Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

انسان اور فرشتوں کا ساتھ کفار کا عقیدہ بیان ہو رہا ہے کہ وہ مرنے کے بعد جینے کے قائل نہیں ۔ اور اسے وہ محال جانتے ہیں اور کہتے ہیں کہ جب ہمارے ریزے ریزے جدا ہوجائیں گے اور مٹی میں مل کر مٹی ہوجائیں گے پھر بھی کیا ہم نئے سرے سے بنائے جاسکتے ہیں ۔ افسوس یہ لوگ اپنے اوپر اللہ کو بھی قیاس کرتے ہیں اور اپنی محدود قدرت پر اللہ کی نامعلوم قدرت کا اندازہ کرتے ہیں ۔ مانتے ہیں جانتے ہیں کہ اللہ نے اول بار پیدا کیا ہے ۔ تعجب ہے پھر دوبارہ پیدا کرنے پر اسے قدرت کیوں نہیں مانتے ؟ حالانکہ اس کا تو صرف فرمان چلتا ہے ۔ جہاں کہا یوں ہوجا وہیں ہوگیا ۔ اسی لئے فرمادیا کہ انہیں اپنے پروردگار کی ملاقات سے انکار ہے ۔ اس کے بعد فرمایا کہ ملک الموت جو تمہاری روح قبض کرنے پر مقرر ہیں تمہیں فوت کردیں گے ۔ اس آیت میں بظاہر تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ ملک الموت ایک فرشتہ کا لقب ہے ۔ حضرت براکی وہ حدیث جس کا بیان سورۃ ابراہیم میں گذرچکا ہے اس سے بھی پہلی بات سمجھ میں آتی ہے اور بعض آثار میں ان کا نام عزرائیل بھی آیا ہے اور یہی مشہور ہے ۔ ہاں ان کے ساتھی اور ان کے ساتھ کام کرنے والے فرشتے بھی ہیں جو جسم سے روح نکالتے ہیں اور نرخرے تک پہنچ جانے کے بعد ملک الموت اسے لے لیتے ہیں ۔ ان کے لئے زمین سمیٹ دی گئی ہیں اور ایسی ہی ہے جیسے ہمارے سامنے کوئی طشتری رکھی ہوئی ہو ۔ کہ جو چاہا اٹھالیا ۔ ایک مرسل حدیث بھی اس مضمون کی ہے ۔ ابن عباس رضی اللہ کا مقولہ بھی ہے ۔ ابن ابی حاتم میں ہے کہ ایک انصاری کے سرہانے ملک الموت کو دیکھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ملک الموت میرے صحابی کے ساتھ آسانی کیجئے ۔ آپ نے جواب دیا کہ اے اللہ کے نبی تسکین خاطر رکھئے اور دل خوش کیجئے واللہ میں خود با ایمان اور نہایت نرمی کرنے والا ہوں ۔ سنو یارسول صلی اللہ علیہ وسلم قسم ہے اللہ کی تمام دنیا کے ہر کچے پکے گھر میں خواہ وہ خشکی میں ہو یاتری میں ہر دن میں میرے پانچ پھیرے ہوتے ہیں ۔ ہر چھوٹے بڑے کو میں اس سے بھی زیادہ جانتا ہوں جتنا وہ اپنے آپ کو جانتا ہے ۔ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یقین مانئے اللہ کی قسم میں تو ایک مچھر کی جان قبض کرنے کی بھی قدرت نہیں رکھتاجب تک مجھے اللہ کا حکم نہ ہو ۔ حضرت جعفر کا بیان ہے کہ ملک الموت علیہ السلام کا دن میں پانچ وقت ایک ایک شخص کو ڈھونڈ بھال کرنا یہی ہے کہ آپ پانچوں نمازوں کے وقت دیکھ لیاکرتے ہیں اگر وہ نمازوں کی حفاظت کرنے والا ہو تو فرشتے اس کے قریب رہتے ہیں اور شیطان اس سے دور رہتا ہے اور اس کے آخری وقت فرشتہ اسے لا الہ اللہ محمدرسول اللہ کی تلقین کرتا ہے ۔ مجاہد فرماتے ہیں ہر دن ہر گھر پر ملک الموت دو دفعہ آتے ہیں ۔ کعب احبار اس کے ساتھ ہی یہ بھی فرماتے ہیں کہ ہر دروازے پر ٹھہر کر دن بھر میں سات مرتبہ نظر مارتے ہیں کہ اس میں کوئی وہ تو نہیں جس کی روح نکالنے کا حکم ہوچکا ہو ۔ پھر قیامت کے دن سب کا لوٹنا اللہ کی طرف ہے قبروں سے نکل کر میدان محشر میں اللہ کے سامنے حاضر ہو کر اپنے اپنے کئے کا پھل پانا ہے ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

101جب کسی چیز پر کوئی دوسری چیز غالب آجائے اور پہلی کے تمام اثرات مٹ جائیں تو اس کو ضلالت (گم ہوجانے) سے تعبیر کرتے ہیں ضَلَلُنَا فِیْ الْاَرْضِ کے معنی ہوں کے کہ جب مٹی میں مل کر ہمارا وجود زمین میں غائب ہوجائے گا۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَقَالُوْٓا ءَاِذَا ضَلَلْنَا فِي الْاَرْضِ ۔۔ : رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور قرآن کریم کے حق ہونے اور توحید اور اس کے چند دلائل بیان کرنے کے بعد اب اسلام کے تیسرے بنیادی عقیدے قیامت اور اس پر کفار کے اعتراض اور اس کے جواب کا ذکر ہوتا ہے۔ ” وَقَالُوْٓا “ میں ” واؤ “ کے ساتھ ان کے اس قول پر عطف ہے جو پہلی آیات سے ظاہر ہو رہا ہے، گویا کلام یوں ہوگا : ” قَالُوْا مُحَمَّدٌ لَیْسَ بِرَسُوْلٍ وَالإِْلٰہُ لَیْسَ بِوَاحِدٍ وَقَالُوْا ءَ إِذَا ضَلَلْنَا فِي الْأَرْضِ ۔۔ “ یعنی انھوں نے کہا کہ محمد رسول نہیں ہے اور معبود ایک نہیں ہے اور انھوں نے کہا کہ کیا جب ہم زمین میں گم ہوگئے۔۔ “ زمخشری اور طبری نے فرمایا : ” ضَلَّ الْمَاءُ فِي اللَّبَنِ “ اس وقت کہا جاتا ہے جب پانی دودھ میں اچھی طرح مل جائے اور غائب ہوجائے۔ یعنی کیا جب ہم مٹی میں مل کر مٹی ہوجائیں گے تو کیا واقعی ہم ایک نئی پیدائش میں زندہ کردیے جائیں گے ؟ ہمزہ استفہام کے بعد پھر ہمزہ استفہام دوسری زندگی پر تعجب اور اس سے انکار کے لیے ہے، یعنی یہ کیسے ہوسکتا ہے ؟ ایسا کبھی نہیں ہوسکتا۔- بَلْ هُمْ بِلِقَاۗئِ رَبِّهِمْ كٰفِرُوْنَ : اس سے پہلے انسان کی مٹی اور پھر نطفے سے پیدائش کا ذکر کرنے کے بعد کفار کے اس اعتراض کے جواب کی ضرورت ہی نہیں سمجھی کہ ہم مٹی میں مٹی ہوگئے تو دوبارہ کیسے پیدا ہوں گے، جواب ظاہر تھا کہ جس طرح پہلی مرتبہ اس مٹی سے پیدا ہوئے جب تمہارا نام و نشان نہ تھا، اب اسی مٹی میں مل گئے تو دوبارہ کیوں پیدا نہیں ہوسکتے۔ دیکھیے سورة یٰس (٧٩ تا ٨١ اور ١٢) اس لیے فرمایا، بلکہ اصل بات یہ ہے کہ یہ لوگ اپنے رب کی ملاقات تسلیم نہیں کرنا چاہتے، کیونکہ وہ اپنی خواہش پرستی اور فسق و فجور کو چھوڑنا نہیں چاہتے، جو انھیں رب تعالیٰ کی ملاقات تسلیم کرنے کے بعد چھوڑنا پڑیں گے، جیسا کہ فرمایا : (لَآ اُقْسِمُ بِيَوْمِ الْقِيٰمَةِ وَلَآ اُقْسِمُ بالنَّفْسِ اللَّوَّامَةِ اَيَحْسَبُ الْاِنْسَانُ اَلَّنْ نَّجْمَعَ عِظَامَهٗ بَلٰى قٰدِرِيْنَ عَلٰٓي اَنْ نُّسَوِّيَ بَنَانَهٗ بَلْ يُرِيْدُ الْاِنْسَانُ لِيَفْجُرَ اَمَامَهٗ ) [ القیامۃ : ١ تا ٥ ] ” نہیں، میں قیامت کے دن کی قسم کھاتا ہوں اور نہیں، میں بہت ملامت کرنے والے نفس کی قسم کھاتا ہوں کیا انسان گمان کرتا ہے کہ ہم کبھی اس کی ہڈیاں اکٹھی نہیں کریں گے۔ کیوں نہیں ؟ (ہم انھیں اکٹھا کریں گے) اس حال میں کہ ہم قادر ہیں کہ اس (کی انگلیوں) کے پورے درست کر (کے بنا) دیں۔ بلکہ انسان چاہتا ہے کہ اپنے آگے (آنے والے دنوں میں بھی) نافرمانی کرتا رہے۔ “

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر - اور یہ (کافر) لوگ کہتے ہیں کہ ہم جب زمین میں (مل جل کر) نیست و نابود ہوگئے، تو کیا ہم پھر (قیامت میں) نئے جنم میں آویں گے (اور یہ لوگ اس بعث و نشر پر صرف متعجب ہی نہیں ہیں جیسا کہ ظاہرا ان کے عنوان سے معلوم ہوتا ہے) بلکہ (درحقیقت) وہ لوگ اپنے رب سے ملنے کے منکر ہی ہیں (اور یہ استفہام ان کا انکاری ہے) آپ (جواب میں) فرما دیں کہ تمہاری جان موت کا فرشتہ قبض کرتا ہے جو تم پر (اللہ کی طرف سے) متعین ہے، پھر تم اپنے رب کی طرف لوٹا کر لائے جاؤ گے (جواب میں اصل مقصود تو یہی ترجعون ہے، اور یتوفکم بیچ میں بڑھا دینا تخویف کے لئے ہے کہ موت بھی فرشتہ کے ذریعہ سے آئے گی جو جان نکلنے کے وقت تم کو مارے دھاڑے گا بھی جیسا دوسری آیت میں ہے۔ (آیت) ولو تریٰ اذ یتوفی الذین کفرو الملاکة یضربون وجوہہم وادبارہم الخ پس مر جانے کا انجام صرف خاک ہی میں مل جانا نہ ہوگا، جیسا تمہارا قول اذا اضللنا الخ سے معلوم ہوتا ہے) اور (اس رجوع کے وقت جس پر ترجعون دال ہے) اگر آپ (ان لوگوں کا حال) دیکھیں تو عجب حال دیکھیں جب کہ یہ مجرم لوگ (غایت شرمندگی سے) اپنے رب کے سامنے سر جھکائے (کھڑے) ہوں گے (اور کہتے ہوں گے) کہ اے ہمارے پروردگار بس (اب) ہماری آنکھیں اور کان کھل گئے (اور معلوم ہوگیا کہ پیغمبروں نے جو کچھ کہا سب حق تھا) سو ہم کو (دنیا میں) پھر بھیج دیجئے ہم (اب کے جا کے خوب) نیک کام کیا کریں گے (اب) ہم کو پورا یقین آ گیا اور (یہ کہنا ان کا بےکار محض ہوگا اس لئے کہ) اگر ہم کو (یہ) منظور ہوتا (کہ ضرور ہی یہ راہ پر آئیں) تو ہم ہر شخص کو اس (کی نجات) کا راستہ (مقصود تک پہنچا دینے کے درجہ میں ضرور) عطا فرماتے (جیسا کہ ہدایت بمعنی مطلوب کا راستہ دکھانا ان کو عطاء فرماتی ہے) لیکن میری (تو) یہ (ازلی تقدیری) بات (بہت سی حکمتوں سے) محقق ہوچکی ہے کہ میں جہنم کو جنات و انسان دونوں (میں جو کافر ہوں گے ان) سے ضرور بھروں گا (اور بیان بعض حکمتوں کا سورة ہود کے اخیر میں ایسی ہی آیت کی تفسیر میں گزرا ہے) تو (ان سے کہا جائے گا کہ) اب اس کا مزہ چکھو کہ تم اپنے اس دن کے آنے کو بھولے رہے، ہم نے تم کو بھلا دیا (یعنی رحمت سے محروم کردیا جس کو بھلانا مجازاً کہہ دیا) اور (ہم جو کہتے ہیں کہ مزہ چکھو، تو ایک دو روز کا نہیں بلکہ اس کی حقیقت یہ ہے کہ) اپنے اعمال (بد) کی بدولت ابدی عذاب کا مزہ چکھو (یہ تو کفار کا حال اور ان کا مآل ہوا۔ آگے مومنین کا حال اور مآل مذکور ہے، یعنی) بس ہماری آیتوں پر تو وہ لوگ ایمان لاتے ہیں کہ جب ان کو وہ آیتیں یاد دلائی جاتی ہیں تو وہ سجدہ میں گر پڑتے ہیں (جس کی تحقیق سورة مریم کے رکوع چہارم میں ہوئی ہے) اور اپنے رب کی تسبیح وتحمید کرنے لگتے ہیں اور وہ لوگ (ایمان سے) تکبر نہیں کرتے (جیسا کافر کا حال آیا ہے ولی متکبراً ، یہ تو ان کی تصدیق و اقرار و اخلاق کا حال تھا اور اعمال کا حال یہ ہے کہ شب کو) ان کے پہلو خوابگاہوں سے علیحدہ ہوتے ہیں (خواہ فرض عشاء کے لئے یا تہجد کے لئے بھی اور اس سے سب روایتیں جمع ہوگئیں، اور خالی علیحدہ ہی نہیں ہوتے بلکہ) اس طور پر (علیحدہ ہوتے ہیں) کہ وہ لوگ اپنے رب کو (ثواب کی) امید سے اور (عذاب کے) خوف سے پکارتے ہیں (اس میں نماز اور دعا و ذکر سب آ گیا) اور ہماری دی ہوئی چیزوں میں سے خرچ کرتے ہیں (مطلب یہ کہ ایمان لانے والوں کی یہ صفات ہیں جن میں بعض تو نفس ایمان کا موقوف علیہ ہیں اور بعض کمال ایمان کا) سو کسی شخص کو خبر نہیں جو جو آنکھوں کی ٹھنڈک کا سامان ایسے لوگوں کے لئے خزانہ غیب میں موجود ہے، یہ ان کو ان کے اعمال (نیک) کا صلہ ملا ہے (اور جب فریقین کا حال اور مآل معلوم ہوگیا) تو (اب بتلاؤ) جو شخص مومن ہو کیا وہ اس شخص جیسا ہوجائے گا جو بےحکم (یعنی کافر) ہو (نہیں) وہ آپس میں (نہ حالاً نہ مالٓا) برابر نہیں ہو سکتے (چنانچہ معلوم بھی ہوا ہے، اور خاص مآل میں برابر نہ ہونے کی تفصیل تاکید کے لئے پھر بھی سن لو کہ) جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے اچھے کام کئے، سو ان کے لئے ہمیشہ کا ٹھکانہ جنتیں ہیں، جو ان کے اعمال (نیک) کے بدلہ میں بطور ان کی مہمانی کے ہیں (یعنی مثل مہمان کے ان کو یہ چیزیں اکرام کے ساتھ ملیں گی نہ کہ سائل محتاج کی طرح بےقدری اور بےوقعتی کے ساتھ) اور جو لوگ بےحکم تھے سو ان کا ٹھکانہ دوزخ ہے وہ لوگ جب اس سے باہر نکلنا چاہیں گے (اور کنارہ کی طرف کو بڑھیں گے گو بوجہ گہرائی کے اور دروازوں کے قفل ہونے کے نکل نہ سکیں گے، مگر ایسے وقت میں یہ حرکت طبعی ہوتی ہے) تو پھر اسی میں دھکیل دیئے جائیں گے، اور ان کو کہا جائے گا کہ دوزخ کا وہ عذاب چکھو جس کو تم جھٹلایا کرتے تھے، (اور یہ عذاب موعود تو آخرت میں ہوگا) اور ہم ان کو قریب کار (یعنی دنیا میں آنے والا) عذاب بھی اس بڑے عذاب (موعود فی الآخرة) سے پہلے چکھا دیں گے (جیسے امراض و اسقام و مصائب کذا فی الدر مرفوعاً وموقوفاً ، کیونکہ امراض و آفات حسب تصریح قرآن اکثر اعمال بد کے سبب آتے ہیں) تاکہ یہ لوگ (متاثر ہو کر کفر سے) باز آئیں (کقولہ تعالیٰ ظہر الفساد (الیٰ ) یرجعون، پھر جو باز نہ آئے اس کے لئے عذاب اکبر ہے ہی) اور (ایسے لوگوں پر عذاب ہونے سے کچھ تعجب نہ ہونا چاہئے کیونکہ) اس شخص سے زیادہ ظالم کون ہوگا جس کو اس کے رب کی آیتیں یاد دلائی جائیں پھر وہ ان سے اعراض کرے (تو اس کے استحقاق عذاب میں کیا شبہ ہے، اس لئے) ہم ایسے مجرموں سے بدلہ لیں گے۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَقَالُوْٓا ءَ اِذَا ضَلَلْنَا فِي الْاَرْضِ ءَاِنَّا لَفِيْ خَلْقٍ جَدِيْدٍ۝ ٠ۥۭ بَلْ ہُمْ بِلِقَاءِ رَبِّہِمْ كٰفِرُوْنَ۝ ١٠- إذا - إذا يعبّر به عن کلّ زمان مستقبل، وقد يضمّن معنی الشرط فيجزم به، وذلک في الشعر أكثر، و «إذ» يعبر به عن الزمان الماضي، ولا يجازی به إلا إذا ضمّ إليه «ما» نحو : 11-إذ ما أتيت علی الرّسول فقل له - ( اذ ا ) اذ ا - ۔ ( ظرف زماں ) زمانہ مستقبل پر دلالت کرتا ہے کبھی جب اس میں شرطیت کا مفہوم پایا جاتا ہے تو فعل مضارع کو جزم دیتا ہے اور یہ عام طور پر نظم میں آتا ہے اور اذ ( ظرف ) ماضی کیلئے آتا ہے اور جب ما کے ساتھ مرکب ہو ( اذما) تو معنی شرط کو متضمن ہوتا ہے جیسا کہ شاعر نے کہا ع (11) اذمااتیت علی الرسول فقل لہ جب تو رسول اللہ کے پاس جائے تو ان سے کہنا ۔- ضل - الضَّلَالُ : العدولُ عن الطّريق المستقیم، ويضادّه الهداية، قال تعالی: فَمَنِ اهْتَدى فَإِنَّما يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ وَمَنْ ضَلَّ فَإِنَّما يَضِلُّ عَلَيْها[ الإسراء 15] - ( ض ل ل ) الضلال - ۔ کے معنی سیدھی راہ سے ہٹ جانا کے ہیں ۔ اور یہ ہدایۃ کے بالمقابل استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : فَمَنِ اهْتَدى فَإِنَّما يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ وَمَنْ ضَلَّ فَإِنَّما يَضِلُّ عَلَيْها[ الإسراء 15] جو شخص ہدایت اختیار کرتا ہے تو اپنے سے اختیار کرتا ہے اور جو گمراہ ہوتا ہے تو گمراہی کا ضرر بھی اسی کو ہوگا ۔- خلق - الخَلْقُ أصله : التقدیر المستقیم، ويستعمل في إبداع الشّيء من غير أصل ولا احتذاء، قال : خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام 1] ، أي : أبدعهما، - ( خ ل ق ) الخلق - ۔ اصل میں خلق کے معنی ( کسی چیز کو بنانے کے لئے پوری طرح اندازہ لگانا کسے ہیں ۔ اور کبھی خلق بمعنی ابداع بھی آجاتا ہے یعنی کسی چیز کو بغیر مادہ کے اور بغیر کسی کی تقلید کے پیدا کرنا چناچہ آیت کریمہ : ۔ خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام 1] اسی نے آسمانوں اور زمین کو مبنی بر حکمت پیدا کیا میں خلق بمعنی ابداع ہی ہے - جد - الجَدُّ : قطع الأرض المستوية، ومنه : جَدَّ في سيره يَجِدُّ جَدّاً ، وکذلک جَدَّ في أمره وأَجَدَّ : صار ذا جِدٍّ ، وتصور من : جَدَدْتُ الأرض : القطع المجرد، فقیل : جددت الثوب إذا قطعته علی وجه الإصلاح، وثوب جدید : أصله المقطوع، ثم جعل لکل ما أحدث إنشاؤه، قال تعالی: بَلْ هُمْ فِي لَبْسٍ مِنْ خَلْقٍ جَدِيدٍ [ ق 15] ، إشارة إلى النشأة الثانية، وذلک قولهم :- أَإِذا مِتْنا وَكُنَّا تُراباً ذلِكَ رَجْعٌ بَعِيدٌ [ ق 3] ، وقوبل الجدید بالخلق لما کان المقصود بالجدید القریب العهد بالقطع من الثوب، ومنه قيل للیل والنهار : الجَدِيدَان والأَجَدَّان «1» ، قال تعالی: وَمِنَ الْجِبالِ جُدَدٌ بِيضٌ [ فاطر 27] ، جمع جُدَّة، أي : طریقة ظاهرة، من قولهم : طریق مَجْدُود، أي : مسلوک مقطوع ومنه : جَادَّة الطریق، والجَدُود والجِدَّاء من الضأن : التي انقطع لبنها . وجُدَّ ثدي أمه علی طریق الشتم وسمي الفیض الإلهي جَدّاً ، قال تعالی: وَأَنَّهُ تَعالی جَدُّ رَبِّنا [ الجن 3] ، أي : فيضه، وقیل : عظمته، وهو يرجع إلى الأوّل، وإضافته إليه علی سبیل اختصاصه بملکه، وسمي ما جعل اللہ للإنسان من الحظوظ الدنیوية جَدّاً ، وهو البخت، فقیل : جُدِدْتُ وحُظِظْتُ وقوله عليه السلام : «لا ينفع ذا الجَدِّ منک الجَدُّ» أي : لا يتوصل إلى ثواب اللہ تعالیٰ في الآخرة بالجدّ ، وإنّما ذلک بالجدّ في الطاعة، وهذا هو الذي أنبأ عنه قوله تعالی: مَنْ كانَ يُرِيدُ الْعاجِلَةَ عَجَّلْنا لَهُ فِيها ما نشاء لِمَنْ نُرِيدُ [ الإسراء 18] ، وَمَنْ أَرادَ الْآخِرَةَ وَسَعى لَها سَعْيَها وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَأُولئِكَ كانَ سَعْيُهُمْ مَشْكُوراً [ الإسراء 19] ، وإلى ذلك أشار بقوله : يَوْمَ لا يَنْفَعُ مالٌ وَلا بَنُونَ [ الشعراء 88] .- والجَدُّ : أبو الأب وأبو الأم . وقیل : معنی «لا ينفع ذا الجدّ» : لا ينفع أحدا نسبه وأبوّته، فکما نفی نفع البنین في قوله : يَوْمَ لا يَنْفَعُ مالٌ وَلا بَنُونَ [ الشعراء 88] ، کذلک نفی نفع الأبوّة في هذا الحدیث .- ( ج د د ) الجد - ( مصدر رض ) کے اصل معنی ہمورار زمین پر چلنے کے ہیں ۔ اسی سے جد فی سیرہ ہے جس کے معنی تیز ردی کے ہیں اور جب کوئی شخص اپنے معاملات میں محنت اور جا نفشاتی سے کام کرے تو کہا جاتا ہے جد فی امرہ اور اجد ( افعال ) کے معنی صاحب جد ہونے کے ہیں اور جددت الارض سے کسی چیز کو کا ٹتے کا معنی لیا جاتا ہے ۔ چناچہ کہا جاتا ہے جددتۃ ( میں نے درست کرنے کے لئے اسے کا تا ) اور ثواب جدید کے اصل؛ معنی قطع کئے ہوئے کپڑا کے ہیں اور چونکہ جس کپڑے کو کاٹا جاتا ہے وہ عموما نیا ہوتا ہے اس لئے ہر نئی چیز کو جدید جہا جانے لگا ہے اس بنا پر ایت : ۔ بَلْ هُمْ فِي لَبْسٍ مِنْ خَلْقٍ جَدِيدٍ [ ق 15] میں خلق جدید سے نشاۃ ثانیہ یعنی مرنے کے بعد دوبارہ نئے سرے سے پیدا ہونا مراد ہے کیونکہ کفار اس کا انکار کرتے ہوئے کہتے تھے ۔ أَإِذا مِتْنا وَكُنَّا تُراباً ذلِكَ رَجْعٌ بَعِيدٌ [ ق 3] بھلا جب ہم مرگئے اور متی ہوگئے تو پھر زندہ ہوں گے ؟ یہ زندہ ہونا عقلیہ ہے ) بعید ہی اور جدید دنیا ) خلق یعنی پرانا کے مقابلہ میں استعمال ہوتا ہے اس اعتبار سے رات دن کو عبدید ان اور اجدان کہا جاتا ہے ۔ اور آیت : ۔ وَمِنَ الْجِبالِ جُدَدٌ بِيضٌ [ فاطر 27] اور پہاڑوں میں سفید رنگ کے قطعات ہیں میں جدد کا واھد جدۃ ہے کس کے معنی کھلے راستہ کے ہیں اور یہ طریق مجژود کے محاورہ سے ماخوذ ہے یعنی وہ راستہ جس پر چلا جائے اسی سے جا دۃ الطریق ہے جس کے معنی شاہراہ یا ہموار اور راستہ کے درمیانی حصہ کے ہیں جس پر عام طور پر آمد ورفت ہوتی رہتی ہے ) الجدود والجداء خشک تھنوں والی بھیڑ بکری اور سب وشتم کے طور پر کہا جاتا ہے ۔ جد ثدی امہ اس کی ماں کے پستان خشک ہوجائیں اور جد کا لفظ فیظ الہی پر معنی بولا جاتا ہے چناچہ آیت کریمہ : ۔ وَأَنَّهُ تَعالی جَدُّ رَبِّنا [ الجن 3] اور یہ کہ ہماری پروردگار کا فیضان بہت بڑا ہے ۔ میں جد بمعنی فیض الہی ہی کے ہے ۔ بعض کے نزدیک اس کے معنی عظمت کے ہیں لیکن اس کا مرجع بھی معنی والی کی طرف ہی ہے اور اللہ تعالے کی طرف اس کی اضافت اختصاص ملک کے طریق سے ہے اور حظوظ دینوی جو اللہ تعالے انسان کو بخشتا ہے پر بھی جد کا لفظ بولا جاتا ہے جس کے معنی بخت ونصیب کے ہیں جیسے کہا جاتا ہے جددت وحظظت خوش قسمت اور صاحب نصیب ہوگیا اور حدیث کے معنی یہ ہیں کہ دنیاوی مال وجاہ سے آخرت میں ثواب حاصل نہیں ہوسکے گا بلکہ آخروی ثواب کے حصول کا ذریعہ صرف طاعت الہی ہے ۔ جیسا کہ آیت : ۔ مَنْ كانَ يُرِيدُ الْعاجِلَةَ عَجَّلْنا لَهُ فِيها ما نشاء لِمَنْ نُرِيدُ [ الإسراء 18] کے بعد فرمایا : ۔ وَمَنْ أَرادَ الْآخِرَةَ وَسَعى لَها سَعْيَها وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَأُولئِكَ كانَ سَعْيُهُمْ مَشْكُوراً [ الإسراء 19] اور جو شخص آخرت کا خواستکا ر ہو اور اور اس میں اتنی کوشش کرے ۔ جتنی اسے لائق ہے اور وہ مؤمن بھی ہو تو ایسے ہی لوگوں کی کوشش ٹھکانے لگتی ہے ۔ نیز اس معنی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : ۔ يَوْمَ لا يَنْفَعُ مالٌ وَلا بَنُونَ [ الشعراء 88] . جس دن نہ مال ہی کچھ فائدہ دے گا اور نہ بیٹے ۔ الجد ( ایضا ) دادا ۔ نانا ۔ بعض نے کہا ہے کہ لا ینفع ذالجد کے معنی یہ ہی کے اسے آبائی نسب فائدہ نہیں دے گا اور جس طرح کہ آیت : يَوْمَ لا يَنْفَعُ مالٌ وَلا بَنُونَ [ الشعراء 88] ہیں اولاد کے فائدہ بخش ہونے کی نفی کی ہے اسی طرح حدیث میں اباؤ اجداد کے نفع بخش ہونے کی نفی کی گئی ہے ۔- لقی - اللِّقَاءُ : مقابلة الشیء ومصادفته معا، وقد يعبّر به عن کلّ واحد منهما، يقال : لَقِيَهُ يَلْقَاهُ لِقَاءً ولُقِيّاً ولُقْيَةً ، ويقال ذلک في الإدراک بالحسّ ، وبالبصر، وبالبصیرة . قال : لَقَدْ كُنْتُمْ تَمَنَّوْنَ الْمَوْتَ مِنْ قَبْلِ أَنْ تَلْقَوْهُ [ آل عمران 143] ، وقال : لَقَدْ لَقِينا مِنْ سَفَرِنا هذا نَصَباً [ الكهف 62] . ومُلَاقَاةُ اللہ عز وجل عبارة عن القیامة، وعن المصیر إليه . قال تعالی:- وَاعْلَمُوا أَنَّكُمْ مُلاقُوهُ [ البقرة 223] - ( ل ق ی ) لقیہ ( س)- یلقاہ لقاء کے معنی کسی کے سامنے آنے اور اسے پالینے کے ہیں اور ان دونوں معنی میں سے ہر ایک الگ الگ بھی بولاجاتا ہے اور کسی چیز کا حس اور بصیرت سے ادراک کرلینے کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : لَقَدْ كُنْتُمْ تَمَنَّوْنَ الْمَوْتَ مِنْ قَبْلِ أَنْ تَلْقَوْهُ [ آل عمران 143] اور تم موت ( شہادت ) آنے سے پہلے اس کی تمنا کیا کرتے تھے اور ملاقات الہی سے مراد قیامت کا بپا ہونا اور اللہ تعالیٰ کے پاس چلے جانا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے وَاعْلَمُوا أَنَّكُمْ مُلاقُوهُ [ البقرة 223] اور جان رکھو کہ ایک دن تمہیں اس کے دوبرو حاضر ہونا ہے ۔- كفر - الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، - وأعظم الكُفْرِ- : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] - ( ک ف ر ) الکفر - اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔- اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

اور ابو جہل وغیرہ کہتے ہیں کہ جب ہم زمین میں نیست و نابود ہوگئے تو کیا پھر مرنے کے بعد دوبارہ پیدا ہوں گے ایسا نہیں ہوسکتا۔ یہ لوگ تو سرے سے مرنے کے بعد زندہ کیے جانے کا ہی انکار کرتے ہیں۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ١٠ (وَقَالُوْٓا ءَ اِذَا ضَلَلْنَا فِی الْاَرْضِ ءَ اِنَّا لَفِیْ خَلْقٍ جَدِیْدٍ ط) - اس اعتراض کے حوالے سے پرانے زمانے کے کفار کا انداز گفتگو تو سیدھا سادہ تھا کہ جب ہم مٹی میں مل کر مٹی ہوجائیں گے تو ہمیں کیسے دوبارہ جلا اٹھایا جائے گا ؟ لیکن آج کا روشن خیال نوجوان اس مسئلے کو مزید پیچیدہ بنا کر یوں پیش کرتا ہے کہ جب ہمارے جسموں کے ایٹمز ( ) بھی منتشر ہوجائیں گے ‘ جب ہم مٹی میں مل کر کھاد بن جائیں گے ‘ کھاد سے ہمارے ذرّات پودوں میں منتقل ہوجائیں گے ‘ ان پودوں کو جانور کھائیں گے اور پھر ان جانوروں سے نہ معلوم کس کس شکل میں ہمارے جسموں کے تحلیل شدہ کہاں کہاں پہنچیں گے تو ایسی صورت میں انسانی اجسام کے گم گشتہ اجزاء کیونکر اکٹھے کیے جاسکیں گے ؟ ایسی دور کی کوڑی لانے سے پہلے ایسے احمقوں کو یہ سوچنا چاہیے کہ جس اللہ نے پہلی مرتبہ زمینی اجزاء سے ان لوگوں کو ان کے وجودوں کے ساتھ پیدا کیا ہے ‘ کیا وہ انہیں دوبارہ پیدا نہیں کرسکے گا ؟- (بَلْ ہُمْ بِلِقَآیئ رَبِّہِمْ کٰفِرُوْنَ ) ۔- دراصل یہ لوگ اپنے کرتوتوں کے سبب اللہ تعالیٰ کے حضور حاضر ہونے کے تصور سے گریزاں ہیں۔ اس بنا پر وہ قیامت کے دن کی اس ملاقات ہی کو جھٹلانا چاہتے ہیں ‘ لیکن اس کے لیے بہانہ یہ بنا رہے ہیں کہ زمین میں گل سڑ جانے کے بعد انسانوں کا دوبارہ زندہ ہوجانا عقلی طور پر ممکن نظر نہیں آتا۔ اس کے برعکس اگر کوئی شخص صاحب ایمان ہے اور وہ اپنے دل میں اللہ کے لیے خلوص اور محبت کے جذبات رکھتا ہے تو اسے لازماً یہ امید ہوگی کہ اللہ اس کے ساتھ رحمت اور شفقت کا معاملہ فرمائے گا۔ ایسے شخص کو دل را بدل راہیست (دل کو دل سے راہ ہوتی ہے) کے مصداق اللہ تعالیٰ سے ملنے کا اشتیاق بھی ہوگا۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة السَّجْدَة حاشیہ نمبر :19 رسالت اور توحید پر کفار کے اعتراضات کا جواب دینے کے بعد اب اسلام کے تیسرے بنیادی عقیدے یعنی آخرت پر ان کے اعتراض کو لے کر اس کا جواب دیا جاتا ہے ۔ آیت میں وَقَالُوْا کا واؤ عطف مضمون ماسبق سے اس پیراگراف کا تعلق جوڑتا ہے ۔ گویا ترتیب کلام یوں ہے کہ وہ کہتے ہیں محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) اللہ کے رسول نہیں ہیں ، اور وہ کہتے ہیں کہ ہم مر کر دوبارہ نہ اٹھیں گے ۔ سورة السَّجْدَة حاشیہ نمبر :20 اوپر کے فقرے اور اس فقرے کے درمیان پوری ایک داستان کی داستان ہے جسے سامع کے ذہن پر چھوڑ دیا گیا ہے ۔ کفار کا جو اعتراض پہلے فقرے میں نقل گیا ہے وہ اتنا مہمل ہے کہ اس کی تردید کی حاجت محسوس نہیں کی گئی ۔ اس کا محض نقل کر دینا ہی اس کی لغویت ظاہر کرنے کے لیے کافی سمجھا گیا ۔ اس لیے کہ ان کا اعتراض جن دو اجزاء پر مشتمل ہے وہ دونوں ہی سراسر غیر معقول ہیں ۔ ان کا یہ کہنا کہ ہم مٹی میں رَل مِل چکے ہوں گے آخر کیا معنی رکھتا ہے ۔ ہم جس چیز کا نام ہے وہ مٹی میں کب رَلتی مِلتی ہے ؟ ( مٹی میں تو صرف وہ جسم ملتا ہے جس سے ہم نکل چکا ہوتا ہے ۔ اس جسم کا نام ہم نہیں ہے ۔ زندگی کی حالت میں جب اس جسم کے اعضاء کاٹے جاتے ہیں تو عضو پر عضو کٹتا چلا جاتا ہے مگر ہم ہم پورا کا پورا اپنی جگہ موجود رہتا ہے ۔ اس کا کوئی جز بھی کسی کٹے ہوئے عضو کے ساتھ نہیں جاتا ۔ اور جب یہ ہم کسی جسم میں سے نکل جاتا ہے تو پورا جسم موجود ہوتے ہوئے بھی اس پر اس ہم کے کسی ادنی شائبے تک کا اطلاق نہیں ہوتا ۔ اسی لیے تو ایک عاشق جاں نثار اپنے معشوق کے مردہ جسم کو لے جا کر دفن کر دیتا ہے ، کیونکہ معشوق اس جسم سے نکل چکا ہوتا ہے ۔ اور وہ معشوق نہیں بلکہ اس خالی جسم کو دفن کرتا ہے جس میں کبھی اس کا معشوق رہتا تھا ۔ پس معترضین کے اعتراض کا پہلا مقدمہ ہی بے بنیاد ہے ۔ رہا اس کا دوسرا جز: کیا ہم پھر نئے سرے سے پیدا کیے جائیں گے ؟ تو یہ انکار و تعجب کے انداز کا سوال سرے سے پیدا ہی نہ ہوتا اگر معترضین نے بات کرنے سے پہلی اس ہم اور اس کے پیدا کیے جانے کے مفہوم پر ایک لمحہ کے لیے کچھ غور کر لیا ہوتا ۔ اس ہم کی موجودہ پیدائش اس کے سوا کیا ہے کہ کہیں کوئلہ اور کہیں سے لوہا اور کہیں سے چونا اور اسی طرح کے دوسرے اجزاء جمع ہوئے اور اس کا لبد خاکی میں یہ ہم براجمان ہو گیا ۔ پھر اس کی موت کے بعد کیا ہوتا ہے ؟ اس لبدِ خاکی میں سے جب ہم نِکل جاتا ہے تو اس کا مکان تعمیر کرنے کے لیے جو اجزاء زمین کے مختلف حصوں سے فراہم کیے گئے تھے وہ سب اسی زمین میں واپس چلے جاتے ہیں ۔ سوال یہ ہے کہ جس نے پہلے اس ہم کو یہ مکان بنا کر دیا تھا ، کیا وہ دوبارہ اسی سر و سامان سے وہی مکان بنا کر اسے از سرنو اس میں نہیں بسا سکتا ؟ یہ چیز جب پہلے ممکن تھی اور واقعہ کی صورت میں رونما ہو چکی ہے ، تو دوبارہ اس کے ممکن ہونے اور واقعہ بننے میں آخر کیا امر مانع ہے ؟ یہ باتیں ایسی ہیں جنہیں ذرا سی عقل آدمی استعمال کرے تو خود ہی سمجھ سکتا ہے ۔ لیکن وہ اپنی عقل کو اس رخ پر کیوں نہیں جانے دیتا ؟ کیا وجہ ہے کہ وہ بے سوچے سمجھے حیات بعد الموت اور آخرت پر اس طرح کے لا یعنی اعتراضات جڑتا ہے ؟ بیچ کی ساری بحث چھوڑ کر اللہ تعالیٰ دوسرے فقرے میں اسی سوال کا جواب دیتا ہے کہ دراصل یہ اپنے رب کی ملاقات کے منکر ہیں ۔ یعنی اصل بات یہ نہیں ہے کہ دوبارہ پیدائش کوئی بڑی ہی انوکھی اور بعید از امکان بات ہے جو ان کی سمجھ میں نہ آسکتی ہو ، بلکہ دراصل جو چیز انہیں یہ بات سمجھنے سے روکتی ہے وہ ان کی یہ خواہش ہے کہ ہم زمین میں چھوٹے پھریں اور دل کھول کر گناہ کریں اور پھر نِلُوہ ( - ) یہاں سے نکل جائیں ۔ پھر ہم سے کوئی پوچھ گچھ نہ ہو ۔ پھر اپنے کرتوتوں کا کوئی حساب ہمیں نہ دینا پڑے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani