2 3 1نیند کا باعث سکون و راحت ہونا چاہیے وہ رات کو ہو یا بوقت قیلولہ، اور دن کو تجارت و کاروبار کے ذریعہ سے اللہ کا فضل تلاش کرنا، یہ مضمون کئی جگہ گزر چکا ہے۔
[٢٠] کام کاج کرنے کے بعد انسان کو آرام کی ضرورت ہوتی ہے اگر آرام نہ کرے تو جینا ہی محال ہوجائے۔ لیکن آرام سے مراد یہ نہیں کہ انسان کچھ وقت کام نہ کرے یا بستر پر لیٹ جائے بلکہ جب تک اسے گہری نیند نہ آئے نہ اس کی تھکن دور ہوتی ہے اور نہ وہ مزید کام کاج کرنے کے قابل ہوتا ہے اور محض کام چھورنے یا لیٹے رہنے سے مقصد حاصل نہیں ہوسکتا۔ نیند کیا چیز ہے اس کی کیفیت اور ماہیت کیا ہے ؟ یہ ایسا سربستہ راز ہے جسے انسان ابھی تک نہیں پاسکا۔ اس نے خواب آور دوائیں بھی دریافت کرلیں اور گولیاں بھی بنالیں مگر وہ اس کی ماہیت کو نہیں پاسکا کہ خواب کے دوران انسان سے کیا چیز کم ہوجاتی ہے کہ اس کے حواس کام کرنا چھوڑ دیتے ہیں۔ پھر نیند کی حالت میں خواب دیکھنا دوسرا حیران کن مسئلہ ہے کہ یہ خواب انسان کن حواس سے دیکھتا ہے۔ انسان کو بس اتنا معلوم ہے کہ جب وہ زیادہ تھک جائے تو اس کی مرضی ہو یا نہ ہو نیند اسے آدبوچتی ہے۔ کام کاج کے دوران جو انسان کے جسم سے جاتے ہیں۔ ان کی موت شروع ہوجاتی ہے اور ان کے بجائے نے سیل بن جاتے ہیں اور جب یہ سارا کام سرانجام پا جاتا ہے تو انسان کو خود بخود جاگ آجاتی ہے یعنی نیند کا آنا، نیند سے تھکن دور ہونا پھر تھکن دور ہونے پر تازہ دم ہو کر از خود ہی بیدار ہوجانا، یہ سب قوتیں اللہ تعالیٰ نے عطا کی ہیں جو سراسر حکمت اور مصلحت پر مبنی ہیں اور ان میں کسی دوسرے الٰہ کا کوئی عمل دخل نہیں۔- انسان کے وسائل معاش اور ضروریات زندگی زمین میں چار سو بکھرے ہوئے ہیں۔ نیند کے بعد آدمی اس قابل ہوجاتا ہے کہ تازہدم ہو کر اپنا رزق تلاش کرے۔ رزق تلاش کرنے کے لئے روشنی کی ضرورت تھی لہذا اس کام کے لئے دن کا وقت مختص کیا اور نیند کے لئے تاریکی اور خنکی کی ضرورت تھی ایک تاریکی تو انسان کو آنکھیں بند کرنے سے ہی حاصل ہوجاتی ہے، دوسری تاریکی رات کی ہوئی۔ اس طرح آرام کے لئے اللہ نے رات کا وقت مقرر کیا۔ گو آج کل انسان نے ایسی مصنوعی طریقے ایجاد کر لئے ہیں جس سے انسان رات کو کام کرنے کے قابل ہوگیا ہے۔ اور دن کو بھی آرام کرتا ہے اور مادہ پرستانہ دور کا ہی یہ تقاضا ہے۔ اس سے اتنا ہی انسان اللہ کی یاد سے غافل ہوگیا ہے اور دنیا کا نقصان یہ ہے کہ اس سے انسان کی صحت پر ناخوشگوار اثرات مترتب ہوتے ہیں۔ اور توائے انسانی وقت سے پہلے کمزور ہونا شروع ہوجاتے ہیں۔
وَمِنْ اٰيٰتِهٖ مَنَامُكُمْ بالَّيْلِ وَالنَّهَارِ : یعنی اللہ تعالیٰ کے وجود، اس کی وحدانیت، اس کے کمال قدرت اور اس کے تمہیں دوبارہ زندہ کرنے پر دلالت کرنے والی نشانیوں میں سے ایک نشانی تمہارا رات اور دن میں سونا ہے۔ جس کے ساتھ بےاختیار تمہاری ہر سرگرمی ختم اور تمہارے حواس ظاہری کے تمام اعمال بند ہوجاتے ہیں اور تمہیں اپنے گرد و پیش کی کچھ خبر نہیں رہتی۔ اس سے پہلے کام کاج اور حرکت و محنت کی وجہ سے تمہارے جسم میں جو ٹوٹ پھوٹ اور تھکاوٹ ہوئی تھی، نیند عطا کرنے والا مالک نیند کے دوران جسم کی مرمت کر کے اور تھکاوٹ دور کر کے دوبارہ کام کاج کے قابل بنا کر تمہیں پھر بیدار کردیتا ہے۔ جس طرح نیند اس کی نشانی ہے، بیداری اور رات دن میں اس کے فضل کی تلاش بھی اس کی نشانی ہے۔ دونوں اسی کی تخلیق ہیں، کسی کا ان میں ذرّہ بھر دخل نہیں، بلکہ مخلوق تو ان کی حقیقت ہی سے نا آشنا ہے کہ نیند کیا چیز ہے، کیسے آتی ہے اور کیسے ختم ہوجاتی ہے ؟ پھر دن رات کئی دفعہ سونے اور جاگنے کا یہ عمل باربار موت و حیات کا عملی نمونہ ہے۔ پھر بھی تمہیں اصرار ہے کہ ہر روز کئی بار موت و حیات کے مراحل سے گزارنے والا مالک تمہارے اعمال کے محاسبے اور جزا و سزا کے لیے تمہیں دوبارہ زندہ نہیں کرسکے گا۔- 3 نیند کی حقیقت اس سے زیادہ کسی کو معلوم نہیں جو اللہ تعالیٰ نے خود بیان فرمائی ہے، فرمایا : (اَللّٰهُ يَتَوَفَّى الْاَنْفُسَ حِيْنَ مَوْتِهَا وَالَّتِيْ لَمْ تَمُتْ فِيْ مَنَامِهَا ۚ فَيُمْسِكُ الَّتِيْ قَضٰى عَلَيْهَا الْمَوْتَ وَيُرْسِلُ الْاُخْرٰٓى اِلٰٓى اَجَلٍ مُّسَمًّى ۭ اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيٰتٍ لِّــقَوْمٍ يَّتَفَكَّرُوْنَ ) [ الزمر : ٤٢ ] ” اللہ جانوں کو ان کی موت کے وقت قبض کرتا ہے اور ان کو بھی جو نہیں مریں ان کی نیند میں، پھر اسے روک لیتا ہے جس پر اس نے موت کا فیصلہ کیا اور دوسری کو ایک مقرر وقت تک بھیج دیتا ہے۔ بلاشبہ اس میں ان لوگوں کے لیے یقیناً بہت سی نشانیاں ہیں جو غور و فکر کرتے ہیں۔ “ آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ نیند موت ہے اور بیداری حیات اور دونوں کی حقیقت روح کے آنے جانے کو سمجھنے پر موقوف ہے۔ اور روح کیا ہے ؟ اس کے متعلق فرمایا : (وَيَسْــــَٔـلُوْنَكَ عَنِ الرُّوْحِ ۭ قُلِ الرُّوْحُ مِنْ اَمْرِ رَبِّيْ وَمَآ اُوْتِيْتُمْ مِّنَ الْعِلْمِ اِلَّا قَلِيْلًا ) [ بني إسرائیل : ٨٥ ] ” اور وہ تجھ سے روح کے بارے میں پوچھتے ہیں، کہہ دے روح میرے رب کے حکم سے ہے اور تمہیں علم میں سے بہت تھوڑے کے سوا نہیں دیا گیا۔ “- 3 روس میں کمیونزم کے عروج کے زمانے میں جب اللہ تعالیٰ کی منکر، مادہ پرست اور دنیا کی ظالم ترین جماعت کمیونسٹ پارٹی مزدوروں سے کھیتوں اور کارخانوں میں زیادہ سے زیادہ کام لینے کی نئی سے نئی صورت سوچتی رہتی تھی، اس وقت پارٹی کے راہ نماؤں نے سوچا کہ مزدور بہت سا وقت سو کر ضائع کردیتے ہیں، چناچہ انھوں نے سائنس دانوں کے ذمے لگایا کہ وہ تحقیق کریں کہ ان کا نیند میں صرف ہونے والا وقت زیادہ سے زیادہ کیسے بچایا جاسکتا ہے۔ کئی سالوں کی تحقیق کے بعد اس کا نتیجہ جو انھوں نے بیان کیا وہ یہ تھا کہ انسان کے لیے نیند بہت ضروری ہے، کیونکہ اس کے دوران اس کے ٹوٹے پھوٹے خلیات دوبارہ بنتے ہیں اور وہ دوبارہ کام کاج کے قابل ہوجاتا ہے۔ لطف کی بات یہ ہے کہ تعمیر و مرمت اور تازگی کا یہ عمل نیند کے دوران صرف ایک لمحے میں پورا ہوجاتا ہے، مگر وہ لمحہ بعض اوقات نیند کی ابتدا میں آتا ہے، کبھی درمیان میں اور کبھی آخر میں، کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ لمبی سے لمبی نیند میں بھی وہ لمحہ نہیں آتا اور انسان بیدار ہوتا ہے تو اسی طرح تھکا ماندہ اور ٹوٹا پھوٹا ہوتا ہے اور بعض اوقات وہ لمحہ آجانے کی وجہ سے نیند کی ایک جھپکی کے ساتھ ہی اس کی ساری تھکن کافور ہوجاتی ہے۔ ان سائنس دانوں نے اعتراف کیا ہے کہ انسان اس لمحے کو اپنی گرفت میں لانے سے عاجز ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی اس عظیم نشانی کے صرف ایک معمولی سے حصے کا اعتراف ہے، جسے اس نے ” وَمِنْ اٰيٰتِهٖ مَنَامُكُمْ بالَّيْلِ وَالنَّهَارِ “ کے الفاظ میں بیان فرمایا ہے۔- 3 عام طور پر قرآن مجید میں رات کو نیند اور آرام کے لیے اور دن کو تلاش معاش کے لیے قرار دیا ہے، جیسا کہ فرمایا : (اَلَمْ يَرَوْا اَنَّا جَعَلْنَا الَّيْلَ لِيَسْكُنُوْا فِيْهِ وَالنَّهَارَ مُبْصِرًا) [ النمل : ٨٦ ] ” کیا انھوں نے نہیں دیکھا کہ ہم نے رات کو بنایا، تاکہ اس میں آرام کریں اور دن کو روشن۔ “ اور فرمایا : (وَّجَعَلْنَا الَّيْلَ لِبَاسًا وَّجَعَلْنَا النَّهَارَ مَعَاشًا) [ النبا : ١٠، ١١ ] ” اور ہم نے رات کو لباس بنایا۔ اور ہم نے دن کو روزی کمانے کے لیے بنایا۔ “ (مزید دیکھیے بنی اسرائیل : ١٢) یہ عام معمول کا بیان ہے، مگر انسان رات کے علاوہ دن کو بھی سو جاتا ہے اور تلاش معاش دن کے علاوہ رات کو بھی کرلیتا ہے، اس لیے اس آیت میں رات اور دن دونوں میں نیند کو اور اللہ کے فضل کی تلاش کو اپنی نشانیوں میں سے نشانی قرار دیا۔- وَابْتِغَاۗؤُكُمْ مِّنْ فَضْلِهٖ : اس میں اس بات کی طرف توجہ دلائی کہ رزق، جو تم تلاش کرتے ہو، وہ تمہاری محنت کا نتیجہ نہیں، بلکہ محض اللہ تعالیٰ کا فضل ہے، ورنہ کوئی محنت مشقت کرنے والا فقیر نہ رہے اور محنت مشقت نہ کرنے والا کوئی شخص غنی نہ ہو۔- اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيٰتٍ لِّــقَوْمٍ يَّسْمَعُوْنَ : یعنی نیند اور بیداری کی نشانی سے اللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ پر اور مرنے کے بعد زندگی پر کافی استدلال صرف تجربے سے یا عقل سے یا غور و فکر سے ممکن نہیں، بلکہ یہ ان چیزوں سے ہے جن کے لیے ضروری ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے آنے والا رسول انھیں بیان کرے اور سننے والے انھیں سن کر دل میں جگہ دیں۔ اس لیے فرمایا کہ اس ایک نشانی میں ان لوگوں کے لیے بہت سی نشانیاں ہیں جو اللہ اور اس کے رسول اور ایمان والوں کی بات سنتے ہیں۔ شاہ عبد القادر (رض) لکھتے ہیں : ” اپنے سونے کا احوال نظر نہیں آتا، سو لوگوں کی زبانی سنتے ہیں۔ “ (موضح) یہ ” یسمعون “ کا لفظ اختیار کرنے کا ایک اور نکتہ ہے۔
چوتھی آیت قدرت : انسانوں کا سونا رات میں اور دن میں اسی طرح ان کی تلاش معاش ہے رات میں اور دن میں اس آیت میں تو نیند کو بھی دن و رات دونوں میں بیان فرمایا ہے اور تلاش معاش کو بھی اور بعض دوسری آیات میں نیند کو صرف رات میں اور تلاش معاش کو دن میں بتلایا ہے۔ وجہ یہ ہے کہ رات میں اصل کام تلاش معاش کا ہے اور کچھ سونے آرام کرنے کا بھی وقت ملتا ہے۔ اس لئے دونوں باتیں اپنی اپنی جگہ صحیح ہیں۔ بعض مفسرین نے تاویل کر کے اس آیت میں بھی نیند کو رات کے ساتھ اور تلاش معاش کو دن کے ساتھ مخصوص کیا ہے مگر اس کی ضرورت نہیں۔- سونا اور تلاش معاش زہد و توکل کے منافی نہیں :- اس آیت سے ثابت ہوا کہ سونے کے وقت سونا اور جاگنے کے وقت تلاش معاش انسان کی فطرت بنائی گئی ہے اور ان دونوں چیزوں کا حاصل کرنا انسانی اسباب و کمالات کے تابع نہیں، بلکہ درحقیقت یہ دونوں چیزیں خالص عطاء حق ہیں۔ جیسا کہ رات دن کا مشاہدہ ہے کہ بعض اوقات نیند اور آرام کے سارے بہتر سے بہتر سامان جمع ہونے کے باوجود نیند نہیں آتی، بعض اوقات ڈاکٹری گولیاں بھی نیند لانے میں فیل ہوجاتی ہیں اور جس کو مالک چاہتا ہے کھلی زمین پر دھوپ اور گرمی میں نیند عطا فرما دیتا ہے۔- یہی حال تحصیل معاش کا رات دن مشاہدہ میں آتا ہے کہ دو شخص یکساں علم و عقل والے برابر کے مال والے، برابر کی محنت والے تحصیل معاش کا یکساں ہی کام لے کر بیٹھتے ہیں ایک ترقی کرجاتا ہے دوسرا رہ جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے دنیا کو عالم اسباب بڑی حکمت و مصلحت سے بنایا ہے۔ اس لئے تلاش معاش اسباب ہی کے ذریعہ کرنا لازم ہے مگر عقل کا کام یہ ہے کہ حقیقت شناسی سے دور نہ ہو ان اسباب کو اسباب ہی سمجھے اور اصل رازق اسباب کے بنانے والے کو سمجھے۔- اس آیت قدرت کے ختم پر ارشاد فرمایا اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيٰتٍ لِّــقَوْمٍ يَّسْمَعُوْنَ یعنی اس میں بہت سی نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لئے جو بات کو دھیان دے کر سنتے ہیں۔ اس میں سننے پر مدار رکھنے کی وجہ شاید یہ ہو کہ دیکھنے میں تو نیند خود بخود آجاتی ہے جب آدمی ذرا آرام کی جگہ کر کے لیٹ جائے۔ اسی طرح معاش کا حصول محنت مزدوری تجارت وغیرہ سے ہوجاتا ہے۔ اس لئے دست قدرت کی کار سازی ظاہری نظروں سے مخفی رہتی ہے، وہ اللہ کا پیام لانے والے انبیاء بتلاتے ہیں۔ اس لئے فرمایا کہ یہ نشانیاں انہی کو کارآمد ہوتی ہیں جو بات کو دھیان دے کر سنیں اور جب سمجھ میں آجائے تو تسلیم کرلیں، ہٹ دھرمی اور ضد نہ کریں۔
وَمِنْ اٰيٰتِہٖ مَنَامُكُمْ بِالَّيْلِ وَالنَّہَارِ وَابْتِغَاۗؤُكُمْ مِّنْ فَضْلِہٖ ٠ ۭ اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيٰتٍ لِّــقَوْمٍ يَّسْمَعُوْنَ ٢٣- نوم - النّوم : فسّر علی أوجه كلّها صحیح بنظرات مختلفة، قيل : هو استرخاء أعصاب الدّماغ برطوبات البخار الصاعد إليه، وقیل : هو أن يتوفّى اللہ النّفس من غير موت . قال تعالی:- اللَّهُ يَتَوَفَّى الْأَنْفُسَ الآية [ الزمر 42] . وقیل : النّوم موت خفیف، والموت نوم ثقیل، ورجل نؤوم ونُوَمَة : كثير النّوم، والمَنَام : النّوم . قال تعالی: وَمِنْ آياتِهِ مَنامُكُمْ بِاللَّيْلِ [ الروم 23] ، وَجَعَلْنا نَوْمَكُمْ سُباتاً [ النبأ 9] ، لا تَأْخُذُهُ سِنَةٌ وَلا نَوْمٌ [ البقرة 255] والنُّوَمَة أيضا : خامل الذّكر، واستنام فلان إلى كذا : اطمأنّ إليه، والمنامة : الثّوب الذي ينام فيه، ونامت السّوق : کسدت، ونام الثّوب : أخلق، أو خلق معا، واستعمال النّوم فيهما علی التّشبيه .- ( ن و م ) النوم ۔ اس کی تفسیر گئی ہے اور مختلف اعتبارات سے تمام وجوہ صحیح ہوسکتی ہیں ۔ بعض نے کہا نے کہ بخارات کی رطوبت سی اعصاب دماغ کے ڈھیلا ہونے کا نام نوم ہے ۔ اور بعض کے نزدیک اللہ تعالیٰ کا بغیر موت کے روح کو قبض کرلینے کا نام نوم ہے چناچہ قرآن پاک میں ہے : اللَّهُ يَتَوَفَّى الْأَنْفُسَ الآية [ الزمر 42] خدا لوگوں کے مرنے کے وقت ان کی روحیں قبض کرلیتا ہے اور جو مرے نہیں ان کی ( روحیں ) سوتے میں ( قبض کرلیتا ہے ) اور بعض نوم کو موت خفیف اور موت کو نوم ثقیل کہتے ہیں رجل نوم ونومۃ بہت زیادہ سونے والا اور منام بمعنی نوم آتا ہے ۔ قرآن میں ہے : وَمِنْ آياتِهِ مَنامُكُمْ بِاللَّيْلِ [ الروم 23] اور اسی کے نشانات ( اور تصرفات ) میں سے ہے تمہارا رات میں ۔۔۔ سونا ۔ وَجَعَلْنا نَوْمَكُمْ سُباتاً [ النبأ 9] تمہارے لئے موجب آرام بنایا ۔ لا تَأْخُذُهُ سِنَةٌ وَلا نَوْمٌ [ البقرة 255] اسے نہ اونگھ آتی ہے اور نہ نیند ۔ نیز النومۃ کے معنی خامل لذکر یعني گم نام بھی آتے ہیں ۔ کہاجاتا ہے ۔ استنام فلان الی ٰکذا ۔ کسی چیز سے اطمینان حاصل کرنا ۔ منامۃ ۔ لباس خواب ۔ نامت السوق کساد بازاری ہونا ۔ نام الثوب ( لازم ومتعدی ) کپڑے کا پرانا ہونا یا کرنا ۔ ان دونون معنی میں نام کا لفظ تشبیہ کے طور مجازا استعمال ہوتا ہے ۔- ليل - يقال : لَيْلٌ ولَيْلَةٌ ، وجمعها : لَيَالٍ ولَيَائِلُ ولَيْلَاتٌ ، وقیل : لَيْلٌ أَلْيَلُ ، ولیلة لَيْلَاءُ. وقیل :- أصل ليلة لَيْلَاةٌ بدلیل تصغیرها علی لُيَيْلَةٍ ، وجمعها علی ليال . قال اللہ تعالی: وَسَخَّرَ لَكُمُ اللَّيْلَ وَالنَّهارَ [إبراهيم 33] - ( ل ی ل ) لیل ولیلۃ - کے معنی رات کے ہیں اس کی جمع لیال ولیا ئل ولیلات آتی ہے اور نہایت تاریک رات کو لیل الیل ولیلہ لیلاء کہا جاتا ہے بعض نے کہا ہے کہ لیلۃ اصل میں لیلاۃ ہے کیونکہ اس کی تصغیر لیلۃ اور جمع لیال آتی ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّا أَنْزَلْناهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ [ القدر 1] ہم نے اس قرآن کو شب قدر میں نازل ( کرنا شروع ) وَسَخَّرَ لَكُمُ اللَّيْلَ وَالنَّهارَ [إبراهيم 33] اور رات اور دن کو تمہاری خاطر کام میں لگا دیا ۔ - نهار - والنهارُ : الوقت الذي ينتشر فيه الضّوء، وهو في الشرع : ما بين طلوع الفجر إلى وقت غروب الشمس، وفي الأصل ما بين طلوع الشمس إلى غروبها . قال تعالی: وَهُوَ الَّذِي جَعَلَ اللَّيْلَ وَالنَّهارَ خِلْفَةً [ الفرقان 62]- ( ن ھ ر ) النھر - النھار ( ن ) شرعا طلوع فجر سے لے کر غروب آفتاب کے وقت گو نھار کہاجاتا ہے ۔ لیکن لغوی لحاظ سے اس کی حد طلوع شمس سے لیکر غروب آفتاب تک ہے ۔ قرآن میں ہے : وَهُوَ الَّذِي جَعَلَ اللَّيْلَ وَالنَّهارَ خِلْفَةً [ الفرقان 62] اور وہی تو ہے جس نے رات اور دن کو ایک دوسرے کے پیچھے آنے جانے والا بیانا ۔- ابتغاء (ينبغي)- البَغْي : طلب تجاوز الاقتصاد فيما يتحرّى، تجاوزه أم لم يتجاوزه، فتارة يعتبر في القدر الذي هو الكمية، وتارة يعتبر في الوصف الذي هو الكيفية، يقال : بَغَيْتُ الشیء : إذا طلبت أكثر ما يجب، وابْتَغَيْتُ كذلك، قال اللہ عزّ وجل : لَقَدِ ابْتَغَوُا الْفِتْنَةَ مِنْ قَبْلُ [ التوبة 48] ، - وأمّا الابتغاء - فقد خصّ بالاجتهاد في الطلب، فمتی کان الطلب لشیء محمود فالابتغاء فيه محمود نحو : ابْتِغاءَ رَحْمَةٍ مِنْ رَبِّكَ [ الإسراء 28] ، وابْتِغاءَ وَجْهِ رَبِّهِ الْأَعْلى [ اللیل 20] ، الابتغاء فقد خصّ بالاجتهاد في الطلب، فمتی کان الطلب لشیء محمود فالابتغاء فيه محمود نحو : ابْتِغاءَ رَحْمَةٍ مِنْ رَبِّكَ [ الإسراء 28] ، وابْتِغاءَ وَجْهِ رَبِّهِ الْأَعْلى [ اللیل 20] ، وقولهم : يَنْبغي مطاوع بغی. فإذا قيل : ينبغي أن يكون کذا ؟- فيقال علی وجهين : أحدهما ما يكون مسخّرا للفعل، نحو : النار ينبغي أن تحرق الثوب، والثاني : علی معنی الاستئهال، نحو : فلان ينبغي أن يعطی لکرمه، وقوله تعالی: وَما عَلَّمْناهُ الشِّعْرَ وَما يَنْبَغِي لَهُ [يس 69] ، علی الأول، فإنّ معناه لا يتسخّر ولا يتسهّل له، ألا تری أنّ لسانه لم يكن يجري به، وقوله تعالی: وَهَبْ لِي مُلْكاً لا يَنْبَغِي لِأَحَدٍ مِنْ بَعْدِي [ ص 35] .- ( ب غ ی ) البغی - کے معنی کسی چیز کی طلب میں درمیانہ ردی کی حد سے تجاوز کی خواہش کرنا کے ہیں ۔ خواہ تجاوز کرسکے یا نہ اور بغی کا استعمال کیت اور کیفیت یعنی قدر وو صف دونوں کے متعلق ہوتا ہے ۔ کہا جاتا ۔ کسی چیز کے حاصل کرنے میں جائز حد سے تجاوز ۔ قرآن میں ہے : ۔ لَقَدِ ابْتَغَوُا الْفِتْنَةَ مِنْ قَبْلُ [ التوبة 48 پہلے بھی طالب فسادر ہے ہیں ۔- الا بتغاء - یہ خاص کر کوشش کے ساتھ کسی چیز کو طلب کرنے پر بولا جاتا ہے ۔ اگر اچھی چیز کی طلب ہو تو یہ کوشش بھی محمود ہوگی ( ورنہ مذموم ) چناچہ فرمایا : ۔ ابْتِغَاءَ رَحْمَةٍ مِنْ رَبِّكَ ( سورة الإسراء 28) اپنے پروردگار کی رحمت ( یعنی فراخ دستی ) کے انتظار میں ۔ وابْتِغاءَ وَجْهِ رَبِّهِ الْأَعْلى [ اللیل 20] بلکہ اپنے خدا وندی اعلیٰ کی رضامندی حاصل کرنے کے لئے دیتا ہے ۔- اور ینبغی ( انفعال ) بغی کا مطاوع آتا ہے اور ینبغی ایکون کذا کا محاورہ طرح استعمال ہوتا ہے ( 1) اس شے کے متعلق جو کسی فعل کے لئے مسخر ہو جیسے یعنی کپڑے کو جلا ڈالنا آگ کا خاصہ ہے ۔ ( 2) یہ کہ وہ اس کا اہل ہے یعنی اس کے لئے ایسا کرنا مناسب اور زیبا ہے جیسے کہ فلان کے لئے اپنی کرم کی وجہ سے بخشش کرنا زیبا ہے اور آیت کریمہ : ۔ وَما عَلَّمْناهُ الشِّعْرَ وَما يَنْبَغِي لَهُ [يس 69] اور ہم نے ان ( پیغمبر ) کو شعر گوئی نہیں سکھلائی اور نہ وہ ان کو شایاں ہے ۔ پہلے معنی پر محمول ہے ۔ یعنی نہ تو آنحضرت فطر تا شاعر ہیں ۔ اور نہ ہی سہولت کے ساتھ شعر کہہ سکتے ہیں اور یہ معلوم کہ آپ کی زبان پر شعر جاری نہ ہوتا تھا ۔ اور آیت کریمہ : وَهَبْ لِي مُلْكاً لا يَنْبَغِي لِأَحَدٍ مِنْ بَعْدِي [ ص 35] اور مجھ کو ایسی بادشاہ ہی عطا فرما کر میرے بعد کیسی کو شایاں نہ ہو ۔ ( دوسرے معنی پر محمول ہے ۔ یعنی میرے بعد وہ سلطنت کسی کو میسر نہ ہو )- فضل - الفَضْلُ : الزّيادة عن الاقتصاد، وذلک ضربان : محمود : کفضل العلم والحلم، و مذموم : کفضل الغضب علی ما يجب أن يكون عليه . والفَضْلُ في المحمود أكثر استعمالا، والفُضُولُ في المذموم، والفَضْلُ إذا استعمل لزیادة أحد الشّيئين علی الآخر - فعلی ثلاثة أضرب :- فضل من حيث الجنس، کفضل جنس الحیوان علی جنس النّبات .- وفضل من حيث النّوع، کفضل الإنسان علی غيره من الحیوان، وعلی هذا النحو قوله :- وَلَقَدْ كَرَّمْنا بَنِي آدَمَ [ الإسراء 70] ، إلى قوله : تَفْضِيلًا - وفضل من حيث الذّات، کفضل رجل علی آخر . فالأوّلان جوهريّان لا سبیل للناقص فيهما أن يزيل نقصه وأن يستفید الفضل، کالفرس والحمار لا يمكنهما أن يکتسبا الفضیلة التي خصّ بها الإنسان، والفضل الثالث قد يكون عرضيّا فيوجد السّبيل علی اکتسابه، ومن هذا النّوع التّفضیل المذکور في قوله : وَاللَّهُ فَضَّلَ بَعْضَكُمْ عَلى بَعْضٍ فِي الرِّزْقِ [ النحل 71] ، لِتَبْتَغُوا فَضْلًا مِنْ رَبِّكُمْ [ الإسراء 12] ، يعني : المال وما يکتسب،- ( ف ض ل ) الفضل - کے منعی کسی چیز کے اقتضا ( متوسط درجہ سے زیادہ ہونا کے ہیں اور یہ دو قسم پر ہے محمود جیسے علم وحلم وغیرہ کی زیادتی مذموم جیسے غصہ کا حد سے بڑھ جانا لیکن عام طور الفضل اچھی باتوں پر بولا جاتا ہے اور الفضول بری باتوں میں اور جب فضل کے منعی ایک چیز کے دوسری پر زیادتی کے ہوتے ہیں تو اس کی تین صورتیں ہوسکتی ہیں ( ۔ ) بر تری بلحاظ جنس کے جیسے جنس حیوان کا جنس نباتات سے افضل ہونا ۔ ( 2 ) بر تری بلحاظ نوع کے جیسے نوع انسان کا دوسرے حیوانات سے بر تر ہونا جیسے فرمایا : ۔ وَلَقَدْ كَرَّمْنا بَنِي آدَمَ [ الإسراء 70]- اور ہم نے بنی آدم کو عزت بخشی اور اپنی بہت سی مخلوق پر فضیلت دی ۔ ( 3 ) فضیلت بلحاظ ذات مثلا ایک شخص کا دوسرے شخص سے بر تر ہونا اول الذکر دونوں قسم کی فضیلت بلحاظ جو ہر ہوتی ہے ۔ جن میں ادنیٰ ترقی کر کے اپنے سے اعلٰی کے درجہ کو حاصل نہیں کرسکتا مثلا گھوڑا اور گدھا کہ یہ دونوں انسان کا درجہ حاصل نہیں کرسکتے ۔ البتہ تیسری قسم کی فضیلت من حیث الذات چونکہ کبھی عارضی ہوتی ہے اس لئے اس کا اکتساب عین ممکن ہے چناچہ آیات کریمہ : ۔ وَاللَّهُ فَضَّلَ بَعْضَكُمْ عَلى بَعْضٍ فِي الرِّزْقِ [ النحل 71] اور خدا نے رزق ( دولت ) می قوم - والقَوْمُ : جماعة الرّجال في الأصل دون النّساء، ولذلک قال : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات 11] ، - ( ق و م ) قيام - القوم۔ یہ اصل میں صرف مرودں کی جماعت پر بولا جاتا ہے جس میں عورتیں شامل نہ ہوں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات 11] - ں بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے ۔ لِتَبْتَغُوا فَضْلًا مِنْ رَبِّكُمْ [ الإسراء 12] تاکہ تم اپنے پروردگار کا فضل ( یعنی روزی تلاش کرو ۔ میں یہی تیسری قسم کی فضیلت مراد ہے جسے محنت اور سعی سے حاصل کیا جاسکتا ہے ۔- سمع - السَّمْعُ : قوّة في الأذن به يدرک الأصوات، وفعله يقال له السَّمْعُ أيضا، وقد سمع سمعا .- ويعبّر تارة بالسمّع عن الأذن نحو : خَتَمَ اللَّهُ عَلى قُلُوبِهِمْ وَعَلى سَمْعِهِمْ- [ البقرة 7] ، وتارة عن فعله كَالسَّمَاعِ نحو : إِنَّهُمْ عَنِ السَّمْعِ لَمَعْزُولُونَ [ الشعراء 212] ، وقال تعالی: أَوْ أَلْقَى السَّمْعَ وَهُوَ شَهِيدٌ [ ق 37] ، وتارة عن الفهم، وتارة عن الطاعة، تقول : اسْمَعْ ما أقول لك، ولم تسمع ما قلت، وتعني لم تفهم، قال تعالی: وَإِذا تُتْلى عَلَيْهِمْ آياتُنا قالُوا قَدْ سَمِعْنا لَوْ نَشاءُ لَقُلْنا[ الأنفال 31] ، - ( س م ع ) السمع ۔ قوت سامعہ - ۔ کا ن میں ایک حاسہ کا نام ہے جس کے ذریعہ آوازوں کا اور اک ہوتا ہے اداس کے معنی سننا ( مصدر ) بھی آتے ہیں اور کبھی اس سے خود کان مراد لیا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ خَتَمَ اللَّهُ عَلى قُلُوبِهِمْ وَعَلى سَمْعِهِمْ [ البقرة 7] خدا نے ان کے دلوں اور کانوں پر مہر لگا رکھی ہے ۔ اور کبھی لفظ سماع کی طرح اس سے مصدر ی معنی مراد ہوتے ہیں ( یعنی سننا ) چناچہ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّهُمْ عَنِ السَّمْعِ لَمَعْزُولُونَ [ الشعراء 212] وہ ( آسمائی باتوں کے ) سننے ( کے مقامات ) سے الگ کردیئے گئے ہیں ۔ أَوْ أَلْقَى السَّمْعَ وَهُوَ شَهِيدٌ [ ق 37] یا دل سے متوجہ ہو کر سنتا ہے ۔ اور کبھی سمع کے معنی فہم و تدبر اور کبھی طاعت بھی آجاتے ہیں مثلا تم کہو ۔ اسمع ما اقول لک میری بات کو سمجھنے کی کوشش کرو لم تسمع ماقلت لک تم نے میری بات سمجھی نہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَإِذا تُتْلى عَلَيْهِمْ آياتُنا قالُوا قَدْ سَمِعْنا لَوْ نَشاءُ لَقُلْنا[ الأنفال 31] اور جب ان کو ہماری آیتیں پڑھ کر سنائی جاتی ہیں تو کہتے ہیں ( یہ کلام ) ہم نے سن لیا ہے اگر چاہیں تو اسی طرح کا ( کلام ) ہم بھی کہدیں ۔
اور اس کے دلائل قدرت میں سے تمہارا رات میں سونا لیٹنا اور ان میں اس کا رزق تلاش کرنا ہے اس میں بھی ان لوگوں کے لیے بڑی نشانیاں ہیں جو ان باتوں کو سنتے اور اس کی اطاعت کرتے ہیں۔
آیت ٢٣ (وَمِنْ اٰیٰتِہٖ مَنَامُکُمْ بالَّیْلِ وَالنَّہَارِ وَابْتِغَآؤُکُمْ مِّنْ فَضْلِہٖ ط) ” - تمہارا رات کے وقت سونا ‘ دوپہر کے وقت قیلولہ کرنا ‘ اور پھر آرام کے ان اوقات کے علاوہ معاشی دوڑ دھوپ میں سرگرم عمل رہنا بھی اللہ تعالیٰ کی حکمت اور قدرت کی نشانیوں میں سے ہے۔- (اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَاٰیٰتٍ لِّقَوْمٍ یَّسْمَعُوْنَ ) ” - یہ سب نشانیاں یقیناً ان لوگوں کے لیے ہیں جو انسانی کانوں یعنی دل کے کانوں سے سنتے ہیں ‘ نہ کہ محض حیوانی کانوں سے۔
سورة الروم حاشیہ نمبر : 33 فضل کو تلاش کرنے سے مراد رزق کی تلاش میں دوڑ دھوپ کرنا ہے ۔ انسان اگرچہ بالعموم رات کو سوتا اور دن کو اپنی معاش کے لیے جدو جہد کرتا ہے ، لیکن یہ کلیہ نہیں ہے ۔ بہت سے انسان دن کو بھی سوتے اور رات کو بھی معاش کے لیے کام کرتے ہیں ۔ اسی لیے رات اور دن کا اکٹھا ذکر کر کے فرمایا کہ ان دونوں اوقات میں تم سوتے بھی ہو اور اپنی معاش کے لیے دوڑ دھوپ بھی کرتے ہو ۔ یہ چیز بھی ان نشانیوں میں سے ہے جو ایک خالق حکیم کی تدبیر کا پتہ دیتی ہیں ۔ بلکہ مزید برآں یہ چیز اس بات کی نشان دہی بھی کرتی ہے کہ وہ محض خالق ہی نہیں ہے بلکہ اپنی مخلوق پر غایت درجہ رحیم و شفیق اور اس کی ضروریات اور مصلحتوں کے لیے خود اس سے بڑھ کر فکر کرنے والا ہے ۔ انسان دنیا میں مسلسل محنت نہیں کرسکتا بلکہ ہر چند گھنٹوں کی محنت کے بعد اسے چند گھنٹوں کے لیے آرام درکار ہوتا ہے تاکہ پھر چند گھنٹے محنت کرنے کے لیے اسے قوت بہم پہنچ جائے ۔ اس غرض کے لیے خالق حکیم و رحیم نے انسان کے اندر صرف تکان کا احساس ، اور صرف آرام کی خواہش پیدا کردینے ہی پر اکتفا نہیں کیا ، بلکہ اس نے نیند کا ایک ایسا زبردست داعیہ اس کے وجود میں رکھ دیا جو اس کے ارادے کے بغیر ، حتی کہ اس کی مزاحمت کے باوجود ، خود بخود ہر چند گھنٹوں کی بیداری و محنت کے بعد اسے آ دبوچتا ہے ، چند گھنٹے آرام لینے پر اس کو مجبور کردیتا ہے ، اور ضرورت پوری ہوجانے کے بعد خودبخود اسے چھوڑ دیتا ہے ۔ اس نیند کی ماہیت و کیفیت اور اس کے حقیقی اسباب کو آج تک انسان نہیں سمجھ سکا ہے ۔ یہ قطعا ایک پیدائشی چیز ہے جو آدمی کی فطرت اور اس کی ساخت میں رکھ دی گئی ہے ۔ اس کا ٹھیک انسان کی ضرورت کے مطابق ہونا ہی اس بات کی شہادت دینے کے لیے کافی ہے کہ یہ ایک اتفاقی حادثہ نہیں ہے بلکہ کسی حکیم نے ایک سوچے سمجھے منصوبے کے مطابق یہ تدبیر وضع کی ہے ۔ اس میں ایک بڑی حکمت و مصلحت اور مقصدیت صاف طور پر کار فرما نظر آتی ہے ۔ مزید برآں یہی نیند اس بات پر بھی گواہ ہے کہ جس نے یہ مجبور کن داعیہ انسان کے اندر رکھا ہے وہ انسان کے حق میں خود اس سے بڑھ کر خیر خواہ ہے ورنہ انسان بالارادہ نیند کی مزاحمت کر کے اور زبردستی جاگ جاگ کر اور مسلسل کام کر کر کے اپنی قوت کار کو ہی نہیں ، قوت حیات تک کو ختم کر ڈالتا ۔ پھر رزق کی تلاش کے لے اللہ کے فضل کی تلاش کا لفظ استعمال کر کے نشانیوں کے ایک دوسرے سلسلے کی طرف اشارہ کیا گیا ہے ۔ آدمی آخر یہ رزق تلاش ہی کہاں کرسکتا تھا اگر زمین و آسمان کی بے حد و حساب طاقتوں کو رزق کے اسباب و ذرائع پیدا کرنے میں نہ لگا دیا گیا ہوتا ، اور زمین میں انسان کے لیے رزق کے بے شمار ذرائع نہ پیدا کردیے گئے ہوتے ۔ صرف یہی نہیں بلکہ رزق کی یہ تلاش اور اس کا اکتساب اسی صورت میں بھی ممکن نہ ہوتا اگر انسان کو اس کام کے لیے مناسب ترین اعضاء اور مناسب ترین جسمانی اور ذہنی صلاحیتیں نہ دی گئی ہوتیں ۔ پس آدمی کے اندر تلاش رزق کی قابلیت اور اس کے وجود سے باہر وسائل رزق کی موجودگی ، صاف صاف ایک رب رحیم و کریم کے وجود کا پتہ دیتی ہے ۔ جو عقل بیمار نہ ہو وہ کبھی یہ فرض نہیں کرسکتی کہ یہ سب کچھ اتفاقا ہوگیا ہے ، یا یہ بہت سے خداؤں کا کرشمہ ہے ، یا کوئی بے درد اندھی قوت اس فضل و کرم کی ذمہ دار ہے ۔
9: رات کے وقت سونے اور دن کے وقت اللہ کا فضل یعنی روزگار تلاش کرنے کا یہ نظام اللہ تعالیٰ ہی نے بنایا ہے، اس کے لئے انسانوں کے درمیان کوئی معاہدہ نہیں ہوا تھا، اگر یہ کام لوگوں کی صوابدید پر چھوڑدیاجاتا تو کچھ لوگ ایک وقت سونا چاہتے اور دوسرے لوگ اسی وقت کام میں مشغول ہو کر ان کی نیند خراب کرتے۔