُونَ اللَّهَ بِدِينِكُمْ [ الحجرات 16] ،- ( ع ل م ) العلم - کسی چیش کی حقیقت کا اور راک کرنا اور یہ قسم پر ہے اول یہ کہ کسی چیز کی ذات کا ادراک کرلینا دوم ایک چیز پر کسی صفت کے ساتھ حکم لگانا جو ( فی الواقع ) اس کے لئے ثابت ہو یا ایک چیز کی دوسری چیز سے نفی کرنا جو ( فی الواقع ) اس سے منفی ہو ۔ پہلی صورت میں یہ لفظ متعدی بیک مفعول ہوتا ہے جیسا کہ قرآن میں ہے : ۔ لا تَعْلَمُونَهُمُ اللَّهُ يَعْلَمُهُمْ [ الأنفال 60] جن کو تم نہیں جانتے اور خدا جانتا ہے ۔ اور دوسری صورت میں دو مفعول کی طرف متعدی ہوتا ہے جیسے فرمایا : ۔ فَإِنْ عَلِمْتُمُوهُنَّ مُؤْمِناتٍ [ الممتحنة 10] اگر تم کا معلوم ہو کہ مومن ہیں ۔ اور آیت يَوْمَ يَجْمَعُ اللَّهُ الرُّسُلَاسے اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ ان کے ہوش و حواس قائم نہیں رہیں گے ۔- ایک دوسری حیثیت سے علم کی دوقسمیں ہیں - ( 1) نظری اور ( 2 ) عملی ۔ نظری وہ ہے جو حاصل ہونے کے ساتھ ہی مکمل ہوجائے جیسے وہ عالم جس کا تعلق موجودات عالم سے ہے اور علم عمل وہ ہے جو عمل کے بغیر تکمیل نہ پائے جسیے عبادات کا علم ایک اور حیثیت سے بھی علم کی دو قسمیں ہیں ۔ ( 1) عقلی یعنی وہ علم جو صرف عقل سے حاصل ہو سکے ( 2 ) سمعی یعنی وہ علم جو محض عقل سے حاصل نہ ہو بلکہ بذریعہ نقل وسماعت کے حاصل کیا جائے دراصل اعلمتہ وعلمتہ کے ایک معنی ہیں مگر اعلام جلدی سے بتادینے کے ساتھ مختص ہے اور تعلیم کے معنی با ر بار کثرت کے ساتھ خبر دینے کے ہیں ۔ حتٰی کہ متعلم کے ذہن میں اس کا اثر پیدا ہوجائے ۔ بعض نے کہا ہے کہ تعلیم کے معنی تصور کیلئے نفس کو متوجہ کرنا کے ہیں اور تعلم کے معنی ایسے تصور کی طرف متوجہ ہونا کے اور کبھی تعلیم کا لفظ اعلام کی جگہ آتا ہے جب کہ اس میں تاکید کے معنی مقصود ہوں جیسے فرمایا ۔ أَتُعَلِّمُونَ اللَّهَ بِدِينِكُمْ [ الحجرات 16] کیا تم خدا کو اپنی دینداری جتلاتے ہو ۔ اور حسب ذیل آیات میں تعلیم کا لفظ استعمال ہوا ہے جیسے فرمایا ۔ الرَّحْمنُ عَلَّمَ الْقُرْآنَ [ الرحمن 1- 2] خدا جو نہایت مہربان اس نے قرآن کی تعلیم فرمائی ۔ قلم کے ذریعہ ( لکھنا ) سکھایا ؛

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

اور اسی کی وحدت وقدرت کی نشانیوں میں سے آسمان و زمین کا بنانا اور تمہاری زبانوں اور رنگوں کا علیحدہ علیحدہ ہونا ہے کہ کسی کی زبان عربی تو کسی کی فارسی اور کسی کی رنگت سیاہ اور کسی کی سفید ان مذکورہ باتوں میں جن و انس کے لیے نشانیاں ہیں۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

(وَاخْتِلَافُ اَلْسِنَتِکُمْ وَاَلْوَانِکُمْ ط) ” - پوری دنیا کے انسانوں کے درمیان بولی جانے والی طرح طرح کی زبانوں کے اندر پایاجانے والا تنوّع بھی اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے ہے۔ اسی طرح مختلف خطوں میں بسنے والے انسانوں کے مختلف رنگ بھی اس کی صناعی اور خلاقی کے مظاہر کی مثالیں ہیں کہ کس طرح ایک ہی نسل سے تعلق کے باوجود کوئی زرد رو ہے تو کوئی سرخ رو ‘ کوئی سفید فام ہے تو کوئی سیاہ فام۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الروم حاشیہ نمبر : 31 یعنی ان کا عدم سے وجود میں آنا اور ایک اٹل ضابطے پر ان کا قائم ہونا ، اور بے شمار قوتوں کا ان کے اندر انتہائی تناسب و توازن کے ساتھ کام کرنا ، اپنے اندر اس بات کی بہت سی نشانیاں رکھتا ہے کہ اس پوری کائنات کو ایک خالق اور ایک ہی خالق وجود میں لایا ہے اور وہی اس عظیم الشان نظام کی تدبیر کر رہا ہے ۔ ایک طرف اگر اس بات پر غور کیا جائے کہ کہ وہ ابتدائی قوت ( ) کہاں سے آئی جس نے مادے کی شکل اختیار کی ، پھر مادے کے یہ بہت سے عناصر کیسے بنے ، پھر ان عناصر کی اس قدر حکیمانہ ترکیب سے اتنی حیرت انگیز مناسبتوں کے ساتھ یہ مدہوش کن نظام عالم کیسے بن گیا ، اور اب یہ نظام کروڑہا کروڑ صدیوں سے کس طرح ایک زبردست قانون فطرت کی بندش میں کسا ہوا چل رہا ہے ، تو ہر غیر متعصب عقل اس نتیجے پر پہنچے گی کہ یہ سب کچھ کسی علیم و حکیم کے غالب ارادے کے بغیر محض بخت و اتفاق کے نتیجے میں نہیں ہوسکتا ۔ اور دوسری طرف اگر یہ دیکھا جائے کہ زمین سے لے کر کائنات کے بعید ترین سیاروں تک سب ایک ہی طرح کے عناصر سے مرکب ہیں اور ایک ہی قانون فطرت ان میں کار فرما ہے تو ہر عقل جو ہٹ دھرم نہیں ہے ، بلا شبہ یہ تسلیم کرے گی کہ یہ سب کچھ بہت سے خداؤں کا کرشمہ نہیں ہے بلکہ ایک ہی خدا اس پوری کائنات کا خالق اور رب ہے ۔ سورة الروم حاشیہ نمبر : 32 یعنی باوجودیکہ تمہارے قوائے نطقیہ یکساں ہیں ، نہ منہ اور زبان کی ساخت میں کوئی فرق ہے اور نہ دماغ کی ساخت میں ، مگر زمین کے مختلف خطوں میں تمہاری زبانیں مختلف ہیں ، پھر ایک ہی زبان بولنے والے علاقوں میں شہر شہر اور بستی بستی کی بولیاں مختلف ہیں ، اور مزید یہ کہ ہر شخص کا لہجہ اور تلفظ اور طرز گفتگو دوسرے سے مختلف ہے ، اسی طرح تمہارا مادہ تخلیق اور تمہاری بناوٹ کا فارمولا ایک ہی ہے ، مگر تمہارے رنگ اس قدر مختلف ہیں کہ قوم اور قوم تو درکنا ، ایک ماں ماں باپ کے دو بیٹوں کا رنگ بھی بالکل یکساں نہیں ہے ۔ یہاں نمونے کے طور پر صرف دو ہی چیزوں کی طرف توجہ دلائی گئی ہے ۔ لیکن اسی رخ پر آگے بڑھ کر کر دیکھیے تو دنیا میں آپ ہر طرف اتنا تنوع ( ) پائیں گے کہ اس کا احاطہ مشکل ہوجائے گا ۔ انسان ، حیوان ، نباتات اور دوسری تمام اشیاء کی جس نوع کو بھی آپ لے لیں اس کے افراد میں بنیادی یکسانی کے باوجود بے شمار اختلافات موجود ہیں حتی کہ کسی نوع کا بھی کوئی ایک فرد دوسرے سے بالکل مشابہ نہیں ہے ، حتی کہ ایک درخت کے دو پتوں میں بھی پوری مشابہت نہیں پائی جاتی ۔ یہ چیز صاف بتا رہی ہے کہ یہ دنیا کوئی ایسا کارخانہ نہیں ہے جس میں خودکار مشینیں چل رہی ہوں اور کثیر پیدا آوری ( ) کے طریقے پر ہر قسم کی اشیاء کا بس ایک ایک ٹھپہ ہو جس سے ڈھل ڈھول کر ایک ہی طرح کی چیزیں نکلتی چلی آرہی ہوں ۔ بلکہ یہاں ایک ایسا زبردست کاریگر کام کررہا ہے جو ہر چیز کو پوری انفرادی توجہ کے ساتھ ایک نئے ڈیزائن ، نئے نقش و نگار ، نئے تناسب اور نئے اوصاف کے ساتھ بناتا ہے اور اس کی بنائی ہوئی ہر چیز اپنی جگہ منفرد ہے ۔ اس کی قوت ایجاد ہر آن ہر چیز کا ایک نیا ماڈل ناکل رہی ہے ، اور اس کی صناعی ایک ڈیزائن کو دوسری مرتبہ دوہرانا اپنے کمال کی توہین سمجھتی ہے ۔ اس حیرت انگیز منظر کو جو شخص بھی آنکھیں کھول کر دیکھے گا وہ کبھی اس احمقانہ تصور میں مبتلا نہیں ہوسکتا کہ اس کائنات کا بنانے والا ایک دفعہ اس کارخانے کو چلا کر کہیں جا سویا ہے ۔ یہ تو اس بات کا کھلا ثبوت ہے کہ وہ ہر وقت کار تخلیق میں لگا ہوا ہے اور اپنی خلق کی ایک ایک چیز پر انفرادی توجہ صرف کر رہا ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani